12 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی تاریخ کی سب سے بڑی شکستوں میں سے ایک تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے مطابق یہ جارحیت اسرائیل کے ایران کا مقابلہ کرنے کے 20 سالہ منصوبے کا نتیجہ ہے، جو مکمل طور پر ناکامی پر منتج ہوئی۔ مقبوضہ علاقوں میں میڈیا کی شدید سنسرشپ کی وجہ سے نقصانات اصل اعداد و شمار ابھی تک مکمل طور پر شائع نہیں ہوسکے ہیں، لیکن اسرائیلی حکام اور میڈیا کے اعترافات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو بہت زیادہ معاشی، فوجی اور سماجی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار بحران کے حقیقی جہتوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ دکھاتے ہیں، لیکن یہ حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ تل ابیب نے 12 دن کے بعد جنگ بندی پر رضامندی کیوں ظاہر کی۔
صہیونی حکام کی ناکامی کا اعتراف
اعترافی بیانات میں سے ایک اہم ترین بیان میجر جنرل جیورا ایلینڈ نے دیا ہے، جو اسرائیلی سلامتی کونسل کے سابق چیئرمین ہیں۔ صیہونی حکومت کے میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں، انہوں نے کہا: "اسرائیل کے مفادات جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کو قبول کرنے میں تھے، جنگ جاری رکھنا اس کے بہترین مفاد میں نہیں تھا۔" یہ الفاظ براہ راست اسٹریٹجک اہداف کے حصول میں ناکامی کے اعتراف کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئلینڈ کے مطابق، جنگ جاری رکھنے کے اخراجات، بشمول معاشی نقصانات اور بین الاقوامی دباؤ، ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ تھے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے بھی 12 روزہ جنگ کے بارے میں کہا: "ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا اور ایران کا اسرائیل کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" یہ کھلا اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔
حکومت کے میڈیا تجزیہ کاروں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ چینل 12 کے ایک رپورٹر نے کہا: "ہم ایران کو شکست دینے میں ناکام رہے اور ہم مستقبل میں اس کی قیمت ادا کریں گے۔" اخبار یدیوت احرونوت کے عسکری تجزیہ کار یو سی یھوشوا نے زور دے کر کہا: "اسرائیل اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ، ایران کو شکست دینے میں ناکام رہا۔" اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ایران نے ابھی تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار یا بھاری میزائل استعمال نہیں کیے ہیں اور معاریو اخبار نے تسلیم کیا ہے کہ ایران جنگ کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔
مالی اور معاشی نقصانات
اسرائیلی ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے مطابق ایران کے ساتھ جنگ کے آغاز سے اب تک 41,651 نقصان کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ عمارتوں کو نقصان پہنچانے سے متعلق 32,975 مقدمات، گاڑیوں سے متعلق 4,119 کیسز، آلات اور جائیداد سے متعلق 4,456 مقدمات۔ ایک اندازے کے مطابق ہزاروں تباہ شدہ عمارتیں اب بھی غیر رجسٹرڈ ہیں۔ Ma'ariv اخبار کے معاشی تجزیہ کار شلومو موز نے لکھا ہے کہ 12 روزہ اسرائیلی فوجی آپریشن پر تقریباً 16 بلین ڈالر لاگت آئی اور اسی رقم سے حکومت کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کو نقصان پہنچا۔ اقتصادی سرگرمیوں میں خلل کی وجہ سے روزانہ تقریباً 1.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جس سے ہائی ٹیک، نقل و حمل، سیاحت، ریستوراں اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کو نقصان پہنچا۔ ہوائی اڈے کی بندش اور پروازوں کی معطلی بھی معیشت پر اضافی دباؤ ڈالتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ فرض کرتے ہوئے کہ نصف نقصانات کی تلافی مستقبل میں ہو جائے گی، اس سے اب بھی تقریباً 8 بلین ڈالر کا نقصان ہوگا، جو اسرائیل کی جی ڈی پی کے 1.3 فیصد کے برابر ہے۔
فوجی اور دفاعی اخراجات
اسرائیل کے اوسطاً فوجی اخراجات 725 ملین ڈالر یومیہ تھے، جو 12 دنوں کے دوران کل 8.7 بلین ڈالر بنتا ہے۔ اس میں فضائی حملے، F-35 لڑاکا طیاروں اور مختلف گولہ بارود کا استعمال شامل تھا۔ آئرن ڈوم، ایرو، اور ڈیوڈز فلاک سمیت جدید میزائل ڈیفنس سسٹم کو چالو کرنے کی لاگت $10 ملین سے $200 ملین یومیہ ہے۔ ہر ایک انٹرسیپٹر میزائل کی لاگت $700,000 اور $4 ملین کے درمیان ہے اور 12 دنوں کے دوران کل دفاعی اور فوجی اخراجات کا تخمینہ $12.2 بلین لگایا گیا ہے۔
ایرانی حملوں سے نقصان
ایرانی میزائل حملوں سے انفراسٹرکچر کو تقریباً 3 بلین ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچا۔ کلیدی اہداف میں حیفا آئل ریفائنری، وایزمین انسٹی ٹیوٹ اور تل ابیب میں فوجی عمارتیں شامل تھیں۔ اسرائیلی ٹیکس اتھارٹی نے ابتدائی طور پر نقصان کا تخمینہ 1.3 بلین ڈالر لگایا تھا، لیکن توقع ہے کہ یہ 1.5 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا، جو پچھلے ایرانی حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان سے دوگنا ہے۔ 18,000 سے زیادہ لوگ اپنے گھر خالی کرنے پر مجبور ہوئے اور ہنگامی رہائش کے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 500 ملین ڈالر لگایا گیا۔ انفراسٹرکچر اور گھروں کی تعمیر اسکے علاوہ ہے۔
میکرو اکنامک نتائج
ناکام جنگ کے بعد، حکومت کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 6 فیصد تک بڑھ گیا اور دفاعی اخراجات 20 سے 30 بلین شیکل تک بڑھ گئے۔ بنک آف اسرائیل نے اپنی 2025ء کی اقتصادی ترقی کی پیشن گوئی کو کم کرکے 3.5 فیصد کر دیا اور جنگ کی لاگت کا تخمینہ جی ڈی پی کا 1 فیصد (تقریباً 5.9 بلین ڈالر) لگایا۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور فچ کی جانب سے وارننگ کے ساتھ حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ بھی متاثر ہوئی۔ امریکہ نے بھی اسرائیل کے دفاع پر تقریباً 1 سے 1.2 بلین ڈالر خرچ کیے، خاص طور پر THAAD سسٹم کے ذریعے، لیکن اپنے ابتدائی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد، اس نے اس کو بھی ترک کر دیا۔
نتیجہ
اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی من گھڑت تاریخ کی سب سے مہنگی اور ناکام جنگوں میں سے ایک تھی۔ سرکاری اعداد و شمار اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے اقتصادی اخراجات 12 سے 20 بلین ڈالر کے درمیان بتائے گئے ہیں، لیکن زیادہ جامع اندازے 40 بلین ڈالر کے اعداد و شمار کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اہم اخراجات
براہ راست فوجی اخراجات: 12.2 بلین ڈالر، اقتصادی رکاوٹ اور کاروبار کی بندش: 21.4 بلین ڈالر، ایرانی حملوں سے نقصان: 4.5 بلین ڈالر، انخلا اور تعمیر نو کے اخراجات: 2 بلین ڈالر۔ یہ اعداد و شمار، حتیٰ کہ حکومت کے اپنے بتائے ہوئے سرکاری اعداد و شمار بھی اسرائیل پر شدید اقتصادی، فوجی اور سماجی دباؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ بجٹ خسارے، اقتصادی ترقی میں کمی، سیاحت کو پہنچنے والے نقصان، پیشہ ور افراد کی بے دخلی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی سمیت طویل مدتی نتائج اسکے علاوہ ہیں۔ بالآخر، 12 روزہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا اسرائیل کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور تل ابیب مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ بیانیہ اور اعداد و شمار اسرائیلیوں اور ان کے میڈیا ذرائع کے اعترافات پر مبنی ہے۔ یہ اعتراف شکست و ریخت کے حقیقی جہتوں کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں اور شور شرابے کے باوجود صیہونی حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ میں تقریباً مفلوج ہوچکی تھی۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
