حماس نے کیسے عالمی بساط بدل ڈالی ہے

Rate this item
(0 votes)
حماس نے کیسے عالمی بساط بدل ڈالی ہے
صیہونی حکومت کے ساتھ حماس کے معاہدے کے بعد خطے کی نئی صورتحال کا اندازہ موجودہ حالت کی روشنی میں لگایا جانا چاہیے۔ خطے کی وہ طاقتیں ایک نئی پوزیشن میں آگئی ہیں جنہیں محدود اور ختم کرنے کے لئے آگ بھڑکائی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب ہوا یہ ہے کہ اب اسرائیل مشکل دنوں سے گزر رہا ہے۔ حماس جسے تباہ ہونا تھا، ٹرمپ کے ساتھ دو سال کے مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی شرائط طے کر رہی ہے اور ٹرمپ اور نیتن یاہو ان شرائط کو فتح کے اشاروں کیساتھ بھی قبول کر رہے ہیں۔ حماس ایک برتر طاقت اور نئی عالمی صورتحال کا شروع کنندہ ہے۔

ایک ایسی صورتحال جو اسرائیل کے لیے ناقابل تلافی ہے۔ صیہونی ریاست کے ناجائز سمجھے جانے کے زندہ لمحے میں واپسی ہی اسرائیل کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، جو عربوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ پر گامزن تھا۔ اور سنوار شہید اب امریکی اور یورپی نوجوانوں اور نوعمروں کا ہیرو بن چکا ہے۔ لبنان پر اسرائیل اور سعودی عرب کے تمام دباؤ کے باوجود حزب اللہ کو غیر مسلح کرنیکی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔ اتفاق سے یہ واقعہ شیخ نعیم قاسم کی برتر حیثیت دکھانے کا سبب بنا، اور حزب اللہ کی افواج نے سید حسن نصر اللہ کے بعد اپنے نئے کمانڈر کو ولولہ تازہ بخشا ہے۔

اب حزب اللہ کی افواج کے یقین اضآفہ ہی ہوا ہے کہ نیا کمانڈر شہید حسن نصر اللہ کے مکتب میں ہی پروان چڑھا ہے اور وہ مشکل حالات اور بحرانوں میں حزب اللہ کی قیادت کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب، جو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ کا اصل کردار تھا، اب شیخ نعیم  قاسم کی جانب سے باوقار طور پر یکجہتی کا پیغام وصول کرنے والوں میں سے ہے۔ لبنانیوں نے بھی جان لیا ہے کہ حزب اللہ اور لبنانی فوج اپنے ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے میں لبنانی عوام کے دو دوست اور ساتھی ہیں۔ ایک اور اقدام، جس میں اسرائیلیوں نے ایران کے ساتھ جنگ ​​بھی شروع کر دی لیکن یہ ایران ہی تھا جس نے یہ شرط رکھی کہ اسرائیل ایرانی حملوں کے آخری دور کا مشاہدہ کرے گا۔

اس شرط کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ جنگ کو روکنے کے لیے آخری ضرب ایران لگائے گا اور صیہونی ریاست کوئی ردعمل ظاہر نہیں کریگی۔ جنگ کے بعد دنیا میں ایران کا مقام اور اختیار ہی بدل گیا۔ دنیا نے جان لیا کہ اگر دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں ایران کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہیں تو ایسا کرنیکی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن یمن نے عظیم سرپرائز دیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت کے پہلے ہی دنوں میں یمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا، لیکن اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی، اور اب یمن نے اکیلے ہی اسرائیل کو بے بس کر دیا ہے۔ وہ یمنی میزائلوں کو نہیں روک سکتے، وہ یمنیوں پر حملہ نہیں کر سکتے۔ وہ یمن کے زیر اثر سمندر کو عبور نہیں کر سکتے۔

بنیادی طور پر یمنیوں نے دنیا کو ایک نئے طرز زندگی سے متعارف کرایا ہے، جس کا پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اگر مزاحمتی محاذ شام کو کھو بیٹھا ہے، تو اب ان کے پاس یمن ہے، جس نے باب المندب کو اسرائیل کے لیے جہنم بنا دیا ہے۔ ترکی کو بھی شام میں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ گزشتہ مہینوں کے دوران شام میں ترکی کے ٹھکانوں پر اسرائیلیوں نے کم از کم 4 بار بمباری کی ہے۔ ترکوں کو احساس ہے کہ وہ شام میں اہم کھلاڑی نہیں ہیں اور انہیں مزاحمتی محاذ کے ساتھ اپنے معاہدے سے غداری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد خطے کے عرب ممالک نے بھی اپنے ہتھیار تھوڑے سمیٹ لیے ہیں۔

انہیں احساس ہے کہ اگر ضروری ہو تو عزت کی حفاظت کے لیے اس بے تکی عبری مغربی دوستی کا زیادہ فائدہ نہیں۔ سعودی عرب سب سے زیادہ پریشان ہے۔ شاید اسی لیے امریکہ سے زیادہ پاکستان سے دوستی کو ترجیح دی گئی ہے۔ روسیوں اور چینیوں کو بھی احساس ہے کہ اگر خطے میں اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ ایران کا تعلق کمزور ہوا تو میز پر اگلا کیس ان کا اپنا ہو گا۔ ویسے بھی روسیوں نے نیٹو کے مزید اثر و رسوخ کو روک رکھا ہے۔ ایران نے اسرائیل کو کنٹرول کیا ہے۔ چین امریکہ کو بائی پاس کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ عالمی کمانڈ روم بدل رہا ہے اور ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ایران مستقبل کے لائحہ عمل میں ایک بڑا کھلاڑی ہوگا۔ یہ سب حماس کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔
 
 
اسلام ٹائمز
Read 11 times