
سلیمانی
غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کے اثرات
1)۔ اندرونی سطح پر ظاہر ہونے والے اثرات
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ شدید سیاسی بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تک کئی وزیر استعفی دے چکے ہیں جن میں قومی سلامتی کا وزیر اتمار بن گویر بھی شامل ہے۔ بن گویر نے جنگ بندی کو حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست قرار دی ہے۔ بن گویر کے ساتھ ساتھ اس کی پارٹی کے دو دیگر وزیر، اسحاق واسرلاوف اور عامیحای الیاہو نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ بن گویر نے صیہونی وزیر خزانہ بیزلل اسموٹریچ کو بھی استعفی دینے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری طرف صیہونی فوج کے سربراہ جنرل ہرتزے ہالیوے نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ اسی طرح بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شاباک کا سربراہ بھی عنقریب اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے گا۔
ایسے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ اور اس کے بعد جنگ بندی کا غاصب صیہونی رژیم پر ایک اہم اثر حکمران طبقے میں پڑنے والی گہری دراڑ ہے۔ یاد رہے بنجمن نیتن یاہو نے 2022ء میں دائیں بازو کے انتہاپسند سیاسی رہنماوں بن گویر اور بیزلل اسموٹریچ سے مل کر اتحادی حکومت تشکیل دی تھی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس کے دو بنیادی اتحادی غزہ میں جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں اسموٹریچ اور بن گویر کا ووٹ بینک بھی کم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں تازہ ترین سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیزلل اسموٹریچ کی سربراہی میں مذہبی صیہونزم پارٹی 3.25 فیصد عوامی حمایت حاصل نہیں کر پائی جس کے باعث آئندہ الیکشن میں اسے کینسٹ میں کوئی سیٹ ملنے کا امکان نہیں ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں نیتن یاہو کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن منعقد کروائے جائیں گے۔
2)۔ علاقائی سطح پر اثرات
علاقائی سطح پر بھی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اہم ترین اثر عرب ممالک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے جب جنوری 2022ء میں نئی کابینہ تشکیل دی تو اس کا اہم ترین ہدف خطے کے عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی سعودی عرب سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بحال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدہ انجام پایا جس میں چند عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام قرار دیا ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
دوسری طرف غزہ جنگ اور اس میں صیہونی رژیم کی بربریت اور انتہائی درجہ وحشیانہ پن نے بھی عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے عمل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے ابراہیم معاہدے کے تحت اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، اسلامی دنیا میں اسرائیل کی ایک اچھی تصویر پیش کرنے کے درپے تھے۔ لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام اور نسل کشی نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے 2020ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف تھے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں امن اور استحکام کا باعث بنے گی اور اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے، لیکن غزہ جنگ کے دوران جو کچھ بھی ہوا اس نے دنیا والوں کے سامنے اسرائیل کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا۔
3۔ عالمی سطح پر سیاسی اثرات
غزہ جنگ سے پہلے، غاصب صیہونی رژیم دنیا پر مسلط مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عالمی سطح پر اسرائیل کا مثبت اور اخلاقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لیکن غزہ جنگ میں اسرائیل نے ایسے جنگی جرائم انجام دیے ہیں جو بہت واضح تھے اور حتی عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے صیہونی حکمرانوں پر فرد جرم عائد کی اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ یاد رہے کہ مختلف عالمی قانونی دستاویزات جیسے بین الاقوامی قانونی معاہدوں، کنونشنز اور منشورات میں ایسے اقدامات یقینی طور پر جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی مخالفت قرار پا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوران بڑے بڑے مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے منعقد ہوتے رہے جن میں صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات می مذمت کی گئی اور فلسطینی قوم کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
عالمی سطح پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر اسرائیل کے خارجہ تعلقات پر پڑا ہے۔ غزہ جنگ سے پہلے تمام یورپی ممالک غیر مشروط طور پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے تھے لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس تک غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام پانے کے بعد یورپی ممالک کی رائے عامہ میں اسرائیل کی حیثیت اس قدر خراب ہوئی ہے کہ اب حتی یورپی حکومتیں بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنے سے کتراتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 470 دنوں میں مختلف یورپی ممالک میں 30 ہزار سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئی ہیں۔ دوسری طرف عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے صیہونی حکمرانون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے کے بعد اب بہت سے مغربی ممالک بھی صیہونی حکمرانوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے گوشہ نشین ہو جانے کی یہ واضح دلیل ہے۔
غاصب اسرائیلی فوجیوں کے ہتھیاروں کے ساتھ فلسطین کے استقامتی محاذ کی طاقت کی نمائش
ارنا نے فلسطین کی شہاب نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ چار خاتون صیہونی جنگی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کئے جانے کی کی تصاویر میں نظرآتا ہے کہ حماس کے فوجی بازو القسام بریگیڈ اور جہاد اسلامی فلسطین کے فوجی بازو سرایا القدس کے جوانوں کے ہاتھوں میں غاصب اسرائیلی فوج کی اسپیشل فورس کے مخصوص اسلحے ہیں۔
عبرانی نیوز سائٹ " واللا" میں شائع میں ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ یہ اسلحے آپریشن طوفان الاقصی کے دوران، خاص طور پر اسرائیلی فوج کی غزہ ڈیویژن کے ہیڈکوارٹر پر القسام کے جوانوں کے حملے میں ضبط کئے گئے ہیں۔
دوسری طرف عبرانی سائٹ ایکسپریس نے رپورٹ دی ہے کہ القسام بریگیڈ کے جوانوں نے توفان کے نام سے مشہور یہ مشین گنیں، جنگی قیدیوں کے تبادلے کے وقت خاتون صیہونی جنگی قیدیوں کی سیکورٹی کے لئے ہاتھوں میں لے رکھی تھیں۔
IMI TAVOR TAR 21 مشین گن جنگی مشین گن ہے جو غاصب اسرائيلی فوج کی اسپیشل فورس کا مخصوص اسلحہ ہے اور اپنی نوعیت کی بہترین مشین گن کی حیثیت سے اس کو عالمی شہرت حاصل ہے۔
اسی سلسلے میں صیہونی حکومت کی خفیہ سروس شاباک کے ایک سابق سینیئر افسر موشے پوزیلوف نے جنگی قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر آشکارا طور پر استقامتی فلسطینی محاذ کے جوانوں کے ہاتھوں میں ان مشین گنوں کی موجودگی کو طاقت کی نمائش سے تعبیر کیا ہے۔
ماہ رجب کا آخری عشرہ اور فتح خیبر
ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ اہم مناسبتوں کو بھی سمیٹے ہوئے ہے ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اہم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔
جہاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنہیں اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انہوں نے ہمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان ِعمل میں قدم رکھا تو ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوہر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا جہاں ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھتی ہے وہیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ہوگا اور اس کے پیش ِ نظر خدا ہوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
ان ایام میں ۲۴ رجب کی تاریخ جہاں اس لحاظ سے اہم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وہیں ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے کہ ۲۲ رجب ہی کی تاریخ میں جب ایک طرف یہودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بہت ہی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ہاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یہودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لہرا سکی [۱]۔
یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ تب ہوگا جب ہم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ کے ان کرداروں کو پہچانیں گے جنہوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو انکے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نہیں کیا انکا ہر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے ہر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ہم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انہیں دنیا میں سربلند کر کے علی ع بنا دیا وہ علی ع جسکی فکر بھی بلند ، جسکا عمل بھی بلند جسکا نام بھی بلند ی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جہاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بہادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے وہیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رہا ہے ایک مناسبت وہ ہے جہاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جہاں جناب جعفر کی حبشہ سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراہٹ آئی ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے کرداروں کو پیش کر رہے ہیں لیکن جن منفی کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور انکی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہاں ہمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں صرف اس لئے پیش نہیں کیا گیا کہ ہم اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے والے لوگوں کے سیادہ کارناموں کو ہم سن کر انہیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیہودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا انکا یہ عمل لائق مذمت ہے اور انکی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ہی نہیں کہ ہم دوسروں کی ملامت کرتے رہیں ہم ہی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رہی ہے اہم یہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ آج کے خیبر میں ہم کہاں ہیں آج جب یہودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نہیں ۲۲ رجب کی تاریخ ہمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ہی تھے آج ہم کہاں پر کھڑے ہیں ؟
۲۳ رجب المرجب
۲۳ رجب کی ایک مناسبت جنگ خیبر میں ہی ایک اور نمایاں شخصیت کے پرچم ہاتھ میں لیکر یہودیوں کی طرف بڑھنے اور دشمن کو دیکھ کر بھاگ کھرے ہونے کی تاریخ ہے[۲] اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ صاحب نہ صرف جنگ سے بھاگے بلکہ دوسروں کو بھی بھاگنے کی ترغیب دلاتے نظر آئے تھے[۳] انکا کردار تاریخ نے محفوظ کر لیا ۔ جنگ خیبر میں فرار کے بعد دوسروں کو ترغیب دلانا کتنی بڑی خیانت ہے آج بھی ہمیں اپنے معاشرہ میں ایسے لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے جودشمن کے مقابل خود تو کہیں نظر نہیں آتے اور ان لوگوں کو بھی مقابلہ نہ کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں جو احساس ذمہ داری کے تحت دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔اور اپنی اس بات کی ہزاروں تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں مثلا اسلامی جمہوریہ ایران ہی کی مثال لے لیں وہ ملک جو مکمل طور پر اقتصاری ناکہ بندی کو جھیل رہا ہے چاروں طرف سے دشمنوں کے محاصرے میں ہے شدیدترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلام کے حقیقی دشمنوں کے خلاف مظلوموں کی آواز بنا ہوا ہے کچھ لوگ اسکے بارے میں ہی کہتے نظر آتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ساری دنیا سے بیر لینے کی ؟ کیا ضرورت ہے اتنے دباو کے باوجود اس فلسطین کے مسئلہ کو زندہ رکھنے کی جسے خود عربوں نے مردہ خانے میں ایک لاش کی صورت ڈال دیا ہے ،علاوہ ا ز ایں بر صغیر میں بھی اسی قسم کی فکر دوسرے انداز سے دیکھنے کو مل جائے گی اگر فرض کریں پاکستان میں کوئی فرض شناس عالم غلط رسوم اور سماج میں رائج غلط ریتی رواجوں کے بارے میں زبان کھولتا ہے تو سب اسے نصیحت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کیا ضرورت ہے ہر مسئلہ میں ٹانگ لڑانے کی ہر ایک کا اپنا اپنا عقیدہ ہے ،اگر کوئی دردمند شخصیت ملکی پیمانے پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کے چاہنے والوں کو ایک پلیٹ فارم لانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ چاہتی ہے کہ علی والوں کی واحد آواز ہو اور تاکہ ملکی سطح پر اسکے راست اثرات پڑ سکیں تو کچھ اپنے ہی اسکی ٹانگ کھیچنا شروع کر دیتے ہیں ، دشمن کی تو ضرورت ہی نہیں پڑتی اپنے ہی دشمن کی پالیسی کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں اسی طرح ہندوستان میں بڑھتی ہوئی منافرت کے سامنے اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو خود اپنے ہی مکھوٹے اس کے خلاف زہر افشانی کرتے نظر آتے ہیں ایسے میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج کے خیبر میں ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ہمیں اپنے ہی دوستوں سے لڑائی لڑتے لڑتے موت کی آغوش میں چلے جانا ہے یا دشمنوں کے خلاف بھی کچھ کرنے کا عزم پیدا کرنا ہے ۔
ایسے میں ۲۲ رجب کے دن خیبر سے بھاگنے والوں سے اظہار بیزاری کے ساتھ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سوچیں کہ دین کے میدان میں ہم کہاں کہاں سے بھاگیں ہیں اور کہاں جمے ہوئے ہیں ۔
۲۴ رجب المرجب
جہاں ۲۲ رجب المرجب تاریخ اسلام کے بھگوڑوں کے بھاگ کھڑے ہونے سے پردہ اٹھاتی ہے وہیں ۲۴ رجب المرجب تاریخ اسلام کی عظیم فتح سے منسوب ہے جب ساتویں ہجری میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھوں یہودیوں کے پرچم دار اور مرحب نامی بڑے سورما کو شکست ہوئی اور آپ نے مرحب کو ذوالفقار کا شکار بنا کر در خیبر فتح کیا [۴]
تاریخ کہتی ہے خیبر کی جنگ میں حضور سرورکائنات نے قلعہ قموص کا محاصرہ کر لیا تھا اور خیبر کی فتح کے لئے آپ نے مختلف بڑے بڑے لوگوں کو علم دیا لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی [۵]انجام کار حضور سرور کائنات نے اعلان کر دیا کہ کل اسکو علم دونگا جو مرد ہو گا بڑھ بڑھ کر حملے کرنے والا ہوگا ، میدان جنگ سے فرار نہیں کرے گا وہ خدا و) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا و) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ( اسے دوست رکھتے ہوں گے اور خدا خبیر کو اسکے ہاتھوں فتح کرے گا[۶] ، تمام اصحاب کی یہ تمنا رہی کہ علم انہیں ملے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم علی علیہ السلام کو دیا ، اور آپ کو میدان کارزار میں بھیجتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ اپنی زرہ آپ کو پہنائی ، اپنے ہاتھوں سے عمامہ بنا کر آپ کے سر پر رکھا ذوالفقار کو آپ کی کمر میں حمائل کیا اور خود مرکب پر سوار کیا اور چونکہ امام علی ع آشوب چشم میں مبتلا تھے حضور سرورکائنات نے آب دہان آپ کی آنکھوں پر لگایا جس سے آپ کو شفا ہوئی اسکے بعد آپکے کے لئے دعا ء فرمائی کہ پروردگار گرمی اور سردی کی زحمت کو علی سے اٹھا جس کے بعد آپ کو نہ کبھی آشوب چشم کی شکایت ہوئی اور نہ ہی ٹھنڈک اور گرمی نے پریشان کیا [۷]، آپ نے امام علی علیہ السلام کو میدان میں بھیجتے ہوئے فرمایا:
اس پرچم کو اٹھاؤ اور اپنے ساتھ لے جاؤ تاکہ خدا تمہارے ذریعہ خیبر کو مسلمانوں کیلئے فتح کرے[۸] حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو رخصت کرتے ہوئے خاص انداز میں اپنی محبت کا اظہار یوں فرمایا :
“علی جبرئیل داہنی جانب سے ، میکائیل بائیں جانب سے عزرائیل سامنے سے اور اسرافیل پیچھے سے ، خدا سر کے اوپر سے اور میری دعاء تمہارے پیچھے پیچھے تمہاری محافظ ہے “۔
امام علی ع علیہ السلام کے جانےکچھ ہی دیر بعد خیبر کی فتح کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک آ گئی چنانچہ ابو رافع خادم رسول خدا(ص) کا فتح خیبر کے سلسلہ سے یہ بیان تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے : “علی بن ابی طالب(ع) کے کے ہاتھ میں رسول خدا(ص) کا دیا ہوا پرچم تھا۔ جیسے ہی حضرت علی(ع) قلعہ کے نزدیک پہنچے تو قلعہ میں موجود افراد نے باہر آکر جنگ کرنا شروع کر دی ۔ جنگ کے دوران دشمن کی جانب سے کسی نے آپ پر ایک وار کیا جس کی وجہ سے آپ کے ہاتھ سے ڈھال زمین پر گر گئی اس موقع پر آپ نے قلعہ کے دروازے کو اکھیڑا اور اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جنگ کرنے لگے یہاں تک کے خدا نے آپکو کامیابی نصیب کی [۹]
خیبرکے قلعہ کو فتح کرنا اور باب خیبر کو اکھاڑنا مرحب کو پچھاڑنا یہ تو امام علی علیہ السلام کا وہ کارنامہ ہے جس پر ہم سبھی خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ آپ نے ایک ایسی تدبیر اختیار کی جس کے چلتے جنگ میں جانی نقصان کم سے کم ہو چنانچہ امام علیہ السلام کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اس انداز سے جنگ کی کہ مرحب اور اسکے بھائی یاسر کو قتل کر دینے کے بعد دشمنوں کے اندر تاب مقاومت نہ رہی اور قلعہ میں موجود یہودیوں نے بغیر قید و شرط کے ہتھیار ڈال دئے ۔خیبر جیسی جنگ میں اس طرح جنگی حکمت عملی اختیارکرنا کہ قلعہ کے اندر تمام لوگوں نے ہتھیار ڈال دئے یہ امام علی علیہ السلام کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔ جسکی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔
جناب جعفر کی حبشہ سے واپسی
خیبر کی فتح کے ساتھ ہی جناب جعفر کی حبشہ سے بازگشت کی خبر نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت مسرور کیا چنانچہ تاریخ میں ہے کہ آپ فتح خیبر کے دن ہی واپس پلٹے جب آپ کو جناب جعفر کی واپسی کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: میں کس بات پر زیادہ خوش ہوں ؟ جعفر کے آنے پر یا فتح خبیبر پر ، یہ کہہ کر جناب جعفر کو حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا [۱۰]. یقینا خیبر کی فتح اسلام کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن جناب جعفر کی حبشہ سے واپسی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آپ کی بازگشت کو خیبر کی تاریخی کامیابی کے ہم پلہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہجرت کر کے اپنے ایمان کو بچا لے جائے صر ف اتنا ہی نہ ہو بلکہ جس جگہ اس نے ہجرت کی ہے وہاں کے لوگوں کو بھی اپنے کردار و عمل سے متاثر کر دے اور دین کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائے تو اس لائق ہے کہ اسکی واپسی کو خیبر کی فتح کے ہم پلہ قرار دیا جائے ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک محض یہی بات نہ تھی یقینا آپ بہتر جانتے ہیں کہ جناب جعفر ع آپ کے لئے کیا تھے اور انکی محبوبیت کا راز کیا تھا لیکن اس بات سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واقعی عاشق و پیرو ہوتا ہے اور حقیقیت میں صاحب ایمان ہوتا ہے تو رسول ص اسکی ہجرت سے بازگشت پر نہ صرف خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اتنا خوش ہوتے ہیں کہ فرماتے ہیں آج اس مہاجر الی اللہ کی واپسی پر زیادہ خوشی کا اظہار کیا جائے یا خیبر کی فتح پر ، حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ عمل ہمیں بتاتا ہے یقینا اگر کوئی اپنے نفس کو فتح کر لے تو اس لائق ہے کہ ہجرت سے واپسی پر اسے فتح خیبر جیسے عظیم واقعہ کی خوشی کے ہمراہ قرار دیا جائے ۔
حواشی
[۱] ۔ الغدیر ، جلد ۷ ص ۱۹۹، مسند احمد جلد ۵ ص ۳۵۳، مستدرک حاکم ، جلد ۳ ص ۳۷، اسد الغابہ ، جلد ۴ ص ۲۱ ، کنزالعمال ، جلد ۱۰ ، ص ۴۶۳،تاریخ دمشق، جلد ۴۱، ص ۴۶۴
[۲] ۔ وقائع الایام جلد ۱ ص ۲۱۱، ۲۱۳، وقائع المشہور ، ص ۱۴۷،
[۳] ۔ الغدیر ، جلد ۷ ص ۱۹۹، تاریخ المدینۃ جلد ۲ ص ۶۶۵، تاریخ طبری، جلد ۲ ص ۳۰۰، سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۴ ص ۲۰۹
[۴] ۔ مصباح المتھجد ص ۷۴۹، وقائع الایام ، جلد ۱ ص ۲۲۳
[۵] ۔ إنَّ رَسولَ اللّهِ(ص) بَعَثَ أبا بَکرٍ، فَسارَ بِالنّاسِ، فَانهَزَمَ حَتّى رَجَعَ إلَیهِ. وبَعَثَ عُمَرَ، فَانهَزَمَ بِالنّاسِ حَتَّى انتَهى إلَیهِ
المصنّف لابن أبی شیبة، ج ۷، ص ۴۹۷، ح ۱۷؛ مسند البزّار، ج ۲، ص ۱۳۶، ح ۴۹۶؛ خصائص أمیر المؤمنین للنسائی، ص ۵۴، ح ۱۳ کلّها عن أبی لیلى؛ السیرة النبویة لابن هشام، ج ۳، ص ۳۴۹؛ البدایة والنهایة، ج ۷، ص ۳۳۷ و ج ۴، ص ۱۸۶؛ تاریخ مدینة دمشق، ج ۴۲، ص ۸۹ والأربعة الأخیرة عن سلمة بن عمرو بن الأکوع؛ المناقب لابن المغازلی، ص ۱۸۱، ح ۲۱۷ عن أبی هریرة والخمسة الأخیرة من دون إسناد إلیه(ع)؛ الخصال، ص ۵۵۵، ح ۳۱ عن عامر بن واثلة؛ الأمالی للطوسی، ص ۵۴۶، ح ۱۶۸ عن أبی ذرّ؛ شرح الأخبار، ج ۱، ص ۳۰۲، ح ۲۸۳ والثمانیة الأخیرة نحوه؛ إعلام الورى، ج ۱، ص ۳۶۴ عن أبی لیلى وراجع: مسند ابن حنبل، ج ۹، ص ۱۹، ح ۲۳۰۵۴.
[۶] لُاعطِینَّ الرّایةَ غَدا رَجُلاً یحِبُّ اللّهَ ورَسولَهُ، ویحِبُّهُ اللّهُ ورَسولُهُ، کرّارا غَیرَ فَرّارٍ، لا یرجِعُ حَتّى یفتَحَ اللّهُ عَلى یدَیهِ.۔ الکافی، ج ۸، ص ۳۵۱، ح ۵۴۸ عن عدّة من أبناء المهاجرین والأنصار؛ الإرشاد، ج ۱، ص ۶۴؛ الإفصاح، ص ۳۴ و ۱۳۲؛ الأمالی للطوسی، ص ۳۸۰، ح ۸۱۷ عن أبی هریرة؛ الاحتجاج، ج ۲، ص ۲۵، ح ۱۵۰ عن الإمام الحسن(ع) عنه(ص)؛ شرح الأخبار، ج ۱، ص ۱۴۸، ح ۸۶ عن بریدة وفیه «یفتح خیبر عنوة» بدل «لا یرجع.. .»؛ عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۸۸، ح ۱۱۱؛ إعلام الورى، ج ۱، ص ۲۰۷ عن الواقدی؛ الفضائل لابن شاذان، ص ۱۲۸؛ المناقب للخوارزمی، ص ۱۷۰، ح ۲۰۳ کلاهما عن عمر.مناقب امیر المومنین جلد ۱ ص ۳۴۵، صحیح بخاری ، جلد ۴ ص ۱۲ ، ۲۰، ۲۰۷ ، جلد ۵ ص ۷۶، صحیح مسلم ، جلد ۵ ص ۱۹۵، جلد ۷ ص ۱۲۲، مسند احمد ، جلد ۱ ، ص ۹۹ ، ۱۸۵، جلد ۳، ص ۱۶، جلد ۵ ص ۵۲، انساب الاشراف، ص ۹۳، ۹۴، مستدرک حاکم ، جلد ۳ ص ۳۸ ،
[۷] ۔ وقالَ: اللّهُمَّ اکفِهِ الحَرَّ وَالبَردَ. قالَ: فَما آذانی بَعدُ حَرٌّ ولا بَردٌ، خصائص أمیر المؤمنین للنسائی، ص ۵۴، ح ۱۳ کلّها عن أبی لیلى؛ السیرة النبویة لابن هشام، ج ۳، ص ۳۴۹
[۸] ۔”خذ هذه الرایة فامض بها حتی یفتح الله علیک؛، ۔ابن ہشام، سیرہ النوبویہ، ج۲، ص۳۳۴؛ حاکم نیشابوری، مستدرک، ج۳، ص۳۷
[۹] ۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۱۸؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۹، ص۱۸
[۱۰] ۔ تہذِب الاحکام ، جلد ۳ ص ۱۸۶، وسائل الشیعہ ، جلد ۸ ص ۵۰۔
تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
شہادت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہمارے ساتویں امام ہیں ۔ آپؑ کے والد ماجد معلم بشریت، مربی انسانیت صادق آل محمد ؑ قرآن ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا ہیں کہ جن کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘ حمیدہ کنیزوں کی سردار ہیں، ہر برائی اور گندگی سے پاک ہیں جیسے شمس طلا (گولڈ بلین)، ملائکہ ہمیشہ ان کی حفاظت کرتے تھے یہاں تک کہ کرامت خدا ان کا نصیب ہوئی۔’’ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘حمیدہ گندگی سے پاک ہیں جیسے شمس طلا(گولڈ بلین )۔ ملائکہ انکی حفاظت کرتے یہاں تک کہ وہ مجھ تک پہنچ گئیں، یہ اللہ کی کرامت ہے ہم پر اور ہمارے بعد آنے والے ائمہ ؑ پر۔ ’’
روایت میں ہے کہ جب جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں پہنچی تو امام ؑ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا ‘‘حمیدہ’’ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘تم دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہو’’
مذکورہ روایات سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کی عظمت و اضح ہوتی ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا نام موسیٰؑ، کنیت ابوابراہیم، ابوالحسن اول اور ابو علی ہے اور آپؑ کے القاب کاظم (غصہ کو پی جانے والا)، عبد صالح اور باب الحوائج زیادہ مشہور ہیں ۔ اہل مدینہ آپؑ کو زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
سن ۱۲۸ یا ۱۲۹ ہجری میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد جب امام جعفرصادق علیہ السلام اپنی شریکہ حیات جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو مقام ابواء پر امام عالی مقام کے کاروان نے استراحت کے لئے قیام کیا ۔ یہ ابواء وہی مقام ہے جہاں رسول اللہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ ماجدہ صدف رسالت حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ خیمہ میں غذا نوش فرما رہے تھے کہ خادم نے اطلا ع دی کہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کی طبیعت ناساز ہے ، یہ سننا تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فوراً اٹھے اور جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کے خیمے میں گئے ۔ آپؑ کے وہاں پہونچتے ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد امام علیہ السلام واپس اپنے اصحاب کے پاس شاد و خوشحال تشریف لائے تو سب آپؑ کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور احوال پرسی کی تو فرمایا: ‘‘حمیدہ (سلام اللہ علیہا ) بخیر و عافیت ہیں ۔ اللہ نے مجھے ایک بیٹا دیا ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ ’’
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اصحاب سے فرمایا : ‘‘حمیدہ ؑ نے مجھے کچھ باتیں بتائیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ مجھے نہیں معلوم ’’ حاضرین نے پوچھا مولا واقعہ کیا ہے تو امامؑ نے فرمایا:‘‘جیسے ہی میرے نور نظر موسیٰؑ دنیا میں آئے، انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور سر آسمان کی جانب بلند کر کے اللہ کی تسبیح، تہلیل و تحمید فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجا۔ ’’
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے حمیدہ ؑسے کہا کہ‘‘ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روش ہے کہ دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے ہیں اور سر آسمان کی جانب بلند کر کے اللہ کی تسبیح، تہلیل و تحمید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ کی وحدانیت کا اعتراف و اقرار اور اسکی گواہی دیتے ہیں۔ جیسے ہی یہ جملے انکی زبان سے جاری ہوتے ہیں تو اللہ انکو اولین و آخرین کا علم عطا کر دیتا ہے اور شب قدر میں ملائکہ انکی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ ’’
ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر تین دن تک ولیمہ کیا اور ہم سب نے کھانا کھایا۔
اگرچہ ۷؍ صفر آپؑ کی تاریخ ولادت مشہور ہے لیکن چونکہ یہ روایت اکثر بلکہ تقریباً تمام کتب میں مرقوم ہے کہ سفر حج سے واپسی پر مقام ابواء پر آپؑ کی ولادت ہوئی ہے لہذا بعض محققین نے آپؑ کی تاریخ ولادت ۲۰؍ ذی الحجہ بیان کی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی یعقوب سراج کا بیان ہے کہ ایک دن میں اپنے مولا و آقا امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کے نزدیک گہوارہ میں آپ کے فرزند امام موسی کاظم علیہ السلام تھے۔ میں نے آپؑ کو سلام کیا آپؑ نے جواب دیا اور گہوارے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اپنے مولا و آقا کو سلام کرو۔ میں حسب حکم گہوارے کے نزدیک گیا اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپؑ نے جواب سلام عطا کیا اور فرمایا "یعقوب اللہ نے کل تمہیں ایک بیٹی عطا فرمائی ہے تم نے اس کا جو نام رکھا ہے بدل دو کیوں کہ اللہ کو وہ نام پسند نہیں۔" جب میں واپس ہونے لگا تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اپنے مولا کے حکم کی تعمیل کرنا اسی میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔
یعقوب سراج کا بیان ہے کہ ہم نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی کا نام بدل دیا۔
(اصول کافى : ج 1، ص 310، ح 11، إ ثبات الهداة : ج 3، ص 158، ح 12.)
جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث ہے کہ ‘‘ہم اہلبیتؑ کی امامت کی دلیل ہمارا علم ہے۔’’ یہی علم امامت تھا کہ جس نے ہر دور کے ظالم و جابر اور غاصب کو آپؑ حضرات کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا ۔ اگر چہ دعویٰ ‘‘سلونی’’ صرف امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا لیکن اس دعویٰ کی دلیل ہمارے ہر معصوم امام نے دی۔ کیوں کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا علم لدنی ہے ، وہ اللہ کی تمام مخلوقات پر اس کی حجت ہیں ، لہذا اگرچہ ظاہرا ً انکی زبان عربی تھی لیکن وہ تمام مخلوقات کی زبان سے واقف تھے۔ وہ چاہے گہوارے میں ہوں یا ایام پیری میں ، سن وسال یا حالات سے ان کا علم و یقین متاثر نہیں ہوتا تھا۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘اگر حجابات ہٹا بھی دئیے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہو گا۔ ’’ جس طرح منزل علم میں دعویٰ صرف امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا لیکن دلیل بارہ اماموں نے دی اسی طرح مرحلہ یقین میں بھی دعویٰ صرف مولا علی علیہ السلام نے کیا لیکن دلیل ہمارے بارہ اماموں نے دی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جسکی متعدد روایتیں تائید کرتی ہیں کہ جب آپ حضرات شکم مادر میں تھے تو اس وقت بھی آپؑ کے علم و کرامت کا فیض جاری تھا اور مادران گرامی کے انیس و یاور رہے اور بعد شہادت بھی فیض علم و کرامت عام ہے۔
اگر ہم سرکار باب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی علمی سیرت کو ملاحظہ کریں تو آپ ؑ نے گہوارے سے شہادت تک وہ نمونے پیش کئے جو عام انسان کے لئے نہ فقط قابل تصور نہیں بلکہ انہیں پڑھ کر انسان حیرت و تعجب میں پڑ جاتا ہے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کمسنی میں امام ابوحنیفہ نے متعدد بار علمی مناظرے کئے اور ہر بار انہیں امام عالی مقام کی علمی مرتبے کا اقرا ر کرنا پڑا۔ اسی طرح عباسی خلفاء، یہود ونصاریٰ اور منکرین خدا سے مناطرے کئے جن میں مقابل کو ہمیشہ شکست کا سامنا ہی کرنا پڑا۔ کتب تاریخ میں کتنے واقعات ہیں کہ جن میں غیر عربوں نے جب عربی زبان میں سوال کیا تو امامؑ نے انہیں انکی مادری زبان میں جواب دیا ، بلکہ بعض اوقات ان کے اصل نام و نسب سے بھی آگاہ کیا جسے سن کر وہ تصویر حیرت بن گئے۔
جس طرح آپؑ کی علمی شخصیت بے نظیر تھی اسی طرح آپ ؑ کی اخلاقی سیرت بھی لا جواب تھی۔ آپؑ کی اخلاقی سیرت آپؑ کے مشہور لقب ‘‘کاظم’’ یعنی غصہ کو پی جانے والا، سے ہی واضح ہے، آپ کا لطف و کرم مخالفین کے بھی شامل حال رہتا تھا، خلیفہ دوم کی نسل کا ایک شخص جو اکثر آپؑ کی برائی کرتا تھا آپؑ نے اس پر احسان کیا ۔ رات کی تاریکی میں فقراء و مساکین کی امداد فرماتے۔ بشر حافی جو پہلے لہو و لعب اور غنا میں تباہ تھے جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے خود انکی کنیز کے ذریعہ انکی ہدایت کی تو وہ توبہ کر کے عابد و زاہد بن گئے۔ لیکن افسوس دور حاضر میں کچھ نام نہاد مدّاح جو اسیر دنیا ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا ہے وہ میوزک پر نوحے اور منقبتیں گا رہے ہیں ۔ میرا ان تمام اسیرانِ دنیا سے چاہے وہ ہمارے ملک کے ہوں یا پڑوسی ملک سے ، سوال ہے کیا تمہیں مدح اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سبب عزت، دولت ، شہرت نہیں ملی ، تمہیں حلال سے کیا نہیں ملا جو تم حرام میں گئے اور وادی ظلمت کے مسافر ہو گئے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا دورہ امامت سن ۱۴۸ ہجری میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت سے شروع ہوا ، ماحول انتہائی پر آشوب تھا، کچھ کمزور عقیدہ والے آپؑ کے مرحوم بھائی اسماعیل کی امامت کے قائل ہو گئے جب کہ انکی وفات والد ماجد کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے انکی وفات صراحت و وضاحت سے بیان بھی کی تھی، دوسری جانب آپؑ کے ایک بھائی عبداللہ افطح نے امامت کا دعویٰ کر دیا ، آپؑ نے آگ روشن کرائی اور جب شعلے بلند ہونے لگے تو انکو بلایا اور کہا کہ اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچّے ہیں کہ آپ امام ہیں تو آگ میں جائیں ، انہوں نے کہا کہ پہلے آپؑ جائیں تو فخر ابراہیم امام موسیٰ کاظم علیہ السلم آگ میں گئے اور تھوڑی دیر بعد راکھ جھاڑتے ہوئے نکل آئے ، جسم تو دور لباس بھی نہیں جلا تھا یہ دیکھتے ہی عبداللہ افطح نے فرار کو قرار پر ترجیح دی لیکن اپنے دعویٰ سے پیچھے نہیں ہٹے اور کچھ کمزور عقیدے والوں کو گمراہ کر تے رہے۔
عباسی حاکم نے آپؑ کو تقریباً چودہ برس سخت ترین قید میں رکھا اور یہ اسیری آپؑ کی شہادت ۲۵؍ رجب سن ۱۸۳ ہجری پر تمام ہوئی ۔ امام علیہ السلام نے ایسے سخت ترین حالات میں کہ جب آپؑ قید خانہ میں تھے، لوگوں سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے تو مومنین کی ہدایت کے لئے مختلف علاقوں میں وکیل معین کر کے نظام وکالت کو قائم کیا تا کہ جب حجت خدا پردہ غیبت میں ہو تو مومنین خود کو لا وارث نہ سمجھیں بلکہ وکلاء اور نمایندگان امام سے ہدایت حاصل کرتے رہیں۔ آپؑ نے علی بن یقطین کو اس شرط پر عباسی حکومت میں وزارت قبول کرنے کی اجازت دی کہ وہ مومنین کو فائدہ پہنچائیں اور انہیں نقصان سے بچائیں، و گرنہ آپؑ نے صفوان جمّال کو واضح طور پر شغل بدلنے اور اونٹ بیچنے کا حکم دیا تا کہ کسی مومن کے دل میں کسی ظالم کی زندگی کی معمولی سی خواہش بھی نہ آئے۔
جناب بہلول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے سچے شیعہ تھے ، وہ اپنے دور کے اعلم اور فقیہ اعظم تھے جب مسجد میں درس دیتے تو مسجد علماء ، فقہاء اور طلاب سے بھر جاتی ، ہر ایک انکا احترام کرتا تھا لیکن جب ہارون نے انہیں منصب قضاوت پر مجبور کیا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے منصب قضاوت کے قبول کرنے سے منع کیا تو انہوں نے اپنے ایمان اور جان کو بچانے کے لئے دیوانگی اختیار کر لی کہ ایک دور وہ تھا کہ بڑے بڑے عالم و فقیہ ہونے کے سبب احترام کرتے تھے لیکن اب گلی کے بچّے مذاق اڑانے لگے ۔ جناب بہلول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی شخصیت، اپنی عزت ، اپنا وقار تو قربان کر دیا لیکن حجت خدا امام معصوم کی نافرمانی نہیں کی۔ قرآن کریم نے ہمیں سوچنے، سمجھنے اور فکر کرنے کی دعوت دی ہے لہذا ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے۔
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
کیا توبہ میں جلدی کرنا ضروری ہے ؟
کیا توبہ میں جلدی کرنا ضروری ہے ؟
مختصر جواب:
تمام علمائے اسلام کا وجوب توبہ پر اتفاق ہے اور قرآن مجید کی آیات میں متعدد بار اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہ تحریم کی آٹھویں آیت میں پڑھتے ہیں : '' یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَى اللّهِ تَوْبَهً نَصُوحاً عَسَى رَبُّکُمْ اَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّیاتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنّات تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الاَْنهارُ '' ۔
انبیاء الہی کو جس وقت منحرف امتوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا تھا تو ان کا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ توبہ کی دعوت دیتے تھے ، کیونکہ توبہ اور لوح دل کو دھلے بغیر توحید اور فضائل کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
نبی خدا حضرت ہود علیہ السلام کا سب سے پہلا کلام یہ تھا : '' وَ یا قَومِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا اِلَیْهِ '' ۔ اے میری قوم ! اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو ، پھر اس کی طرف پلٹ آئو اور توبہ کرو! (١) ۔
نبی خدا حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اسی بات کو اپنی بنیاد قرار دیا اور کہا : ''............فاستغفروہ ثم توبوا الیہ'' ۔ اس سے بخشش طلب کرو اور خدا کی طرف پلٹ آئو اور توبہ کرو (٢) ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی اسی منطق کے ساتھ اپنی قوم کو دعوت دی اور کہا : '' وَاستَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا اِلَیْهِ اِنَّ رَبّى رَحیمٌ وَدُودٌ '' ۔ اور اپنے پروردگار سے استغفار کرو اس کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ کہ بیشک میرا پروردگار بہت مہربان اور محبت کرنے والا ہے ۔
اسلامی روایات میں بھی فورا توبہ کرنے کے اوپر تاکید ہوئی ہے جیسے :
١
مفصل جواب:
قرآن کریم کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ میں جلدی کرنا واجب اور ضروری ہے جیسا کہ سورہ تحریم کی ٨ ویں آیت میں ملتا ہے : '' يا أيها الذين آمنوا توبوا إلى الله توبة نصوحا '' ۔ اسلامی روایات میں بھی توبہ کرنے میں جلدی کرنے کی تاکید ہوئی ہے ، جیسا کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے فرمایا ہے : '' وَاِنْ قارَفْتَ سَيِّئَةً فَعَجِّلْ مَحْوَها بِالتَّوبَةِ '' ۔ اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کو توبہ کے ذریعہ جلدی سے جلدی محو کردو !
صنعتکاروں اور معاشی میدانوں میں کام کرنے والوں نے بعض میدانوں میں پابندیوں کو مواقع میں بدل دیا
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے منگل کی صبح ملک کے صنعتی و پیداواری شعبوں میں سرگرم تقریبا ایک ہزار افراد سے ملاقات کی۔ انھوں نے بڑے معاشی اہداف کو عملی جامہ پہنانے میں نجی شعبے کی پوری طرح سے مؤثر گنجائش اور صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، کام کاج اور کاروبار کے میدان کی رکاوٹوں کو دور کرنے میں حکومت کی حمایت اور پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے ذمہ داریاں قبول کیے جانے پر زور دیا اور انہیں ملک کے حالات کو بہتر بنانے اور بھرپور پیشرفت کی راہ ہموار کرنے والی دو بہت اہم ضرورتیں قرار دیا۔
انھوں نے پیداواری شعبوں میں سرگرم 12 افراد کی باتیں سننے کے بعد، مینوفیکچررز کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے کام کرنے کی ہدایت کی۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے، ملک کی پیداواری توانائیوں کی نمائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس کا انھوں نے گزشتہ روز معائنہ کیا تھا، اس نمائش کو زبردست اشتیاق انگیز بتایا اور کہا کہ ہم اس نمائش کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کی طاقت کے ایک نمونے کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
انھوں نے پابندیوں جیسے محدود کرنے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی رکاوٹوں کے باوجود پرائیویٹ سیکٹر کی کوشش اور پیشرفت، لوگوں کو پرامید کرتی ہے اور یہ سیکٹر، ایران کو ساتویں پنج سالہ ترقیاتی پروگرام کی مطلوبہ 8 فیصدی کی پیشرفت تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے جدت عمل کو کل کی نمائش اور آج کی نشست کی نمایاں خصوصیت بتایا اور کہا کہ جدت عمل، ماہر افرادی قوت کی عکاسی کرتی ہے اور ماہر افرادی قوت، ایک عظیم سرمائے کی حیثیت سے بڑے مسائل کے حل، دشوار راہوں کو طے کرنے اور ایران کے اوج پر پہنچنے کی راہ میں ایک قابل اطمینان سہارا ہوگی۔
انھوں نے حکومت اور معاشی کارکنوں میں ذمہ داری کے احساس کو، عوامی سرمائے کی گنجائش سے بھرپور طریقے سے استفادے کا لازمہ بتایا اور کہا کہ حکومت کی ذمہ داری عام طور پر کام کاج کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا اور اس کے ماحول کو بہتر بنانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کی نگرانی، نجی شعبے کی حمایت کے عمل کو مکمل کرتی ہے اور اس نگرانی کو، جو مداخلت سے بالکل الگ ہے، بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے دنیا کی حکومتوں کی جانب سے اپنی بڑی کمپنیوں کی حمایت اور پشت پناہی کو ان کمپنیوں کی کامیابی کا ایک سبب بتایا اور کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کو حکومت کی ایک ضروری مدد، برآمد اور غیر ملکی منڈیوں کا دائرہ بڑھانا ہے اور اس سلسلے میں معاشی ڈپلومیسی کو حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کی مشترکہ محنت سے مضبوط بنایا جانا چاہیے۔
انھوں نے پابندیوں اور دشمنوں کے معاندانہ اقدامت جیسے باہری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی باتیں یقینی طور پر نقصان پہنچانے والی ہیں اور ملک کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں لیکن ان ہی مسائل کو مواقع میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہمارے جوانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور آج ہم نے فوجی ہتھیاروں یا فضائی میدان میں اور ثریا سیٹلائٹ کی لانچنگ جیسی پیشرفت کی مانند زبردست سائنسی کارنامے انجام دیے ہیں اور اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو آج ہم یہ کارنامے انجام نہ دے پاتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کہا کہ نجی شعبے میں صحیح مینیجمنٹ ہو اور اس کی صحیح طریقے سے حمایت کی جائے تو زبردست گنجائش، بے پناہ قدرتی ذخائر، ماہر افرادی قوت اور حکومت اور عوام کے درمیان اچھے روابط کے پیش نظر ایران کی بھرپور پیشرفت، ہر ایک کو نظر آنے والی ایک حقیقت میں تبدیل ہو جائے گی۔
کوثر سیٹلائٹ کا اپ گریڈ ورژن خلا میں روانگی کے لیے تیار
ایوان صدر کے شعبہ ٹیکنالوجی کے سربراہ حسین شہرابی نے نجی شعبے کی کامیابیوں اور صلاحیتوں کی نمائش میں رہبر انقلاب کے دورہ کے موقع پر "کوثر" نامی سیٹلائٹ کے جدید ورژن لانچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سیٹلائٹ اگلے ایرانی سال کی پہلی ششماہی میں خلا میں بھیجا جائے گا۔
کوثر 1.5 سیٹلائٹ جو کہ ملکی ماہرین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، دراصل دو سیٹلائٹس کوثر اور ھدھد کا اپ گریڈ ورژن ہے، جو گزشتہ 5 نومبر کو لانچ کیے گئے تھے۔ یہ دونوں سیٹلائٹس اپنے ریموٹ سینسنگ اور انٹرنیٹ آف تھنگز کے ساتھ زراعت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
حسن شہرابی نے مزید کہا کہ ان سیٹلائٹس کے نہ صرف ٪85 سے زیادہ اجزاء مقامی ہیں بلکہ ان سیٹلائٹس کا پورا ڈیزائن بھی مقامی ماہرین نے تیار کیا ہے اور یہ منصوبہ مکمل طور پر مقامی سمجھا جاتا ہے۔
حماس اور عالمی طاقتوں کی تحقیر
یاد رہے اقوام متحدہ ایسا بین الاقوامی ادارہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور تباہ کن جنگوں کی روک تھام کے لیے تشکیل پایا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذمہ داران غزہ جنگ کے دوران انجام پانے والی نسل کشی اور بربریت کے خلاف نہ صرف مناسب اقدامات انجام دینے میں ناکام رہے بلکہ انہوں نے ان انسان سوز جرائم پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مناسب ردعمل اور تادیبی کاروائیاں بھی انجام نہیں دیں اور یہ سہل انگاری خود کو دنیا میں جمہوریت کے محافظ قرار دینے والے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے دباو پر انجام پائی ہے۔ لیکن اب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔
غزہ کے شجاع عوام اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے مجاہدین نے خالی ہاتھ اور شدید ترین دباو کے باوجود غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور یہ ہمارے زمانے میں تلوار پر خون کی فتح کا بہترین مصداق ہے۔ غزہ کے واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ کس طرح ایک شجاع قوم اپنی استقامت اور مزاحمت کے ذریعے جابر ترین طاقتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ غزہ میں ایک بے دفاع اور نہتی قوم نے صرف اور صرف محدود اسلامی ممالک جیسے ایران، یمن، لبنان، عراق اور ایک حد تک شام کی مدد کے ذریعے عالمی استکباری طاقتوں سے مقابلے کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لہذا گذشتہ ڈیڑھ سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں درج ذیل چند نکات قابل غور ہیں:
1)۔ بنجمن نیتن یاہو، جس نے حماس کو نابود کرنے کا دعوی کیا تھا عملی طور پر خود حماس سے ہی دوبارہ جنگ بندی معاہدہ انجام دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس زندہ ہے اور نیتن یاہو اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پایا۔
2)۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس یہ ظاہر کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ ایک مزاحمتی گروہ ہونے کے ناطے امریکہ سمیت اسرائیل کی حامی عالمی طاقتوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ان مغربی طاقتوں کی تحقیر ہے جو خود کو دنیا کی سپر پاورز کے طور پر متعارف کرواتی پھرتی ہیں۔
3)۔ دنیا بھر کے انسان اور عالمی رائے عامہ غزہ جنگ کے دوران بہت اچھی طرح امریکی حکمرانوں اور ان کے دیگر اتحادی ممالک کے دوغلے معیاروں کو پہچان چکے ہیں۔
4)۔ اس وقت ایک عالمی ادارہ ہونے کے ناطے اقوام متحدہ اس اہم سوال سے روبرو ہے کہ کیا وہ اپنی ان ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کامیاب رہی ہے جو اقوام متحدہ کے منشور میں بیان ہوئی ہیں یا اس میں ناکام رہی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ عملی طور پر فلسطینی قوم کے خلاف انجام پانے والے بہیمانہ جرائم جیسے نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، قتل عام اور انہیں جبری طور پر جلاوطن کر دینا وغیرہ کی روک تھام میں بری طرح ناکامی کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی رہنما اور ممالک جو ہر عالمی مسئلے میں اقوام متحدہ کے ذریعے اقدامات انجام دینے پر زور دیتے ہیں اس وقت موجودہ حالات کے جوابدہ ہیں اور انہیں ان تمام نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے۔
5)۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو مختلف پہلووں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر قانونی میدان میں وہ بہت کمزور ہو گیا ہے اور گوشہ نشین کا شکار ہو چکا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سمیت کچھ صیہونی حکمرانوں پر عالمی عدالت انصاف کی جانب سے غزہ میں نسل کشی جیسے جنگی جرم کا ثابت ہو جانا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہو اور یوآو گالانت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانا اس کی واضح دلیل ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی غاصب صیہونی رژیم بحرانی ترین حالات کا شکار ہے۔ عالمی رائے عامہ میں اسرائیل آئندہ طویل عرصے تک ایک نسل پرست، جنگ طلب اور جرائم پیشہ رژیم کے طور پر جانا جائے گا۔ مذکورہ بالا تمام اسباب اسرائیل کی جعلی رژیم کی نابودی اور خاتمے میں تیزی کا باعث بنیں گے۔
علاقائی و عالمی سطح پر ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون مزید مستحکم ہوگا، جنرل محمد باقری
جنرل محمد باقری نے کہا کہ خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم نے آپس میں اچھے معاہدے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں ممالک ہر وقت سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں تاکہ سرحدوں پر ایک دوسرے کے تعاون سے دونوں ممالک کی عوام کے اقتصادی مفاد کو وسعت دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے اس دورے کے اہم ترین موضوعات میں بارڈرز، دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں اور مسلح افواج کے درمیان تعلقات میں وسعت شامل ہے۔ واضح رہے کہ آرمی چیف کی باضابطہ دعوت پر جنرل محمد باقری ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد کے ہمراہ اپنے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ جہاں وہ بری و فضائی افواج کے سربراہان، صدر، وزیراعظم اور وزیر دفاع سے جدا جدا ملاقات کریں گے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جنرل محمد باقری کا اپنی تعیناتی کے دوران یہ تیسرا دورہ پاکستان ہے۔
کیا خدا کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے؟
علم کلام میں عقاید کے بارے میں بحث ہوتی ہے اس طرح علم کلام وہ علم ہے جس میں اسلامی عقائد سے بحث کی جاتی ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس پر اعتقاد رکھنا اور ایمان لانا ضروری ہے۔ اس میں وہ نظریات سکھائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر دینی عقائد کو ثابت کیا جاتا ہے یا یہ وہ علم ہے جس میں اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ممکن احوال کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔اس طرح کہ علم کلام میں اللہ کی صفات کمالیہ اور صفات جمالیہ پر بحث کی جاتی ہے۔اس علم میں سب سے پہلے بہت ہی دقیق اور حکمت والی دلیلوں سے اللہ کے وجود کی معرفت کے ضروری ہونے کو ثابت کیا جاتا ہے اور پھر اللہ کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔
اس علم کے اہم مباحث میں سے یہ ہے کہ ان دلیلوں کو بیان کیا جائے جو خالق کے وجود کو ثابت کریں کہ وہ اس کائنات کے بنانے والا ہے۔ایسا خاص ادلہ کے ساتھ ممکن ہے جو بہترین انداز میں پیش کی گئی ہوں ہم یہاں پر چند کو ذکر کریں گے۔
پہلی دلیل:انسان کی فطرت سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے:
انسان کی فطرت سلیمہ جس پر وہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کا تقاضا کرتی ہے اور فطرت وہ عقل ہے جو خواہشات سے داغدار نہ ہو،اسی طرح اس یہ سب سے پہلے انسان کو اپنے وجود کے سبب پر غور کا کہتی ہے اور پھر خالق پر وجود پر غور کا حکم دیتی ہے۔کچھ ایسے امور ہیں جن کی طرف ہر صاحب عقل کی سوچ جاتی ہے اور کوئی صاحب عقل ان کا انکار نہیں کر سکتا بالخصوص وہ سوالات انسانی نفس میں موجود ہوں تو وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان سوالات پر غور و فکر کیا جائے اور تحقیق کر کے ان کو حل کیا جائے۔
ان سوالات پر غور و فکر کر کے ان کے جوابات کو تلاش کرنا ہی در اصل خالق،مخلوق اور زندگی کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
دوسری دلیل: یقینی اور محتمل نقصان سے بچنا:
عقل کسی بھی نقصان سے بچنے کا حکم دیتی ہے اگرچہ اس کا فقط احتمال ہی کیوں نا ہو۔اگر وہ نقصان ایسا ہو جس کے بارے میں مصلحین کی بڑی تعداد،فلاسفہ اور اہل عقل فضلاء کی بڑی تعداد نے بھی کہا ہو تو عقل اس سے بچنے کا کہتی ہے۔اسی طرح ایک بڑی حقیقت کے طور پر سامنے ہو جیسے اللہ تعالی کا وجود جو اس کائنات کا خالق ہےاس کو ماننے اور نہ ماننے کے اثرات بہت زیادہ ہوں۔ لوگوں کو اس خالق پر ایمان لانے کی دعوت دینا،اس کی اطاعت کرنا،اس کے احکامات کو ماننا اور اس کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔اسی طرح کچھ اثرات اور بھی ہیں جیسے یہ عقیدہ کہ اگر خالق نہیں ہے تو انسان کی زندگی مرنے ختم ہو جائے گی مگر یہ زندگی کا اختتام نہیں ہے اللہ کے ہاں ایک اور زندگی ہے اور اس زندگی کی مثال ایک پل جیسی ہے جس کے ذریعے سے انسان ایک اور ابدی زندگی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے انسان جس عالم میں منتقل ہوتا ہے وہ عالم آخرت ہے۔اس آخرت کی زندگی کا دارو مدار اس دنیا کی زندگی میں کیے گئے اعمال پر ہے۔
یہ واضح ہے کہ ان امور کے بارے میں سب سے پہلے انسان کی فطری عقل بحث کرتی ہے یہ انسان کے لیے غور و فکر اور تدبر کا مقام بھی ہے جب انسان کے سامنے کچھ سوالات جیسے خود انسان کی تخلیق کا سوال وغیرہ آتا ہے تو عقل سوچتی اور غور و فکر کرتی ہے۔
انسان کی عقل ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرتی جن میں نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہو۔اس خوف کا احتمال حقائق میں غور و فکر کا نتیجہ ہے،ضرر کا خوف ہی اس باعث بنا ہے کہ انسان غور و فکر کرے اور سوچے جبکہ یہ نقصان کا اندیشہ تواتر کے ساتھ ایسے لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو صاحبان عقل و دین ہیں اگرچہ اس نقصان کا احتمال ضعیف ہی کیوں نہ ہوتا اہل عقل کو اس سے بچنا چاہیے تھا۔
عقل کا کام ہے وہ کبھی بھی ان مقامات کو ایسے ہی نہیں چھوڑتی جہاں سے اسے نقصان کا اندیشہ ہو وہ غور و فکر کرتی ہے اوربڑی دقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔عقل جانچ پڑتال کر کے اس کے درست و غلط ہونے کو پرکھتی ہے اس وقت تک سعی کو جاری رکھتی ہے جب تک اسے دلیل میسر نہ آجائے اور صحیح غلط کا پتہ نہ چل جائے۔عقل و منطق کا یہ تقاضا ہے کہ انسان احتمال کی تحقیق کرے یہ احتمال کس کی طرف سے آیا ہے اسے نظرانداز نہ کرے خود احتمال کی تحقیق کرے مثلا ایک بچہ بھی کہے تو بھی غور کرے۔جب بچوں کی بات کو عقل نظر انداز نہیں کرتی جن کا زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا تو انبیاء، مرسلین ،حکماء، مصلحین،فلاسفہ اور اہل عقل و منطق کی بات کو عقل کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟اگر ان سب کی آواز پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا تو عقل سے انحراف ہے اور اپنی تقدیر کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔
تیسری دلیل:نعمت دینے والے کا شکریہ ضروری ہے:
ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خالق اور اپنے بنانے والے کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں۔ یہ ایک اخلاقی اور ادبی مسئلہ ہے یہ عقیدتی مسئلہ بعد میں بنتا ہے۔خالق نے انسان کو اتنی نعمتیں دی ہیں کہ وہ ان کو شمار نہیں کر سکتا اور ہر طرف سے نعمتوں میں گھرا ہوا ہے۔اس کی نعمتوں کا سلسلہ انسان کی زندگی سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔کسی بھی ضمیر کا مالک انسان ہو وہ ان نعمتوں کا انکار نہیں کر سکتا۔ہر صاحب عقل کی سوچ و فکر یہ کہتی ہے کہ ایسی ڈھیروں نعمتیں دینے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جب تک ہم اس نعمتیں عطا کرنے والے کو پہچان نہیں لیں گے اس وقت تک ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔اس طرح ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ان نعمتوں کے خالق کی معرفت حاصل کریں جو اللہ تعالی ہے اور ہر خیر کی بنیاد وہی ہے۔وہی علم و مرتبہ کی بنیاد ہے اور سب سے پہلا علم خالق کی معرفت ہی ہے اور پھر یہ جانا جائے کہ اس خالق کے احکامات کیا ہیں؟ وہ کن چیزوں کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟اس کو وظائف اور تکالیف شرعیہ کا نام دیا جاتاہے ان میں سے کچھ ایسے اخلاقی احکام ہیں جن کا تعلق اجتماعی حقوق سے ہے جیسے یہ جاننا کہ وہ کونسے حقوق ہیں جو ہم نے ادا کرنے ہیں اور کون سے حقوق و واجبات ہیں۔نبی انسانیت حضرت محمد ﷺ سے مروی ہےایک اعرابی کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاجس نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا مجھے غرائب علم کی تعلیم دیں؟ کیا تم نے اصل علم کو حاصل کر لیا ہے کہ تم غرائب علم کا سوال کر رہے ہو؟ اعرابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اصل علم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی اس طرح معرفت حاصل کرنا جیسا اس کی معرفت حاصل کرنے کا حق ہے۔اعرابی نے پوچھا اللہ کی ایسی معرفت جس میں حق معرفت ادا ہو جائے وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اس کو کسی مخلوق جیسا یا مخلوق کی شبیہ جیسا نہ جاننا اور اسے واحد و یکتا قرار دینا،وہ ظاہر و باطن ہے ،وہ اول آخر ہے ،اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،اس کی نظیر کوئی نہیں اور یہ اللہ کا حق معرفت ہے۔