نوبل انعام کی آڑ میں رجیم چینج

Rate this item
(0 votes)
نوبل انعام کی آڑ میں رجیم چینج


امریکہ نے ایک طرف وینزویلا کا فوجی محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ نیٹو نے اس محاصرے میں شدت لانے کے لیے پیچیدہ ترین مشترکہ نفسیاتی آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔ امریکہ نے عالمی رائے عامہ میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی شدید نفرت سے مجبور ہو کر اور غاصب صیہونی فوج کو مزید تباہ حالی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں امن کا نعرہ بلند کیا ہے اور یوں سفارتی طریقے سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کو ختم کر کے وہاں پوری طرح قبضہ جمانے کے درپے ہے۔ اس طرح ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے امن کا مشترکہ ڈرامہ رچانے کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور نوبل انعام ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے لاطینی امریکہ کی ایک سیاسی شخصیت کو دے دیا گیا ہے۔
 
یہ شخصیت وینزویلا سے تعلق رکھنے والی سیاست دان ماریا کورینا ماچادو ہے جو مغرب نواز ہے اور وینزویلا کے امریکہ نواز حلقوں میں بھی زیادہ جانی پہنچانی نہیں تھی لیکن نوبل انعام پانے کے بعد عالمی میڈیا میں صفحہ اول پر اس کا نام دیکھا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ وینزویلا میں ٹرمپ کے مدنظر مقاصد کے حصول کی کوشش کرے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ چند ہفتوں سے منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے بہانے وینزویلا کے قریب بھاری فوجی موجودگی ایجاد کر رکھی ہے اور یوں سمندر کے ذریعے وینزویلا کا فوجی اور اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد وینزویلا میں امریکہ مخالف حکومت کو سرنگون کرنا ہے اور قانونی طریقہ کار سے برسراقتدار حکومت کو رجیم چینج کے ذریعے گرانا ہے۔
 
اس مقصد کی تکمیل کے لیے وینزویلا میں حکومت مخالف امریکہ نواز سیاست دان ماریا کورینا ماچادو کو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ نوبل انعام کی کمیٹی کے سربراہ بورگن واتنے فریدنس نے ان کا نام اعلان کرتے ہوئے اسے "سیاسی مخالفین جو شدید باہمی اختلافات کا شکار تھے کو متحدہ کرنے والی اہم شخصیت" کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ یوں اس نوبل انعام کے ذریعے اسے وینزویلا میں امریکہ اور یورپ نواز دھڑے کے سربراہ کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت مخالف مہم چلانے کی سربراہی بھی اسے تھما دی گئی ہے۔ یہ بدامنی اور سیاسی ہلچل امریکہ کی جانب سے فوجی مداخلت کا بھی بہت اچھا بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وینزویلا کے اپوزیشن لیڈران پہلے سے ہی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں بیٹھے ہیں۔
 
کورینا ماچادو جو خود کو حکومت مخالف رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے عوام سے بہت کم رابطے میں ہے اور اس سال جنوری سے اب تک انہیں کسی نے نہیں دیکھا تھا لیکن جمعہ کے روز نوبل انعام دریافت کرنے کے بعد یکدم منظرعام پر آ گئی ہے۔ گذشتہ برس بھی یورپی یونین نے اسے اور اس کے دیگر مغرب نواز ساتھی ایڈمنڈو گونزالس کو انسانی حقوق کے "ساخاروف انعام" سے نوازا تھا اور اس طرح ان کی شخصیت میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گونزالس کو جب الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ حکومت کی طرف سے دباو کا بہانہ بنا کر اسپین چلا گیا اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ عام طور پر مغرب کے جاسوسی ادارے جب مختلف ممالک میں مغرب نواز حلقوں کو مغلوب ہوتا دیکھتے ہیں تو رجیم چینج کے لیے اپوزیشن لیڈران کا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
وینزویلا میں بھی سی آئی اے اور پینٹاگون کی ناکامی کے بعد موساد میدان میں کود پڑی اور ایران کے انقلاب مخالف دھڑوں اور سابق شاہ کے حامیوں کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ ماریا کورینا ماچادو کی شخصیت کا پرچار کریں۔ اس تناظر میں ماچادو کو واشنگٹن میں منعقدہ سالانہ چوتھی کانفرنس میں خصوصی دعوت بھی دی گئی تھی۔ اس نے اپنے ویڈیو پیغام میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر رضا پہلوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایران اور وینزویلا کو دنیا کے جنوبی حصے کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیا تھا اور یوں وقت سے پہلے ہی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کا اپنا مقصد فاش کر دیا تھا۔ اس نے کہا: "وینزویلا کی آزادی کے دنیا بھر پر اثرات ظاہر ہوں گے اور وہ دیگر معاشروں جیسے ایران کے بہادر عوام کے لیے مقدمہ ثابت ہو گا۔ ہمارا مشن مشترکہ ہے اور ہم فتح یاب ہوں گے۔"
 
البتہ توجہ رہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا انتخاب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2021ء میں روس سے دیمتری موراتف کا انتخاب، 2022ء میں بیلاروس سے ایلس بیالیاتیسکی کا انتخاب اور 2023ء میں ایران سے نرگس محمدی کا انتخاب اور اس سے پہلے 2003ء میں ایران سے شیرین عبادی کا انتخاب یہی ثابت کرتا ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں نوبل انعام کو اپنے سیاسی اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جو انارکی پیدا کرنے اور کسی ملک میں مغرب کی فوجی یا سیاسی مداخلت کے لیے زمینہ فراہم کرنے کے لیے عدم استحکام پیدا کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نوبل انعام کی کمیٹی میں اختلاف ظاہر کرنے کا مقصد بھی دراصل اس انعام کا اعتبار اور حیثیت بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو منفور کر رکھا ہے۔

تحریر: محمد زمانی

Read 9 times