فلسفہ امامت ،امام علیہ السلام کی نظر میں
منجملہ ان تمام چیزوں کے جو امام علیہ السلام کے بیا نا ت کے اس حصہ میں مجھے نہایت ہی اہم اور قابل توجہ نظر آئیں حضرت (ع)کے وہ ارشادات بھی ہیں جن میں اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ افراد کے گزشتہ تجربات کا آپ نے ذکر فرمایا --- بیان کے اس حصہ میں جناب امام سجاد (ع)لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :کیا تم لوگوں کو یاد ہے (یا تم کو اس بات کی خبر ہے )کہ گزشتہ ادوار میں ظالم و جابر حکمرانوں نے تم پر کیا کیا زیادتیاں کی ہیں --- یہاں ان مصیبتوں اور زیادتیوں کی طرف اشارہ مقصود ہے جو محبان اہل بیت (ع)کو معاویہ ،یزید اور مروان وغیرہ کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہیں چنانچہ امام علیہ السلام کا اشارہ واقعہ کربلا ،واقعہ حرہ ،حجر بن عدی اور رشید ہجری وغیرہ کی شہادت نیز ایسے بہت سے مشہور و معروف ،اہم ترین حادثوں کی طرف ہے جس کا اہل بیت (ع) کے مطیع و ہمنوا افراد گزشتہ زمانوں میں ایک طویل مدت سے تجربہ کرتے چلے آرہے تھے اور وہ واقعات ان کے ذہنوں میں ابھی موجود تھے ۔ امام علیہ السلام چاہتے ہیں کہ گزشتہ تجربات اور تلخ ترین یادوں کو تازہ کرکے لوگوں کے مجاہدانہ عزم و ارادہ میں مزید پختگی پیدا کریں ۔مندرجہ ذیل عبارت پر ذرا توجہ فرمایئے:
”فقد لعمری استدبرتم من الا مور الماضیة فی الایام الخالیة من فتن المتراکمة والانهماک فیها ماتستد لون به علی تجنب الغوة و “
میری جان کی قسم ،وہ گزشتہ واقعات جو تمھاری آنکھوں کے سامنے گزر چکے ہیں ---فتنوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جس میں ایک دنیا غرق نظر آتی تھی تم لوگوں کو ان حوادث و تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے --- اور ان کو اپنے لئے درس و استدلال بناتے ہوئے زمین پر فساد پرپا کرنے والے گمراہ اور بدعتی افراد سے دوری و اجتناب کر لینا چاہئے۔
یعنی تمھیں اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہے کہ اہل بغی و فساد ۔یعنی یہی حکام جور ،جب تسلط حاصل کر لیں گے تو تمھارے ساتھ کس طرح پیش آئیں گے ۔گزشتہ تجربات کی روشنی میں تم جانتے ہو کہ تمھیں ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے ،اور ان کے مقابلہ میں صف آرائی کرنی چاہئے ۔
امام علیہ السلام نے اپنے بیان میں مسئلہ امامت کو بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ،مسئلہ امامت یعنی یہی خلافت و ولایت ،مسلمانوں پر حکومت کرنے اور نظام اسلامی کے نافذ کرنے کا مسئلہ ہے ،یہاں امام سجاد علیہ السلام مسئلہ امامت کتنے واضح انداز سے بیان کرتے ہیں جب کہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ اس قسم کے مسائل اس صراحت کے ساتھ عوام میں پیش نہیں کئے جا سکتے تھے امام (ع) فرماتے ہیں :
”فقد موا امراللّٰه وطاعته وطاعته من اوجب اللّٰه طاعته “
فرمان الٰہی اور اطاعت رب کو مقدم سمجھو اور اس کی اطاعت و پیروی اختیار کرو جس کی اطاعت و پیروی خدانے واجب قرار دی ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس منزل میں امامت کی بنیاد اور فلسفہ کو شیعی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے خدا کے بعد وہ کون سے لوگ ہیں جن کی اطاعت کی جانی چاہئے ؟ وہ جن کی اطاعت خدا نے واجب قرار دی ہے اگر لوگ اس وقت اس مسئلہ پر غور فکر سے کام لیتے تو بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکال سکتے تھے کہ عبدالملک کی اطاعت واجب نہیں ہے کیوں کہ خدا کی طرف سے عبد الملک کی اطاعت واجب کئے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،عبد الملک کا اپنے تمام ظلم و جور اور بغی وفساد کی وجہ سے لائق اطاعت نہ ہونا ظاہر ہے ۔ یہاں پہلے تو امام علیہ السلام مسئلہ امامت بیان فرماتے ہیں اس کے بعد صرف ایک شبہ جو مخاطب کے ذہن میں باقی رہ جاتا ہے اس کا بھی ازالہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں :
”ولا تقدموا الا مور الواردة علیکم من طاعة الطواغیت و فتنة زهرة الدنیا بین یدی امراللّٰه و طاعته و طاعة اولی الامر منکم “
اور جو کچھ تم پر طاغوتوں ------عبد الملک وغیرہ ------ کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے اس کو خدا کی اطاعت کے زمرہ میں رکھتے ہوئے خدا کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت پر مقدم قرار نہ دو ۔
اصل میں امام علیہ السلام نے اپنے بیان کے اس ٹکڑے میں بھی مسئلہ امامت بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ۔
حضرت (ع) نے گزشتہ بیان میں بھی اور اس بیان میں بھی دو بنیادی اور اساسی مسائل پر توجہ دلائی ہے چنانچہ دونوں بیانات میں مذکورہ تین مراحل تبلیغ میں سے دو مرحلے یعنی لوگوں کے اسلامی افکار و عقائد کی یاد دہانی تاکہ لوگ عقائد اسلامی کا پاس و لحاظ کریں اور ان دینداری کا شوق پیدا ہو سکے اور اس کے بعد دوسرا مسئلہ ” ولایت امر“ یعنی نظام اسلامی میں حکومت و قیادت کا استحقاق واضح کرنا ہے ۔ امام علیہ السلام اس وقت لوگوں میں ان دونوں مسائل کو بیان کرتے ہیں اور درحقیقت اپنے مد نظر نظام علوی یعنی اسلامی و الٰہی نظام کی تبلیغ کرتے ہیں ۔
تنظیم کی ضرورت
امام علیہ السلام کے یہاں ایک تیسری نوعیت کے حامل بیانات بھی ملتے ہیں جوان دونوں سے بھی زیادہ توجہ کے مستحق ہیں ان بیانات میں حضرت (ع) کھلے طور پر لوگوں کو ایک اسلامی تنطیم کی تشکیل کی طرف متوجہ کرتے ہیں البتہ یہ بات ان ہی لوگوں کے درمیان ہوئی ہے جن کو امام (ع) کا اعتماد حاصل رہا ہے ورنہ اگر عام لوگوں کو اس قسم کی کسی جماعت کی تشکیل کی دعوت دی گئی ہوتی تو اس کا پردہ راز میں رہنا مشکل ہو جاتا اور حضرت (ع)کے لئے بڑی زحمت او رپریشانی کا سبب بن جاتا ۔خوش قسمتی سے ” تحف العقول “ میں اس نوعیت کے بیانات کا بھی ایک نمونہ موجود ہے جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔امام (ع) کا بیان یوں شروع ہوتا ہے ۔
”ان علامة الزاهدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرة ترکهم کل خلیط و خلیل و رفضهم کل صاحب لایرید ما یریدون “
دنیا کے وہ زاہدین جو دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتے اور اپنی دلچسپی آخرت پر مرکوز رکھتے ہیں ان کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ ان کے جو دوست اور ساتھی ہم فکر و ہم عقیدہ بلکہ ہم دل اور ہم مشرب نہیں ہوتے ان کو ترک کردیتے ہیں ۔کیا یہ واضح طور ایک شیعی تنظیم کے تشکیل کی دعوت نہیں ہے ؟!
اس بیان سے لوگوں کویہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو ان کے مطالبات و خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے اور جن کے احساس و جذبات بالکل مختلف ہیں جو حکومت حق یعنی علوی نظام نہیں چاہتے وہ ان سے کنارہ کش ہو کر ان کے لئے اجنبی اور بیگانہ بن جائیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے یہاں آمد و رفت اور تعلقات ختم کر لیں یہ تعلقات ویسے ہی ہوں جیسے پہلے تھے یعنی ان سے ملیں لیکن احتیاط کے ساتھ ۔
امام فرماتے ہیں وہ لوگ جو تمھاری فکر و عزائم سے متفق نہ ہوں یا ہدف و مقصد سے ہم آہنگی نہ رکھتے ہوں ان کے ساتھ تمھارے معاملات اور آمد و رفت کسی اجنبی اور بیگانے کے مانند ہونی چاہئے ان سے دوستانہ تعلقات ختم کر دینے چاہئے ۔
میں سمجھتا ہوں اس طرح کے مزید بیانات خود امام سجاد علیہ السلام کے یہاں نیز دیگر ائمہ علیہم السلام کے یہاں بھی مل جائیں گے بلکہ دیگر ائمہ علیہم السلام کے ارشادات میں یہ چیزیں زیادہ مل جائے گی جہاں تک خود میری نظر ہے اس طرح کے بیانات امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام نیزان کے بعد کے کم از کم تین چار ائمہ کے یہاں مجھے ملے ہیں حتی کہ امیر المومنین علیہ السلام کے فرمودات میں بھی منظم و مرتب اسلامی جماعت کی تشکیل کی طرف اشارے موجود ہیں ،البتہ یہاں اس تفصیل طلب موضوع پر زیادہ بحث کی کنجائش نہیںہے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے کچھ بیانات و ارشادات ایسے بھی ہیں جن میں پیش کئے جانے والے مطالب کلی نوعیت کے حامل ہیں ان میں ان مخصوص پہلوؤں کو مورد بحث نہیں قرار دیا گیا ہے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر امام سجاد (ع) کا ایک رسالہ ،حقوق سے متعلق ہے جو در اصل آپ کا ایک نہایت ہی مفصل خط ہے اور ہماری اصطلاح میں اس کو ایک مستقل رسالہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ،جی ہاں !یہ کتاب جو رسالہ حقوق کے نام سے مشہور ہے حضرت (ع)کا ایک خط ہے جو آپ نے اپنے کسی محب کو لکھا ہے اور اس میں ایک دوسرے کے تئیں انسانی حقوق و ذمہ داری کا ذکر فرمایا ہے ،یقینا یہ ایک رسالہ سے کم نہیں ہے ۔امام علیہ السلام نے اس خط میں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے ۔مثلا خدا کے حقوق ،اعضا ؤجوارح کے حقوق ،کان کے حقوق ،آنکھ کے حقوق ،زبان کے حقوق ،ہاتھ کے حقوق وغیرہ اسی طرح اسلامی معاشرہ پر حاکم فرمانروا کے عوام پر کیا حقوق ہیں ،عوام کے حاکم پر کیاحقوق ہیں ،دوستوں کے حقوق ،پڑسیوں کے حقوق ،اہل خاندان کے حقوق ------ اور ان تمام حقوق کااس عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جس کا ایک اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے والے شخص کو پاس لحا ظ رکھنا ضروری ہے گویا امام علیہ السلام نے بڑے ہی نرم انداز میں حکومت سے مقابلہ آرائی یا آئندہ نظام کا حوالہ دئیے بغیر مستقبل میں قائم کئے جانے والے نظام کی بنیادوں کو بیان کردیا ہے کہ اگر ایک روز خود امام سجاد (ع)کے زمانہ حیات میں (جس کا اگر چہ احتمال نہیں پایا جاتا تھا ) یا آپ کے بعد آنے والے زمانہ میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے ذہن ایک دوسرے کے تئیں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے پہلے سے مانوس رہیں ۔دوسرے لفظوں میں لوگوں کو آئندہ متوقع اسلامی حکومت کے اسلام سے آشنا بنادینا چاہتے ہیں ۔یہ بھی امام علیہ السلام کے بیانات کی ایک قسم ہے جو بہت ہی زیادہ قابل توجہ ہے ۔
ایک قسم وہ بھی ہے جس کا آپ صحیفہ سجادیہ میں مشاہدہ فرماتے ہیں ظاہر ہے صحیفہ سجادیہ سے متعلق کسی بحث کے لئے بڑی تفصیل و تشریح کی ضرورت ہے ۔مناسب یہی ہے کہ کوئی اس کتاب پر باقاعدہ کام کرے ۔صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ان تمام موضوعات کو مورد سخن قرار دیا گیا ہے جن کی طرف بیدار و ہوشمند زندگی میں انسان متوجہ ہوتا ہے ۔ان دعاؤں میں زیادہ تر انسان کے قلبی روابط اور معنوی ارتباطات پر تکیہ کیا گیا ہے اس میں بے شمار مناجاتیں اور دعائیں مختلف انداز سے معنوی ارتقا ء کی خواہش و آرزو سے مملو ہیں ۔امام علیہ السلام نے ان دعاؤں کے ضمن میں دعاؤں کی ہی زبان سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی زندگی کا ذوق و شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دعا کے ذریعہ جو فائدہ اٹھائے جا سکتے ہیں ان میں ایک وہ بھی ہے جسے میں بارہا ذکر کر چکا ہوں کہ دعا لوگوں کے قلوب میں ایک صحیح و سالم محرک و رجحان پیدا کردیتی ہے جس وقت آپ کہتے ہیں :
”اللهم اجعل عواقب امورنا خیرا “
”خدایا ہمارا انجام بخیر فرما “
ظاہر ہے آپ کے دل میں اس وقت انجام کار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور آپ عاقبت کی فکر میں لگ جاتے ہیں بعض وقت انسان اپنی عاقبت سے غافل رہ جاتا ہے اپنے حال میں مست زندگی گزارتا رہتا ہے اور اس بات کی فکر نہیں کرتا کہ عاقبت کا تصور انسانی سرنوشت کے تعین میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے ،جب دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے یک بیک ذہن اس طرف متوجہ ہوا اور انجام کار پر نظر رکھنے کا جذبہ بیدار ہوگیا ۔اور پھر آپ اس فکر میں پڑگئے کہ ایسے امور انجام دیں جو آپ (ع) کی عاقبت بہتربنا سکیں ویسے اس کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے یہ ایک دوسری بحث ہے ۔میں تو اس مثال کے ذریعہ صرف اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا کہ دعا کس طرح انسان کے اندر ایک صحیح اور سچا جذبہ بیدار کر دیتی ہے ۔صحیفہ سجادیہ(ع) ایک ایسی کتاب ہے جو شروع سے آخر تک دعاؤں کے جامہ میںایسے ہی اعلیٰ جذبات و افکار سے معمور ہے جن پر انسان اگر غور کرے تو صرف یہی صحیفہ سجادیہ ایک معاشرہ کی اصلاح اور بیداری کے لئے کافی ہے ۔
فی الحال اس بحث کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں البتہ اس کے علاوہ بھی ایسی بہت چھوٹی چھوٹی رواتیں ہیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں جس کا ایک نمونہ ہم گزشتہ بحث کے ذیل میں پیش کر چکے ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اولا حریدع هٰذه اللماظة لاهلها “
” لما ظلۃ “ یعنی کتے کا بچا ہوا کھانا ،ملاحظہ فرمایئے امام علیہ السلام کا یہ بیان کتنا اہم ہے ۔آیا ایک حریت پسند ایسا نہیں ہے جو کتّے کی بچی ہوئی غذا اس کے اہل کے لئے چھوڑدے !کتّے کی بچی ہوئی غذا کا کیا مطلب ہے ؟ یہی دنیوی آرائش ،اونچے اونچے محل ،شان و شوکت اور تڑک بھڑک ۔ وہ چیزیں جن کی طرف تمام کمزور دل افراد عبدالملک کے دور میں کھنچے چلے جارہے تھے ۔اسی چیز کو امام علیہ السلام نے لفظ لماظہ سے تعبیر کیا ہے ۔وہ تمام لوگ جو عبد الملک کی غلامی یا اس کے غلاموں کی غلامی میں مشغول تھے یا جو کچھ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا تھا اس سے راضی تھے ،ان سب کا مقصد یہی کتے کی بچی ہوئی غذا کا حاصل کرنا تھا امام علیہ السلام اسی لئے فرماتے ہیں کہ کتے کی بچی ہوئی غذا کے پیچھے نہ بھاگتے پھرو تاکہ مومنین کرام عبدالملک کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر اس کی طرف جذب نہ ہونے پائیں ۔
اس طرح کے نہایت ہی قابل توجہ انقلابی بیانات امام علیہ السلام کے ارشادات میں بہت ملتے ہیں
امام زین العابدین (ع)کی زندگی ( ایک تحقیقی مطالعہ )
مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ