ایکنا نیوز- قرآن کریم کا اٹھاسی واں سورہ «غاشیه» کے نام سے ہے. قرآن کے تیسویں پارے میں موجود اس سورہ میں 26 آیات ہیں۔ سور ہ غاشیه مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے جو ترتیب نزول کے حوالے سے اٹھسٹواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے.
غاشیه کا مطلب یا معنی «چھپانا یا ڈھانپنا» ہے اور یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
اس نام کی وجہ یہ ہے کہ روز قیامت میں قیامت اور حادثات تمام انسانوں کے گھیر لیں گے، یہ لفظ پہلی آیت میں استعمال ہوئی ہے۔
موضوع اصلی این سوره، روز قیامت است که مخصوص مجازات ها و عذاب های دردناک مجرمان و پاداش های مؤمنان است.
اس سورہ میں یوم قیامت کو عوام کی حالت زار پر اشارہ ہوا ہے اس دن لوگ دو گروپ میں تقسیم ہوں گے کچھ خوشحال اور کچھ شدید ناراضی کی حالت میں، ایک جنتی ہوگا اور دوسرا جہنمی۔
اس سوره میں دوسرا موضوع «توحید» اور خلقت کی باریکیوں کے حوالے سے ہے جسمیں اونٹ کی عجیب خلقت، آسمان اور پہاڑوں کے اسرار پر روشنی ڈالی گیی ہے اور انسان کو خالق کی طرف رہنمائی کی گیی ہے۔
اس سورے میں تیسرا موضوع، «مقام رسالت» اور پیغمبروں کی ذمہ داری بارے ہے. اس سورے میں رسول اسلام(ص) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو نصیحت کریں، دنیا کی خلقت اور لوگوں کی خدا کی طرف واپسی اور حساب کتاب کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
ایک اور اہم موضوع جس کے بارے میں تاکید کی گیی ہے، اونٹ ہے: «أَفَلَا ینظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کیفَ خُلِقَتْ: آیا کیا اونٹ پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے کیسے خلق کیا ہے؟» (غاشیه/ 17). اونٹ ایسا جانور ہے جسمیں کافی صلاحیتیں موجود ہیں اور اس میں غور وفکر حیرت کا باعث ہے، اس کی پلکیں ریت کے طوفان کے مقابل مضبوط ہیں، اپنے کوھان میں چربی اور غذا کو زخیرہ کرتا ہے اور بھوک کے مقابل سخت دم ہے، بدن میں پانی کو زخیرہ کرسکتا ہے اور پیاس برداشت کرتا ہے اور بیابانوں میں بہ آسانی سفر کرتا ہے اس کے پاوں کو بیابان و ریگستان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کی گردن کو سواری اور سامان محفوظ رکھنے کے لیے معاون تیار کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر عربوں کی طرح کہنا چاہیے : «اونٹ بیابانوں کی کشتی ہے». مضبوط ترين، كم خرچترين، فائدہ مندترين اور آرامترين بردبار جانور ہے۔/