عقیدہ قیامت کا اثبات قرآن کی روشنی میں

Rate this item
(0 votes)
عقیدہ قیامت کا اثبات قرآن کی روشنی میں

جو شخص موضوع قیامت پر گفتگو کرنا چاہے ،تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مر حلے میں ”قیامت“ کو غیر تفصیلی طور سے ثابت کرے تاکہ اس کی ضرورت اور اس کے یقینی ہونے پرعقیدہ رکھے ،نیز اس ضرورت اور یقینی ہونے کے اسباب کو تلاش کرے اور اس کی ضرورت پر دینی دلائل قائم کرےاور جب اس ضرورت(معاد) کو انسان دلیل و برہان سے ثابت کر لیتاہے تو ایک دوسری بحث کا آغاز ہوتا ہےکہ اس معاد کی جزئیات کیا کیا ہیں، کیونکہ ضرورت معاد وہ بنیادی مسئلہ ہے کہ جس کے بغیر جزئیات معاد کے بارے میں بحث کرنا فضول ہے۔
کیونکہ انسان کسی ٹھوس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا مگر یہ کہ تدریجی طور پر اس طرح کہ بعد والا مرحلہ پہلے والے مرحلے سے مر تبط ہو اور ان کے درمیان ایک مستحکم رابطہ ہو جس کے ذریعہ حقائق سے پردہ اٹھ جائے اور حقیقت واضح ہوجائے :
۱۔کیا خدا وند عالم امر و نہی کرتا ہے؟
ہمارے لحاظ سے ہر عقل مند انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا وند عالم نے امر و نہی کیا ہے ،کیونکہ انہیں اوامر نواہی کے عظیم مجموعہ کو شریعت اسلام کہا جاتاہے اور اگر ہم قرآن مجید پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بات کی دلیل آسانی سے مل سکتی ہے: جیسا کہ ارشاد خدا وند عالم ہوتا ہے:
اَقِیْمُوْالصَّلوٰةَ وَاٴَتُوا الزَّکٰاةَ
نماز قائم کرو اور زکوةادا کرو۔
البقرہ ،24
کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَام کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ
جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیےگئےہیں ۔
البقرہ ،183
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ
اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں۔
آل عمران،97
وَاعْلَمُوْااَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ
اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے۔
الانفال،41
جَاھِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِھَادِہِ
جیسا جہاد کرنے کا حق ہے خدا کی راہ میں جہاد کرو ۔
الحج،78
اَحَلَّ اللهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَوٰا
خرید وفروخت کو خدا نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا۔
البقرہ ،275
اٴنَّ اللهَ یَاٴمُرُ بِا لْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَاٴِیْتَا یٴِ ذِی الْقُربٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ
اس میں شک نہیں کہ خدا انصا ف اور(لوگوں کے ساتھ)نیکی کرنے اور قرابت داروں کو (کچھ)دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکتوں اور سر کشی کرنے سے منع کرتا ہے۔
النحل،90
اٴجْتَنِبُوْا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ لاَ تَجَسَّسُواولاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً
بہت زیادہ گمان (بدگمانی )سے بچے رہو،ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اورتم میں بعض دوسرے بعض کی غیبت نہ کریں۔
الحجرات،12
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکِذْبَ الَّذِیْنَ لَا یُوٴْ مِنُوْنَ بِاٴَیٰاتِ اللهِ
بہتان تو بس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔
النحل،105
وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ
ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔
المطففین،01
ان کے علاوہ اور دیگر آیات کریمہ ہیں جن میں خدا وندا عالم کی طرف سے امر و نہی بیان ہوئے ہیں۔لہٰذااس وقت ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خدا وند عالم نے امر و نہی کیا ہے ۔
۲۔کیا یہ اوامر و نواہی الزامی ہوتے ہیں یا ارشادی؟
یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیلی طور پر ثابت ہو چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز وجوب پر دلالت کرے اور وجوب میں ظاہر بھی ہو اگر مستحب پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی ہو، اس کو امر کہا جاتا ہے،اورحکم عقل کے ذریعہ اس کا وجوب ہوتا ہے کیونکہ عبد پر مولا کے حکم کی اطاعت کرنا ضروری ہے اور مولا جس کام کا ارادہ کرلے اس کو انجام دینے کے لئے حرکت کرنا ضروری ہے تاکہ عبودیت و مالکیت کا حق ادا ہو سکے۔
نہی بھی الزام پر دلالت کر نے میں امر کی طرح ہوتی ہے اور حرمت میں ظاہر ہوتی ہے اور جب صیغہ نہی کسی ایسے شخص سے صادر ہو جس کی اطاعت واجب ہے تو اس مولیٰ کی وجوب اطاعت ،و حرمت نا فرمانی عقلی طور پر ثابت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ جس کام سے مولیٰ منع فرمائے اس کو انجام دینا جائز نہیں ہے،اور کیونکر مذکورہ مطلب صحیح نہ ہو ، جبکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:
مَا اٴتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَا کُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا
جو تم کو رسول دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔
الحشر،07
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اٴمْرِہِ اٴنْ تُصِیْبَہم فِتْنَةٌ اٴوْ یُصِیْبَہم عَذَابٌ اَلِیْمٌ
جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ(مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب نازل ہو۔
النور،63
پس ان تما م چیزوں سے ثابت یہ ہوا کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواہی مکمل طور پر الزامی (ضروری)ہوتے ہیں ،اور اس میں کسی کو کوئی اختیار و رخصت نہیں ہے۔
۳۔اگر کوئی ان اوامر و نواہی کی مخالفت کرے تو؟
جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ خدا وند عالم نے امر ونہی کیا ہے اور ان اوامر و نواہی پر عمل کرنا ضروری ہے نیز ان کی مخالفت جائز نہیں ہے تو کیا اگر کوئی انسان خدا کے امر و نہی کی مخالفت کرے تو کیا اس پر عقوبت و عذاب (مادی معنی میں)ہونا چاہئے یا نہیں ؟یا ان کی مخالفت پر معنوی آثار مرتب ہوں گے؟اس سوال کے جواب میں ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم چند قرآنی آیات کا مطالعہ کریں تاکہ خدا وند عالم کی مخالفت کا نتیجہ معلوم ہو سکے۔ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
وَمَنْ یَزِغْ مِنْہم عَنْ اٴمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ
اور ان میں سے جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم (قیامت میں)جہنم کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
سباء،12
قُلْ اِنِّی اٴخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
(اے رسول)تم کہو کہ اگر میں نافرمانی کروں تو بیشک ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
الانعام،15
وَکَاٴَ یِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اٴمْرِ رَبِّھَا وَ رُسُلِہِ فَحَاسَبْنَاھَا حِسَاباً شَدِیْداً وَعَذَّبْنَاہَاعَذَاباً نُکْراً
اور بہت سے بستیوں (والے)نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سر کشی کی تو ہم نے ان کا بڑی سختی سے حساب لیا اور انہیں بُرے عذاب کی سزا دی۔
الطلاق،08
ماَ سَئَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ
آخر تمہیں دوزخ میں کون سی چیز (گھسیٹ )لائی وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھا کرتے تھے۔
المدثر،42
فَوَیْلٌ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ َیوْمٍ اَلِیْمٍ
جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر درد ناک عذاب سے افسوس ہے۔
الزخرف،65
پس مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خدا وند عالم کے اوامر و نواہی جس کو شریعت اسلام کہا جاتا ہےکی مخالفت پر (ابدی)عذاب ہوتا ہے۔
۴۔کیا خدا وند عالم کے وعدووعید حقیقی ہیں یا صرف لوگوں کو اطاعت پر تحریک کرنے کے لئے ؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا وند کریم کا قرآن مجیدمیں بار با ر اس بات کا ذکر کرنا کہ انسان کو مرنے کے بعد قیامت میں اٹھا یا جائے گا اور اچھے اعمال کرنے والوں کو بہشت میں اور برے اعمال کرنے والوں کو جہنم میں بھیجا جائے گا،یہ وعد و وعید صرف لوگوں کی ترغیب اور تحریک کے لئے ہیں ۔تاکہ لوگ خدا کی اطاعت کریں اور اس کی نا فرمانی نہ کریں جب کہ در حقیقت ان میں کوئی انعام یا عذاب نہیں ہے گویا اس قول کا کہنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ مادی جسم چونکہ موت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور اس کا دوبارہ اپنی حالت پر پلٹنا محال ہے کیونکہ جو چیز ختم ہو جاتی ہے دوبارہ واپس نہیں پلٹ سکتی ۔لہٰذامادی معنی کے لحاظ سے انعام و جزا اور عذاب کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ گویا یہ وعدہ وعید صرف ایک (دھمکی) ہوتی ہے جس میں حقیقت کچھ نہیں ہوتی۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں(اور خدا وند عالم نے قرآن کریم کو عر بی زبان میں واضح طور پر نازل کیا ہے)اور ہم عربی زبان کو جانتے ہیں اور اس کے مورد استعمال نیز اس کے الفاظ کی دلالت سے بھی با خبر ہیں ۔چنانچہ ہم کوئی ایسا جواز نہیں پاتے جس سے الفاظ کو اس کے ظاہر کے خلاف حمل کریں حالانکہ خلاف ظاہر پر دلالت کرنے والے قرینہ سے خالی ہو۔اور جب قرآن مجید میں استعمال شدہ الفاظ کے ذریعہ کسی کو مخاطب کیا گیا ہو اور اس میں کوئی ایسا قرینہ بھی نہ ہو جس سے اس کی تاویل کی جاسکے تو پھر اس کو اس کے حقیقی معنی میں ہی استعمال کیا جائے گا ،اور ہم یں ذرہ برابر بھی اس کو مجاز ،مبالغہ اور جھوٹے وعدوں پر حمل کرنے کا حق نہیں ہے۔
قارئین کرام ! ہم آپ کے سامنے ایسی آیات قرآنی کو بیان کریں گے جن میں حشر و نشر اور قیامت پر واضح طور پر تائید کی گئی ہے اور ایسی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تاویل اور تقیید کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اور جن میں ذرہ برابر بھی ہیرا پھیری نہیں کی جاسکتی۔چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے:
کَمَا بَدَاٴ نَا اٴوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اٴنَّا کُنّاَ فَاعِلِیْنَ
جس طرح ہم نے (مخلوقات کو)پہلی بار پید ا کیا تھا (اسی طرح)دوبارہ (پیدا )کر چھوڑیں گے(یہ وہ)وعدہ (ہے جس کا کرنا)ہم پر (لازم)ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔
الانبیاء،104
جَعَلَ لَہم اَجْلاً لاَرَیْبَ فِیِہِ
اس نے ان(کے موت)کی ایک میعاد مقرر کر دی ہے جس میں ذرا بھی شک نہیں ۔
الاسراء،99
وَحَشَرْ نَا ہم فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہم اَحْدًا
اور ہم ان سبھوں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے۔
الکہف،47
وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَری الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفَقِیْنَ مِمّاَ فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً اٴِلَّا اٴحْصَاھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حاَضِرًا وَ لاَ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا
اور(لوگوں کے اعمال کی)کتاب (سامنے رکھی جائے گی)تو تم گناہگار وں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا)ہے (دیکھ دیکھ کر)سہم ے ہوئے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ہائے ہماری شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹے ہی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ہے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیامیں) کیا تھا وہ سب (لکھاہوا)موجود پائیں گے اور تیرا پرور دگار کسی پر (ذرہ برابر)ظلم نہیں کرے گا۔
الکہف،49
ثُمَّ اٴِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰ لِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اٴنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُوْنَ
پھراس کے بعد یقیناً تم سب لوگوں کو( ایک نہ ایک دن) مرنا ہے اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاوٴگے۔
المومنون،16
اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَاٴنَّکُمْ اٴلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْن
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یونہی ) بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم ہم ارے حضور لوٹا کر نہیں لائے جاوٴگے۔
المومون،115
رَبَّنَا اٴنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیْہَ اٴنَّ اللهَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
اے ہمارے پروردگار بیشک تو ایک نہ ایک دن جس کے آنے میں شبہ نہیں لوگوں کو اکٹھا کرے گا(تو ہم پر نظر عنایت رہے)بیشک خدا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
آل عمران،09
یَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْاٴنْسِ اٴلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ آیَاتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا شَھِدْنَا عَلٰی اٴنْفُسِنَا وَغَرَّتْہم الْحَیَاةُ الدُّنْیَا
(پھر ہم پوچھیں گے) کہ کیوں اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پا س تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے جو تم سے ہماری آیتیں بیان کریں اور تمہیں تمہارے اس روز (قیامت)کے پیش آنے سے ڈرائیں، وہ سب عرض کریں گے(بیشک آئے تھے)ہم خود اپنے اوپر آپ اپنے (خلاف) گواہی دیتے ہیں (واقعی)ان کو دنیا کی(چند روزہ)زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا۔
الانعام،130
إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتاً
بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے۔
النباء،17
ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَاِلٰی رَبِّہِ مَآبَا
وہ دن بر حق ہے تو جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی بارگاہ (اپنا) ٹھکانا بنائے۔
النباء،39
وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَھُوَ اٴعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اور جس شخص نے جیسا کیا ہو اسے اس کا پوراپورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ اس سے خوب واقف ہے۔
الزمر،70
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالاَ تَاٴ تِیْنَا السَّاعَةُ ،قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزَبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَلاَ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلاَ اٴَکْبَرُ اِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ لَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ اُوٴلٰئِکَ لَہم مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ
اور کفار کہنے لگے کہ ہم پر تو قیا مت آئے گی ہی نہیں (اے رسول)تم کہہ دو (ہاں)مجھ کو اپنے اس عالم الغیب پروردگار کی قسم ہے جس سے ذرہ برابر(کوئی چیز)نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں کہ قیامت ضرور آئے گی اور ذرہ سے چھوٹی چیز اور ذرہ سے بڑی (غرض جتنی چیزیں ہیں سب )واضح و روشن کتاب(لوح محفوظ)میں محفوظ ہیں تاکہ جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کو خدا جزاء خیر دے، یھی وہ لوگ ہیں جن کے لئے (گناہوں کی)مغفرت اور (بہت ہی)عزت کی روزی ہے۔
سباء،03
وَاٴَقْسَمُوْا بِاللهِ جَھْدَ اٴیْمَانِہم لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوْتُ بَلٰی وَعْداً عَلَیْہِ حَقًّا وَلٰکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ لِیُبَیِّنَ لَہم الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہَ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااٴَنَّہم کَانُوْاکَاذِبِیْنَ
اور یہ کفار خدا کی جتنی قسمیں ان کے امکان میں تھیں کہا (کر کہتے)ہیں کہ جو شخص مرجاتا ہے پھر اس کو خدا دوبارہ زندہ نہیں کرے گا (اے رسول کہدوکہ)ہاں ضرور ایسا کرے گااس پر اپنے وعدہ کی وفا لازم و ضروری ہے مگر بہتیرے آدمی نہیں جانتے ہیں(دوبارہ زندہ کرنا اس لئے ضروری ہے )کہ جن باتوں پر یہ لوگ جھگڑ ا کرتے ہیں انہیں ان کے سامنے صاف و واضح کر دے گا اور تاکہ کفار یہ سمجھ لیں کہ یہ لوگ (دنیامیں)جھوٹے تھے۔
النحل38،39
وَمَا اٴدْرَاکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَا اٴدْرَاکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لاَ تَمْلِکُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ
اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے پہر تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا چیز ہے، اس دن کوئی شخص کسی کی بھلائی نہ کر سکے گا اور اس دن حکم صرف خدا ہی کا ہوگا۔
الانفطار18،19
پس نتیجہ بحث یہ ہوا :
۱۔خدا وندعالم امر و نہی کرتا ہے۔
۲۔ اس کے امر ونہی الزامی ہوتے ہیں ۔
۳۔ان اوامر و نواہی کی مخالفت موجب عقوبت ہوتی ہے۔
۴۔اسی عقوبت کے حقیقی (مادی)معنی ہیں اور صرف ڈرانے کے لئے نہیں ہیں ۔
لہٰذاہم کہتے ہیں کہ ان تمام مطالب کے پیش نظر قیامت کا ہونا ضروری ہے اور ایک مسلمان پر قیامت کا ایمان رکھنا اس کو ضروری اور قطعی ماننا ضروری ہے۔اور اسی بات پر مذکورہ تما م آیات دلالت کرتی ہیں، کیونکہ انہیں آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ قیامت وہ چیز ہےجس میں کوئی شک نہیں اور یہی(یوم الحق)ہے جس میں ایک ساعت بھی کم و زیادتی نہیں ہو سکتی ،اوراس قیامت کا مقصد حساب و کتاب ہے کیونکہ ہر انسان کو اس کے اعمال کی بنا پر جزا یا سزا دی جائے گی۔انہیں آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ:
لَایُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَلَا کَبِیْرَةً إلّٰا اٴِحْصَاھَا
اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا۔
الکہف،49
انہی آیات میں موجود ہے:
کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضِرًا وَ مَاعَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ
ہر شخص جو کچھ اس نے (دنیامیں ) نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا۔
آل عمران،30
اور انہیں آیات کی بنا پر مجرمین ”مشفقین مما فیہ“دکھائی دیتے ہیں ۔
پس خدا وند عالم کا وعدہٴ قیامت ”حق “ ہے اور خدا سے زیادہ کون صادق الوعد ہو سکتا ہے، اور جولوگ گمان کرتے ہیں:
اٴنْ لَنْ یَبْعَثُوْا
(وہ مبعوث نہیں کئے جائیں گے)اور کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی وہ کافر اور جھوٹے ہیں۔
التغابن،07
وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ وَ مَا یُکَذِّبُ بِہِ اِلاَّ کُلَّ مُعْتَدٍاَثِیْمٍ
اس دن کو جھٹلانے والوں کی خرابی ہے جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ہیں حالانکہ اس کو حد سے نکل جانے والے گنہگار کے سوا کوئی جھٹلاتا۔
المطففین 10تا12
اور جب گفتگو اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے تو ضروری ہے (تاکہ بحث کے تمام پہلوٴں پر گفتگو ہو جائے )کہ ہم غور و فکر اور یقین کے ساتھ یہ بات طے کر یں قیامت کے دن کیا چیزپلٹائی جائے گی؟کیا وہ فقط ”روح“ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ روح کا جسم میں پلٹنا محال ہے؟
یا فقط”جسم“ہے جیسا کہ جناب جبائی اور ان کے پیر و کار افراد کا نظریہ ہے کیونکہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ روح ہی جسم ہے؟یا جسم کے ساتھ روح بھی جیسا کہ اکثر علماء اسلام کا عقیدہ ہے۔
اس موضوع سے متعلق آیاتِ قرآنی کے سیاق سے ذہن میں اس بات کا تبادر ہوتا ہے کہ قیامت میں ایسے زندہ جسم کے ساتھ اٹھا یا جائے گا جو لذتِ نعمت اور دردِ عذا ب درک کر سکے ،یعنی ”جسم کے ساتھ روح“جس میں تمام عضوو تمام صفات و خصوصیات موجود ہوں گے۔قرآن مجید کی مذکورہ آیات اپنی تمام وضاحت کے ساتھ اپنے مقصود و معنی کو بیان کرتی ہیں اور کسی بھی طرح کی تاویل و قید سے منزہ ہے ،اور دلالت کے اعتبار سے بھی اتنی واضح ہیں کہ ان میں کسی طرح کی ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی ۔
ارشاد خدا وندی ہے:
وَیَوْمَ یُحْشَرُ اٴعْدَاءُ اللهِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُونَ حَتَّی إِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوا اٴنطَقَنَا اللهُ الَّذِی اٴنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہو خَلَقَکُمْ اٴوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ اٴنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلاَاٴبْصَارُکُمْ وَلاَجُلُودُکُمْ وَلَکِنْ ظَنَنْتُمْ اٴنَّ اللهَ لاَیَعْلَمُ کَثِیرًا مِمَّا تَعْمَلُون
”اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف ہکائے جائیں گے تو یہ لوگ ترتیب وار کھڑے کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب سب کے سب جہنم کے پاس جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے( گوشت پوست) ان کے خلاف ان کے مقابلہ میں ان کی کارستانیوں کی گواہی دیں گے اور یہ لوگ اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہم ارے خلاف کیوں گواہی دی؟!! تو وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہرچیز کو گویا کیا، اس نے ہم کو بھی (اپنے قدرت سے)گویا کیا، اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور (آخر)اسی کی طرف لوٹ کرجاوٴ گے اور(تمہاری تو یہ حالت تھی کہ)تم لوگ اس خیال سے (اپنے گناہوں کی)پردا داری بھی تو نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے اعضاء تمہارے بر خلاف گواہی دیں گے بلکہ تم اس خیال میں (پھولے ہو)تھے کہ خدا کو تمہارے بہت سے کاموں کی خبر ہی نہیں۔
فصلت 19 تا22
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اَفْوَاھِہم وَ تُکَلِّمُنَا اَیْدِیْہم وَ تَشْھَدُ اَرْجُلُہم بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ
آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور جو(جو)کارستانیاں یہ لوگ (دنیا میں) کر رہے تھے خود ان کے ہاتھ ہم یں بتا دیں گے اور ان کے پاوٴں گواہی دیں گے۔
یٰس،65
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہم نَاراً کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہم بَدَّلْنٰہم جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوْا الْعَذَابَ
(یاد رہے)کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ضرورعنقریب جہنم کی آگ میں جھونک دیں گے (اورجب ان کی کھالیں (جل ) جائیں گی تو ہم ان کے لئے دوسری کہالیں بدل کر پیدا کر دیں گے تاکہ وہ اچھی طرح عذاب کا مزہ چکھیں۔
النساء،56
اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہ بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَہ
کیا انسان یہ خیا ل کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو بو سیدہ ہونے کے بعد (جمع نہ کریں گے ہاں ضرور کریں گے) ہم اس پر قادر ہیں کہ ہم اس کی پور پور درست کریں۔
القیامۃ 03،04
قارئین کرام ! مذکورہ آیات کا غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ قیامت میں انسان کو ”جسم و روح“کے ساتھ اٹھایا جائے گا کیونکہ آنکھیں، کان، کھال، منہ، ہاتھ، پیر، ہڈی اور درد عذاب کا احسا س سب کچھ دنیاوی طرح سے ہوگا، اوران تما م چیزوں کے پیش نظر شک و تاویلات کی کوئی گنجائش باقی نہیں ر ہ جا تی۔
……….
https://erfan.ir/urdu

 
Read 260 times