سلیمانی

سلیمانی

 عسکری امور میں مہارت رکھنے والی ویب سائٹ   StrategyPage نے بین الاقوامی سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی حکومت نے فضائی دفاعی نظام کی خریداری کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے ہیں ۔

امریکی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اسرائیلی نظام خریدنے کی شدید خواہش ظاہر کی ہے، خاص طور پر ڈرونز سے لڑنے کے لیے اور ریاض کا وفد سعودی فوج کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ’فالکن داؤد‘ سسٹم خریدنے کی کوشش کر رہا ہے۔ .

سعودی حکومت سستا نظام خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، اس لیے اب حوثی میزائلوں کو نشانہ بنانا سعودی فوج کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے، اور ہر پیٹریاٹ سسٹم کی قیمت ایک سے چھ ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ سعودی فوج بہت سے کروز میزائلوں کو روکنے کے لیے جیٹ لڑاکا طیاروں سے داغے گئے AMRAAM فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا بھی استعمال کرتی ہے۔ ان میزائلوں کی قیمت تقریباً نصف ملین ڈالر ہے جو کہ یمنی کروز میزائلوں کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔

ریاض نے آخری بار 2020 میں امریکہ سے 200 PAC 3 (Patriot) میزائل خریدے تھے تاکہ 2016 میں خریدے گئے میزائلوں کو تبدیل کیا جا سکے۔ یہ 200 طیارے 150 یمنی بیلسٹک میزائلوں کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات یمنی فوج کے بیلسٹک میزائل کی تباہی کو یقینی بنانے کے لیے دو پیٹریاٹ میزائل فائر کیے جاتے ہیں ۔

تاہم بعض صورتوں میں یہ نظام کام نہیں کرسکا یا یمنی میزائل شہروں پر گر کر تباہ ہوگئے اور تباہ شدہ میزائل کی باقیات گرنے سے مالی اور انسانی جانی نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق سعودی فوج کے پاس اس وقت 24 پیٹریاٹ سسٹم ہیں جو کہ یمنی فوج اور انصاراللہ  کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

لہٰذا، سعودی وزارت دفاع، ولی عہد کی سفارش پر، خاموشی سے اسرائیلی حکومت سے "فالکن ڈیوڈ" سسٹم خریدنے کی کوشش کرتی ہے۔ نیشنل انٹرسٹ ویب سائٹ نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ سعودی فضائیہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طیارہ شکن شعبے میں اب بھی غیر موثر ہے اور "حوثیوں" کے بار بار حملوں نے سعودی فوج کے مہنگے طیارہ شکن نظام کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ویب سائٹ نے مشورہ دیا کہ سعودی فوج کو مختلف قسم کے طیارہ شکن نظام استعمال کرنے کے بجائے یمنی حملوں کو روکنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ستمبر 2019 میں مشرقی سعودی عرب میں آرامکو کے تیل کی تنصیب پر ڈرون اور میزائل حملے، جس نے ملک کی نصف تیل کی پیداوار کو روک دیا۔

اس حوالے سے بلومبرگ نیوز ایجنسی نے بھی لکھا کہ سعودی عرب نے ماسکو سے  S-400 سسٹم خریدنے کے لیے بات چیت کی ہے جیسا کہ ترکی نے خریدا ہے۔

امریکن وال اسٹریٹ جرنل نے بھی 7 دسمبر کو امریکی اور سعودی حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ ریاض کے پاس سعودی سرزمین پر ہفتہ وار یمنی ڈرون اور میزائل حملوں کے لیے گولہ بارود ختم ہو رہا ہے اور یہ کہ ریاض ہنگامی حالت میں ہے۔ امریکہ اور خلیج فارس اور یورپی ممالک دوبارہ سازوسامان کے لیےبات چیت جارہی ہے۔

یمنی فوج نے ہمیشہ تاکید کی ہے کہ جب تک سعودی اتحاد ملک کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھے گا وہ سعودی سرزمین کے اندر اور حساس فوجی ٹھکانوں کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھے گی۔

سعودی عرب نے، امریکہ کی حمایت یافتہ عرب اتحاد کی سربراہی میں، یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا اور 26 اپریل 2015 کو اس کی زمینی، فضائی اور سمندری ناکہ بندی کر دی، اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ مستعفی یمنی صدر کو واپس لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

فوجی جارحیت سعودی اتحاد کے کسی بھی اہداف کو حاصل نہیں کرسکی اور صرف دسیوں ہزار یمنیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے، لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی، ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور قحط اور وبائی امراض کا پھیلاؤ شامل ہے۔

سید حسین تقی زادہ نے "اتحاد کی اہمیت کا جائزہ" وبینار  میں میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی وحدت دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے لئے نہایت ضروری ہے خاص طور پر پاکستان اور ایران کے لئے یہ موضوع نہایت حساس ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے مزید کہا: "آج بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمنوں کی سازشوں کے خلاف اپنی اسلامی ہم آہنگی کو برقرار رکھیں اور دشمن کو مسلمانوں میں گھسنے کی اجازت نہ دیں۔"

ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ وحدت اور انسجام کی فجا کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ تمام علمائے کرام مجھ سے زیادہ با خبر ہیں کہ ہمارے اور اھل سنت کے درمیان اسی فیصد مذہبی اور ثقافتی مشترکات موجود ہیں۔  لیکن دشمن بیس فیصد اختلافات کو فروغ دیتا ہے۔ 

 انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے آخر میں کہا کہ ہمیں ہمیشہ دشمن کی سازشوں سے چوکنا رہنا چاہیے اور انہیں اختلاف پیدا کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے، مزید کہا: "ہمیں امید ہے کہ کورونا وائرس جلد از جلد دنیا سے ختم ہو جائے گا تاکہ ہم اسلامی مسائل پر قابو پا سکیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمان کوئٹہ آنا چاہ رہے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ سفر انجام نہیں پا سکا۔ لیکن اسلام آباد سے کوئٹہ کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے دل جڑے ہوئے ہیں۔ 
حجت الاسلام محمد جمعہ اسدی مدیر جامعہ امام  صادق ع کوئٹہ نے "اتحاد امت کی اہمیت کا جائزہ" ویبینار میں سب سے پہلے ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور فتمایا کہ میں امام خمینی رح کے حکم پر چالیس سال پہلے ایران سے یہاں آیا اور میں نے مسلمانوں کے درمیان احدت اور ہماہنگی کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔

اگرچہ دشمن شیعہ اور اھل سنت کے درمیان اختلافات ہپیدا کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کرتا ہے لیکن الحمدللہ ہمارے باہمی ہماہنگی سے دشمن کی سازشیں ہمیشہ ناکام ہوتی ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے درمیان یہاں شیعوں کی بڑی تعداد کو شہید کیا گیا لیکن ہم نے وحدت اور ہماہنگی کی کوششوں سے ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ اپنی اس کوشش کو جاری رکھا۔ 

حجۃ الاسلام اسدی نے کہا: عالم اسلام کے دشمن ہمیشہ اپنی سازشوں اور مسلمانوں کے قتل عام سے عالم اسلام کو تباہ کرنے کے درپے رہتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان کس طرح اسلامی مذاہب کی سربلندی کے لیے کھڑے ہیں اور اس الہی آئیڈیل کا خون کے آخری قطرہ تک دفاع کررہے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا: "ہم سب جانتے ہیں کہ آج غیر ملکی ایجنٹ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن علمائے کرام نے اپنی ہوشیاری سے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا اور دشمنوں کو ان کے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے بیان کیا: رہبر معظم سید علی خامنہ ای  ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے نفاذ پر تاکید کرتے ہیں اور ان کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا ہم پر واجب ہے۔
 

مولوی نذیر احمد سلامی، نماینده سیستان و بلوچستان مجلس خبرگان رهبری نے  "اتحاد امت کی اہمیت کا جائز" ویبینار مین کہا کہ حضرت موسی نے وقتی طور پر شرک کو مان لیا لیکن قوم میں اختلاف کو برداشت نہیں کیا۔ موسی نے اپنے بھائی ہارون سے غصے کا اظہار کیا کہ اس اختلاف کے سلسلے میں قوم کو کیوں نہیں سمجھایا۔

ہم یہاں یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ تفرقہ اور اختلاف اتنا نقصان دہ ہے کہ دو پیغمبروں نے شرک کو تسلیم کرلیا لیکن اختلاف کو قبول نہیں کیا۔ 

اگر وحدت نہیں ہوگی تو اللہ نے جو نعمتیں امت مسلمہ کو عطا کی ہیں وہ مسلمانوں کے لئے استعمال کے قابل نہیں رہیں گی۔وحدت کا لازمہ یہ ہے کہ امت مسلمہ سازشوں اور فتنوں سے آگاہ رہے اور اپنی ہوشیاری سے انہیں اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کردے جس کے لئے وحدت نہایت ضروری ہے۔ 

ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ امت مسلمہ اس وقت کس جانب جارہی ہے تاکہ ہم اسے صحیح راستے پر گامزن کرسکیں۔ ان میں سے ایک سازش اور فتنہ غاصب صیہونی اسرائیل کا وجود ہے۔ اسکے علاوہ کشمیر کا موضوع ہے جو برطانوی فتنہ پرور فکر کا نتیجہ ہے۔ اختلافات، فرقہ واریت، جو استعمار کی سازش ہے اور وہ چاہتا ہے کہ فرقہ واریت پھیلا کر اپنے مافادات ھاصل کرتے۔ 

البتہ امت مسلمہ کو حاصل مواقع کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک مادی اور دوسرا معنوی۔ ہمارے پاس اسلام، قرآن ایمان اور پیغمبر اکرم ص اور اسلامی شخصیات کی سیرت ہمارا سرمایہ ہیں۔ ہم قرآن اور سیرت سے توسل کرکے بہت کم مدت میں دنیا بھر میں پھیلا چکے ہیں۔ 

ہمارے پاس قرآن اور سیرت موجود ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ہم چونکہ ان سے توسل نہیں کرتے اس لئے ہم اتنے کمزور پڑچکے ہیں جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

غاصب صیہونی اسرائیل جس کی تعداد چار پانچ میلین سے زیادہ نہیں پوری امت مسلمہ ناتوان دکھائی دے رہی ہے۔ بہت سارے خائن حکومتوں نے اسے تسلیم کرلیا ہے۔ 

اسی طرح جو مادی نعمتیں ہمارے پاس ہیں وہ استعماری حکومتوں کے پاس بھی نہیں ہیں۔ ہماری آبادی دو ارب سے زیادہ ہے، ہمارا جغرافیائی حدود اربعہ اور ہماری مسافت  ۳۴ میلین کلومیٹر مربع سے زیادہ ہے، ہمارے پاس تیل کے ذخائر ہیں اور ہمارے سوق الجیشی علاقے یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے خود استفادہ کرنا چاہئیے اور باطل قوتوں کے سپرد نہیں کرنا چاہئیے چونکہ یہ عظیم خیانت ہے جو ناقابل معافی ہے۔

تقريب خبررسان ايجنسی

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی دوسری برسی 3 جنوری کو ایرانی دارالحکومت تہران کے نماز گاہ (مصلا) میں منائی جائے گی۔

یہ بات سپاہ محمد رسول اللہ کے کمان‍ڈر جنرل حسن حسن زادہ نے پیر کے روز اپنی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر انہوں نے جنرل شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی دوسری برسی کی یاد منانے کے منصوبوں کی وضاحت کی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 3 جنوری 2020 میں عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکہ کی جانب سے راکٹ حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر قدس جنرل قاسم سلیمانی سمیت عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر "ابومهدی المهندس" شہید ہوگئے۔  

اسلامی جمہوریہ ایران کے مذاکراتی وفد کے سربراہ "علی باقری کنی" جو ایران کیخلاف پابندیوں کی منسوخی کے مذکرات میں حصہ لینے کیلئے کچھ گھنٹوں پہلے ویانا کے کوبورگ ہوٹل میں پہنچ گئے تھے، نے روس اور چین کے اعلی مذاکرات کاروں سے ملاقات اور گفتگو کی۔

رپورٹ کے مطابق، نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور علی باقری کنی  بروز پیر کو قانونی، سیاسی، اور اقتصادی ماہرین کے ایک وفد کی قیادت میں ایران کیخلاف ظالمانہ پابندیوں کی منسوخی پر ویانا مذاکرات کے آٹھویں دور میں حصہ لینے کیلئے ہوٹل کوبورگ پہنچ گئے۔

ارنا نمائندے کے مطابق، علی باقری کنی، وانگ کوان اور میخائل اولیانوف اس وقت مشترکہ کمیشن کے اجلاس سے قبل کوبورگ ہوٹل میں سفارتی مشاورت کر رہے ہیں۔

جوہری معاہدے کے مشترکہ  میشن کی افتتاحی نشست کا آغاز ویانا کے مقامی وقت کے مطابق، 18:00 بجے (ایران کے مقامی وقت کے مطابق 20:30) بجے میں انعقاد کیا جائے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد نے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے سنجیدگی اور عزم کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی ہے اور جب تک ضروری ہو ویانا میں مذاکرات جاری رکھنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے۔

ایرانی مذاکراتی ٹیم کے ایک قریبی ذریعہ نے گزشتہ روز ارنا نمانئدے سے کہا کہ ایران کم سے کم وقت میں ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہے، لیکن اسے کسی بھی قسم کی ڈیڈ لائن میں نہیں پھنسایا جائے گا، اور مذاکرات میں ہمارے لیے کوئی ہنگامی صورتحال نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور میں جوہری مسائل سے متعلق نصوص پر ہونے والی پیش رفت ایران کے سنجیدہ تعاون کی نشاندہی کرتی ہے اور اب دیگر فریقین کی باری ہے کہ وہ پابندیوں کے معاملات پر اپنی خیر سگالی کا مظاہرہ کریں۔

 اس باخبر ذریعے نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مذاکرات کے اس دور میں پیشرفت کا انحصار دوسری طرف کے نقطہ نظر پر ہے۔

نیز ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان "سعید خطیب زادہ" نے آج بروز پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اس امید کا اظہار کرلیا کہ دیگر فریقین، اس موقع کی کھڑکی کی قدر کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے جوہری معاہدے کو زندہ رکھا ہے اور امریکی پابندیوں کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کے باوجود اسے نہیں چھوڑا ہے۔

خطیب زادہ نے کہا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران نے ہی اس بین الاقوامی دستاویز کو زندہ رکھا ہے لیکن یہ سلسلہ مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ ہمیں امید ہے کہ دوسرا فریق اس موقع کی قدر کرتے ہوئے پابندیوں کی منسوخی کے مقصد سے ویانا آئے گا؛ اگر ایسا ہو تو  کسی معاہدے کے حصول کا امکان ہے۔

 کہا جاتا ہے کہ اکثر مذاکرات کار کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکراتی عمل کو تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، یہ امکان ہے کہ مذاکرات کا یہ دور گزشتہ ادوار کے مقابلے طویل ہوگا۔

مجمع التقریب بین المذاہب کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹرحمید شہریاری اور ایران کی مجلس خبرگان کے اہلسنت رکن مولوی نذیر احمد سلامی اعلی سطح کے وفد کے ساته پاکستان کے دورہ پر ہیں۔ جن سے کل رات امتِ واحدہ پاکستان کے وفد نے ملاقات کی۔ وفد میں امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی، علامہ محمد عباس وزیری، مفتی سید ابرار بخاری اور علی نقی عمار شامل تهے۔

ملاقات میں ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی اور احسان خزاعی مشیر برائے ایرانی ثقافت بهی موجود تهے۔وفود کے اراکین نے اسلام کو درپیش بین الاقوامی چیلنجز، استعماری و طاغوتی طاقتوں کی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں، وحدتِ امتِ اسلامی کو درپیش خطرات، فرقہ وارانہ جذبات کو ابهارنے والے عناصر کی روک تهام کےچیلنج، اسلام کے مختلف فرقوں کے درمیان موجود مشترکات کے فروغ کی حکمتِ عملی، پاکستان و ایران کی اقوام کے درمیان اتحاد، وحدت اور مشترکات کے زیادہ سے زیادہ فروغ، افغانستان میں مغربی ممالک کی جارحیت کے نتیجہ میں پیش آنے والی صورتحال اور افغان عوام کو موجودہ درپیش انتہائی مشکلات کےحل کے لئے دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کے اقدامات پر تفصیلی گفتگو کی۔

اس بات پر اتفاق ہوا کہ مسلم امہ کے اتحاد کی راہ میں درپیش رکاوٹوں کو دورکرنے کے لئے شعوری طور پر ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے، امریکی سُنیت اور برطانوی شیعیت دونوں سے اسلام کو خطرہ ہے اور حقیقی اسلام کو بچانے کےلئے امریکیوں کی امداد پر دنیا بهر میں سُنیت کے نام پر فرقہ پهیلانے والے عناصر اور برطانیہ و ایم آئی سکس کی مدد سے شیعہ سُنی کو لڑانےکی کوشش کرنے والے عناصر کے سدِباب کےلئے اور امت کو یہود و نصاری کے ایسے گماشتوں سے بچانےکے لئے مشترکہ جدوجہد کو تیز تر ہونا چاہیے۔ اگر ہم پاکستان کو من حیث اسلامی جمہوریہ اور یہاں کےمسلمانوں کومحفوظ اور خطرات سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ اتحاد و وحدت کا فروغ اور فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہے۔

جولوگ جانے انجانے میں کسی بهی حساس موضوع کو لےکر مسلم امہ کے درمیان تفرقہ کا باعث بنتے ہیں، وہ حقیقتاً اسلام کونقصان پہنچاتے ہیں۔قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں ہماری سب سےپہلی ذمہ داری مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو ایک جگہ اکٹها کرنا ہے۔علماء، اہلِ علم و دانش، اہلِ فکروقلم اوراہلِ منبرجتنازیادہ آپس میں گفتگواورایک دوسرےکےدینی مراکزکادورہ کریں گے، اتنازیادہ محبتوں کوفروغ ملے گا اور فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔اس کےساته ساته تعصبات کی شدت میں بهی کمی آئےگی اور یہی چیز ملک اور امتِ اسلام کی سلامتی کی ضامن اوردنیابهرمیں مسلم امہ کی سربلندی کاباعث ہے۔لہذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دنیا بهر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصی طورپرمختلف مسالک کےدرمیان افہام وتفہیم، محبت اور مشترکات کے فروغ کے لئے علمی، فکری، ثقافتی اور تہذیب و تمدن کے حوالہ سے وہ تمام ذرائع بروئے کا رلائے جائیں جن سے فاصلوں کو سمیٹا اور معاشرہ میں رہنے والوں کے قلوب کو ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکے۔

اس بات پر بهی اتفاق ہوا کہ وحدت و اتحاد کا مطلب فرقوں اور مسالک کا خاتمہ نہیں، یا شیعہ کا سُنی اور سُنی کا شیعہ ہوجانا نہیں۔ بلکہ وحدت و اتحاد کا مطلب سُنی اور شیعہ کا اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے آپس میں مشترکات پر اکٹهے ہونا اور اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور قرآن کے دشمنوں کے مقابلہ میں یک زبان ہوناہے، جن کا خطرہ مسلم امہ اور مسلم ممالک کو زیادہ ہے۔امت کی وحدت و اتحاد کا یہ نظریہ ایک سیاسی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآنی اورنبوی نظریہ ہے۔قرآن مجیدونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا نچوڑ امت کے اختلافات کو کم سے کم اور مشترکات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہے۔

مجمع التقریب بین المذاہب کی اعلی شوری اور مجلس خبرگان کے رکن اہلسنت عالم، مولوی نذیر احمدسلامی نےعالمِ اسلام کودرپیش خطرات اور مسلم اُمہ کے اندر موجود استعداد، صلاحیتوں اور ان کی طاقت پر تفصیلی گفتگو کی۔

اراکینِ وفود نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امت کو اکٹها کرنا ایک دو دن کا کام نہیں، یہ مسلسل عمل ہے جو سالہا سال پر محیط ہے اور اس کے لئے سب سے اہم چیز دشمن کی ریشہ دوانیوں، سازشوں اور نت نئے ہتهکنڈوں کو پہچاننا، ان کا سدِباب کرنا اور مسلم اُمہ پر ہونے والے ہر وار کا جواب دینے کے لئے پوری توانائی صرف کرنا ہے۔

وینزویلا کے صدر نے کہا ہے کہ ہم ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی حکمت اور قیادت سے بہت متاثر ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان سے دوبارہ تہران میں ملاقات کریں گے۔

یہ بات نکلوس مادورو نے اتوار کے روز المیادین عرب ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ میں آیت اللہ خامنہ ای سے بہت متاثر ہوں اور جب بھی ایران جاتا ہوں مجھے ان سے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔

مادورو نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای ایک عقلمند اور انتہائی دانشمند رہنما ہیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ تہران کے اپنے اگلے دورے پر ان سے دوبارہ ملاقات اور بات چیت کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں اور ہم نے صدر رئیسی کے ساتھ دوبار ٹیلی فونگ رابطے کے دوران کئی نئے منصوبوں پر اتفاق کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کی مشترکہ کمیٹی ایران اور وینزویلا کے درمیان نیٹ ورکنگ اور تعاون سمیت ان نئے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں جلد ہی ایرانی صدر کی دعوت پر تہران جاؤں گا اور اس دورے کے دوران ہم تمام شعبوں اور مختلف سطحوں پر تعاون کو بہتر بنانے کے لیے نئے معاہدوں اور دستاویزات پر دستخط کریں گے۔

شہید جنرل سلیمانی

انہوں نے شہید جنرل سلیمانی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں جنرل سلیمانی کو جان کر بہت خوش قسمت تھا۔ انہوں نے مارچ سے اپریل 2019 تک وینزویلا کا دورہ کیا اور ہم نے ان کے ساتھ بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم وینزویلا کے برقی نظام پر مغربی اور سامراجی حملوں سے بھرے بحران کے درمیان تھے، جو دو ماہ سے بند ہے، اس وقت جنرل سلیمانی وینزویلا آئے اور ہم نے تعاون کے مختلف شعبوں بشمول بجلی کے نظام کے بارے میں بات کی اور ہم نے ان سے جو بھی بات کی اس پر عمل کیا گیا۔

وینزویلا کے صدر نے کہا کہ جنرل سلیمانی خوش مزاج اور زندگی کے بارے میں پر امید تھے اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں ان سے ملا۔ اس شخص نے دہشت گردی اور خونخوار دہشت گرد مجرموں کا مقابلہ کیا جنہوں نے عوام اور مزاحمتی محور پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے وائٹ ہاؤس میں خوفناک جرم کو دیکھا تو یہ ناقابل یقین تھا، انسانیت کو ان ہولناک جرائم سے سبق سیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وینزویلا میں ایک پائیدار معیشت کی بحالی کا مشاہدہ کیا ہے، ہم پیداواری معیشت کی بحالی، یعنی حقیقی معیشت اور پورے ملک کی اجتماعی کوششوں پر مبنی مسلسل کام میں ہیں۔ اس سال، ہم نے اقتصادی جنگ کے آغاز، یعنی امریکی سامراج کی مجرمانہ پابندیوں کے بعد پہلی بار اقتصادی ترقی ریکارڈ کی ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت ہے جو پیداوار میں اضافے کو پکڑتی ہے۔ خوراک، سامان اور خدمات جیسے شعبوں میں، وینزویلا کی صنعت بڑھ رہی ہے اور ہر وہ چیز جس کا ملک کی تجارت اور گھریلو مارکیٹ پر براہ راست اثر پڑتا ہے اور اس کے لوگوں اور ان کے خاندانوں کی اقتصادی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔

وینزویلا اور فلسطین کے درمیان تعلقات

مادورو نے کہا کہ وینزویلا کی جماعتوں اور گروپ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ، ہم فلسطین کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ تعاون کے معاہدے ٹھیک چل رہے ہیں۔ ہم واقعی فلسطین کے لیے مزید کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم دنیا کے عوام اور حکمرانوں، تمام عرب حکمرانوں اور عالم اسلام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کو تنہا نہ چھوڑیں اور فلسطین ہمت اور عزم کے ساتھ عرب حکمرانوں اور عالم اسلام کی حمایت کا مستحق ہے۔

شامی حکومت کا دفاع

انہوں نے کہا کہ میں شام کو اس وقت سے اچھی طرح جانتا ہوں جب میں وزیر تھا، اور میں نے ہوگو شاویز کے ساتھ کئی بار اس ملک کا سفر کیا ہے، اور میں نے سویدا شہر دیکھا ہے، جہاں کے تمام باشندے شامی اور وینزویلا کے باشندے ہیں۔ یہاں وینزویلا میں شامیوں کی ایک بڑی کمیونٹی ہے۔ وینزویلا کے تمام شہروں میں بہت سارے لوگ ہیں، تقریباً 10 لاکھ شامی، اور ہم شام سے بہت پیار کرتے ہیں۔
 تقريب خبررسان ايجنسی
 

عراقی فتح اتحاد کے نمائندے "مختار الموسوی" نے کہا: دو عظیم شہداء شهید حاج قاسم سلیمانی و شهید ابومهدی المهندس کے خلاف امریکی جرائم کے سامنے خاموشی کی وجہ حکومت کی کمزوری ہے۔

انہوں نے مزید کہا: "عراقی عوام حکومت کی خاموشی کے باوجود اس جرم کو نہیں بھولیں گے۔"

حزب التقدم ایزدی پارٹی کے رہنما "سعید بطوش نے کہا: "عراقی علاقوں کو داعش کی غلاظت سے آزاد کرانے میں فاتح کمانڈروں کی قربانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا: "ایزدی‌ ان فاتح کمانڈروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سنجار کو داعش سے آزاد کرانے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔"

سعید بطوش نے کہا: "فتح کمانڈروں کی شہادت کی دوسری برسی کے موقع پر، اس سلسلے میں تحقیقاتی فائل کا عمل واضح ہونا چاہیے اور نتائج کا مکمل تعین ہونا چاہیے تاکہ اصل مجرموں اور غداری کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جا سکے اور انہیں سزا دی جا سکے۔" "

کل، عراقی فتح اتحاد کے سربراہ هادی العامری نے فاتح کمانڈروں، حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کی برسی کے موقع پر بڑے پیمانے پر مظاہروں کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے اعلان کیا: اگلے ہفتہ کو فتح کے کمانڈروں کی برسی ہوگی اور مظاہرے ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ بغداد اور عراق کے عوام مزاحمتی محاذ کے عظیم کمانڈروں ابومہدی المہندس اور سردار حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کے اجتماع اور یاد میں بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔

"ان شہداء کا ہماری گردنوں پر بہت بڑا حق ہے، اور اسی وجہ سے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کی یادگاری تقریبات میں پرجوش اور وسیع پیمانے پر شرکت کرنی چاہیے۔"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یوم ولادت کے موقع پر کہنا ہے کہ قائد اعظم کے افکار و تعلیمات خاص کر اتحاد‘ تنظیم اور یقین محکم جیسے فرامین پر عمل پیرا ہوکرہم اپنے مستقبل کو محفوظ بناسکتے ہیں ،ملک کی تشکیل میں تمام مکاتب و مسالک سمیت مسیحی برادری نے بھی بانی پاکستان کی اس جدوجہد میں بھرپور ساتھ دیا۔

علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ جس آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کی جدوجہد کو بانی پاکستان نے پایہ تکمیل تک پہنچایا اس کی سا لمیت اور بقا کے لئے ملک کے تمام طبقات کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہی مشاہدہ سامنے آیا ہے کہ عوامی طبقات نے تو خاطر خواہ اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ عوام نے غربت‘ افلاس‘ تنگدستی اور دیگر مسائل و مشکلات کو برداشت کیا اور وطن عزیز کی سلامتی و تحفظ کے لئے قربانیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے اس نازک مرحلے میں حکمرانوں اور ذمہ داران کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری دیانت داری سے ادا کرناہوں گی ۔

علامہ ساجد نقوی نے 25 دسمبر کرسمس کے تہوار کے موقع پر تمام مسیحی برادری کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت پاکستانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں اقلیتی برادری کو کسی بھی مرحلے پر عدم تحفظ یا امتیاز ی سلوک کا احساس نہ ہونے دیا جائے اور ہر حال میں ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ عرصہ دراز سے طبقاتی تفاوت‘ عدم مساوات اور عدل و انصاف کا فقدان چلا آرہا ہے جس کا بنیادی سبب حکمران طبقات کی غیر سنجیدہ روی سمیت اپنے فرائض منصبی کودرست انداز میں انجام نہ دینا ہے جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

آخر میں علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو داخلی طور پر مضبوط‘ مستحکم اور خوشحال بنانے کے لئے لازم ہے کہ حکمران طبقات اچھے اور بروں کی تمیز کو یقینی بنائیں تاکہ معاشرے سے بگاڑ‘ انتشار اور انارکی کا خاتمہ ہوسکے ۔ظالم و مظلوم ‘ قاتل و مقتول‘ شدت پسندوں و امن پسندوں میں فرق کئے بغیر توازن کی ظالمانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہ کر کبھی بھی ملکی سلامتی اور قومی وحدت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔