چھٹے امام، جعفر ابن محمد الصادق (ع) 17 ربیع الاول 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ان کی امامت کی مدت 34 سال تھی۔
امام جعفر صادق (ع) پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی فاطمہ الزہرا (س) کے نسب سے آپ کی براہ راست اولاد ہیں اور آپ امام محمد باقر (ع) کے فرزند ہیں۔
امام صادق ع کی خصوصیات
امام صادق علیہ السلام ان معصوم ہستیوں میں سے تھے جنہیں خدا نے بندوں کی ہداہت کے لئے اخلاقی کمالات کا نمونہ بنایا۔ امام کے خاص فضائل جو مورخین نے قلمبند کیے ہیں ان میں مہمان نوازی، خیرات، رازداری کے ساتھ ضرورت مندوں کی مدد، غریب رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، عفو و درگزر، صبر اور استقامت قابل ذکر ہیں۔
اس وقت کے خلفاء کی طرف سے امام حسن (ع) کی اولاد پر تمام مظالم کے باوجود امام صادق (ع) خاموشی سے اہل بیت کی تعلیمات کی تبلیغ کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں نے بھی آپ کے علم و فضل کو تسلیم کرتے ہوئے زانوئے ادب تہہ کیا جو آپ کو امام معصوم نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی آپ کی شان اور اعلی نسب کو جانتے تھے، تاہم آپ کے علمی کمالات کو دیکھ کر آپ کے شاگردوں میں شمار ہونے پر فخر کرنے لگے۔
سیاسی حالات
آپ کی امامت کا دور اسلامی تاریخ کے سب سے زیادہ شورش انگیز ادوار میں تھا کہ جس میں اموی سلطنت کے زوال اور عباسی خلافت کے عروج کی اندرونی جنگیں اور سیاسی ہلچل حکومت میں تیزی سے تبدیلیاں لا رہی تھیں۔
امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش کی وجہ سے امام صادق ع کو اسلام کی درست تصویر اور رسول اللہ کی تعلیمات کو صحیح شکل میں پھیلانے کے اپنے مشن کو پرامن طریقے سے جاری رکھنے کے لیے فرصت میسر آئی۔
منصور دوانیقی (دوسرے عباسی خلیفہ) نے اپنے ناجائز مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علماء کو ملازمتوں سے نوازا تاکہ وہ لوگوں کو جبر کے مذہب پر یقین دلائیں۔ یعنی مسلک جبر کو وہ لوگوں کے عقیدے میں ڈھالنا چاہتے تھے اور انہیں یہ خیال دلانا چاہتے تھے کہ جو کچھ غربت و افلاس، ظلم و ستم اور زیادتیاں چل رہی ہیں، یہ سب خدا کی طرف سے ہیں اور اس کی تشکیل میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ایسے غلط اور خطرناک عقیدے کی تبلیغ کو برداشت نہیں کر سکتے تھے جو لوگوں کو اسلامی ثقافت اور عقائد کے نام پر سکھایا جارہا تھا۔
چنانچہ آپ نے نے لوگوں کو اسلام کی سچی تعلیمات کی تبلیغ کے مقصد سے پڑھانا شروع کیا۔ اسی لئے شیعہ فقہی مکتب کا نام امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب ہو فوہ جعفریہ پڑ گیا ہے۔
امام صادق (ع) نے جو فقہ پڑھائی وہ پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات پر مبنی فقہ تھی۔ چونکہ الصادق (ع) اپنے زمانے میں اسلام کی حقیقی تعبیر یعنی مکتب اہل بیت ع کے علوم کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے اس لیے مکتب اہل بیت ان کے نام سے مکتب جعفریہ کے طور پر شہرت پا گیا۔
تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے چار ہزار سے زیادہ بالواسطہ اور بلاوسطہ شاگرد تھے جو آپ سے مختلف مضامین سیکھتے تھے۔ جن میں مذہبی علوم جیسے فقہ، تفسیر، اور حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم جیسے کیمیا، طب، ریاضی اور فلکیات شامل تھے۔ آپ کے شاگردوں میں مشہور کیمیا دان جابر ابن حیان کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کی اہم شخصیات جیسے ابو حنیفہ، فقہ حنفی کے بانی شامل تھے اور فقہ مالکی کے بانی مالک ابن انس نے بھی ان کی تعریف اپنے وقت کے سب سے زیادہ علم اور متقی عالم کے طور پر کی تھی۔
امام کی شہادت
منصور دوانیقی مختلف ذرائع اور طریقوں سے اپنی خلافت کا قانونی جواز ڈھونڈنے میں ناکام ہو چکا تھا، اس نے عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی وارث اور اسلامی خلافت کے لیے موزوں شخص ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
اگرچہ منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے قریب لانے یا انہیں دھمکیاں دے کر خاموش کرانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ چنانچہ اس نے امام جعفر الصادق علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ 25 شوال 148 ہجری کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ آپ مدینہ منورہ کے قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔
آج امام جعفر صادق علیہ السلام کی میراث اسلام کی روحانی، فکری اور ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آپ کا شمار تاریخ اسلام کی ان برجستہ شخصیات میں ہوتا ہے جن کا کردار اسلامی علوم کی ترویج اور مسلم ثقافت کے فروغ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ کی تعلیمات آج بھی 1.5 بلین سے زیادہ مسلمانوں کے لئے حکمت و دانائی اور دینی رہنمائی کا ذریعہ اور گراں بہا اسلامی میراث ہیں۔
مہر نیوز