اسلام دنیا کو امن کا پیغام دیتا ہے اور عالمی انسانی ترقی امن پر یقین رکھنے سے ہی ممکن ہے۔عالمی انسان تہذیب کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ امن کا دور دورہ ہو۔اسلام امن کا داعی ہے اور اسلام عالمی تہذیب کی تشکیل چاہتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)) (سبأ-28)
اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
ہم قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام نے امن کو موقع دینے اور سلامتی کی بات کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)) (الأنفال-61)
اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
((يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ) (البقرة-208)
اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آ جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اسلام نے اپنے ایمان لانے والوں کو بار بار امن کی تاکید کی ہے اور امن میں داخل ہونے کاحکم دیاہے۔ اسلام تنازعات کے حل میں تلوار کے استعمال سے منع کرتا ہے یہاں تلوار سے مراد طاقت اور زور ہے۔ اسلام عقیدہ اور نظریہ کے مخالفین کے ساتھ ہر صورت میں جنگ کی بات نہیں کرتا جنگ صرف اس صورت میں کی جاتی ہے جب اپنے عقیدے اور جان کا دفاع کرنا ہو۔ یہ بات تو واضح ہے کہ وہ جنگیں جو صرف دشمنی کی بنیاد پر ہوتی ہیں وہ دراصل شیطان کی پیروی ہو رہی ہوتی ہے اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو بھڑکائے۔ اس طرح لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے،لوگوں کو ایمان کے راستے سے بھٹکا دیا جاتا ہے اور لوگ اللہ کی گروہی شکل میں نافرمانی کرتے ہیں۔ جنگ اسلام میں ایک روٹین سے ہٹا معاملہ ہے جسے اضطراری حالت میں اختیار کیا جاتا ہے۔ جنگیں مسلمانوں پر ان کو ان کے مذہب سے ہٹانے کے لیے مسلط کی گئی تھیں اور ان کا مقصد مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا تھا۔
وہ سیاسی تبدیلیاں اور ان کے نتیجے میں جو جنگیں واقع ہوئیں ان پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی وجہ فقط اور فقط اپنی جانوں اور مال کا تحفظ تھا۔ یہ جنگیں اسلام کا نظریہ نہ تھیں کہ ہر صورت میں واقع ہوں کیونکہ اسلام تو امن کا داعی ہے۔اس لیے اسلام نے ان جنگوں کی بھی شرائط قرار دیئے اور اہم شرط یہی تھی کہ اپنے مال و جان کے تحفظ کے لیے ہونی چاہیں۔ اسی طرح انسانوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے ہونی چاہیں اور جنگ کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ جنگ کا آغاز نہیں کرنا۔ اسلام نے کسی پر اپنا عقیدہ مسلط کرنے کے لیے کبھی جنگ نہیں کی بلکہ ہمیشہ حریت عقیدہ کی تعلیم دی:
((لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا والله سَمِيعٌ عَلِيمٌ )) (البقرة-256)
دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
اسی حکم کی وجہ سے آپ کو کوئی ایک جنگ بھی نہیں ملے گی جو اپنے عقیدے کی نشر و اشاعت کے لیے کی گئی ہو۔اسی لیے اسلام میں ایسا کوئی بھی داعی نہیں ملے گا جس نے تلوار اور جنگ کے ذریعے دین کی دعوت دی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم یہودیوں، مسیحیوں اور کفار کے ساتھ میثاق مدینہ کا معاہدہ کیا اور یہ تینوں عقیدے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف تھے۔ اس میں مدینہ کے رہنے والے ہر عقیدے اور ہر فکر کےلوگوں کو امن دیا گیا تھا۔ مدینہ کی حکومت اور قیادت مسلمانوں کے پاس تھی اس کے باوجود انہوں نے کسی کو بھی عقیدہ کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا اور اس کے برعکس یہ کہا کہ تمام عقائد کے ماننے والے مدینہ پر حملہ کی صورت میں باہم مل کر حفاظت کریں گے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام امن کا دین ہے اور عقیدے کی آزادی دیتا ہے اور اسلام عقیدے کے مسائل میں تلوار کو یہ حق نہیں دیتا کہ اس کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے مشرکین کے ساتھ صلح حدیبیہ کی تھی اسلام نے ان پر طاقت کے ذریعے اسلام کو مسلط نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ مصالحت کی اور ان کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا اور کچھ سالوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر مکہ میں فاتحانہ داخل ہو گئے۔
اسلام کی خوبیوں میں سے ہے کہ اسلام نے ریاست میں بسنےوالوں کو عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا اور ان کی حفاظت کے بدلے ایک معمولی سا ٹیکس جزیہ کی صورت میں لیا اور یہ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا اور انہوں نے ان کے رسم و رواج اور عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی دی۔ مسلمانوں پر زکوۃ کو فرض قرار دے دیا کہ وہ ریاست کو ادا کریں گے اس طرح اسلام نے ہر دو پر ریاست چلانے کے لیے ملی بوجھ ڈالا ۔
اسلام امن کا داعی ہے اس پر اسلام کے عملی اقدامات سے چند شواہد:
۱۔عرب کے زیادہ تر قبائل اسلام میں اپنی سوچ و فکر اور دعوت حسنہ کے نتیجے میں داخل ہوئے اور کسی بھی طرح سے تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے اسلام کی دعوت کا یہ خوبصورت طریقہ قرآن کریم کی اس آیت مجیدہ کی روشنی میں قائم فرمایا ارشاد باری تعالی ہے:
((ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)) (النحل -125)
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
اس دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں میں عرب کے دو معروف قبیلے اوس و خزرج بھی شامل تھے۔
۲۔اسلام کی دعوت محبت،اسلام کے تعارف اور لوگوں سے حسن سلوک سے دی گئی ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)) (الحجرات-13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
یہ بات پھر سے واضح کر دیں کہ اس پیغام دعوت کے ساتھ کسی قسم کی جنگ اور قتل و غارت شامل نہیں ہے کچھ لوگ اس طرح کے جھوٹے الزامات اسلام پر لگاتے ہیں۔
۳۔اسلام میں جنگ مجبوری کی حالت میں ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب اور کوئی راستہ نہ ہو۔ اس میں بھی دیکھا جائے تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو جنگیں ہوئیں ان کی مجموعی تعداد اسّی بنتی ہے اور ان سب جنگوں میں مسلمانوں اور مشرکین کے مقتولین ملا کر بھی ان کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے۔
۴۔اسلام نے ایک نظریہ کے طور پر غیر مسلموں کو ان کے عقیدہ اور ان کے رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کے بدلے ایک معمولی سا ٹیکس رکھا جسے جزیہ کہا جاتا ہے۔
۵۔اسلام نے قتل و غارت کو ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا اور اس کے ذریعے ظالموں کو ان کے ظلم سے روکنا تھا اور مظلوموں کو ان سے نجات دلانا تھی یہ کوئی ایسا عمل نہیں جس کو پسندیدگی کے ساتھ اسلام نے اختیار کیا ہو ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ .............)) (البقرة-216)
تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے۔
اسلام میں جنگ کب کی جا سکتی ہے؟
یہ بات بار بار کی جا چکی ہے کہ اسلام امن کا داعی ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف بہترین انداز میں دعوت کے ذریعے بلاتا ہے۔اسلام جنگ کی اجازت کچھ شرائط کے ساتھ دیتا ہے اسلام اصل میں جنگ کے خلاف ہے کیونکہ جنگ انسانی تہذیب پر بھیانک اثرات مرتب کرتی ہے۔اسلام میں جنگ کی مندرجہ شرائط ہیں:
۱۔یہ جنگ ایمان اور عقیدے کی حفاظت کے لیے ہو دشمن مسلمانوں پر ان کے عقیدے کی وجہ سے ظلم کر رہے ہوں ارشاد باری تعالی ہے:
((أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)) (الحج-39)
۳۹۔ جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔
۲۔ان لوگوں سے جنگ کرنا جو مسلمانوں سے نفرت اوربغض پھیلا کر لڑنے پر اکساتے ہیں اور جارحیت کی مسلسل ترغیب دیتے ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
((وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ)) (البقرة-193)
اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔
اسلام نے اس وقت جنگ سے منع کیا ہے جب یہ لوگ اپنی دشمنی اور جنگ کی خواہش سے بعض آ جائیں۔
۳۔وہ لوگ جن پر ظلم کیا جا رہا ہو اگر وہ مسلمانوں سے مدد مانگتے ہیں تو ان کے دفاع کے لیے جنگ کرنا اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ ان مدد مانگنے والے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان میں کوئی دفاعی معاہدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ان کی حفاظت کی جائے گی ارشاد باری تعالی ہے:
((.....وَإِنِ استنصروكم فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ)) (الأنفال-72)
البتہ اگر انہوں نے دینی معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنا تم پر اس وقت فرض ہے جب یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہ ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔
اسلام کی جنگی شرائط اور ضابطے
۱۔دشمن کو دیکھتے ہی جنگ شروع نہیں کر دی جائے گی بلکہ جنگ سے پہلے ان کے ساتھ عقل اور امن کی زبان میں بات کی جائے گی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ ص کے وصی حضرت علی علیہ السلام کی یہی وصیت تھی آپ جنگ صفیں میں اپنے لشکر سے فرمایا کرتے تھے ان کے شروع کرنے سے پہلے جنگ نہ کرو ،اللہ کا شکر ہے کہ تم دلیل رکھتے ہو تم رکے رہو یہاں تک کہ وہ جنگ شروع کرکے تمہارے لیے دوسری حجت بھی فراہم کر دیں۔ آپؑ اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھے تم پہلے مبارزہ کی دعوت نہ دو۔
۲۔جنگ لڑنے والوں کے ساتھ کی جائے گی اور اس کے علاوہ کسی بشر و غیر بشر کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جنگ میں جتنا ہو اخلاقیات اور انسانیت کا خیال رکھا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی لشکر کو وصیت فرماتے تھے کہ خیانت نہ کرنا، بد عہدی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کھجور کو مت کاٹنا، پانی میں غرق مت کرنا، کسی پھلدار درخت کو مت کاٹنا، زراعت کو مت جلانا کوئی پتہ نہیں کہ تمہیں اس کی ضرورت پڑجائے، جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے انہیں ضرورت کے سوا مت مارنا۔ اسی طرح امام علیؑ نے حضرت مالک اشتر ؓ کو اس وقت خط لکھا جب وہ بصرہ کے محاذ پر حضرت ؑکے لشکر کے پہلے حصے کے سربراہ تھے کہ جولڑنا نہیں چاہتا اس پر طعن نہ کرنا،جو بھاگ رہا ہو اسے قتل نہ کرنا، جو دروازہ بند کر لے اسے امان حاصل ہے۔
۳۔غیر مسلموں کو اجارے پر لیا جاسکتا ہے اور ان کو جنگ کے دوران قتل سے امان دی جا سکتی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بھی مسلمان جو ادنی ہو یا اعلی ہو جب وہ کسی غیر مسلمان کو دیکھتا ہے تو وہ اس کا پڑوسی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ غیر مسلم اللہ کے کلام کو سن لے اور تمہاری پیروی کرے تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو اسے امان دو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نامہ حضرت علیؑ کو لکھا جس میں تحریر فرمایا خدا سے کیے گئے عہد میں خیانت نہ کرو،اس کی ذمہ داری کو پورا کرو،اللہ تعالی نے ذمہ اور عہد کو امان قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کے درمیان رحمت بنایا، تنگ دستی میں صبر کرو راحت کی امید خیانت سے اچھی ہے جس کے پیچھے برائی چلی آتی ہے۔
۴۔مظلوم اور مستضعفین کی جابرین اور فسادیوں کے خلاف مدد کرنا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا)) (النساء-75)
(آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟