
سلیمانی
عیسائی صحافی کے قتل سے واضح ہےکہ نسل پرست اور غیر انسانی صیہونیوں سے سب کو خطرہ ہے، سید حسن نصر اللہ
بیروت : حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں سینئر صحافی شیرین ابو عاقلہ کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابض صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خواہش مندوں کو اس گھناؤنے جرم پر شرم آنی چاہیے۔ سید حسن نصر اللہ نے ان خیالات کا اظہار ابوعاقلہ کی تدفین کے موقع پر مشرقی لبنان کی وادی بیکا سے براہ راست ویڈیو خطاب میں کیا انہوں نے کہا کہ
شیریں ابو عاقلہ برسوں سے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جرائم کی گواہ رہی ہیں۔ اس جرم پر سب سے پہلے انہیں شرم آنا چاہئیے جو صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسرائیل سے سمجھوتہ کرنے والوں کو سب سے پہلے شرم اور ندامت محسوس کرنا چاہئیے، جو قوموں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود فطری ہے اور اس کے ساتھ رہنا چاہیے۔حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ ابو عاقلہ کی شہادت کے پیچھے طاقتور پیغام یہ ہے کہ وہ ایک عیسائی تھیں اور صیہونی حکومت فلسطین میں مسلمان اور عیسائی میں کوئی فرق نہیں کرتی ہے۔اس شہادت کا پیغام یہ تھا کہ نسل پرست اور غیر انسانی حکومت کی پالیسیوں سے سب کو خطرہ ہے۔
کابل کی ایک اور شیعہ مسجد میں دھماکا، 3 نمازی زخمی
کابل : افغان دارالحکومت کابل کی ایک اور شیعہ مسجد نمازیوں کے خون سے رنگ گئی. دھماکا ایوب صابر مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران ہوا دھماکے میں تین افراد زخمی ہوگئے ہیں، کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری ابھی قبول نہیں کی ہے۔
صحافی ابوعاقلہ کے جنازے پر بھی اسرائیلی فوجیوں کا حملہ، کئی فلسطینی زخمی
رام اللہ : صیہونی فوجیوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسپتال کے سامنے فلسطینی نامہ نگار شہید شیرین ابو عاقلہ کے جنازے کو جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس میں شریک لوگوں کو زد وکوب کیا۔ ہلال احمر سوسائٹی نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس جارحیت میں کئی فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی پولیس نے اسپتال کے تمام راستوں کو بھی بند کردیا اور وہ فلسطینی پرچم لہرانے اور شہید شیرین ابو عاقلہ کی تصویر اٹھانے اور ان کی حمایت میں نعرے لگائے جانے سے بھی روکتی رہی.
ایران کی پوری امت مسلمہ سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی اپیل
اسی مناسبت سے ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یوم نکبت فلسطینیوں کو ان کے وطن سے دربدر کرنے اور ان کے علاقوں پر غاصبانہ قبضہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کی سالانہ تاریخ ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت نے مغرب کی حمایت سے جنگ و جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوم نکبہ اس ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی کا واحد راستہ یہ ہے کہ صیہونی غاصبوں کے مقابلے میں دنیا کے تمام حریت پسندوں کی جانب سے فلسطینیون کی تحریک مزاحمت کی بھرپور حمایت ہو۔ اسی طرح اسلامی امت اس کی پھرپور حمایت کرے اور غاصب حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی سودے بازی یا کسی بھی طرح کے تعلقات برقرار نہ کرے۔
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق آج 14 مئی کی تاریخ، فلسطین کی تاریخ میں یوم نکبت سے مناسبت رکھتی ہے۔ غاصب صیہونیوں نے 14 مئی سن 1948 کو فلسطینی علاقوں کو قبضا کر پورے علاقے میں بحران و بدامنی کی بنیاد رکھی۔بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی، مزید 3 کشمیری شہید
سرینگر: غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ظالم فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید 3 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بھارتی درندوں نے دو نوجوانوں کو ضلع اسلام آباد کے علاقے کریری ڈورو میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران شہید کیا۔ جبکہ شوپیاں کےعلاقے پنڈوشن میں کارروائی کے دوران فوجیوں کی فائرنگ سے زخمی شہری سرینگر کے اسپتال میں دم توڑ گیا۔ فائرنگ سے زخمی ایک اور شہری کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ قابض حکام نے علاقے میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔
https://www.nawaeislam.com/
یمن پر عرب اتحاد کی جارحیت، 4 ہزار بچوں سمیت 18 ہزار افراد جانبحق
صنعا : یمن پر سعودی اتحاد کی جارحیت میں 4 ہزار بچوں سمیت 18 ہزار افراد شہید ہوگئے انسانی حقوق و ترقی کے مرکز عین الانسانیہ نے یمن پر سعودی اتحاد کی 26 سو روزہ جارحیت میں ہوئے نقصانات کے اعداد و شمار جاری کردئے سعودی عرب نے امریکی حمایت اور متحدہ عرب امارات و چند دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر مارچ 2015 سے یمن کو وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔رپورٹ کے مطابق جارحیت میں 46 ہزار 374 افراد شہید اور زخمی ہوئے جن میں سے 17ہزار 775 افراد شہید اور 28 ہزار 599 زخمی ہوئے ۔شہدا میں 4 ہزار 28 بچے شامل ہیں 4 ہزار 599 بچے زخمی ہوئے ۔رپورٹ کے مطابق 1307 مرد شہید ہوئے ہیں اور 21 ہزار 91 دیگر زخمی ہوئے ہیں جبکہ اس دوران 2 ہزار 440 عورتیں شہید اور 2193 زخمی ہوئیں. سعودی اتحاد نے یمن کے پندرہ ہوائی اڈوں، سولہ بندرگاہوں، 342 بجلی گھروں، 614 مواصلاتی مراکز،2 ہزار 185 پانی کے ذرائع اور ڈیم، 2095 سرکاری تنصیبات اور 6 ہزار 827 پلوں اور راستوں کو نشانہ بنایا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران 5 لاکھ 90 ہزار 770 مکانات، 1662 مساجد، 182 تعلیمی مراکز، 376 سیاحتی مراکز، 413 اسپتالوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
انبیاء، اولیاء ،صلحاء اور ممتاز شخصیات استاد اور معلم ہیں، ولی امر المسلمین
ولی امر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ تعلیم دینے کے لحاظ سے اللہ تعالی ، تمام انبیاء، اولیاء ،صلحاءاور ممتاز شخصیات استاد اور معلم ہیں۔ اساتذہ اور معلمین کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں اللہ تعالی علم و دانش عطا کرتا ہے وہ علم دینے والا ہے لہذا اللہ تعالی بھی استاد اور معلم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام مشائخ، علماء، دانشوراور ممتاز شخصیات جیسے استاد شہید مطہری بھی استاد اور معلم ہیں۔انہوں نے آنے والی نسلوں کی ہدایت ، تعلیم و تریب کو اساتذہ کے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہاکہ اساتذہ سے ملاقات کا مقصد ان کے کردار کو اجاگر کرنا اور عوامی سطح پر استاد کی قدر ومنزلت کو قائم اور برقرار رکھنا ہے تاکہ استاد اور اس کے خاندان دونوں کو اس کے کام پر فخر ہو اور معاشرے میں بھی استاد کے کام کو فخر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ولی امر مسلمین نے اسلامی تہذیب و تمدن کی تشکیل کے طویل المدتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی وسائل کسی بھی تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ ہوتے ہیں اور نئی اسلامی تہذیب کے بانی وہ نسل ہے جو اس وقت اساتذہ کے ہاتھ میں ہے، اس نقطہ نظر سے بھی استاد کی قدر و منزلت اہمیت کی حامل ہے۔ اس عظیم مقصد کے ساتھ اس نسل کو ایرانی اسلامی تشخص، مضبوط اور گہرے اعتقادات، خود اعتمادی، خود سازی سے آراستہ ہونا چاہیے اور مشرق و مغرب کی فرسودہ تہذیبوں کے بارے میں آگاہ اور باخـبر ہونا چاہیے۔ انہوں نے اساتذہ کی زحمات اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یقینی طور پر مطلوبہ صورتحال کے حصول کے لیے موجودہ مسائل و مشکلات کو تدبر، تلاش و کوشش، جدوجہد اور صبر سے حل کرنے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
مزاحمت نے "گریٹر اسرائیل" کا جنازہ نکال دیا: سید حسن نصر اللہ
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے صور اور النبطیہ میں منعقد ہونے والے انتخاباتی سیمینار سے خطاب میں کہا کہ بعض سیاسی گروہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن میں مزاحمت ملک کے معاشی بحران کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اپنی انتخابی کانفرنسوں میں لبنانی عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرے گی۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ سیاسی گروہ اس مسئلے کو کم ترین ترجیحات سے بھی ہٹا کر دیکھتے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ان گروہوں نے کچھ مہینے پہلے کی مزاحمت کے ہتھیار کو اپنی انتخاباتی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا وہ لوگ جو مزاحمت کو غیر مسلح کرنا چاہتے ہیں اور حزب اللہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فلسطین میں غاصب عبوری صیہونی حکومت وقت سے ہی جنوب کے مسائل سے آگاہ نہیں ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے تاکید کی کہ انہیں ایام میں صیہونی حکومت کی تشکیل ہوئی تھی اور چند مہینوں کے بعد ہی "حولا" گاؤں میں قتل عام ہوا اور متعدد جنوبی دیہات غیر آباد ہو گئے لیکن کچھ سیاست دان اب بھی اسرائیل کو دشمن نہیں مانتے اور یہ قبول نہیں کرتے کہ وہ لبنانی پانی اور گیس پر نظر گڑائے ہوئے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان میں سے ایک سیاستدان نے 2006 میں ایک جلسے کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل نے لبنان پر حملہ نہیں کیا ہے اور یہ لبنان کے لیے خطرہ نہیں ہے اور اسے اس سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ شخص یا تو جاہل ہے یا اس نے جاہل ہونے کا ڈرامہ کیا ہے۔
اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے الجزیرہ کی ممتاز خاتون صحافی جاں بحق
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- جیو نیوز کے مطابق الجزیرہ اور فلسطین کی وزارت صحت نے شیریں ابو اقلاح کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے خاتون صحافی شیریں ابو اقلاح کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کی وجوہات تو سامنے نہیں آ سکی ہیں تاہم سامنے آنے والی ویڈیوز کے مطابق خاتون صحافی کے سر پر گولی ماری گئی۔
صیہونی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق شیریں ابو اقلاح الجزیرہ کی عربی سروس کی ممتاز صحافی تھیں۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شیریں ابواقلاح کی فورسز کی فائرنگ سے موت پر اسرائیل کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
عالم اسلام اور انہدام جنت البقیع
حوزہ نیوز ایجنسی । ہم روز انہدام جنت البقیع پر عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہیں۔کیا انہدام جنت البقیع کا مسئلہ کسی خاص گروہ سے مخصوص ہے ؟ کیا یہ صرف شیعوں سے مخصوص ہے ؟ یا ہر محب اہل ابیت علیہم السلام سے مربوط ہے ؟ بعض اسلامی دانشوروں کے بقول " انہدام جنت البقیع کا مسئلہ بھی روز قدس کی طرح صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ عالم اسلام سے مربوط ہے"۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف روضوں کو خراب کر دیا تھا۔ ان بارگاہوں میں امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اعداد وشمار کے مطابق ہزاروں صحابی اس مقدس زمین میں مدفون ہیں، ان میں سب سے پہلے نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار معصوم اولاد ؛ حضرت امام حسن بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام، حضرت علی ابن حسین سید ساجدین امام زین العابدین علیھماالسلام، حضرت محمد ابن علی الباقر علیھما السلام، اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق علیھما السلام بھی اس ارض مقدس میں مدفون ہیں۔ ان چار معصوم اماموں کی قبور ایک ساتھ ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت اہم اور بڑی شخصیات بھی وہاں مدفون ہیں جیسے حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ابراہیمؑ، حضرت محمد بن حنفیہؓ، حضرت حسن بن حسنؑ بن علیؑ، حضرت عقیلؓ بن ابی طالب حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؑ، حضرت علیؑ کی زوجہ ام البنین فاطمہ ؓالکلابیہ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ابتدائی اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے حضرت عثمان بن مضعونؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، اسی طرح تمام ازواجؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبروں کو(سوائے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ کی قبر جو جنت المعلیٰ مکہ میں موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓبنت حارث کی قبر جو کہ وادی سرف مکہ مکرمہ سے ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال میں مدینہ منورہ کی طرف میں موجود ہے )بھی اس کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔ اسی طرح بقیع میں پہلے صحابی حضرت اسعد بن زرارہ انصاری اور آخری صحابی سہل بن سعد الساعدی کی قبریں بھی موجود ہیں۔ پیامبر فرمایا کرتے تھے" کہ مجھ پر وحی آئی ہے کہ میں اس قبرستان میں جاوں اور مرحومین کے لئے دعا کروں"۔تاریخ گواہ ہے کہ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی بار سنہ 1220ھ میں اور دوسری بار سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ اس بنا پر شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو “یوم انہدام جنۃ البقیع” مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔
وہابیت کیا ہے اور اس کے عقاید کیا ہیں؟
انہدام جنت البقیع کو سمجھنے کے لئے وہابیوں کے عقاید کا جاننا بہت ضروری ہے وہابیت ایک تاریک وسیاہ فکر رکھنے والا فرقہ ہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا اعتقادات اور تبلیغات پر ایمان رکھتا ہے، اس کی بنیاد اور ترویج ایسے لوگوں نے رکھی اور جو کسی بھی صورت میں دین مقدس اسلام کی بھلائی اور خیرخواہی نہیں چاہتے تھے، انہوں نے اپنی فقہی مسائل اور طرز عمل میں کتاب الٰہی،اور سیرت وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف کیا، ایسے راستوں کا انتخاب کیا جس میں اپنی رائے اور فقہ سے اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کی تکفیر، قبروں کا انھدام، معصوم لوگوں کے سروں کو قطع کرنا، فصلوں اور نسلوں کو ختم کرنا جیسے دہشت اور وحشت پر مشتمل عقائد پائے جاتے ہیں اس کی واضح مثال آپ طول تاریخ میں خاص کر عصور متاخرہ اور حالیہ سالوں میں مشاہدہ کرسکتے ہیں، ان لوگوں نے اقوام عالم میں اسلام کا ایک مسخ شدہ چہرہ پیش کیا اور ہر طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ زمان حال میں اگر ان کی تخریبی کاروائیوں اور انسانیت سوز مظالم کو ملاحظہ کیا جائے تو ان کے افکار اور عقائد بڑی آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
انہوں نے سر عام اپنے عقیدے سے اختلاف رکھنے والوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو مسمار، انبیاء کرام علیھم السلام اور صلحاء کےمقدس مقامات کو منھدم، بے گناہ مجبور ومقہور خواتین کو اسیر، اور اسیروں کو زندہ جلانا جیسے مظالم کی انتہا کردی، جو دین اسلام کے مسلمہ اصولوں جیسے عفو درگزر، رحم، شفقت، احترام انسانیت، محبت واخوت وغیرہ کے سراسر خلاف تھے، ان تخریبی کاروائیوں کے ذریعے دین مقدس اسلام کے امن وآشتی اور محبت و احترام پر مبنی تعلیمات اور اصولوں کو غیر مسلمانوں کی نگاہ میں مشکوک قرار دیدیا اوران تمام تخریبی اور دہشت گردی کے جواز کے لیے دلیل کے طور شرک وکفر کا سہارا لیا، اور یہ اعلان کیا کہ توحید صرف وہی ہے جو ان کی سمجھ میں آئی ہوئی ہے، اس کے علاوہ جو بھی اسلامی فرقے ہیں وہ سب گمراہ اور شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ سارے استعماری سازشوں اور اسلامی دشمنی میں سرانجام دیا گیا اور ظاہرا اسلام کو بدنام کرنے لیے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی گئیں۔
ان کی فکری پستی اور عقیدتی انحراف کی علامات اور نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمدا مسلمانوں کی قبروں کو منھدم اور سطح زمین کے برابر کرنے کے قائل ہیں چاہیے وہ جنت البقیع ہو، یا کوئی اور قبرستان، وہ قبروں کے نشانات کو مٹانے، لوگوں کو قبروں کی زیارات کرنے سے روکنے، اور مقدس مقامات کی توہین اور ہتک حرمت کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی غلط عقیدہ کی وجہ سے ۱۲۲۰ ہجری میں مدینہ منورہ پر یلغار کیا، ان کے محافظین کو قتل، مقدس آثارِدینیہ کو منہدم، اور عظیم اسلامی تاریخی درسگاہوں کو کو تباہ کردیا۔ اس ناپاک اور مذموم مقاصد پر مشتمل حملہ آور ہجوم نے مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں بخشا، وہاں پر موجود تبرکات، قیمتی اشیاء، جواہرات کو لوٹ لیا، اور بقیع میں موجود تمام مقدس مقامات کو منھدم کردیا، من جملہ چار معصوم اماموں کے مقدس مزارات کو بھی تباہ کردیا۔ اسی طرح ایک اور تخریبی حرکت اور دھاوا سن !۱۳۴۴ ھجری میں بھی دہرایا گیا، اور پہلی تخریب کاری کے بعد جو مقدس مقامات دوبارہ سے تعمیر کی گئی تھی انہیں پھر سے منھدم کرکے سطح زمین کے برابر کردیا ۔یہاں تک مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبہ اور ضریح مبارک کو منھدم کرنے کی دھمکی مسلسل دی گئی اور ابھی تک دی جارہی ہے، اگر باقی مسلمانوں کے رد عمل کا خوف نہ ہوتا تو شاید ابھی تک منھدم کرچکے ہوتے۔
اس بنا پر علماء اسلام نے آٹھ شوال کو یوم الھدم کے عنوان سے یاد کیا ہے اور یہ مسلمانوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ مجالس عزا میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں اور ہر سال آٹھ شوال کو مجالس کے انعقاد اور مرثیہ خوانی کے ذریعے آئمہ بقیع کی یاد مناتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ وقت جلد آئے کہ جب مزارات کی تعمیر نو کا مطالبہ عملی ہو سکے۔
تحریر: محمد جواد حبیب