سلیمانی

سلیمانی

ایران کے خارجہ اقتصادی تعلقات کے ہیڈکوارٹر میں ترکمنستان میں ہونے والی ایرانی اشیاء کی نمائش اور عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہدی صفاری نے کہا  کہ نمائش کے انعقاد کے لئے پرائیویٹ سیکٹر اور ایرانی تجارتی ایلچی کی شرکت بہت اہم ہے۔

ایران ترکمنستان تجارتی تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجارتی امور میں نائب ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکمنستان کو ایرانی تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات کی فراہمی کے لئے ایک  ایم او یو پر دستخط ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ہم نے اس سال  عراق کو تقریبا 14بلین ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔

 

زاہدان۔ ارنا-  ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے اربعین ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگست مہینے سے اب تک 18 ہزار 95 پاکستانی زائرین ریمدان اور میر جاوہ سرحدوں کے ذریعے اس صوبے میں داخل ہوکر وہاں سے کربلائے معلی کی زیارت کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔

"جواد قنبری" نے ہفتہ کے روز ارنا نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے 9 ہزار 593 افراد، دشتیاری شہر میں واقع ریمدان سرحدی گذرگاہ کے ذریعے اور 7 ہزار 226 افراد بھی میرجاوہ سرحدی گذرگاہ کے ذریعے صوبے سیستان و بلوچستان میں داخل ہوگئے ہیں اور اکثر بس کے ذریعے قم اور مشہد مقدس روانہ ہوگئے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اب متعلقہ اداروں اور عوام کے مختلف گروہوں کے تعاون سے پاکستانی زائرین کی خدمات کی فراہمی کی جاتی ہے اور پچھلے چند مہینوں سے ریمدان اور میرجاوہ کی سرحدوں سے ایران میں 2 ہزار پاکستانی زائرین کی آمد کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اور ضروری انفراسٹرکچر بالخصوص ریمدان کی سرحد پر تعمیر کیا گیا ہے۔

صوبے سیستان و بلوچستان کے اربعین ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے کہا کہ رواں سال میں پہلی بار کیلئے ریمدان سرحد کو زائرین کے داخلے کیلئے تعین کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرجاوہ سرحدی گذرگاہ کے ذریعے آنے والے پاکستانی زائرین کی تعداد میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے آخری داخلے کے مرحلے کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد کمی آئی ہے، جس کی بڑی وجہ اس ملک کی حالیہ سیلاب ہے اور ہم ان سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ان کی ستر سالہ سلطنت ایسے مختلف انسان سوز اور مجرمانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے جو ان کے یا ان کے ماتحت افراد کے حکم پر دنیا بھر کے مختلف مقامات پر انجام پاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے وقت اقتدار سنبھالا جب دنیا میں برطانیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ایران میں تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو قومیانے کی تحریک تھی۔ ایرانی قوم خدا کی جانب سے عطا کردہ حق یعنی تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو بوڑھی لومڑی برطانیہ کے تسلط سے آزاد کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ملکہ الزبتھ دوم کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ہی ان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹس نے امریکی حکام کے تعاون سے ایران میں عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے بغاوت کی منصوبہ بندی انجام دی۔
 
ایران میں یہ جمہوری حکومت ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں برسراقتدار تھی اور امریکہ اور برطانیہ کی نظر میں اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ملک میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو قومیانے کی کوشش کر رہے تھے۔ 19 اگست 1953ء کو انجام پانے والی اس بغاوت کے نتیجے میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں برطانیہ اور امریکہ کو ایرانی تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے مزید 25 برس کا موقع میسر ہو گیا۔ جب برطانیہ میں ملکہ الزبتھ دوم کی فرمانروائی کا دور شروع ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں برطانیہ کی معیشت تباہ حال ہو چکی تھی۔ لہذا اس نے مجبور ہو کر استعماری طاقت کا ایک حصہ امریکہ کے سپرد کر دیا۔ اگرچہ اس عرصے میں برطانیہ بتدریج اپنی کالونیاں کھوتا چلا گیا لیکن اس نے اپنا اثرورسوخ ہر گز کم نہیں ہونے دیا۔
 
ایسی صورتحال میں برطانیہ نے عالمی سیاست کے میدان میں درپردہ رہ کر بالواسطہ طور پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنا لی۔ اگرچہ برطانیہ بظاہر سویز کے اکثر مشرقی حصوں سے دستبردار ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی برطانیہ کی ان گذشتہ کالونیوں میں برطانوی حکومت کی مرضی کے بغیر اہم فیصلہ جات انجام نہیں پاتے تھے۔ عملی طور پر "دولت مشترکہ ممالک" یا Commonwealth countries وہ کوڈ ورڈ تھا جو ملکہ برطانیہ کے استعماری تسلط کیلئے بروئے کار لایا جاتا تھا۔ جس جگہ بھی حریت پسند انسان بوڑھی لومڑی برطانیہ کے اثرورسوخ کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرتے تھے انہیں ملکہ برطانیہ کی مسلح افواج کی جانب سے آہنی ہاتھ کا سامنا کرنا پڑ جاتا تھا۔ 1960ء کے عشرے میں یمن کے انقلابی عوام نے آبنائے باب المندب پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی حکومت حرکت میں آ گئی اور انقلابی عناصر کی پکڑ دھکڑ کا کام شروع ہو گیا۔
 
یمن میں انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے ٹارچر سیل تشکیل دیے گئے۔ انقلابیوں کو برہنہ کر کے فریزر والے کمروں میں ڈال دیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں ان کی بڑی تعداد ٹی بی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی گئی۔ قیدیوں کے جسم کو سگریٹ سے جلانا، انہیں برہنہ کر کے نیزے پر بٹھانا، ان سے جنسی زیادتی انجام دینا وغیرہ وہ انسان سوز جرائم تھے جو ملکہ الزبتھ دوم کی زیر نگرانی انجام پاتے تھے۔ سمندر کے اس پار کینیا وہ ملک تھا جس کی عوام نے اپنے قدرتی ذخائر پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی وہاں انقلابی تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا کہ برطانوی استعمار نے محض انقلاب کے خوف سے 15 لاکھ افراد کو بیگاری کے کیمپوں میں قیدی بنا دیا۔ ان کیمپوں میں کینیائی عوام سے زبردستی موت کی حد تک مزدوری کروائی جاتی تھی۔
 
بیگار کیمپوں میں قید افراد کی بڑی تعداد شدید حالات کو برداشت نہ کر سکی اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بڑی تعداد میں مزدوروں کو برطانوی گماشتوں نے سزائے موت دے دی۔ تاریخی دستاویزات میں بیماری کا شکار ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد 2 ہزار ذکر کی گئی ہے جبکہ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی لاکھ افراد کو برطانوی گماشتوں نے قتل کر دیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد برطانیہ نے محسوس کیا کہ ایران اس کے اثرورسوخ سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ لہذا ایران کے انقلابی اور مسلمان عوام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کا آغاز کر دیا۔ ملکہ برطانیہ کے گماشتوں کے مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ صرف ایشیا اور افریقہ تک محدود نہیں بلکہ برطانوی تسلط کے خلاف اٹھنے والے یورپی عوام بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں تھے۔
 
1970ء سے 2000ء تک شمالی آئرلینڈ میں ملکہ برطانیہ کے سپاہیوں نے تین سو سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا۔ یہ سب عام شہری تھے اور برطانوی فوجیوں کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھے۔ قتل ہونے والے افراد میں کیتھولک پادری، بوڑھی خواتین، بچے اور حتی بچیاں تک شامل تھیں۔ بعد میں ان تمام برطانوی سپاہیوں کو ملکہ برطانیہ نے معاف کر دیا۔ 1955ء سے 1959ء کے درمیان جزیرہ قبرص میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برطانوی فوجیوں نے 3 ہزار سے زائد شہریوں کو قید کر کے شدید ترین ٹارچر کا نشانہ بنایا۔ پکڑے جانے والے افراد کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا اور ملکہ برطانیہ کے گماشتے جس پر شک کرتے اسے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی بن گیا اور مغربی ایشیا میں فوجی جارحیت کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔

تحریر: محمد جواد اخوان

 اس سے قبل الجزیرہ کی فلسطینی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ 11 مئی 2022 کو مغربی کنارے کے جنین پناہ گزین کیمپ پر صہیونیوں کے حملے کی خبر کی کوریج کرتے ہوئے پریس کور کی موجودگی کے با وجود اس کے فوجیوں کی براہ راست گولی لگنے سے شہید ہو گئی تھیں۔

ناجائز صہیونی ریاست انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کے سائے میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے

غفران وراسنہ نامی 31 سالہ فلسطینی خاتون جو مقامی ریڈیو اسٹیشنوں میں کام کرتی ہیں، یکم جون کو جیل سے رہائی کے بعد الخلیل کے شمال میں واقع العروب پناہ گزین کیمپ کے دروازے پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئیں۔

مقبوضہ فلسطین میں میڈیا کے مختلف اداروں کے صحافیوں کے قتل سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 1948 میں فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد سے صہیونی فوج نے تمام بین الاقوامی معیارات اور میڈیا کے کام سے متعلق کنونشنز کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بحران کے علاقوں میں 72 صحافیوں کو قتل کیا ہے۔.

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق، اس ملک کے مختلف ذرائع ابلاغ کے صحافیوں کو ہمیشہ دو اطراف سے خطرات لاحق رہتے ہیں، جن میں سے ایک صہیونی فوج اور دوسرا انتہا پسند صہیونیوں (حریدی) کی طرف سے ہے۔

صہیونیوں کی میڈیا سرگرمیوں کے دوران صحافیوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کی گرفتاری اور قید کے علاوہ تشدد اور دیگر قسم کے ناروا سلوک ہیں۔

فلسطینی صحافیوں کی حمایت کرنے والی کمیٹی کی جانب سے 6 ستمبر کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست کی جیلوں میں تین خواتین سمیت مختلف میڈیا اداروں کے 21 صحافی قید ہیں۔

ناجائز صہیونی ریاست انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی کے سائے میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے

اس کمیٹی کے بیان کے مطابق، آزادی صحافت کی ضمانت دینے والے بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود حراست میں لیے گئے صحافیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے اور انہیں ہر قسم کے جبر اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جن میں خاندان کے دورے اور علاج شامل ہیں۔

صہیونی فوج کی جانب سے میڈیا کے صحافیوں کی مستقل نظربندی اور فوجی عدالتوں میں ان کا مقدمہ چلانے کے علاوہ صہیونی فوج مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں کو ان کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے دوران عارضی طور پر گرفتار بھی کرتی ہے۔

اس سلسلے میں صہیونی فوج نے 3 ستمبر کو الخلیل کے شمال مشرق میں تسنیم نیوز ایجنسی کے نامہ نگار منتصر نصار اور ان کی فوٹوگرافی ٹیم کو عارضی طور پر گرفتار کر لیا۔

مقبوضہ فلسطین میں فریڈم سینٹر کی ڈائریکٹر حلمی الاعرج نے صحافیوں کے قتل اور گرفتاری کے حوالے سے کہا کہ صہیونی اہلکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔

انہوں نے ان جرائم کی دستاویز کرنے اور انہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں پیش کرنے میں فلسطینی عوام کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انہوں نے جرم کیا ہو، اسرائیلی صحافیوں کو قتل کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔

فلسطین میں آزادی کے مرکز کے ڈائریکٹر نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اداروں کو صحافیوں کے خلاف اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات اور جنگی مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کے حوالے سے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔

الاعرجی نے کہا کہ بدقسمتی سے صہیونیوں کے تمام جرائم کے باوجود ہم بین الاقوامی برادری کی خاموشی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیار کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اسرائیل کے جرائم اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں جبکہ اس ریاست نے اس فلسطینی نژاد امریکی صحافی کے قتل کے حوالے سے ابو عاقلہ کی شہادت اور اس کے ہمہ گیر حمایتی کے طور پر امریکہ کی درخواست کے بعد کوئی وضاحت دینے سے انکار کر دیا ہے، اس معاملے پر امریکہ کی جانب سے تنقید کی گئی ہے۔

فلسطینی سیاست دان حنان عشراوی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ واضح مبہم، غلط معلومات اور جھوٹ۔ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی ذمہ دار اسرائیلی فوج نے خود کو بری کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ اس وقت ہے جب اسرائیل نے پیر کو اعتراف کیا تھا کہ ایک فوجی نے صحافی شیرین ابو اکلے کو غلطی سے قتل کر دیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ تمام شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے ابو عاقلہ کو قتل کیا اور فوج کی رپورٹ ایک پردہ پوشی ہے۔

ایکنا نیوز- نیوز ایجنسی نون، کے مطابق امریکی محقق «سم کمپل»، اربعین حسینی پر ریسرچ کے لیے  گذشتہ روز کربلا میں پہنچے ہیں۔

کمپل کا کہنا تھا کہ وہ اربعین میں شرکت کے لیے کربلا آئے ہیں: «اربعین پر کربلا آیا ہوں اور یہاں رش کش بے مثال ہے یہ عظیم ترین انسانی اجتماع شمار ہوتا ہے».

 

انکا کہنا تھا: میں زمین کے گرم ہونے پر ریسرچ کررہا ہوں اور معلوم ہوا کہ اس حوالے سے آستانہ حسینی بھی خدمات انجام دیں رہا ہے جنمیں انکا کھیتی باڑی پروگرام شامل ہے۔

 

امریکن محقق نے آستانہ حسینی کے پروگراموں کو سراہتے ہوئے کہا: لگتا ہے کہ یہ مذہبی ادارہ فعال ترین ادارہ ہے جو کوشش کررہا ہے کہ زمین کے گرم ہونے کے حوالے سے کردار ادا کریں اور صحراوں کو کھیتی باڑی سے قابل استفادہ بنا رہا ہے۔/

 

ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی کمانڈ اینڈ پلاننگ ڈویژن کو تحقیقات اور جمع کردہ معلومات کی بنیاد پر یقین تھا کہ یمن کے پاس تھوڑے سے اسکڈ اور توچکا میزائل ہیں جن کو جنگ کی آغاز ہی میں فضائی حملے کرکے نابود کر دیا گیا جس کے بعد سعودی عرب یمن کے ممکنہ جوابی کاروائیوں سے محفوظ ہو گیا ہے۔

2019ء میں یمنیوں نے شارٹ اورمیڈیم رینج بیلسٹک میزائل توچکا، قاہر اور برکان سے سعودی حملات کا جواب دینا شروع کیا جن کو سعودی عرب کے دعوے کے مطابق پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں وال اسٹریٹ جنرل نے ایک عجیب خبر لگائی کہ سعودی پیٹریاٹ میزائل کا سعودی ذخیرہ ختم ہونے والا ہے جب کہ سعودی عرب نے 1990کے عشرے میں 2500 سے زیادہ پیٹریاٹ میزائل خریدے تھے جن میں سے ہر میزائل کی قیمت 30 لاکھ ڈالر تھی۔ اسی دوران ایک اور خبر آئی کہ سعودی عرب نے یونان سے دو پیٹریاٹ میزائل کے لانچر بہت بھاری قیمت کے عوض ادھار پر لینے کی درخواست کی ہے۔

یاد رہے کہ ان میزائلوں کو چلانے کے لئے یونانی عملہ کے 120 افراد کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔

رپورٹ میں ڈیفنس سیکورٹی تعاون ایجنسی کی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید بتایا گیا کہ اسی سال سعودی عرب نے 300 پیٹریاٹ دفاعی نظام کے میزائل ماڈل پیک 2 جم 3 بلین ڈالر کے عوض خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ ان خریدے گئے میزائلوں میں سے ہر میزائل کی قیمت 10ملین ڈالر تھی جب کہ 2017ء میں ان میزائلوں سے ایڈوانس پیک 3 میزائل سعودی عرب نے 4 ملین ڈالر فی میزائل کے ریٹ سے امریکی کمپنی ریتھیان سے خریدے تھے۔

ماہرین کے مطابق یہ سعودی عرب کی طرف سے اس کمپنی کو رشوت تھی کہ ایمرجنسی بنیادوں پر ان میزائلوں کی فراہمی کو یقینی بنائے اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں جلدی ان میزائلوں کو ریاض کے حوالے کرے۔

15 اپریل 2021ء میں انصار اللہ یمن نے میزائلوں اور خودکش ڈرون کے ذریعے سعودی عرب کے جنوبی علاقے جیزان کے ایک انتہائی حساس مقام پر ایک حملہ کیا، سعودی فوجی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے ایک پریس کانفرنس میں اس حملے کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ حملہ 4 ڈرون اور 5 میزائلوں سے ایک غیر فوجی مرکز یعنی جیزان شہر کی یونیورسٹی پر کیا گیا ہے اور سارے ڈرون اور میزائل پیٹریاٹ میزائلوں کےذریعے سے تباہ کر دئیے ہیں اور حملے کی جگہ سے اٹھنے والے شعلے ان ڈرون طیاروں اور میزائلوں کے ٹکڑے گرنے کے بعد بھڑک اٹھنے والی آگ کا نتیجہ ہیں۔

گزشتہ روز ایک ٹوئٹر کے اکاؤنٹ پر کچھ تصاویر شائع کی گئیں جہاں پر انصاراللہ یمن نے 15اپریل 2017ء کو حملہ کیا تھا جو نہ صرف سعودی عرب بلکہ پیٹریاٹ بنانے والی کمپنی اور امریکہ کے لئے شدید شرمندگی کا باعث بن گئی ہیں۔ان تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ انصاراللہ نے جیزان میں پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم کی سائیٹ پر حملہ کیا تھا جو اسی جیزان یونیورسٹی کے قریب واقع تھی۔

انصاراللہ یمن نے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو چکمہ دینے کے لئے پہلے چند راکٹ اس جگہ فائر کئے تھے جن کو روکنے کےلئے یہ نظام خودکار طریقے سے فعال ہوا تھا، پھر اُس کے بعد ڈرون طیاروں نے ان  میزائلوں کو فائر کرنے والی بیٹریوں میں سے ایک کو حملہ کرکے نابود کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ انصاراللہ یمن نے سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل ریفائنری آرمکو پر بھی ڈرون حملات انجام دیئے تھے جن کو میزائل دفاعی نظام روکنے میں ناکام ہوگیا تھا اور تیل کے پیداواری نظام میں خلل پیدا ہونے کے باعث سعودی عرب کو ایک زبردست جھٹکا لگا تھا۔

ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے کہا ہے کہ سپاہ کے لئے یہ باعث اعزاز ہے کہ وہ ملکی ساختہ دفاعی آلات اور ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہے اور شہید سلیمانی بحری جنگی جہاز غیر معمولی خصوصیات کا حامل ہے جو ملک کے اندرہی تیار کیا گیا ہے۔

کیٹاماران ان بحری جہازوں کو کہا جاتا ہے جن کے ایک سے زیادہ ہل ہوتے ہیں اور شہید سلیمانی جنگی بحری جہاز انکیٹ کیٹاماران کشتی ہے اور دنیا میں صرف تین ممالک ایسے ہیں جو ایلمونیئم سے 60 میٹر لمبا بحری جہاز ڈیزائن اور تعمیر کر سکتے ہیں اور ایران ان میں سے ایک ہے۔

مہر نیوز کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز تہران ایمرجنسی سینٹر کے اہلکار اربعین کے زائرین کی خدمت کے لئے ۴ سرحدی نقاط؛ مہران، چذابہ، شلمچہ، قصر شیرین کی طرف روانہ ہوگئے۔ اہلکاروں کی روانگی کے موقع پر ایران کی ایمرجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ جعفر میعاد فر، تہران ایمرجنسی سینٹر کے سربراہ یحیی صالح طبری اور دیگر اہلکار موجود تھے۔ 

تہران ایمرجنسی سینٹر نے اپنے ۷۰ اہلکاروں کو روانہ کیا جن کے ساتھ ۲١ ایمبولینسز، ۲ ایمبولینس بسیں، ۷ موٹر لانسز، ایک ریڈیو کمیونیکیشن گاڑی، ایک بیک اپ گاڑی اور ایک موبائل ریپیرنگ گاڑی بھی زائرین کی خدمت کے لئے روانہ کی ہے۔ 

مرکزی اربعین کمیٹی میں ایک ہیلتھ کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو ایران کی ایمرجنسی آرگنائزیشن کے سرابرہ جعفر میعادفر کے زیرِ نگرانی کام کر رہی ہے۔ 

مہر کے نامہ نگار نے ہیلتھ کمیٹی کے اقدامات کی اپڈیٹس معلوم کرنے کے لئے جعفر میعاد فر سے بات کی۔ 

انہوں نے اس سلسلے میں بتایا کہ اربعین کی ہیلتھ کمیٹی دو مشرقی ﴿میرجاوہ اور ریمدان﴾ اور چھ مغربی سرحدوں پر زائرین کی طبی ضرورتوں کے لئے خدمات انجام دے رہی ہے۔ 

معیاد فر کا کہنا تھا کہ صوبہ سیستان و بلوچستان کے میرجاوہ اور ریمدان باڈر پر پاکستانی زائرین کی میزبانی کر رہے ہیں اور زائرین کے ایران میں محض داخل ہوتے ہی ان کا طبی معائنہ اور ضروری اقدامات ہو رہے ہیں۔ وہاں سے زائرین کو شلمچہ باڈر بھیجا جا رہا ہے جہاں سے وہ عراق میں داخل ہو جائیں گے۔ 

ایرانی ایمرجنسی آرگنائزیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سرحدی نقاط پر ایمرجنسی آرگنائزیشن کے ٹیکنشنز بھی موجود ہیں اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے تمام صوبوں کے عملے سے بھی مدد لی جار رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا طبی ٹیمیں موکبوں کی نگراںی کر رہی ہیں اور ساتھ ہی سینڈرومک بیماری، ہنگامی طبی سرگرمیاں اور زخمیوں کی اسپتالوں اور فلیڈ ہاسپٹلز منتقلی بھی ہیلتھ کمیٹی کے فرائض میں شامل ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ عراق میں طبی سہولیات کی ذمہ داری حلال احمر کے ذمے ہے تاہم ایمرجنسی آرگنائزیشن کا طبی عملہ اور ڈاکٹرز حلال احمر کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور وزارت صحت کے تمام کارکن عراق میں حلال احمر کے تحت زائرین کو طبی اور صحت کے حوالے سے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ 

میعادفر نے کہا کہ ملک کے ۴ سرحدی نقاط پر دو سے زائد ہیلی کاپٹرز زائرین کو خدمات فراہم کرنے کے لئے تیار رکھے گئے ہیں جبکہ ۲ ہوائی جہازوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے تا کہ اگر عراق یا باڈرز پر زخمیوں کی تعداد زیادہ ہوجائے اور ایمبولینس نہ بھیج سکیں تو ان جہازوں کے ذریعے ذخمیوں کو منتقل کیا جاسکے۔ 

آخر میں میعاد فر نے کہا کہ چاروں سرحدی نقطے اور عراق میں وزارت صحت کے اہلکار نگرانی کر رہے ہیں جبکہ ہم نے مناسب تعداد میں ایئر ایمبولنس کی پیش بینی کی ہے تا کہ ممکنہ زخمیوں کو طبی مراکز میں منقل کرنے کے لئے ایک سیکنڈ بھی ضائع نہ ہو۔

 

ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں ولی فقیہ کے نمائندے آیت اللہ مصطفی محامی نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہماری عزیز ہمسایہ قوم پر جو سیلاب کی مصیبت آئی ہے اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھودیا ہے اور سیلاب نے وسیع تباہی پھیلائی ہے، میں پاکستان کے مصیبت زدہ اور غم زدہ لوگوں کو ان سانحات پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام نقصانات کا جلد ہی ازالہ کیا جائے اور تمام مسلم اقوام اور ایران عوام سے اپیل کی کہ پاکستان میں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کو نکلیں اور اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں۔  

ولی فقیہ کے نمائندہ سیستان و بلوچستان نے زور دے کر کہا کہ اربعین حسینی کے موقع پر صوبہ سیستان و بلوچستان کے شریف عوام کو پاکستانی زائرین کی میزبانی کی توفیق ملی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں میں میرجاوہ باڈر پر پاکستانی زائرین کی میزبانی کی جاتی تھی اور سہولیات کم تھیں جبکہ اس سال الحمد للہ صورتحال بہت بہتر ہے، خاص طور ایک وسیع زائر سرا تعمیر ہوچکی ہے جس میں زائرین کی پذیرائی کے تمام سہولیات فراہم ہیں۔ 

آیت اللہ محامی نے مزید کہا کہ صوبے کے حکام، مذہبی تنظیموں اور موکب چلانے والوں نے گزشتہ سالوں سے جو تجربات حاصل کئے ہیں وہ سبب بنے ہیں کہ پاکستانی زائرین کی پذیرائی کے لئے سہولیات کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ کرونا سے پہلے والے والے سالوں میں بھی نہ صرف میر جاوہ بلکہ خود زاہدان شہر، ریمڈان باڈر اور مشہد مقدس کے راستوں میں بھی زائرین کی خدمت کے موکب اور متعدد مراکز قائم کئے جاتے رہے تھے۔

ایڈمیرل شہرام ایرانی نے اتوار کے روز جنوبی شہر بندرعباس میں آرمی کی اسٹریٹجک بحریہ میں بہتر سطح اور زیر زمین جنگی سازوسامان شامل کرنے کے نئے آلات میں ہتھیاروں کی رفتار اور استحکام کو بہت اہم قرار دیا۔

انہوں نے سطحی اور زیر زمین سازوسامان کی ترقی یافتہ صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحری جہاز جو آج ایرانی بحریہ کے ساتھ دو مختلف سطحوں، سطح اور زیر زمین پر شامل ہوئے ہیں، پہلے سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہیں اور یہ کہ ان بحری جہازوں کی نقل و حرکت کا نظام جدید ہتھیاروں کی رفتار اور استحکام سے لطف اندوز ہوں۔

ایرانی ایڈمیرل نے کہا کہ تمام آلات کو جدید بنا دیا گیا ہے اور میزائل طاقت کے میدان میں جنگی طاقت کو بہتر بنانے کے لحاظ سے اسے دوگنا کر دیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سائنسی بنیادوں کے تازہ ترین تجربات جو اس میدان میں ہمارے سائنسدانوں کے ہاتھ پہنچ چکے ہیں، اس سازوسامان پر لاگو کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آبدوزوں کے میدان میں غدیر آبدوز جو کہ ہمارے علاقے میں مکمل طور پر کام کرنے والی آبدوز ہے، بحریہ کی جنگی افواج میں شامل ہو گئی ہے۔

انہوں نے اسٹرٹیجک بحریہ کے ڈرون بردار جہازوں کے بیڑے کا حوالہ دیا اور کہا کہ ڈرون بردار بحری جہازوں کے بیڑے کو شمالی بحر ہند میں فوج کے کمانڈر انچیف کی موجودگی میں ایک مشق کے دوران ظاہر کیا گیا اور اس کا آپریشنل کام شروع ہوا اور اس علاقے میں موجود بحری بیڑے کو پہلے سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل نئے تیار شدہ ڈرونز سے لیس کیا گیا ہے۔