سلیمانی

سلیمانی

حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی  اور ہزاروں افراد کی موجودگی میں امریکہ کے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے  سپاہ اسلام کے مایہ ناز مجاہد میجر جنرل شہید قاسم سلیمانی، مجاہد عظیم ابو مہدی مہندس  اور ان کے شہید ساتھیوں کی یاد میں مجلس ترحیم منعقد ہوئی ۔

مجلس ترحیم میں تینوں قوا کے سر براہان ، ملک کےاعلی سول و فوجی حکام ، بعض وزراء ، بعض عراقی حکام ، اسلامی مزاحمت کے بعض نمائندوں اور غیر ملکی سفراء نے شرکت کی۔ عراق کی قومی سلامتی کونسل اور حشد الشعبی کے سربراہ فالح الفیاض نے عراقی حکام اور عوام کی نمائندگی میں سپاہ اسلام کے عظيم کمانڈر میجر جنرل سلیمانی کی شہادت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی عوام کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا: ہمارے لئے بہت ہی دردناک ، سخت اور سنگین ہے کہ ان عزیزوں اور سرافراز شہیدوں کا پاک خون ، سید الشہداء کی سرزمین پر گرایا گیا۔ ان دلیر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے عراقی عوام نے متحد ہوکر ان عزیز کمانڈروں کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

جناب فیاض نے شہید ابو مہدی مہندس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےکہا : شہید ابو مہدی مہندس نے شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ تکفیریوں کا مقابلہ کرنے اور عراق میں امن و سلامتی برقرار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور سرانجام دونوں شہیدوں کا خون اور گوشت بھی ایکدوسرے کے ساتھ مخلوط ہوگیا۔

مجلس ترحیم سے حجۃ الاسلام والمسلمین صدیقی نے میجر جنرل شہید سلیمانی کے ممتاز اور برجستہ خصائل اور خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شہید میجر جنرل سلیمانی عظیم مجاہد  ، منصوبہ ساز، بیدار، ہوشیار اور فاتح کمانڈر ہونے کے ساتھ  صدیقہ کبری سلام اللہ علیھا کو نمونہ عمل بناتے ہوئےولایت کے مکمل طور پر مطیع اور فرمانبردار تھے اور ان کی شہادت بھی ان کی حیات کی طرح اسلام اورانقلاب اسلامی کی عزت ،عظمت اور سرافرازی کا باعث بنی۔

مجلس ترحیم میں قاریان قرآن  نے کلام اللہ مجید کی تلاوت کی اور اہلبیت علیھم السلام کےمداحوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے مصائب میں نوحہ خوانی کی اور شہید قاسم سلیمانی سمیت مجاہدین اسلام اور جہاد کی فضیلت اور عظمت کے بارے میں اشعار پیش کئے۔

 ایرانی سپاہ کی ایئر فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ  عین الاسد میں امریکی ایئر بیس پر ایران کے میزائل حملے امریکہ کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے، ایران نے امریکہ کا رعب و دبدبہ ختم کردیا ہے خطے میں امریکہ کے تمام فوجی اڈے ایرانی میزائلوں کے نشانے پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ نے بغداد ايئر پورٹ کے قریب شہید حاج قاسم سلیمانی کو بزدلانہ طریقہ سے شہید کرکے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے ، امریکہ کی یہ اسٹراٹیجک  غلطی ہے جس کی بنا پر خطے سے امریکہ کا خاتمہ ہوجائےگا  اور امریکہ نے اپنے اس دہشت گردانہ اقدام سے خطے میں اپنے ہزاروں فوجیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے ابھی شہید سلیمانی کے پاک اور ناحق خون کا بدلہ نہیں لیا ابھی ہم نے اپنی پہلی جھلکی دکھائی ہے اگر امریکہ خطے سے نکل گیا تو ٹھیک، ورنہ ہم  اسے خطے سے نکال کر دم لیں گے اور اس خطے سے امریکہ کا اخراج ہی شہید سلیمانی کے پاک خون کا اصلی بدلہ ہوگا۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ ہم نے پوری صورتحال کا محاسبہ کرتے ہوئے عراق میں امریکہ کے ايئر بیس عین الاسد کو میزائلوں سے نشانہ بنایا اور ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے اور ہم نے ہدف کوپہلے ہی حملے میں مکمل طور پر تباہ کردیا۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ کا بیان امریکی اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے ہے اگر امریکی صدر اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ ایرانی میزائل حملے میں امریکہ کا کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا تو صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت دیں پھر سچ اور جھوٹ کا سب کو پتہ چل جائےگا۔

انھوں نے کہا کہ عین الاسد میں امریکی ڈرون، ہیلی کاپٹر اور دیگر جنگی وسائل مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ امریکیوں نے اپنے فوجیوں کے جنازوں اور زخمی فوجیوں کو اسرائیل اور بعض دیگر اتحادی ممالک میں منتقل کیا ہے ۔ جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ خطے میں ایک نئی روح اور نیا عزم پیدا ہواہے۔ جس طرح حزب اللہ اور حماس نے اسرائیل کی طاقت کا طلسم توڑ دیا اسی طرح  ایران نے امریکہ کی طاقت کے طلسم کو توڑدیا ہے ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن ہم خطے میں امریکی موجودگی کے بھی خلاف ہیں ۔ امریکہ خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکہ علاقائي ممالک اور عالمی قوانین کو توڑ رہا ہے۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ ہم نے میزائل حملوں کے علاوہ دشمن پر سائیبر حملہ بھی کیا اور ان کے ڈرون طیاروں کا کنٹرول ان کے ہاتھوں سے چھین لیا اور ہمارے اس اقدام سے امریکیوں پر مزيد خوف و ہراس طاری ہوگیا۔ ہم نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ اگر امریکہ نے مزید کسی شرارت کا ارتکاب کیا تو ہمارا اگلا جواب بہت ہی سخت اور دنداں شکن ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل خطے میں امریکہ کے تمام سنگین جرائم میں برابر کا شریک ہے۔ اسرائیل کے ہاتھ فلسطینی، لبنانی، شامی، عراقی اور یمنی مسلمانوں کے خون سےر نگین ہیں لہذا ہم اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔

جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ ہم کسی کو قتل کرنےکی تلاش و کوشش میں نہیں ، بہرحال اس حملے میں درجنوں امریکی فوجی مارے گئے ہیں ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ انھوں نے بڑی تعداد میں زخمی فوجیوں کو اسرائل منتقل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ پہلے ہی حملے میں خوفزدہ ہوگیا اور اس نے جوابی حملہ نہیں کیا ورنہ ہم تو 48 گھنٹوں میں 5 ہزار امریکی فوجیوں کی لاشیں ان کے ہاتھ پر رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور خطے کی عافیت اسی میں ہے کہ امریکہ اس خطے سے نکل جائے ۔ جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ امریکہ دوسرے ممالک کو صرف رعب و دبدبہ اور دھونس سے مرعوب کرلیتا ہے لیکن وہ ایران کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ ایران ایک بڑا اور با عزت ملک ہے اور ایران امریکی دھونس میں آنے والا نہیں۔ ہمارا اللہ تعالی کی ذات پر پختہ ایمان ہے ہم کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے لیکن ہم کسی کی زیادتی کو برداشت بھی نہیں کریں گے۔ہم پر فوجی حملہ کیا گیا ہے ہمارے عظیم جنرل کو شہید کیا گیا ہے ہم ابھی پہلا قدم اٹھایا ہے۔

Thursday, 09 January 2020 21:52

صادق اور امین ٹرمپ

تحریر: زین عباس
 

ویسے تو امریکی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے اور اب تک وہ اس "سب کچھ" کے بے شمار مظاہر دکھا چکے ہیں، وہ عراق اور افغانستان میں بمباری ہو یا گوانتانامو بے اور ابو غریب جیل میں تفتیشی طریقے، عراق اور شام پہ حملہ کرنے سے پہلے کا جھوٹ ہو یا ویتنام اور افغانستان میں اپنی ناکامیاں چھپانے کا ہنر۔۔۔ لیکن اس سب کچھ میں ایک قدرِ مشترک جھوٹ ہے! جدید محاذ اسی پراپیگنڈا کی بنیاد پہ چلتا ہے، پچھلے سال پاک انڈیا تنازعے میں بھی ہم اس کی طاقت کا مشاہدہ کرچکے ہیں، لیکن اس بار سب سے اہم بات یہ کہ اب تک کسی کو بھی، حتیٰ عراقی فوج اور انٹیلیجنس کو بھی عین الاسد بیس میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعض افراد گذشتہ روز کی پریس کانفرنس سے ایک بار پھر اس سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ امریکی صدر سچ تو نہیں بول رہا، تو اس سے پہلے کہ آپ میڈیا کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کر ٹرمپ کی باتوں کو دل پہ لینے لگیں، چند عرائض گوش گذار کرتا چلوں۔
 
کسی ملک سے بیلسٹک میزائل مارے جانے کے بعد چار صورتیں ہوسکتی ہیں:
1) بیلسٹک میزائل ہوا میں اینٹی میزائل سیسٹم سے نشانہ بنایا جائے اور وہ زمین تک پہنچ ہی نہ سکے۔ ایران نے ان حملوں کے لیے فاتح اور ذوالفقار میزائل استعمال کیے ہیں، جن میں یہ صلاحیت ہے کہ امریکی بیس میں موجود جدید ترین پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم کے راڈارز کو بھی جیم کرسکیں، جس کے نیتجے میں زیادہ سے زیادہ جو دعویٰ امریکی کرسکے ہیں، وہ یہ کہ ایک میزائل ہوا میں روکا گیا، البتہ اس کے لیے بھی بطور ثبوت کوئی ویڈیو جاری نہیں کی گئی۔
2) دوسرا امکان اس سلسلے میں یہ ہوتا ہے کہ گرنے والے میزائل گریں، لیکن پھٹ نہ سکیں۔ اس صورت میں میزائل ایک عام لوہے کے ٹکڑے کی طرح زمین پہ گر کر بکھر جاتا ہے، جس کا ملبہ با آسانی دکھایا جا سکتا ہے۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ دو میزائل ایسے تھے کہ جو گرے ہیں اور پھٹے نہیں ہیں، البتہ اس کے لیے بھی کوئی تصویر یا ویڈیو جاری نہیں کی جا سکی۔
 
3) تیسری صورت یہ ہے کہ میزائل راڈار سسٹم سے بچتا ہوا، بالآخر زمین پہ پہنچ جائے اور پھٹ بھی جائے، لیکن وہ اپنا نشانہ بنانے میں غلطی کرے، جس کے نتیجے میں بیس میں موجود خالی علاقوں میں پھٹے اور زمین کھودنے کے علاوہ کوئی کام انجام نہ دے سکے۔ اس صورت میں اپنے دشمن کو شرمندہ کرنے کے لیے میڈیا کو دعوت دی جاتی ہے یا خود ان تصاویر کو شائع کر دیا جاتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار ایسا بھی کچھ نہیں دیا گیا۔
4) چوتھا اور حتمی امکان یہ ہے کہ میزائل نشانے پہ جا لگے اور مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنائے، جس کے نیتجے میں نقصان پہنچ جائے، جو کہ پہنچنے شرمندگی اور ذلت کی بات ہے۔۔۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ اپنی عزت بچانے اور لوگوں کا ابہام میں رکھنے کے لیے وہی کام انجام دیا جاتا ہے، جو امریکہ نے انجام دیا۔۔۔

اس حوالے سے چند چیزیں جو اب تک سامنے آچکی ہیں، ان میں رائٹرز اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں کی طرف سے دی جانے والی سیٹلائٹ تصاویر ہیں کہ جن میں کم از کم پانچ ہوائی اڈوں کو منہدم ہوا دیکھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، کنٹرول ٹاور اور رن ویز کی تباہی کے ساتھ ساتھ دس ملٹری ٹینٹس کی بربادی اور ایک پریڈیٹر ڈرون کو نقصان پہنچنے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے باوجود بھی جانی نقصان سے مطلق انکار کرنا اس جھوٹ کو بالکل ہی واضح کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نیوز ویک کا کہنا ہے کہ جانی نقصان کا نہ ہونا عراقی انٹیلیجنس کی طرف سے ہوشیار کیے جانے کے سبب ممکن ہوا کہ جس کے نیتجے میں فوجیوں کو محفوط مقامات پہ پہنچا دیا گیا۔

البتہ یہ بات بعید از قیاس ہے، کیونکہ فوجی اڈے پہ ایمرجنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فوج چوکنی ہو جائے، نہ یہ کہ سب فوجی دبک کر بیٹھ جائیں، دوسرے یہ کہ اس بات کے قوی امکانات تھے کہ میزائل حملوں کے فوراً بعد براہ راست حملہ کر دیا جاتا، کیونکہ عراقی امریکی بیس کے اطراف میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ سب فوجی محفوط مقامات پہ پناہ لے لیں اور حتٰی ائیر کنٹرول ٹاور میں بھی کوئی موجود نہ ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے ایک رکن نے امریکی صدر کی بریفنگ کو اس حساس موضوع پہ بدترین بریفنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کل کے خطاب میں اس حملے کے علاوہ دنیا کے تمام اہم موضوعات پہ روشنی ڈالی ہے اور ان نقصانات کی تفصیلات جو فوجی قاعدے کے مطابق جاری کی جاتی ہیں، نہیں بتائی گئیں اور آہستہ آہستہ دیگر ذرائع سے نقصانات کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں، جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ چند روز تک مارے جانے والے افراد کی لاشیں بھی سامنے آہی جائیں گی۔ بہرحال ٹرمپ صاحب اگر اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی بجائے اگر چند فوجیوں کی ہلاکت کی خبر بھی سنا دیتے تو شاید دنیا کے لیے ماننا آسان ہوتا اور اگرچہ ٹرمپ کی سیاسی ناکامی سامنے آجاتی، لیکن کچھ نہ کچھ سچے ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔
تحریر: تصور حسین شہزاد

القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایران اور عراق کے عوام میں پیدا ہوتی دُوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ عراقی اب ایرانیوں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ کل تک یہ حقیقت ہے کہ عراقی امریکہ کو نجات دہندہ سمجھتے تھے، جس نے صدام جیسے آمر سے انہیں نجات دلائی تھی، مگر اب انہیں سمجھ آ گئی کہ امریکہ یہاں عراقی عوام کی بہبود کیلئے نہیں، بلکہ تیل کے لالچ میں آیا تھا۔ جبکہ داعش کو قائم کرکے امریکہ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ شام اور عراق پر قبضہ کرلے گا۔ مگر جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی نے امریکہ کا یہ خواب چکنا چُور کر دیا۔ اس میں امریکہ کو نہ صرف تذلیل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ امریکہ کو اتنا مجبور کر دیا گیا کہ اسے خود اپنی ہی بنائی ہوئی داعش کے خاتمے کیلئے میدان میں آنا پڑا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے خطے  میں جاری امریکی سازشوں سے پردہ فاش کیا۔ اس حملے سے واضح ہو گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے، جو جسے چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے نشانہ بنا دیتا ہے۔ امریکہ قانون کا احترام کرتا ہے نہ اںسانیت کا خیال رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملایشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو بھی یہ بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، قاسم سلیمانی پر حملے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں اور کسی کی کہی ہوئی سخت بات کسی کو اگر پسند نہیں آتی تو وہ کسی دوسرے ملک کے ڈرون حملے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق ان کی سچی باتیں پسند نہ آنے کی صورت میں شاید انہیں بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔ مہاتیر محمد کا یہ بیان امت مسلمہ کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ ملایشیاء کانفرنس بھی اتحاد امت کے اسی سلسلے کی کڑی تھی، مگر پاکستان نے سعودی عرب کے دباو میں آ کر اس میں شرکت نہ کرکے اپنا وقار مجروح کر لیا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے ایران کو بھی اب محفوظ بنا دیا ہے۔ ایران میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کیخلاف عوامی ردعمل آ رہا تھا۔ مظاہروں کو بیرونی سازشوں کے تحت ہوا دی جا رہی تھی۔ مگر اب حکومت کیخلاف مظاہرے کرنے والے بھی نم دیدہ ہیں کہ ان کا محافظ شہید ہو گیا۔ حکومت کیخلاف نعرے لگانے، جلاؤ گھیراؤ کرنیوالوں نے بھی اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ وہ لوگ جو تہران حکومت کیخلاف مظاہروں میں پیش پیش تھے، اب خاموش ہیں اور قاسم سلیمانی کی شہادت پر نوحہ کناں ہیں۔ قاسم سلیمانی زندہ تھے تو ایران کے محافظت کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی انہوں نے ایران کو اور زیادہ محفوظ بنا دیا۔ اب امریکہ کی وہ ساری ’’سرمایہ کاری‘‘ خاک ہو چکی ہے، جو اس نے مظاہرین کو اشتعال دلانے کیلئے تہران کیخلاف ایران میں کی تھی۔

دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک امریکہ کے اس اقدام کو جارحیت قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد ہو سکتی ہے، مگر اب حالیہ صورتحال دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایران نے نہایت حکمت عملی کیساتھ امریکہ سے انتقام لینے کا پلان تیار کیا ہے۔ فوری ردعمل کے طور پر 2 امریکی ایئربیسز پر حملوں کو تو ایرانی قیادت نے صرف ’’تھپڑ‘‘ قرار دیا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ ابھی انتقام تو باقی ہے۔ ایران نے تھپڑ کے طور پر اگر امریکہ کے دو ایئر بیس مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے ہیں تو انتقام کتنا شدید ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ابھی بھی کچھ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ دفاعی اعتبار سے مضبوط ہے، اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ دنیا کی بڑی فوج ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ مبصرین یہ بھول گئے ہیں کہ ایران نے امریکہ کے 2 ایئر بیسز پر حملے کر کے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کے جدید ہتھیار ایرانی بیلسٹک میزائلوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ گو کہ امریکہ نے ابھی تک مذکورہ بالا دونوں ایئر بیسز پر ہونیوالی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کیا جبکہ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ 80 امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ حقائق بھی جلد منظر عام پر آ جائیں گے۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بیدار اور متحد کیا ہے، وہیں ان کی شہادت سے پاکستان میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ مختلف گروپوں میں تقسیم اہل تشیع متحد ہو گئے ہیں۔ پہلے پاکستان کے اہل تشیع شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، تحریک بیداری امت مصطفی، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دیگر ناموں کیساتھ مختلف جماعتوں میں تقسیم تھے، مدارس الگ الگ ڈگر پرچل رہے تھے، مگر جنرل سلیمانی کی شہادت اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان میں سازشوں کیخلاف یہ تمام جماعتیں، مدارس اور دھڑے ’’اتحاد امت فورم‘‘ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے ہیں اور تمام قائدین نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر بند باندھیں گے۔ اس حوالے سے 12 جنوری کو لاہور سمیت ملک بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کیلئے لاہور میں پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک ریلی نکالی جائے گی، جس میں تمام جماعتوں کے رہنما اور کارکنان شریک ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستان کے اہلسنت نے بھی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی سازشوں کا ادراک کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو امریکہ کی بربادی سے تعبیر کیا ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ نے جنرل سلیمانی کو شہید کرکے مشرق وسطیٰ کی زمین اپنے لئے تنگ کر لی ہے، اب وہ مزید مشرق وسطیٰ میں قیام نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی صدر اعجاز ہاشمی اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے پیر معصوم نقوی سمیت دیگر علمائے و قائدین نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کو امریکی جارحیت قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے وفد نے لاہور میں ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات کی اور امریکی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ پاکستان کی اہل تشیع جماعتوں کیساتھ ساتھ اہلسنت جماعتیں بھی اس محاذ پر ایران کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ مذہبی قائدین نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین ایران کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اُدھر ایران کی کامیابیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ نے کویت سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے کویت کے وزیر دفاع کو خط پہنچا دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کویت سے 3 روز میں اپنی فوجیں نکال لے گا۔ کویت کے عارف جان کیمپ میں امریکہ کے میرین کوسٹ گارڈ، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار تعینات ہیں۔ اسی طرح عراق کی پارلیمنٹ بھی امریکی فوج کے عراق سے فوری انخلاء کی منظوری دے چکی ہے۔ امریکہ نے مستقل بنیادوں پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرے ڈالے تھے اور علاقے کے وسائل اور تیل کیلئے یہاں اڈے بنائے، مگر اب جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کا علاقے میں قیام ناممکن ہو چکا ہے۔ امریکہ نے قاسم سلیمانی کو شہید نہیں کیا بلکہ اپنے مفادات کا سر قلم کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کے بعد امریکہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کے اندر بھی مزاحمتی تحریک سر اُٹھا رہی ہے، جسے قابو کرنا شائد امریکہ کے بس میں نہ رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے جہاں امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کیا ہے، وہیں امریکہ کیلئے خطرناک مستقبل کی بنیاد بھی رکھ دی ہے اور شائد یہی وہ سخت انتقام ہے جس کا آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ دیا تھا۔ صیاد خود اپنے دام میں آ چکا ہے۔
 
 
 

تحریر: نذر حافی


فوجی اڈہ کیا ہوتا ہے؟ بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں لارہ اڈے جیسی ہی کوئی چیز ہوتی ہے، کچھ کے اذہان میں فوجی اڈہ ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے، جس میں کچھ فوجی بیرکیں ہوتی ہیں، وہاں فوجی حضرات رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور ورزش وغیرہ کرتے ہیں۔ المختصر جتنی جس کی معلومات ہوتی ہیں، ویسا ہی اس کے ذہن میں فوجی اڈے کے بارے میں نقشہ بھی ہوتا ہے۔ ایرانیوں نے کہا تھا کہ ہم سخت انتقام لیں گے، انہوں نے یہ انتقامی حملہ چھپ چھپا کر، اچانک اور خاموشی سے نہیں کیا بلکہ پانچ دن اور رات مسلسل وارننگ دینے کے بعد عین رات کے اسی وقت یہ حملہ کیا، جس وقت قاسم سلیمانی پر حملہ کیا گیا تھا۔ اگر یہ حملہ چھپ چھپا کر ہوتا تو پھر شاید امریکیوں میں اور ایرانیوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نہ ہوتا۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ عراق میں حشد الشعبی کے ذریعے پہلے دن سے عراقی عوام کو امریکی اڈوں سے دور رہنے کی بار بار تاکید کی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں کوئی ایک بے گناہ عراقی بھی ہلاک نہیں ہوا اور اس بات کی حکومت عراق نے بھی تصدیق کی ہے۔ تیسری اور اہم بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ ایران نے حملے سے پہلے عراق کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عراقی حکومت سے باقاعدہ اجازت لی، یعنی امریکہ کی طرح نہیں کہ جہاں چاہا، وہاں حملہ کر دیا اور جتنے لوگ مرتے ہیں، مر جائیں۔

اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران نے عین الاسد کے فوجی اڈے کو ہی نشانہ کیوں بنایا!؟ حالانکہ اس سے پہلے اور نزدیک ترین امریکی اڈے موجود تھے، جو آسانی سے نشانہ بن سکتے تھے۔ جو لوگ جغرافیے، تحقیق اور جنگی تدابیر پر نظر رکھتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فوجی اڈہ عراق کے مغرب میں، صوبہ الانبار میں اور شام کی سرحد کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ یعنی ایران نے تقریباً سب سے دور ترین اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس قدر دور ترین مقام پر حملہ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس حملے سے ایران نے جہاں ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی عسکری طاقت کے حوالے سے جب عین الاسد کو ویران کرسکتا ہے تو باقی اڈے تو اس کی بغل میں ہیں۔ دوسری بات جو عین الاسد پر حملے کا باعث بنی، وہ خود عین الاسد کی اہمیت ہے۔

عین الاسد عراق میں امریکہ کا سب سے مرکزی، مضبوط اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوجی اڈہ تھا۔ اس کی مساحت اور رقبہ پچاس کلومیٹر مربع میل ہے۔ اس میں حملے کے وقت چار ہزار امریکی فوجی، بیس ہیلی کاپٹر اور تیس لڑاکا تیارے موجود تھے۔ صرف یہی نہیں، یہ اڈہ دراصل امریکیوں کی جنت کہلاتا تھا، اس میں ایک ایسا  شہر آباد تھا، جس میں عیش و نوش اور دنیا کی ہر عیاشی کا سامان تھا، یہی وہ اڈہ ہے، جہاں پر داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد ٹولوں کو تربیت دینے کے بعد آگے دھکیلا جاتا تھا، اس اڈے میں دہشت گردوں کے لئے ایک شاندار مسجد بھی بنائی گئی تھی۔ اس اڈے کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ کی اعلیٰ شخصیات جب عراق آتی تھیں تو اسی اڈے میں قیام پذیر ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ گذشتہ سال ٹرمپ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ جب عراق آیا تھا تو اسی اڈے پر اس کا استقبال کیا گیا تھا اور یہی اڈہ اس کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ چنانچہ اس اڈے کو عراق میں امریکہ کا دارالحکومت کہا جاتا تھا۔

جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے جاری کیا تھا، اس حکم پر عملدرآمد کا پیغام اسی عین الاسد کے اڈے سے اجرا کیا گیا تھا۔ چنانچہ عین الاسد کی یہ اہمیت خود یہ تقاضا کرتی تھی کہ اگر قاسم سلیمانی کا انتقام لینا ہے تو پھر کم از کم عین الاسد کے اڈے سے انتقام شروع کیا جائے۔ یہاں تک ایک بات ہر عقل مند اور سمجھدار آدمی کو سمجھ آتی ہے کہ ایرانیوں نے سخت انتقام کا آغاز ضرور کیا ہے، لیکن ایرانی اندھے انتقام کے قائل نہیں ہیں، ایرانیوں کا یہ عسکری انتقام اپنی جگہ جاری رہے گا، لیکن دراصل اقتصادی، سیاسی، ثقافتی، سفارتکاری اور اسلامی وحدت کے میدانوں میں امریکی و اسرائیلی مفادات کا صفایا کرنے میں ایرانی تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکی و اسرائیلی مفادات کے خلاف مختلف میدانوں میں ایران کی اس وقت کیا صورتحال ہے، اس پر ان شاء اللہ اگلی قسط میں بات کریں گے۔

بدھ کو یوم شہید کے موقع پر اپنے خطاب میں انصار اللہ کے سیکریٹری جنرل عبدالملک بدرالدین الحوثی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرکے عالمی قوانین کو پامال اور ریڈ لائن کو توڑا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل اسلام کے اصل دشمن ہیں اور وہ اپنی شیطانی چالوں کے ذریعے مسلمانوں کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔
 
انصار اللہ یمن کے سربراہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ خطے کی بعض حکومتیں امریکہ کی غلام ہیں اور واشنگٹن کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کرنا عین جہاد ہے۔عبدالملک بدرالدین الحوثی نے واضح کیا کہ ان کی تنظیم ایران، لبنان، عراق، شام، فلسطین اور ہر اس ملک کے ساتھ ہے جسے امریکہ کی جارحیت کا سامنا ہے۔انہوں نے امریکہ کا کاسہ لیس بن جانے کے  باعث سعودی عرب پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکام ایسے وقت میں امریکی صدر کی تعریفوں کے پل باندھ رہے جب خود امریکی عوام انہیں احمق قرار دیتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران اور دنیا کے گوشہ وکنار میں تیرہ جمادی الاول سے جو ایک روایت کے مطابق شہزادی کی تاریخ شہادت ہے ایام فاطمیہ کی مجالس کا آغاز ہوجاتا ہے اور تین جمادی الثانی تک جو دیگر روایتوں کے مطابق شہزادی کونین کی تاریخ شہادت ہے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بیس جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال مکہ مکرمہ میں اس دنیا میں تشریف لائیں اور سرکار دوعالم کی آغوش میں پرورش پائی اور اعلی الہی تعلیمات کی حامل بنیں۔ شہزادی کونین علوم الہی کے سرچشمے سے سیراب ہوئی تھیں اور یوں آپ خداوند عالم کے مقربین میں سے تھیں۔ ایک روایت کے مطابق تیرہ جمادی الاول گیارہ ہجری قمری اور ایک روایت کے مطابق تین جمادی الثانی گیارہ ہجری قمری کو صرف اٹھارہ سال کی عمرمیں آپ شہید ہوئیں۔

ایام فاطمیہ کی مناسبت سے ایران، پاکستان، ہندوستان ،عراق و لبنان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں مجالس عزا کا سلسلہ جاری ہے اور ذاکرین اہلبیت عصمت و طہارت صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے فضائل و مصائب بیان کررہے ہیں۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لخت جگر، شہزادی کونین، حضرت فاطمہ زہرا (س) کے یوم شہادت کی مناسبت سے سحر عالمی نیٹ ورک، اہلبیت اطہار علیہم السلام کے تمام چاہنے والوں کی خدمت میں بادل مغموم تعزیت پیش کرتا ہے۔

Thursday, 09 January 2020 08:31

ٹرمپ کی پریس کانفرنس

ٹرمپ کی پریس کانفرنس۔

ماضی میں جس طرح اعتماد کے ساتھ اِترا اِترا کر ایکشن کے ساتھ پریس سے خطاب کیا کرتا تھا ، آج مختلف نظر آیا۔۔۔۔۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگویج بالکل مختلف نظر آئی، زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی، سانس پھول رہا تھا اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔
ٹرمپ کانفرنس میں آدھا گھنٹہ لیٹ آیا اور ڈائس پر لکھی ھوئی تقریر پڑھی ۔ جسے اختتام پر وائٹ ہاوس کا ایک بندہ آکر واپس لے گیا۔ عرصہ بعد کسی وائٹ ہاؤس اہلکار کے کتاب میں ذکر آئیگا کہ ٹرمپ کیا کہنا چاہتے تھے جسے اسے منع کیاگیا۔
ٹرمپ نے ایران کے خلاف جاریحانہ رویہ نہیں اپنایا اور بظاہر ایران کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ یہ بھی اعلان شکست کے مترادف ھے کہ امریکا جواب میں کوئی فوجی کاروائی نہیں کرے گا بلکہ مزید سخت Sanctions لگائے گا ۔ یاد رھے کہ ٹرمپ نے عراق میں جنرل قاسم پر اپنے حملے کے بعد کہا تھا کہ ھماری طاقتور ترین فوج ھے ، ھم ایران کے 52 جگہوں کو نشانہ بنائیں گے ،اور ایران کو بھر پور جواب دیں گے ۔۔۔۔۔
تو آج جوابی حملہ نہ کرنے کا اعلان شکست نہیں تو کیا ھے۔

اسے کہتے ھیں ایران کو خدائی مدد ۔۔۔۔۔
جو لوگ خدا کی مدد کرتے ھیں خدا ان کی مدد کرتا ھے اور ثابت قدم رکھتا ھے

ڈونلڈ ٹرمپ نے جن کے چہرے پر شکست کے آثار نمایاں تھے ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کی تکرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدہ ایک احمقانہ معاہدہ تھا۔ انھوں نے یہ گھسا پٹا دعوی ایک ایسے وقت کیا ہے جب آئی اے ای اے نے اپنی پندرہ سے زیادہ رپورٹوں میں اس بات کی تائید کی ہےکہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر پوری طرح سے عمل کیا ہے۔
 
ٹرمپ نے دہشت گرد امریکی فوج کی عین الاسد چھاؤنی پر ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کامیاب حملے کو، جس میں کم سے کم اسّی امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں کم اہمیت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے دعوی کیا ہے کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ فوجی چھاؤنی کو نقصان پہنچا ہے۔ کوئی فوجی نقصان نہ ہونے کا دعوی ٹرمپ نے ایک ایسے وقت کیا ہے جب ایران سے فائر کئے گئے سبھی میزائل عین الاسد فوجی چھاؤنی پر جاکر لگے ہیں اور پوری فوجی چھاؤنی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے۔

دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والے امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف ایک بار پھر دہشت گردی کی حمایت کا الزام دوہرایا۔ انھوں نے ایران کے خلاف اس الزام کا اعادہ ایسی حالت میں کیا ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے خود اس بات کا اعلان کیا تھا کہ دہشت گرد گروہ داعش کو امریکا نے ہی بنایا ہے۔ ٹرمپ نے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تازہ دہشت گردانہ اقدام کا اعتراف کیا اور کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو میرے حکم پر قتل کیا گیا ہے کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی نے حزب اللہ جیسے کئی گروہوں کو ٹریننگ دی تھی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق میں جنرل قاسم سلیمانی اور جنرل ابو مہدی المہندس کو شہید کرنے کے امریکا کے دہشت گردانہ اقدام کی عراق اور دنیا کے بیشتر ملکوں نے مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قراردیا ہے۔
 
ٹرمپ نے انتہائی بے بسی اور ساتھ ہی بےشرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران سے کہا کہ داعش ہم دونوں کا دشمن ہے اس لئے ہم دونوں کو اس کے خلاف مل کر لڑنا چاہئے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ کی یہ پریس کانفرنس، وائٹ ہاؤس کے ذریعے ایک وسیع پروپیگنڈے کے بعد انجام پائی ہے جس میں کہا جارہا تھا کہ امریکی صدر ایک اہم پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔