- خاندان معاشرے کی اہم ترین اکائی شمار کی جاتی ہے جس کی کافی اہمیت واضح ہے اور ہر انسان کو اس پر توجہ کی ضرورت ہے اور اس میں رابطہ و تعلق سے افراد خانوادہ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
حضرت ابراهیم(ع) کی تربیتی روش میں اہم ترین چیز میں خاندان پر توجہ نظر آتی ہے۔ قرآن کریم میں
حضرت ابراهیم(ع) کے حوالے سے اس پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پہلے حصے میں ابراہیم ایک جوان فرد ہے جو اپنے چچا آزر کو گمراہ دیکھتا ہے اور دوستانہ انداز میں نصیحت کرتا ہے، دوسرے حصے میں حضرت ابراهیم(ع) ایک باپ ہے جو اپنی اولاد کو نصیحت کرتے دیکھائی دیتا ہے اور اپنے اولاد کے لیے دعا کرتے نظر آتے ہیں۔
- ابراهیم بعنوان فرزند
اس تصویر میں حضرت ابراهیم(ع) اپننے چچا کو بت پرستی سے روکتے ہیں مگر وہ جواب دیتا ہے: «قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ ءَالِهَتىِ يَإِبْرَاهِيمُ لَئنِ لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنىِ مَلِيًّا؛ کہا: اے ابراهيم! کیا تم میرے معبود سے رو گردان ہو؟! اگر (اس کام) سے ہاتھ نہ روکو گے تو تم کو سنگسار کرونگا! اور طولانی دور کے لیے مجھ سے دور ہوجا»(مریم:46).
تاہم حضرت ابراهیم ناراض ہونے یا ضد بازی کی جگہ خیرخواہانہ انداز میں فرماتے ہیں،: «قالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبىّ إِنَّهُ كاَنَ بىِ حَفِي؛ (ابراهيم) نے کہا: سلام ہو تم پر! میں جلد اپنے رب سے تمھارے لیے بخشش طلب کرونگا؛ کیونکہ وہ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہا ہے!»(مریم:47). ابراہیم انکے مقابل جھگڑے کی بجائے بہترین انداز اختیار کرتا ہے۔
- ابراهیم بعنوان والد
حضرت ابراهیم (ع) باپ کے عنوان سے دو اہم شعبوں پر توجہ دیتے ہیں:
الف. عاقبت اولاد کے لیے طلب دعا
حضرت ابراهیم(ع) قرآن میں نظر آتے ہیں کہ وہ دعاوں میں صرف اپنی زات پر توجہ نہیں کرتے بلکہ دعاوں میں اپنی اولاد اور نسل کے لیے بھی خدا سے خیر طلب کرتا ہے اور ہمیں درس دیتا ہے کہ اپنی اولاد اور نسلوں کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔
«رَبّ اجْعَلْنىِ مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَ مِن ذُرِّيَّتىِ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاء ؛ (ابراهیم نے کہا) پروردگارا! مجھے نماز قایم کرنے والا بنا، اور میری اولاد (بھی)، پروردگارا! میری دعا قبول فرما»(ابراهیم:40).
ب. اولاد کو آخری عمر میں وصیت
قرآن میں حضرت ابراهيم کی تصویر کشی سے دوسروں کو بتایا گیا ہے کہ وہ ابراهیم(ع)، کی طرح اولاد کے مستقبل پر توجہ کریں. اپنی اولاد کی صرف دنیا پر نہیں بلکہ آخرت اور معنوی امور پر کو بھی اہمیت دیں۔
«وَ وَصىَ بهِا إِبْرَاهِمُ بَنِيهِ وَ يَعْقُوبُ يَابَنىِ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنتُم مُّسْلِمُون ؛ اور ابراهيم و يعقوب (نے آخری اوقات میں،) اپنی اولاد کو اس آئین پر نصیحت کی؛ (اور اولادوں سے کہا:) «میرے بچو! خدا ن تمھارے لیے اس پاک قانون کو چنا ہے؛ اور تم صرف اسلام [خدا کے برابر تسلیم] کے بغیر دنیا سے مت جانا!»(بقره:132)