اگر آج پیغمبر موجود ہوتے۔۔۔؟

Rate this item
(0 votes)
اگر آج پیغمبر موجود ہوتے۔۔۔؟

آج دنیا میں آزادی، مساوات اور حقوق کے زور شور سے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور ان مسائل کی خلاف ورزی کی صورت میں آئے دن احتجاجات بھی ہو رہے ہیں۔ ان نظریات کے حامیوں میں ان لوگوں کی خاصی تعداد ہوتی ہے، جو مذہب بالخصوص اسلام کو ان نظریات کی عمل آوری میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ اسلام کو ایک قدیم رواج پر مبنی مذہب تسلیم کرتے ہوئے اسے معاصر زندگی سے متضاد سمجھتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت کے روز، ہم انہی موضوعات کو آپ کی حیات طیبہ اور سیرت و کردار کے عملی نمونے سے پیش کرتے ہیں۔ آزادی، مساوات اور حقوق آنحضرت کی زندگی اور تعلیمات کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ آپ نے آئیڈیل سماج کی تشکیل اور انسانی حقوق کے استحکام کے لیے ہمہ تن جدوجہد کی اور محض ترسٹھ برس عمر میں اپنے کردار و اخلاق سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

آپ بطور مذہبی ہادی و رہنماء، دین میں جبر و زبردستی کے خلاف تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے: "دین میں کوئی جبر نہیں۔" (سورہ بقرہ، آیت:256) آیت کا عملی ثبوت "میثاق مدینہ" (622 عیسوی) میں واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، جس میں آپ نے اسلامی ریاست کے ماتحت رہنے والے غیر مسلم، یہودی، عیسائی اور مشرکوں کو آزادانہ ماحول فراہم کیا تھا۔ اس دستاویز میں تمام مذہبی گروہ کو شہر مدینہ میں پرامن طور پر رہنے کی ضمانت دے کر ایک تکثیری معاشرے ( Pluralistic Society) کی بنیاد رکھی، جس میں مذہبی اقلیتوں کو تحفظ حاصل تھا۔ اسی طریقہ سے "معاہدہ نجران" میں آنحضرت نے عیسائیوں کو یقین دلایا کہ وہ بغیر کسی مداخلت کے اپنے عقیدے پر عمل کریں۔ عبادت گاہوں، املاک اور ان کے پادریوں کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا۔ اس طرح آپ نے اسلامی ریاست میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا، جس کی آج شدید ضرورت ہے۔

پیغمبر اسلام کے انقلابی تعلیمات میں "سماجی مساوات" کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے قبائلی، طبقاتی اور نسلی تفریق پر مبنی نظام کا خاتمہ کیا۔ افریقی غلام، بلال بن رباح کے ساتھ اپنے قریبی ساتھیوں کی طرح پیش آئے۔ بلال حبشی کی مؤذن بنانا، نسلی تفریق کے خاتمہ کی اہم ترین مثال ہے۔ اسی طرح، سلمان فارسی (ایرانی) اور صہیب الرومی (ایک بازنطینی رومی) کو نہایت عزت و وقار سے نواز کر نسلوں میں سرایت کرچکے تعصب کی بنیاد کو مسمار کر دیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ نے مساوات کی اعلیٰ ترین مثال پیش کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تمام بنی نوع انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر۔ کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ کسی کو کسی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ اور نیک عمل کے۔"

پیغمبر اسلامﷺ نے "حقوق نسواں" کے تحفظ کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو رہتی دنیا تک بے مثال اور بے نظیر مانا جائے گا۔ خواتین کو جائیداد (Property) سمجھنے والے عرب ماحول میں ان کو شادی، طلاق، جائیداد کی ملکیت اور وراثت میں رضامندی کا حق دیا۔ لڑکیوں کو قتل (زندہ دفن) کے خلاف سخت قدم اٹھایا۔ ان کی پاس و حرمت اور ان کے حقوق کی علمبرداری کرتے ہوئے تعلیم دینے کی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان؛ مرد اور عورت پر فرض ہے۔" آزادی، مساوات اور انسانی حقوق آئیڈیل سماج کی بنیادی کڑیاں ہیں۔ ایک سالم معاشرہ کی تشکیل میں ان اصول کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت و تعلیمات نے انسان کو جسمانی اور روحانی دونوں زاویوں سے آراستہ کیا ہے۔

انہوں نے معاشرہ میں پھیلی قبائلی تفریق اور نسلی برتری کے مضبوط قلعہ کو مسمار کیا۔ غلاموں کو آزاد کیا اور انہیں اپنے پاس جگہ دی۔ صدقہ، خمس و زکواۃ۔۔۔ کی صورت میں غلاموں اور پسماندہ لوگوں کو اقتصادی مشکلات سے آزاد کیا۔ ان کے حقوق دلائے اور پھر انہیں اپنے پاس جگہ دے کر مساوات کی عمدہ مثال پیش کی۔ آج دنیا میں آزادی، مساوات اور حقوق کی لڑائی لڑنے والے ہر انسان کو پیغمبر اسلام ﷺ کی کوششوں کو سراہنا چاہیئے اور آنحضرت کی حق کی لڑائی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیئے۔ اسلام آزادی، مساوات اور حقوق کو علمبردار ہے۔ اگر آج پیغمبر اسلام ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود ہوتے تو آزادی، مساوات اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبر دار اور رہنماء ہوتے۔

تحریر: عظمت علی (قم المقدسہ، ایران)

Read 66 times