سلیمانی

سلیمانی

تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

حضرت امام حسینؑ کے سر مبارک کا نوک نیزہ پر قرآن پڑھنا یہ تاریخ کربلاء میں ایسی واضح بات ہے کہ جس کو علماء تشیع اور علماء اہلسنت سب نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جب کاروان حریت 12 محرم کو کوفہ میں پہنچا۔ تین دن قید میں رکھنے کے بعد ابن زیاد نے 15 محرم کو امام حُسین کا سر دوسرے شہداء کے سروں کے ساتھ یزید کی طرف شام روانہ کر دیا۔ ارشاد شیخ مفید میں درج ہے کہ زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ ابن زیاد کے دربار میں مظلوم کربلا کا مقدس سر میرے پاس سے گزرا جو نیزے کی نوک پر سوار تھا جبکہ میں اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، جب وہ میرے پاس سے گزرا تو وہ کچھ پڑھ رہا تھا، میں نے توجہ کے ساتھ کان لگا کر سنا تو وہ سورہ کہف کی نویں آیت کی تلاوت کر رہا تھا: ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کانو من ایا تنا عجبا "کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصحاب کہیف ورقیم (غار اور کتے والے) ہماری تعجب کے قابل نشانیوں میں سے تھے۔" خدا کی قسم میں یہ منظر دیکھ کر لرز گیا اور بلند آواز کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ کا مقدس سر اصحاب کہف سے زیادہ حیران کن اور تعجب آور ہے۔

امام حُسین علیہ السلام کے سر مبارک سے تلاوت کا دوسر واقعہ حران میں ہوا۔
کوفہ سے شام جاتے ہوئے کاروان حریت چلتے چلتے حران نامی ایک جگہ کے نزدیک پہنچ گیا، اس شہر کی چوٹی پر یحیٰی خزائی نامی یہودی کا مکان تھا۔ وہ استقبال کے لئے آیا اور قیدیوں کا تماشہ دیکھنے لگا اور اس کی نگاہ حضرت امام حُسین کے سر مبارک پر پڑ گئی، اس نے دیکھا کہ آپ کے مبارک لبوں سے کوئی آواز آرہی ہے، اس نے جب کان لگا کر سنا تو وہ سورہ شعراء کی 227 کی تلاوت رہا تھا: وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون "اور عنقریب ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ جائیں گے۔" یہ مظر دیکھ کر یحیٰی حیران و پریشان ہوگیا، اس نے پوچھا یہ کس کا سر ہے۔؟ حسین بن علی کا، اس نے کہا۔ یہودی نے کہا کہ اگر اس کا دین برحق نہ ہوتا تو یہ کرامت اس سے ہرگز ظاہر نہ ہوتی۔ اس نے یہ کہا اور زبان پر کلمہ جاری کر دیا اور مسلمان ہوگیا۔

اپنے سر پر موجود عمامے کے کئی ٹکڑے کئے اور بے مقنع و چادر سیدانیوں کے سر پر ڈالے اور ایک قیمتی پوشاک جو خود زیب تن کئے ہوئے تھا، اتار کر امام زین العابدین کی خدمت میں پیش کی اور ایک ہزار درہم آقا کی خدمت میں پیش کئے۔ سر کے لئے متعین سپاہیوں نے دیکھا تو بلند آواز سے کہا خلیفہ یزید کے دشمنوں کی امداد اور حمایت کر رہے ہو، پرے ہٹ جاو، ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ یحیٰی نے دفاع کے لئے نیام سے تلوار نکالی، سپاہیوں نے اس پر حملہ کیا، اس نے بھی پانچ سپاہیوں کو جہنم رسید کیا اور خود بھی شہید ہوگیا، اس شہید کا مقبرہ حران میں ہے۔ منھال بن عمروؓ کہتے ہیں کہ: "خدا کی قسم! میں نے حسین ابن علیؑ کے سر کو نیزے پر دیکھا ہے اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ وہ سر آیت قرآن کو پڑھ رہا تھا۔ آیت کے فوری بعد سر نے واضح اور بلیغ زبان میں کہا کہ اصحاب کہف سے زیادہ عجیب میرا قتل ہونا اور میرے سر کو نیزے پر اٹھانا ہے۔" نوک سناں پر سورہ کہف کی تلاوت جہاں ایک طرف سے معجزہ تھا آپؑ کا، وہاں لوگوں کو یہ بات سمجھا رہے تھے کہ حسینؑ اور ان کے ساتھی اصحاب کہف کی طرح حق پرست ہیں، جبکہ یزید اور اس کے پیرو کار دقیانوس کی طرح ظالم ہیں۔
نیزے پہ جو سر ہے وہی سر بلند ہے

فرانسیسی جریدے میں خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور سویڈن میں قران پاک جلائے جانے کے روح فرسا واقعات کے خلاف شیعہ علماء کونسل کے زیر اہتمام کراچی،اسلام آباد،لاہور، پشاور، ملتان، کوئٹہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں مرکزی، صوبائی اور ضلعی رہنماوں سمیت کارکنان کی کثیر تعداد نے شرکت کی احتجاج کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس میں اسلام دشمن صیہونی و نصرانی قوتوں کے خلاف نعرے درج تھے مظاہرین نے عالم استعماری و طاغوتی طاقتوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بھی لگائے اور گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف ان کی حکومتوں سے عالمی قانون کے تحت سخت کاروائی کا مطالبہ بھی کیا۔

کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناظر عباس تقوی نے کہا دین اسلام کے مقدسات کی توہین دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے مترادف ہے عالم اسلام کو بے بس سمجھنے والے احمق اور عالمی امن کے دشمن ہے مغرب کی اسلام دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کبھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا تو کبھی قر آن مجید کا جلانا اور اس کی توہین کرنا معمول بنتا جارہا ہے اور اس پر عالمی اداروں کی خاموشی قابل تشویش عمل ہے کسی کے مقدسات کی توہین کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے لہذا اس گھناونی شازش کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ اور او آئی سی اپنا بھر پور کر دار ادا کرے ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے جزبات مجروح ہوتے ہیں تو مغرب ممالک اس کو انتہاء پسندی کا نام دیتے ہیں جبکہ اپنے مقدسات کے تحظ کے لئے احتجاج کرنا یہ انتہاء پسندی نہیں ہے بلکہ مغرب کی جانب سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا انتہاء پسندی کے زمرے میں آتی ہے اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایک فرانسیسی جریدے کے ذریعے ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی (ص) کی شان میں گستاخی اور آپ کی مقدس ہستی کی توہین گناہ عظیم اور ناقابل معافی جرم ہے۔ آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ اس اقدام سے اسلام اور مسلم معاشرے سے مغربی دنیا کے ثقافتی و سیاسی اداروں کا بغض و عناد شر پسندی اور دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا ہے کہ آزادی بیان کے بہانے فرانس کے بعض سیاستدانوں کی جانب سے اس بڑے جرم کی مذمت نہ کرنا پوری طرح مسترد ، غلط اور عوام کو دھوکا دینا ہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ صیہونیوں اور سامراجی حکومتوں کی اسلام دشمن پالیسیاں ہی اس طرح کی دشمنانہ حرکتوں اور اقدامات کا عامل ہیں جو ہر کچھ دن پر سامنے آتی ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ اس حساس دور میں یہ اقدام مغربی ایشیا کی حکومتوں اور قوموں کے ذہنوں کو ان مذموم منصوبوں کی جانب سے موڑنے کی غرض سے انجام پایا ہے جو امریکہ اور صیہونی حکومت نے تیار کئے ہیں ۔آپ نے فرمایا ہے کہ مسلم امۃ خاص طور سے مغربی ایشیا کے ممالک کو چاہئے کہ اس حساس علاقے کے مسائل کی بابت ہوشیار رہتے ہوئے اسلام و مسلمین کے سلسلے میں مغربی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دشمنیوں کو ہرگز فراموش نہ کریں۔

یاد رہے کہ فرانسیسی جریدے چارلی ایبدو نے گذشتہ ہفتے منگل کو شان ختمی مرتبت میں ایک بار پھر گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) کے بارے میں توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں ۔

اموی حکومت کے حقیقی چہرے کو برملا کرنے کے سلسلے میں امام سجاد کا کردار اور انقلابی حکمت عملی
جزیرۃ العرب میں رسول اسلام خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی ظہور اور الہی معیارات پر قائم اسلامی احکام و دستور سے مقہور دور جاہلیت کے پروردہ امیہ و ابوسفیان کے پوتے یزید ابن معاویہ اور ان کے ذلہ خواروں کے ہاتھوں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد ظلم و استبداد کے نشہ میں چور اموی ملوکیت نے عصر جاہلیت کے انسانیت سوز رسم و رواج از سر نو اسلامی معاشرے میں رواج دینے پر کمر باندھ لی ۔
بنی امیہ کے اس استبدادی دور میں حسینی انقلاب کے پاسبان امام زين العابدین علیہ السلام کی ذمہ داریاں شعب ابی طالب میں محصور توحید پرستوں کی سختیوں ، بدر و احد کے معرکوں میں نبردآزما جیالوں کی تنہائیوں ، جمل و صفین کی مقابلہ آرائیوں میں شریک حق پرستوں اور نہروان و مدائن کی سازشوں سے دوچار علی (ع) و حسن (ع) کے ساتھیوں کی جان فشانیوں اور میدان کربلا میں پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں کے مراحل سے کم حیثیت کی حامل نہیں تھیں ۔قرآن کی محرومی ،اسلام کی لاچاری اور آل رسول (ص) کی مظلومی کے " یزید زدہ " ماحول میں امام سجاد (ع) کی حقیقی انقلابی روش میں گویا اسلام و قرآن کی تمام تعلیمات جمع ہوگئی تھیں
اور اسلامی دنیا آپ کے کردار و گفتار کے آئینہ میں ہی الہی احکام و معارف کا مطالعہ اور مشاہدہ کررہا تھا ۔روز عاشورا نیزہ و شمشیر اور سنان و تیر کی بارش میں امام حسین (ع) کے ساتھ ان کے تمام عزیز و جاں نثار شہید کردئے گئے مردوں میں صرف سید سجاد (ع) اور بچوں میں امام باقر (ع) شہادت کے کارزار میں زندہ بچے تھے جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ اہل حرم کے قافلہ سالار تھے ۔خون اور آگ کے درمیان امامت و ہدایت کی یہ دونوں شمعیں الہی ارادہ اور فیصلے کے تحت محفوظ رکھی گئی تھیں جنہوں نے اپنی نرم و لطیف حکمت آمیز روشنی کے ذریعہ عاشورا کے پیغامات تاریخ بشریت میں جاوداں بنادئے ۔امام زين العابدین علیہ السلام کو خدا نے محفوظ رکھا تھا کہ وہ اپنی 35 سالہ تبلیغی مہم کے دوران عاشورا کے سوگوار کے طور پر اپنے اشکوں اور دعاؤں کے ذریعہ اموی نفاق و جہالت کو ایمان و آگہی کی قوت عطا کرکے عدل و انصاف کی دار پر ہمیشہ کے لئے آویزاں کردیں اور دنیا کے مظلوموں کو بتادیں کہ اشک و دعا کی شمشیر سے بھی استبدادی قوتوں کے ساتھ جہاد و مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ظلم و عناد سے مرعوب بے حسی اور بے حیائي کے حصار میں بھی اشک و دعا کے ہتھیار سے تاریکیوں کے سینے چاک کئے جا سکتے ہیں اور پرچم حق کو سربلندی و سرافرازی عطا کی جا سکتی ہے ۔چنانچہ آج تاریخ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کبھی کبھی اشک و دعا کی زبان آہنی شمشیر سے زیادہ تیز چلتی ہے اور خود سروں کے سروں کا صفایا کردیتی ہے
۔امام زین العابدین ،سید سجاد، عبادتوں کی زینت ، بندگي اور بندہ نوازی کی آبرو ، دعا و مناجات کی جان ، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح سید سجاد جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی ، جنہوں نے دعا کو علو اور مناجات کو رسائي عطا کردی ،جن کی ایک ایک سانس تسبیح اور ایک ایک نفس شکر خدا سے معمور ہے جن کی دعاؤں کا ایک ایک فقرہ آدمیت کے لئے سرمایۂ نجات اور نصیحت و حکمت سے سرشار ہے امام زين العابدین علیہ السلام کی مناجاتوں کے طفیل آسمان سجادۂ بندگي اور زمین صحیفۂ زندگي بنی ہوئی ہے ۔آپ کی " صحیفۂ سجادیہ " کا ایک ایک ورق عطر جنت میں بسا ہوا ہے اور آپ کی صحیفۂ کاملہ کاایک ایک لفظ وحی الہی کا ترجمان ہے اسی لئے اس کو " زبور آل محمد " کہتے ہیں آپ خود سجاد بھی ہیں اور سید سجاد بھی ،عابد بھی ہیں اور زین العابدین بھی ۔کیونکہ عصر عاشور کو آپ کے بابا سید الشہداء امام حسین (ع) کا " سجدۂ آخر " گیارہ کی شب ، شام غریباں ہیں آپ کے " سجدۂ شکر " کے ساتھ متصل ہے ۔اکہتر قربانیاں پیش کرنے کے بعد امام حسین (ع) نے " سجدۂ آخر " کے ذریعہ سرخروئي حاصل کی اور جلے ہوئے خیموں کے درمیان ، چادروں سے محروم ماؤں اور بہنوں کی آہ و فریاد کے بیچ ، باپ کے سربریدہ کے سامنے سید سجاد کے " سجدۂ شکر " نے ان کو زین العابدین بنادیا ۔نماز عشاء کے بعد سجدۂ معبود میں رکھی گئی پیشانی اذان صبح پر بلند ہوئی اور یہ سجدہ شکر تاریخ بشریت کا زریں ترین ستارۂ قسمت بن گیا
۔باپ کا سجدۂ آخر اور بیٹے کا سجدۂ شکر اسلام کی حیات اور مسلمانوں کی نجات کا ضامن ہے ۔در حقیقت صبر و شجاعت اور حریت و آزادی کے پاسبان امام زين العابدین ، طوق و زنجیر میں جکڑدئے جانے کے باوجود لاچار و بیمار نہیں تھے بلکہ کوفہ و شام کے بے بس و لاچار بیماروں کے دل و دماغ کا علاج کرنے کے لئے گئے تھے ۔کوفہ بیمار تھا جس نے رسول (ص) و آل رسول (ص) سے اپنا اطاعت و دوستی کا پیمان توڑدیا تھا، کوفہ والے بیمار تھے جن کے سروں پر ابن زیاد کے خوف کا بخار چڑھا ہوا تھا اور حق و باطل کی تمیز ختم ہوگئی تھی شام بیمار تھا جہاں ملوکیت کی مسموم فضاؤں میں وحی و قرآن کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور اہلبیت نبوت و رسالت کومعاذاللہ " خارجی " اور ترک و دیلم کا قیدی قرار دیا جا رہا تھا
۔شام والے بیمار تھے جو خاندان رسول کے استقبال کے لئے سنگ و خشت لے کر جمع ہوئے تھے لیکن امام سجاد ان کے علاج کے لئے خون حسین (ع) سے رنگین خاک کربلا ساتھ لے کر گئے تھے کہ بنی امیہ کی زہریلی خوراک سے متاثر کوفیوں اور شامیوں کو خطرناک بیماریوں سے شفا عطا کریں ۔چنانچہ علی (ع) ابن الحسین (ع) اور ان کے ہمراہ خاندان رسول (ص) کی خواتین نے اپنے خطبوں اورتقریروں کی ذوالفقار سے کوفہ و شام کے ضمیر فروشوں کے سردو پارہ کردئے کوفہ جو گہرے خواب میں ڈوبا ہوا تھا خطبوں کی گونج سے جاگ اٹھا
شام نے جو جاں کنی کی آخری سانسیں لے رہا تھا زنجیروں کی جھنکار سے ایک نئي انگڑائی لی پورے عالم اسلام میں حیات و بیداری کی ایک ہلچل شروع ہوئی اور اموی حکومت کے بام و در لرزنے لگے ۔
 

یمنی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے عاشورائے محرم الحرام کی مناسبت سے ہونے والے اپنے خطاب کے دوران اسرائیل-امارات دوستی معاہدے سمیت غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی استواری کی شدید مذمت کی ہے۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے آج بعض مسلم ممالک کی موجودہ صورتحال کو بنی امیہ کے دور حکومت میں موجود حالات کے جیسا قرار دیا اور کہا کہ اسلامی دنیا کے اندر "اُموی باغیوں" کا اثر 

ایسی خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا کہ امتِ مسلمہ کے سپوتوں کے درمیان ذہنی شکست، ذلت، غیر ذمہ داری اور لاتعلقی نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو اصلی اسلام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُموی حکام چاہتے تھے کہ اسلام ایک ایسے دین میں بدل جائے، جس کے اندر کوئی حق بحال نہ رہے، باطل کو ناجائز قرار نہ دیا جائے، عدالت برقرار نہ ہو، (مسلمانوں کی) زندگی میں کوئی منصوبہ بندی باقی نہ رہے اور نہ ہی امتِ مسلمہ کی تشکیل 

میں کوئی کردار ادا کیا جا سکے۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی کوششوں، جانثاری اور ان کے باوفا اصحاب کی قربانی کے ذریعے نہ صرف اصلی اسلام کی بقاء کو محفوظ بنا دیا بلکہ اس کے ذریعے (حسینیوں کی) گفتار و کردار کے اندر حقانیت کو بھی تسلسل بخش دیا۔

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران یمن کی موجودہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یمنی عوام آج کے یزید "امریکہ و اسرائیل" کی غنڈہ گردی اور 

بدمعاشی کے سامنے ہرگز گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی آزاد عوام، "امتِ مسلمہ کے اندر موجود منافقت کے اس گڑھ" کے ساتھ شامل ہونے کے شدید خلاف ہے، جس کی نمائندہ "سعودی و اماراتی" حکومتیں ہیں۔ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے رَستے کو حقیقی اسلام کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رَستہ امتِ مسلمہ کے لئے امن و امان، آزادی اور دشمن کے دبدبے و پیروی سے نجات کا ضامن ہے۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا 

کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے روز یمنی قوم نے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور امارات کے حملوں و جارحیت کی بھرپور طریقے سے مذمت اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس جارحیت کے مقابلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرے گی۔ سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ فلسطینی امنگوں اور غاصب صیہونی رژیم و امریکہ کی مخالفت سمیت امتِ مسلمہ کے جاری مسائل کے بارے یمنی قوم کا موقف مستقل اور ناقابل تغیّر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی، 

شامی، عراقی، بحرینی اور ایرانی عوام سمیت برما، کشمیر اور دنیا کے تمام مقامات پر بسنے والے مسلمانوں کے بارے یمن کا موقف کبھی نہیں بدلے گا کیونکہ یہ موقف ہمارے دینی عقیدے کا ایک اہم جزو ہے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کی استواری کی نہ صرف شدید مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے شرعی طور پر بھی حرام جانتے ہیں۔

Tuesday, 01 September 2020 07:42

بِنائے لا الہ است حسین ؑ

تحریر: مظہر حسین ہاشمی

اِسلام کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اِسلام کا بچپن جناب ِابو طالب ؑ کی گود میں بہلتا نظر آئے گا، اِسلام کی جوانی رحمۃ اللعالمین کے دامن کی چھاﺅں تلے آرام کرتی نظر آئے گی اور اِسلام کا بڑھاپا مولا علی ؑکے طاقتور بازوﺅں کے آنگن میں سانس لیتا نظر آئے گا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اِسلام کو خود کو بچانے کیلئے حسین ؑجیسے لجپال کا سہارا اور پناہ لینا پڑی۔ حسین مولا کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ 8 جنوری 626ء بدھ کی صبح، خاتون ِجنت فاطمہ زہراؑ کی آغوش طاہرہ میں تشریف لائے۔ نانا رسول کی زُبان ِمبارک چوس چوس کر علم لدّنی کے وارث بنتے رہے۔ بابا علی ؑکی گود میں بیٹھ کر درس ِتوحید لیتے رہے۔ حبش کی شہزادی اماں فضہ ؓکے ہاتھوں جھولا جھولتے ہوئے لوری کی شکل میں ناطق قران ہوکر صامت قران کی تلاوت سنتے رہے۔ 627ء میں جنگ ِخندق میں نانا رسول کو نہ صرف یہ کہتے سنا کہ "قَد بَرَزَالِایمَان کلِّہ اِلَی الکُفرِکُلِّہ" (باتحقیق کل ِایمان، کل ِکفر کے مقابلے میں جا رہا ہے) بلکہ بابا علی ؑ کے ہاتھوں عمرو ابن ِعبدود کی گردن ہوا میں بھی اُڑتے ہوئے دیکھی۔

628ء میں جنگ خیبر میں ایک ہزار آدمیوں سے اکیلے لڑنے والے اور 39 دن تک مسلمانوں کو ڈرا کر مار بھگانے والے پہلوان مرحب و عنتر کو اپنے بابا کی ذوالفقار سے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ 630ء میں فتح مکہ کے دن اسلام کے ازلی دشمنوں کو نانا رسول اور بابا علی ؑکے سامنے سر جھکائے کھڑا دیکھا اور جب چلنا شروع کیا تو 631ء میں نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے، جھوٹوں پر لعنت کرنے  اور نانا رسول کی صداقت و رسالت کی گواہی دینے کیلئے اپنی طاہرہ ماں، ابو تراب بابا اور عظیم بھائی امام حسن ؑکے ساتھ نانا کی انگلی پکڑ کر گئے۔ کبھی اللہ کے صادق رسول کی زُبان ِمبارک سے حُسَینُ مِنّی وَاَنَا مِنَ الحسَین (حسین مجھ سے ہے اور مَیں حسین سے ہوں) جیسی فضیلت سنی، تو کبھی اَلحَسَنُ وَالحُسَین سَیَّدہ شَبَابِِ اَہلَ الجنّہ (حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں) کی بشارت سنی۔ کبھی جبریل ِامین ؑکو فطرس کے ساتھ اُس کا سفارشی بن کر آتے ہوئے دیکھا تو کبھی درزی بن کر جنت سے عید کے کپڑے لے کر آتے ہوئے دیکھا۔

632ء میں پنجتن پاک کے پانچویں بن کر زیر ِکساء آیہ تطہیر کے مصداق بنے۔ چند ماہ بعد میدان ِخم ِغدیر پر سوا لاکھ کے حاجیوں کے مجمع میں اپنے بابا علی ؑکا بازو نانا رسول کے ہاتھ میں نہ صرف بلند ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ مَن کُنتُ مَولَاہُ فَھَذَا عَلی مَولَاہ (جس کا مَیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے) کا اعلان بھی سنا اور بَخِن بَخِن (مبارک مبارک) کی آوازیں بھی بلند ہوتے ہوئے سنیں۔ پھر دو ماہ بعد 25 مئی 632ء کو اپنے شفیق نانا کی رحلت کا کبھی نہ بھلا سکنے والا غم بھی روتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ کریم نانا جو اپنی واللیل زلفیں ننھے ہاتھوں میں پکڑا کر سواری بن جاتے تھے، وہ شفیق نانا جو حسین ؑکو گرتا دیکھ کر مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دینا بھول جاتے تھے، وہ نمازی نانا جو نماز کے سجدہ میں 70 دفعہ سُبحَانَ رَبّ الاَعلیٰ پڑھنا تو گوارا کر لیتے تھے، لیکن حسین ؑکو اپنی پشت سے اُٹھانا پسند نہیں کرتے تھے۔

آپ نے اپنے بچپنے کے سات سال اپنے کریم نانا کی شفقت و محبت کے سائے میں گزارے۔ وہ رحمۃ اللعالمین نانا اب آپ کو اپنی اُمت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر داغ مفارقت دے گئے۔ ابھی نانا کو گئے عرصہ ہی کیا گزرا تھا کہ معصوم روتی آنکھوں سے اُس دروازے کو نہ صرف آگ لگتے دیکھا بلکہ اُس دروازے کو اپنی ماں زہراؑ کے پہلو پہ گرتے اور چھوٹے بھائی محسن کو ماں کے پیٹ میں شہید ہوتے بھی دیکھا۔ جس دروازے پر نانا رسول رُک کر آیہ تطہیر پڑھا کرتے تھے، جس پر سردارِ ملائکہ جبرائیل ؑاور ملک الموت عزرائیل ؑبھی اجازت لے کر آتے تھے، اُس عظیم اور مقدس گھر پر نہ صرف یلغار کی گئی بلکہ اپنے مولائے کائنات بابا اور سیدة النساء العالمین ماں پر ظلم و ناانصافی کے بادل بھی برستے ہوئے دیکھے۔ بقول شبنم شکیل
جس کی خاطر سے بنائی گئی دُنیا ساری
اہلِ دُنیا سے وہی گھر، نہیں دیکھا جاتا

حسین ؑمولا کو بچپن میں ہی سمجھ آگئی کہ سقیفہ میں کربلا کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔ ابھی یہ غم تازہ تھا کہ سات سال کی عمر میں 26 اگست 632ء کو سب سے محبوب ہستی اور پناہ گاہ، اماں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حسین مولاؑ کے کانوں میں اپنی ماں کے وہ الفاظ گونج رہے تھے کہ ثُبّت عَلَیّ مَصَائِب لَو اَنّہَاثُبّت عَلَی الاَیّامِ صِرنا لیا لیا۔۔۔۔۔۔۔ (جتنی مصیبتیں مجھ پر آئیں، اگر یہ روشن دنوں پر آتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے)۔ اب نانا بھی نہ تھے کہ اُمتی ظاہراً لحاظ کرتے اور نہ ماں جیسی شفیق ممتا کہ پریشانی میں 7 سالہ معصوم حسین ؑکو دلاسا اور تسلی دیتی اور بابا علی ؑ ؑنے تو رسول ِپاک کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے صبر اور خاموشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ 632ء سے لے کر 656ء تک یعنی 25 سال تک اپنے بابا علی ؑکے ساتھ خانہ نشین ہوکر زمانے کی سنگدلی کا جائزہ لیتے رہے۔

لیکن جب اور جہاں اسلام کو ضرورت پڑی، اپنے بابا علی ؑاور بھائی امام حسن ؑکے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔ اِس گوشہ نشینی اور تنہائی کے دَور میں، گھر میں قرآن کی جمع آوری کا منظر بھی دیکھا اور گھر سے باہر چاہنے والوں پر مصائب کی یورش کو بھی دیکھا۔ جو اعلان نانا رسول نے بابا علی ؑکی خلافت کا 16 مارچ 632ء کو میدان ِخم میں کیا تھا، اُسے 25 سال بعد 17 جون 656ء میں بابا علی ؑکے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کے ہجوم کی شکل میں پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ ؑکے بابا نے ظاہری خلافت کو مسلمانوں کی بھلائی اور اِنصاف قائم کرنے کی خاطر قبول تو کر لیا، لیکن بہت سوں نے اِس خلافت ِراشدہ کو تسلیم نہ کیا۔ مختلف حیلے بہانوں سے برپا ہونے اور ایک سال تک جاری رہنے والی جنگ جمل کو نومبر 656ء سے نومبر 657ء تک میدان جنگ میں رہ کر فتح ہوتے دیکھا۔ ابھی جنگ جمل کی دُھول نہیں بیٹھی تھی کہ مارچ 657ء میں آپ ؑکو اپنے بھائیوں سمیت ابو یزید حاکم شام کی بغاوت کچلنے کیلئے بابا علی ؑکی کمان میں صفین آنا پڑا۔

اِس جنگ میں آپ ؑنے اپنے 12 سالہ چھوٹے بھائی عباس علمدارؑ کے ساتھ شامی باغیوں سے پانی کے گھاٹ پر قبضہ چھڑا کر سب کیلئے پانی بھرنے کا اعلان کیا۔ 110 روز تک جاری رہنے والی اِس جنگ میں لشکر شام کو چال بازی اور مکاری سے اپنی جان بچانے کیلئے قران مجید کو نیزوں پر اٹھائے اور حکمین مقرر کرتے ہوئے دیکھا۔ حکمین کے مہمل، لغو اور مکارانہ فیصلے کو جب مسترد کیا گیا تو پھر خارجیوں کے 18 ہزار افراد کو راہ راست پر لانے کیلئے مارچ 658ء میں آپ کو بابا علی کی قیادت میں نہروان بھی جانا پڑا۔ جس میں بابا علی ؑکے سمجھانے پر 6 ہزار خارجی گھروں کو لوٹ گئے لیکن 12 ہزار خارجیوں سے جنگ ہوئی اور صرف 9 خارجی زندہ بچے اور مولاؑ کی فوج میں سے صرف 9 جانثار شہید ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد اپنے بابا علی ؑکے سپہ سالار مالک ِاشتر کو زہر ملے دودھ دہئے جانے اور 27 سالہ محمد ابن ابوبکر کی حاکم شام کے سفاکانہ حکم کی بنیاد پر گدھے کی کھال میں زندہ جلائے جانے کی اندوہ ناک خبریں بھی سنیں۔

پھر 28 جنوری 661ء کو نماز صبح کے سجدے میں اپنے بابا علی ؑ کو عبدالرحمن ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے زخمی ہوتے اور کامیابی کا یقینی دعویٰ کرتے ہوئے سنا فزت ورب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اور ہاتف غیبی کی یہ اندوہناک ندا بھی سنی قَد قُتِلَ اَمِیرَ المُومِنِین۔۔۔۔۔ امیرالمومنین قتل کر دیئے گئے، ارکان ِہدایت گرا دیئے گئے۔ پھر ستمبر 661ء میں وقت کے امام اور بڑے بھائی امام حسن ؑ کو اسلام کی سربلندی اور اپنوں کی بیوفائی کی وجہ سے خلافت سے دستبردار ہوتے ہوئے دیکھا اور سب و شتم کی جو قبیح اور مسموم رَسم ابو یزید حاکم شام نے بابا علی ؑپر ملک شام سے شروع کی تھی، اُس مکروہ رسم کو 72 ہزار منبروں تک پھیلتے ہوئے بھی دیکھا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ آپ کو بچپن کے ساتھی اور غمخوار بھائی امام حسن ؑکو اُموی چال سے اُنہی کی بیوی جعدہ کے ہاتھوں 27 مارچ 670ء کو نہ صرف مسموم دیکھنا پڑا بلکہ کریم نانا کے ساتھ دفن کرنے کی وصیت کے بدلے میں جسد مبارک سے 70 تیر بھی نکالنے پڑے۔

ابو یزید سے دس سال تک تو بھائی امام حسن ؑکی امامت میں صلح نامے کا پاس رکھا اور بھائی امام حسن ؑکی شہادت کے بعد مزید دس سال یعنی 28 اپریل 680ء تک ابو یزید کی موت ہونے پر اُس عہد پر کار بند رہے۔ لیکن حالات نے ایکدم پلٹا کھایا اور امام ؑنے دیکھا کہ 632ء میں نانا رسول کی رحلت کے بعد بابا علی ؑسے جو بیعت کا مطالبہ کیا گیا تھا، وہی مطالبہ آج پھر 680ء میں ہو رہا تھا۔ حسین مولاؑ نے طے کر لیا تھا کہ جب مَیں نے پہلے اپنے بزرگوں کی روش سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو آج علیحدگی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ مجھے تو آج یہ ثابت کرنا ہے کہ مَیں امام بھائی کی صلح کے احترام میں خاموش تھا، ورنہ مجھ حسین ؑمیں نانا کا عزم، دادا کا حوصلہ، ہاشم کا خون اور عبدالمطلب کا جوش سلامت ہے۔
صبر زہراؑ کا تقاضا تھا جو اَب تک تھا خاموش
ورنہ پہلو میں دل ِحیدر کرار ؑبھی ہے

ابو یزید کا شرابی اور فاسد بیٹا یزید جب خلافت جیسے مقدس منبر پر متمکن ہوا تو 3 مئی 680ء کو اپنے والد کی وصیت کی روشنی میں مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کے ذریعہ امام حسین ؑسے بیعت طلب کی۔ امام حسین ؑ نے مروان کے سامنے کہہ دیا "مِثلِی لَایبَایِعُ مِثلَ یَزِید"(مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا)۔ آپ ؑنے اُسی روز اپنے نانا اور اماں زہراؑ کے مزارات ِمقدسہ سے مدینہ چھوڑنے کی اجازت طلب کی۔ جوانانِ بنی ہاشم اور مخدرات ِعصمت و طہارت کے ہمراہ 4 مئی 680ء کو مدینہ سے مکہ کی طرف عازم ِسفر ہوئے۔ 435 کلومیڑ کا فاصلہ طے کرکے چھٹے دن یعنی 9 مئی کو مکہ کی پرامن سرزمین پر پہنچے۔ عراق کے شہر کوفہ کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں حسین مولاؑ کو عراق بلانے کیلئے خط موصول ہونے شروع ہوگئے۔ (یاد رہے کہ 20 سال پہلے مولا علی ؑکی خلافت کا دارلخلافت کوفہ رہا تھا)۔ آپ ؑنے حالات کا جائزہ لینے کیلئے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل ؑکو 19 جولائی 680ء کو کوفہ بھیجا۔ حسین مولاؑ کو عراق میں حالات اچھے ہیں، کی خبر دی گئی۔

پھر ستمبر میں حج کا موسم آگیا۔ آپ ؑنے حج کی نیت کی اور دورانِ حج آپ ؑکو معلوم ہوا کہ 30 یزیدی گماشتے حاجیوں کے لباس میں عمر بن سعد کی امارت میں آپ ؑکو قتل کرنے کے ارادے سے مکہ آچکے ہیں۔ آپ ؑنے حج کے احرام توڑ دیئے، تاکہ حرمت کعبہ پامال نہ ہو، لاکھوں کے مجمع میں اُموی چال کامیاب نہ ہوسکے اور قاتل زیر نقاب نہ چلے جائیں۔ آپ ؑ 9 ستمبر 680ء کو عراق کی طرف راہی سفر ہوئے۔ آپ ؑکو پانچویں منزل زابلہ پر 10 ستمبر کو مسلم بن عقیل ؑکی شہادت کی خبر سنی، کیونکہ کوفہ میں مسلمان تو بہت تھے لیکن مسلم ایک تھا۔ آپ بہت رنجیدہ ہوئے لیکن بحکم خدا اپنا سفر جاری رکھا۔ نویں منزل ذوحسم پر یزید کے ایک ہزار فوجیوں نے حر بن یزید ریاحی کی قیادت میں آپ ؑ کا راستہ روکا، لیکن آپ ؑچلتے رہے اور 2 اکتوبر کو چودہویں منزل کرب و بلا پہنچے۔ آپ ؑنے وہیں پر خیمے لگانے کا حکم دیا۔

شامی اور کوفی فوجوں کی آمد شروع ہوئی۔ عمر بن سعد آئے، شمر بن ذی الجوشن پہنچے۔ 7 اکتوبر کو پانی بند کر دیا گیا اور 9 اکتوبر کو کم سے کم 30 ہزار فوجِ یزید و ابن ِزیاد نے جنگ کا طبل بجا دیا۔ حسین مولاؑ نے اپنے اور جانثاران کیلئے عبادت ِخدا کی خاطر ایک دن کی مہلت لے کر یزیدی فوج کو ایک دن مزید سوچ لینے کی مہلت دی کہ اب بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ سکتے ہو تو بچ جاﺅ، کیونکہ جوانانِ جنت کے دو سرداروں میں سے ایک سردار مَیں خود ہوں۔ لیکن عقل کے اندھوں اور ناعاقبت اندیشوں پر اِس نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا، سوائے حر بن یزید ریاحی اور اُس کے گھر والوں کے جو معافی کے بعد جنت کے حقدار ٹھہرے۔ 10 اکتوبر کو مختلف مراحل میں جنگ ہوتی رہی، کچھ اصحابؓ صبح کی نماز کے وقت، کچھ ظہر کی نماز اور باقی اصحاب ؓاور بنو ہاشم ؑایک ایک کرکے دادِ شجاعت دیتے ہوئے اِسلام پر قربان ہوتے رہے۔

آخر میں 6 ماہ کے علی اصغر ؑکو بابا کے ہاتھوں پر حرملہ کا تیر سیراب کر گیا۔ خیام میں آخری سلام کرکے آپ ؑ میدان ِجنگ میں آئے، حملے پہ حملہ کیا۔ تھوڑی دیر میں زمین ِکربلا میں بھونچال آیا اور آواز بلند ہوئی اَلَا قُتِلَ الحُسَینِ بِکَربَلا، اَلَاذبح الحُسَین بِکربلا۔۔۔ حسین ؑکربلا میں قتل ہوگئے، حسین ؑکربلا میں ذبح ہوگئے۔۔۔۔۔ حسین مولا ؑ 626ء سے 680ء تک اپنے کریم اور شفیق نانا کی حدیث حُسینُ مِنی (حسین ؑمجھ سے ہے) کا عملی نمونہ بن کر رہے اور 680ء کے بعد وَاَنَامِنَ الحُسَین(اور مَیں حسین ؑسے ہوں) کی عملی تفسیر بن گئے۔ امام ِوقت نے اسلام اور انسانیت کو اپنے، نوجوانانِ بنو ہاشم اور اصحاب باوفا کے مقدس خون سے ایسا آبِ حیات پلا دیا کہ ہر باشعور اور غیرت مرد مسلمان اور انسان تاقیامت امام حسین ؑکا مشکور اور مقروض ہوگیا اور کائنات کے مظلوم، کمزور اور مستضعف انسان کو حریت اور آزادی کا ایسا انقلابی درس دے گئے کہ وہ اپنی ناتوانی اور کمزوری کو ایک طرف رکھ کر وقت کے یزید، اِبن ِزیاد، شمر اور مروان سے بے خوف و خطر ٹکرا رہے ہیں اور ٹکراتے رہیں گے۔
 
 
 
Thursday, 20 August 2020 20:13

اخلاقِ حسيني کے چند پہلو

امام حسين عليہ السلام کي غير معمولي شخصيت کے يوں تو بے شمار پہلو ہيں ليکن زيادہ توجہ آپٴ کي شجاعت اور قرباني نے اپني جانب مبذول کروالي ہے۔ اور اس کي وجہ واقعہ کربلا جيسا عظيم سانحہ ہے جو اپنے مقام پر اندوہگيں بھي ہے اور تاريخ ساز بھي۔اس واقعہ ميں جہاں غم کے بے شمار پہلو ہيں وہيں ايثار و قرباني، محبت و عقيدت، عشق و وفاداري، شجاعت و شہامت، صبر و استقامت کي لازوال داستانيں بھي نظر آتي ہيں۔

ليکن آپٴ کي زندگي کے ہر ہر مرحلے پر ايسے واقعات کثرت سے موجود ہيں جو اخلاق کي بلنديوں کي نشاندہي کرتے ہيں اور امام حسينٴ کي زندگي کے مزيد روشن پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہيں۔ فاضل مصنف جناب محسن امين نے اس مختصر مضمون ميں امام حسين عليہ السلام کي زندگي سے چند واقعات کو يکجا کيا ہے، جسے نوجوان ديني طالب علم سيد طالب حيدر نے طاہرہ کے قارئين کے لئے ترجمہ کيا اور پھر مختصر وضاحت بھي کردي ہے جس کي وجہ سے اس مضمون کي تاثير ميں مزيد اضافہ ہوگيا ہے۔ انشائ اللہ ہم سب ان واقعات کو پڑھنے کے بعد جس حد تک ممکن ہو، ان پر عمل کرنے کي کوشش کريں گے۔

سخاوت حسيني
جود و سخاوت تمام انسانوں کے اندر فطري طور پر پائي جاتي ہے اور ہر فطري فضيلت کو انسان کي ذات ميں اجاگر کرنے کے لئے حضرت آدمٴ سے لے کر نبي خاتم ۰ اور پھر ائمہ معصومين نے بہت کوششيں کيں۔ اسي لئے ہم ديکھتے ہيں کہ جود و سخا کے بارے ميں معصومين کے اقوال کثرت سے ملتے ہيں اور انھوں نے عملي طور پر بھي سخاوت کے ايسے نمونے پيش کئے کہ اگر انسانيت اس فضيلت کي معراج کو ديکھنا چاہے تو اس کو مشکل نہيں ہوگي۔
اسامہ بن زيد نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بيٹے تھے اور آپکے بااعتماد ساتھيوں ميں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ليکن حضور کي وفات کے بعد انہوں نے اہلبيت عليہم السلام کي کماحقہ حمايت نہ کي اور امير المومنين کي خلافت کے دوران ہونے والي جنگوں ميں بھي حمايت کي اور نہ مخالفت۔ ايسے پُرآشوب ماحول ميں بھي جب وہ مريض ہوتے ہيں تو امام حسين ان کي عيادت کو جاتے ہيں۔ اسامہ نے آپٴ کے سامنے سخت پريشاني کا اظہار کيا۔ امام عليہ السلام نے وجہ پوچھي تو بتايا کہ ميں چھ ہزار درہم کا مقروض ہوں۔
امام حسين نے اسے تسلي دي کہ ميں تمہارا قرض اتار دوں گا۔ ليکن اسامہ کي پريشاني دور نہ ہوئي اور انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ قرض کي ادائيگي سے پہلے ميري موت نہ واقع ہو جائے۔
چنانچہ امام نے فرمايا کہ اس سے پہلے کہ تيري موت واقع ہو، ميں تيرا قرض اتار دوں گا۔ پھر امام حسين نے اسامہ کي موت سے پہلے اس کا قرض ادا کرديا۔

ہر ايک کے ساتھ ہمدردي
سنت نبوي اور سيرتِ اہلبيت يہي رہي ہے کہ جب کوئي غريب اپنے حالات سے مجبور ہوکر ہاتھ پھيلائے تو يہ ديکھے بغير کہ وہ اپنا ہے يا پرايا، اس کي مدد کي جائے۔ اس تجزيے کي مزيد تشريح مندرجہ ذيل واقعہ سے اور واضح ہوجائے گي۔
جب مروان نے حکم ديا کہ فرزدق کو مدينہ سے نکال ديا جائے تو وہ امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور آپٴ نے اس کو ٤٠٠ دينار عطا کئے۔ کسي نے پوچھا کہ ايک فاسق شاعر کو اتني عطا کيوں کر رہے ہيں تو امامٴ نے جواب ديا کہ ''بہترين بخشش وہ مال ہے کہ جس سے آبرو محفوظ رہے‘‘۔
يعني اگر آپ نے کسي شخص کي آبرو کو محفوظ کرديا تو يہ جان ليجئے کہ زندگي بھر اس کے دل ميں بھي آپ کے لئے عزت و احترام موجود رہے گا۔ اس سلسلے ميں يہ نکتہ بہت اہم ہے کہ سنتِ نبوي اور سيرتِ اہلبيتٴ سے يہ تاثر ملتا ہے کہ انھوں نے شعرا ئ کے ساتھ خصوصاً بہت کريمانہ رويہ رکھا ہے اور اس کي وجہ يہ سمجھ ميں آتي ہے کہ اشعار انسان کے جذبات اور احساسات پر بہت اثر انداز ہوتے ہيں اور کسي شاعر کا ايک شعر کسي خاص واقعہ کي ياد تازہ کرنے کے لئے شايد ايک ضخيم کتاب سے زيادہ موثر واقع ہو جائے۔

استاد کي اہميت
استاد کي اہميت اور اس کو روحاني باپ کا درجہ دينا سنتِ نبوي اور سيرتِ اہلبيت ميں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ علم حاصل کرنے کي جتني تاکيد دينِ اسلام ميں کي گئي ہے شايد ہي کسي اور دين و مکتب ميں کي گئي ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ علم حاصل کرنے کے آداب بھي تفصيل سے بيان کئے گئے ہيں چنانچہ استاد کي عزت و احترام بھي آداب تعليم و تعلم کا ايک اہم حصہ ہے۔ مندرجہ ذيل واقعہ اس پہلو کي بہترين نشاندہي کرتا ہے۔
ابو عبدالرحمن عبداللہ بن حبيب سلمي نے امام حسين کے ايک فرزند کو سورہ جمعہ پڑھنا سکھائي۔ جب بچے نے امامٴ کے سامنے سورۃ کي تلاوت کي تو آپٴ نے ابو عبد الرحمن کو ايک ہزار دينار اور ايک ہزار نئے لباس عطا کئے اور اس کے منہ کو موتيوں سے بھر ديا۔
جب کسي نے بخشش کي کثرت کي وجہ پوچھي تو امام نے فرمايا: ''جو ميں نے اس کو عطا کيا ہے، وہ اس کے کام کے مقابلہ ميں (يعني سورہ جمعہ کي کي تعليم کے مقابلہ ميں) بہت معمولي ہے۔‘‘

نيکي کا بدلہ اس سے بہتر
اسلام نے انسانيت کي فطري فضيلتوں کو پروان چڑھانے کے لئے حالات سازگار بنانے کي کوشش کي ہے۔ اس کا ايک طريقہ يہ ہے کہ دوسرے سے محبت کي جائے اور اس کے ساتھ نيکي اور احسان کے پہلو کو مزيد تقويت ديا جائے۔ مندرجہ ذيل واقعہ بھرپور طريقے سے ہم سب کو ايک دوسرے سے محبت اور احسان کرنے کي طرف دعوت دے رہا ہے۔
ايک روز امام حسين کي ايک کنيز نے آپٴ کي خدمت ميں ايک گلدستہ پيش کيا۔ امام نے جواب ميں اس کو راہِ خدا ميں آزاد کرديا۔ کسي نے سوال کيا کہ ايک چھوٹے سے گلدستہ کے بدلے ميں آپ نے کنيز کو آزاد کر ديا تو امامٴ نے فرمايا: ''يہ طريقہ خدا نے ہم کو سکھايا ہے۔‘‘ يعني جب تمہيں کوئي سلام کرے تو اس سے بہتر طريقے سے يا کم از کم اسي کے برابر جواب دو۔ (سورہ نسائ ¬٨٦) ''اور اس کنيز کے لئے بہترين تحفہ اس کي آزادي تھي‘

عالم اور جاہل ميں فرق
خدا نے بعض نعمتوں کو تمام انسانوں کے درميان يکساں طور پر تقسيم کيا ہے جيسے سورج کي روشني اور اس کي حرارت، ليکن بعض نعمتوں کو صرف اہل افراد کے لئے مخصوص کيا ہے جيسے جنت اور اس کي نعمتيں۔ اس سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ ہر عطا اور بخشش ميں مساوات ضروري نہيں ہے۔ اگر آپ کے سامنے دو محتاج ہيں؛ ايک عالم اور دوسرا جاہل تو آپ چاہيں تو عالم کو زيادہ دے سکتے ہيں۔ مندرجہ ذيل واقعہ جہاں اور دوسرے نکات کو ظاہر کر رہا ہے وہاں عطااور بخشش کرتے وقت عالم اور جاہل ميں فرق کرنے کي بھي دعوت دے رہا ہے۔
ايک مرتبہ ايک بدو امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے فرزندِ رسول! ميں بہت مقروض ہوگيا ہوں اور اس کو ادا کرنا ميرے لئے ممکن نہيں ہے۔ ميں نے سوچا کہ کسي ايسے شخص کے پاس جاوں جو سب سے بڑھ کر کريم ہو۔ اور ميں نے کسي دوسرے کو اہلِ بيت سے زيادہ کريم نہيں پايا۔
امام حسينٴ نے فرمايا: ''اے ميرے عربي بھائي! ميں تم سے تين سوال کروں گا۔ اگر ايک سوال کا جواب ديا تو تمہارے قرض کا ايک تہائي حصہ ادا کردوں گا۔ اگر دو سوالوں کے جواب ديئے تو قرض کا دو تہائي حصہ ادا کردوں گا اور اگر تينوں سوالوں کے جواب دے ديئے تو پورا قرضہ ادا کردوں گا۔‘‘
بدو نے کہا کہ آپٴ جيسي صاحبِ علم اور بافضليت شخصيت مجھ سے سوال کرے اور ميں جواب دوں، يہ کيسے ہو سکتا ہے؟
امامٴ نے فرمايا: ميں نے اپنے جد رسولِ خدا ۰ سے سنا ہے کہ! ''نيکي اور بخشش اس کي معرفت اور معلومات کے مطابق ہوتي ہے۔‘‘
بدو سوالات پر راضي ہوگيا اور کہنے لگا کہ آپٴ جو چاہتے ہيں، پوچھ ليجئے اگر مجھے معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا وگرنہ آپ سے پوچھ لوں گا۔
امامٴ نے پوچھا: بہترين عمل کيا ہے؟
بدو نے جواب ديا: خدا پر ايمان۔
امامٴ نے پوچھا: کون سي چيز لوگوں کو تباہي و ہلاکت سے بچاتي ہے؟
بدو نے جواب ديا: خدا پر توکل اور اعتماد۔
امامٴ نے پوچھا! آدمي کي زينت کس ميں ہے؟
بدو نے جواب ديا: وہ علم کہ جس کے ساتھ حلم اور بردباري بھي ہو۔
امامٴ نے پوچھا اور اگر اس کے پاس يہ فضيلت نہ ہو تو؟
بدو نے جواب ديا: ايسا مال کہ جس کے ساتھ غيرت بھي ہو۔
امامٴ نے پھر پوچھا! اگر يہ بھي نہ ہو تو؟
بدو نے کہا! ايسي غربت جس کے ساتھ صبر و تحمل بھي ہو۔
امامٴ نے پوچھا! اگر يہ بھي نہ ہو؟
بدو نے کہا: ايسي صورت ميں (بہتر ہے) ايک بجلي آسمان سے نازل ہو اور اس شخص کو جلا کر راکھ کردے کہ وہ اسي کا حقدار ہے۔
امام حسين يہ سن کر مسکرا دئيے اور اس کو ايک ہزار دينار اور ايک انگوٹھي عطا کي اور فرمايا کہ ہزار دينار سے اپنا قرض ادا کرو اور انگوٹھي بيچ کر کہ جس کي قيمت تقريباً ٢٠٠ درہم ہے، اپني زندگي پر خرچ کرو۔
بدو نے دونوں چيزيں ليں اور يہ آيت تلاوت کرتے ہوئے رخصت ہوا کہ ''اللّٰہ اعلم حيث يجعل رسالتہ‘‘، ''خدا بہتر جانتا ہے کہ اپني رسالت کو کہاں قرار دے۔‘‘ (بحار ج ٤٤)

کس سے سوال کريں
آج کے اس پُرآشوب دور ميں لوگوں کي مالي مشکلات روز بروز بڑھتي جارہي ہيں، ليکن مکتبِ اہلبيتٴ ہر انسان کو ہر ممکن حد تک مشکلات کا سامنا کرنے کي تلقين کرتا ہے اور اگر ہاتھ پھيلانا ناگزير ہوجائے تو بھي ہر ايک کے سامنے ہاتھ پھيلانے سے روکتا ہے۔
ايک شخص امام حسين کي خدمت ميں حاضر ہوا اور مالي مدد کي درخواست کي۔ امامٴ نے جواب ميں فرمایا کہ کسي کے سامنے سوال کرنا صرف تين مواقع پر جائز ہے: بہت زيادہ مقروض ہو يا بہت غريب ہو يا ديت اس کے ذمہ ہو۔
ايک شخص نے امامٴ کي خدمت ميں حاضر ہوکر مدد کي درخواست کي۔ امامٴ نے اس کي حاجت پوري کرنے کے بعد اس کو نصيحت کرتے ہوئے فرمایا کہ سوائے تين لوگوں کے اپني حاجت کسي سے بيان نہ کرو: ديندار سے يا غيرت مند سے يا صاحبِ حسب و نسب سے؛

ديندار شخص اپنے دين کي وجہ سے تيري حاجت کو رد نہيں کرے گا۔
غير ت مند شخص اپني غيرت کي وجہ سے شرم کرے گا اور تيري حاجت کو پورا کرے گا۔
اور صاحبِ حسب و نسب انسان چونکہ يہ بات سمجھے گا کہ تو نے اتني آساني سے اپني عزت کو اپني حاجت بيان کر کے پامال نہيں کيا ہے، اس لئے وہ تيري مزيد بے عزتي نہيں ہونے دے گا۔

شانوں پر نشانات
واقعہ کربلا کے بعد لوگوں نے امام حسين کے شانوں پر زخم کے نشانات ديکھے تو امام زين العابدينٴ سے اس بارے ميں پوچھا۔ آپٴ نے فرمايا: ميرے والد ہميشہ رات کو ايک بوري ميں خوراک اپنے کاندھوں پر لاد کر بيوہ عورتوں، يتيموں اور مسکينوں کے گھروں ميں جاکر تقسيم کرتے تھے۔ (مناقب ابن شہر آشوب )

امام حسينٴ اور فقرائ
سنتِ نبوي۰ اور اہلبيتٴ کي سيرت عام انسانوں سے برتاو ميں روايتي بادشاہوں اور حکمرانوں کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔ اس کي وجہ يہ ہے کہ يہ مکتب انسان کي عزت و آبرو کو ہر چيز پر مقدم رکھتا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ عاجزي اور انکساري کے عملي واقعات اہلبيتٴ کي سيرت ميں بہت زيادہ ملتے ہيں جن ميں سے ايک درج ذيل ہے۔
ايک روز کچھ فقيروں کے سامنے سے امام حسين کا گزر ہوا۔ وہ لوگ روٹي کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ امامٴ نے ان لوگوں کو سلام کيا تو انہوں نے امامٴ کو دعوت دي کہ ان کے ساتھ بيٹھ کر کچھ کھائيں۔ امامٴ نے دعوت قبول کي اور ان کے ساتھ بيٹھ گئے اور فرمايا: يہ روٹي جو تم لوگ کھارہے ہو، صدقہ نہيں ہے اس لئے ميں بھي تمہارے ساتھ بيٹھ گيا ہوں۔ پھر امامٴ نے ان سب کو اپنے گھر دعوت دي۔ جب سب گھر پہنچے تو ان کو کھانے کے علاوہ لباس اور کچھ پيسے بھي دئيے۔

قرآني تعليمات او رمعصومين عليہم السلام کا عمل
ہمارا ايمان ہے کہ معصومين قرآنِ ناطق ہيں اور جس طرح قرآن کو ان ہستيوں نے عملي طريقہ سے پيش کيا‘ شايد ہي کوئي دوسرا اس کے مقابل آسکے۔ جن ہستيوں کا ہر عمل قرآن کي تفسير ہو، وہ يقينا قابلِ اطاعت ہيں۔ مندرجہ ذيل واقعہ اس امر کي بھرپور عکاسي کررہا ہے۔
امام حسين کے ايک غلام نے ايک ايسي غلطي کي جو قابلِ سزا تھي۔ امامٴ نے حکم ديا کہ اس کو تازيانہ مارا جائے۔ غلام نے امامٴ سے کہا: اے ميرے مولا! خدا نے قرآن ميں فرمايا ہے، ''و الکاظمين الغيظ‘‘ امامٴ نے اس کو معاف کرديا اور کہا کہ اس کو چھوڑ دو۔ غلام نے آيت کا اگلے حصہ پڑھا: ''و العافين عن الناس‘‘ امامٴ نے کہا ميں نے تيرا گناہ بخش ديا۔ اب اس نے آيت کا بقيہ حصہ پڑھا: ''و اللّٰہ يحب المحسنين‘‘ اس مقام پر امامٴ نے فرمايا: تجھ کو خدا کے لئے آزاد کرتا ہوں۔

امام حسين کي حياتِ مبارکہ سے انتخاب کئے گئے يہ چند واقعات جہاں امامٴ کي عظمتوں کو بيان کرتے ہيں، وہاں ان پر عمل کر کے ہماري انفرادي و اجتماعي زندگي ميں انقلاب آسکتا ہے۔ اميد ہے کہ ہم سب ان روايات کو پڑھنے کے بعد ان پر عمل کر کے اپني زندگي ميں انقلاب پيدا کرديں گے۔

 

 

ماخوذ از کتاب امام حسین دلربائے قلوب
آیت اللہ خامنہ ای

کيا حالات پيش آئے تھے کہ کربلا کا واقعہ رونما ہوا؟

ميں نے ايک مرتبہ عبرت ہائے کربلا کے عنوان پر کئي تقارير کيں تھيں کہ جن ميں مَيں نے کہا تھا کہ ہم اِس تاريخي حادثے سے سيکھے جا نے والے درسوں کے علاوہ عبرتيں بھي حاصل کرسکتے ہيں۔ ’’درس‘‘ ہميں يہ بتاتے ہيں کہ ہميں کيا کرنا چاہيے جبکہ ’’عبرتيں‘‘ ہم سے يہ کہتي ہيں کہ کيا حادثہ پيش آيا ہے اور کون سے واقعہ کے وقوع پذير ہونے کا امکان ہے۔
کربلاسے حاصل کي جانے والي عبرتيں يہ ہيں کہ انسان غور وفکر کرے کہ وہ اسلامي معاشرہ کہ جس کي سربراہي پيغمبر خدا (ص) جيسي ايک غير معمولي ہستي کے پاس تھي اور آپ(ص) نے دس سال تک انساني توان و طاقت سے مافوق اپني قدرت اور وحي الٰہي کے بحر بيکراں سے متصل ہوتے ہوئے اور بے مثل و نظير اور بے انتہا حکمت کے ساتھ دس سال تک اُس معاشرے کي راہنمائي فرمائي۔ آپ(ص) کے کچھ عرصے (پچيس سال) بعد ہي امير المومنين حضرت علي نے اُسي معاشرے پر حکومت کي اور مدينہ اور کوفہ کو بالترتيب اپني حکومت کا مرکز قرار ديا۔ اُس وقت وہ کيا حادثہ وقوع پذير ہوا تھا اور بيماري کاکون سا جرثومہ اُس معاشرے کے بدن ميں سرايت کر گيا تھا کہ حضرت ختمي مرتبت (ص) کے وصال کے نصف صدي اور امير المومنين کي شہادت کے بيس سال بعد ہي اِسي معاشرے اور اِنہي لوگوں کے درميان حسين ابن علي جيسي عظيم المرتبت ہستي کو اُس دردناک طريقے سے شہيد کرديا جاتا ہے؟!
آخر وہ کون سے علل و اسباب تھے کہ جس کے با عث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا؟ يہ کوئي بے نام و نشان اور گمنام ہستي نہيں تھي بلکہ يہ اپنے بچپنے ميں ايسا بچہ تھا کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) اپني آغوش ميں ليتے تھے اوراُس کے ساتھ منبر پر تشريف لے کر اصحاب۱ سے گفتگو فرماتے تھے۔

وہ ايک ايسا فرزند تھا کہ جس کے بارے ميں خدا کے رسول (ص) نے يہ فرمايا کہ ’’حُسَينُ مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسِينِ‘‘،’’حسين مجھے سے ہے اور ميں حسين سے ہوں‘‘ اور اِن پسر وپدر کے درميان ايک مضبوط رشتہ اور رابطہ قائم تھا۔ يہ ايک ايسافرزند تھا کہ جس کا شمار امير المومنين کے دورِحکومت کي جنگ و صلح کے زمانوں ميں حکومت کے بنيادي ارکان ميں ہوتا تھا اورجو ميدان سياست ميں وہ ايک روشن و تابناک خورشيد کي مانند جگمگاتا تھا ۔ اِس کے باوجود اُس اسلامي معاشرے کا حال يہ ہوجائے کہ پيغمبر اکرم (ص) کا يہي معروف نواسہ اپنے عمل، تقويٰ، باعظمت شخصيت، عزت و آبرو، شہرِ مدينہ ميں اپنے حلقہ درس کہ جس ميں آپ کے چاہنے والے، اصحاب اور دنيائے اسلام کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شيعہ شرکت کرتے تھے، کے باوجودايسے حالات ميں گرفتار ہوجائے کہ جس کا نہايت بدترين طريقے سے محاصرہ کر کے اُسے پياسا قتل کرديا جائے۔نہ صرف يہ کہ اُسے قتل کرتے ہيں بلکہ اُس کے ساتھ تمام مردوں حتي اُس کے شش ماہ شير خوار بچے کو بھي قتل کرديتے ہيںاور صرف اِسي قتل و غارت پر اکتفائ نہيں کرتے بلکہ اُس کے بيوي بچوں اور ديگر خواتين کو جنگي قيديوں کي مانند اسير بنا کر شہر شہر گھماتے ہيں؛آخر قصّہ کيا تھا اور کيا حالات رونما ہوئے تھے؟ يہ ہے مقام عبرت!
آپ ايسے معاشرے کا اُس نبوي معاشرے سے موازنہ کريں تاکہ آپ کو دونوں کا فرق معلوم ہوسکے۔ ہمارے معاشرے کے سربراہ اور حاکم ، امام خميني۲ تھے جو بلاشک و شبہ ہمارے زمانے کي عظيم ترين شخصيت ميں شمار ہوتے تھے ليکن امام خميني ۲ کجا اور پيغمبر اکرم (ص) کجا؟ حضرت ختمي مرتبت (ص) نے اُس وقت معاشرے ميں ايک ايسي روح پھونکي تھي کہ اُن بزرگوار کي رحلت کے بعد بھي کئي دہائيوں تک پيغمبر (ص) کا چلايا ہوا کارواں اپنے راستے پر گامزن رہا۔ آپ يہ خيال نہ کريں کہ پيغمبر اکرم (ص) کے بعد ہونے والي فتوحات ميں خود پيغمبر(ص) کي ذات اقدس کے روحاني وجود کا اثر باقي نہيں تھا؛ يہ رسول اکرم (ص) کے وجود ہي کي برکت تھي کہ جو آپ(ص) کي رحلت کے بعد بھي اسلامي معاشرے کو آگے بڑھارہي تھي۔ گويا پيغمبر اکرم (ص) اُس معاشرے کي فتوحات اور ہمارے معاشرے (اور انقلاب) ميں تاثير رکھتے تھے کہ جس کا نتيجہ اِس صورت ميں نکلا ہے۔
ميں ہميشہ نوجوانوں ،يونيورسٹي اور ديني مدارس کے طالب علموں اور ديگر افراد سے يہي کہتا ہوں کہ نہايت سنجيدگي سے تاريخ کا مطالعہ کريں، بہت توجہ سے اِس ميں غور وفکر کريں اور ديکھيں کہ کيا حادثہ رونما ہوا ہے!
’’ تِلکَ اُمَّۃ? قَد خَلَت‘‘،’’وہ ايک اُمّت تھي جو گزر گئي‘‘، گذشتہ امتوں سے عبرت آموزي، قرآن ہي کي تعليم اور درس کا حصہ ہے۔اِس حادثے کے بنيادي اسباب ، چند امور ہيں،مَيں اُن کا تجزيہ و تحليل نہيں کرنا چاہتا بلکہ صرف اجمالي طور پر بيان کروںگا اور يہ محقق افراد کي ذمہ داري ہے کہ وہ سرجوڑ کر بيٹھيں اور ايک ايک جملے پرغور وفکر کريں۔

اصلي عامل: دنيا پرستي اور برائي و بے حسي کا رواج پانا

اِس تاريخي حادثے کا ايک اصلي سبب يہ ہے تھا کہ ’’دنيا پرستي اور برائي و بے حسي نے ديني غيرت اور ايمان کے احساسِ ذمہ داري کو چھين ليا تھا۔ يہ جو ہم اخلاقي ، اجتماعي ، اقتصادي ، سياسي اور ثقافتي برائيوں سے مقابلے کيلئے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کيلئے اتني تاکيد کرتے ہيںتو اِس کي ايک اصل وجہ يہ ہے کہ يہ تمام برائياں معاشرے کو بے حس بناديتي ہيں۔ وہ شہر مدينہ جو پہلي اسلامي حکومت کا پہلا مرکز تھا، کچھ مدت بعد بہترين موسيقاروں، گانا گانے والوں اور معروف ترين رقاصاوں کے مرکز ميں تبديل ہوگيا تھااور جب دربار شام ميں بہترين مغنّيوں اور گويّوں کو جمع کيا جاتا تو شہر مدينہ سے بہترين موسيقاروں اور خوبصورت آواز رکھنے والے مغنّيوںکو بلايا جاتا تھا!
يہ جسارت و گناہ، رسول اکرم (ص) کي رحلت کے سو يا دوسو سال بعد انجام نہيں ديئے گئے بلکہ جگر گوشہ حضرت زہرا ٭ اور نور چشم پيغمبر اکرم (ص) کي شہادت کے زمانے کے قريب حتي شہادت سے بھي قبل معاويہ کے زمانے ميں انجام پائے۔ يہي وجہ ہے کہ مدينۃ الرسول (ص) برائيوں اور گناہان کبيرہ کا مرکز بن گيا اور بڑي بڑي شخصيات ، اصحاب اور تابعين کي اولاد حتي خاندان بني ہاشم کے بعض نوجوان اِن برائيوں ميں گرفتار ہوگئے! اِس فاسد حکومت کے سرکردہ افراد يہ جانتے تھے کہ اُنہيں کيا کام کرنا ہے ،اُنہيں مسلمانوں کے کن حساس اورکمزور نکات پر انگلي رکھني ہے اور لوگوں کو حکومت اور اُس کي سياست سے غافل رکھنے کيلئے کن چيزوں کي ترويج کرني ہے۔يہ بلا اور کيفيت صرف شہر مدينہ سے ہي مخصوص نہيں تھي بلکہ دوسرے شہر بھي اِسي قسم کي برائيوں ميں مبتلا تھے۔

برائيوں کي گندگي سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے ديں

دين کي پيروي ، تقويٰ سے تمسک، پاکدامني کي اہميت اور معنويت کي قدر وقيمت کا اندازہ يہاں ہوتا ہے۔ يہ جو ہم بارہا موجودہ زمانے کے بہترين نوجوانوں کو تاکيد کرتے ہيں کہ آپ برائيوں کي گندگي سے اپنا دامن بچائے رکھيںتو اِس کي وجہ يہي ہے۔ آج اِن نوجوانوں کي طرح کون ہے جوانقلابِ اسلامي کے اُصولوں اور اہداف کا دفاع کرنے والے ہيں؟ يہ بسيجي (رضا کار) واقعاً بہترين نوجوان ہيں کہ جو علم، دين اور جہاد ميں سب سے آگے آگے ہيں، دنيا ميں ايسے نوجوان آپ کو کہاں نظر آئيں گے؟ يہ کم نظير ہيں اور دنيا ميں اتني کثير تعداد ميں آپ کو کہيںنہيں مليں گے؛بنابريں ، برائيوں کے سيلاب اور اُس کي اونچي اونچي موجوں سے ہوشيار رہيں۔
آج الحمد للہ خداوند عالم نے اِس انقلاب کي قداست و پاکيزگي ا ور معنويت کو محفوظ بنايا ہوا ہے، ہمارے نوجوان پاک و طاہر ہيں ليکن وہ اِس بات کو اچھي طرح ذہن نشين کرليں کہ زن، زر اور زمين، عيش پرستي اور دنيا کي لذتيں بہت خطرناک چيزيں ہيں کہ جو مضبوط دلوں اور مستحکم ارادے والے انسانوںکے پائے ثبات ميں لرزش پيدا کرنے کيلئے کافي ہيں لہٰذا اِن امور اور اِن کے وسوسوں کا مقابلہ کرنے کيلئے قيام کرنا چاہيے۔ وہ جہادِ اکبر کہ جس کي اتني تاکيد کي گئي ہے،يہي ہے؛ آپ نے جہادِ اصغر کو بطريق احسن انجام ديا ہے اور اب آپ اِس منزل پرآ پہنچے ہيں کہ جہادِ اکبر کو اچھي طرح انجام دے سکيں۔
الحمد للہ آج ہمارے نوجوان، مومن، حزب اللّٰہي اور بہترين نوجوان ہيں لہٰذا اِس نعمت کي قدر کرني چاہيے۔ دشمن چاہتا ہے کہ تمام مسلمان اقوام سے يہ نعمت چھين لے اور اُس کي خواہش ہے کہ مسلمان قوميں؛ عياشي، ذلت و رسوائي اور غفلت کا شکار ہوجائيں، برائيوں اور گناہوں کا دريا اُنہيں اپنے اندر غرق کر دے اور بيروني طاقتيں اُن پر اپنا تسلط جما ليں جيسا کہ انقلاب سے قبل ہمارے يہي حالات تھے اور آج بھي دنيا کے بہت سے ممالک ميں يہي کچھ ہورہا ہے۔

دوسرا عامل: عالم اسلام کے مستقبل سے اہل حق کي بے اعتنائي

دوسرا عامل و سبب کہ جس کي وجہ سے يہ حالات پيش آئے اور جسے انسان آئمہ طاہرين کي زندگي ميں بھي مشاہدہ کرتا ہے،وہ يہ تھا کہ اہل حق نے جو ولايت و تشيع کي بنياد تصور کيے جاتے تھے ، دنيائے اسلام کي سرنوشت و مستقبل سے بے اعتنائي برتي، اِس سے غافل ہوئے اور اِس مسئلے کي اہميت کو دل و دماغ سے نکال ديا۔ بعض افراد نے کچھ ايام کيلئے تھوڑي بہت بہادري اور جوش و خروش کا مظاہرہ کيا کہ جس پر حکام وقت نے سخت گيري سے کام ليا۔ مثلاً يزيد کے دور حکومت ميں مدينۃ النبي پر حملہ ہوا، جس پر اہلِ مدينہ نے يزيد کے خلاف آواز اٹھائي تويزيد نے اِن لوگوں کو سرکوب کرنے کيلئے ايک ظالم شخص کو بھيجاکہ جس نے مدينہ ميں قتل عام کيا،نتيجے ميں اِن تمام افراد نے حالات سے سمجھوتہ کرليا اور ہر قسم کي مزاحمتي تحريک کو روک کربگڑتے ہو ئے اجتماعي مسائل سے اپني آنکھيں بند کرليں۔ البتہ اِن افراد ميں سب اہل مدينہ شامل نہيں ہيں بلکہ تھوڑے بہت ايسے افرادبھي تھے کہ جن کے درميان خود اختلاف تھا۔ يزيد کے خلاف مدينے ميں اٹھنے والي تحريک ميں اسلامي تعليمات کے برخلاف عمل کيا گيا، يعني نہ اُن ميں اتحاد تھا، نہ اُن کے کام منظم تھے اور نہ ہي يہ گروہ اور طاقتيں آپس ميں مکمل طورپرايک دوسرے سے مربوط و متصل تھيں۔ جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ دشمن نے بے رحمي اورنہايت سختي کے ساتھ ِاس تحريک کا سرکچل ديا اور پہلے ہي حملے ميں اِن کي ہمتيں جواب دے گئيں اور اُنہوں نے عقب نشيني کرلي؛ يہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔
آپس ميں مقابلہ کرنے اور ايک دوسرے کو نقصان پہنچانے والي حق و باطل کي طاقتوں کي جد و جہد بہت واضح سي بات ہے، جس طرح حق ،باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے اُسي طرح باطل بھي حق کي نابودي کيلئے کوشاںرہتا ہے۔ يہ حملے ہوتے رہتے ہيں اور قسمت کا فيصلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب اِن طاقتوں ميں سے کوئي ايک تھک جائے اور جو بھي پہلے کمزور پڑے گا تو شکست اُس کا مقدر بنے گي۔


گذشتہ کچھ عرصے سے ایسی اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان درِپردہ کچھ چل رہا ہے۔ نیتن یاہو کے خفیہ دورہ امارات کے انکشافات بھی ہو رہے تھے۔ فلسطینی و صیہونی میڈیا بھی کچھ ایسے دعوے کر رہا تھا، جن سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ امارات عنقریب اسرائیل کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے جا رہا ہے۔ جون میں ایک اسرائیلی ٹی وی چینل 13 نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات ایران کے خلاف جنگ کے لئے اسرائیل کے خفیہ اسٹریٹجک پارٹنر کا روپ دھار چکا ہے۔ اسی طرح فلسطینی اخبار القدس العربی کے مطابق جنوبی یمن میں متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ علیحدگی پسند تنظیم "جنوبی عبوری کونسل" کے نائب صدر شیخ ہانی بن برک نے کہا تھا کہ اسرائیل اپنا الحاقی منصوبہ جلد از جلد مکمل کر لے، تاکہ کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔ شیخ ہانی نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا تھا کہ اسرائیل قابض نہیں بلکہ اپنی ہی سرزمین پر موجود ہے۔

بالآخر میڈیا کے یہ دعوے درست ثابت ہوئے اور 12 اگست کو اس معاہدے کے اصل محرک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا کہ "ہمارے دو پیارے دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدہ" اس ٹوئٹ کے بعد امریکی صدر کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک اگلے ہفتے سفارت خانوں کے قیام، سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، ٹیکنالوجی، توانائی، ثقافت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اہم معاہدے کریں گے۔ امریکی صدر کے اس ٹوئٹ اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے فوراً بعد سے اماراتی حکام اپنے تئیں معاہدے کے "ان گنت فوائد" کی نوید سنا رہے ہیں۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق اسرائیل اب مغربی کنارے کو ضم نہیں کرے گا اور انضمام کا یہ سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ ایک اور اماراتی سینیئر عہدیدار عمر سیف غباش نے اس معاہدے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے یہ معاہدہ دانشمندی کی ایک اعلیٰ مثال اور عالمی اہمیت کا حامل ایک اہم معاملہ ہے۔ عمر غباش کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا توسیعی منصوبہ بہت خطرناک تھا اور امارات نے اسے روکنے کے لئے یہ اہم قدم اٹھایا ہے۔ غباش نے واضح کیا کہ یہ اقدام فلسطینی عوام کے بہتر مستقبل کے لئے اٹھایا گیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم نے بغیر کسی لحاظ اور مروت کے فوری طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ مغربی کنارے کے انضمام کا فیصلہ کالعدم نہیں ہوا بلکہ ابھی بھی ہماری ٹیبل پہ موجود ہے اور ہم اپنی زمین کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ نیتن یاہو کے اس بیان  سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ جس طرح مصر اور اردن سے اسرائیل کے امن معاہدے فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے کسی مثبت پیش رفت کا ذریعہ نہیں بن سکے، اسی طرح امارات اور اسرائیل کا سمجھوتہ بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی کے ازالے میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس تردیدی بیان نے اماراتی حکام کی امتِ مسلمہ اور خصوصاً مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کی گئی خیانت کو آشکار کر دیا ہے۔

درحقیقت متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ یارانہ قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ایک سازش اور فلسطینی عوام کی 70 سالہ جدوجہد کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام کے خونخوار قاتل کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اماراتی شہزادوں کو غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری کیوں نظر نہیں آئی۔ فلسطینی گھروں پہ چلتے وہ صیہونی بلڈوزر کیوں نظر نہیں آئے، جنہوں نے فلسطینیوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ معصوم بچوں کی خون میں لت پت لاشیں کیوں نظر نہیں آئیں۔؟؟؟ لیکن ابھی اسی پر بس نہیں، امتِ مسلمہ مزید خیانتوں کی منتظر رہے، کیونکہ امریکی صدر اور ان کے مشیر کشنر نے برملا یہ اعلان کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک اور عرب ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گی، اب یہ ریاست کوئی بھی ہو، لیکن ایک بات انتہائی واضح ہے کہ امریکی انتخابات سے پہلے ٹرمپ کورونا وائرس سے شکست کھانے کے بعد اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں اور جلتی پر تیل کا کام سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی ایران مخالف قرارداد نے کیا، جسے صرف ایک ووٹ وہ بھی ڈومینیکا جیسے ملک کی صورت میں ملا، ایسی صورتحال میں ٹرمپ انتظامیہ عرب ممالک پہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے مسلسل دباو بڑھا رہی ہے، تاکہ اپنے اسرائیل نواز ووٹرز کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکے۔

قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس وقت جب کہ امریکی انتخابات کی آمد آمد ہے اور ووٹرز کی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے یہودی اثر و رسوخ کی وجہ سے ووٹرز کی بڑی تعداد "مظلوم اسرائیل" کے نام پر ووٹ پول کرتی ہے، کوئی بھی صدارتی امیدوار اگر مظلوم اسرائیل اور اس کے حقوق کی بات کرے تو\ ووٹرز پر اس کا خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس وقت مظلوم اسرائیل کا کارڈ کھیل کر امریکی ووٹرز کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسی سے ملحق نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ عرب حکمرانوں کو یہ باور کرایا ہے کہ انہیں اسرائیل سے نہیں بلکہ اصل خطرہ ایران کی جانب سے ہے، لہذا انہیں اسرائیل سے مراسم بڑھانے چاہیئیں، تاکہ ایران کے ساتھ مقابلے میں اسرائیل ان کا محافظ بن سکے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے میں بھی امریکہ کا یہی حربہ کارگر رہا۔ اس معاہدے کے بعد اب امریکی صدر اور ان کے مشیر ایک اور معاہدے کی خبر دے کر امریکی ووٹرز کو چکمہ دینے کی سعی کر رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرکے امت مسلمہ کے ساتھ جو خیانت کی ہے، اس پر حقیقی مسلمان اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ فلسطینی مقاومتی محاذ خصوصاً حماس، جہاد اسلامی اور الفتح سمیت حزب اللہ اور ایران نے اس معاہدے پر شدید تنقید کی ہے اور اسے فلسطینی کاز کے ساتھ بہت بڑی خیانت شمار کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مقاومتی عمل کسی لحاظ سے بھی سست نہیں ہوگا اور پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر قبلہ اول کی آزادی کے لئے سرگرم عمل رہے گا۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بھی اس معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے خیانت قرار دیا اور 16 اگست کو یوم فلسطین منایا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بھی اس معاہدے کے دوررس مضمرات کا ذکر کیا ہے اور اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ آواز بلند کرتا رہے گا، لیکن ہمیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت ایک زندہ قوم قبلہ اول کی آزادی کے لئے ایک مضبوط کردار ادا کرنا ہوگا اور بیت المقدس کی آزادی کے ساتھ خیانت کرنے والوں سے اپنے رستے جدا کرنے ہوں گے۔