
سلیمانی
دشمن ہمیشہ اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں: ایرانی صدر
، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعہ کے روز یوم ولادت ابا عبد اللہ الحسین (ع) اور مغربی آذربائیجان کے محافظوں کے درمیان یوم پاسدار کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں مزید کہا کہ آج دشمن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا نام سن کر کے کانپتے ہیں اور اس مقدس فورس کے ساتھ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی الہی اقدار، لوگوں اور وطن کے دفاع کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے یہ تصور کیا ہے کہ ہماری افواج اور ہمارے پیارے جرنیلوں کو قتل کرکے وہ ہماری افواج اور عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کریں گے جو کہ غلط خیال ہے۔
صدر نے مزید کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، دین، قرآن، اسلامی اقدار، وطن عزیز ایران، شریف لوگوں کے دفاع میں محنتی، مستعد، موثر اور مجاہد ہے اور دفاع مقدس میں اس کا شاندار ریکارڈ ہے؛ یہ فورس نقصانات اور حادثات جیسے زلزلے، سیلاب اور مختلف شعبوں میں لوگوں کی وفاداری سے مدد کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمنوں نے کئی بار اسلامی ایران کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے اور خود اس کا اعلان کیا؛ اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے میں شکست دشمنوں کی بدستور حالت ہے۔
غاصب صیہونی حکومت سے تعلقات منقطع کئے جائیں، افریقی یونین کے رکن ملکوں کا مطالبہ
سحر نیوز/ دنیا: ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق افریقی یونین نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں میں کسی بھی خود ساختہ اور ناجائز حکومت کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہئے۔ افریقنی یونین نے اپنے رکن ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غاصب صیہونی حکومت سے اپنا ہر طرح کا رابطہ منقطع کر لیں اور اسے اقوام متحدہ کی قرارداد کا پابند بنانے کی کوشش کریں ۔ یہ مطالبہ افریقی یونین کے اجلاس سے صیہونی حکومت کے نمائندے کو نکال باہر کئے جانے کے بعد، اسرائیل کی جانب سے ردعمل کا اظہار کئے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔
افریقی یونین کے اجلاس میں صیہونی حکومت کا ایک وفد نہایت خفیہ طور پر شامل ہوا تھا جس کا پتہ لگنے پر اسے اجلاس سے نکال دیا گیا تھا۔ افریقی ملکوں نے اپنے سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کا کھلا اعلان کیا گیا اور صیہونی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کئے جانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
امام حسین علیہ السلام صفات الہیہ کا مظہر
مقدمہ
اس سے پہلے کہ اصلی موضوع کے متعلق گفتگو کریں اور شخصیت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے سلسلے میں مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں پیش کرتے ہیں:
۱: یہ بات متفق علیہ ہے کہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی علیہ السلام تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الٰہیہ ہیں اور نور محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے ائمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔
۲: بعض ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ جو دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا ائمہ میں سے بعض کے کچھ فضائل و کمالات ظاہر ہوئے اور بعض کے کچھ دوسرے فضائل و کمالات ۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی کہ آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجہ میں چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔دنیا میں اسلام کی واقعی پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج عطا کیا۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام موسس تشیع اور مجدد اسلام ہیں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی ائمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو اس کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے یا امام حسن علیہ السلام تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا قیام پہلے مرحلے پر حسنی ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات
۱: پروردگار عالم نے امام حسین علیہ السلام کےلیے ایک خصوصی حساب و کتاب رکھا ہے جو کسی نبی یا معصوم کے لیے نہیں رکھا۔
کیوں اور کیسے امام حسین علیہ السلام نے اتنا بڑاانعام جیتا ہے؟ اس کا جواب آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک آزاد مردکے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین علیہ السلام سلسلے میں نقل کرتے ہیں:
ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:
"امام حسین علیہ السلام نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔امام حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔
امریکہ کےمشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتے ہیں:
"امام حسین علیہ السلام کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین علیہ السلام نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین علیہ السلام"۔
۲:امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت " فما بکت علیھم السماء وا لارض " کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:
بکت السماء علی الحسین علیہ السلام اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔
۳: امام حسین علیہ السلام تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ کیوں آپ کی کنیت ابا عبدا للہ ہے ۔ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔
ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی رول ہوتا ہے۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ پس امام حسین علیہ السلام بھی تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادتگذار انسانی کمالات حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ وہ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔
۴: امام حسین علیہ السلام کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین علیہ السلام کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوکہ امام حسین علیہ السلام کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کا روضہ زائرین سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔( نقل از آیت اللہ مرعشی نجفی)
کیا امام حسین علیہ السلام کی زیارت خانہ خدا کی زیارت کے برابر ہے؟
یا یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے؟۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت اور اس کا احترام جناب ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں تو آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین علیہم السلام کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔
۵: امام حسین علیہ السلام اپنے والد بزرگوارمولاے متقیان علیہ السلام کی طرح رات کی تاریکی میں اپنے دوش پر اناج کر فقراء کے گھروں تک پہنچاتے تھے۔ حتیٰ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی پشت پر کچھ ایسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نیزہ کے بلکہ اناج کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے یہ زخم پڑے تھے۔ لہذا جب امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا گیا فرمایا: یہ زخم فقراء اور مساکین کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہیں۔ اس حدیث کو دوسروں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں۔
امام حسین علیہ السلام اور دینی حکومت
الٰہی نمائندوں اورآسمانی راہنماؤں نےاپنی آخری سانسوں تک دینی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اورظلم و ستم سے بشریت کو نجات دلانے کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں ۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامی حکومت استعماری حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ حکام نے اسلامی خلیفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا لیا۔
سماج میں نسل پرستی شروع ہوگئی حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کو تمام اسلامی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جانے لگا۔ شعیوں پر زندگی نہات تنگ کر دی گئی۔ علی علیہ السلام اور ان کے خاندان سے محبت عظیم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شیعوں کی محرومیت کا سبب بن گیا۔ معاویہ اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچائی گئی۔
بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ کیوں امام حسین علیہ السلام نے زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور حکومت وقوت کے ساتھ صلح نہیں کی؟
مگر چین و سکون کی زندگی کیاہے؟ چین وسکون کی زندگی الٰہی رہبروں کے نزدیک یہ ہے کہ معاشرہ چین و سکون سے زندگی گذارے۔ لوگ اپنی زندگی پر راضی ہوں، آزادی ہو ظلم وستم نہ ہو،قوم پرستی اور نسلی تعصب نہ پایا جاتا ہو۔
امام حسین علیہ السلام اس وقت آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں جب لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوتے اور لوگ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے، نہ یہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور وہ تنگ ماحول میں زندگی گذار رہے ہوں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کی زندگی بسر کر رہا ہو اور خوشیوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ایک لقمہ نان کے لیے ترس رہا ہو۔
حسین علیہ السلام اس علی (ع) کا بیٹا ہیں جنہیں ہمیشہ بے کسوں اور بے بسوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے میں کوشاں رہتےتھے۔ راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر اٹھاتے اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتے تھے اور کبھی بھی ایک ساتھ دوقسم کی غذا تناول نہیں کرتے تھےاور فرماتے تھے: میں کیسے نیا لباس پہنوں اور پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں حالانکہ ممکن ہے اسلامی ممالک میں کوئی بھوکا اور برہنہ ہو۔
امام حسین علیہ السلام اور آزادی
حریت اور آزادی ہر نظام کی بقاء کے لیے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے۔قوموں کو آزادی دلاناپیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف رہا ہے۔ وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلائیں۔ انسانی سماج کو سپر پاور اور ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائیں۔ آزادی ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے حتیٰ حیوانات اور دیگر موجودات بھی آزادی کو دوست رکھتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام دنیائے اسلام پر ایک گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار سنبھالنے اور دین اسلام کا کھلواڑ بنانے سے اسلام کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔ اسلامی احکام اور قوانین، انحراف کا شکار ہو گئے ہیں شیعہ جو اسلام کے واقعی ماننے والے تھے محرومیت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
اس حالت کودیکھ کر فرزند علی علیہ السلام جگر گوشہ بتول علیہا السلام اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتےکہ خاموشی سے بیٹھ جائیں اور تماشہ دیکھتے رہیں۔ وہ علی علیہ السلام کا لال ہے اسے میدان میں نکلنا پڑے گا اور طاغوت اور یزدیت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا پڑے گا۔
آپ بار بار یہ کہتے ہوئے جارے رہے تھے: اذا بلیت الامۃ علی مثل یزید بن معاویہ فعلی الاسلام السلام۔ یعنی جب بھی اسلامی امت یزید جیسے ملعون کے ہاتھوں گرفتار ہو گی تو اس وقت اس اسلام پر فاتحہ پڑھنی پڑے گی۔ لہذا امام حسین علیہ السلام نے امت اسلامیہ کی آزادی کی خاطرقیام کر کے ایک عظیم انقلاب رونما کر دیا۔
امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب
شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے، ان کا کہنا ہے : میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا کہ طوس کا رہنے والا ایک آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، تو خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اس کی شفاعت کو ستر(۷۰) گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس انسان جو حاجت بھی طلب کرے گا خدا اسے بھر لائے گا۔(امالي صدق، ص 684، ح 11، مجلس 86).
امام حسین علیہ السلام کی عفو و گذشت
بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا امام حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پہ نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کنہ تھا وہ ابھر آیا میں نے ان سے کہا: پس ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اوران کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔امام حسین علیہ السلام نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
" آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پنا لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور فورا آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔( سورہ اعراف، ۱۹۹،۲۰۲ )
ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا:
تھوڑا آہستہ آہستہ اوراپنے حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو تو رہنمائی کرتاہوں ۔
عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور امام نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا:
کوئی اشکال اور عیب نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔( سورہ یوسف ۹۲)
اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اسکے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہیے ہے مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا توہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے والا پاؤ گے۔
عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے امام سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روۓ زمین پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا ۔(سفينة البحار، ج 2، ص 116)
ایک سائل کے ساتھ امام کی رفتار
شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب " تحف العقول" نقل کرتے ہیں :
انصار کا ایک آدمی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سےاپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امام نے اس سے فرمایا:
اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو انشا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔
اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کےپانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے اتنی مہلت دے جب تک میں آمادہ کرتا۔
جب امام حسین علیہ السلام نے اس کے نوشتہ کو پڑھا فورا گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا:
پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو ان تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا جن کو میں پہچنوا رہا ہوں:
۱: متدین اور دیندار، ۲: سخی اور اہل کرامت، ۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔( تحف العقول ، ص 245)
امام حسین (ع)کا تواضع اور انکساری
روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن امام علیہ السلام کے پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپ نے فرمایا: هذا مما كان ينقل الجراب علي ظهره إلي مناز الأرامل و اليتامي و المساكين یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔( مناقب ابن شهر آشوب، ج4، ص 66).
امام حسین علیہ السلام کا احسان
انس کہتے ہیں: میں امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا گلدستہ امام کو ہدیہ دیا۔ امام نے فرمایا:
تم راہ خدا میں آزاد ہو۔
عرض کیا: اس نے آپ کے لئے پھولوں کا ایک گلددستہ لایا ہےکہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپ اس کو آزاد کر دیں۔ امام نے فرمایا:
خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سکھایا ہے۔ اور قرآن میں فرمایا: و إذا حُييتُم بِتَحِية فَحَيوا بِأَحسَن مِنها أو رُدُّوها." ( نساء/86 جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور
اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔(كشف الغمة، ج 2، ص 31.)
بقلم :سید افتخار علی جعفری
source : www.islamquest.net
اسلامی جمہوریہ نے لبرل ڈیموکریسی کے عزائم کو ناکام کر دیا، رہبر انقلاب اسلامی
،مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) کے سربراہ اور اراکین نے جمعرات کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں ماہ شعبان کی آمد اور اس مہینے کے مبارک ایام کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، ماہرین اسمبلی کو جمہوریت اور اسلامیت کے اکٹھا ہونے کا حقیقی مظہر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اسمبلی، جمہوریت کے صحیح اور مکمل طور پر عملی جامہ پہننے کے سائے میں، عوام کی منتخب اسمبلی ہے اور ساتھ ہی یہ علمائے دین پر مشتمل ہے اور نظام کی دینی ماہیت کی عکاسی کرتی ہے۔
انھوں نے ماہرین اسمبلی کی پوزیشن، اہمیت اور حساسیت کو نظام کے کسی بھی مرکز اور ادارے سے زیادہ بتایا اور کہا کہ یہ اسمبلی، رہبر انقلاب کا تعین کرنے والی بھی ہے اور اپنی نگرانیوں کے ذریعے قیادت کی موجودگی اور اس کی شرائط کے جاری رہنے کو یقینی بناتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امور مملکت پر ماہرین اسمبلی کی نگرانی کو، اعلی اسلامی قیادت کی خواہش اور ایک صحیح کام بتایا اور کہا کہ سارے مسائل سے زیادہ اہم، ماہرین اسمبلی کے ارکان کے ادارے کے اندر اور باہر کی ذمہ داریوں پر سنجیدگي سے عمل ہے۔
انھوں نے رہبر انقلاب کی شرائط کے تحفظ اور آئين میں درج رہبر کی ذمہ داریوں اور دیگر حتمی فریضوں کی نگرانی کو بہت اہم بتایا اور کہا کہ قیادت کی سب سے اہم ذمہ داری، انقلاب کی صحیح سمت میں ملک اور نظام کے اہم حصوں کو آگے لے جانا ہے تاکہ اصل راستے سے انحراف پیدا نہ ہونے پائے اور اسلامی انقلاب، دوسرے انقلابوں کی طرح راستے سے نہ ہٹ جائے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ماہرین اسمبلی سے دشمنی کو، اسلامی جمہوریہ سے دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے کچھ دشمنی، سیاسی مسائل اور فلسطین جیسے معاملات میں اس کے موقف کی وجہ سے ہے لیکن کچھ دشمنیاں، خود نظام اور اس کے ڈھانچے سے ہیں۔
انھوں نے ایران کے اسلامی نظام سے دشمنی کی وجہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ان افراد کے مقابلے میں ڈٹ گئی جو مغربی جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں اور سماجی مسائل میں دین کی ہر قسم کی دخل اندازی کے خلاف ہیں، اسی طرح یہ نظام لبرل ڈیموکریسی کے سرغناوؤں کے سامنے بھی ڈٹ گيا جنھوں نے آزادی اور جمہوریت کے جھوٹے پرچم کے سائے میں دنیا پر قبضے اور اس کے وسائل کو لوٹنے کی سازش تیار کر رکھی ہے، اسلامی جمہوری نظام نے، دین کے ساتھ، جمہوریت اور آزادی کو اکٹھا کر کے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ماہرین اسمبلی کے ارکان کی دوسری خصوصیت، ان کا عالم دین ہونا ہے اور اسلامی جمہوریہ کی مضبوط عوامی بنیاد اور عوام و نظام کا ایک دوسرے سے مضبوط رشتہ اور ایک دوسرے پر بھروسہ، ایسا قومی سرمایہ اور دنیا میں ایسی ناقابل انکار اور بے نظیر یا کم نظیر حقیقت ہے جس کی جھلکیاں ہم نے کورونا کی وبا کے ایام میں اور قدرتی آفات کے وقت امداد میں عوامی شرکت میں دیکھی ہیں۔
انھوں نے اس سال 22 بہمن مطابق 11 فروری کے جلوسوں کو، اسلامی جمہوری نظام کی مضبوط عوامی بنیادوں کی ایک اور جھلک بتایا اور کہا کہ دنیا میں ایک سیاسی بات کے لیے کہاں پر اس طرح کا عظیم الشان عوامی اجتماع دکھائي دیتا ہے جس میں عوام اتنی کثرت سے اور رجحانوں اور آبادی کے اتنے تنوع کے ساتھ، کمر خمیدہ ضعیفوں سے لے کر بچوں اور نوجوانوں تک چالیس پینتالیس سال سے لگاتار ہر برس اور موسم کی سختیوں کے باوجود، ہر سال میدان میں آتے ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ عوامی شرکت نے، ہم عہدیداران اور علماء پر حجت تمام کر دی ہے اور اس قومی سرمائے پر صرف فخر کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سرمائے کی لگاتار حفاظت کرنی ہے، اس میں اضافہ کرنا ہے اور اس سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کرنا ہے۔
انھوں نے عوامی موجودگي اور مضبوط عوامی بنیاد کی بے پناہ اور خطروں کو دور کرنے والی دولت کو نظام کے لیے حیاتی بتایا اور کہا کہ علماء پر، چاہے ان کے پاس سرکاری عہدہ ہو یا نہ ہو، اس عظیم سرمائے کی حفاظت کے لیے بھاری ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے اہم 'تشریح کا جہاد' ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عوام میں امید پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی دائمی پالیسی، مایوسی پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے 1990 میں ایک سیاسی گروہ کی جانب سے ملک کے ایک اعلی رتبہ عہدیدار کو لکھے گئے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے ایک سال بعد اس گروہ نے پوری طرح مایوسی پھیلانے والے کھلے خط میں لکھا تھا کہ ملک اور قوم تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو لوگ خود اور ان کی شخصیت تباہی اور بربادی کے دہانے پر ہے، وہ ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں، جن کے دل اور ذہن امید سے لبریز ہوتے ہیں وہ مسائل اور حالات کو امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اس ملاقات کی ابتدا میں، ماہرین اسمبلی کے نائب سربراہ حجت الاسلام سید ابراہیم رئيسی نے کونسل کے گيارہویں اجلاس کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔
حجاب کی عادت
میری بیٹی بالغ ہو چکی ہے، اسے کس طرح حجاب کا عادی بناؤں؟
حجاب انسانیت کی قبول کردہ اقدار میں سے ایک ہے جو اکثر معاشروں میں رائج ہے۔
چند نکات
حجاب سے متعلق والدین کے لیے کچھ نکات مندرجہ ذیل ہیں:
تربیتی عمل کی رعایت کرنی چاہیے (تربیت ایک نا ہموار سڑک کی طرح ہے کہ جس پر تیز رفتاری سے ڈرائیونگ نہیں کی جا سکتی اور بعض اوقات خطرناک موڑ پر آہستہ رفتار کی ضرورت ہوتی ہے)
والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے ایک بہترین رول ماڈل بنیں
آپ کی بیٹی کی صحبت ان ہم سن سہیلیوں کے ساتھ ہو جو حجاب کی رعایت کرتی ہوں
اپنی بیٹی کو پردہ کرنے کی تشویق کریں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے اختیار کے ساتھ حجاب کی رعایت کرے اور زور زبردستی سے کام نہ لیں
حجاب کی ضرورت و اہمیت کو واضع کریں اور منطقی دلائل سے وضاحت کریں جس کا سمجھنا اس کے لیے آسان ہو
والدین کے لیے کچھ ضروری ہدایات
منطقی رویہ*
حجاب کا خیال نہ رکھنے والی خواتین سے ہمارا رویہ منطقی ہونا چاہیے۔ مثلا یہ نہ کہیں کہ کتنی خراب عورت ہے بلکہ یہ کہیں کہ کتنا برا کام انجام دے رہی ہے۔
حجاب کی رعایت*
خود والدہ حجاب کی رعایت کرے اور با حجاب خواتین سے مہربانی سے پیش آئے۔
سوشل میڈیا کی مدیریت*
سوشل میڈیا ایک بہت ہی برا رول ماڈل ہے۔ ہمیں عقل مندی کے ساتھ اس کی مدیریت کرنی چاہیے۔
سخت رویے سے گریز*
ایسا کام نہ کریں جس سے ہمارے بچے چادر سے بد ظن ہو جائیں۔
معنوی ماحول سے تعلق*
معنوی ماحول سے اپنا تعلق قائم رکھیں۔ حیا اور حجاب کی رعایت کے لیے اہل بیت ؑ کی سیرت اپنے بچوں سے بیان کریں۔
آئیڈیل خواتین کا تذکرہ*
اپنی بیٹی کے سامنے تاریخی کامیاب خواتین کا ذکر کریں جو حجاب کی رعایت کرتی تھیں کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کی بیٹی ان کامیاب خواتین کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دے
شیعہ سنی اتحاد، دشمنوں کی آنکھوں کا کانٹا ہے
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شمالی خراسان میں ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام والمسلمین رضا نوری نے آج سنی علماء اور شمالی خراسان کے عدالتی نظام کے درمیان ہونے والے معاہدے کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ اور سنی اتحاد دشمنوں کی سازشوں کو بے اثر کر دے گا۔
انہوں نے مزید کہا: دشمن شیعہ اور سنی کے درمیان اس اتحاد اور ہم آہنگی سے خوفزدہ ہے، اسی لیے وہ اس اتحاد کو ہر ممکن طریقے سے تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ معاشرے میں اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین نوری نے مزید کہا: دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنا لازم اور ضروری ہے۔ کیونکہ شیعہ اور سنی بھائیوں کے درمیان یہ اتحاد و یکجہتی دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور انہیں اپنے تفرقہ انگیز مقاصد حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
انہوں نے شیعہ اور سنی علماء کو پیغام دیتے ہوئے مزید کہا: شیعہ اور سنی علماء کو معاشرے کے نمونے کے طور پر دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنا چاہئے اور انہیں شیعہ اور سنی برادری میں تفرقہ پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین نوری نے بیان کیا: آج ہم ایسے حالات میں ہیں کہ عالمی تسلط اور استکباری نظام انسانی حقوق کے بہانے آئے روز ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور بظاہر دوستانہ طریقے سے پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آج دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کی عظیم قوم پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہے ہیں، وہ ایرانی قوم کو ہر قسم کی پابندیوں کے ذریعے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیل میں تشویش، حماس اور حزب اللہ کے نام تل ابیب کا نیا پیغام
مقبوضہ فلسطین کے بعض میڈیا چینلز صیہونی حکومت کی کابینہ کی خبریں نشر کر رہے ہیں جو کہ بنیامن نتن یاہو کی کابینہ کے سیاسی تحفظ کے حوالے سے تشویش اور بے چینی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اپنے متنازعہ اقدامات اور پالیسیوں سے داخلی اور غیر ملکی مخالفت اور احتجاج کو بھڑکانے والی نتن یاہو کی نئی کابینہ ’غیر ملکی دشمن‘ جیسے مسائل اٹھا کر اندرونی انتشار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے ٹیلی ویژن چینل- 12 نے منگل کی شب کابینہ کے مسلسل اجلاسوں کے بارے میں بتایا تاکہ اس حکومت بالخصوص اس کی فوج کی تیاری کی سطح میں اضافہ کیا جائے۔
چینل-12 نے اطلاع دی ہے کہ نتن یاہو نے اب تک پانچ خفیہ ملاقاتیں کی ہیں اور ان ملاقاتوں کا نتیجہ، جس کی اطلاع امریکہ اور فرانس کو بھی دی گئی، اسرائیل میں آمادگی اور ہائی الرٹ کی سطح میں اضافہ تھا۔
ان ملاقاتوں میں حکومت کے عسکری اور سیکورٹی (انٹیلی جنس) سربراہان بشمول وزیر انٹیلی جنس یوو گیلنٹ، چیف آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ہرتسی ہیلیوی، موساد کے چیف داؤد برنیا، قومی سلامتی کے مشیر زاہی ہینگبی اور متعدد دیگر افراد نے شرکت کی۔
ان ملاقاتوں میں ملٹری انٹیلی جنس برانچ اور آپریشنز برانچ کے سربراہ اور آپریشنل لیول کے کمانڈر فوجیوں نے بھی شرکت کی۔
صیہونی ٹیلی ویژن نے دعویٰ کیا کہ یہ ملاقاتیں ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے اسرائیل کی آمادگی کی سطح کو بڑھانے کرنے کے لیے ہیں کیونکہ یورینیم کو 90 فیصد تک افزودہ کرنا، تل ابیب کی ڈیڈ لائن ہے اور آنے والے مہینے "حساس اور پیچیدہ" ہیں اور اسرائیل ان سارے امکانات کے لئے تیار ہو رہا ہے۔
بغداد اور تہران کے تعلقات تمام شعبوں میں انتہائی مضبوط اور مستحکم ہیں
سحر نیوز/ ایران: اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ نے عراقی صدر سے ملاقات کی ہونے والی ملاقات میں عراقی صدر نے ایران کا دورہ کرنے کے لئے صدر رئیسی کی دعوت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بغداد اور تہران کے تعلقات تمام شعبوں میں انتہائی مضبوط اور مستحکم ہیں ۔ ایرانی وزیرخارجہ نے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تہران اور بغداد کے تعلقات صرف حکومتی سطح پر مثالی نہیں ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے گہرے رشتوں نے تمام شعبوں میں تعلقات کو غیر معمولی بنادیا ہے۔
اس سے پہلے ایرانی وزیرخارجہ امیر عبداللہیان نے اپنے عراقی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سفارتی طریقے سے مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے اور ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے ایک جامع اور اچھے اتفاق رائے تک پہنچنےکے لئے سنجیدہ گفتگو کے لئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عراقی حکومت نے ایران مخالف ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کے سلسلے میں مثبت اور تعمیری اقدامات انجام دیئےہیں - انہوں نے کہا کہ ایران آج بھی اپنے ریڈلائن کو مدنظر رکھتے ہوئے مذآکرات کے لئے تیار ہے لیکن امریکی حکام کی طرف سے متضاد بیانات اور پیغامات موصول ہورہے ہیں ۔
خاتون ایرانی سکی کھیلاڑی نے عالمی مقابلوں میں تاریخ رقم کرلی
عالمی چیمپئن شپ کے کراس کنٹری سکی مقابلے کا ابتدائی مرحلہ آج خواتین کے حصے میں منعقد ہوا اور اولمپک کا کوٹہ حاصل کرنے والی ایرانی خاتون "سمانہ بیرامی باہر" آٹھویں نمبر پر رہی اور فائنل میں پہنچ گئی۔
ایرانی اسکیئنگ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ خواتین کے حصے میں کوئی کیھلاڑی عالمی چیمپئن شپ کے فائنل میں حصہ لے جائے گی۔
ایران نے فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کیلئے فوری بین الاقوامی اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا
ارنا رپورٹ کے مطابق، ناصر کنعانی نے آج بروز بدھ کو مغربی کنارے کے شہر نابلس پر قابض صہیونی افواج کے آج کے وحشیانہ اور دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی جس کے نتیجے میں درجنوں نہتے فلسطینی شہید اور زخمی ہوگئے۔
انہوں نے صہیونی غاصب ریاست اور اس کی نسل پرست اور انتہا پسند کابینہ کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے اور اس کی مذمت کے لیے عالمی برادری سے فوری اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
کنعانی نے مغربی کنارے میں گذشتہ چند مہینوں کے دوران صیہونیوں کی مجرمانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے تسلسل اور اس میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے، جن میں نابلس اور جنین کے علاقوں پر حملے، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل اور فلسطینیوں کے گھروں کی تباہی شامل ہے، کہا کہ اس خطرناک عمل کے جاری رہنے، جو ذمہ دار بین الاقوامی اداروں اور مغرب میں انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کی خاموشی اور بے حسی کے سائے میں ہوتا ہے، ناقابل برداشت اور ان کے لیے باعث شرم ہے۔
انہوں نے اور یروشلم، جنین، نابلس اور مقبوضہ فلسطین کے تمام علاقوں میں عوام اور خصوصا فلسطینی نوجوانوں کی بہادرانہ مزاحمت کو سراہتے ہوئے فلسطینی قوم کی حمایت اور صیہونی نسل پرست ریاست کے انسانیت سوز اور دہشت گردانہ اقدامات کے خلاف، اسلامی حکومتوں کے درمیان اتحاد اور ان کیجانب سے مربوط اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔