آیت اللہ خامنہ ای
ميں نے ايک مرتبہ عبرت ہائے کربلا کے عنوان پر کئي تقارير کيں تھيں کہ جن ميں مَيں نے کہا تھا کہ ہم اِس تاريخي حادثے سے سيکھے جا نے والے درسوں کے علاوہ عبرتيں بھي حاصل کرسکتے ہيں۔ ’’درس‘‘ ہميں يہ بتاتے ہيں کہ ہميں کيا کرنا چاہيے جبکہ ’’عبرتيں‘‘ ہم سے يہ کہتي ہيں کہ کيا حادثہ پيش آيا ہے اور کون سے واقعہ کے وقوع پذير ہونے کا امکان ہے۔
کربلاسے حاصل کي جانے والي عبرتيں يہ ہيں کہ انسان غور وفکر کرے کہ وہ اسلامي معاشرہ کہ جس کي سربراہي پيغمبر خدا (ص) جيسي ايک غير معمولي ہستي کے پاس تھي اور آپ(ص) نے دس سال تک انساني توان و طاقت سے مافوق اپني قدرت اور وحي الٰہي کے بحر بيکراں سے متصل ہوتے ہوئے اور بے مثل و نظير اور بے انتہا حکمت کے ساتھ دس سال تک اُس معاشرے کي راہنمائي فرمائي۔ آپ(ص) کے کچھ عرصے (پچيس سال) بعد ہي امير المومنين حضرت علي نے اُسي معاشرے پر حکومت کي اور مدينہ اور کوفہ کو بالترتيب اپني حکومت کا مرکز قرار ديا۔ اُس وقت وہ کيا حادثہ وقوع پذير ہوا تھا اور بيماري کاکون سا جرثومہ اُس معاشرے کے بدن ميں سرايت کر گيا تھا کہ حضرت ختمي مرتبت (ص) کے وصال کے نصف صدي اور امير المومنين کي شہادت کے بيس سال بعد ہي اِسي معاشرے اور اِنہي لوگوں کے درميان حسين ابن علي جيسي عظيم المرتبت ہستي کو اُس دردناک طريقے سے شہيد کرديا جاتا ہے؟!
آخر وہ کون سے علل و اسباب تھے کہ جس کے با عث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا؟ يہ کوئي بے نام و نشان اور گمنام ہستي نہيں تھي بلکہ يہ اپنے بچپنے ميں ايسا بچہ تھا کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) اپني آغوش ميں ليتے تھے اوراُس کے ساتھ منبر پر تشريف لے کر اصحاب۱ سے گفتگو فرماتے تھے۔
وہ ايک ايسا فرزند تھا کہ جس کے بارے ميں خدا کے رسول (ص) نے يہ فرمايا کہ ’’حُسَينُ مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسِينِ‘‘،’’حسين مجھے سے ہے اور ميں حسين سے ہوں‘‘ اور اِن پسر وپدر کے درميان ايک مضبوط رشتہ اور رابطہ قائم تھا۔ يہ ايک ايسافرزند تھا کہ جس کا شمار امير المومنين کے دورِحکومت کي جنگ و صلح کے زمانوں ميں حکومت کے بنيادي ارکان ميں ہوتا تھا اورجو ميدان سياست ميں وہ ايک روشن و تابناک خورشيد کي مانند جگمگاتا تھا ۔ اِس کے باوجود اُس اسلامي معاشرے کا حال يہ ہوجائے کہ پيغمبر اکرم (ص) کا يہي معروف نواسہ اپنے عمل، تقويٰ، باعظمت شخصيت، عزت و آبرو، شہرِ مدينہ ميں اپنے حلقہ درس کہ جس ميں آپ کے چاہنے والے، اصحاب اور دنيائے اسلام کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شيعہ شرکت کرتے تھے، کے باوجودايسے حالات ميں گرفتار ہوجائے کہ جس کا نہايت بدترين طريقے سے محاصرہ کر کے اُسے پياسا قتل کرديا جائے۔نہ صرف يہ کہ اُسے قتل کرتے ہيں بلکہ اُس کے ساتھ تمام مردوں حتي اُس کے شش ماہ شير خوار بچے کو بھي قتل کرديتے ہيںاور صرف اِسي قتل و غارت پر اکتفائ نہيں کرتے بلکہ اُس کے بيوي بچوں اور ديگر خواتين کو جنگي قيديوں کي مانند اسير بنا کر شہر شہر گھماتے ہيں؛آخر قصّہ کيا تھا اور کيا حالات رونما ہوئے تھے؟ يہ ہے مقام عبرت!
آپ ايسے معاشرے کا اُس نبوي معاشرے سے موازنہ کريں تاکہ آپ کو دونوں کا فرق معلوم ہوسکے۔ ہمارے معاشرے کے سربراہ اور حاکم ، امام خميني۲ تھے جو بلاشک و شبہ ہمارے زمانے کي عظيم ترين شخصيت ميں شمار ہوتے تھے ليکن امام خميني ۲ کجا اور پيغمبر اکرم (ص) کجا؟ حضرت ختمي مرتبت (ص) نے اُس وقت معاشرے ميں ايک ايسي روح پھونکي تھي کہ اُن بزرگوار کي رحلت کے بعد بھي کئي دہائيوں تک پيغمبر (ص) کا چلايا ہوا کارواں اپنے راستے پر گامزن رہا۔ آپ يہ خيال نہ کريں کہ پيغمبر اکرم (ص) کے بعد ہونے والي فتوحات ميں خود پيغمبر(ص) کي ذات اقدس کے روحاني وجود کا اثر باقي نہيں تھا؛ يہ رسول اکرم (ص) کے وجود ہي کي برکت تھي کہ جو آپ(ص) کي رحلت کے بعد بھي اسلامي معاشرے کو آگے بڑھارہي تھي۔ گويا پيغمبر اکرم (ص) اُس معاشرے کي فتوحات اور ہمارے معاشرے (اور انقلاب) ميں تاثير رکھتے تھے کہ جس کا نتيجہ اِس صورت ميں نکلا ہے۔
ميں ہميشہ نوجوانوں ،يونيورسٹي اور ديني مدارس کے طالب علموں اور ديگر افراد سے يہي کہتا ہوں کہ نہايت سنجيدگي سے تاريخ کا مطالعہ کريں، بہت توجہ سے اِس ميں غور وفکر کريں اور ديکھيں کہ کيا حادثہ رونما ہوا ہے!
’’ تِلکَ اُمَّۃ? قَد خَلَت‘‘،’’وہ ايک اُمّت تھي جو گزر گئي‘‘، گذشتہ امتوں سے عبرت آموزي، قرآن ہي کي تعليم اور درس کا حصہ ہے۔اِس حادثے کے بنيادي اسباب ، چند امور ہيں،مَيں اُن کا تجزيہ و تحليل نہيں کرنا چاہتا بلکہ صرف اجمالي طور پر بيان کروںگا اور يہ محقق افراد کي ذمہ داري ہے کہ وہ سرجوڑ کر بيٹھيں اور ايک ايک جملے پرغور وفکر کريں۔
اِس تاريخي حادثے کا ايک اصلي سبب يہ ہے تھا کہ ’’دنيا پرستي اور برائي و بے حسي نے ديني غيرت اور ايمان کے احساسِ ذمہ داري کو چھين ليا تھا۔ يہ جو ہم اخلاقي ، اجتماعي ، اقتصادي ، سياسي اور ثقافتي برائيوں سے مقابلے کيلئے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کيلئے اتني تاکيد کرتے ہيںتو اِس کي ايک اصل وجہ يہ ہے کہ يہ تمام برائياں معاشرے کو بے حس بناديتي ہيں۔ وہ شہر مدينہ جو پہلي اسلامي حکومت کا پہلا مرکز تھا، کچھ مدت بعد بہترين موسيقاروں، گانا گانے والوں اور معروف ترين رقاصاوں کے مرکز ميں تبديل ہوگيا تھااور جب دربار شام ميں بہترين مغنّيوں اور گويّوں کو جمع کيا جاتا تو شہر مدينہ سے بہترين موسيقاروں اور خوبصورت آواز رکھنے والے مغنّيوںکو بلايا جاتا تھا!
يہ جسارت و گناہ، رسول اکرم (ص) کي رحلت کے سو يا دوسو سال بعد انجام نہيں ديئے گئے بلکہ جگر گوشہ حضرت زہرا ٭ اور نور چشم پيغمبر اکرم (ص) کي شہادت کے زمانے کے قريب حتي شہادت سے بھي قبل معاويہ کے زمانے ميں انجام پائے۔ يہي وجہ ہے کہ مدينۃ الرسول (ص) برائيوں اور گناہان کبيرہ کا مرکز بن گيا اور بڑي بڑي شخصيات ، اصحاب اور تابعين کي اولاد حتي خاندان بني ہاشم کے بعض نوجوان اِن برائيوں ميں گرفتار ہوگئے! اِس فاسد حکومت کے سرکردہ افراد يہ جانتے تھے کہ اُنہيں کيا کام کرنا ہے ،اُنہيں مسلمانوں کے کن حساس اورکمزور نکات پر انگلي رکھني ہے اور لوگوں کو حکومت اور اُس کي سياست سے غافل رکھنے کيلئے کن چيزوں کي ترويج کرني ہے۔يہ بلا اور کيفيت صرف شہر مدينہ سے ہي مخصوص نہيں تھي بلکہ دوسرے شہر بھي اِسي قسم کي برائيوں ميں مبتلا تھے۔
دين کي پيروي ، تقويٰ سے تمسک، پاکدامني کي اہميت اور معنويت کي قدر وقيمت کا اندازہ يہاں ہوتا ہے۔ يہ جو ہم بارہا موجودہ زمانے کے بہترين نوجوانوں کو تاکيد کرتے ہيں کہ آپ برائيوں کي گندگي سے اپنا دامن بچائے رکھيںتو اِس کي وجہ يہي ہے۔ آج اِن نوجوانوں کي طرح کون ہے جوانقلابِ اسلامي کے اُصولوں اور اہداف کا دفاع کرنے والے ہيں؟ يہ بسيجي (رضا کار) واقعاً بہترين نوجوان ہيں کہ جو علم، دين اور جہاد ميں سب سے آگے آگے ہيں، دنيا ميں ايسے نوجوان آپ کو کہاں نظر آئيں گے؟ يہ کم نظير ہيں اور دنيا ميں اتني کثير تعداد ميں آپ کو کہيںنہيں مليں گے؛بنابريں ، برائيوں کے سيلاب اور اُس کي اونچي اونچي موجوں سے ہوشيار رہيں۔
آج الحمد للہ خداوند عالم نے اِس انقلاب کي قداست و پاکيزگي ا ور معنويت کو محفوظ بنايا ہوا ہے، ہمارے نوجوان پاک و طاہر ہيں ليکن وہ اِس بات کو اچھي طرح ذہن نشين کرليں کہ زن، زر اور زمين، عيش پرستي اور دنيا کي لذتيں بہت خطرناک چيزيں ہيں کہ جو مضبوط دلوں اور مستحکم ارادے والے انسانوںکے پائے ثبات ميں لرزش پيدا کرنے کيلئے کافي ہيں لہٰذا اِن امور اور اِن کے وسوسوں کا مقابلہ کرنے کيلئے قيام کرنا چاہيے۔ وہ جہادِ اکبر کہ جس کي اتني تاکيد کي گئي ہے،يہي ہے؛ آپ نے جہادِ اصغر کو بطريق احسن انجام ديا ہے اور اب آپ اِس منزل پرآ پہنچے ہيں کہ جہادِ اکبر کو اچھي طرح انجام دے سکيں۔
الحمد للہ آج ہمارے نوجوان، مومن، حزب اللّٰہي اور بہترين نوجوان ہيں لہٰذا اِس نعمت کي قدر کرني چاہيے۔ دشمن چاہتا ہے کہ تمام مسلمان اقوام سے يہ نعمت چھين لے اور اُس کي خواہش ہے کہ مسلمان قوميں؛ عياشي، ذلت و رسوائي اور غفلت کا شکار ہوجائيں، برائيوں اور گناہوں کا دريا اُنہيں اپنے اندر غرق کر دے اور بيروني طاقتيں اُن پر اپنا تسلط جما ليں جيسا کہ انقلاب سے قبل ہمارے يہي حالات تھے اور آج بھي دنيا کے بہت سے ممالک ميں يہي کچھ ہورہا ہے۔
دوسرا عامل و سبب کہ جس کي وجہ سے يہ حالات پيش آئے اور جسے انسان آئمہ طاہرين کي زندگي ميں بھي مشاہدہ کرتا ہے،وہ يہ تھا کہ اہل حق نے جو ولايت و تشيع کي بنياد تصور کيے جاتے تھے ، دنيائے اسلام کي سرنوشت و مستقبل سے بے اعتنائي برتي، اِس سے غافل ہوئے اور اِس مسئلے کي اہميت کو دل و دماغ سے نکال ديا۔ بعض افراد نے کچھ ايام کيلئے تھوڑي بہت بہادري اور جوش و خروش کا مظاہرہ کيا کہ جس پر حکام وقت نے سخت گيري سے کام ليا۔ مثلاً يزيد کے دور حکومت ميں مدينۃ النبي پر حملہ ہوا، جس پر اہلِ مدينہ نے يزيد کے خلاف آواز اٹھائي تويزيد نے اِن لوگوں کو سرکوب کرنے کيلئے ايک ظالم شخص کو بھيجاکہ جس نے مدينہ ميں قتل عام کيا،نتيجے ميں اِن تمام افراد نے حالات سے سمجھوتہ کرليا اور ہر قسم کي مزاحمتي تحريک کو روک کربگڑتے ہو ئے اجتماعي مسائل سے اپني آنکھيں بند کرليں۔ البتہ اِن افراد ميں سب اہل مدينہ شامل نہيں ہيں بلکہ تھوڑے بہت ايسے افرادبھي تھے کہ جن کے درميان خود اختلاف تھا۔ يزيد کے خلاف مدينے ميں اٹھنے والي تحريک ميں اسلامي تعليمات کے برخلاف عمل کيا گيا، يعني نہ اُن ميں اتحاد تھا، نہ اُن کے کام منظم تھے اور نہ ہي يہ گروہ اور طاقتيں آپس ميں مکمل طورپرايک دوسرے سے مربوط و متصل تھيں۔ جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ دشمن نے بے رحمي اورنہايت سختي کے ساتھ ِاس تحريک کا سرکچل ديا اور پہلے ہي حملے ميں اِن کي ہمتيں جواب دے گئيں اور اُنہوں نے عقب نشيني کرلي؛ يہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔
آپس ميں مقابلہ کرنے اور ايک دوسرے کو نقصان پہنچانے والي حق و باطل کي طاقتوں کي جد و جہد بہت واضح سي بات ہے، جس طرح حق ،باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے اُسي طرح باطل بھي حق کي نابودي کيلئے کوشاںرہتا ہے۔ يہ حملے ہوتے رہتے ہيں اور قسمت کا فيصلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب اِن طاقتوں ميں سے کوئي ايک تھک جائے اور جو بھي پہلے کمزور پڑے گا تو شکست اُس کا مقدر بنے گي۔