سلیمانی

سلیمانی

 ارنا کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ اور ایئر ڈیفنس فورس کے کمانڈروں نے آج جمعہ، 19 بہمن مطابق 7 فروری کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

 یہ ملاقات اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی دس روزہ تقریبات عشرہ فجر  کے موقع پر، 1979 کی 19 بہمن کو رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے ایرانی ایئر فورس کے افسران کی بیعت کی سالگرہ کی مناسبت سے ہر سال کے معمول کے مطابق انجام پائی۔  

 اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے  خطاب فرمایا ۔ آپ کے خطاب کے اہم ترین نکات یہ ہیں:

امریکا سے مذاکرات، ملک کی مشکلات دور کرنے میں موثر نہیں ہوں گے۔یہ ہمیں صحیح طور پر سمجھ لینا چاہئے؛ ہم پر یہ ظاہر کرنے  کی کوشش نہ کریں کہ اگراس حکومت سے  مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو فلاں مشکل، وہ مشکل حل ہوجائے گی۔ جی نہیں؛ امریکا سے مذاکرات سے کوئی مشکل حل نہیں ہوگی اس کا  ثبوت تجربہ ہے۔

 ہم نے 2010 کے عشرے میں امریکا سے مذاکرات کئے، دو سال میں ایک معاہدہ ہوا۔ البتہ ان مذاکرات میں اکیلا امریکا  نہیں تھا، چند دیگر ممالک بھی تھے، لیکن مرکزیت امریکا کو حاصل تھی، اہم امریکا تھا، ہماری حکومت نے بیٹھ کر مذاکرات کئے، اس دور کی حکومت نے، رفت وآمد کی ، نشست وبرخاست کی، مذاکرات انجام دیئے، گفتگو کی، ہنسے، ہاتھ ملایا،دوستی کی، ہر کام کیا، ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدے میں ایرانی فریق نے بڑی سخاوت دکھائی، فریق مقابل کو بہت سہولتیں دیں۔ لیکن اسی معاہدے پر امریکیوں نے عمل نہیں کیا ۔

معاہد اس لئے ہوا تھا کہ امریکی پابندیاں ختم ہوجائيں، امریکی پابندیاں ختم نہیں کی گئيں! اقوام متحدہ کے سلسلے میں بھی زخم میں ایک ہڈی ایسی چھوڑی گئی  جو ہمیشہ ایران کے سر پر خطرہ بن کر منڈلاتی رہے۔

یہ معاہدہ ان مذاکرات کا نتیجہ تھا جو  دو سال، اس سے کم یا زیادہ عرصے تک چلے۔ یہ تجربہ ہے؛ اس تجربے سے کام لیں۔ ہم نے سہولتیں دیں، مذاکرات کئے، پوائنٹس دیئے، پیچھے ہٹے، لیکن وہ نتیجہ جو ہمارے مد نظر تھا، حاصل نہ کرسکے۔ یہی معاہدہ جس میں اتنے نقائص تھے، مقابل فریق نے ختم کردیا، اس کی خلاف ورزی کی اور اس کو پھاڑ دیا۔ ایسی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنا چاہئے،اس سے مذاکرات کرنا عاقلانہ، دانشمندانہ اور شرافتمندانہ نہیں ہے۔  

یہی شخص جو اس وقت امریکا میں اقتدار میں ہے، اسی نے معاہدے کو پھاڑآ۔ کہا تھا کہ پھاڑ دے گا اور پھاڑ دیا۔ اس پر عمل نہیں کیا۔ اس کے اقتدار میں آںے سے پہلے، ان لوگوں نے بھی جنہوں نے معاہدہ کیا تھا، اس پر عمل نہیں کیا۔

امریکی بیٹھ کر کاغذ پر دنیا کا نقشہ تبدیل کررہے ہیں۔  لیکن یہ صرف کاغذ پر ہے،اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہمارے بارے میں بھی بول رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔ اگر وہ  دھمکی دیں گے تو ہم بھی انہیں دھمکی دیں گے، اگر دھمکی پر عمل کریں گے تو ہم بھی دھکی پر عمل کریں گے۔ اگروہ ہماری قوم کی سلامتی پر حملہ کریں گے تو ہم  بھی یقینا ان کی سلامتی پر حملہ کریں گے۔

یہ طرز عمل قرآن اور اسلام کے احکام سے لیا گیا ہے اور  ہمارا فریضہ ہے۔ امید ہے کہ خدا وند عالم ہمیں  اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیابی عطا فرمائے گا۔

ہمیں یقینا ملک کے اندر مشکلات کا سامنا ہے ؛مشکلات سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ معیشت میں، عوام کے اکثر طبقات کو مشکلات کا سامنا ہے، لیکن وہ چیز جو ان مشکلات کو دور کرسکتی ہے اندرونی مسئلہ ہے۔

 یہ اندرونی مسئلہ، قوم کی حمایت اور ہمراہی سے جس کا ان شاء اللہ 22 بہمن( یوم آزادی) کے جلوسوں میں آپ ملاحظہ فرمائيں گے،  ملک کے پابند عہد حکام کی مسا‏عی ہے۔

22 بہمن (یوم آزادی) کے جلوس جو ہر سال نکلتے ہیں، ملک میں ملی اتحاد اور صاحب بصیرت عوام اور انتھک مساعی میں مصروف حکام کی وحدت کے مظہر ہیں۔

 حکام مشغول  ہیں، الحمد للہ کام کررہے ہیں اور مجھے بہت امید ہے کہ کامیاب ہوں گے، یہی محترم حکومت عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں کامیاب رہے گی۔      

 
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ملک کی دفاعی ترقی کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی دفاعی طاقت کا مقصد قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے وزارت دفاع کے ایرو اسپیس انڈسٹریز کمپلیکس کے دورے کے دوران کہا ہے کہ حکومت ملک کی دفاعی صنعتوں کی ترقی کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ ایران کی فوجی پیش رفت کسی بھی غیر ملکی جارحیت کو روکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق صدر پزشکیان نے وزارت دفاع کے ایرو اسپیس ڈویژن کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مختلف دفاعی اور خلائی کامیابیوں کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب ہمارا دشمن ہم پر آزادانہ حملہ کرتا تھا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراقی بعثی حکومت کو ہماری زمین اور فضائی حدود تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل تھی اور دشمن اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکتے تھے۔ آج ایران نے دفاعی شعبے میں جدید زمانے کے مطابق ترقی کی ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی ایران کی خود مختاری پر حملہ کرنے کی جرائت نہیں رکھتا ہے۔

صدر پزشکیان نے ایران کی فوجی طاقت کو دفاعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن اب ماضی کی طرح ایران کو میزائل حملوں اور بمباری کا نشانہ نہیں بنا سکتے ہیں۔ آج ہم یہاں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ایران کی دفاعی طاقت کا مظہر ہے، جسے دوسروں پر جارحیت کے لئے نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کی حفاظت کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کو دہرایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دفاعی طاقت کو مزید مستحکم کرے گا، البتہ یہ کام کسی بھی قوم کو دھمکانے کے لئے نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہے، تاکہ کوئی بھی ملک ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے کی جرائت نہ کرے۔ ادھر سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی اور سپاہ کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمیرل تنگسیری نے زیر زمین میزائل سٹی میں سپاہ کی بحریہ کی جنگی اور میزائلی توانائیوں اور آمادگی کا معائنہ کیا۔

اس زیر زمین میزائل سٹی میں، دشمن کے جنگی بحری جہازوں کی الیکٹرانک وار کا مقابلہ کرنے والے جدید ترین کروز میزائل بھی نصب ہيں۔ اس زیر زمین میزائل سٹی میں اپ گریٹیڈ کروز میزائل ہیں، جو دشمن کے الیکٹرانک حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مختصر ترین وقت میں آپریشنل ہوسکتے ہیں۔ سپاہ نے اسی طرح اپنے ایک جدید ترین دفاعی اسلحے کی بھی رونمائی کی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران نے کئی زیر زمین میزائل شہروں کی نقاب کشائی کی ہے۔ فوجی حکام کے مطابق یہ شہر اپنی منفرد خصوصیات اور جدید صلاحیتوں کے ساتھ گائیڈڈ کروز میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران کی دفاعی کامیابیوں کی رونمائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاسداران انقلاب اسلامی نے ملک کے جنوبی ساحلی علاقے میں ایک اور بحری میزائل سٹی کی نقاب کشائی کی ہے۔

بحری میزائل سٹی کی نقاب کشائی کیوں ضروری ہے؟
یہ رونمائی اسلامی جمہوریہ ایران کے اپنی فوجی طاقت اور غیر ملکی خطرات کے خلاف مزاحمت کو بڑھانے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے اور اس طرح کے اقدامات خطے میں سیاسی اور فوجی مساوات کو متاثر کرتے ہیں۔

اہم نکات:
 ایران کی بحریہ کے کروز میزائل آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ ایران کے پاس گائیڈڈ میزائل کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میزائلی شہروں کی رونمائی کا مقصد دشمنوں کو متنبہ کرنا ہے، تاکہ وہ سوچ سمجھ کر ایران پر حملے کے بارے کوئی فیصلہ کریں۔ دشمن کو ایران کی دفاعی صلاحیت کے بارے میں حساب کتاب کی غلطیاں روکنے کے لیے یہ رونمائی کی گئی ہے۔ ان شہروں کو دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے زیر زمین گہرائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی مسلح افواج اپنی صلاحیتوں کو مسلسل اپ ڈیٹ کر رہی ہیں۔ ان زیر زمین شہروں کی رونمائی نہ صرف ایران کی فوجی پیش قدمی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ بیرونی خطرات کے خلاف ایک روکاوٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اس اقدام سے ایران کے دشمنوں کو پیغام جاتا ہے کہ ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔

قطع رحمی اور رشتہ داروں سے بد سلوکی:
قطع رحمی گناہ کبیرہ ہےیہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا نتیجہ آخرت سے پہلے دنیا میں ظاہر ہونے لگتا ہے جبکہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ایسی نیکی ہے جو بخشش اور خدا کی خوشنودی کا سبب ہے صلہ رحمی سے عمر اور رزق دونوں بڑھتے ہیں اور دنیاو آخرت کی مشکلات آسان ہوتی ہیں۔
قرآن مجید میں قطع رحمی کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے ارشاد خداوندی ہے:
’’والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویفسدون فی الارض اولئک لھم لعنۃ ولھم سوء الدار‘‘
’’وہ لوگ جو خدا سے پختہ عہد کے بعد اس کوتوڑتے ہیں اور جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں ان کے لیے لعنت اور بدترین گھر ہے‘‘۔
(سورہ رعد ، آیت ۲۵)
’’فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ‘‘
’’پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے‘‘۔
(سورہ محمد آیت ۲۲،۲۳)
’’وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ‘‘
’’اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)‘‘۔
(سورہ نساء آیت۰۱)
قطع رحمی کے متعلق معصومین علیھم السلام کے ارشادات:
۱۔ حذیفہ بن منصور بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
’’اتقواالحالقۃ فانھا تمیت الرجال، قلت و ما الخالقۃ؟ قال قطیعۃ الرحم‘‘
’’آپؑ نے فرمایا کہ حالقہ سے ڈرتے رہو حالقہ مردوں کو قبل از وقت موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے، میں نے عرض کیا حالقہ کیا ہے آپ نےفرمایا اس کا مطلب قطع رحمی ہے‘‘۔
۲۔ عثمان بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام کی خدمت میں عرض کیا:
مولا میرے بھائیوں اور چچا زادبھائیوں نے مجھ پر ظلم کیا ہےانہوں نے پورے مکان پر جو میری اور ان کی مشترکہ ملکیت ہے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور مجھے ( مع اہل خانہ) ایک کمرے میں رہنے پر مجبور کردیا ہے اگر میں ان کی شکایت کروں تو اپنا حق لےسکتا ہوں( آپ فرمائیں میں کیا کروں)؟
امام علیہ السلام ے فرمایا:
’’ تم صبر کرو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے آسانیاں پیدا کردے گا‘‘
اس نے امام کا فرمان سنا اور چلا گیا پھر اسی سال سن ۱۳۱ھ میں طاعون پھیلا اور میرے سارے رشتہ دار اس وبا سے ہلاک ہوگئے۔
’’میں جب دوبارہ امام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے پوچھا تمہارے رشتہ داروں کا کیا حال ہے۔
میں نے عرض کیا وہ سب طاعون میں مر گئے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
انہوں نے قطع رحمی کی تھی اور تمہارا حق غصب کیا تھااس لیے وہ ہلاک ہوگئے کیا تم چاہتےتھے کہ وہ ظلم کر کے بھی زندہ رہیں؟
میں نےعرض کیا
مولا ، مگر میں ان کی موت کا خواہش مند نہیں تھا‘‘۔
۳۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :
’’ کتاب علی علیہ السلام میں لکھا ہے کہ تین عادتیں ایسی ہیں جن کا وبال آدمی آخرت سے پہلے دنیا میں ہی دیکھ لیتا ہے۔
لوگوں کا حق مارنا
قطع رحمی کرنا
جھوٹی قسم کھانا‘‘
پھر آپؑ نے فرمایا:
’’ کوئی بھی نیکی عمل صلہ رحمی سے بڑھ کر انسان کو فائدہ نہیں پہنچا تا۔ بعض اوقات بدکار افراد صلہ رحمی کرتے ہیں تو خدا ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں مالا مال کردیتا ہے جھوٹی قسم کھانااور قطع رحمی کرنا شہروں کو ویران کر دیتا ہے اور قطع رحمی نسلوں کو منقطع کردیتی ہے‘‘۔
۴۔ عنبسہ بن عابد بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے اپنے رشتہ داروں کے ظلم کی شکایت کی۔
آپ علیہ السلام نے اسے فرمایا:
’’صبر کرو اور اپنےکام میں مشغول رہو‘‘۔
اس نے کہا مولا کیسے صبر کروں انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے وہ ظلم کیا ؟
آپؑ نے فرمایا:
’’ کیا تم بھی ان جیسا بننا چاہتے ہو۔ اگر تم بھی ان جیسے بن گئے تو خدا تم میں سے کسی کی طرف بھی نگاہ کرم نہیں کرے گا‘‘۔
۵۔ ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمومنین علیہ السلام نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’میں ایسے گناہوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو فوری بربادی کاموجب بنتے ہیں‘‘۔
خارجیوں کا ایک سردار عبد اللہ بن کواء کھڑا ہوا اور بولا:
اے امیر المومنین ۔!کیا کوئی گناہ ایسا بھی ہے جو فوری بربادی لاتا ہے؟
آپؑ نے فرمایا:
’’ قطع رحمی۔ یاد رکھو کچھ لوگ گنہ گار ہوتے ہیں مگر آپس میں تعلقات کوبڑی اہمیت دیتے ہیں اور اس صلہ رحمی کےنتیجے میں خدا ان کو وسیع رزق دیتا ہے اور کچھ لوگ پرہیز گارہوتے ہیں مگر آپس میں میل ملاپ نہیں رکھتے اور ایک دوسرے سے تعلقات توڑ لیتے ہیں۔خدا اس قطع رحمی کی وجہ سے ان کو وسعت رزق سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔
( مذکورہ تمام روایات اصول کافی ج ۲، ص ۳۴۸،۳۴۹ پر مرقوم ہیں)
۶۔ محاسن برقی مین مرقوم ہے کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل ناپسند ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ کو شرک سب سے زیادہ ناپسند ہے‘‘۔
اس نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سے عمل ہے؟
آپ نے فرمایا:
’’شرک کے بعد قطع رحمی اللہ کو نا پسند ہے‘‘۔
اس نےپوچھا کہ قطع رحمی کے بعد کون سے عمل اللہ کو ناپسند ہے؟
آپ نے فرمایا:
برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا‘‘۔
(محاسن برقی ج۱، ص۲۹۵)
۷۔امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ مجھ سے میرے والد ماجد نے بیان فرمایا:
’’ پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی نہ کرنا، بات نہ کرنا اور اس کو اپنا ہم سفر نہ بنانا‘‘۔
میں نے عرض کیا باباجان! وہ کون لوگ ہیں؟
آپ نے فرمایا:
’’جھوٹے سے دوستی نہ کرناوہ سراب کی مانند ہوتا ہےوہ جھوٹ بول کر قریبی چیز کو بعید بتائے گا اوردور کی چیز کو نزدیک بتائے گا۔
فاسق سے دوستی نہ کرنا، وہ تجھے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔
کنجوس سے دوستی مت کرنا وہ مشکل وقت میں تمہاری مدد نہیں کرےگا۔
احمق سے دوستی نہ کرنا،وہ اپنی طرف سے تمہارےلیے بھلائی چاہے گا لیکن حماقت کی وجہ سے نقصان پہنچائے گا۔
قاطع رحم سے دوستی نہ کرنا، کیوں کہ میں نے قرآن کریم میں اسے ملعون پایا ہے‘‘۔
(اصول کافی ج۲، ص۳۷۶)
۸۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل نے خبر دی ہے کہ
’’ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے لیکن والدین کا نافرمان، قاطع رحم اور بوڑھا زانی اس خوشبو کو نہیں سونگھ سکے گا‘‘۔
(بحار الانوار ج۷۶، ص۴۴ بحوالہ معانی الاخبار ص۲۰۰)
ایسے گناہ جن سے عمر کم ہوجاتی ہے
۱۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
’’والذنوب التی تعجل الفناء: قطیعۃ الرحم، والیمین الفاجرۃ والاقوال الکاذبۃ والزنا و سد الطرق المسلمین وادعا الامامۃ بغیر حق‘‘
’’قطع رحمی کرنا،جھوٹی قسم کھانا،جھوٹی بات کرنا،زنا کرنا،مسلمانوں کے راستے بند کرنا، امامت کا جھوٹا دعوی کرنا، یہ وہ گنا ہیں جن کی وجہ سے عمریں گھٹ جاتی ہیں‘‘۔
(معانی الاخبار ص۲۷۱)
۲۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے منصور دوانیقی سے فرمایا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’جب کوئی انسان صلہ رحمی کرتا ہےتو اگر اس کی عمر تین سال باقی ہو تو اللہ اس کو تیس سال میں بدل دیتا ہے اور جب کوئی شخص قطع رحمی کرتا ہے اگراس کی عمر تیس سال باقی ہو تو اللہ اس کی عمر تین سال میں بدل دیتا ہے‘‘۔
جب امام نے یہ حدیث بیان کی تو اس نے کہا یہ نہایت عمدہ حدیث ہے لیکن میں اس موضوع کی اور حدیث سننا چاہتا تھا۔
۳۔تو امام علیہ السلام نے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صلۃ الرحم تعمر الدیار وتزید فی الاعماروان کا اھلھا غیر اخیار‘‘
’’صلہ رحمی سے شہر آباد ہوتے ہیں اور عمریں بڑھتی ہیں اگرچہ صلہ رحمی کرنے والے نیکوکار نہ بھی ہوں۔‘‘
منصور نے کہا یہ حدیث بھی نہایت عمدہ ہے لیکن میں اس موضوع میں کوئی اور حدیث سننا چاہتا تھا۔
۴۔آپؑ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے
’’صلۃ الرحم تھون الحساب و تقی میتۃ السوء‘‘
’’صلہ رحمی آخرت کے حساب آسان بناتی ہےاور بری موت سے بچاتی ہے‘‘۔ منصور نے کہا میں یہی حدیث سننا چاہتاتھا۔
(سفینۃ البحار ج۱، ص۲۱۴)
۵۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
’’صلہ رحمی سے عبادت میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ اموال کی نشونما ہوتی ہے،بلائیں دور ہوتی ہیں،حساب آخرت میں آسانی پید اہوتی ہے اورعمریں بڑھ جاتی ہیں‘‘۔
۶۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے:
’’اوصی الشاھد من امتی والغائب ومن فی اصلاب الرجال ارحام النساء الی یوم القیامۃ،ان یصل الرحم وان کانت منہ علی مسیرۃ سنۃ فان ذلک من الدین‘‘
’’میں اپنی امت کے موجودہ اور غائب بلکہ جو قیامت تک باپوں کے صلب اور ماوں کے رحم میں ہیں اس سب کو صلہ رحمی کی سفارش کرتا ہوں اگرچہ رشتہ دار ایک سال کی مسافت پر بھی کیوں نہ رہتا ہو۔صلہ رحمی دین کا حصہ ہے‘‘۔
امام وقت سے قطع رحمی کا نتیجہ
ہارون نے جعفربن محمدبن اشعث کو اپنے بیٹے امین کا تالیق مقرر کیا تو ہاروں کے وزیر یحیی بن خالد بر مکی کو حسد ہوا کہ اگر ہارون کے بعد خلافت امین کو ملی تو مجھے لازمی برطرف کرکے جعفر بن محمد بن اشعث کووزیر بنا دیا جائے گا چناچہ یحیی بن خالد نے جعفر سے راہ و رسم بڑھائی تاکہ اس کے راز جان کرہارون کو اس کے خلاف لگائی بجھائی کرسکے اور ہارون کو اس سے بد گمان کردے۔
جب اسے معلوم ہوا کہ یہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا شیعہ ہے اور ان کی امامت کا قائل ہے تو اس نے ہارون کو جا کر یہ بات بتا دی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حالات کا پتا چلانے کے لیے یحیی نےاپنے بھروسے کےآدمی سے کہا کیا تم آل ابی طالب کے کسی ایسے فرد کو جانتے ہو جو تنگدست ہو اور مجھے اطلاعات فراہم کرے جو میں چاہتا ہوں۔ اس آدمی نے یحیی سے کہا کہ علی بن اسماعیل سے رابطہ کروجو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا بھتیجاہے۔ چناچہ یحیی نے اسے کچھ رقم بھیجی حالانکہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بھی اس پر شفقت فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقاتاس کو اپنا ہم رازز بھی بنایا کرتے تھے۔
یحیی بن خالد برمکی نے اپنے آدمی سے کہا علی بن اسماعیل کو بغداد بھیج دو۔ اس وقت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے انہوں نے اپنے بھتیجے کو بلا کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نےکہا بغداد جارہا ہوں۔ امام علیہ السلام نے کہا وہاں کیا کام ہے؟ اس نے کہا مقروض اور تنگدست ہوں شاید اللہ وہاں فضل کردے اور میرا قرض ادا ہوجائے۔ آپؑ نے فرمایا میں تمہارا قرض اد اکردوں گا اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہوسکا کروں گا لیکن علی بن اسماعیل اپنےارادے پر قائم رہا اور آمادہ سفرہوا۔ امام نے دوبارہ اس سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ اس نے جواب دیا اس کے سوا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ تب امام علیہ السلام نے فرمایا:
’’ بھتیجے خیال رکھنا بغداد جاکر میری اولاد کو یتیم نہ کرنا۔‘‘
یہ تمہارے لیے انتہائی خطر ناک ثابت ہوگا۔ یہ کہہ کر آپ نے اسے تین سو دینار اور چار ہزار درہم دئیے۔ جب وہ رخصت ہوا تو آپ نے حاضرین مجلس سے کہا:
’’بخدا! یہ میرا خون بہانے کی کوشش میں کامیاب ہوجائے گا اور میرے بچے یتیم ہوجائیں گے‘‘۔
لوگوں نے کہا جب آپ کو یہ بات معلوم ہے تو آپ نے اتنی نوازش کیوں فرمائی؟ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے آبائے کرام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی ہے:
’’رشتہ داری جب ایک طرف سے کاٹ دی جاتی ہےتو اسے دوسری طرف سے جوڑا جائے پھر بھی اسے کاٹا جائے تو کاٹنے والا برباد ہوجاتا ہے‘‘۔
علی بن اسماعیل سیدھا وہاں سے نکل کر یحیی بن خالد کے پاس آیا ۔ یحیی نے اس سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے متعلق معلومات حاصل کیں اوراس سے کہیں بڑھا چڑھا کر ہارون کےکان بھرے پھر علی بن اسماعیل کو لے کر ہارون کے پاس آیا ۔ ہارون نےاس سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس ملک کے طول و عرض سے اموال آتے ہیں حال ہی میں انہوں نے مدینہ میں تیس ہزار دینار میں ایک کھیت خریدا ہے ادئیگی کے وقت کھیت کے مالک نے کہا کہ میں ان سکوں میں سےقیمت نہیں لوں گا مجھے فلاں سکوں میں ادائیگی کریں تو انہوں نے وہ سکے منگوائے اورادائیگی کی۔
یہ سن کر ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید کرنے کا حکم دیا اوربعد میں شہید کردیااس نے علی بن اسماعیل کو دو لاکھ درہم کا انعام دیا تاکہ وہ بغداد میں اپنے لیے گھر خرید سکے علی بن اسماعیل نے بغداد کے مشرق میں ایک گھر کو پسند کیا اوراس کے آدمی دو لاکھ درہم لینے ہارون کےگھر گئے۔ علی ان کی واپسی کے انتظار میں دن گنتا رہا۔ ایک دن اسے پیٹ میں پیچش کا مروڑ اٹھا۔ وہ بیت الخلاء میں گیا اورزور لگایا تو اس کی ساری آنتیں باہر نکل آئیں۔ وہ گر پڑا ۔ لوگوں نے ہر چندکوشش کی کہ آنتیں اندر واپس چلی جائیں مگر ممکن نہ ہوسکا وہ نزع کے عالم میں تھا کہ اس کے دو آدمی دو لاکھ درہم لے کر آئے اس نے کہا اب اس رقم کو لے کر کیا کروں گا میں تو مرر رہا ہوں۔ یہ کہا اورمر گیا۔
(الارشاد، بحار االانوار)
کتاب "محرمات اسلام "سے اقتباس

حضرت امام سید سجادعلیہ السلام کاطریقۂ تبلیغ دعا کے پیکر میں اسلامی معارف کا بیان کرنا ہے ،ہم جانتے ہیں کہ دعا انسان اور پروردگار کے درمیان معنوی پیوند اور لگاؤ ہے جو تربیتی اور اخلاقی اثر کی حامل ہے ،اس اعتبار سے کہ اسلام کی نظر میں دعا کا ایک خاص مقام ہے۔ اگر پیغمبر اسلام ص وائمۂ معصومین (علیہم السلام )کی طرف سے جو دعائیں ہم تک پہونچی ہیں جمع کردی جائیں تو ایک بہت بڑا مجموعہ بن جائے گا ۔یہ دعائیں عظیم تربیت کا ایک مکتب ہے جو انسانوں کے رشد ونما اور ان کی اخلاقی تربیت میں ایک اہم کردار کی حامل ہیں ۔
جیسا کہ چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کےزمانےمیں حالات بہت زیادہ پرآشوب اور خراب تھے ،امام اپنے اغراض ومقاصد کو دعا اور مناجات کی شکل میں بیان کرتے تھے ،آپ کی دعاؤں کا مجموعہ جو صحیفۂ سجادیہ کے نام سے مشہور ہے قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے بعد سب سے عظیم واہم حقائق اور الٰہی معارف کا گرانقدر خزانہ سمجھاجاتا ہے کہ جسے ہمارے جلیل القدر علما ء نے اخت القرآن (قرآنکی بہن)،انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد ص کالقب عطاکیا ہے۔
صحیفۂ سجادیہ صرف خداوند عالم کی بارگاہ میں رازونیاز ،مناجات ،دعا اور طلب ِ حاجات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم ومعارف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بے کراں سمندر ہے کہ جس میں عقیدتی ،ثقافتی ،سیاسی مسائل ،بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام دعا کی شکل میں بیان کئے گئے ہیں۔
مرجع فقید مرحوم آیت اللہ العظمیٰ نجفی مرعشی قدس سرہ نے ١٣٥٣ھمیں علامۂ معاصر مؤلف تفسیر طنطاوی (مفتی اسکندریہ)کی خدمت میں صحیفۂ سجادیہ کا ایک نسخہ قاہرہ روانہ کیا ،انھوں نے اس گراں قدر ہدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں اس طرح تحریر فرمایا ہے :
"یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ یہ گراں قدر کتاب جو میراث نبوت سمجھی جاتی ہے اب تک ہم اس سے محروم تھے اور میں جتنا بھی اس میں مشاہدہ اور غورو فکر کرتا ہوں اسے کلام مخلوق سے افضل وبرتر اور کلام خالق سے کمتر پاتا ہوں ۔ ”
صحیفہ ٔ سجادیہ ، ترجمہ سید صدر الدین صدر بلاغی ، تہران ، دار الکتب الاسلامیة ، مقدمہ ، ص ٣٧
صحیفۂ سجادیہ کی بے نظیر اہمیت اور اس کے نہایت معتبر ہونے کی وجہ سے تاریخ اسلام میں عربی اور فارسی زبان میں اس کتاب کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں ۔
مرحوم علامہ شیخ آغا تہرانی نے کتاب الذریعہ میں ترجمہ کے علاوہ تقریباً اس کی پچاس شرحوں کا نام تحریر کیا ہے ۔
شیخ آغا بزرگ ، الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ ، الطبعۃالثانیۃ، ج ٣،ص٣٤٥۔٣٥٩
ان شرحوں کے علاوہ گزشتہ اور معاصر کے جلیل القدر علماء کی ایک جماعت نے اس کا متعدد ترجمہ کیا ہے ۔
صحیفۂ سجادیہ 54دعاؤں پرمشتملہےکہجنکےعناوین کی فہرست اس طرح ہے :
١۔خداوندعالمکی حمد وثناء
٢۔رسولاکرم صاورانکی آل پر درود و صلوات
٣۔حاملانعرشفرشتوںپردرودوصلوات
٤۔انبیا ء کی تصدیق کرنے والوں پر درود و صلوات
٥۔اپنےاوراپنےقرابتداروںکےسلسلہمیں دعا
٦۔صبحوشامکےوقتکی دعا
٧۔مشکلاتکےوقتکی دعا
٨۔طلبپناہکےسلسلہکی دعا
٩۔طلبمغفرتکےسلسلہکی دعا
١٠۔خداکی پناہ طلب کرنے کی دعا
١١۔انجامبخیر ہونے کی دعا
١٢۔اعترافگناہکےبارےمیں دعا
١٣۔طلبحاجاتکےسلسلہمیں دعا
١٤۔ایسے ظلم و ستم کے بارے میں دعا جو ان پر ڈھائے گئے
١٥۔بیماری کی وقت کی دعا
١٦۔گناہوںسےطلببخششکےبارےمیں دعا
١٧۔شیطان پر لعن و نفرین کرنے کے بارے میںدعا
١٨۔دفعبلیات کے سلسلہ میں
١٩۔طلببارانکی دعا
٢٠۔نیک اور پسندیدہ اخلاق کے بارے میں دعا
٢١۔آپکےمحزونوغمگین ہونے کے وقت کی دعا
٢٢۔شدتوسختی کے وقت کی دعا
٢٣۔طلبعافیت کی دعا
٢٤۔والدین کے لئے دعا
٢٥۔اولادکےلئےدعا
٢٦۔پڑوسیوں اور دوستوں کے بارے میںدعا
٢٧۔اسلامی ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے لئے دعا
٢٨۔بارگاہخداوندی میں پناہ طلب کرنے کے وقت کی دعا
٢٩۔تنگی رزق کے وقت کی دعا
٣٠۔ادائےقرضکی دعا
٣١۔دعائےتوبہ
٣٢۔نمازشبکےبعدکی دعا
٣٣۔دعائےاستخارہ
٣٤۔مشکلاتاورگناہوںکی رسوائی میں گرفتار ہونے کے وقت کی دعا
٣٥۔الٰہی قضا و قدر پر راضی رہنے کے موقع کی دعا
٣٦۔بجلی کڑک اور بادل کی گرج سننے کے وقت کی دعا
٣٧۔شکرپروردگارکےبارےمیں دعا
٣٨۔عذرخواہی کے سلسلہ میں دعا
٣٩۔طلبعفووبخششکی دعا
٤٠۔موتکو یاد کرنے کے وقت کی دعا
٤١۔گناہوںسےپردہپوشی طلب کرنے کے بارے میں دعا
٤٢۔ختمقرآنکےبعدکی دعا
٤٣۔دعائےرویت ہلال
٤٤۔استقبالماہرمضانکی دعا
٤٥۔وداعماہرمضانکی دعا
٤٦۔عیدین اور جمعہ کے دن کی دعا
٤٧۔روزعرفہکی دعا
٤٨۔ عید قربان اور جمعہ کی دعا
٤٩۔دشمنکےمکروفریب کے دفع ہونے کی دعا
٥٠۔خوفالٰہی کے سلسلہ میں دعا
٥١۔تضرعوزاری کے سلسلہ کی دعا
٥٢۔خداسےباربارالتماسکرنےکےسلسلہکی دعا
٥٣۔بارگاہخداوندی میں عجز و انکساری کی دعا
٥٤۔رنجوغمکےدورہونےکی دعا

صحیفۂ سجادیہ کے سیاسی پہلو
صحیفۂ سجادیہ صرف بارگاہ خداوندی میں دعا ،مناجات اور طلب ِ حاجات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور عقیدتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں ۔حضرت امام سید سجاد ؑ نےاپنی دعاؤں کے ضمن میں کئی مقامات پر سیاسی مباحث بالخصوص مسئلۂ امامت اور اسلامی معاشرہ کی رہبری کو پیش کیا ہے کہ جن کے چند نمونے یہ ہیں:
١۔امام علیہ السلام بیسویں دعا ،دعائے مکارم الاخلاق میں اس طرح فرماتے ہیں :
اے خدا!محمد وآل محمدصپردرودبھیج اور مجھے اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھ پر ظلم کرتا ہے قدرت وتوانائی عطا کر اور اس شخص کے مقابلہ میں کہ جس نے مجھ سے مجادلہ کیا ہے زبان گویا عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں کہ جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے فتح وظفر عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھے فریب دیتا ہے راہ چارہ اور تدبیر عطا فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھے اذیت پہونچاتا ہے قدرت وطاقت عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں میری عیب جوئی اور مجھے سب وشتم کرتا ہے جھٹلانے کی قوت عنایت فرما اور دشمنوں کے خطرات سے محفوظ فرما ۔
کیاعبد الملک کے کارندوں (جیسے ہشام بن اسماعیل مخزومی)کے علاوہ وہ کون لوگ تھے کہ جن کی وجہ سے امام علیہ السلام پرظلموستم  ڈھائےگئےاورانھیں اذیت پہوچائی گئی ؟اس بناء پر درحقیقت امام کی یہ دعائیں حکومت وقت کی سینہ زوری کے مقابلہ میں ایک اعتراض اور شکایت تھیں اسی لحاظ سے سیاسی پہلو کی حامل ہیں ۔
٢۔امامـکی وہ دعا جو آپ عید قربان اور جمعہ کے دن پڑھتے تھے ان دعاؤں میں اس طرح بیان ہوا ہے
"اے خدا !یہ مقام (خلافت اور امت مسلمہ کی رہبری جو عید قربان اور جمعہ کے دن اقامۂ نماز اور جمعہ کے در خطبے اسی کی شان ہے)تیرے خلفاء اور تیری برگزیدہ ہستیوں سے مخصوص ہے اور تیرے امانتداروں کا مقام ہے کہ جس کو تو نے بلند وبالا درجہ میں قرار دیا ہے ،لیکن ظالموں نے اسے غصب کرلیا ہے یہوں تک کہ تیری برگزیدہ ہستیاں اور تیرے خلفاء مظلوم و مقہور واقع ہوئے اس حال میں کہ وہ مشاہدہ کررہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردیئے گئے ہیں، تیری کتاب میدان عمل سے دور کردی گئی ہے ،فرائض وواجبات میں تحریف کردی گئی ہے اور تیرے پیغمبر ص کی سنت کو ترک کردیا گیا ہے ۔
اے خدا! اپنے برگزیدہ بندوں کے تمام دشمنوںاوران لوگوں پر لعنت بھیج جو ان کے اس عمل سے راضی ہیں ،نیز ان کے ساتھیوں اور ان کے پیروکاروں پر لعنت بھیج اور اپنی رحمت سے دور کر ۔
اما م علیہ السلام نےاسدعامیں بڑی صراحت کے ساتھ امامت ورہبری کے مسئلہ کو جو خاندان پیغمبر صسےمخصوصہےبیان کیا ہے اور بتا یا ہے کہ ظالموں نے اسے غصب کرلیا ہے اس لئے حکومت بنی امیہ کے جائز اور شرعی ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔

٣۔”پروردگارا! درودبھیج اہل بیت عصمت وطہارت پر کہ جن کو تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کو اجرا کرنے کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم کا خزانہ دار ،اپنے دین کا محافظ ونگہبان ،روئے زمین پر اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیا اور اپنے ارادہ ومشیت سے ان کو ہر نجاست سے پاک وپاکیزہ اور دور رکھا اور انھیں اپنی بارگاہ میں پہونچنے اور بہشت میں داخل ہونے کا وسیلہ قرار دیا…
پروردگارا ! تونے ہر زمانے میں کسی امام کے ذریعہ اپنے دین کی تائید و تصدیق فرمائی ہے کہ جس کو اپنے بندوں کا رہبر ، پیشوا اور قائد بنایاہے اور زمین پر مشعل ہدایت ، اپنی خوشنودی کا وسیلہ اور اس کی پیروی کو واجب قراردیاہے اور اس کی نافرمانی سے ڈرایاہے اور جس چیزکو انجام دینے کا حکم دیاہے اس کی اطاعت اور جس چیز سے منع کیاہے اس کو قبول کرنے کا حکم دیاہے اور یہ مقرر کیاہے کہ نہ کوئی شخص اس سے سبقت کرے اور نہ کوئی اس کی پیروی سے چشم پوشی کرے …”
نیز آپ علیہ السلام نے اس دعا میں الٰہی نمائندوں اور خاندان نبوت کے اماموں کا خاص نقش اور ان کے امتیازات کو بیان کیاہے اس کے معنی یہ ہیں کہ بنی امیہ کی حکومت ناحق اور غاصب حکومت ہے اور جو اصل حقدار ہیں ان کی صفات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔لہذا صحیفہ سجادیہ دعا و مناجات کے علاوہ علوم الہیہ کا مخزن اور سمندر بے کراں ہے کہ جس سے فیص پانے والا خالی ہاتھ نہیں لوٹتا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس کلمات سے بھر پور فیض حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام سجادؑ  کی ذاتی شخصیت:

یہاں پر ہم امام سجادؑ  کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگان و علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں۔

زہری ، ابو حازم ، سعيد ابن مسيب اور مالک:

ابن عماد حنبلی نے ان چاروں کے قول کو امام سجادؑ کے بارے میں ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال الزهري ما رأيت أحدا أفقه من زين العابدين لكنه قليل الحديث وقال أبو حازم الأعرج ما رأيت هاشميا أفضل منه وعن سعيد بن المسيب قال ما رأيت أورع منه وقال مالك بلغني أن علي بن الحسين كان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة إلى أن مات وكان يسمى زين العابدين لعبادته.زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی زین العابدین سے زیادہ فقیہ و عالم نہیں دیکھا، لیکن ان سے بہت کم روایات نقل کی گئیں ہیں۔ابو حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی امام سجادؑ سے بالا تر نہیں دیکھا۔سعید ابن مسیب سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی امام سجادؑ سے با تقوی تر نہیں دیکھا۔مالک نے بھی کہا ہے کہ: مجھے خبر ملی تھی کہ علی ابن حسینؑ  مرتے دم تک دن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، اور انکو کثرت عبادت کیوجہ سے زین العابدین کہا جاتا تھا۔

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفى1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 1 ص 105 ، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير – دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ. .

یعقوبی:

یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں ایسے لکھا ہے کہ:

وكان أفضل الناس وأشدهم عبادة وكان يسمى زين العابدين وكان يسمى أيضا ذا الثفنات لما كان في وجهه من أثر السجود وكان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة ولما غسل وجد على كتفيه جلب كجلب البعير فقيل لأهله ما هذه الآثار قالوا من حمله للطعام في الليل يدور به على منازل الفقراء. قال سعيد بن المسيب ما رأيت قط أفضل من علي بن الحسين.

وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے بالا و برتر تھے اور ان میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے، اسی وجہ سے ان کو زین العابدین کہا جاتا تھا اور اسی طرح سے انکو ذا الثفنات بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ انکی پیشانی پر سجدوں کے بہت آثار تھے اور وہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد جب ان کو غسل دیا جا رہا تھا، تو انکے کندھوں پر زخم کے نشانات تھے۔ جب انکے گھر والوں سے پوچھا گیا کہ یہ کندھوں پر نشانات کیسے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ راتوں کو فقراء و ضرورت مندوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء اٹھانے کی وجہ سے یہ نشانات پڑے ہیں۔سعيد ابن مسيب نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی علی ابن حسین سے برتر نہیں دیکھا۔

اليعقوبي، ج 2 ص 303 ، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفى292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ناشر: دار صادر – بيروت.

ابو نعیم اصفہانی:

ابو نعیم اصفہانی نے ایسے لکھا ہے کہ:

علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنهم زين العابدين ومنار القانتين كان عابدا وفيا وجوادا حفيا.

علی ابن الحسین،امام سجاد علیہ السلام عبادت کرنے والوں کی زینت اور عابد لوگوں کے لیے ایک علامت و نشان تھے۔ وہ ایک عابد، وعدے کے پابند اور شرف و وقار کے ساتھ چلنے والے انسان تھے۔

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 133 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..

ابو الولید الباجی:

اس نے امام سجادؑ کی شخصیت کے بارے میں زہری کے قول کو نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني علي بن الحسين وكان أفضل أهل سنة وأحسنهم طاعة.

علی ابن الحسین میرے ساتھ کلام کیا کرتے تھے اور وہ سنت پر عمل کرنے والوں میں سب سے بہترین تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ اطاعت گزار بندے تھے۔

الباجي، سليمان بن خلف بن سعد ابوالوليد (متوفى474هـ)، التعديل والتجريح لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح، ج 3 ص 956 ، تحقيق: د. ابولبابة حسين، ناشر: دار اللواء للنشر والتوزيع – الرياض، الطبعة: الأولى، 1406هـ – 1986م.

ابن ابی حازم:

بیہقی نے ابن ابی حازم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

قال ابن أبي حازم وهو من العلماء السلف: ما رأيت هاشمياً أفضل من زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما.

ابن ابی حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی علی ابن الحسین سے افضل و بالا تر نہیں دیکھا۔

البيهقي، أبو الحسن ظهير الدين علي بن زيد، الشهير بابن فندمه (متوفي 565هـ) لباب الأنساب والألقاب والأعقاب، ج 1 ص 13 ، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن عساکر:

ابن عساکر شافعی نے بھی ان امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وكان يسمى بالمدينة زين العابدين لعبادته.

وہ امام سجاد علیہ السلام شہر مدینہ میں زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے سجاد کہلاتے تھے۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 379 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.

ابن خلکان:

ابن خلکان نے بھی حضرت امام سجاد سلام اللہ علیہ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

زين العابدين أبو الحسن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنهم أجمعين المعروف بزين العابدين…هذا وهو أحد الأئمة الأثني عشر ومن سادات التابعين قال الزهري ما رأيت قرشيا أفضل منه.زين العابدين،ابو الحسن علی ابن الحسين ابن علی ابن ابی طالب معروف بہ زين العابدين… وہ بارہ آئمہ میں سے ایک امام اور بزرگ تابعی تھے۔

زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی ان ( علی ابن الحسین) سے افضل نہیں دیکھا۔

إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3 ص 267 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.

یحیی ابن سعید:

ابن سعد اور ابن عبد البر نے قول یحیی ابن سعید سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال سمعت علي بن حسين وكان أفضل هاشمي أدركته.

یحیی ابن سعید نے نقل کیا ہے کہ: میں نے علی ابن الحسین سے روایت کو سنا ہے اور میں نے جتنے بھی ہاشمیوں کو دیکھا تھا، وہ ان سب میں سے افضل و بالا تر تھے۔

البصري الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبد الله (متوفي230 هـ)، الطبقات الكبرى ، ج 5 ص 214 ، دار النشر : دار صادر – بيروت ، طبق برنامه الجامع الكبير…

سعید ابن مسیب:

مزی اور ذہبی نے سعید ابن مسیب کے قول سے نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

قال رجل لسَعِيد بن المُسَيب : ما رأيت أحدا أورع من فلان. قال هل رأيت علي بن الحسين ؟ قال : لا ، قال : ما رأيت أورع منه.

ایک بندے نے سعید ابن مسیب سے کہا کہ: میں نے فلاں شخص سے کسی کو با تقوی تر نہیں دیکھا۔ سعید ابن مسیب نے اس سے کہا: کیا تم نے علی ابن الحسینؑ کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں، سعید نے کہا: میں نے علی ابن الحسینؑ سے با تقوی تر کسی کو نہیں دیکھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 389 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن حجر:

ابن حجر مکی نے اپنی کتاب الصواعق میں امام سجادؑ کی عظیم شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

وزين العابدين هذا هو الذي خلف أباه علما وزهدا وعبادة وكان إذا توضأ للصلاة اصفر لونه فقيل له في ذلك فقال ألا تدرون بين يدي من أقف.

زین العابدین علم،زہد اور عبادت میں اپنے والد کے جانشین تھے اور جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو انک ے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو، انھوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں ؟!

الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 582 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.

مزّی اور ابن حجر:

اہل سنت کے دو علم رجال کے بزرگ علماء مزی اور ابن حجر نے مالک کے قول سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وَقَال ابن وهب ، عن مالك : لم يكن في أهل بيت رسول اللّٰه مثل علي بن الحسين.

مالک سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: رسول خدا کے اہل بیت میں کوئی فرد بھی علی ابن حسینؑ کی طرح کا نہیں تھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 387 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 7 ص 269 ، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984 م.

ابن تیمیہ:

ابن تیمیہ حرّانی نے بھی امام سجادؑ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:وأما على بن الحسين فمن كبار التابعين وساداتهم علما ودينا… وكان من خيار أهل العلم والدين من التابعين.علی ابن الحسين بزرگ تابعین اور علم و دین کے لحاظ سے انکے بزرگوں میں سے تھے۔۔۔۔ اور وہ تابعین میں سے اہل علم و دین کے لحاظ سے برگزیدہ تھے۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابو العباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 49 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

امام سجادؑ کی ہیبت اور فرزدق شاعر کے اشعار:

امام سجادؑ کے حج کرنے اور انکی ہیبت کا واقعہ شیعہ و سنی کی کتب تاریخ میں بہت مشہور ہے۔

تنوخی اور ابن سمعون نے اس داستان کو ابو الفرج اصفہانی کے قول سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال أبو الفرج الأصبهاني: حدثني بن محمد بن الجعد ومحمد بن يحيى قالا: حدثنا محمد بن زكريا العلاني قال: حدثنا ابن عائشة قال: حج هشام بن عبد الملك في خلافة الوليد أخيه ومعه أهل الشام فجهد أن يستلم الحجر فلم يقدر من ازدحام الناس، فنصب له منبر فجلس عليه ينظر إلى الناس، فأقبل زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما، وهو أحسن الناس وجهاً، وأنظفهم ثوباً؛ وأطيبهم رائحة، فطاف بالبيت فلما بلغ الحجر تنحى الناس كلهم له وأخلوا الحجر ليستلمه، هيبة له وإجلالاً، فغاظ ذلك هشاماً وبلغ منه، فقال رجل لهشام: من هذا أصلح اللّٰه الأمير؟ قال: لا أعرفه، وكان به عارفاً، ولكنه خاف أن يرغب فيه أهل الشام ويسمعوا منه. فقال الفرزدق، وكان لذلك كله حاضراً: أنا أعرفه فسلني يا شامي من هو، قال: ومن هو؟ قال:

هذا الذي تعرف البطحاء وطأته … والبيت يعرفه والحل والحرم

هذا ابن خير عباد الله كلهم … هذا التقي النفي الطاهر العلم …

ہشام ابن عبد الملک اپنے بھائی کے دور خلافت میں اہل شام کے کچھ لوگوں کے ساتھ حج پر گیا۔ وہاں پر موجود لوگ حجر اسود کو بوسہ دینا چاہتے تھے، لیکن بہت زیادہ رش کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ ہشام کے لیے اس جگہ ایک منبر لگایا گیا اور وہ اس پر بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں امام سجادؑ بھی وہاں پر آ پہنچے۔ وہ خوبصورتی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ خوبصورت اور پاکیزگی کے لحاظ سے ، انکا لباس پاک ترین لباس تھا۔ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے کرتے جب حجر الاسود کے نزدیک پہنچے تو ایک دم سے سب لوگ ایک طرف ہو گئے اور حجر اسود کو امام کے لیے خالی کر دیا، تا کہ وہ اس پتھر کو ہاتھ سے مس کر سکیں۔ امام کی بزرگی اور ہیبت بہت زیادہ تھی۔ ہشام نے جب امام کی اس جلالت و عظمت کو دیکھا تو بہت غصے میں آ گیا۔ ایک بندے نے کہا اے امیر یہ کون ہے ؟ ہشام نے امام کو جاننے کے باوجود کہا: نہیں میں اسکو نہیں جانتا۔ اس بات کو فرزدق شاعر کھڑا سن رہا تھا، اس نے ہشام سے کہا: میں اس (امام) کو جانتا ہوں۔ اے شامی ادھر آؤ مجھ سے پوچھو کہ وہ کون ہے۔ شامی نے فرزدق سے پوچھا، وہ کون ہے ؟ اس موقع پر فرزدق نے اپنے اشعار میں اس شامی کو جواب دیا:

1- یہ وہ شخص ہے کہ جس کو مکہ کی سرزمین جانتی ہے، حتی اسکے پاؤں کے نشان کو بھی یہ زمین جانتی ہے، خانہ کعبہ، مدینہ کے صحرا، حلّ اور حرم تمام اسکو جانتے ہیں۔

2- یہ خداوند کے بہترین بندگان کا بیٹا ہے، یہ وہی پرہیزگار اور پاکیزہ انسان ہے کہ جو زمین پر خداوند کی آیت و علامت ہے۔

البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفى387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج 1 ص 8 ، طبق برنامه الجامع الكبير.

التنوخي، أبو علي المحسن بن علي، (متوفي: 384هـ) ، المستجاد من فعلات الأجواد ، ج 1 ص 303 ، طبق نرم افزار الجامع الکبير..

نتیجہ مطالب:

حضرت سجاد امام زین العابدین ؑ کے ذاتی اور اخلاقی فضائل و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی اس تحریر میں نمونے کے طور پر امام کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ کمال یہ نہیں ہوتا کہ اپنے اور چاہنے والے ہی ایک انسان کے فضائل کو بیان کریں، بلکہ کمال یہ ہے کہ انسان کے مخالف نہ چاہتے ہوئے بھی اس انسان کے کمالات کو بیان کریں۔

يا اَبَا الْحَسَنِ يا عَلِىَّ بْنَ الْحُسَيْنِ يا زَيْنَ الْعابِدينَ يَا بْنَ رَسُولِ اللّٰهِ يا حُجَّةَ اللّٰهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا اِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللّٰهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللّهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللّٰهِ.

 

 

یا صاحب الزمان علیہ السّلام! ہم آپ کی خدمت میں آپ کے جد، سید الساجدین، امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی پر مسرت گھڑیوں میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں، یہ وہ دن ہے جب عبادت و بندگی کا آفتاب چمکا، صبر و استقامت کا درس دنیا کے سامنے آیا اور وہ ہستی اس دنیا میں جلوہ گر ہوئی جو ظلم کے مقابلے میں خاموش مگر مضبوط مزاحمت کی علامت بنی۔

عزیز دوستو!

یہ دن ہم سب کے لیے رحمت اور ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہے۔ امام زین العابدینؑ کی زندگی ہمیں صبر، اخلاق، عبادت اور حقوق العباد کی تعلیم دیتی ہے۔ آئیے، اس موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم امام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں گے، خاص طور پر آج کے اس جدید دور میں جہاں نئی قسم کی آزمائشیں ہمارے سامنے ہیں۔

آج کی دنیا میں ہم ایک ایسی غلامی میں گرفتار ہو چکے ہیں جسے "ڈیجیٹل غلامی" کہا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غلامی صرف جسمانی قید و بند کا نام ہے، مگر حقیقت میں یہ ذہن، وقت، سوچ، اور فیصلوں پر قابو پانے کا نام بھی ہے۔ ہم ہر لمحہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے اسیر ہیں۔ہماری پرائیویسی، فیصلے، اور زندگی کی ترجیحات ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔

یہ غلامی کسی یزیدی جبر سے کم نہیں، جو انسان کی آزادی اور خودمختاری کو ختم کر رہی ہے۔امام زین العابدینؑ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی آزادی کیا ہے۔ آپؑ قید میں تھے، مگر آپ کا دل اور روح آزاد تھی۔آپؑ پر ظلم ہوا، مگر آپ نے کبھی حق کا دامن نہیں چھوڑا۔آپؑ نے "رسالہ حقوق" لکھ کر دنیا کو سکھایا کہ ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔آج کے ڈیجیٹل دور میں، ہمیں امامؑ سے سیکھنا ہوگا کہ کیسے ہم خود کو ڈیجیٹل غلامی سے آزاد کر سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں امامؑ کی تعلیمات پر عمل کیسے کریں؟

1. ڈیجیٹل ڈیٹوکس اپنائیں یعنی کچھ وقت کے لیے ڈیجیٹل دنیا سے دوری اختیار کریں اور ہر روز کچھ وقت اسکرین سے ہٹ کر دعا، غور و فکر اور حقیقی زندگی کے تعلقات پر توجہ دیں۔

2. غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے بچیں سوشل میڈیا پر ہر بات پھیلانے سے پہلے تحقیق کریں، جیسا کہ امام زین العابدینؑ نے ہمیشہ حق اور سچائی کا دامن تھامے رکھا۔

3. اپنی نجی زندگی اور وقار کا تحفظ کریں اگر امامؑ نے ظالم حکمرانوں کے سامنے تقیہ اور حکمت سے کام لیا، تو ہمیں بھی اپنی معلومات اور پرائیویسی کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

4. سوشل میڈیا کو مثبت استعمال میں لائیں اور امامؑ کے علم، اخلاق، اور دعاؤں کو دنیا تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا تعمیری انداز میں استعمال کریں۔

یا صاحب الزمان علیہ السّلام!

ہم آپ کے جد، امام زین العابدینؑ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنا کر اس جدید دنیا میں گمراہی کے طوفان سے بچنے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں وہ شعور عطا ہو کہ ہم ٹیکنالوجی کے غلام بننے کے بجائے اسے امامؑ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔

اللّٰہُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَج والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم

ایران کے اکتالیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے شرکاء، اساتذہ ، حفاظ اور قرآء نے تھران کے حسینیه‌ امام خمینی(ره) میں رھبرملاقات سے ملاقات کی۔
 
 
غزہ میں 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ رک جانے کے بعد اب مختلف سیاسی حلقوں میں اس موضوع پر گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے کہ خطے کا مستقبل کیا رخ اختیار کرے گا؟ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی و سیکورٹی اداروں کی گذشتہ توقعات کے برخلاف غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا ملٹری ونگ عزالدین قسام بٹالینز پوری قوت سے موجود ہے اور عوام کی بھرپور حمایت سے فلسطینی مجاہدین نے قیدیوں کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت زندہ اور باقی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ابومازن محمود عباس کے ممکنہ جانشین حسین الشیخ سے ملاقات کی ہے۔
 
ایک اندازے کے مطابق اس ملاقات میں جو موضوع زیر بحث لایا گیا ہے وہ غزہ پر بھی فتح آرگنائزیشن کی حکومت قائم کرنے کی حکمت عملی تلاش کرنا ہے۔ ویٹکاف اور حسین الشیخ کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی ایلچی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ مشرق وسطی خطے کے مستقبل کے بارے میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کا نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ وائٹ ہاوس سعودی حکمرانوں کی وساطت سے فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ غزہ پر حکمرانی کے لیے فلسطین اتھارٹی کا ممکنہ امیدوار زیاد ابو عمرو ہے جو محمود عباس کا مشیر اور قریبی ساتھی ہے۔ وہ غزہ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 2014ء کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی یہ کہہ کر شدید مخالفت کی تھی کہ اسرائیل ایسا نہیں چاہتا۔
 
فلسطین اتھارٹی، جو فتح آرگنائزیشن کی ایک شاخ ہے، بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی سیکولر تنظیم ہے اور اس کی تشکیل سرد جنگ کے دوران انجام پائی تھی جب سامراج مخالف افکار اپنے عروج پر تھے۔ اگرچہ اس تنظیم نے کئی عشروں تک غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد انجام دی لیکن 1990ء کے عشرے میں تل ابیب سے سازباز کا راستہ اختیار کیا اور غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ اوسلو 1 اور اوسلو 2 معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ غاصب صیہونی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کے باعث اس وقت غزہ کی پٹی کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی فلسطین اتھارٹی سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے سیاسی اداروں نے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں وہ شدید کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
جب فتح آرگنائزیشن غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور چلانے میں ناکام ہو گئی نیز اس نے 2006ء میں پارلیمانی الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تو غزہ کی پٹی میں حماس نے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا۔ حماس کو فتح آرگنائزیشن کی حکومت کے خلاف اس جدوجہد میں عوام کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔ دوسری طرف امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت بچانے کی خاطر اس پر دباو ڈالا کہ وہ اپنے اندر سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات انجام دے۔ پہلے مرحلے میں فلسطین اتھارٹی کو محمود عباس کی پوزیشن واضح کرنی تھی جو آٹھ سال سے صدر تھے اور عوام میں ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگلے قدم میں فتح آرگنائزیشن کو قومی آمدن کی منصفانہ تقسیم کی جانب آگے بڑھنا تھا جس کے تحت مزید فلسطینی عوام کو بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا جانا تھا۔
 
واشنگٹن کے سیاسی اداروں کی راہداریوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کو استعمال کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے اور حمایت کرنے والوں میں مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وائٹ ہاوس، واشنگٹن کے زیر اثر فلسطین اتھارٹی کو غزہ پر قابض کر کے فلسطین کی اسلامی مزاحمت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی غاصب صیہونی رژیم کی سربراہی میں ایک مشترکہ سیاسی سیکورٹی بلاک تشکیل دینے پر مبنی ہے جس کا سیاسی پہلو خیانت آمیز "ابراہیم معاہدہ" اور اس کا اقتصادی پہلو "آئیمک راہداری" جانا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بنانے والوں کا اصل مقصد بحر ہند سے لے کر بحیرہ روم تک اسرائیل اور عرب ممالک میں مشترکہ سیکورٹی تجارتی مفادات ایجاد کرنا ہے۔
 
لہذا واشنگٹن غاصب صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیروں کی اس رائے کے مخالف ہے کہ مغربی کنارے کو بھی صیہونی رژیم سے ملحق کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران 7 اکتوبر 2023ء کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں اسلامی دنیا کی نظر میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور اس سے باہر فلسطینی تشخص کی اہمیت کو جانچ چکے ہیں۔ اگرچہ اکونومسٹ کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے پر غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ جارحیت کا مقصد سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پر دباو ڈالنا ہو سکتا ہے تاکہ اسے جلد از جلد اپنے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر تیار کیا جا سکے۔ یعنی سعودی معاشرے میں فلسطین کاز کے بارے موجود حساسیت سعودی ولیعہد کو تمام تنازعات ختم کر دینے پر مجبور کر دے گی جس کا واحد راستہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے۔
 
 
تحریر: علی احمدی

 جنوری 1978 سے 11 فروری 1979 کے درمیان ایران کے مسلمان انقلابی عوام نے بانی انقلاب اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی کی دانشمندانہ قیادت میں محمد رضا شاہ کی سیکولر اور امریکی حمایت یافتہ رژیم کے خلاف آواز اٹھائی۔ 

رضا شاہ کی حکومت نے ایرانی معاشرے میں بہت سے مصائب اور معاشی خلا اور عدم مساوات کو جنم دیا تھا اور اس کی خفیہ پولیس (ساواک) نے ایرانی نوجوانوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے نچلے طبقے، شیعہ علماء، تاجر برادری اور طلباء میں بڑے پیمانے پر بے اطمینانی پھیل گئی جس کے نتیجے میں 1978 میں امام خمینی کی حمایت میں اضافہ ہوا جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ 

 یوں ڈکٹیٹر رضا پہلوی اور اس کا خاندان 16 جنوری 1979 کو ایران سے فرار ہوا اور امام خمینی 15 سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے اور ملک گیر مظاہرے 11 فروری 1979 کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ختم ہوئے۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 اسلامی انقلاب کے متاثر کن نظریات تمام آزاد مسلم ممالک اور دنیا بھر کی آزادی پسند قوموں کے لئے رول ماڈل بن گئے۔

 آج 42 سال گزرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں امریکہ اور صیہونی حکومت جیسی عالمی استکباری اور جابر طاقتوں کے خلاف جنگ میں صف اول کی طاقت بن کر کھڑا ہے۔ 

سفید انقلاب 

جنوری 1963 میں شاہ نے ایک اصلاحاتی  پروگرام جاری کیا جسے "سفید انقلاب" کہا جاتا ہے۔ 

یہ چھ نکاتی منصوبہ ایران کی ترقی کے لئے تیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ تاہم، امام خمینی سمیت تمام دینی شخصیات کے لئے اس نام نہاد اصلاحاتی پروگرام کی دین مخالف مغربی نوعیت واضح تھی۔

 امام خمینی نے ان اصلاحات کو شاہ اور اس کی بادشاہت کے تناظر میں دیکھا، اور ایران میں مزید امریکی اور صیہونی سازشوں کے لیے ایک میدان بنا۔ مذہبی شخصیات اور شاہ کے نمائندوں کے درمیان تمام بات چیت بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی کیونکہ شاہ نے پروگرام کی نوعیت کو واضح کرنے سے انکار کر دیا۔

آخر کار امام خمینی اور دیگر دینی شخصیات نے سفید انقلاب کے ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ دو دن بعد، شاہ اپنے لاو لشکر سمیت قم گئے اور اپنی تقریر میں مذہبی شخصیات پر سخت تنقید کی اور علماء کی مخالفت کے باوجود ریفرنڈم کرایا گیا اور پروگرام کی منظوری دی گئی۔

امام خمینی کا تاریخی خطاب 

ملک بھر میں نوروز (ایرانی سال نو) کی تقریبات کی منسوخی کے ذریعے پہلوی رژیم کی مذہبی اور عوامی مخالفت مختلف طریقوں سے جاری رہی، تاہم اس مخالفت میں اہم عنصر امام خمینی کی وہ تقریر تھی جو 3 جون 1963 کو مدرسہ فیضیہ میں کی گئی۔امام حسین علیہ السلام کی المناک شہادت کی یاد میں منعقدہ مجالس میں، امام خمینی نے شاہی رژیم  کی اسلام مخالف پالیسیوں پر سخت تنقید کی اور اسے ظالم اموی حکمران یزید کی حکومت کہا کہ جس کے حکم سے امام حسین کو قتل کیا گیا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 امام نے طلباء اور علماء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پہلوی حکومت کی غداریوں کو ایرانی قوم کے سامنے بے نقاب کیا۔

 انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "وہ الہی دین اسلام اور علمائے کرام کی بنیادوں کے خلاف ہیں اور ان کا مقصد اسلام اور علمائے کرام کو تباہ کرنا ہے۔ اے لوگو! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے اسلام اور ملک کو شاہ کی جابر حکومت سے خطرہ لاحق ہے اور ہمیں اس صورتحال پر گہری تشویش ہے۔

 امام خمینی کو پہلوی رژیم نے گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا

 دو دن بعد صبح تین بجے، پہلوی رژیم کے کارندوں نے قم میں خمینی کے گھر پر چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر لیا۔ امام خمینی کی عوامی مقبولیت اس حد تک تھی کہ کمانڈوز نے انہیں صبح کی نماز پڑھنے کے لیے صرف 5 منٹ کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا، تاکہ لوگوں کو ان کی گرفتاری کے بارے میں معلوم نہ ہو، مزید یہ کہ انہوں نے گاڑی کا انجن اسٹارٹ کرنے کی بھی ہمت نہیں کی اور گاڑی کو کچھ دور تک دھکیل دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ انجن کی آواز پڑوسی کو جگا دے گی جو یقینی طور پر گرفتاری کو روک دے گا۔ انہوں نے عجلت میں انہیں تہران کی قصر جیل منتقل کر دیا۔ امام خمینی کو پہلے قید کیا گیا، پھر اکتوبر 1963 سے مئی 1964 تک نظر بند رکھا گیا۔

4 نومبر 1964 کو انہیں خفیہ طور پر انقرہ اور پھر ترکی کے شہر برسا لے جایا گیا۔ 5 ستمبر 1965 کو وہ عراق کے شہر نجف چلے گئے اور صدام حکومت کی طرف سے جلاوطن کئے جانے تک وہیں رہے۔ آخر کار، پہلوی حکومت کے دباؤ میں، انہیں 6 اکتوبر 1978 کو پیرس کے شہر نوفل شاتو  جلاوطن کر دیا گیا۔ 

15 خرداد کی خونی بغاوت 

 5 جون 1963 کے مظاہروں کو 15 خرداد کی بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے معاصر ایران کے تاریخ ساز واقعات میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے، جس نے اسلامی انقلاب کے شعلے بھڑکائے اور سلسلہ وار واقعات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 15 سال بعد اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 5 جون 1963 کو ایرانی عوام نے اپنے مقصد کے لئے کٹ مرنے کا فیصلہ کیا اور کفن پہن کر روڈوں پر آگئے، عوام نے امام خمینی کی گرفتاری کی خبر کے بعد، امریکی حمایت یافتہ شاہ کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔

تاہم حکومت نے مظاہروں کو تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوگئے، اس تاریخی بغاوت کو "15 خرداد" کا نام دیا گیا ہے جو کہ اسلامی تحریک کا نقطہ آغاز تھا جس سے ایران کی تقدیر بدل گئی۔ اگرچہ امام خمینی کو ایک سال بعد جلاوطن کر دیا گیا تھا، لیکن اس تحریک کا اختتام فروری 1979 میں ان کی وطن واپسی پر ہوا۔

شاہ فرار ہوگئے اور امام خمینی 15 سال بعد وطن لوٹ گئے

1979 کے اوائل میں، سیاسی بدامنی اور ملک گیر مظاہروں کی صورت میں پورے ملک میں ایرانی عوام کا عدم اطمینان شدت اختیار کر گیا اور ایران کا امریکی گماشتہ شاہ اور اس کا خاندان 16 جنوری کو ایران سے فرار ہو گیا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 محمد رضا شاہ کے ایران سے فرار ہونے کے صرف دو ہفتے بعد، یکم فروری 1979 کو امام خمینی فاتحانہ انداز میں وطن واپس آئے۔ 

 تہران کے مہرآباد ایئرپورٹ پر امام خمینی ہوائی جہاز کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے۔

ملک پہنچنے پر لاکھوں ایرانیوں نے امام خمینی کا استقبال کیا۔ 

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 اسلامی انقلاب کی فتح، پہلوی خاندان کا خاتمہ

 11 فروری کو مسلح افواج کے کمانڈروں نے امام خمینی کے گھر پر حاضری دی اور بانی انقلاب اسلامی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ 

مسلح افواج کی جانب سے شاہی رژیم سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد پہلوی حکومت کے وزیر اعظم شاپور بختیار فوری طور پر ایران سے فرانس فرار ہو گئے۔

اسلامی انقلاب کا یہ عظیم طوفان ملک پر مسلط 2500 سالہ بادشاہت کے خاتمے کا اعلان تھا۔ امام خمینی نے عوام سے امن و امان کی بحالی کی اپیل کی اور آزاد اسلامی جمہوریہ ایران باضابطہ طور پر قائم ہوا۔

 98 فیصد ایرانیوں نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 1979 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے دو ماہ بعد، عبوری حکومت نے 30 اور 31 مارچ کو اسلامی جمہوریہ کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔

سولہ سال اور اس سے زیادہ عمر کے تمام ایرانی مرد اور خواتین سے کہا گیا کہ وہ اسلامی حکومت اور آئین کی نئی شکل کے طور پر قبول کرنے کے سوال پر ریفرنڈم میں شرکت کریں۔

 یکم اپریل کو ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں 98.2 فیصد ایرانیوں نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔ 

اسلامی انقلاب کی سالگرہ

 ہر سال ایرانی عوام یکم فروری سے 11 فروری تک اسلامی انقلاب کی سالگرہ مناتے ہیں، جسے دھہ فجر کا نام دیا گیا ہے۔ 

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

ہر سال فارسی کیلنڈر کے مہینے "بہمن" کی 22 (11 فروری) کو ایرانی عوام اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی مناسبت سے مختلف تقاریب میں حصہ لیتے ہیں اور ملک کے اعلیٰ عہدے دار، اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی سے تجدید عہد کرتے ہیں۔

 

ساقی دشت کربلا کی نیک صفات
ابوالفضل علیہ السلام نے بزرگوں کے دل و فکر کو مسخر کیا، ہر جگہ اور ہر وقت حریت پسندوں کے لئے زندہ جاوید ترانہ بن گئے کیونکہ اپنے بھائی کے لئے ایک عظیم قربانی رقم کی، اس بھائی کے لئے جو ظلم و جور کے خلاف اٹھے تھے اور مسلمانوں کے لئے عزت جاویداں کمائی اور اسلام کو دائمی و ابدی عظمت عطا کی۔
دیکھتے ہیں کہ ہمارے الہی پیشوا کیا فرماتے ہیں ساقی دشت نینوا کی شان میں؟:
1 امام سجاد علیہ السلام
تقوی اور فضیلت کی چوٹی پر رونق افروز امام علی بن الحسین، حضرت زین العابدین علیہ السلام اپنے چچا عباس کے لئے اللہ کی بارگاہ سے طلب رحمت کیا کرتے تھے اور بھائی حسینؑ کے لئے ان کی قربانیوں کو نیکی کے ساتھ یاد کیا کرتے تھے اور ان کی جانبازیوں کی مسلسل تعریف و ستائش فرمایا کرتےتھے۔
آپؑ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی میرے چچا عباس پر رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے قربانی دی اور آزمائش کی گھڑی سے نہایت خوبصورت انداز میں عہدہ برآ ہوئے۔ انہوں نے اپنے آپؑ کو بھائی پر قربان کردیا حتیٰ کہ اس راہ میں آپؑ کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔ خداوند متعال نے ان دنیاوی ہاتھوں کی جگہ جعفر طیار بن ابی طالب علیہما السلام، کی طرح انہیں بھی دو پر عطا فرمائے جن کے ذریعے وہ جنت میں محو پرواز رہتے ہیں۔ عباسؑ کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں وہ منزلت و مرتبت حاصل ہے کہ روز قیامت تمام شہداء ان کے مقام پر رشک کھاتے ہیں۔
یہ امام معصومؑ کے کلمات ہیں جن سے علمدار کربلا کے حقیقی پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ وفا اور اطاعت میں ایسے کہ کائنات کے لئے مثال ٹہرے۔ کبھی اپنے زمانے کے امامؑ سے آگے نہیں بڑھے اور کبھی امامؑ کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو ترجیح نہیں دی۔ عارف تھے اور معرفت خدا و رسولؐ و امامؑ کے مالک تھے۔ جوشیلے نوجوان نہیں تھے بلکہ عارف و اطاعت گزار تھے۔
2ـ امام صادق علیہ السلام
امام صادق علیہ السلام رئیس مذہب جعفری ہیں، انسانی علوم کا بے مثل چہرہ ہیں، امین ائمہؑ و رسول اللہ ﷺہیں، ہزاروں شاگردوں کے استاد ہیں مذاہب اربعہ کے امام آپؑ کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور آپؑ حضرت ابوالفضلؑ کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں:
میرے چچا عباس علیہ السلام نافذ بصیرت اور ایمان محکم کے مالک تھے۔ اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا بہترین انداز سے آزمائش سے عہدہ برآ ہوئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔
کلام امامؑ کے اہم نکتے:
الف : دوراندیشی اور ہوشیاری
تیز بینی، اور ہوشیاری فکر کی استواری اور رائے کے استحکام کا نتیجہ ہے اور انسان صرف اسی صورت میں یہ استواری اور استحکام حاصل کرسکتا ہے کہ روح و نفس کی تہذیب و تزکیہ کرے، خلوص نیت کا مالک ہو، غرور اور نفسانی خواہشات کو اپنے آپ سے دور کرے اور انہیں اپنے باطن پر مسلط نہ ہونےدے۔
تیز بینی اور بصیرت ابوالفضل العباس کی برجستہ ترین خصوصیات میں سے ہے۔ تیز بینی اور فکر کی گہرائی کی بدولت ہی امام ہدایت و سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی حمایت و پیروی کے لئے اٹھے اور شرف و کرامت کی چوٹیاں سر کردیں اور تاریخ کے صفحات پر امر ہوگئے۔ پس جب تک انسانی اقدار محترم ہیں انسان حضرت عباس کی بے مثل شخصیت کے سامنے سر تعظیم خم کرتا رہے گا۔
ب :ایمانِ محکم
حضرت عباسؑ کی ایک اہم صفت آپؑ کے ایمان محکم سے عبارت ہے۔ ایمان محکم کی نشانی یہ ہے کہ آپؑ نے اپنے بھائی ریحانہ رسولؐ  کے ساتھ مل کر جہاد کیا جس سے مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول تھا اور یہ حقیقت روز عاشورا آپؑ کی رجز خوانی سے ظاہر و ثابت ہے کہ آپؑ کربلا میں دنیا کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لئے آئے تھے اور جانتے تھے کہ امامؑ کی محبت کا اللہ کی اطاعت میں مضمر ہے اور یہ کہ امام حسینؑ کا ساتھ دینا در حقیقت اللہ تعالی کے دین کی حمایت ہے۔ ایمان محکم کی دلیل یہی تو ہے۔
ج :امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد
امام صادق علیہ السلام نے اپنے مختصر سے ارشاد میں قہرمان کربلا چچا عباس علیہ السلام کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت عباسؑ نے اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا۔ اس جہاد کے سپہ سالار سید الشہداء سبط رسول خداؑ اور سرور نوجوانانِ بہشت امام حسین بن علی علیہ السلام تھے۔ جہاد بھائی کی مقصد کے لئے ہورہا ہے اور بھائی نے فرمایا ہے کہ یہ جہاد امت محمدؐ  کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احیاء اور دین محمدؐ کو انحراف سے بچانے کے لئے ہے۔ اپنے عظیم بھائی کے اس عظیم ہدف کے لئے جہاد میں شرکت ایک عظیم فضیلت تھی جو عباسؑ نے ہاتھ سے نہ جانے دی۔ آزمائش کی گھڑی سے سرخرو ہوکر عہدہ برآ ہوئے، روز عاشور مردانگی اور اطاعت و وفا کے انمٹ نقوش چھوڑ دیئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔
د : فداکا ری اور جانفشانی
امام صادق علیہ السلام امام وقت بھائی امام حسین علیہ السلام کے راستے میں چچا عباس علیہ السلام کی فداکاری اور جان نثاری کی شہادت دے رہے ہیں جنہوں نے باطل کے خلاف لڑتے ہوئے خالصانہ انداز میں جانفشانی کی، کفر و باطل کے پیشواؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھائی کی پشت پناہی کی اور تاریخ کے عظیم ترین جانباز بن گئے،عظیم فداکاریاں کیں اور بھائی کے ساتھ مل کر شدید ترین دشواریاں برداشت کیں۔
امام صادق علیہ السلام زیارت جاری رکھتے ہوئے چچا عباس کی اعلی صفات اور اللہ کی بارگاہ میں آپؑ کی منزلت بیان فرماتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں اور خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ آپ بدر کے مجاہدین کے راستے پر گامزن ہوئے اور اللہ کے راستے میں راہ خدا کے مجاہدین اور خدا پسند روشن ضمیروں اور اللہ کے دوستوں کی طرح اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ کے دوستوں کے مدافعین اور اس کے اولیاء کے مددگاروں کے حامیوں کی مانند آگے بڑھے اور ان ہی کی مانند جِدّ و کوشش کی، پس خداوند متعال وہ مکمل ترین، بہترین اور والاترین پاداش آپؑ کو عطا فرمائے جو وہ اپنے اولیائے امر کے فرمانبرداروں اور اپنی دعوت کو لبیک کہنے والی ہستیوں کو عطا فرمایا کرتا ہے۔(1)
امام صادق علیہ السلام گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالی کو گواہ قرار دیتے ہیں کہ حضرت عباس عالم کے احرار کے باپ سیدالشہداء علیہ السلام کی راہ میں لڑتے ہوئے بدر کے مجاہدین کے راستے پر گامزن تھے،ان شجاع جوانمردوں کے راستے پر گامزن تھے جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کی دائمی فتح کو یقینی بنایا، وہ جو اپنے مقصد کے برحق ہونے پر یقین رکھتے تھے اور آگہی و بصیرت کے ساتھ شہادت کا انتخاب کیا اور توحید کا پرچم تاریخ کی چوٹی پر لہرایا اور کلمہ توحید کی صدا آفاق و انفس تک پہنچادی۔ ابوالفضل العباسؑ بھی اسی راستے پر گامزن ہوئے اور اسلام کو اموی اوباش اور ابوسفیان زادے کی چنگل سے نجات دلانے کے لئے میدان کارزار میں اترے وہی ابوسفیان زادہ جو کلمہ الہی کو مٹادینا چاہتا تھا اور اسلام کی بساط لپیٹنا اور اسلام کا پرچم گرانا چاہتا تھا۔ آپؑ اپنے بھائی کے ہمراہ اس کے خلاف اٹھے اور اس راہ میں شہادت پائی۔
ابوالفضلؑ اپنے بھائی سیدالشہداء حسین بن علیؑ کی سپہ سالاری میں سفاک اموی طاغوت کے خلاف اٹھے اور ان ہی بھائیوں اور ان کے خاندان و انصار و اعوان کے قیام ہی کی برکت سے کلمہ حق کی تثبیت ہوئی اور اسلام فتح مند ہوا اور حق و حقیقت کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام صادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت جاری رکھتے ہوئے آپؑ کی الہی پاداش کے بارے میں فرماتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ نے نصیحت و خیرخواہی کا حق ادا کیا اور آپؑ نے اپنی انتہائی کوششیں کردیں، پس خداوند متعال نے آپؑ کو شہیدوں کے درمیان مبعوث فرمایا،آپ کی روح کو سعیدوں کی ارواح کے ہمراہ کردیا،آپؑ کو وسیع ترین بہشتی منزل میں جگہ عطا فرمائی اور بہترین کمرے آپ کے سپرد کئے اور آپؑ کے نام کو علیین کے زمری میں عالمگیر کردیا اور انبیاء، شہداء، صالحین کا رفیق قرار دے کر ان کے ہمراہ محشور فرمایا اور کیا خوب رفقاء ہیں یہ۔
میں شہادت دیتا ہوں کہ آپؑ نے سستی نہیں کی، پسپا نہیں ہوئے، اپنے امر میں بصیرت کے ساتھ آگے بڑھے جبکہ آپؑ صالحین اور انبیاء کی پیروی کررہے تھے۔ پس ہمارا اللہ آپؑ، اپنے نبیؐ اور اپنے اولیاء کو بزگزیدگان اور طاہرین کے مقام پر مجتمع فرمائے کہ وہی ہے مہربانوں کا مہربان ترین۔4

زیارت کے اس آخری حصے میں ہم اس حقیقت سے واقفیت حاصل کرتے ہیں کہ کیا مقام و منزلت ہے امام صادق علیہ السلام کے نزدیک حضرت عباس علمدارؑ کی؟ اسی بنا پر امام صادق علیہ السلام اپنے چچا کے لئے بہترین مقامات و درجات کی التجا کرتے ہیں اپنے پروردگار سے۔
3 ـ حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجَہ الشریف
دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے والے اور دنیا پر حق و عدل کے غلبے کے سلسلے میں اللہ کے وعدوں کو سچا دکھانے والے نیز بنی نوع انسان کو نجات دلانے والے امام غائب حضرت امام زمانہ مہدی آل محمد عجلَ اللہ تعالی فرَجَہ الشریف ، قائم آل محمد ، چچا عباسؑ علمدار کی شان میں اپنے نہایت حسِین کلام کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
سلام ہو ابوالفضل عباس بن امیرالمؤمنین پر، بھائی کے عظیم ہمدرد پر جن کی راہ میں آپؑ نے اپنی جان کا نذرانہ دیا، اور گذشتہ کل پر آئندہ کل کے اجر و پاداش کو ترجیح دی، وہی جو بھائی کے فدائی تھے اور بھائی کی حفاظت کی اور بھائی کو پانی پہنچانے کی کوشش کی اور آپؑ کے ہاتھ منقطع ہوئے۔ خداوند متعال ابوالفضل کے قاتلوں پر لعنت کرے۔ (2)
امام عصر عجل اللہ تَعالی فرجہ الشریف اپنے چچا کے بنیادی اوصاف یوں بیان فرماتے ہیں:
1 ـ بھائی سیدالشہداء کے ساتھ ہمدردی اور ہمراہی نیز ہمدلی جو تاریخ میں ضرب المثل ٹہری۔
2۔ تقوی کے ذریعے آخرت کا سامان فراہم کرنا، دنیا پرستی سے پرہیز کرنا اور ہدایت و نور کے امام کی مدد کرنا۔
3۔ اپنے اور اپنے بھائیوں کی جانیں سید جوانانِ بہشت امام حسین علیہ السلام کی راہ میں قربان کرنا۔
4۔ خون کا نذرانہ دے کر بھائی کی حفاظت کرنا۔
5 ـ بھائی اور بھائی کے اہل خانہ کو پانی پہنچانے کی کوشش کرنا ایسے حال میں جب اموی بادشاہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے لشکر نے امامؑ اور آپؑ کے خاندان و اصحاب پر پانی بند کردیا تھا۔

حوالہ جات
1)۔مفاتیح الجنان ، زیارت حضرت عباس علیہ السّلام۔
2)۔ مفاتیح الجنان شیخ عباس قمى و دیگر كتب ادعیہ و زیارات۔