سرزمین حجاز

Rate this item
(1 Vote)

سرزمین حجاز

خانہ کعبہ یا بیت اللہ (الكعبة المشرًّفة، البيت العتيق‎ یا البيت الحرام‎( مسجد حرام کے وسط میں واقع ایک عمارت ہے جو مسلمانوں کا قبلہ ہے جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کےایک مستطیل نما عمارت تھی جس کےدونوں طرف دروازے کھلے تھےجو سطح زمین کےبرابر تھےجن سےہر خاص و عام کو گذرنےکی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کےپتھر استعمال ہوئےتھےجبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نےرکھےتھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنےمالی مفادات کےتحفظ کےلئےاس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتےتھےوہ چوری ہوجاتی تھیں۔

خانہ کعبہ و مسجد حرام

قریش نےبیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہےکہ روپے پیسےکی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سےبیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہےلیکن انہوں سےاس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سےبھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کردیا گیا جبکہ مشرقی دروازےکو زمین سےاتنا اونچا کردیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سےاندر جاسکیں۔ اللہ کےگھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کےمزاج اور سوچ کےعین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھےاور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنےکا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کےمطابق ہی بنایا جائے۔

خانہ کعبہ کےاندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کےمتوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہےیہاں نبی پاک صلی اللہ وآله وسلم نماز ادا کیا کرتےتھے۔ کعبہ کےاندر رکن عراقی کےپاس باب توبہ ہےجو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشےکا ایک حصہ ہےجو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کےاندر سنگ مرمر کےپتھروں سےتعمیر ہوئی ہےاور قیمتی پردےلٹکےہوئےہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔

کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئےسرےسےبھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سےتقریباً دو میٹر بلند ہےجبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سےزیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرےمیں جوجگہ ہےاسےحطیم کہتےہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کےعلاوہ وہ مقام بھی شامل ہےجو حضرت ابراہیم علیہ السلام نےحضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کےرہنےکےلئےبنایا تھا جسےباب اسماعیل کہا جاتا ہے۔

خانہ کعبہ سےتقریبا سوا 13 میٹر مشرق کی جانب مقام ابراہیم قائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہےجو بیت اللہ کی تعمیر کےوقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنےقد سےاونچی دیوار قائم کرنےکےلئےاستعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچےہوکر دیوار تعمیر کریں۔

1967ءسےپہلےاس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونےکی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلےکا درجہ حاصل ہےاور امام کعبہ اسی کی طرف سےکعبہ کی طرف رخ کرکےنماز پڑھاتےہیں۔ طواف کےبعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنےکا حکم ہے۔

حجر اسود

کعبہ کےجنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹ قطر کےچاندی میں مڑھےہوئےمختلف شکلوں کے8 چھوٹےچھوٹےسیاہ پتھر ہیں جن کےبارےمیں اسلامی عقیدہ ہےکہ تعمیری ابرہیمی کےوقت جنت سےحضرت جبرائیل علیہ السلام لائےتھےاور بعد ازاں تعمیر قریش کےدوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےدست مبارک سےاس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑےفساد سےقوم کو بچایا۔ یہ مقدس پتھر حجاج بن یوسف کےکعبہ پر حملےمیں ٹکڑےٹکڑےہوگیا تھا جسےبعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سےشروع ہوتا ہےاور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہئےورنہ دور سےہی ہاتھ کےاشارےسےبوسہ دیا جاسکتا ہے۔ حج کےدنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔

زمزم

مسجد حرام میں کعبہ کےجنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کےفاصلےپر تہ خانےمیں آب زمزم کا کنواں ہےجو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کےشیر خوار بیٹےحضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانےکےبہانےاللہ تعالیٰ نےتقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزےکی صورت میں مکہ مکرمہ کےبےآب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کےساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےدادا حضرت عبدالمطلب نےاشارہ خداوندی سےدوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سےبڑا دہانہ حجر اسود کےپاس ہےجبکہ اذان کی جگہ کےعلاوہ صفا و مروہ کےمختلف مقامات سےبھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سےپانی ڈول کےذریعےنکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کےاندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہےاور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنےساتھ لےجاتےہیں۔

Read 3530 times