وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ماہرین اسمبلی کے بورڈ کے رکن آیت اللہ عباس کعبی نے آج سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کہ عزاداری کی تقریب میں منافقت کو عاشورا کے درسوں میں سے ایک سبق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ہاں منافقت کی کچھ اقسام ہیں، جس میں سیاسی،سماجی، اخلاقی، انفرادی اور عمومی منافقت جیسی اقسام شامل ہیں۔اور سورۃ المنافقون میں ’منافق کے لیے مردہ باد کا نعرہ ذکر کیا گیا ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ منافقت ایک خطرناک بیماری ہے۔ منافقت کی جڑ میں ایمان کی کمزوری ، تکبر، حسد، منفی مقابلہ، مفادات کا ٹکراؤ، حکومت، طاقت، سماجی اور سیاسی، حیثیت سے زیادہ فائدہ اٹھانا، اور دنیاوی مفادات ہیں۔،
آیت اللہ کعبی نے مزید کہا کہ منافق نقاب پوش ہوتا ہے اور اثر و رسوخ کے منصوبے کے ساتھ اہل ایمان لوگوں کی جماعت میں داخل ہوتا ہے اور موقع میسر ہوتے ہی اپنی جان لیوا ضرب لگاتا ہے۔ جن لوگوں کی منافقت کی جڑیں مضبوط تھیں وہ حضرت ابا عبد اللہ (ع) کے سامنے کھڑے ہو گئے اور امام علیہ السلام کو شھید کر دیا گیا مثال کے طور پر شمر، شبث اور عمر بن سعد جو کہ پہلے اصحاب میں سے تھے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کہ سکے کے دو رخ ہیں کہا کہ؛ تحریک کا ایک رخ عالمگیر انسان کے لیے رحمت ہے اور انسانیت حسین علیہ السلام کی محبت کے سائے میں بدلتی ہے اور دوسرا رخ منافقت کی عالمگیر نفرت ہے، عالمی جبر اور تکبر ہے۔
اگر منافق نہ ہوں تو عالمی ظلم کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم نے غزہ میں دیکھا ہے، اگر منافقین نہ ہوتے تو صیہونیت اور یہ کھلم کھلا ظلم ختم ہو جاتا۔ منافقین دوست کے بھیس میں دشمنوں اور دشمنوں کہ درمیان حدیں ختم کر کہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کہ امام حسین (ع) ہماری دشمنی شناسی، با بصیرت ہونا اور منافقت کی پہچان رکھنے سےخوش ہوتے ہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: منافقین نماز اور روزہ رکھ سکتے ہیں یا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی اجازت بھی دے سکتے ہیں۔ اس طرح لوگوں پہ یہ معاملہ مشتبہ قرار ہو جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ اسلام کے دشمنوں کی حفاظتی ڈھال ہوتے ہیں۔
منافقت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شرعی فریضہ پر عمل کیا جائے، فقہی احکام سے دوری اختیار نہ کی جائے۔
یہ شریعت کہ احکام پہ عمل کرنا ہی ہےجو ہمارے دلوں کو نورانی کرتا ہے۔
آیت اللہ کعبی نے مزید کہا کہ ہمیشہ وہ لوگ جو منافقین کی مدد کرتے ہیں وہ جاہل اور سادہ لوح لوگ ہوتے ہیں اور جو اسلام پر لشکر کی صورت میں خطرناک طریقے سے حملہ کرتے ہیں۔ عمر سعد کی فوج میں بہت سے جاہل لوگ ہی موجود تھے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو دنیاداری کی گرفت میں اور دنیا داری کی تلاش میں ہے۔