سلیمانی

سلیمانی

شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی یاد میں تقریب جمعہ کے روز دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہوئی جس میں حکام اور سیاسی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔

یہ تقریبات اس سال نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہوئیں، بھارت میں ممبئی، ملائیشیا میں کولالمپور، پاکستان میں اسلام آباد، عراق میں بغداد، افغانستان میں کابل، شام میں دمشق، بوسنیا میں سراجیوو، لبنان میں بیروت، ڈنمارک میں کوپن ہیگن، آسٹریا میں ویانا، سویڈن میں اسٹاک ہوم اور تیونس میں تقریبات دیکھی گئیں۔

تقریب کے دوران مقررین نے سردار سلیمانی کی قربانیوں اور بہادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس شہید نے داعش کے خلاف جنگ اور مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ کو شکست دے کر خطے اور انسانیت کی عظیم خدمت کی ہے۔

ان تقریبات کے دوران، جو ان ممالک میں اسلامی مذہبی مراکز اور بعض گرجا گھروں میں منعقد کی گئی تھیں،  گرجا گھروں میں لوگوں نے سردار سلیمانی کی تصویر کا فریم دعائیہ کلمات اور صلیب کے آگے رکھا اور موم بتیاں روشن کیں۔

یہ تقریبات مساجد میں اور کچھ ممالک جیسے شام، عراق اور لبنان میں گرجا گھروں میں بھی منعقد کی گئیں جہاں نمازیوں نے داعش دہشتگردوں کے حملوں کے خلاف مذہبی اقلیتوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت میں جنرل سلیمانی کے کردار کو تسلیم کیا۔

بلاشبہ جنرل سلیمانی کے اقلیتوں کا دفاع عیسائیوں کے لیے منفرد نہیں ہے۔ داعش دہشت گردوں کے خلاف کردستان کے علاقے اربیل کے دفاع کرنے کا منظر، جسے سلیمانی کے افسانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، نے کرد عوام کی تاریخی یاد کو ہمیشہ کے لیے متاثر کیا ہے۔ عراق کے ایزدیوں میں بھی یہی عقیدت اور محبت دیکھی جا سکتی ہے۔

قاسم سلیمانی کی یاد، مزاحمت کے تصور اور بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی یاد کے علاوہ، مذاہب کے درمیان مکالمے اور خطے کی اقوام کی دوستی کو مضبوط کرنے اور انسانیت اور پرہیزگاری کے پیغام کو پھیلانے اور مظلوموں کی حمایت کا موقع ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 3 جنوری 2020 میں عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکہ کی جانب سے راکٹ حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قدس جنرل قاسم سلیمانی سمیت عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر "ابومهدی المهندس" شہید ہوگئے۔  
ٹرمپ نے اس ہوائی حملہ اور جنرل سلیمانی کے قتل کا حکم دیا تھا.

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ افغانستان کی معروف ثقافتی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیت سید عیسی حسینی مزاری نے افغانستان کی صورتحال میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کے عنوان سے ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اسلامی انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک عظیم اور مثالی شخصیت و رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی افغانستان کے مجاہدین کیلئے اخلاقی اورعقیدتی اور اسی طرح مجاہدانہ زندگی گزارنے کے حوالے سے مثالی اور آئیڈیل شخصیت تھے۔

انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی شروع سے ہی افغانستان کے عوام کے حامی اور افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ تھے۔

سید عیسی حسینی مزاری نے افغانستان کے عوام کے لئے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی حمایت اور خدمات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے حتی افغانستان میں امریکہ نواز حکومتوں کے دور میں بھی افغانستان کے عوام کی مدد و حمایت کی ۔

واضح رہے کہ 3 جنوری 2020 کو دہشتگرد امریکی فوجیوں نے بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اورعراق کی رضاکار فورس الحشدالشعبی کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس کو ان کے آٹھ ساتھیوں سمیت شہید کردیا تھا۔

ایران کے القدس بریگیڈ کے کمانڈرجنرل قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی دعوت پراس ملک کے دورے پرتھے۔

ایران سے امریکا اور اسرائیل کی دشمنی اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ چالیس سال سے جاری ہے۔ اس درمیان انھوں نے ایران کے اندر درجنوں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیں جن میں بے شمار عام شہری، سیاسی و مذہبی رہنما اور سائنسداں شہید ہوئے ۔

 جہاں تک ان کی تازہ دھمکیوں کا سوال ہے تو ایران انہیں  زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن ان کی  طرف سے غافل بھی نہیں ہے۔

  اگر امریکا اور اسرائیل کو یہ یقین ہوتا کہ حملہ کرکے وہ بچ نکلیں گے اور ایران کےجوابی حملے سے محفوظ رہیں گے تو اب تک ان کا حملہ ہوبھی چکا ہوتا۔ لیکن وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حملہ تو وہ کر سکتے ہیں لیکن پھر جنگ ختم کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوگا۔

 ایران نے اسرائیل کوکھلا انتباہ دے رکھا ہے کہ اگر اس نے کوئي جارحانہ حماقت کی تو اس کا چالیس برس سے جاری سلوگن " اسرائیل باید نابود شود" (اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے) عملی شکل اختیار کر لے گا۔

اس کے علاوہ ایران نے بحریہ کی طاقت پر کافی توجہ دی ہے ۔ امریکا  ایران کے خلاف کوئي بھی جارحیت کرکے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے محفوظ نہیں نکل سکے گا۔ 

 جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عین الاسد فوجی چھاؤنی پر ایرانی میزائلوں کی بارش سے ایران کی میزائل توانائي امریکیوں پر ثابت ہو چکی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ خطے میں ان  کا کوئی بھی فوجی اڈہ ایرانی میزائلوں کی رینج سے باہرنہیں ہے۔ 

اسی لئے امریکا اور نیٹو کی طرف سے ایران کے میزائل پروگرام کی زیادہ مخالفت کی جارہی ہے۔ ان کے لئے اصل مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ میزائل پروگرام ہے ۔

امریکا کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویتنا م  میں امریکا کو جو سبق ملا ہے اس کے بعد اس نے  قبضہ کرنے کے لئے تو فوج اتاری ہے لیکن کسی بھی  ملک میں جنگ کرنے کے لئے فوج نہیں اتاری ہے۔

 دو ملک ایسے ہیں جن  میں امریکا نے براہ راست  فوج اتاری؛ افغانستان اور عراق۔ افغانستان میں طالبان اسی کے تیار کردہ تھے۔ طالبان کا اصل حامی پاکستان تھا جس کو امریکا کےایک ٹیلیفون نے نہ صرف خاموش کر دیا بلکہ امریکی مشن میں تعاون پر مجبور کر دیا۔

  اور پھر  افغانستان میں امریکی فوجیوں نے جنگ کہاں کی ؟ زمین پر تو شمالی اتحاد (North Alliance)نے کام کیا اورافغانستان کا  شمالی اتحاد ایران میں تیار ہوا تھا ۔ اس کے کیمپ ایران میں تھے ۔ اس اتحاد کے جنگجوؤں کو ایران کےاندر اس کے کیمپوں میں ہی ٹریننگ ملی تھی۔

یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ ویتنام کے بعد امریکا نے دو ملکوں میں فوج اتاری اور قبضہ کیا اور دونوں ہی ملکوں میں اس کا ساتھ ان قوتوں نے دیا جو ایران میں تیار ہوئی تھیں۔ افغانستان میں شمالی اتحاد نے امریکا کا ساتھ دیا اور جب بارہ سال تک عراق کو غیر مسلح کرنے کی مہم کے بعد امریکا نے عراق میں فوج  اتاری تو شیعہ ملیشیا البدر اورعراقی کرد ملیشیا نے عراق کےاندر حالات کو سنبھالا ۔ ان دونوں کے کیمپ بھی ایران میں تھے ۔ ایران میں ہی انہیں ٹریننگ بھی ملی تھی۔

 عراقی کردوں کے دو گروپ تھے۔ ایک پیٹریاٹک یونین آف کردستان جس کے  لیڈر جلال طالبانی تھے اور دوسری مسعود بارزانی کی  کردستان  ڈیموکریٹک پارٹی تھی۔ دونوں میں سخت اختلاف تھا۔ ان میں صلح بھی ایران نے کرائی تھی۔ 

صدام کے سقوط کےبعد پہلے تو پال بریمر عراق کاحاکم بنا اور پھر امریکا کو اقتدا عراقیوں کو سونپنا پڑا  اور انتخابات ہوئے تو  پہلے الیکشن سے لیکر اب تک جتنی بھی حکومتیں بنیں سب ایران کی طرفدارتھیں۔ 

 کرد رہنماؤں میں جلال طالبانی صدربنے اور مسعود بارزانی عراق کے کرد ریجن کےحاکم۔

حقیقت یہ ہے کہ عراق اورافغانستان دونوں ملکوں میں امریکا اور ایران کے دشمن مشترک ہوگئے تھے، عراق میں صدام اور افغانستان میں اس وقت کے طالبان ۔

اس لئے جب امریکا نے ان کے خلاف کارروائي کی تو ایران نے، مداخلت نہیں کی بلکہ خاموشی اختیار کی لیکن ایران  کے اندر تیار ہونے والے افغان   شمالی اتحاد اور عراق کی البدر تنظیم اور عراق کی دونوں کرد جماعتوں کے جنگجوؤں نے دونوں ملکوں میں اس وقت کی حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ اگر چہ افغانستان اورعراق  دونوں ملکوں میں امریکا نے حکومتیں گرائيں لیکن امریکی نگرانی  میں ہونے والے انتخابات کے بعد  بننے والی دونوں ملکوں کی حکومتیں ایران کی طرفدار رہی ہیں۔

امریکا کسی ملک پر  قبضہ کرنے کے لئے تو فوج اتار سکتاہے جنگ کرنے کے لئے نہیں ۔ ایران کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران جوابی حملہ کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔  ایران بارہا واضح کرچکا ہے کہ اب مار کے بھاگ جانے کا دور چلا گیا۔ 

 جہاں تک  اسرائیل کی دھمکیوں کا سوال ہے تو وہ  ایران کےحمایت یافتہ حزب اللہ اور حماس کے مقابلےمیں عاجز ہے اور ان دونوں کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے بلکہ اُسے ان سے شرمناک شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے تو ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی جرائت وہ کیا کرے گا۔

البتہ ایران اس کی دھمکیوں کی طرف سے  غافل ہرگز نہیں ہے اور غافل رہنا بھی نہیں چاہئے ۔ اس نے ابھی چند روز قبل جو فوجی مشقیں انجام دی ہیں ان میں اسرائیل کی ڈیمونا ایٹمی تنصیبات سمیت سبھی اہم اور حساس مراکز پرحملے کی مشقیں بھی انجام دی گئي ہیں جن کا واضح پیغام یہ ہے کہ پورا مقبوضہ فلسطین اور سبھی حساس اوراہم اسرائیلی مراکز اور تنصیبات ایران کے نشانے پر ہیں ۔

ایران کے خلاف امریکا اور اسرائيل کی دھمکیوں کو  غیر ایرانی میڈیا نے بہت اچھالا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس لئے کہ یہ دھمکیاں نئي  نہیں ہیں اور ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں جس میں عالمی ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اس وقت بھی ان دھمکیوں کو اچھال کے در اصل اس نفسیاتی جنگ کو مہمیز کیا جا رہا ہے۔

حریر: ڈاکٹر محمد مہدی شرافت
( سینیئر چیف ایڈیٹر سحر نیوز)

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی کی امامت میں منعقد ہوئی ، جس میں مؤمنین نے طبی دستورات کی رعایت کے ساتھ بھر پور شرکت کی ۔ خطیب نماز جمعہ  نے شہید سردار قاسم سلیمانی کی دو برسی کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا حتمی انتقام ڈونلڈ ٹرمپ کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے ۔ اگر اسرائیلی نے ذرا سی بھی غلطی کی تو اسے معمولی میزائلوں سے تباہ کردیا جائےگا۔

شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا

خطیب جمعہ نے افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا، شہید قاسم سلیمانی ایرانی ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی ہیرو ہیں ۔

خطیب جمعہ نے کہا کہ ہمارے دو قاسم سلیمانی ہیں ۔ ایک قاسم سلیمانی کا نام  شجاعت اور مزاحمت کی رمز تھا،امریکیوں نے کہا تھا کا عراق کے شہر موصل سے داعش کی حکومت کے خاتمہ کے لئے کم سے کم 10 سال درکار ہیں ، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے کہا کہ 3 ماہ بعد داعش کا نام عراق سے ختم ہوجائےگا اور تین ماہ کے اندر موصل میں داعش کی حکومت کا خاتمہ ہوگيا۔ ہمارے دوسرے شہید قاسم نے اپنی شہادت کے بعد دنیا میں عظیم زلزلہ پیدا کردیا اور یہ شہید قاسم سلیمانی اسلام کا ہیرو ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کے خون کی برکت سے امریکہ افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوگيا اور ان شاءاللہ  امریکہ عنقریب عراق سے بھی فرار کرنے پر مجبور ہوجائےگا ۔ عراقی پارلیمنٹ نے امریکی فوجی انخلا کے بارے میں قانون بھی منظور کررکھا ہے۔

ایران نے عین الاسد میں امریکہ کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا

خطیب جمعہ نے کہا کہ ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر میزائل فائرکرکے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا مختصر انتقام لیا اس حملے میں درجنوں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے لیکن اصلی انتقام امریکہ کے سابق ڈکٹیٹر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لیا جائے گا جس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک تیسرے ملک میں مہمان ہمارے اعلی فوجی کمانڈر کو بزدلانہ حملے میں شہید کیا ۔ انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے بہیمانہ قتل میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائےگا۔

اسرائيل کو انتباہ        

خطیب جمعہ نے اسرائیلی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری فوجی مشقیں دفاعی نوعیت کی ہیں اگر اسرائيلی نے کسی خطا یا غلطی کا ارتکاب کیا تو اسے ایران کے معمولی میزائلوں کے ذریعہ نابود کردیا جائےگا۔

جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما نے قدس فورس کے شہید کمانڈر سردار قاسم سلیمانی کے قتل کو اسلام کے خلاف بہت بڑا ظلم قرار دیا ۔


سراج الحق نے کہا کہ دشمنوں نے اسلامی اقوام کے درمیان انتشار کا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ان سازشوں کا نتیجہ قدس فورس کے کمانڈر کے قتل جیسے واقعات میں دیکھتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا: "دہشت گردانہ کارروائیوں اور یکطرفہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہمیں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، اور ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔"

3 جنوری 2020 کی صبح پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر سردار قاسم سلیمانی، عراقی عوامی فورس (الحشد الشعبی) کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ حملہ امریکی دہشت گرد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر کیا گیا۔

بغداد میں امریکی دہشت گردانہ کارروائی اور مزاحمتی رہنماؤں کی شہادت کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد پاکستان قومی یکجہتی کونسل کے 9 رکنی وفد نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور نائب صدر لیاقت بلوچ کی سربراہی میں تعزیت کا اظہار کیا۔ 

حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حامد شہریاری نے پیر طارق شریف زادہ، عالمی مرکز سیرت کے سربراہ سے ایرانی خانہ فرہنگ لاہور میں ملاقات کی۔

اس ملاقات میں پیر طارق شریف زادہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: اداره   آگاہی میں اہل علم اور مذہبی محققین جن کے پاس دستاویزات ہیں وہ کام کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات ثقافت اور تہذیب کے لحاظ سے بلند ہیں لیکن مذہب کے میدان میں اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں، انہوں نے مزید کہا: "مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے لیے ایران کی کوششیں قابل تعریف ہیں اور اسے دوسرے ممالک کے لیے نمونہ ہونا چاہیے۔"

 "میں دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیوں میں کام کرتا ہوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سیرت نبوی کی تحقیق کیسے کی جائے تو میں اس میدان میں ایران کے کردار کی مثال دیتا ہوں۔"

پیر طارق شریف زادہ نے یہ بتاتے ہوئے کہ ہم پاکستانی یونیورسٹیوں میں سیرت نبوی کی تعلیم کے لیے ایک شعبہ شروع کرنے کے خواہاں ہیں، کہا: "ہمارے پاس یونیورسٹیوں میں اسلامی علوم کا شعبہ ہے، لیکن ہم سیرت نبوی پر تحقیق شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔"

حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حامد شہریاری، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی  کے سیکرٹری جنرل نے پاکستانی نوجوانوں کی پیغمبر اسلام ص کی سیرت سے واقفیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: اسلامی علوم سیکھیں۔

ڈاکٹر شہریاری نے امت اسلامیہ تک پہنچنے کے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: یک امت اسلامیہ تک پہنچنے کے لیے عقائد کی تعلیم ضروری ہے۔

 انسانیت مغربی ہیں اور ان کی اصلاح ہونی چاہیے: ہماری اپنی ثقافت ہونی چاہیے اور ہماری انسانیت کو بھی اسلامی ہونا چاہیے۔

حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کے لئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی۔ اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود  حیات طیبہ میں عقل کو حیران کر دینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر   ہوئیں  یہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی  ہیں۔

جی ہاں ! حضرت فاطمہ علیہا السلام عالم اسلام کی خواتین کے لیے اسوہ اور نمونہ کے طور پر پہچانی جاتی  ہیں  دوسری عورتوں کےلیے ضروری ہے کہ ان کی پاک سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔ تربیت،  اخلاق اور خود سازی کے عملی میدان میں ان کی پیروی کریں۔ عبادت کے طریقے اور روش، شوہرداری، بچوں کی پرورش اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں ان کو آئیڈیل بنایا جائیں۔ان تمام  کرداروں  کو نبھانا چاہیے جن کو  انہوں نےنبھایا ہے  اور اس طرح برتاؤ  کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے کیا ہے۔
راقم اس بات پر عقیدہ رکھتاہے کہ گھر اور مشترک گھریلو زندگی کسی کا اخلاق، رفتار، ایمان تقوی اور عدالت وغیرہ پرکھنے کی بہترین جگہ  شمار ہوتی ہیں حضرت زہرا علیہا السلام  اپنے باپ کے ساتھ اور باپ کے گھر میں بہترین امتحان دےچکی ہیں۔اور اس طرح ’’فداھا ابوھا‘‘ اور ’’امُّ ابیھا‘‘ جیسے دسیوں القابات پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی  زبان مبارک سے حاصل کر کئے  اور شوہر کے گھر میں اس طرح پیش آئیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام  فرماتے ہیں ’’فاطمہ علیہا السلام نے  اپنی پوری زندگی میں کوئی  ایسا چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے میں ناراض ہو جاؤں  اور کبھی میری نافرمانی نہیں کی بلکہ اپنے  اخلاق  اور  نیک سلوک سے میرے غم اور پریشانیوں کو دور کیا۔

عصمت حضرت فاطمہ علیہا السلام  پر قرآن پاک کی گواہی
  خداوند عالم سورہ احزاب میں فرماتا ہے کہ: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (1)
بیشک خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
یہ آیہ شریفہ شہادت دیتی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں ’’الرجس‘‘ جو آیت میں آیا ہے، تمام گناہان صغیرہ اور کبیرہ کو شامل کرتا  ہے جس سے اہل بیت دور ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
اہل سنت کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی  ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہرا علیہا السلام کی ذات مبارک ہے۔ پس اسی بناء پر فاطمہ زہرا علیہا السلام  قرآن مجید کی  گواہی کے مطابق صاحب عصمت ہیں۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت پر امیر المؤمنینؑ کا استدلال
جب پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت کے بعد خلیفۂ اول نے فدک کو غصب کیا تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اس کے ساتھ احتجاج  اور مناظرہ کیا ۔ امیر المؤمنین علیہ السلامبھی حضرت زہرا علیہا السلام کے خطبہ اور احتجاج کے بعد مسجد گئے اور ابو بکر سے سوال کیا:
حضرت علی علیہ السلام : اے ابوبکر بتاؤ ، پتہ تو چلے کیا  تم نے قرآن پڑھا ہے؟
ابو بکر: جی ہا ں قرآن کو  پڑھا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: آیہ تطہیر’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (2) پڑھواور بتاؤ کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی ہے یا دوسروں کے؟
ابوبکر: یہ آیت آپ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام  : اگر کوئی حضرت فاطمہ علیہا السلام کے خلاف گواہی دے کہ انہوں نے خلاف شریعت کوئی عمل انجام دیا ہے تو تم اس وقت کیا کروگے؟ اس شخص کی گواہی کو قبول کروگے یا نہیں؟
ابو بکر: جی ہاں، میں اس آدمی کی گواہی کو قبول کروں گا اور  حضرت فاطمہ علیہا السلام پر دوسرے لوگوں کی طرح حد جاری کروں گا۔
حضرت علی علیہ السلام : اس صورت میں تم خدا کے ہاں کافر قرار پاوگے۔
ابوبکر: کیوں؟
حضرت علی علیہ السلام : کیونکہ اس فرض کی بناء پر تم نے خدا کی گواہی کو  جوخدا نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی طہارت پر دی ہے،  رد کیا ہے اور لوگوں کی گواہی کو مقدم کیا ہے۔اسی طرح تم نے خدا اور رسول کی گوہی کو اس مورد میں نظر انداز کیا ہے اور فدک کو فاطمہ زہرا علیہا السلام سے چھین لیا ہے۔
اے ابو بکر! کیا فدک فاطمہ زہرا علیہا السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا ؟  جو چیز ان کی ملکیت میں ہے تم کیوں اور کیسے خود ان سے اس کے متعلق  شاہد اور گواہ مانگتے ہو؟چونکہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ابو بکر کی گفتگو سن رہے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا:  ’’صَدَّقَ وَاللّہ عَلِی ابن اَبِی طَالِب‘‘ خدا کی قسم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام  نے سچ کہا ہے(3)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آیہ تطہیر سے عصمت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر استدلال کیا اور مہاجرین اور انصار نے بھی اسے قبول کیا اور اس کی تائید کی۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت فریقین کی روایت میں
امام باقر علیہ السلام نے اس آیہ مجیدہ ’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (4)
کے بارے میں فرمایا: یہ آیت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم، علی ابن ابی طالب، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ امّ سلمہ کے گھر میں ہوا کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام کو بلایا پھر خیبر سے لائی ہوئی چادر کو ان کے اوپر ڈال دیا اور خود بھی اس کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: اللهم هولاء اهل بيتى و عدتنى فيهم ما وعدتنى، اللهم اذہب عنهم الرجس و طهرہم تطهيرا، فقالت و أنا معهم يا رسول‏اللہ قال: أبشرى يا ام‏سلمہ فانك الى خير (5)
اے اللّہ یہ میرے اہل بیت ہیں جن کے بارے میں تو نے مجھے وعدہ دیا ہے۔ اے اللّہ ان سے ہر قسم کی رجس و پلیدی کو دور فرما اور انہیں پاک اور منزہ قرار دے، اس موقع پر حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟
 آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا:  اے امّ سلمہ تمہارے لئے بشارت ہو  تم خیر پر ہو۔
( لیکن تم اہل بیت  علیہم السلام میں سے نہیں ہو)

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کا گذشتہ انبیاءؑ سے افضل ہونا  
اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اگر ان کا نور نہ ہوتا اور ان کی ہستی نہ ہوتی تو بدون شک خدا کسی بھی مخلوق کو خلق نہ کرتا۔(6)
دوسری طرف سے اہل سنت  اور  اہل تشیع  کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجتن پاک  کا نور ایک تھا  اور خدا کے ہاں ایک نور شمار ہوتا ہے (7)
اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی برتری دوسروں پر مسلّم ہے۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتےہیں : دنیا کی  ابتداء اور انتہاء کے تمام انسانوں میں ، میں سب سے افضل ہوں اور میرے بعد علی علیہ السلام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں ہم میں جو پہلے والے ہیں وہ آخر والے کی  طرح ہیں اور جو آخر والے ہیں وہ پہلے والے کی طرح ہیں (8)
اور تیسری طرف سے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی روایت میں  ہم پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میرے اور علی کے بعد زمین پر سب سےافضل حسن اور حسین ہیں اور ان کی مادر گرامی فاطمہ پوری دنیا کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں۔(9)    
ہم اہل بیت اطہار کی روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ خداوند متعال نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور ان کو بھی کمال اور فضیلت کے لحاظ سے برابر خلق نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے کچھ اولوالعزم مشہور ہیں اور وہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں لیکن اہل بیت اطہار کو خداوند عالمین نے اولوالعزم پیغمبروں سےبھی برتر و افضل قرار دیا ہے۔(10)    
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں آیا ہے کہ گذشتہ تمام انبیاء فقط اس لئے بھیجے گئے تھے تاکہ ہمارے حقوق کو پہچانیں اوردوسرے تمام مخلوقات عالم سے ہمیں افضل اور برتر جانیں۔(11)
اگر مذکورہ روایتوں کو مد نظر رکھے بغیر بھی غور و فکر کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ تمام انبیاء الہی معصوم تھے۔ اور علی علیہ السلام ، فاطمہعلیہا السلام ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّمکے علاوہ تمام انبیاء سے افضل تھے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پنجتن پاک تمام فضائل و کمالاتِ انبیاء مِن جُملہ درجۂ عصمت میں ان پر  فضیلت رکھتے ہیں۔

دوسری طرف اہل سنت کی روایتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا علیہا السلام کے لئےاس جہاں میں کوئی ہم رتبہ اور کفو نہ ملتا۔
بڑے بڑے علماء، دانشور اور محققین نے ’’حدیث کفو‘‘ سے استفادہ کیا ہے  کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہعلیہا السلام رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔پس اس صورت میں بھی فاطمہعلیہا السلام  کی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے تمسک کرنے کی صورت میں فاطمہ زہرا علیہا السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے ہم رتبہ اور مساوی ہیں! پس کسی عاقل شخص کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ دو برابر اور مساوی چیزوں کے ایک دوسرے پر مقدم اور برتری کے قائل ہو جائے۔
    
فاطمہ زہراعلیہا السلام  کی عصمت پر ملائکہ کی گواہی
بہت ساری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جبرئیل امین اور دوسرے تمام فرشتے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ اور اس گفتگو کے درمیان میں اس خاتون عصمت کے فضائل اور مناقب میں کچھ ایسے مطالب کہتے تھے جس سے ان کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف دو مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قال رسول‏ اللَّه صلى اللَّه عليه و آله: «... ابنتى فاطمه، و انها لسيده نسا العالمين فقيل: يا رسول‏اللَّه! اهى سيده نسا عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمه فهى سيده نسا العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه مريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين(12)
میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام  دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
 پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام  دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھےاللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انما سميت فاطمه محدثه لان الملائكه كانت تهبط من السما فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران فتقول: يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين. فتحدثهم و يحدثونها فقالت ذات ليله: اليست المفضله على نسا العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيده نسا عالمها و ان اللَّه عزوجل جعلك سيده نسا، عالمك و عالمها و سيده نسا الاولين و الاخرين(13)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام  کو ’’محدثہ‘‘ کہا جاتاہے کیونکہ ان کے پاس آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام  سے گفتگو کرتے تھے اور ملائکہ حضرت فاطمہ علیہا السلام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ اے فاطمہ علیہا السلام ! بیشک اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و صاف قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہانوں کی عورتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہعلیہا السلام  بھی ان سے گفتگو کرتی تھی اور ان کی گفتگو سنتی تھی۔ ایک دن حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے ملائکہ سے کہا: کیا مریم بنت عمران تمام جہاں کی عورتوں سے افضل نہیں ہے؟
ملائکہ نے جواب دیا: حضرت مریم اعلیہا السلام اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھی، لیکن آپ   اول و آخر تمام عورتوں کی سردار ہیں یہاں تک کہ خود حضرت مریم علیہا السلام کے زمانے کی عورتوں کی بھی سردار ہیں۔
ان احادیث کو  بطور نمونہ منتخب کیا گیا ہے جن میں فاطمہ زہرا علیہا السلام کو جہاں عالَم کی تمام عورتوں کی سردار، خداوند عالَم کی منتخب اور ملائکہ و جبرئیل امین کی ہمنشین و ہم صحبت ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی احادیث کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ  عصمت زہرا علیہا السلام کے بارے میں  تردید کرئے؟
 
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام  کی عصمت پر اشکال اور اس کا جواب
بعض لوگ  کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے والی آیات اور بعد والی آیات، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان سے مخاطب ہیں۔ پس سیاق و سباق کی دلالت کی بناء پر، کہا جا سکتا ہے کہ آیہ مذکورہ بھی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ مخاطب ہیں اس بناء پر اگر یہ آیت عصمت پر دلالت کرتی ہے تو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ ازواج رسول بھی معصوم تھیں حالانکہ  نہ کسی نے ان کو معصوم سمجھا ہے اور نہ ایسا کہا جا سکتا ہے پس نتیجتا ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت سرے سے ہی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے نہ روجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  کے  بارے میں اور نہ ہی اہل بیت کی عصمت پر۔
جواب: سید عبد الحسین شرف الدین نے اس مذکورہ اشکال کو نقل کیا ہے اور چند طریقوں سے اس اشکال کا جواب دیا ہے
اول: احتمال مذکورہ نص  کے مقابلے میں اجتہاد  ہے کیونکہ ساری روایتوں میں جن کی تعداد تواتر کی حد تک ہے ،  آیا ہے کہ آیہ تطہیر صرف، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، فاطمہ زہرا علیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور انہی ہستیوں سے مختص ہے یہاں تک کہ امّ سلمہ اس چادر میں داخل ہونا چاہی تو رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  نے سختی سے منع فرمایا۔
دوم: دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر آیہ تطہیر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ضروری تھا کہ ضمیر جمع مونث کی صورت میں ہوتی اور آیت یوں ہوتی:  إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ‘‘ نہ جمع مذکر کی صورت میں۔پس یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
سوم: تیسری دلیل یہ ہے کہ فصیح عربی بولنے والوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ اپنی گفتگو کے درمیان جملۂ معترضہ لاتے ہیں اس بناء پر کوئی مانع نہیں ہے کہ اللّہ تعالی   آیت تطہیر کو ان آیتوں کے درمیان قرار دےجو زوجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاکہ اس کی اہمیت کو واضح کرے۔ اور اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اہل بیت پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم معصوم ہیں لہذا کئی اس سے تعرض نہیں کرسکتا، چاہے وہ زوجات پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کیوں نہ ہو۔
چہارم: چوتھی دلیل یہ ہے کہ بیشک قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور اس آسمانی کتاب کی آیتوں میں بھی کوئی کمی و بیشی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بات مسلّم نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور سورے جس ترتیب سے نازل ہوئیں ہیں اسی طرح جمع اور تدوین ہوئیں ہوں، پس یہ احتمال بعید نہیں ہے کہ آیت تطہیر صرف اہل بیت کی شان میں الگ نازل ہوئی ہو لیکن تدوین اور قرآن مجید کی جمع آوری کےموقع پر اس آیت کو زوجات پیغیبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ساتھ ملایا ہو۔(15)
دلیل دوم: رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام  سے فرمایا: اے میری بیٹی! تیری ناراضگی خدا کی ناراضگی اور تیری خوشنودی خدا کی  خوشنودی ہے۔(16)
اس حدیث کو فریقین قبول کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتابوںمیں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس جس پر حضرت فاطمہ علیہا السلام  ناراض ہوگی خدا بھی اس سے ناراض ہو گا۔ اور جس جس  پر فاطمہ علیہا السلام راضی ہو گی خدا بھی خوشنود اور راضی ہوگا۔ اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ رضایت اور غضبِ خدا سچ اور حق ہونے کی بناء پر ہے خداوند عالم ہرگز کسی غلط اور خلاف حق پر خوش اور راضی نہیں ہوتا   اگرچہ دوسرے لوگ اس کام سے راضی ہو جائیں اور اسی طرح کسی اچھے کام اور حق پر ہرگز ناراض نہیں ہوتا  اگر چہ وہ کام دوسروں کےہاں باعث غضب ہو۔ان دو مطالب کا لازمہ یہ ہے کہ فاطمہ زہراعلیہا السلام  ہر قسم کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں کیونکہ معصوم کی رضایت اور غضب شریعت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت رضائے خدا  کے خلاف راضی نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاطمہ علیہا السلام  ناراض ہو جائے تو خدا ناراض ہوگا اور اگر فاطمہ علیہا السلام راضی اور خوش ہو تو خدا خوشنود ہو گا۔ لیکن اگر ان سے گناہ اور خطا سرزد ہونے کا امکان ہوتا  تو ہرگز بطور کلی ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ فاطمہ کی ناراضگی خدا کی  ناراضگی اور فاطمہ علیہا السلامکی خوشی خدا کی خوشی ہوگی۔ اس مطلب کو ہم مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں:
اگر ہم فرض کریں کہ فاطمہ علیہا السلام معصوم نہیں ہیں اور ان سے گناہ و خطا  کا امکان ہے اس صورت میں امکان ہے وہ  خطا  یا غریزہ نفسانی کی وجہ سے خلاف حق کسی سے کوئی مطالبہ کرےا ور اس طرح ان کے درمیان نزاع ہو جائے اور طرف مقابل قبول بھی نہ کرے  بلکہ اُنہیں غلطی پر قرار دے۔اس بناء پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے اور اپنی عدم رضایت کا اظہار بھی کر لے، کیا ایسی صورت میں  کہا جا سکتا ہے کیونکہ فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوئی ہیں پس خدا بھی ناراض ہوا ہے اگر چہ حق طرف مقابل کا ہی کیوں نہ ہوہرگز  ایسی نسبت خداکی طرف نہیں دی جاسکتی۔ بس اس حدیث سےبھی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی عصمت ثابت کی جا سکتی ہے
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ فاطمہ علیہا السلام میرے جسم کا ٹکڑا ہیں جس نے اسے ناراض کیا اس نے  مجھے ناراض کیا۔(17)
یہ حدیث بھی اہل تشیع اور اہل تسنّن دونوں نے نقل کی ہے اور تمام مسلمان حتی عمر اور ابوبکر بھی اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں مذکورہ حدیث کی طرح اس حدیث سے بھی حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر دلالت ملتی ہےکیونکہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم گناہ  اور  خطا  سے معصوم ہیں لہذا  یسے کام پر ناراض ہوتے ہیں جس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور اسی طرح ایسے کام سے راضی ہوتے ہیں جس سے خدا راضی ہوتاہے۔ پس اس صورت میں یہ کہا جاسکتاہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کی  ناراضگی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناراضگی ہے اور رسول کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے  یہ اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب فاطمہ علیہا السلام عصمت کی منزلت پر ہو۔اور احتمال گناہ و خطا ممکن نہ ہو۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرنے  والی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: فاطمہ علیہا السلام کو اس لئے فاطمہ نام رکھا گیا ہے کہ کوئی بدی اور شر ان کے وجود مبارک میں امکان پذیر نہیں ہے۔

حضرت زہرا علیہا السلام کی عصمت پر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی
 رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے  فاطمہ علیہا السلامکو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ علیہا السلام کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا  اس کا دشمن، میرا  اور خدا کا دشمن ہے۔   
ایک اور حدیث میں فرمایا: فاطمہ علیہا السلام میرا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس کو ناراض کیا  اس نے مجھے اور خدا کو ناراض کیا۔
خلاصہ کچھ احادیث میں  جو اہل سنت کی معتبر کتابوں میں پڑھنے کو ملتے  ہیں کہ خدا کی خوشی اور ناراضگی  کا معیار فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اس کے علاوہ  شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں  دسیوں احادیث میں یہی مفہوم اور معنی موجود ہے ہم نے 26 ویں فصل میں ( حضرت زہراعلیہا السلام کی دشمنوں کی عاقبت) کچھ احادیث  کو منابع کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
 وہ احادیث جو حضرت زہرا علیہا السلام کے معصومہ   ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہ کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہو تو کیسے  پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ علیہا السلام کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی( کا معیار)  قرار دیا جا سکتا ہے؟
 ابن ابی الحدید اس اعتراف  کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:  
قوله عليه السلام: فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز و جل يدل على عصمتها، لانها، لوكانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال... (18)
فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: جس نے اسے (فاطمہ علیہا السلام ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی، یہ فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلیل ہے، کیوں کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ علیہا السلام کا دکھ ہر حال میں پیغمبراسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کا دکھ حساب نہ ہوتا۔
بس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  کے فرامین  فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت پر واضح  دلیل ہیں جسے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوربھی مانتے ہیں  مسلمان شعراء  بھی کلام  خدا اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نظم میں لے آئے ہیں:
وان مريم احصنت فرجها        جاءت بعيسى كبدر الدجى
فقد احصنت فاطم  بعدها      و جاءت بسبطى نبى الهدى (19)
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کو لے آئی جو سورج کی طرح چمکتا اور منور رہے۔  اور حضرت زہراعلیہا السلام نے بھی عصمت اور پاکی کے ساتھ زندگی کی اور دو  انوار کو جو نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں نبی کے حوالہ کیا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلامسے پوچھا گیا کہ فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا؟
حضرت نے  فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
غسلها اميرالمؤمنين لانها كانت صديقة، و لم يكن ليغسلها الا صديق(20)
حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کو غسل دیا، کیونکہ  فاطمہ علیہا السلام معصوم تھی اور معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ جیسے ہی سائل نے تعجب کیا تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نے غسل نہیں دیا ہے۔ ہم اس فصل کے آخر میں تمام باتوں، احادیث اہل بیت، آیہ تطہیر، امیر المؤمنین علیہ السلام کی دلائل اور اہل سنت کے بزرگ دانشمندوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام  دوسرے تمام معصومین کی طرح معصوم تھی۔ اور وہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور ائمہ  سے افضل ہیں۔
-----------------
منابع:
(1 و2) احزاب/ 33.
(3) ۔احتجاجات طبرسى، چاپ نجف، ج 1، ص 122- 123
(4) احزاب/ 33.
(5) نورالثقلين، ج 4، ص 270
(6) لولاك كما خلقت الافلاك و لو لا على لما خلقتك و لولا فاطمه لما خلقتكما. (عوالم، ج 11 ص 25 و 26).
(7)حضرت کہتے ہی:رسول اکرم ہمارےگھر تشریف لائے میں سو رہا تھا رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سے گفتگو کے بعد فرمایا:اے بیٹی میں اور تم حسن  اور حسین اور یہ علی ایک جگہ اور ایک ہی مقام پر ہونگے۔ (فرائد السمطين، ج 2، ص 28 ش 367)
(8) بحار، ج 26، ص 316، ح 79: انا سيد الاولين و الاخرين و انت يا على! سيدالخلائق بعدى، اولنا كاخرنا و آخرنا كاولنا.
(9) بحار 26، ص 272 و، ح 14: الحسن و الحسين خير اهل‏الارض بعدى و بعد ابيها و امهما افضل نسا اهل‏الارض.
 (10) بحارالانوار، ج 26، ص 199، ح 11، عن الصادق (ع): ان اللَّه فضل انلى العزم من الرسل بالعلم على الانبيا و ورثنا علمهم و فضلنا عليهم فى فضلهم...
(11) اصول كافى، ج 1، ص 437، ح 4: ما من نبى جا قط الا بمعرفه حقنا و تفضيلنا على من سوانا.
(12) عوالم، ج 11، ص 99.
 (13) بحار، ج 43، ص 78، ح 65.
(14) احزاب 33
(15)ـ كتاب الكلمة الغراء فى تفضيل الزهراء تأليف سيد عبدالحسين شرف‏الدين ص 212.
(16)ـ قال رسول‏اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله: يا فاطمة ان اللَّه يغضب لغضبك و يرضى لرضاك- ينابيع المودة ص 203 مجمع الزوائد ج 9 ص 203.
(17)ـ قال رسول‏اللَّه: فاطمة بعضة مني فمن اغضبها اغضبنى- صحيح بخارى ج 2 ص 302.
(18)ـ كشف‏الغمه ج 2 ص 89.
(19)ـ شرح نهج‏البلاغة، ج 16، ص 273.
(20)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 50.
(21)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 184- عوالم، ج 11، ص 260- جلاءالعيون، ج 1، ص 2

مؤلف: ------ مترجم : احسان دانش ذرائع: پیشکش امام حسین فاونڈیشن

 

مہر خبررساں ایجنسی نے سانا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ  اسرائیل نے شام کی بندرگاہ لاذقیہ پر کئی میزائلوں سے حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے رواں ماہ دوسری بار شام کی مرکزی بندرگاہ لاذقیہ پر کئی میزائل داغے ہیں جس کے نتیجے میں بندرگاہ میں رکھے کنٹینرز تباہ جب کہ اسپتال، رہائشی عمارتوں اور دکانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

حملے کے وقت رہائشی عمارتوں میں شہری اور اسپتال میں مریض موجود تھے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ چند افراد کے معمولی زخمی ہونے کی اطلاع ہے جنھیں طبی امداد کے بعد گھر جانے کی اجازت دیدی گئی۔

3 جنوری 2020 کی صبح، عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اعلان کیا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر سردار "قاسم سلیمانی" اور "ابومهدی المهندس" بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکہ کے دہشت گردانا حملہ میں شہید ہوگے ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر کی شہادت کی ابتدائی خبر شائع ہونے کے ایک گھنٹے بعد امریکی محکمہ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں باضابطہ طور پر سردار سلیمانی اور ابومهدی المهندس کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ ان کا قتل اس کا حکم اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔

سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر نے تیزی سے دنیا کے عوامی ذہنوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ افسوسناک خبر چند ہی گھنٹوں میں عالمی میڈیا کی شہ سرخی بن گئی، جس سے بین الاقوامی اور عالمی میڈیا کے سینئر عہدیداروں میں ردعمل کی لہر دوڑ گئی۔

خطے اور دنیا میں شہید سلیمانی کی حاکمیت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی شہادت کی خبر سے دنیا میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور میڈیا نے اس عالمی تشویش کی عکاسی کی۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی کوریج کرنے میں زیادہ تر عالمی میڈیا کا مشترک نکتہ یہ تھا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت کے قتل نے خطے اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کو اس دہشت گردانہ کارروائی کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔



اس اہم خبر کے جواب میں امریکی نیٹ ورک "سیانان" نے اطلاع دی ہے کہ سلیمانی کی شہادت نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

امریکی نیوز نیٹ ورک نے جنرل سلیمانی کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے معمول کے پروگرام میں خلل ڈالا اور پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس کمانڈر کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے خطے پر بے شمار اثرات ہیں۔

"قاسم سلیمانی کے قتل کا خطے پر گہرا اثر ہے اور اس نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے،" بغداد سے سیانان کے نمائندے نے اپنے چہرے پر پریشانی اور پریشانی کے ساتھ اعتراف کیا۔

امریکی فوج کی ریٹائرڈ جنرل الزبتھ کوبز نے نیویارک ٹائمز کے لیے ایک مضمون میں سردار سلیمانی کے قتل کو "محض حماقت" قرار دیا اور کہا کہ قدس فورس کے کمانڈر کو مشتعل کرنے میں امریکی دہشت گردانہ اقدام اشتعال انگیز اور انتہائی مضحکہ خیز تھا۔

ریٹائرڈ امریکی جنرل نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی خیالی وجہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کمانڈر قدس کی شہادت سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس نے امریکہ کی غیر منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا اور ظاہر کیا کہ واشنگٹن کے پاس اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ مغربی ایشیا میں ..

لاس اینجلس ٹائمز رپوٹ نے لکھ کہ شہید سلیمانی کا قتل ٹرمپ کا سب سے بڑی جوا تھا کہ ، اور واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکہ کی دہشت گردانہ کارروائی شہید سلیمانی کے لئے ایک طویل وقت کے لئے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی. ریڈیو " آرٹ ایل جی " فرانسیسی اعتراف کرتا ہے کہ اس دن کو تبدیلی کے لمحے کے طور پر یاد رکھیں گے۔

برطانوی اخبار " گارڈین " نے سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کرتے ہوئے ان کا ذکر دنیا کی ایک معروف شخصیت کے طور پر کیا، جس کی وجہ ان کی ذہانت تھی۔

اخبار نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنگی مسائل میں اپنی ذہانت کی وجہ سے دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک تھے جن کی طاقت اور اثر و رسوخ نے ہمیشہ متحدہ ریاستیں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔

برطانوی اخبار نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد "ایران امریکہ بحران" کے عنوان سے ایک خصوصی صفحہ بنایا اور لکھا کہ مغربی ایشیا میں ایران امریکہ روڈ میپ اب سابقہ ​​مدار میں نہیں رہے گا اور اس کے نتیجے میں پورا خطہ سنگین تبدیلی سے گزرے گا۔

کینیڈین اخبار " گلوب اینڈ میل " نے جس نے سردار سلیمانی کو ایک باصلاحیت قرار دیا تھا، نے ان کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ سردار سلیمانی چار دہائیوں تک دشمن کے دباؤ کے خلاف قومی مزاحمت میں ایرانی عوام کی مقبول شخصیت تھے۔ ان کی شہادت سے ایران اپنے سب سے بڑے حامی اور جنگی ذہین سے محروم ہو گیا۔

امریکی اشاعت " اٹلانٹک " نے بھی جنرل سلیمانی کی فوجی برتری کا اعتراف کیا اور بتایا کہ قدس فورس کا کمانڈر مارشل آرٹس کا مجموعہ تھا۔

ایک اہم مسئلہ جسے مغربی میڈیا کی اکثریت نے کور کیا وہ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ تھا۔

اٹلانٹک اخبار نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں سردار سلیمانی کی شہادت کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمانی نے ایران اور اس کے عرب شراکت داروں کے درمیان اتحاد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکی نیٹ ورک فاکس نیوز نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے افسوسناک نتائج کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکی دہشت گرد قوتیں الرٹ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

المیادین نیٹ ورک کے ڈائریکٹر غسان بن جدو نے کہا کہ امریکیوں کو جرم کی قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس قتل کا ردعمل یا تو مکمل جنگ ہو گا یا پھر امریکی افواج کے ساتھ بتدریج جنگ۔

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بھی ایک روسی تجزیہ کار کے حوالے سے امریکی دہشت گردانہ حملے کے نتائج کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت کا جوابی ردعمل خطے میں ایران نواز قوتوں کی شرکت کے ساتھ کئی مراحل میں ہو گا۔

روسی نیٹ ورک " رشاتودی " نے ایک مختصر رپورٹ میں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ روسی حکومت کی ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ امریکہ کو ایرانی اقدامات کی لہر کا انتظار کرنا چاہیے۔

ترک میڈیا نے بھی دنیا بھر کے دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کیا اور ینی ‌صفق اخبار نے امریکہ کے لیے اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتائج کی خبر دی ، جس کی اب تمام نظریں عراق میں امریکی اڈوں پر ہیں۔

ترک اخبار "الصباح" نے بھی سردار سلیمانی کو خطے کی بااثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا اور لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے سردار سلیمانی کا ذکر زندہ شہید کے طور پر کیا ہے۔

دیگر صہیونی میڈیا نے بھی سردار سلیمانی کے قتل پر ایران کے ردعمل کے خوف سے دنیا کے ممالک میں صہیونی سفارت خانوں میں حفاظتی اقدامات میں اضافے کی خبر دی ۔

جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر دنیا میں اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ اس وقت کے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جو یونان کے دورے پر گئے تھے، دورہ ترک کر کے مقبوضہ فلسطین واپس چلے گئے۔

صہیونی اخبار " یروشلمپوسٹ " نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر کے ردعمل میں لکھا ہے کہ کمانڈر قدس کی شہادت کے بعد امریکہ اور صیہونی حکومت ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

امریکہ سے منسلک ویب سائٹ " ہل " نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بنے گی۔

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے سانحہ پر عالمی میڈیا کا ردعمل صرف مذکورہ میڈیا تک محدود نہیں ہے اور دنیا بھر کے بیشتر میڈیا اداروں نے اس خبر کی عکسبندی کی اور اس کے نتائج سے خبردار کیا۔




سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد پورے ایران اور خطے کے بعض ممالک میں بڑے پیمانے پر جلوس نکالے گئے، ٹرمپ کے اس مذموم مفروضے کے برعکس کہ سردار سلیمانی کی شہادت ایرانی عوام کے لیے خوشی کا باعث بنے گی، ایران بھر میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ سلیمانی کا جنازہ ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ تھا۔

جیسا کہ ایران نے بدلہ لینے کا وعدہ کیا تھا، 9 جنوری 2017 کی صبح سویرے 13 بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ، اس نے عراق میں امریکی دہشت گرد اڈے "عین الاسد" کو نشانہ بنایا، جس میں امریکی فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچا اور ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 



سردار سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن قدس فورس کے کمانڈر کو نہ صرف فراموش کیا گیا ہے بلکہ ان کا راستہ جاری ہے اور امریکہ ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ 
 
تقريب خبررسان ايجنسی l
3 جنوری 2020 کی صبح، عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اعلان کیا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر سردار "قاسم سلیمانی" اور "ابومهدی المهندس" بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکہ کے دہشت گردانا حملہ میں شہید ہوگے ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر کی شہادت کی ابتدائی خبر شائع ہونے کے ایک گھنٹے بعد امریکی محکمہ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں باضابطہ طور پر سردار سلیمانی اور ابومهدی المهندس کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ ان کا قتل اس کا حکم اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔

سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر نے تیزی سے دنیا کے عوامی ذہنوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ افسوسناک خبر چند ہی گھنٹوں میں عالمی میڈیا کی شہ سرخی بن گئی، جس سے بین الاقوامی اور عالمی میڈیا کے سینئر عہدیداروں میں ردعمل کی لہر دوڑ گئی۔

خطے اور دنیا میں شہید سلیمانی کی حاکمیت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی شہادت کی خبر سے دنیا میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور میڈیا نے اس عالمی تشویش کی عکاسی کی۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی کوریج کرنے میں زیادہ تر عالمی میڈیا کا مشترک نکتہ یہ تھا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت کے قتل نے خطے اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کو اس دہشت گردانہ کارروائی کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔



اس اہم خبر کے جواب میں امریکی نیٹ ورک "سیانان" نے اطلاع دی ہے کہ سلیمانی کی شہادت نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

امریکی نیوز نیٹ ورک نے جنرل سلیمانی کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے معمول کے پروگرام میں خلل ڈالا اور پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس کمانڈر کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے خطے پر بے شمار اثرات ہیں۔

"قاسم سلیمانی کے قتل کا خطے پر گہرا اثر ہے اور اس نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے،" بغداد سے سیانان کے نمائندے نے اپنے چہرے پر پریشانی اور پریشانی کے ساتھ اعتراف کیا۔

امریکی فوج کی ریٹائرڈ جنرل الزبتھ کوبز نے نیویارک ٹائمز کے لیے ایک مضمون میں سردار سلیمانی کے قتل کو "محض حماقت" قرار دیا اور کہا کہ قدس فورس کے کمانڈر کو مشتعل کرنے میں امریکی دہشت گردانہ اقدام اشتعال انگیز اور انتہائی مضحکہ خیز تھا۔

ریٹائرڈ امریکی جنرل نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی خیالی وجہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کمانڈر قدس کی شہادت سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس نے امریکہ کی غیر منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا اور ظاہر کیا کہ واشنگٹن کے پاس اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ مغربی ایشیا میں ..

لاس اینجلس ٹائمز رپوٹ نے لکھ کہ شہید سلیمانی کا قتل ٹرمپ کا سب سے بڑی جوا تھا کہ ، اور واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکہ کی دہشت گردانہ کارروائی شہید سلیمانی کے لئے ایک طویل وقت کے لئے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی. ریڈیو " آرٹ ایل جی " فرانسیسی اعتراف کرتا ہے کہ اس دن کو تبدیلی کے لمحے کے طور پر یاد رکھیں گے۔

برطانوی اخبار " گارڈین " نے سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کرتے ہوئے ان کا ذکر دنیا کی ایک معروف شخصیت کے طور پر کیا، جس کی وجہ ان کی ذہانت تھی۔

اخبار نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنگی مسائل میں اپنی ذہانت کی وجہ سے دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک تھے جن کی طاقت اور اثر و رسوخ نے ہمیشہ متحدہ ریاستیں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔

برطانوی اخبار نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد "ایران امریکہ بحران" کے عنوان سے ایک خصوصی صفحہ بنایا اور لکھا کہ مغربی ایشیا میں ایران امریکہ روڈ میپ اب سابقہ ​​مدار میں نہیں رہے گا اور اس کے نتیجے میں پورا خطہ سنگین تبدیلی سے گزرے گا۔

کینیڈین اخبار " گلوب اینڈ میل " نے جس نے سردار سلیمانی کو ایک باصلاحیت قرار دیا تھا، نے ان کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ سردار سلیمانی چار دہائیوں تک دشمن کے دباؤ کے خلاف قومی مزاحمت میں ایرانی عوام کی مقبول شخصیت تھے۔ ان کی شہادت سے ایران اپنے سب سے بڑے حامی اور جنگی ذہین سے محروم ہو گیا۔

امریکی اشاعت " اٹلانٹک " نے بھی جنرل سلیمانی کی فوجی برتری کا اعتراف کیا اور بتایا کہ قدس فورس کا کمانڈر مارشل آرٹس کا مجموعہ تھا۔

ایک اہم مسئلہ جسے مغربی میڈیا کی اکثریت نے کور کیا وہ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ تھا۔

اٹلانٹک اخبار نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں سردار سلیمانی کی شہادت کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمانی نے ایران اور اس کے عرب شراکت داروں کے درمیان اتحاد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکی نیٹ ورک فاکس نیوز نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے افسوسناک نتائج کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکی دہشت گرد قوتیں الرٹ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

المیادین نیٹ ورک کے ڈائریکٹر غسان بن جدو نے کہا کہ امریکیوں کو جرم کی قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس قتل کا ردعمل یا تو مکمل جنگ ہو گا یا پھر امریکی افواج کے ساتھ بتدریج جنگ۔

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بھی ایک روسی تجزیہ کار کے حوالے سے امریکی دہشت گردانہ حملے کے نتائج کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت کا جوابی ردعمل خطے میں ایران نواز قوتوں کی شرکت کے ساتھ کئی مراحل میں ہو گا۔

روسی نیٹ ورک " رشاتودی " نے ایک مختصر رپورٹ میں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ روسی حکومت کی ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ امریکہ کو ایرانی اقدامات کی لہر کا انتظار کرنا چاہیے۔

ترک میڈیا نے بھی دنیا بھر کے دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کیا اور ینی ‌صفق اخبار نے امریکہ کے لیے اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتائج کی خبر دی ، جس کی اب تمام نظریں عراق میں امریکی اڈوں پر ہیں۔

ترک اخبار "الصباح" نے بھی سردار سلیمانی کو خطے کی بااثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا اور لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے سردار سلیمانی کا ذکر زندہ شہید کے طور پر کیا ہے۔

دیگر صہیونی میڈیا نے بھی سردار سلیمانی کے قتل پر ایران کے ردعمل کے خوف سے دنیا کے ممالک میں صہیونی سفارت خانوں میں حفاظتی اقدامات میں اضافے کی خبر دی ۔

جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر دنیا میں اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ اس وقت کے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جو یونان کے دورے پر گئے تھے، دورہ ترک کر کے مقبوضہ فلسطین واپس چلے گئے۔

صہیونی اخبار " یروشلمپوسٹ " نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر کے ردعمل میں لکھا ہے کہ کمانڈر قدس کی شہادت کے بعد امریکہ اور صیہونی حکومت ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

امریکہ سے منسلک ویب سائٹ " ہل " نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بنے گی۔

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے سانحہ پر عالمی میڈیا کا ردعمل صرف مذکورہ میڈیا تک محدود نہیں ہے اور دنیا بھر کے بیشتر میڈیا اداروں نے اس خبر کی عکسبندی کی اور اس کے نتائج سے خبردار کیا۔




سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد پورے ایران اور خطے کے بعض ممالک میں بڑے پیمانے پر جلوس نکالے گئے، ٹرمپ کے اس مذموم مفروضے کے برعکس کہ سردار سلیمانی کی شہادت ایرانی عوام کے لیے خوشی کا باعث بنے گی، ایران بھر میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ سلیمانی کا جنازہ ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ تھا۔

جیسا کہ ایران نے بدلہ لینے کا وعدہ کیا تھا، 9 جنوری 2017 کی صبح سویرے 13 بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ، اس نے عراق میں امریکی دہشت گرد اڈے "عین الاسد" کو نشانہ بنایا، جس میں امریکی فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچا اور ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 



سردار سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن قدس فورس کے کمانڈر کو نہ صرف فراموش کیا گیا ہے بلکہ ان کا راستہ جاری ہے اور امریکہ ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ 
 
تقريب خبررسان ايجنسی l