
سلیمانی
ایران کی لاس اینجلس میں لگی آگ پر قابو پانے کیلئے امریکا کو مدد کی پیشکش
امریکی شہر لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی بدترین آگ پر قابو پانے کے لیے ایران نے امریکا کو مدد کی پیشکش کر دی۔ ایرانی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایرانی ہلال احمر کے سربراہ پیر حسین کولیوند نے امریکی ریڈ کراس کے سربراہ کلف ہولٹ کو لکھے گئے خط میں امداد بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے اپنے وسیع تجربے کے باعث ایرانی ہلال احمر متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر خصوصی ریپڈ ایکشن ٹیمیں اور ریسکیو سامان بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق پیر حسین کولیوند نے کلف ہولٹ کو یقین دلایا کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ تنہا نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ لاس اینجلس میں منگل سے لگی تاریخ کی بدترین آگ پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آگ سے 16 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں جبکہ 13 افراد تاحال لاپتا ہیں، جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔ آگ کے باعث 12 ہزار سے زائد مکان اور عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں ہیں، جبکہ 2 لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق 12 ہزار سے زائد فائر فائٹرز، ساڑھے 1100 فائر انجن، 60 طیارے اور 143 واٹر ٹینکر آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
کیلی فورنیا، وسیع آتش زدگی میں کم سے کم 10 لوگوں کی ہلاکت، اموات کی تعداد بڑھنے کا خدشہ
اے بی سی نیوز کے مطابق، حکومت نے مزید 1 لاکھ 80 ہزار لوگوں کو گھر خالی کرکے محفوظ مقامات کا رخ کرنے کی ہدایت دی ہے جبکہ حساس علاقوں میں 400 فایر فائٹر تعینات کردیے گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ آگ کے شعبے پاساڈینا علاقے تک پھیل چکے ہیں اور 5 مختلف علاقوں میں آگ کو بجھانے کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ لاس اینجیلس کے پرتعیش مکانات اور مراکز جل کے خاک ہوچکے ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ صورتحال دنیا کے آخری دن کی منظرکشی کر رہی ہے۔
ایران میں تیار شدہ نیا اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم دشمنوں کو اندازوں کو پاش پاش کردے گا، آئی آر جی سے کے ایئرڈیفنس کے سربراہ جنرل شیخیان
جنرل داؤود شیخیان نے جمعرات کو ایک تفصیلی ٹی وی انٹرویو کے دوران بتایا کہ دشمنوں کے ایف 35 اور ایف 22 اسٹیلتھ جنگی طیاروں کا، ریڈار کے ذریعے انکشاف آسان نہیں، لیکن ہم نے ملک کے اندر ایئرڈیفنس کی ایسی ٹیکنالوجی اور صلاحیتیں حاصل کی ہیں اور ایسے وسائل تیار کرلیے ہیں جن کی بنیاد پر دشمنوں کے ترقی یافتہ جنگی طیاروں کا بچ نکلنا ناممکن ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ "دزفول"، "سوم خرداد" اور "9 دی" نام کے ایرانی ایئرڈیفنس سسٹموں کی کارکردگی مکمل طور پر کامیاب رہی ہے اور صیہونیوں کا یہ دعوی کہ ایران کے ایئرڈیفنس سسٹم کو تباہ کردیا گیا ہے، ان کی خام خيالی اور کھلا جھوٹ ہے۔
جنرل شیخیان نے کہا کہ "وعدہ صادق 2" کارروائی کے بعد صیہونیوں نے مذکورہ جھوٹ کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن فوج اور سپاہ پاسداران نے ملک گیر ایئرڈیفنس مشقیں کرکے صیہونی حکومت کے جھوٹ کو برملا کردیا۔
انہوں نے کہا کہ صیہونیوں کے حملے میں پہنچنے والا نقصان انتہائی محدود تھا جس کو نہ صرف فوری طور پر ٹھیک کردیا گیا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ ایئرڈیفنس کی تقویت کردی گئی۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے فضائی دفاعی نظام کے سربراہ نے بتایا کہ اس بار کی سپاہ اور فوج کی مشترکہ مشقوں میں نطنز ایٹمی تنصیبات پر حملے کا سیمولیشن بھی کیا گیا جس میں ہمارے فضائی دفاعی نظام نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں سرخرو کردیا۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے ڈرون طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی خاص قسم کا ایئرڈیفنس تیار اور کامیابی کے ساتھ آزما لیا گیا ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام
امام محمد تقی علیہ السلام
محمد بن علی بن موسی (سنہ 195-220ھ)، امام محمد تقی ؑ اور امام جوادؑ کے نام سے مشہور شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر اور لقب جواد اور ابن الرضا ہے۔ آپؑ کو جواد لقب ملنے کہ وجہ آپؑ کی بکثرت بخشش و عطا ہے۔ آپؑ نے دوران خلافت مامون عباسی اور معتصم عباسی 17 سال امامت کے فرائض انجام دیے۔ اکثر منابع تاریخی کے مطابق امام محمد تقیؑ سنہ 220ہجری ماہ ذی القعدہ کی آخری تاریخ کو 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہؑ میں آپ جوان ترین امام ہیں جنہیں شہید کیے گئے۔ آپؑ کو کاظمین میں اپنے جد امجد امام موسی کاظمؑ کے جوار میں مقبرہ قریش میں دفن کیا گیا۔
بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب آپ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید کا شکار ہوئے۔ امام رضاؑ کے بعض اصحاب عبدالله بن موسی کی امامت کے قائل ہوئے جبکہ بعض دیگر احمد بن موسی شاہچراغ کو امام ماننے لگے۔ بعض نے واقفیہ کا راستہ اختیار کیا۔ البتہ اکثریت نے آپؑ کی امامت کو قبول کیا۔
امام محمد تقیؑ کا وکالتی نظام کے تحت خط و کتابت کے ذریعے لوگوں سے رابطہ رہتا تھا۔ آپؑ کے دور امامت میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرقے بہت سرگرم تھے اسی وجہ سے آپ اپنے ماننے والوں کو ان مذاہب کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے منع کرتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔
امام جوادؑ کے دوسرے مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ کلامی مناظرے جیسے شیخین (ابو بکر و عمر) کی خلافت کا مسئلہ، کےعلاوہ فقہی مناظرے ہوئے؛ جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا اور احکام حج وغیر۔ امام محمد تقیؑ سے صرف 250 احادیث نقل ہوئی ہیں۔ نقل حدیث کی قلت کہ یہ وجہ بتائی گئی ہےکہ اولا امام کم عمری میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے ثانیا آپؑ کو اپنے ہم عصر خلفا نے اپنے تحت نظر رکھا۔ آپؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں اور اصحاب کی تعداد 115 سے 193 بتائی گئی ہے۔ احمد بن ابینصر بزنطی، صفوان بن یحیی اور عبد العظیم حسنی آپؑ کے اصحاب مہیں شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ کتبمیں آپؑ سےمنسوب کچھ کرامات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں ولادت کے فورا بعد بات کرنا، طی الارض، مریضوں کو شفا دینا اور استجابت دعا شامل ہیں۔ اہل سنت کے علما بھی امام جوادؑ کے علمی اور روحانی مقام و مرتبے کے معترف ہیں لہذا وہ لوگ بھی آپؑ کی تعریف و تمجید اور احترام کرتے ہیں۔
نسب، کنیت اور القاب
محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضاؑ شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔[1] آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں جن کا نام سبیکہ نوبیہ تھا۔[2]
آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔[3] منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے۔[4] تا کہ اسم کےلحاظ سے ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے مشتبہ نہ ہو۔[5]
جواد اور ابن الرضا آپؑ کے مشہور القاب میں شمار ہوتے ہیں۔[6] جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل،[7] مرتضی اور منتجَب[8] آپؑ کے دوسرے القاب ہیں۔
زندگی نامہ امام محمد تقیؑ
10رجب 195ھ ولادت امام محمد تقیؑ[9]
200ھ امام رضاؑ کا مرو کی طرف سفر
30 صفر 203ھ شہادت امام رضاؑ اور امام محمد تقیؑ کی امامت کا آغاز[10]
15ذیالحجہ 212ھ ولادت امام علی النقیؑ[11]
214ھ ولادت موسی مبرقع[12]
215ھ ام الفضل سے شادی[13]
18رجب 218ھ مأمون کی وفات اور معتصم کی خلافت کا آغاز[14]
28محرم 220ھ امام محمد تقیؑ کا معتصم کے توسط بغداد میں احضار[15]
30 ذی القعدہ 220ھ شہادت امام محمد تقیؑ[16]
سوانح حیات
آپؑ کی ولادت سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔[17] لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[18] زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔[19] بعض نے 15 رمضان[20] اور بعض دیگر نے 19 رمضان[21] نقل کی ہے۔[22] شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔[23]
کتاب کافی کی روایت کےمطابق امام محمد تقیؑ کی ولادت سےقبل واقفی مذہب کے بعض افراد امام رضاؑ کے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپؑ کی امامت میں شک و تردید کرنے لگے۔[24] یہی سبب ہے کہ جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی امام رضاؑ نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔[25] ان کی ولادت کے باجود بھی بعض واقفیہ نے امام رضاؑ سے ان کے انتساب کا انکار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ امام محمد تقیؑ شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے والد امام رضاؑ سے شباہت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ قیافہ شناس افراد کو بلایا گیا۔ ان کے کہنے سے آپ کو امام رضاؑ کا فرزند مانا گیا۔[26] آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہوئے ہیں۔[27] اس کا سبب عباسی حکومت کی طرف سے سیاسی طور پر نظر بندی، تقیہ اور آپ کی کم عمری بتایا گیا ہے۔[28] آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا[29] اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔
ازدواجی زندگی
سنہ 202ھ[30] یا 215ھ[31] میں امام محمد تقی کی شادی مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔ بعض مآخذ میں احتمال ظاہر کیا گیا ہے کہ امام محمد تقیؑ کی اپنے پدر امام رضاؑ سے خراسان میں ملاقات کے دوران مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام جوادؑ سے کرادی ہے۔[32] اہل سنت مورخ ابن کثیر((701-774ھ)) کے مطابق امام محمد تقیؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح حضرت امام رضاؑ کی حیات میں پڑھا گیا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 215 ہجری میں عراق کے شہر تکریت میں ہوئی۔[33]
تاریخی منابع کے مطابق یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی۔[34] مامون کا مقصد یہ تھا کہ اس شادی کے نتیجے میں وہ پیغمبر اکرم (ص) و امام علی (ع) کی نسل سے پیدا ہونے والے بچے کا نانا قرار پائے گا۔[35] کتاب الارشاد میں شیخ مفید کے نقل کے مطابھ، مامون نے امام محمد تقیؑ کے علم و فضل، دانش و حکمت، ادب و کمال اور امامؑ کی کم سنی کے باوجود بے مثال عقل کو دیکھ کر اپنی بیٹی کا عقد امام سے کیا۔[36] لیکن بعض محققین جیسے رسول جعفریان (پیدائش: 1343ہجری شمسی) کا ماننا ہے کہ مامون نے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے یہ شادی کرادی تھی۔ منجملہ اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے ذریعہ امامؑ اور شیعوں سے ان کے رابطے پر نظر رکھنا چاہتا تھا۔[37] یا خود کو علویوں کا چاہنے والا پیش کرے تاکہ وہ اس کے خلاف قیام نہ کریں۔[38] شیخ مفید کے نقل کے مطابق مامون کے قریبی بعض عباسیوں نے اس شادی پر اعتراض کیا۔ ان کے اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر محسوس ہوا کہ کہیں حکومت، عباسیوں کے ہاتھ سے نکل کر علویوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔[39] امامؑ نے اس ام الفضل کا حق مہر حضرت زہراءؑ کے حق مہر یعنی 500 درہم رکھا۔[40] ام الفضل سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[41]
امام محمد تقیؑ کی دوسری زوجہ سمانہ مغربیہ تھیں[42] وہ ایک کینز تھیں جنہیں خود امام کے حکم سے خریدی گئی تھی۔[43] امام کی تمام اولاد اسی زوجہ سے ہوئیں۔[44]
حوالہ جات
طبری، دلائل الامامہ، 1413ھ، ص396.
کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص492؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ھ، ص216.
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نشر علامہ، ج4، ص379.
کلینی، اصول کافی، ج1، ص315و492۔ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص1۔
اربلی، کشف الغمہ، 1421ھ، ج2، ص857.
مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص281.
ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نشر علامہ، ج4، ص379؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج50، ص12، 13.
مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص295.
طوسی، مصباح المتہجد، المکتبۃ الاسلامیۃ، ص805.
طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص41.
مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297.
بحرانی، عوالم العلوم و المعارف، قم، ج23، ص553.
مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1426ق، ص223.
طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج8، ص646.
مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص295.
اشعری، المقالات و الفرق، 1361ش، ص99؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص106.
مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص91.
نگاه کریں: طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص91؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص379.
مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص91.
برای نمونہ نگاه کریں: اشعری، المقالات و الفرھ، 1361یجری شمسی، ص99.
اربلی، کشف الغمہ، 1421ھ، ج2، ص867؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ھ، ص216؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص379.
ابن فتال، روضة الواعظین، 1375ھ، ج1، ص243.
طوسی، مصباح المتهجد، المکتبة الاسلامیة، ص805.
نگاه کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص320.
مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج50، ص20،23،35.
کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص323.
جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476.
جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص476-477.
بیهقی، تاریخ بیهھ، 1361یجری شمسی، ص46.
طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج8، ص566.
مسعودی، اثبات الوصیة، 1426ھ، ص223.
جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص478.
ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج10، ص295۔
برای نمونہ نگاه کریں: مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص281.
یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص455.
مفید، الارشاد، 1372یجری شمسی، ج2، ص281-282.
جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381یجری شمسی، ص478.
پیشوایی، سیره پیشوایان، 1379یجری شمسی، ص558.
مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص281؛ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص380-381.
مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص285.
ابنشهرآشوب، مناقب آل ابیطالب، نشر علامہ، ج4، ص380.
قمی، منتہی الامال، ج2، ص235۔
حسّون، أعلام النساء المؤمنات، 1421ھ، ص517.
قمی، منتهی الامال، 1386یجری شمسی، ج2، ص497.
محبتِ اہل بیتؑ اور اُن سے تمسک اللہ اور رسولؐ کا حکم ہے: سابق مفتی اعظم مصر
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الازہر کی کبار علماء کونسل کے رکن اور مصر کے سابق مفتی، علی جمعہ نے اہلبیت اظہار علیہم السلام کی محبت اور ان سے تمسک پر زور دیا۔ انہوں نے قرآنی آیت "قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جس میں رسولؐ کو اہل بیتؑ کی محبت کو لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔
علی جمعہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ثقلین کا ذکر کیا جس میں نبی کریمؐ نے فرمایا: "میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں؛ ایک اللہ کی کتاب، جس میں ہدایت اور نور ہے، اور دوسرا میرے اہل بیتؑ۔" انہوں نے کہا کہ نبی کریمؐ نے امت کو تاکید کی کہ قرآن اور اہل بیتؑ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں تاکہ گمراہی سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہؐ نے اہل بیتؑ کی پیروی کو دین کی بقا کے لیے ضروری قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیتؑ سے محبت اور ان کے اتباع کو دین کا حصہ بنایا ہے، اور یہ حکم ہر زمانے میں جاری ہے۔ اس محبت کا تسلسل ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہر دور میں موجود رہیں گے، کیونکہ ان کا وجود حق و حقیقت کی نشانی ہے۔
علی جمعہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کے نسب اور خاندان کو محفوظ نہیں رکھا سوائے اہلبیت رسول (ص) کے، اور یہ اہل بیتؑ کو امت کے لیے بطور دلیل باقی رکھنے کا واضح پیغام ہے۔
سابق مفتی مصر نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کو "کوثر" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے نبی کریمؐ کی اولاد کو کثرت کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلایا، جس سے نبوت کی حقیقت کو دوام ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ سے جاری ہوئی، اور اگرچہ ان کے ساتھ مختلف امتحانات اور ظلم و ستم کا سامنا رہا، لیکن اللہ نے ان کی نسل کو دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیلا دیا۔
انہوں نے کہا کہ اہل بیت علیہم السلام کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہؐ کی ذات اور ان کی تعلیمات نہ صرف ایک حقیقت تھیں بلکہ ان کا فیض قیامت تک جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی دنیا میں رسول اللہؐ کے نسب سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں جو اپنے کردار اور اعمال سے دین اسلام کی سچائی اور حقانیت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
یمن پر امریکی اور برطانوی حملے جارحیت کی بدترین مثال ہیں، ایران
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یمن کے شہری انفراسٹرکچر پر امریکہ اور برطانیہ کے نئے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ مجرمانہ کارروائیاں یمن کے بہادر عوام کو فلسطین کی حمایت سے نہیں روک سکتیں۔
اسماعیل بقائی نے کہا کہ صیہونی حکومت کی حمایت میں یمن کے بنیادی ڈھانچے پر امریکہ اور برطانیہ کے مسلسل حملے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی واضح خلاف ورزی اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے مطابق "جنگی جارحیت " کی بدترین مثال ہیں۔
انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی اور یمن کے اہم بنیادی ڈھانچے پر امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے فوجی حملوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی عدم فعالیت کی بھی شدید مذمت کی۔
بقائی نے کہا کہ سلامتی کونسل غزہ اور یمن پر جارحیت روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کی مرتکب ہوئی ہے۔
انہوں نے غزہ پر جاری قبضے، نسل کشی اور خطے کی اقوام کے خلاف جارحانہ حملوں کی روک تھام کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری خصوصاً اسلامی اور علاقائی ممالک کے سنجیدہ کردار پر زور دیا اور مطالبہ کیا کہ جارح ممالک اور ان کے حامیوں کو مزید بربریت سے روکنے کے لئے فیصلہ کن اقدام کیا جائے۔
شہید کا خون ہر گز ضائع نہیں ہوتا
شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے صدر بشار اسد کی حکومت گرا کر برسراقتدار آ جانے کے بعد کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بات کی جا رہی تھی کہ شام میں قربانیاں دینے والے شہدائے مدافع حرم کا خون ضائع ہو گیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر اس غلط فہمی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "بعض غلط تجزیے اور درست فہم نہ ہونے اور مسائل کو صحیح انداز میں نہ سمجھنے کے باعث یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور شاید اس بات کو پھیلاتے بھی ہیں کہ خطے میں تازہ ترین حالات کے باعث ان شہداء کا خون ضائع ہو گیا ہے جو حرم کے دفاع میں بہا۔ یہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر یہ (شہدائے مدافع حرم) نہ جاتے اور جہاد نہ کرتے اور شہید قاسم سلیمانی پہاڑوں اور بیابانوں میں جدوجہد نہ کرتے تو آج کوئی بھی حرم باقی نہ بچتا۔ نہ زینبیہ ہوتا نہ کربلا اور نہ ہی نجف۔"
اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں شہید کا خون نہ صرف ضائع نہیں ہوتا اور شہداء زندہ ہیں اور خدا کے حضور روحانی رزق حاصل کر رہے ہیں بلکہ دنیا میں بھی شہید کے خون کی برکت اور اثرات ہمیشگی ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے بعد والی نسلوں کو ہدایت دے کر ان میں بیداری پیدا کرتے رہتے ہیں۔ تحریک عاشورا اور شہدائے کربلا، خاص طور پر سید الشہداء امام حسین علیہ السلام، شہید کے خون کے موثر اور ہمیشگی ہونے کی اعلی مثال ہیں۔
2)۔ آیات قرآن کریم کی روشنی میں شہداء کے خون کا اثر کسی خاص وقت یا جگہ تک محدود نہیں ہوتا اور بندگی کا طریقہ یہ ہے شرعی ذمہ داری انجام دی جاتی ہے جبکہ نتیجہ پہلی ترجیح نہیں ہوتا۔ سورہ توبہ کی آیت 52 کی روشنی میں مجاہد فی سبیل اللہ اپنے جہاد میں دو بھلائیوں میں سے ایک پا لیتا ہے؛ یا بظاہر فتح حاصل کر لیتا ہے یا شہید ہو جاتا ہے۔
3)۔ سورہ محمد کی آیت 4 میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شہداء کے اعمال ہر گز ختم نہیں ہوتے۔ مزید برآں، قرآنی تعلیمات کی روشنی میں شہید "زندہ" ہے اور خدا کے حضور روحانی رزق پاتا ہے، مغفرت الہی کے مقام پر فائز ہوتا ہے اور عظیم اجر حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں شہادت کو شہید کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ شہید صدیقین اور صالحین کے ہمراہ محشور ہو گا۔
4)۔ امام زین العابدین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے شہید کی سات خصوصیات بیان فرماتے ہیں؛ تمام گناہان کی بخشش، شہید کا سر حور کے دامن میں، بہشتی لباس پہنایا جانا، بہشتی خوشبو سے معطر ہونا، بہشت میں اپنا مقام دیکھنا، بہشت میں مرضی کا مقام چن سکنا اور وجہ اللہ پر نگاہ کرنا۔ (وسائل الشیعہ، جلد 15، صفحہ 16)۔
5)۔ 2010ء کے عشرے میں شہید قاسم سلیمانی کی جانب سے مدافع حرم مجاہدین کے ہمراہ شام اور عراق میں جہادی سرگرمیوں کا پہلا نتیجہ مغربی صیہونی منصوبے "گریٹر مڈل ایسٹ" کی نابودی کی صورت میں ظاہر ہوا جس کا مقصد ایران سمیت خطے کے تمام بڑے ممالک کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کرنا تھا اور مغربی طاقتوں نے اس منصوبے پر 8 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ مزید برآں، شہدائے مدافع حرم کی جدوجہد کا ایک اور نتیجہ شام پر تکفیری دہشت گرد عناصر کا غلبہ 13 سال موخر ہو جانا تھا۔ یہ تیرہ برس ایران کے لیے اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے کا سنہری موقع ثابت ہوا۔ اس وقت ایران خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے اور وہ اکیلا ہی مغربی عبری سازشوں کا بھرپور مقابلہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح ان تیرہ برس میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی طاقت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
6)۔ شہید قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں شہدائے مدافع حرم کی جدوجہد کا سب سے بڑا ثمرہ، عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی کمر ٹوٹ جانا ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ شام اور عراق میں حکومت بنانے کے درپے تھا اور شہدائے مدافع حرم نے اس کی یہ آرزو مٹی میں ملادی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی سوچ اور عقائد، مقدس مقامات کے لیے بہت بڑا خطرہ تھے۔
7)۔ شہدائے مدافع حرم نے اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مزارات مقدس کی حفاظت کا نعرہ لگایا اور شام اور عراق میں مقدس مقامات کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی کے بعد جو حالیہ دہشت گرد گروہ شام میں برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے مقدس مقامات کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
حق اور باطل کے معرکے میں شہید کا خون، مقدس اہداف کے حصول اور حق کے محاذ کی فتح کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ دفاع مقدس میں بھی شہداء کے خون نے جنگ میں فتح کو یقینی بنایا تھا اور عراق میں بھی شہداء کا خون تھا جس نے کربلا کا راستہ کھولا اور اسلامی مزاحمت کا بیج بویا۔ شہداء کے خون نے ہی آمر بعث پارٹی کی جڑیں اکھاڑ پھینکیں اور اربعین کی راہ ہموار کر دی۔ اسی طرح لبنان میں بھی حزب اللہ کے شجرہ طیبہ کا درخت، 18 برس کے غاصبانہ تسلط اور صیہونی ظلم و ستم کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بڑا ہوا۔ امام خمینی رح نے بھی دفاع مقدس کے بارے میں غلط تجزیات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جنگ میں ایک لمحے کے لیے بھی پشیمانی کا شکار نہیں ہوئے اور جو کچھ پایا ہے وہ شہداء کے خون کی برکت سے ہے۔
تحریر: سید عبداللہ متولیان
قم: ہزاروں لوگوں کی رہبر انقلاب اسلامی ایران سے ملاقات
رہبر انقلاب اسلامی ایران: امریکہ ایران میں ناکام ہو چکا ہے اور اب تلافی کرنے کی کوشش کر رہا ہے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ 8 جنوری کو قم میں ہزاروں افراد کے ساتھ ایک ملاقات میں پہلوی دور میں ایران کو امریکی مفادات کا گڑھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انقلاب کا سرچشمہ اس قلعہ کے دل سے پھوٹا اور امریکیوں کو سمجھ نہیں آئی، امریکی دھوکہ کھا گئے، وہ سوئے رہے، غافل رہے، امریکیوں کی یہ حسابی غلطی ہے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس کے بعد سے لے کر آج تک ان چند دہائیوں کے دوران امریکیوں نے ایران کے مسئلہ میں اکثر غلطیاں کی ہیں اور غلط اندازے لگائے ہیں، انہوں نے تاکید کی کہ میری اس بات کے مخاطب زیادہ تر وہ سامعین ہیں جو امریکی پالیسیوں سے مرعوب ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی پروپیگنڈہ میڈیا وار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا پروپیگنڈہ کا کام جھوٹ بولنا اور حقیقت اور رائے عامہ کے افکار کے درمیان فاصلہ رکھنا ہے۔ آپ مضبوط ہو رہے ہوں، وہ شور کرتا ہے، آپ کمزور ہو رہے ہیں، وہ کمزور ہو رہا ہے، مگر پبلسٹی کرتا ہے کہ وہ مضبوط ہو رہا ہے۔ تم ناقابل تسخیر ہو جاؤ، وہ کہتا ہے میں تمہیں دھمکیاں دے کر تباہ کر دوں گا! یہ پروپیگنڈہ ہے جس سے کچھ لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے تبلیغی اور ثقافتی اداروں، براڈکاسٹنگ منسٹری (ریڈیو و ٹیلیوژن) اور سائبر اسپیس ورکرز کا بنیادی اور اہم کام دشمن کی حاکمیت کے جھوٹے بھرم کے راز فاش کرنا ہے، اسے توڑنا ہے، دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانا ہے تاکہ وہ رائے عامہ پر اثرانداز نہ ہوسکیں، یہ وہ کام ہے جو اسوقت قم والوں نے کیا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ امریکہ کے ساتھ نہ مذاکرات پر آمادہ ہیں اور نہ ہی بات چیت پر تیار ہیں، یورپی ممالک بھی امریکہ کی طرح ہیں، کیا فرق ہے؟ آپ نے ان سے تعلق کیوں رکھا، جیسا کہ ان کے سفارت خانہ ہیں، امریکہ کا بھی سفارت خانہ رکھنا چاہیے، بالکل نہیں! فرق یہ ہے کہ یہاں امریکہ نے قبضہ کیا تھا، اسے اس کے تسلط سے نکالا گیا، اس کی ایران اور انقلاب سے نفرت "کینہ شتری" (اونٹ کا کینہ) جیسی نفرت ہے، وہ آسانی سے ہار نہیں مانے گا، امریکہ یورپی ممالک سے مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں یورپی ممالک ایرانی عوام کے وفادار دوست نہیں ہیں، لیکن یہ اس سے بہت مختلف ہے، امریکہ نے اسلامی انقلاب کے ساتھ ایک بہت بڑی دولت، ایک بہت بڑا سیاسی اور اقتصادی خزانہ کھو دیا ہے اور پھر اس نے ان چالیس سال میں ایران کو اسلامی انقلاب سے چھڑانے اور دوبارہ اپنے کنٹرول میں لانے میں بہت محنت کی مگر ناکام رہا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی بغض ایک دوسرے ممالک کی رنجش سے مختلف بلکہ بہت مختلف ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے درمیان فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران میں ناکام ہو چکا ہے، اور وہ اس ناکامی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے وہ ہر طرح سے دشمنی کر رہا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پالیسیوں میں، مثال کے طور پر، ملکی معیشت کی %8 نمو (پیش گوئی) ہے، تو بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے! لیکن صدر ایران ایگزیبیشن آف اکنامک ایکٹیوسٹ میں گئے، وہاں ماہرین نے نہ صرف کہا بلکہ ثابت کیا کہ ہم بیرونی ممالک کے بغیر 8٪ فیصد ترقی دے سکتے ہیں۔ اور صدر نے انکی ہی بات دہرائی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ثقافتی اور اقتصادی مسائل، افراط زر، پیداوار، کرنسی کے مسائل اور حجاب کے مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ امریکی مطالبات اور امریکی موقف کو اہمیت دیں اور نہ ہی صیہونیوں کے موقف پر کان دھریں، وہ صرف ملکی مفادات اور اسلامی جمہوریہ بنانے کے مفادات کا خیال رکھیں۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے بارے میں صدر ایران کے دو ٹوک موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خوش قسمتی سے صیہونی حکومت کے بارے میں ہمارے محترم صدر کے بے باک اور جرأت مندانہ موقف نے عوام کو خوش کیا، انہوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کی حرکات و سکنات دونوں کے بارے میں واضح اور فیصلہ کن موقف اختیار کیا جو بہت اچھا ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے، اس معاملے میں ملکی حکام کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے مطالبات کو تسلیم نہ کریں جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں اور ایران کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کے کسی بھی خطے میں صیہونی ظلم کے خلاف مزاحمت پر ایران کی حمایت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت زندہ ہے اور نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ روز بروز مضبوط ہوگی، اور ہم مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں، غزہ میں مزاحمت، مغربی کنارے کی مزاحمت، لبنان میں مزاحمت، یمن میں مزاحمت، ہر اس جگہ جہاں خبیث صیہونی حکومت کی بدنیتی پر مبنی ظلم پر مزاحمت ہوگی، ہم اس کی حمایت کریں گے۔
شناخت ماه رجب
رجب، قمری کیلنڈر کا ساتواں مہینہ اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، جس میں جنگ و خونریزی ممنوع ہے۔ یہ مہینہ کئی اہم واقعات کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے، جیسے بعثتِ رسول اکرم ﷺ اور حضرت علی علیہ السلام کی ولادت۔ اسلامی کیلنڈر میں اسے خاص مقام حاصل ہے۔ لفظ "رجب" عربی لفظ "ر ج ب" سے نکلا ہے، جس کے معنی "عزت دی گئی" اور "بزرگی والا" ہیں۔ اس نام کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ قدیم زمانے سے عرب اس مہینے کو عزت و احترام دیتے اور اس میں جنگ سے پرہیز کرتے تھے۔ رجب کے دیگر نام بھی ہیں، جیسے رجب الفرد، رجب المضَر، رجب الاصم، رجب المرجب، رجب الحرام، منصل الأسنة، اور منصل الألّ۔ ان میں سے ہر نام اس مہینے کی کسی خاص خصوصیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ مثلاً، رجب الفرد اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دیگر حرمت والے مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم) سے الگ ہے، اور رجب المضَر اس لیے کہ قبیلہ مُضَر اسے خصوصی احترام دیتا تھا۔
رجب حرمت والے مہینوں میں شامل ہے لیکن یہ دیگر حرمت والے مہینوں سے الگ واقع ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سال کا آغاز رجب سے ہوتا تھا، اور کبیسہ مہینہ جمادی الآخرہ کے بعد اور رجب سے پہلے ہوتا تھا۔ جاہلی دور میں عربوں کے ہاں رجب کو بہت زیادہ عزت دی جاتی تھی۔ اس مہینے میں جنگ، خونریزی، قتل، لوٹ مار، اور حملے حرام سمجھے جاتے تھے۔ رجب کے دوران کئی موسمی بازار بھی لگتے تھے، جیسے صحار کا بازار جو رجب کی پہلی تاریخ کو شروع ہوتا تھا، اور دَبا کا بازار جو آخر ماہ تک جاری رہتا تھا۔ اسلام کے ظہور کے بعد اس مہینے کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور اس کی مذہبی حیثیت کو مزید تقدس ملا۔