وحدت اسلامی امام خمینی ره کی نظرمیں

Rate this item
(0 votes)

ن . اسماعيل

مقدمہ

''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا'' خداوند سورۂ آل عمران میں ارشاد فرما رہا ہے کہ ''خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو'' اس مقالہ میں اتحاد مسلمین کو امام خمینی کی نظر سے بیان کررہی ہوں۔ جس طرح حیات و بقا ایک جامعہ و معاشرہ میں ضروری ہے اسی طرح اتحاد اس کے اعضا وہ جامعہ کہلاتا ہے۔ اگر اتحاد ان کے درمیان نہ ہو تو وہ جامعہ زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جو بزرگان عوام کو وحدت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس مقالہ میں امام خمینی کی نظر سے اتحاد کو بیان کیا ہے.

جامعہ میں وحدت

امت مسلمہ کی یکسوئی اور مسلمان فرقوں کا اتحاد با بصیرت علمائے اسلام کی دیرینہ آرزو رہی ہے، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ اس میں یکجہتی کی ایک وجہ استعماری قوتوں کی عسکری، اقتصادی اور سیاسی یلغار کے سامنے متحدہ اسلامی محاذ کا قیام ہے، اسی لئے گزشتہ ایک دو صدیوں کے دوران دشمن کا ہجوم جتنا وسیع تھا اتنا ہی وحدت و یکجہتی کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وحدت کے داعیوں کے فریادیں زیادہ بلند ہوئی ہیں۔ آج جبکہ مغرت کی سپر طاقتوں اور دوسری استعماری طاقتوں کے براہ راست مغربی حملے ختم ہوگئے ہیں، پیچیدہ اور نت نئے طریقوں سے سیاسی و معاشرتی اور ثقافتی غلبے کا وقت آپہنچا ہے اور اسلامی ممالک پہلے سے زیادہ استعماری طاقتوں کی وسیع ثقافتی اور اقتصادی یلغار کی پالیسی کی زد میں ہیں۔

گزشتہ چند عشروں کے دوران اٹھنے والی وحدت و یکجہتی کی آوازیں ہر زمانے سے بلند ترین لیکن وحدت کے مختلف تصورات اور دنیا میں ابھرنے والے اس دینی سیاسی مفہوم کے مختلف نمونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی اتحاد کے نظریئے کے سامنے ابھرنے والے بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمان مفکرین کے گفتار و کردار میں وحدت کا کوشا تصور تھا؟

اور کیا ان سب کا وحدت کے بارے میں نظریہ یکسان تھا یا ان کی فکر و عمال میں اس دینی سیاسی مفہوم کی مختلف اقسام پائی جاتی تھیں؟ اس صورت میں کونسے نظریئے کو پسندیدہ اور حقیقت پسندانہ قرار دے سکتے ہیں اور کوشانظریہ افراط و تفریط اور ناپسندیدہ نظر آتا ہے، اس سلسلے میں تحقیقی حلقوں کا ایک لازمی اور اولین قدم اسی قسم کی تحقیقات اور ابحاث میں کہ جو وحدت کے اس پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس لئے کہ وحدت کے بعض نظریات کا خطرہ جو آہستہ آہستہ مذہب کے زوال کا سبب بنتے یہں جدائی اور تفرقہ و انتشار سے کم نہیں ہے جس نے برسوں تک امت مسلمہ کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

میدان وحدت میں بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام خمینی کا نظریہ افراط و تفریط سے دور ہے اور امام کے دیگر نظریات کے طرح یہ بھی منزل کے متلاشیوں کے لئے چراغ راہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا وحدت کے بارے میں امام خمینی کے عملی پہلوئوں سے اس مقالے کا ماحصل قرار دیں گے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:''و من یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔'' ((سورۂ آل عمران، آیت١٠١))

اور جو شخص خدا سے وابستہ ہو وہ ضرور سیدھی راہ پر لگا دیا گیا ہے۔

اس آیت میں ''اللہ'' کے محور پر اتحاد کی حقانیت پر زور دیا گیا ہے۔

تضادات کے درمیان سے نظریہ وحدت سے مراد یہ ہے کہ مختلف موضوعات میں یکطرفہ، ایک پہلو والا اور افراط یا تفریط پر مبنی رجحان ہوسکتا ہے۔ حضرت امام خمینی کے نظریات و افکار کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے متضاد اور معارض موقف یکجا کئے ہیں اور حضرت امام خمینی کے طرز فکر میں ان تضادات کے درمیان وحدت پیدا ہوگئی ہے۔

امام خمینی کی سیرت و کردار اور ان کا پسندیدہ تصور اتحاد

حضرت امام خمینی ان چند مفکرین میں سے ہیں جو اپنی فکری زندگی کی ابتداء سے انتہا تک اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے رہے۔ انہوں نے عملی زندگی میں بھی وحدت کے حصول کی راہیں ہموار کیں اور اس سلسلے میں موثر قدم اٹھائے۔ امام خمینی کی دعوت اتحاد صرف مسلمان اقوام کے اتحاد تک محدود نہیں تھیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر مختلف میدانوں میں اسے کامیابی کی کلید سمجھتے تھے، ان مواقع پر وحدت کا تصور بھی یکساں نہیں تھا ان میں فرق بھی پائے جاتے تھے۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے:''و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا'' ((آل عمران١٠٣))

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ پیدا نہ کرو۔

رسولخدا ۖ نیز اہمتی وحدت کے مقابل میں جاہل ہونے کے (یعنی تفرقہ) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:''من فارق الجماعة مات میتة جاہلیة۔'' ((مرتضیٰ فرید تنکابنی، رہنمای انسانیت، ص١٧٤))

اگر امام خمینی کے فرمودات، سیاسی اور اجتماعی رفتار پر دقت کریں تو ان کی باتوں سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ ان کی نظر سے وحدت صرف ایک توصیۂ اخلاقی، ایک ثقافتی و اجتماعی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ بہت بڑے اور بہترین روش سیاسی جوامع اسلامی کی قدرت و طاقت کے لئے دشمن سے مقابلہ کے لئے یہی دلیل ہے کہ دشمنان جہان اسلام بھی سالوں سے ہے کہ جوامع اسلامی کے درمیان تفرقہ ایجاد کریں۔ دشمن اپنے اہداف پر کافی حد تک مسلط ہوچکا ہے۔ امام خمینی کے تصور وحدت پر نظر ڈالتے سے غالباً اسٹرٹیجک حکمت عملی کے تحت کیا جانے والا اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن میدانوں میں امام خمینی اتحاد و یکجہتی کے خواہاں نظر آتے ہیں ان میں بعض اس طرح ہیں:

١۔ معاشرتی طبقات میں اتحاد: یعنی علمائے کرام، سیاسی، اجتماعی اور مذہبی جماعتوں، دانشوروں، تاجروں، مزدوروں اور عوام و حکومت وغیرہ کے طبقات کے درمیان اتحاد۔ امام خمینی نے فرمایا: آپ کو معلوم ہے جس بات نے اس تحریک کو کامیاب بنا دیا وہ ایمان تھا اور مومنین آپس میں جس طرح قرآن مجید نے فرمایا مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے (انما المومنون اخوہ) ((سورۂ حجرات، آیہ١٠)) حضرت امام خمینی آسمانی عہد و پیمان کی بنیاد پر اخوت اور بھائی چارے کی تاکید کرتے ہوئے اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ان میدانوں میں حضرت امام خمینی سب سے بڑھ کر اخوت کے معنوں میں اسٹرٹیجک اتحاد چاہتے تھے اور اتحاد قائم کرنے کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے اور ملکی امن و سلامتی اور اسلامی نظام کی ترقی اور پیشرفت کے لئے اس قسم کے اتحاد کے قیام کو ضروری سمجھتے تھے اور وہ زیادہ تر شیطانی وسوسوں اور ذاتی اغراض و مقاصد کو ان اختلافات کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور وحدت و یکجہتی کے حصول کے لئے تزکیہ نفس کی تلقین فرماتے تھے۔

امام خمینی اپنے دورِ ذمہ داری میں اس طرح کی وحدت کی تلقین فرماتے رہے اس سلسلے میں وہ معاشرتی طبقات اور سیاسی حکام کو متنبہ کرتے رہتے اور بعض مراحل پر ان کی سرزنش کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ایک مقام پر گورنروں سے مخاطب ہوکر امام نے فرمایا:''گورنر صاحبان کو آپس میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے ساتھ بھی انہیں یک دل ہونا چاہئے اس لئے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خداوند عالم کے فضل و کرم اور اس قوم کی وجہ سے ہے۔آپ کو متحد ہونا چاہئے تاکہ آپ محفوظ رہیں۔ آپ کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اور اس بات کا دھیان رہے کہ تفرقہ انگیز باتیں کرنا گناہ کبیرہ ہے اور مشکل ہے کہ خدا اسے بخشے چاہے ہمارے دشمن اس طرح کی باتیں کریں یا ہمارے دوست اور چاہے ایسی بانی تقدس اور شرافت کے دعویداروں کے منہ سے نکلیں یا ان لوگوں کے جو اس قسم کے دعوے نہیں کرتے۔''

جب امام خمینی کے دفتر کے ایک رکن نے معاشرے میں ابھرنے والے دو قسم کے فکری سیاسی گروہ کے نظریات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے دونوں گروہ کی سرگرمیوں کو نہ صرف نادرست اور غیر نقصاندہ قرار دیا بلکہ علمائے سلف کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''اسلام کے عظیم فقہاء کی کتابیں، مختلف عسکری، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور عبادی موضوعات پر اختلاف آراء و روش اور مفاہیم میں اختلاف سے پُر ہیں۔ اسلامی حکومت میں ہمیشہ اجتہاد کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے اور حکومت اور انقلاب بھی یہی ہے کہ مختلف شعبوں میں فقہی اجتہادی آراء چاہے ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں آزادانہ طور پر پیش کی جائیں اور کسی کو اس سلسلہ کو روکنے کا حق نہیں پہنچتا ہے۔'' ((صحیفۂ نور، ج٢١، ٤٦، ٢٧)) مختصراً کہہ سکتے ہیں کہ امام خمینی کی نظرمیں پسندیدہ وحدت مکمل عملی اتحاد اور تمام سرکاری اداروں اور عہدیداروں کے فعل و عمل میں ہم آہنگی اور اسلام و انقلاب کے بنیادی اصول میں فکری یکسوئی ہے۔

٢۔ مخالفین کو امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد کی دعوت: ملحد و منافق عناصر اور اسلامی حکومت کے مخالفین بھی امام خمینی کی پند و نصیحت سے بے بہرہ نہیں تھے۔ اگرچہ عام طور پر ان کے کانوں پر مہر لگی ہوئی تھی اور انہیں اس پند و نصیحت کو قبول کرنے کی توفیق حاصل نہیں تھی۔ ان گروہوں کو کی جانے والی امام خمینی کی تلقینوں میں امت مسلمہ کے ساتھ اتحاد اور عوام کی صفوں میں شامل ہونا تھا جس نے امام خمینی کے نظریات کو قبول کرلیا تھا۔ یہ دعوت نظریاتی اتحاد ہے اسٹرٹیجک اتحاد نہیں ہے اور مصلحت اسی میں تھی کہ ان عناصر کو غلط راستوں پر بھٹکنے سے روکا ہے۔

امام خمینی کی اصلاحات

امام خمینی کی اصلاحات کے مصادیق یعنی شیعہ سنی اتحاد کے حوالہ سے وحدت کے نظریئے فرض اور نتیجے کی اصالت کے حوالے سے وحدت کے نظریئے اور ولایت مطلقہ اور ملت کے حقوق کے حوالہ سے وحدت کے نظریئے کا جائزہ لیں گے۔

١۔ شیعہ سنی تضاد کے حوالہ سے وحدت کا نظریہ: شیعہ سنی کے درمیان گہرا اختلاف پایا جاتا ہے جوکہ نظریاتی بھی ہے۔ یہ اختلاف خواص اور علماء کے درمیان ہے اور عملی طور پر بھی یہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ امت اسلامیہ کی بہت ساری صلاحیتیں اسی اختلاف پر صرف ہوچکی ہیں۔ البتہ اس سلسلہ میں غیروں کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

شیعہ سنی مسئلہ کے بارے میں حضرت امام خمینی کا موقف کیا تھا؟ اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے امام خمینی کے سیاسی وصیت نامہ کی طرف رجوع کررہے ہیں کیونکہ آپ کا وصیت نامہ اس کی وضاحت کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں تمام دنیائے اسلام کو مخاطب فرمایا ہے۔ وصیت نامہ میں آپ کا خطاب کسی خاص اسلامی فرقے سے نہیں ہے بلکہ تمام فرقوں سے ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔

امام خمینی کے وصیت نامہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ نے اس کا آغاز حدیث ثقلین (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی) سے کیا ہے۔ عموماً جو لوگ اہل سنت کو مغلوب کرنا اور ان کے خلفاء کو نااہل ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اس حدیث سے تمسک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسولۖ کے غسل کا پانی خشک نہیں ہوپایا تھا کہ انہوں نے عترت کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام خمینی ایک طرف اتحاد بین المسلمین کے قائل ہیں اور دوسری طرف اس حدیث سے اپنے وصیت نامہ کا آغاز کیا جبکہ حدیث ثقلین کی تاکید قرآن اور عترت کے بارے میں ہے کہ شیعہ اس سے اہل سنت پر غلبہ حاصل کرے۔

امام خمینی کا وصیت نامہ احیا کا سرچشمہ ہے کہ اس کے شروع میں حدیث ثقلین بیان کرنے سے امام خمینی کا مقصد مکمل اسلام کی تاکید اور اسلام کے ابتدائی اندرونی مأخذ کے بارے میں تاکید، سنت نبویۖ کے احیائ، قرآن و عترت کی کم پرسی کے تذکرہ ان عظیم ماخذوں سے استفادہ نہ کرنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کے بیان اور اس خوش خبری سے عبارت ہے کہ انقلاب اس لئے برپا کیا ہے کہ دین کے احیا کے ساتھ قرآن و عترت کو کسمپرسی کی حالت سے باہر نکالے۔

اسلامی حکومتوں کے بارے میں امام خمینی کا فرمان

اسلامی حکومتوں کو ایک ہی حکومت کی طرح ہونا چاہئے ایسا ہونا چاہئے کہ جیسا ان کا معاشرہ ایک ہے اس لئے کہ ان کا پرچم ان کی کتاب ایک ہے اور ان کا پیغمبر ایک ہے۔ ان کو ہمیشہ متحد رہنا چاہئے، ایک دوسرے کے ساتھ ہمہ گیر مفادات رکھنے چاہئیں اور اگر یہ مقاصد حاصل ہوجائیں اور ہر لحاظ سے اسلامی حکومتوں کے درمیان اتحاد وجود میں آئے تو وہ اپنے مسائل پر قابو پاسکتی ہیں۔ ((صحیفۂ نور، ج٤، ص٣٧))

حضرت امام خمینی نے اپنے حقیقت پسندانہ مقاصد کو اپنے سیاسی الٰہی وصیت نامہ میں ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کی صورت میں پیش کیا ہے جس میں آزاد اور خود مختار جمہوریں ہوں۔ ((در جستجوی راہ امام از کلام امام، ص٦٦٥))

ایک اور مقام پر امام خمینی نے فرمایا:''سرحدیں ضرور جدا ہوں لیکن دلوں کو ایک ہونا چاہئے اگر مسلمان اپنی سرحدوں کو قائم رکھتے ہوئے متحد ہوجائیں اور ان کے دلوں ایک ہوں تو ان کی بہت بڑی آبادی بن جائے گی۔''

امام خمینی نے امت مسلمہ کے مختلف طبقات اور اسلامی مفکرین کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ لوٹانے کے لئے اپنے فرمان میں فرمایا کہ ہم کہتے ہیں کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں، تمام مسلمان آپس میں متحد ہوجائیں، ہمارے نہ کسی اور کے ساتھ خصوصی روابط ہیں اور نہ ہی آپ کے ساتھ، بلکہ ہمارا سب کے ساتھ رابطہ ہے۔ ہم آپ سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوں تو ہمارے نزدیک تمام مسلمان عزیز ہیں، ہم امت مسلمہ کے افراد کو محترم سمجھتے ہیں چاہے وہ ترکی ہوں یا عربی ہوں اور عجمی، چاہے ان کا تعلق امریکہ سے ہو یا کسی اور جگہ سے۔

امام خمینی کے گفتار و کردار میں پایا جانے والا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے کہیں بھی دینی اصولوں سے دستبردار ہونے کا ذکر نہیں کیا ہے اور عملی میدان میں فیصلہ اور حکمت عملی وضع کرنے اور اسی طرح کے دیگر مراحل میں وحدت کی دعوت دیتے تھے، اس کے برعکس ضروری مواقع پر وہ اپنے دس سالہ دور ولایت و حکومت میں مذہبی اصول کا تذکرہ کرتے اور ان کو دل کی گہرائیوں سے حفاظت پر زور دیتے رہتے تھے۔

تاہم امام ان باتوں سے ناراض ہوتے تھے جو دوسرے مسلمان فرقوں کی دل آزاری کا باعث بنتی تھیں اسی بناپر وہ متعصف افراد کے بعض آداب و رسوم کو پسند نہیں کرتے تھے۔ غرض یہ کہ امام خمینی کے نظریہ اتحاد میں اصولوں سے انحراف نہیں پایا جاتا تھا۔

امام خمینی کے ان فرمودات و آیات قرآنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر سب مسلمان متحد ہوجائیں تو دشمن کبھی ان مسلمانوں کو ضرر نہیں پہنچائے گا اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک فرد تنہا ہو تو دشمن اس کو بآسانی نقصان پہنچا سکتا ہے مگر یہ فرد ملت کی صورت اختیار کرلے تو کبھی بھی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اور یہ سبب بن جاتا ہے کہ اگر بین المسلمین اتحاد قائم ہوجائے تو دشمن کو بآسانی شکست دے سکتے ہیں اس بارے میں علامہ اقبال کا شعر لکھتی چلوں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا اور بیرون دریا کچھ نہیں

کیونکہ مختلف فرقوں کے درمیان اس طرح کی وحدت و یکجہتی نہ عملی ہوسکتی ہے اور نہ ہی پسندیدہ وسیع پیمانے پر نظریاتی اتحاد کے حصول کے لئے کم از کم دو قسم کے شرائط کا خیال رکھیں؛ سیرت معصومین سنت نبویۖ اور بیان وحی الٰہی کی روشنی میں بعض محدود مراحل کو چھوڑ کر عام حالات میں کفار کے مقابلے میں اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی وحدت کی اپیل کی گئی ہے جسے (وحدت نبویۖ) کا نام دے سکتے ہیں۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص بھی امت محمدۖ کی جماعت بندی اور اتحاد باہمی کا خواہش مند نہیں ہے جس سے میری غرض صرف حسن ثواب اور آخرت کی سرفرازی ہے۔ میں نے جو عہد کیا ہے اسے پورا کرکے رہوں گا اگرچہ تم اس نیک خیال سے کہ مجھ سے آخری ملاقات تک تمہارا تھا اب پلٹ جائو۔ ((نہج البلاغہ، صبحی صالح، نامہ ٧٨))

اتحاد؛ پیروزی و کامیابی

اتحاد اگر ہو تو یہ ان لکڑیوں کی مانند ہیں کہ اگر ان لکڑیوں کو جمع کیا جائے تو کوئی بھی ان کو جدا نہیں کرسکتا۔ اگر فقط ایک لکڑی ہو تو بآسانی اس کو توڑ سکتے ہیں۔ میں اس میں اس قصہ کو بیان کرتی چلوں یہ قصہ بہ ظاہر عام اور نامفہوم سا لگتا ہے مگر اس کی گہرائی میں جائیں تو واقعاً ہمارے لئے ایک بہترین سبق موجود ہے۔ ایک بوڑھا آدمی آدمی جس کے پانچ بیٹے تھے ہمیشہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تھا ۔ ایک دن ان کے والد نے ان سے کہا اور ان کے ہاتھوں میں ایک ایک لکڑی دی اور کہا کہ اس کو توڑو۔ انہوں نے بآسانی اس کو توڑ دیا مگر لکڑیوں کو جمع کرکے کہا کہ ان لکڑیوں کو توڑو تو کوئی بھی ان لکڑیوں کو نہیں توڑ سکا۔ بعد میں ان کے والد نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ متحد رہوگے تو ان لکڑیوں کے جمع کی مانند بن جائوگے اور کوئی تمہیں شکست نہیں دے سکتا اگر تمہارے درمیان اختلاف ہو تو کوئی بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں تو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اتحاد کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک بہت خوبصورت شعر بیان کرتی چلوں :

ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

وحدت رحمت و تاثیر کی منزلت میں

امام خمینی معتقد تھے کہ اتحاد و وحدت؛ تائید رحمن و الٰہی ہے اور جب متحد ہوجائیں۔ خدائے تبارک و تعالیٰ کی حمایت اور خداوند تعالیٰ کا ساتھ تمہارے ساتھ ہوگا۔ ((صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧)) اور آخر میں اپنے مقالہ کا اختتام امام علی علیہ السلام کے اس فرمان سے کرتی ہوں:''اختلاف بنیاد فکر صحیح کو درہم کردیتی ہے۔'' ((نہج البلاغہ، حکمت٢١٥)) خداوند ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں تاکہ کامیابی ہمارا مقدر بن جائے۔

نتیجہ :

پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:''جماعت اور وحدت سبب رحمت الٰہی اور تفرقہ سبب عذاب الٰہی ہے۔''

اس مقالہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعت اور وحدت خداوند کی رحمت کا سبب بنتا ہے اور اگر لوگ گروہ گروہ یا تفرقہ میں پڑ جائیں تو خدا کے عذاب کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں مقصد بزرگ و شرائع عظام کی توحید کلمہ و توحید عقیدہ جانتے تھے یہ کس چیز پر متحد ہے وحدت و اتحاد پر اور وحدت ہی ہے کہ کلمہ توحید بن سکتے ہیں۔

اس مقالہ میں نظرات امام خمینی کو بیان کای ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسلام اس لئے آیا ہے کہ تمام ملت دنیا کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے سب اگر متحد ہوجائیں تو امت بزرگ بنام امت اسلام قرار پائے اور اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد و انسجام کو برقرار رکھیں تاکہ دشمن کی ناپاک سازشیں جو ہم مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتی ہیں اس کو ہم سب متحد ہوکر ناکام بنائیں کیونکہ ہمارا خدا ایک ہے ہمارا قبلہ ایک ہے، پیغمبر ایک ہے اگر آج ہم متحد ہوجائیں تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور اسی وجہ سے مقام معظم رہبی نے ١٣٨٦ھ ش کو سال اتحاد اور انسجام اسلامی کا نام دیا تھا۔ ہم اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں اور جو ذلت و خواری گزشتہ سالوںمیں پائی اس کا جبران فقط اور فقط وحدت و اتحاد بین المسلمین ہے۔

 

توضیحات :

١۔ آل عمران، آیت١٠١

٢۔ آل عمران، آیت١٠٣

٣۔ مرتضی فریدی تنکابنی، رہنمای

٤۔ حجرات، آیت١٠

٥۔ صحیفۂ نور، جلد٢، ٤٦،٤٧

٦۔ صحیفۂ نور، ج ١٥، ص٢٢٣

٧۔ صحیفۂ نور، ج ، ص٢٧

٨۔ در جستجوی راہ امام از کلام امام، ص٦٦٥

٩۔ نہج البلاغہ، صبحی صالح، نامہ٧٨

١٠۔ صحیفۂ امام، ج٧، ص١٠٧

١١۔ نہج البلاغہ، حکمت٢١٥

Read 3179 times