رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پڑھ تا ہے لیکن زکات ادا نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ، چہ جائے کہ اس کا کوئی عمل اس کے لئے مفید ہو
پنجم سارے اموال
< خذ من اموالھم صدقة تطھرھم و تزکیھم بھا۔۔۔ >
پیغمبر آپ ان کے اموال میں سے زکات لیجئے کہ اس کے ذریعہ یہ پاک و پاکیزہ ہو جائیں۔(سورہ توبہ / ۱۰۳ )
< و فی اموالھم حق للسائل و المحروم>
اور ان کے اموال میں مانگنے والے اور محروم افراد کے لئے ایک حق تھا ۔
یہ پانچویں قسم عام ہے اور اس میں مال زراعت و مال صناعت اور مال تجارت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
۴۔ زکات حدیث اور فقہ کی کتابوں میں
الف:۔ زکات اہل سنت کی فقہی اور حدیثی کتابوں میں
ان کتابوں میں زکات کے سلسلہ میں صراحة بہت سی حدیثیں موجود ہیں لیکن ہم چند واضح حدیث کے بیان پر اکتفاء کرتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : اسلامی یعنی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو اور زکات ادا کرو ، ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھو اور جب مستطیع ہو جاؤ تو حج کرو ۔۱
عبداللہ بن مسعود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں :
ہم سب کو نماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جو بھی زکات ادا نہیں کرے گا اس کی کوئی بھی نماز قبول نہ ہوگی ۔ ۲
اصبہانی نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پڑھ رہا ہے لیکن زکات ادا نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ، چہ جائے کہ اس کا کوئی عمل اس کے لئے مفید ہو ۔ ۳
----------------------------------------------
۱۔ الجامع الصغیر فی احادث البشیر النذیر ، ج /۱ ص / ۴۷۴، ح / ۳۰۵۹ سیوطی ، دار الفکر ، بیروت ۱۴۰۱ ء ھ
۲،۳، الترغیب والترغیب فی حدیث الشریف ، ج / ۱ ص / ۵۴۰ ، ح / ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲، حافظ ابو محمد منذری ، بیروت دا احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ ء ھ
براز نے علقمہ سے نقل کیا ہے کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا-: تمھارا اسلام اس وقت کامل ہوگا جب تم لوگ زکات ادا کروگے ۔۱
فقہائے اہل سنت کہتے ہیں : جو کوئی زکات کے واجب ہونے کا معتقد ہو اور زکات ادا نہ کرے اس سے زبر دستی زکات وصولی جائے گی ، اگر کوئی شخص سر زمین اسلام اہل علم کے درمیان زندگی بسر کررہا ہو اور زکات سے انکار کرے وہ مرتد ہے اور اس پر مرتد کے احکام جاری ہوں گے ، تین مرتبہ توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اور نہیں کرے گا تو قتل کر دیا جائے گا اور حاکم پر واجب ہے کہ زکات کی ادائیگی سے انکار کرنے والے سے جنگ کرے یہاں تک کہ وہ زکات ادا کرے ۔ ۲
اس رو سے اہل سنت کے نزدیک صاحب نصاب پر زکات کے واجب ہونے کے علاوہ حکومت کی طرف سے زکات کا جمع کرکے اسے مستحق کے درمیان تقسیم کرنا بھی واجب ہے اور اس سے اجتناب نہیں کیا جا سکتا ۔
اس حکم کے نافذ کرنے کے لئے بعض اسلامی ممالک نے لازمی طور پر زکات ادا کرنے کا طریقہ اپنایا ہے اور کچھ دیگر اسلامی ممالک نے آزادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔
ب :۔ زکات پیروان اہلبیت (علیهم السلام) کی حدیثی اور فقہی کتابوں میں
وجوب زکات کے سلسلہ میں عبد اللہ بن سنان امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں جب آیت زکات ۳ ماہ رمضان میں نازل ہوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منادی کو حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کردے کہ پرور دگار عالم نے جس طرح تم پر نماز واجب قرار دی ہے اسی طرح زکات بھی واجب کی ہے ۔ ۴
----------------------------------------------
۱ ۔لترغیب والترغیب فی حدیث الشریف ، ج / ۱ ص / ۵۴۰ ، ح / ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲، حافظ ابو محمد منذری ، بیروت دا احیاء التراث العربی ۱۳۸۸ ء ھ
۲۔ ابن قدامہ ، المغنی ، ( بیروت دار الکتاب العربی ) ج / ۲ ص / ۴۳۵، محمد بن الشربینی مغنی المحتاج فی شرح المنھاج (بیروت دار احیاء التراث العربی ) ۱۳۷۷ ئھ ج / ۱ ص / ۳۶۸ ، سید سابق ، فقہ السنة دار الکتاب العربی ( بیروت ) ج / ۱ ص/ ۳۶۸۔
۳۔ سورہ توبہ / ۱۰۳
۴۔ محمد بن حسن حر عاملی ، وسائل الشیعہ الیٰ مسائل الشریعة ( موسسة آل البیت (علیهم السلام) لاحیاء التراث ۱۴۱۳ء ھ ج/۹ ص /۹ح /۱
دوسری روایت میں عبد اللہ بن سنان امام علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ” پر وردگار عالم نے جس طرح نماز کو واجب قرار دیا ہے اسی طرح زکات بھی واجب قرار دی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص زکات کا مال حمل کرے اور علی الاعلان ادا کرے تو کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ پروردگار عالم نے امیروں کے اموال میں اس مقدار میں فقراء کے لئے حق قرار دیا ہے جو ان کے لئے کافی ہو اور اگر اللہ کی نگاہ میں فقراء کو اس سے زیادہ کی ضرورت ہو تی تو یقینا خدا وند عالم اس سے زیادہ واجب قرار دیتا اور یقینا فقیروں کا فقر ان کے حق کو ادا کرنے سے منع کرنے والوں کے سبب ہے نہ کہ وظیفہ کی وجہ سے ۔ ۱
کتاب ” وسائل الشیعہ “ میں ، نماز قبول نہیں ہوگی مگر زکات کی ادائیگی کے بعد کے باب میں سولہ روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔
من جملہ شیخ طوسی معروف بن خر بوذ کے حوالہ سے امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ” بیشک اللہ نے زکات کو نماز کے ساتھ ساتھ قرار دیا ہے اور فرماتا ہے : و اقیموا الصلاة و آتوا الزکاة “ یعنی اگر کوئی شخص نماز قائم کرے اور زکات ادا نہ کرے تو گویا اس نے نماز قائم ہی نہیں کی ۔ ۲
زکات کی ادائےگی سے منع کرنا حرام ہے اور اس سلسلہ میں کتاب وسائل الشیعہ میں ۲۹ روایتیں نقل ہوئی ہیں انھیں روایات میں سے ایک روایت شیخ طوسی محمد بن مسلم کے حوالہ سے امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں ” جو شخص بھی زکات میں ذرا بھی کمی کرے گا تو پرور دگار عالم روز قیامت آگ کا ایک اژدہا اس کی گردن میں قرار دے گا اور وہ اس کا گوشت نوچے گا یہاں تک کہ وہ حساب و کتاب سے فارغ ہو جائے اور اس کی دلیل اللہ کا وہ قول ہے جس میں ارشاد فرماتا ہے ” سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامة “ ۳ یعنی جو کچھ زکات میں کنجوسی کریں گے عنقریب وہ مال ان کی گردن میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔ ۴
صاحب وسائل الشیعہ ، زکات کے منکر اور زکات کی ادائیگی سے منع کرنے والے کے کفر و ارتداد اور اس کے قتل کے جائز ہونے کے ثبوت میں نو روایتیں نقل کرتے ہیں ۔
----------------------------------------------
۱۔ حوالہ گزشتہ ، ج/۹ ص / ۱۰ ح / ۳
۲۔ وسائل میں الشیعہ، باب تحریم منع الزکات ، ص / ۲۲ ، ح / ۲
۳۔سورہ آل عمران/۱۸۰
۴۔ وسائل الشیعہ، باب تحریم منع زکات ، ص / ۲۲ ، ح / ۳
شیخ طوسی ابان بن تغلب کے حوالہ سے امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : ” پرور دگار عالم کی جانب سے دو لوگوں کا خون بہانا جائز ہے اور کوئی بھی انسان اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر ے گا یہاں تک کہ خدا وند عالم قائم آل محمد عجل اللہ فرجہ شریف کو ظاہر کرے اور جب آپ کا ظہور ہوگا تو آپ اللہ کے حکم سے ان دو مسئلہ میں فیصلہ کریں یعنی زانی محصنہ کا سنگسار اور زکات کی ادائیگی سے منع کرنے والوں کی گردن اڑانا۔ ۱
شیعہ فقہا متفق علیہ طور سے زکات کے وجوب کو ضروریا ت دین میں شمار کرتے ہیں اور جان بوچھ کر انکار کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں ۔ ۲
امام خمینی فرماتے ہیں ” اصل وجوب زکات فی الجملہ ضروریات دین میں ہے اور بیشک جیسا کہ کتاب طہارت میں گزر چکا ہے اس کا انکار کرنے والا کفار کی جماعت میں ہے ، اہل بیت علیہم السلام سے روایت ہے کہ ” ایک قیراط زکات منع کرنے والا نہ مومن ہے اور نہ ہی مسلمان “ اور اگر وہ چاہے تو یا یہودی مرے یا نصرانی مرے “ اور ” کوئی بھی درخت یا زراعت یا انگور کا مالک اگر زکات ادا کرنے منع سے کرے گا تو روز قیامت پرور دگار عالم اسے اس کی گردن میں آگ کا سانپ بنا ڈال دے گا جو حساب و کتاب سے فارغ ہو نے تک اس کے گوشت کو
کاٹتا رہے گا۔
اس کے علاوہ دوسری روایتیں بھی ہیں جو عقل بشری کو حیران کر دیتی ہیں ، مگر ہاں زکات کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے اور اس کا ثواب بہت عظیم ہے ۔صدقہ دینے جو زکات کو بھی شامل ہے کے بارے میں روایت میں آیا ہے کہ ” خدا وند عالم صدقہ کو ویسے ہی بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے لوگ اپنے بچے کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ روز قیامت جب انسان کو صدقہ ملے تو اس حالت میں کہ وہ کوہ احد کے برابر ہو گیا ہو “
نیز روایت میں ہے کہ ” صدقہ بری موت سے بچاتا ہے ۔ چھپ کر دیا جانے والا صدقہ پرور دگار عالم کے غضب اور عذاب کو ختم کر دیتا ہے “ اس کے علاوہ اور بھی روایتیں ہیں ۔ ۳
----------------------------------------------
۱۔ گزشتہ حوالہ ، ص / ۳۳ ، ح /۶
۲۔محقق حلی ، المعتبر فی شرح المختصر ، قم موسسہ ، سید الشہداء ، ج / ۲ ص/ ۴۸۵ ، شیخ مفید ، المقنعہ ، قم جامعہ مدرسین ، ۱۴۱۰ ء ھ ، ج / ۱ ص / ۳۲ ۔سید محمد کاظم طبا طبائی یزدی ، العروة الوثقیٰ ، ج / ۴ ص / ۶ ۔ روح اللہ موسوی خمینی ، تحریر الوسیلہ ( قم ، دفتر انتشارات اسلامی ) ج / ۲ ص / ۱۱ سید ابو القاسم خوئی الزکات ( قم العلمیة ۱۴۱۳ ء ھ ص / ۹ ، سید محمد رضا گلپائگانی ، مختصر الاحکام ( قم دار القرآن الکریم ) ص / ۹۴ )
۳۔ تحریر الوسیلہ ، روح اللہ موسوی خمینی ، ج / ۲ ص/ ۱۱
معلوم ہوا کہ اسلام کے مذاہب پنجگانہ ، زکات کے وجوب اور اس کے ضروریات دین میں ہونے نیز جان بوجھ کر زکات سے انکار کرنے والے کے کفر ہے پر متفق ہیں اور سب کا نظریہ ایک ہے مگر فقہی نقطہ نظر سے فقر کو دور کرنے میں جو چیز زکات سے فائدہ اٹھانے میں موثر ہے وہ زکات میں شامل افراد اور اموال کی وسعت اور تنگی ہے اور اس سلسلہ میں مذاہب پنجگانہ کے فقہاکے نظریات مختلف ہیں اس لحاظ سے فقہی رائے کا انتخاب زکات کے وظیفہ کے کم یا زیادہ ہونے پر خاص اثر ڈال سکتا ہے ، نتیجہ میں ضرورت اس بات کی پڑتی ہے کہ مذاہب پنجگانہ کا ، زکات میں شامل افراد و اموال کی وسعت و تنگی کے لحاظ سے مطالعہ کیا جائے اور بحث و تحقیق کی جائے۔
۵۔ مذاہب پنجگانہ میں زکات میں شامل افراد و اموال کی تقابلی تحقیقی ، اور اہل سنت کی جدید فقہ
الف)۔ وہ افراد جن پر زکات مال ادا کرنا واجب ہے
اگر کوئی شخص بالغ ، عاقل اور مسلمان ہے تو تمام مذاہب کے فقہا اس کے اس مال میں زکات کو واجب سمجھتے ہیں جب وہ مال حد نصاب تک پہنچ جائے اور اس سلسلہ میں سب کا اتفاق نظر ہے ، لیکن اگر ایک یا دو شرط نہ پائی جائے تو ان کے درمیان اختلاف نظر ہے جس کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے ۔
حنبلی ، مالکی ،اور شافعی مذہب کا کہنا ہے ہے کہ عقل اور بلوغ شرط نہیں ہے لہٰذا بچہ اور مجنون کے مال میں بھی زکات واجب ہے اور ان دونوں کے سرپرست پر واجب ہے کہ ان کے مال سے زکات ادا کرے ۔ ۱
لیکن حنفی مذہب تفصیل کے قائل ہیں اور غلات اربعہ میں بلوغ و عقل کی شرط کے قائل نہیں ہیں لہٰذا بچے اور دیوانے کے خرما ، کشمش اور کاشت میں زکات کے وجوب کے قائل ہیں مگر دیگر اموال میں بلوغ و عقل کی شرطوں کے قائل ہیں ۔ ۲ اہل سنت کی جدید فقہ کے مطابق غیر مکلف کے مال میں زکات واجب ہے ۔۳مگر فقہائے امامیہ
----------------------------------------------
۱۔عبد الرحمن جزیری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ، ( بیروت دار احیاء التراث العربی ، ۱۴۰۶ ء ھ ۱۹۸۶ء ء ) ج / ۱ ص / ۵۹۰ و السید سابق فقہ السنة ( بیروت دار الکتاب العربی ، ۱۴۰۷ ء ھ / ۱۹۸۷ ء ء ) ج / ۱ ص / ۲۹۴۔
۲۔ عبد الرحمن جزیری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ، ( بیروت دار احیاء التراث العربی ، ۱۴۰۶ ء ھ ۱۹۸۶ء ء ) ج / ۱ ص / ۵۹۰ و ابن عابدین ، رد المختار علی در المختار ، ( دار الفکر ، ۱۴۱۵ ء ھ ) ج / ۲ ص / ۲۷۹ و ۲۸۰ ۔
۳۔ محمد سلیمان اشقر و دیگران ، قرارات الموتمر الثانی لمجمع الاسلامیة بالقاہرہ فی ابحاث فقہیة فی قضایا الزکاة المعاصرة( اردن ، دار النفائس ، ۱۴۱۸ ء ھ / ۱۹۹۸ ء ء ) ج / ۲ ص / ۸۶۶۔
کی اس مسئلہ میں دو جماعت ہے ایک قدیم علماء جیسے شیخ مفید ، شیخ طوسی جو اس بات کے معتقد ہیں کہ بچے اور دیوانے کے غلات اربعہ اور انعام ثلاثہ پر زکات واجب ہے اور سونے چاندی پر واجب نہیں ہے مگر اس صورت میں کہ اس سونے چاندی سے تجارت کی جائے تو شیخ مفید کا نظریہ یہ ہے کہ زکات واجب ہے اور شیخ طوسی کے نظریہ کے مطابق زکات مستحب ہے اور یہی نظریہ محقق حلی کا بھی ہے ۔۱
دوسرا گروہ جدید اور معاصر علماء کاہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ بلوغ و عقل زکات کے وجوب کی شرط ہے لہٰذا بچے اور دیونے کے مال میں زکات واجب نہیں ہے ۔ ۲
وجوب زکات کے شرایط میں سے ایک شرط اسلام ہے ، حنفی ، شافعی اور حنبلی مذہب کے نظریہ کے مطابق کافر پر زکات واجب نہیں چاہے کافر اصلی ہو یا مرتد ہو ۔ ۳ جزیری مالکیوں کے الفاظ یوں نقل کرتے ہیں کہ کافر پر زکات اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان پر واجب ہے بغیر کسی فرق کے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مالکیوںکی دلیل یہ ہے کہ اسلام زکات کے وجود کی شرط نہیں ہے بلکہ اسلام زکات کے صحیح ہونے کی شرط ہے لہٰذا ان کی نظر میں کافر پر زکات واجب ہے ، ہر چند اسلام کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔ لیکن قرطبی کے بہ قول ، امام مالک کا کوئی قول اہل ذمہ پر زکات واجب ہونے کے سلسلہ میں نقل نہیں ہوا ہے ۔ ۴ لہٰذا سمجھ میں یہی آتا ہے کہ مالکیوں کا فتویٰ یہی ہو کہ کافر سے زکات وصول کرنا ضروری نہیں ہے ۔
مذہب امامیہ کے قدیم اور جدید علماء کے درمیان مشہور یہی ہے کہ کفار جس طرح اصول دین پر مکلف ہیں اسی طرح فروع دین پر بھی مکلف ہیں ۔ ۵ اور معاصر علماء کا بھی یہی نظریہ ہے اور ان کی نظر میں کافر پر زکات
----------------------------------------------
۱۔شیخ المفید، المقنعہ ، ص /۲۳۹، شیخ طوسی المبسوط ، ج / ۱ ص / ۲۳۴و محقق حلی ، المختصر ، ص / ۵۲۰
۲۔ شہید اول ، الدروس ، ج / ۱ ص / ۲۲۹ ، شہید ثانی ، الروضة البہیة ، ج / ۲ ص / ۱۱۰ ، النجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص / ۱۵ ، ہمدانی ، مصباح الفقہیہ ، ج / ۳ ص/ ۲، طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی ، ج / ۴ ص / ۵ و ۷ ، سید ابو القاسم خوئی ، الزکاة ، ص / ۱۰ و ۲۰ ، خمینی تحریر الوسیلہ ، ج / ۱ ص / ۳۱۱ و ۳۱۲ و محمد تقی بہجت توضیح المسائل (عربی ) ص / ۳۴۳
۳۔ عبد الرحمن جزیری گزشتہ، ص / ۵۹۱ ، شافعی ، کتاب الام ( بیروت ، دار الفکر ، ۱۴۰۳ ء ھ / ۱۹۸۳ ء ء ) ج / ۲ ص / ۲۹ ، محی الدین نوری ، المجموع فی شرح المہذب ، ( بیروت دار الفکر ) ج / ۵ ص /۳۲۷ و۳۲۸ ، ابن مسعود بدائع الصنایع فی ترتیب الشرایع ، ( بیروت ، دار الکتاب العربی ، ۱۴۰۲ ء ھ / ۱۹۸۲ ء ء ) ج / ۲ ص / ۴ و یوسف قرضاوی ، فقہ الزکاة ( بیروت ، موسسہ الرسالة ، ۱۴۱۲ ء ھ / ۹۱ ۱۹ ء ء) ج / ۱ ص ۹۵
۴۔ابن رشد ، بدایة المجتہد و نھایة المقتصد ،( بیروت ، دار المعرفة ، ۱۴۰۹ ئھ / ۱۹۹۱ ء ء ) ج / ۱ ص / ۲۴۵
۵۔۔محقق حلی ، المعتبر ، ج/ ۳ ص / ۴۹۰، شیخ طوسی ، الخلاف ، ج / ۱ کتاب الزکاة و نجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص/ ۶۱۔ ۶۳
واجب ہے مگر ان سے صحیح نہیں ہے اور امام یا نائب امام زبر دستی وصول سکتے ہیں اور اگر تلف کر دیا ہو تو اس کا عوض کافر سے لے سکتے ہیں ۔ ۱
اہل سنت کی جدید فقہ کے مطابق کافر پر زکات واجب نہیں ہے مگر ان کے بعض علماء استدلال کرتے ہیں کہ چوں کہ غیر مسلمان کو معاف کرنا جب کہ وہ حدود اسلام میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس بات کا سبب بنتا ہے کہ در آمد اور ثروت کی تقسیم عدل پر استوار نہ ہو اور غیر مسلمان کے پاس ثروت جمع ہو جائے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زکات کے مساوی ٹیکس غیر مسلمان پر عائد کیا جائے اور اسلامی ممالک میں مقیم غیر مسلمانوں کی رفاہ کے لئے مصرف کیا جائے ۔۲
مذاہب پنجگانہ اور اہل سنت کی جدید فقہ کے نظریہ کا خلاصہ زکات میں شامل افراد کے سلسلہ میں جدول نمبر ایک میںآخر میں بیان کیا گیا ہے ۔
ب)۔ اموال جن پر زکات واجب ہے
اموال ، مال کی جمع ہے اور اعرابی جن کے درمیان قرآن نازل ہوا ہے کے نزدیک وہ ہر اس چیز کو شامل کئے ہوئے ہے جسے انسان چاہتا ہے اور اس کا مالک بن کر اس کی حفاظت کرتا ہے نتیجہ میں ، اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ، زراعت ، نخلستان اور سونے چاندی مال سب ہیں ۔
کتاب ” لسان العرب “ میں ہے کہ مال ہر وہ چیز ہے جو ملکیت میں آ سکے مگر یہ کہ بادیہ نشین اس کو حیوانات ( گائے ، بھیڑ بکری ، اونٹ اور گھوڑے و غیرہ پر اطلاق کرتے ہیں اور شہر والے اکثر سونے چاندی پر اطلاق کرتے ہیں جب کہ سب کے سب مال ہیں ۔۳
اہل سنت کے چارو مذاہب کے فقہا مال کی حد کے تعین میں حسب ذیل اختلاف رکھتے ہیں اور یہ اختلاف زکات کی مقدار کی جمع آوری کی کمی و زیادتی میں موثر ہوتا ہے ۔
حنفیوں کے نزدیک مال ہر وہ چیز ہے جسے ملکیت میں لایا جا سکے اور عام طور سے اس سے فائدہ اٹھایا
----------------------------------------------
۱۔ طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی ، ج / ۴ ص / ۲۶ و خمینی ، تحریر الوسیلة ، ج / ۱ ص / ۳۱۴
۲۔ Monzer Kahaf , Zakat and obligatory Expenditures in Islam . in LESSONS INISLAMIC ECONOMICS .1918 G Vol 2 p 532
۳۔ابن منصور ، لسان العرب ، باب اللام ، فعل المیم
جا سکے ، اس لحاظ سے ان کے عقیدہ میں مالکیت دو چیزوں سے ثابت ہوتی ہے ۔ ایک امکان ملکیت دوسرے عرفا امکان استفادہ لہٰذا جو چیز بھی زمین وہوا میں ہم اپنے قبضہ میں لے لیں اور مالک بن جائیں نیز نقد پیسے اور دیگر سامان یہ سب کے سب مال ہیں اور اس طرح ہر وہ چیز کہ جو ابھی تک ملکیت میں نہ آئی ہو اور نہ ہی اسفادہ کیا گیا ہو مگر استفادہ کرنا ممکن ہو وہ بھی مال ہے ۔
جیسے سارے مباحات ” دریا کی مچھلیاں ، آسمان کے پرندے اور پہاڑی حیوان جن پر قبضہ کرنا اور استفادہ کرنا ممکن ہو ، اس نظریہ کے مطابق ہر وہ چیز کہ جس پر قبضہ ممکن نہ ہو وہ مال محسوب نہیں ہوگی چاہے استفادہ کے قابل ہی کیوں نہ ہو جیسے ، نور آفتاب اور سورج کی گرمی اسی طرح اگر عرف عام میں اس سے استفادہ نہ کیا جا سکے ہر چند احراز کے قابل ہی کیوں نہ ہو جیسے ایک مٹھی خاک ، ایک قطرہ پانی اور ایک دانہ گندم : اس تعریف کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی چیز مال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مادہ ہو تاکہ اس کی حیازت کی جا سکے اور اپنے قبضہ میں لیا جا سکے ۔ اس بنیاد پر اعیان کے منافع جیسے گھر میں کسونت ، مرکب پر سوار ہونا اور کپڑا پہننا مال محسوب نہیں ہوگا اس لئے کہ ان چیزوں کی حیازت ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اپنے اختیار میں لیا جا سکتا ہے اسی طرح حقوق ۔ جیسے دو دھ پلانا ، حق ولایت اس کے علاوہ دیگر حقوق حنفی مذہب میں مال نہیں ہےں۔ ۱
شافعی ، مالکی ، اور حنفی مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ منافع مال ہیں اس لئے کہ ان کے عقیدہ میں ضروری نہیں ہے کہ مال حیازت کے قابل ہو بلکہ ممکن ہے کہ اصل اور اس سے صادر ہونے والی چیزوں کی حیازت کے بعد منافع کی حیازت کی جائے ، بلا شک منافع سے صادر ہونے والی چیزوں کی حیازت کے بعد منافع بھی حیازت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔اور ان منافع کے مالک دوسروں کو اس سے استفادہ کرنے سے منع کر سکتے ہیں ، قانون گزار اور حقوق داں افراد اسی نظریہ کو اختیار کرتے ہوئے منافع کو مال محسوب کرتے ہیں اسی لئے مولفین حقوق اور ایجاد کی گواہی وغیرہ ان کے نزدیک معتبر ہے ۔۲
فقہا ئے امامیہ نے ہر چند مال کی بڑی وسیع تعریفیں کی ہیں مگر چوں کہ زکات کو صرف نو چیزوں میں واجب قرار دیا ہے اس لئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف انھیں نو چیزوں کی زکات وصول کی تھی اور بقیہ چیزوں کو معاف کر دیا تھا لہٰذا اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
----------------------------------------------
۱۔یوسف قرضاوی ، فقہ زکات ( بیروت ، موسسہ الرسالة ، ۱۴۱۲ ء ھ) ج / ۱ ص ۱۲۴
۲۔یوسف قرضاوی ، فقہ زکات ( بیروت ، موسسہ الرسالة ، ۱۴۱۲ ء ھ) ج / ۱ ص / ۱۲۵
امامیہ مذہب کے نظریہ کے مطابق جن نو چیزوں پر زکات واجب ہے وہ یہ ہیں ۔ ۱: تین قسم کے حیوانات ( اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری ) ۲: غلات اربعہ ( گیہوں ، جو ، خرما اور کشمش ) ۳: سونا چاندی کے سکے بنا بر قول صحیح تر ۔ ان کے علاوہ دیگر چیزوں میں زکات واجب نہیں ہے بلکہ اکثر فقہا کی نظر میں باقی چیزوں میں زکات مستحب ہے ۔ ۱
مگر ہاں فقہ امامیہ میں خمس کا موضوع بہت ہی وسیع اور بر تر ہے جب کہ فقہائے اہل سنت خمس کو صرف غنائم جنگی میں قرار دیتے ہیں ۔ امامیہ فقہ نے اس موضوع کے تحت غنائم جنگی کے علاوہ خمس کو معدن ، جو مال سمندر میں غوطہ لگا کر نکالا جائے ، مال حلال جو مال حرام میں مخلوط ہو جائے ، وہ زمین جو کافر ذمی مسلمان سے خریدے اور دیگر منافع چاہے تجارتی ہوں یا غیر تجارتی سب میں شامل کیا ہے ۔
سید مرتضیٰ زکات کے نو چیزوں میں منحصر ہونے کا سبب اس طرح بیان کرتے ہیں : ہمارے مذہب کی صحت پر اجماع کے علاوہ جو چیز دلالت کرتی ہے وہ اصل برائت ذمہ ہے یعنی انسان زکات سے بری الذمہ ہو اوریہ ادلہ شرعیہ سے معلوم ہو گا کہ کن چیزوں میں زکات واجب ہے ، جن چیزوں میں فقہ امامیہ نے زکات کو واجب قرار دیا ہے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ان چیزوں کے علاوہ پر کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ، پس اصل برائت اپنی جگہ باقی ہے جس کی دلیل خدا وند عالم کا قول ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ” ولا یسئلکم اموالکم “ یعنی خدا تمھارے اموال میں کوئی حق واجب نہیں کرے گا اس لئے کہ خدا وند عالم لوگوں کے مال میں سے کچھ نہیں چاہتا مگر کسی خاص وجہ سے اور آیت کا ظاہر اموال میں کسی حق کے واجب ہونے سے منع کر رہا ہے اور جو چیزیں اس اصل برائت سے خارج ہوئی ہیں وہ قطعی دلیل ہونے کے سبب خارج ہوئی ہیں ان کے علاوہ باقی چیزیں اسی ظاہر کے ما تحت باقی ہیں ۔ ۲
فقیہ اہل سنت میں جناب ابن حزم نے بھی اسی طرح کا استدلال کرکے زکات کو صرف آٹھ چیزوں میں منحصر جانا ہے وہی آٹھ چیزیں جس کی زکات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وصول کرتے تھے ” اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ، گیہوں ، جو ، خرما اور سونا چاندی مگر کشمش کی زکات کے لئے ابن حزم کے نزدیک کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہوئی ہے ۔ ۳
----------------------------------------------
۱۔ شیخ مفید ، مقنعہ ، ص / ۲۳۲ ، شیخ طوسی ، الاقتصاد ، ص / ۲۷۶، النجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص / ۶۵ ، ۲۔ طباطبائی یزدی ، العروة الوثقی ، ج / ۴ ص / ۲۸ و امام خمینی ، تحریر الوسیلة ، ج / ۲ ص / ۱۰
۲۔ سید مرتضیٰ ، الانتصار ، چاپ شدہ در سلسلة الینابیع الفقیہہ ، ( بیروت الدار الاسلامیہ ، ۱۴۱۰ ء ھ / ۱۹۹۰ ء ء ) ص / ۷۳
۳۔ ابن حزم اندلسی ، المحلی ( بیروت دار الفکر ) ج / ۵ ص / ۲۰۸
اب ہم مذاہب پنجگانہ اور اہل سنت کے جدید نظریات کو ان اموال کے بارہ میں جن کی دستہ بندی ثروت کے عنوان سے ذیل میںکی گئی ہے بیان کرتے ہیں :وٴ
۱ ) ۔ کھیتی سے ملنے والی ، جس میں غلات اربعہ اور زراعت سے حاصل ہونے والی بقیہ چیزیں شامل ہیں ۔
۲ ) ۔ حیوانی ثروت ، جس میں اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری، چرنے والے گھوڑے شہد اور حیوانات سے حاصل ہونے والی چیزیں شامل ہیں ۔
۳ ) ۔ نقدی ، جس میں سونے چاندی کے سکے ، نوٹ ، سونے چاندی کے زیور اور غیر تزئینی سونا چاندی شامل ہے ۔
۴ ) ۔ تجارتی ثروت ، جس میں تجارتی اموال شامل ہیں ۔
۵ ) ۔ جنگی ثروت ، جس میں مال غنیمت شامل ہے ۔
۶ ) ۔ ثروت مخلوط با حرام جس میں ہر طرح کا حلال مال جو حرام میں مخلوط ہو جائے شامل ہے ۔
۷ ) ۔ معدن ، جس میں خزانہ ، سونے چاندی کی کان اور دیگر کانیں شامل ہیں ۔
۸ ) ۔ دور حاضر کی ثروت ، جس میں مستغلات ( ہر وہ ملکیت جس میں آمدنی ہو ) ، عمارتیں ، زمینی ، ہوائی اور دریائی سواریاں ( جیسے موٹر کار ، ہوائی چہاز اور پانی کے جہاز وغیرہ ) کا رخانے ، کمائی کے منافع اور قرعہ اندازی سے حاصل ہونے والے فائدے و غیرہ شامل ہیں ۔
اول :۔ زراعت کے ذریعہ حاصل ہونے والی ثروت
غلات اربعہ ( جو گہیوں ، کشمش اور خرما ) پر زکات کے وجوب میں اہل سنت کے تمام مذاہب متفق ہیں ان سبھوں کا نظریہ یہ ہے کہ اگر بارش کے پانی سے کھیتی ہوئی ہے تو عُشر۱۰ / فیصد اور اگر سنچائی سے ہوئی ہے تو ۵ فیصد یعنی نصف عُشر زکات واجب ہے ۔
حنفی مذہب کے علاوہ اہل سنت کے سارے مذاہب غلات اربعہ میں حد نصاب کو معتبر جاتے ہیں ، حد نصاب ۵ / وسق ہے اور ہر وسق۶۰ صاع ہے ، جو مجموعا ۹۱۰ کلو گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے اس سے کم میں زکات واجب نہیں ہے مگر حنفی مذہب میں اس مقدار سے کم ہو یا زیادہ زکات واجب ہے ۔غلوں اور زراعت کی نوعیت میں ہر مذہب میں اختلاف ہے حنفی کہتے ہیں ، سبزی ، نرکٹ اور لکڑی کے علاوہ زمین سے نکلنے والی تمام چیزوں میں زکات واجب ہے ۔
----------------------------------------------
وٴ ان نظریات کا مقصد جدول نمبر ۲ میں ذکر کیا گیا ہے
مالکی اور شافعی کہتے ہیں زکات ان تمام چیزوں میں واجب ہے جنھیں انسان سال بھر کے خرچہ کے لئے ذخیرہ کرتا ہے جیسے گیہوں ، جو خرما اور کشمش ، حنبلی کہتے ہیں : ہر وہ چیز جو تولی اور وزن کی جائے اس میں زکات
واجب ہے ۔ ۱
لیکن امامیہ کے نظریہ کے مطابق زکات صرف غلات اربعہ ، گیہوں ، جو ، خرما اور کشمش میں حد نصاب تک پہنچنے کے بعد واجب ہے اس کے علاوہ میں واجب نہیں ہے ، ہاں مستحب ہے ۔ ۲
دوم : ۔ حیوانات
انعام ثلاثہ
مالکی مذہب کے علاوہ دیگر تمام مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ سائمہ ( چرنے والے جانور ) اور نصاب کی شرط کے ساتھ تین قسم کے حیوانات میں زکات واجب ہے وہ یہ ہیں ( اونٹ ، گائے ( بھینس بھی شامل ہے ) پھیڑ ( بکری بھی شامل ہے ) مگر مالکی مذہب میں سائمہ ( چرنے ) کی شرط نہیں ہے ، اس نظریہ کے مطابق زکات ان تین قسموں میں واجب ہے چاہے سائمہ ہوں یا غیر سائمہ ۔
سبھی مذاہب اس بات پر متفق القول ہیں کہ گھوڑا ، خچر اور گدھے میں زکات واجب نہیں ہے ، مگر یہ کہ مال التجارة ( تجارت کے مال ) کا جزو قرار پائیں ۔ ۳ ، مگر حنفی مذہب گھوڑے اور گھوڑی میں دو شرط کے ساتھ زکات واجب جانتے ہیں شرط اول سائمہ ہو ( چرنے والے ) شرط دوم نسل بڑھانے کے لئے گلہ کی دیکھ بھال کی
جا رہی ہو ۔ ۴
شہد اور حیوانی محصولات کی زکات
حنفی اور حنبلی مذاہب میں شہد میں ۱۰ فیصد زکات واجب ہے ، مالکی اور شافعی مذہب شہد میں زکات کے
----------------------------------------------
۱۔ عبد الرحمن جزیری ہمان ، ص /۶ ۶۱ و ۶۱۹ ، یوسف قرضاوی ، ہمان ، ص / ۳۴۱ و ۴ ۳۵ ، ابن رشد ، ہمان ، ص / ۲۵۳ و محمد جواد مغنیہ ، الفقہ علی المذاہب الخمسہ ، ( بیروت داالجواد ، ۱۴۰۴ ء ھ / ۱۹۸۴ ء ء ) ص / ۱۷۳ ۔
۲۔شیخ مفید ، مقنعہ ، ص / ۲۸ ، شیخ طوسی النہایة ، ص / ۱۱۴ و ۱۱۵ ، محقق حلی شرائع الاسلام ، ص / ۳۵۷ و ۳۵۸ ، نجفی ، جواہر الکلام ، ج / ۱۵ ص/ ۶۹ ، طباطبائی یزدی ، العروة الوثقیٰ ، ج / ۲ ص/ ۲۸۸ و امام خمینی ، تحریر الوسیلہ ، ج / ۱ ص/ ۳۰۶
۳۔ ابن رشد ، ہمان ، ص / ۲۵۱ ، یوسف قرضاوی ، ہمان ، ص / ۳ ۲۲،محمد جواد مغنیہ،ہمان ، ص / ۱۶۹۔
۴۔محی الدین نووی ، ہمان ، ج / ۵ ص / ۳۳۹
قائل نہیں ہیں۔ قرضاوی تمام مذاہب کے نظریوں کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں شہد مال ہے اور اس کے ذریعہ تجارت کی جاتی ہے لہٰذا اس میں زکات واجب ہے ۔۱
سوم : نقدی ثروت
سونے چاندی کا سکہ اگر حد نصاب تک پہنچ جائے اور ایک سال تک باقی رہ جائے تو تمام مذاہب کے نزدیک اس میں زکات واجب ہے ، چوں کہ اہل سنت کے چارو مذاہب سکہ ہونا شرط نہیں سمجھتے لہٰذا وہ سونے چاندی کے بسکٹ اور ظروف میں بھی زکات کو واجب سمجھتے ہیں لیکن زیور وغیرہ میں صرف حنفی زکات کو واجب جانتے ہیں و مالکی ، شافعی اور حنبلی واجب نہیں جانتے ۔ ۲
فقہائے امامیہ چوں کہ سونے چاندی میں زکات کے واجب ہونے میں سکہ رائج الوقت کو شرط سمجھتے ہیں لہٰذا سونے چاندی کے بسکٹ ، ظروف اور زیور وغیرہ میں زکات کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ۔ ۳
کاغذی پیسہ ( نوٹ ) اور دوسرے پیسے
اہل سنت کے چارو مذاہب کے اکثر فقہا رائج روپئے اور پیسے میں زکات کے وجوب کے قائل ہیں اس لئے کہ ان کی نظر میں روپیہ اور نوٹ نے معاملات میں سونے چاندی کی جگہ لے لی ہے ، شافعی کی نگاہ میں نوٹ اور روپئے کے ذریعہ معاملہ کرنا گویا بینک پر حوالہ ( Order) ہے اس حوالہ کی قیمت کے اعتبار سے انسان اس ورق کا مالک بن جاتا ہے جو بینک کے ذمہ قرض ہے اور بینک مدیون ہے اور جب بھی ان اوصاف کے ساتھ مدیون ہوگا تو اس قرض کی زکات فورا ًاور حالا واجب ہے ۔
حنفی فقہا کہتے ہیں کہ کاغذی روپئے قوی قرض کی مانند ہےں اور انھیں فورا چاندی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے پس اس کی زکات بھی فورا واجب ہے ، مالکی فقہا کہتے ہر چند کاغذی روپئے قرض کی سند ہے مگر چوں کہ اسے فورا چاندی میں تبدیل لیا جا سکتا ہے اور معاملات میں اس نے سونے کی جگہ لے لی ہے لہٰذا شرائط کے ہوتے ہوئے اس میں زکات واجب ہے ۔
----------------------------------------------
۱۔ ، یوسف قرضاوی ، ہمان ، ص / ۴۲۵ و ۴۲۷۔
۲۔ ابن رشد ، ہمان ، ص / ۲۵۱ و عبد الرحمن جزیری ہمان ، ص /۶۰۱ و ۶۰۲
۳۔شیخ مفید ، مقنعہ ، چاپ شدہ در : سلسلة الینابیع الفقہیہ ، ( بیروت ، دار التراث ۱۴۱۰ ء ھ / ۱۹۹۰ ء ء ) ج / ۵ ، ص / ۲۷ و ۲۸ ، شیخ طوسی النہایة ، چاپ شدہ در ہمان، ص / ۱۱۴ ، محقق حلی ، شرائع الاسلام ، چاپ شدہ در ہمان ص / ۳۵۶ ، طباطبائی یزدی ، العروة الوثقیٰ ، ( تہران المکتبة العلمیة العلمیة الاسلامیة ، ۱۳۶۳ ) ج / ۲ ص/۶۰۹ و امام خمینی ، تحریر الوسیلہ ، ( موسسہ تنظیم و نژر آثار امام خمینی ، ۱۴۲۱ ئھ / ۱۳۷۹ ء ) ج / ۱ ص/ ۳۰۴
ان لوگوں کے نظریات کی بنیاد پر اسکناس ( نوٹ ) میں یہ قابلیت ہے کہ بغیر کسی مشکل کے اس کا چاندی سے معاوضہ ہو سکتا ہے لہٰذا یہ امر معقول نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس نوٹ ہو اور حد نصاب کے برابر چاندی سے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہو مگر اس میں سے زکات نہ نکالیں ۔
نتیجہ میں اہل سنت کے تین مذاہب ، شافعی ، مالکی اور حنفی کے فقہا کا نوٹ اور چک میں وجوب زکات پر اجماع قائم ہے صرف حنبلی مذہب والے اس مسئلہ میں مخالف ہیں ان کا کہنا ہے کہ نوٹ اور کاغذی پول میں زکات واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اسے سونے چاندی میں تبدیل کر دیا گیا ہو اور زکات کی دیگر شرطیں بھی اس سونے چاندی میں موجود ہوں ۔ ۱
ان تمام اقوال کی اصل یہ ہے کہ یہ اوراق اور چک ، صادر کرنے والے بینک پر قرض کی سند ہیں اور اس کی قیمت کے برابر فورا چاندی میں بدل جائیں گے نتیجةً ان کی زکات بھی واجب فوری ہے مگر حنبلی کے مذہب کے نزدیک اگر یہ تبدیل کرنا عمل میں آئے تو زکات واجب ہے ورنہ واجب نہیں ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل مرکزی بینک نے نوٹ کو سونے چاندی میں بدلنے کا اقرار نامہ ختم کر دیا ہے اب بدلا نہیں جا سکتا لہٰذا ان سارے فتووٴں کی اصل در ہم برہم ہو جاتی ہے ۔
مگر امامیہ مذہب میں زکات کے نو چیزوں میں منحصر ہونے اور آج کل کے روپئے پیسے کے مسکوک سونا چاندی نہ ہونے کی وجہ سے نوٹ اور چک میں زکات واجب نہیں ہے بلکہ اس مذہب میں خمس منافع کسب کا عنوان ایسا ہے جو ہر طرح کی در آمد کو شامل ہے