امام سجادؑ کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

Rate this item
(0 votes)
امام سجادؑ کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

امام سجادؑ  کی ذاتی شخصیت:

یہاں پر ہم امام سجادؑ  کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگان و علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں۔

زہری ، ابو حازم ، سعيد ابن مسيب اور مالک:

ابن عماد حنبلی نے ان چاروں کے قول کو امام سجادؑ کے بارے میں ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال الزهري ما رأيت أحدا أفقه من زين العابدين لكنه قليل الحديث وقال أبو حازم الأعرج ما رأيت هاشميا أفضل منه وعن سعيد بن المسيب قال ما رأيت أورع منه وقال مالك بلغني أن علي بن الحسين كان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة إلى أن مات وكان يسمى زين العابدين لعبادته.زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی زین العابدین سے زیادہ فقیہ و عالم نہیں دیکھا، لیکن ان سے بہت کم روایات نقل کی گئیں ہیں۔ابو حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی امام سجادؑ سے بالا تر نہیں دیکھا۔سعید ابن مسیب سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی امام سجادؑ سے با تقوی تر نہیں دیکھا۔مالک نے بھی کہا ہے کہ: مجھے خبر ملی تھی کہ علی ابن حسینؑ  مرتے دم تک دن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، اور انکو کثرت عبادت کیوجہ سے زین العابدین کہا جاتا تھا۔

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفى1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 1 ص 105 ، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير – دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ. .

یعقوبی:

یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں ایسے لکھا ہے کہ:

وكان أفضل الناس وأشدهم عبادة وكان يسمى زين العابدين وكان يسمى أيضا ذا الثفنات لما كان في وجهه من أثر السجود وكان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة ولما غسل وجد على كتفيه جلب كجلب البعير فقيل لأهله ما هذه الآثار قالوا من حمله للطعام في الليل يدور به على منازل الفقراء. قال سعيد بن المسيب ما رأيت قط أفضل من علي بن الحسين.

وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے بالا و برتر تھے اور ان میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے، اسی وجہ سے ان کو زین العابدین کہا جاتا تھا اور اسی طرح سے انکو ذا الثفنات بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ انکی پیشانی پر سجدوں کے بہت آثار تھے اور وہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد جب ان کو غسل دیا جا رہا تھا، تو انکے کندھوں پر زخم کے نشانات تھے۔ جب انکے گھر والوں سے پوچھا گیا کہ یہ کندھوں پر نشانات کیسے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ راتوں کو فقراء و ضرورت مندوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء اٹھانے کی وجہ سے یہ نشانات پڑے ہیں۔سعيد ابن مسيب نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی علی ابن حسین سے برتر نہیں دیکھا۔

اليعقوبي، ج 2 ص 303 ، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفى292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ناشر: دار صادر – بيروت.

ابو نعیم اصفہانی:

ابو نعیم اصفہانی نے ایسے لکھا ہے کہ:

علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنهم زين العابدين ومنار القانتين كان عابدا وفيا وجوادا حفيا.

علی ابن الحسین،امام سجاد علیہ السلام عبادت کرنے والوں کی زینت اور عابد لوگوں کے لیے ایک علامت و نشان تھے۔ وہ ایک عابد، وعدے کے پابند اور شرف و وقار کے ساتھ چلنے والے انسان تھے۔

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 133 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..

ابو الولید الباجی:

اس نے امام سجادؑ کی شخصیت کے بارے میں زہری کے قول کو نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني علي بن الحسين وكان أفضل أهل سنة وأحسنهم طاعة.

علی ابن الحسین میرے ساتھ کلام کیا کرتے تھے اور وہ سنت پر عمل کرنے والوں میں سب سے بہترین تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ اطاعت گزار بندے تھے۔

الباجي، سليمان بن خلف بن سعد ابوالوليد (متوفى474هـ)، التعديل والتجريح لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح، ج 3 ص 956 ، تحقيق: د. ابولبابة حسين، ناشر: دار اللواء للنشر والتوزيع – الرياض، الطبعة: الأولى، 1406هـ – 1986م.

ابن ابی حازم:

بیہقی نے ابن ابی حازم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

قال ابن أبي حازم وهو من العلماء السلف: ما رأيت هاشمياً أفضل من زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما.

ابن ابی حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی علی ابن الحسین سے افضل و بالا تر نہیں دیکھا۔

البيهقي، أبو الحسن ظهير الدين علي بن زيد، الشهير بابن فندمه (متوفي 565هـ) لباب الأنساب والألقاب والأعقاب، ج 1 ص 13 ، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن عساکر:

ابن عساکر شافعی نے بھی ان امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وكان يسمى بالمدينة زين العابدين لعبادته.

وہ امام سجاد علیہ السلام شہر مدینہ میں زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے سجاد کہلاتے تھے۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 379 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.

ابن خلکان:

ابن خلکان نے بھی حضرت امام سجاد سلام اللہ علیہ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

زين العابدين أبو الحسن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنهم أجمعين المعروف بزين العابدين…هذا وهو أحد الأئمة الأثني عشر ومن سادات التابعين قال الزهري ما رأيت قرشيا أفضل منه.زين العابدين،ابو الحسن علی ابن الحسين ابن علی ابن ابی طالب معروف بہ زين العابدين… وہ بارہ آئمہ میں سے ایک امام اور بزرگ تابعی تھے۔

زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی ان ( علی ابن الحسین) سے افضل نہیں دیکھا۔

إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3 ص 267 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.

یحیی ابن سعید:

ابن سعد اور ابن عبد البر نے قول یحیی ابن سعید سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال سمعت علي بن حسين وكان أفضل هاشمي أدركته.

یحیی ابن سعید نے نقل کیا ہے کہ: میں نے علی ابن الحسین سے روایت کو سنا ہے اور میں نے جتنے بھی ہاشمیوں کو دیکھا تھا، وہ ان سب میں سے افضل و بالا تر تھے۔

البصري الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبد الله (متوفي230 هـ)، الطبقات الكبرى ، ج 5 ص 214 ، دار النشر : دار صادر – بيروت ، طبق برنامه الجامع الكبير…

سعید ابن مسیب:

مزی اور ذہبی نے سعید ابن مسیب کے قول سے نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

قال رجل لسَعِيد بن المُسَيب : ما رأيت أحدا أورع من فلان. قال هل رأيت علي بن الحسين ؟ قال : لا ، قال : ما رأيت أورع منه.

ایک بندے نے سعید ابن مسیب سے کہا کہ: میں نے فلاں شخص سے کسی کو با تقوی تر نہیں دیکھا۔ سعید ابن مسیب نے اس سے کہا: کیا تم نے علی ابن الحسینؑ کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں، سعید نے کہا: میں نے علی ابن الحسینؑ سے با تقوی تر کسی کو نہیں دیکھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 389 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن حجر:

ابن حجر مکی نے اپنی کتاب الصواعق میں امام سجادؑ کی عظیم شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

وزين العابدين هذا هو الذي خلف أباه علما وزهدا وعبادة وكان إذا توضأ للصلاة اصفر لونه فقيل له في ذلك فقال ألا تدرون بين يدي من أقف.

زین العابدین علم،زہد اور عبادت میں اپنے والد کے جانشین تھے اور جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو انک ے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو، انھوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں ؟!

الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 582 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.

مزّی اور ابن حجر:

اہل سنت کے دو علم رجال کے بزرگ علماء مزی اور ابن حجر نے مالک کے قول سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وَقَال ابن وهب ، عن مالك : لم يكن في أهل بيت رسول اللّٰه مثل علي بن الحسين.

مالک سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: رسول خدا کے اہل بیت میں کوئی فرد بھی علی ابن حسینؑ کی طرح کا نہیں تھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 387 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 7 ص 269 ، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984 م.

ابن تیمیہ:

ابن تیمیہ حرّانی نے بھی امام سجادؑ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:وأما على بن الحسين فمن كبار التابعين وساداتهم علما ودينا… وكان من خيار أهل العلم والدين من التابعين.علی ابن الحسين بزرگ تابعین اور علم و دین کے لحاظ سے انکے بزرگوں میں سے تھے۔۔۔۔ اور وہ تابعین میں سے اہل علم و دین کے لحاظ سے برگزیدہ تھے۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابو العباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 49 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

امام سجادؑ کی ہیبت اور فرزدق شاعر کے اشعار:

امام سجادؑ کے حج کرنے اور انکی ہیبت کا واقعہ شیعہ و سنی کی کتب تاریخ میں بہت مشہور ہے۔

تنوخی اور ابن سمعون نے اس داستان کو ابو الفرج اصفہانی کے قول سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال أبو الفرج الأصبهاني: حدثني بن محمد بن الجعد ومحمد بن يحيى قالا: حدثنا محمد بن زكريا العلاني قال: حدثنا ابن عائشة قال: حج هشام بن عبد الملك في خلافة الوليد أخيه ومعه أهل الشام فجهد أن يستلم الحجر فلم يقدر من ازدحام الناس، فنصب له منبر فجلس عليه ينظر إلى الناس، فأقبل زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما، وهو أحسن الناس وجهاً، وأنظفهم ثوباً؛ وأطيبهم رائحة، فطاف بالبيت فلما بلغ الحجر تنحى الناس كلهم له وأخلوا الحجر ليستلمه، هيبة له وإجلالاً، فغاظ ذلك هشاماً وبلغ منه، فقال رجل لهشام: من هذا أصلح اللّٰه الأمير؟ قال: لا أعرفه، وكان به عارفاً، ولكنه خاف أن يرغب فيه أهل الشام ويسمعوا منه. فقال الفرزدق، وكان لذلك كله حاضراً: أنا أعرفه فسلني يا شامي من هو، قال: ومن هو؟ قال:

هذا الذي تعرف البطحاء وطأته … والبيت يعرفه والحل والحرم

هذا ابن خير عباد الله كلهم … هذا التقي النفي الطاهر العلم …

ہشام ابن عبد الملک اپنے بھائی کے دور خلافت میں اہل شام کے کچھ لوگوں کے ساتھ حج پر گیا۔ وہاں پر موجود لوگ حجر اسود کو بوسہ دینا چاہتے تھے، لیکن بہت زیادہ رش کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ ہشام کے لیے اس جگہ ایک منبر لگایا گیا اور وہ اس پر بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں امام سجادؑ بھی وہاں پر آ پہنچے۔ وہ خوبصورتی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ خوبصورت اور پاکیزگی کے لحاظ سے ، انکا لباس پاک ترین لباس تھا۔ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے کرتے جب حجر الاسود کے نزدیک پہنچے تو ایک دم سے سب لوگ ایک طرف ہو گئے اور حجر اسود کو امام کے لیے خالی کر دیا، تا کہ وہ اس پتھر کو ہاتھ سے مس کر سکیں۔ امام کی بزرگی اور ہیبت بہت زیادہ تھی۔ ہشام نے جب امام کی اس جلالت و عظمت کو دیکھا تو بہت غصے میں آ گیا۔ ایک بندے نے کہا اے امیر یہ کون ہے ؟ ہشام نے امام کو جاننے کے باوجود کہا: نہیں میں اسکو نہیں جانتا۔ اس بات کو فرزدق شاعر کھڑا سن رہا تھا، اس نے ہشام سے کہا: میں اس (امام) کو جانتا ہوں۔ اے شامی ادھر آؤ مجھ سے پوچھو کہ وہ کون ہے۔ شامی نے فرزدق سے پوچھا، وہ کون ہے ؟ اس موقع پر فرزدق نے اپنے اشعار میں اس شامی کو جواب دیا:

1- یہ وہ شخص ہے کہ جس کو مکہ کی سرزمین جانتی ہے، حتی اسکے پاؤں کے نشان کو بھی یہ زمین جانتی ہے، خانہ کعبہ، مدینہ کے صحرا، حلّ اور حرم تمام اسکو جانتے ہیں۔

2- یہ خداوند کے بہترین بندگان کا بیٹا ہے، یہ وہی پرہیزگار اور پاکیزہ انسان ہے کہ جو زمین پر خداوند کی آیت و علامت ہے۔

البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفى387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج 1 ص 8 ، طبق برنامه الجامع الكبير.

التنوخي، أبو علي المحسن بن علي، (متوفي: 384هـ) ، المستجاد من فعلات الأجواد ، ج 1 ص 303 ، طبق نرم افزار الجامع الکبير..

نتیجہ مطالب:

حضرت سجاد امام زین العابدین ؑ کے ذاتی اور اخلاقی فضائل و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی اس تحریر میں نمونے کے طور پر امام کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ کمال یہ نہیں ہوتا کہ اپنے اور چاہنے والے ہی ایک انسان کے فضائل کو بیان کریں، بلکہ کمال یہ ہے کہ انسان کے مخالف نہ چاہتے ہوئے بھی اس انسان کے کمالات کو بیان کریں۔

يا اَبَا الْحَسَنِ يا عَلِىَّ بْنَ الْحُسَيْنِ يا زَيْنَ الْعابِدينَ يَا بْنَ رَسُولِ اللّٰهِ يا حُجَّةَ اللّٰهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا اِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللّٰهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللّهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللّٰهِ.

 

 
Read 5 times