سلیمانی

سلیمانی


قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ 2022ء کے فائنل مقابلے میں ارجنٹینا نے فرانس کو ایک دلچسپ مقابلے میں شکست دے دی اور یوں قطر میں منعقدہ فٹبال ورلڈ کپ 2022ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران قطر کے عوام، خطے کے مسلمانوں اور یہاں تک کہ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام نے ورلڈ کپ 2022ء کے دوران فلسطین کے لیے  جس حمایت کا اظہار کیا، وہ مدتوں تک یادگار رہے گا۔ "فلسطین نے ورلڈ کپ جیت لیا" یہ وہ جملہ ہے، جو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران عرب دنیا کے سوشل نیٹ ورکس میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ سوشل میڈیا نے فلسطین کو 2022ء کے قطر ورلڈ کپ کے چیمپئن کے طور پر اعلان کیا ہے۔ اگر آپ ورلڈ کپ سے متعلق خبریں دیکھتے اور سنتے رہے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ فلسطین سے تھوڑی دور قطر میں  ورلڈ کپ کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جنہوں نے صیہونیوں کو سخت مایوس کیا ہے۔

انگریزی اخبار گارجین کے مطابق اگرچہ اسرائیل اور فلسطین نے قطر ورلڈ کپ میں شرکت نہیں کی، تاہم قطر میں فلسطین کی نمایاں موجودگی بہت ہی واضح تھی۔ درحقیقت 2022ء کے ورلڈ کپ نے مسلمانوں اور فلسطینیوں کو دنیا کے اہم ترین کھیلوں کے مقابلوں میں فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کی ویب سائٹ کے مطابق فلسطینی پرچم ایک ایسی علامت بن گیا ہے، جو 2022ء ورلڈ کپ کی سرگرمیوں کے دوران ایک مضبوط موجودگی کا حامل رہا ہے اور عرب ٹیموں کے شائقین اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم لہرانے کے لیے ہر وقت تیار نظر آئے۔ تیونس، سعودی عرب اور الجزائر کے شائقین نے میچوں میں فلسطینی پرچم نمایاں طور پر اٹھا رکھے تھے اور انہیں اسکارف اور مفلر کے طور پر پہنا تھا۔ ان حامیوں نے یہ نعرے لگائے: "ہم فلسطین پر اپنی جانوں اور خون کو قربان کرتے ہیں۔"

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر عرب شائقین کی جانب سے ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے قطر جانے والے اسرائیلی صحافیوں سے گفتگو کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں، جن میں اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کی مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کیا گیا۔ ان شائقین کی کہانی ورلڈ کپ کے آغاز سے کچھ دیر پہلے شروع ہوئی تھی، جس میں "ورلڈ کپ میں فلسطین" مہم کا آغاز ہوا۔ اسٹیڈیم میں فلسطینی کاز سے محبت کرنے والوں کی طرف سے ٹی شرٹس اور جھنڈے تقسیم کرنے اور تماشائیوں کے اسٹینڈز میں "فلسطینی نعرے لگانے جیسی چیزوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ قطر میں 2022ء کے عالمی کپ کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی کوششوں کے بارے میں بین الاقوامی بیداری بڑھانے کے مقصد سے سوشل میڈیا پر کئی مہمیں چلائی گئیں، جس میں درجنوں ممالک کے شائقین کو اکٹھا کیا گیا۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے لئے اشتہارات اور پوسٹر ڈیزائن کئے گئے، ان اشتہارات کا عنوان تھا "آپ ورلڈ کپ میں فلسطین کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں؟" ان اشتہارات کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا، جس میں فلسطینی پرچم کے ساتھ اسکارف اور فلسطین کے پرچم کے رنگوں کے کپڑوں کے استعمال کی تجاویز بھی دی گئی تھیں۔، اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی پرچم کے رنگوں پر مشتمل ایک بڑا رومال اور مفلر بھی شامل تھا۔ اس مہم میں عرب عوام اور قطر کے ورلڈ کپ کے شائقین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اسٹیڈیم کے اردگرد سیڑھیوں، پلیٹ فارمز، میدانوں اور مختلف ٹیموں کے اجتماع کی جگہ پر فلسطین کے لیے حمایت کا اظہار کریں۔ "عالمی کپ میں #Palestine" کا ہیشٹیگ بھی عام تھا۔ "آزاد فلسطین" اور "قدس العربی" کا نعرہ  بھی اکثر کی زبان پر تھا۔ فلسطین آزاد کرو کے موضوعات والے بینرز کی تقسیم بھی نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ اس کے علاوہ شرکاء سے کہا گیا کہ وہ ورلڈ کپ میں فلسطین کے لیے اپنی حمایتی سرگرمیوں کی فلمیں اور دستاویزی پروگرام سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔

فلسطین کی حمایت میں ایک غیر معمولی علامتی اقدام میں، تیونس کے شائقین نے 26 نومبر کو آسٹریلیا کے خلاف تیونس کی قومی ٹیم کے میچ کے 48 ویں منٹ میں فلسطینی پرچم بلند کرکے 1948ء کے سانحے کی یاد منائی۔ مراکشی شائقین نے بھی کروشیا کے خلاف اپنی قومی ٹیم کے میچ کو انصاف کے حصول اور "شیرین ابو عاقلہ" کی شہادت کی یاد منانے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ "شیرین ابو عاقلہ" ایک فلسطینی صحافی تھیں، جسے اس سال کے شروع میں جنین پر اسرائیلی فوجی حملے کی کوریج کرتے ہوئے صہیونیوں نے شہید کر دیا تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران، فٹ بال کے شائقین نے "نو ٹو نارملائزیشن" کے تھیم والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے اور "شیرین ابو عاقلہ" کی تصویر کی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ بلاشبہ یہ اقدامات صرف عرب اور فلسطینی شائقین کے لیے نہیں تھے بلکہ غیر عرب اور اسلامی ممالک کے شائقین نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کی۔

قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کے دوران فلسطینی قوم کی حمایت کے حوالے سے جو واقعات دیکھے گئے۔ یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے، اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے، اور وہ صیہونیوں کی کھل کر مخالفت ہے۔ اس قابض صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینی زمینوں پر قبضے پر عوامی بیزاری کا اعلان بھی اس موقع پر پوری طرح سامنے آیا۔ میڈیا پرسن اور وہ صہیونی صحافی جو کئی عرب ممالک کے ساتھ  اسرائیل کے کامیاب اور امید افزا تعلقات کو معمول پر لانے کی امید کے ساتھ متعدد نیوز ٹیموں کی شکل میں قطر گئے تھے، انہیں اپنی رپورٹس کی تیاری کے دوران وہاں موجود لوگوں اور غیر ملکی مسافروں سے ایک غیر متوقع رویہ کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر Haaretz اخبار کے نمائندے نے 2022ء کے ورلڈ کپ کے دوران فلسطین کے لیے فٹ بال شائقین کی بھرپور حمایت کے معاملے کا ایک رپورٹ میں باقاعدہ ذکر کیا ہے۔

اس اخبار کے رپورٹر "عوزی دان" نے عالمی کپ کے دوران فلسطین کے لیے وسیع پیمانے پر حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رپورٹ میں اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ دوحہ کی گلیوں اور اسٹیڈیمز میں فلسطینی پرچم لہرانے تک محدود نہیں ہے، بلکہ قطر کے اسٹیڈیموں میں جلی حروف میں بینرز اور بل بورڈز نصب کیے گئے ہیں، جن پر FREE PALESTINE کے الفاظ تحریر ہیں۔ ایک ایسا عمل جس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے۔ تمام ورلڈ کپ کے شائقین اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ اسی تناظر میں انھوں نے لکھا: "یہ تل ابیب کے رہنماؤں کے لئے واضح پیغام ہے۔ "عوزی دان" نے قطر میں لہرائے جانے والے جھنڈوں میں صیہونی حکومت کے جھنڈے کی عدم موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید لکھا: "گذشتہ ورلڈ کپ میں ہمارا جھنڈا لہرایا گیا تھا، لیکن یہاں قطر میں ہمارا جھنڈا نہیں تھا اور میرے خیال میں اسرائیلی حکام کو اس سلسلے میں پہلے سے کچھ کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن لگتا ہے کہ اسرائیلی حکام نے موجودہ حقیقت کو صحیح طور پر سمجھ لیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ دنیا کی رائے عامہ بالخصوص عربوں اور مسلمانوں میں اسرائیل کا کیا مقام ہے، لہذا انہوں نے خود کو زیادہ پریشان نہیں کیا۔

اس رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ دوحہ کے تمام حصوں بشمول کافی ہاؤسز، ریسٹورانوں، دکانوں، سڑکوں اور بسوں میں فلسطینی پرچم کا نظارہ اس قدر وسیع تھا کہ ہم فلسطین کی قومی فٹ بال ٹیم کو عالمی کپ میں شرکت کرنے والی 33ویں ٹیم کے طور پر تصور کر رہے تھے۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ تیونس کے شہریوں کے لیے فلسطین، عالمی کپ میں کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ اس  لائیو رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیونس کی قومی فٹ بال ٹیم کو آسٹریلیا کا سامنا تھا، لیکن اس ٹیم کے شائقین دیگر مسائل میں مصروف تھے اور ان میں سے بہت سے افراد فلسطینی قوم کی حمایت میں مظاہرے میں شریک تھے، جس میں فلسطینیوں کی حمایت کا  واضح پیغام تھا۔ تیونس کے شہری اسٹیڈیم میں فلسطین کی آزادی کے موضوع پر پلے کارڈز لے کر آئے تھے، اس حد تک کہ ان میں سے کچھ نے ان میچوں کو فلسطین کے واقعات کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ورلڈ کپ فٹ بال میچوں کے انعقاد کو فلسطینیوں اور اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے لیے فلسطینیوں کے نظریات کی حمایت کا اعلان کرنے کا ایک سنہری اور ناقابل تلافی موقع قرار دیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے فوٹو گرافروں اور صحافیوں نے ان نشانیوں اور علامتوں کی تصاویر کو دنیا بھر میں شیئر کیا۔ امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ عالمی کپ میں فلسطین کا مسئلہ مرکزی مسئلہ بن گیا۔ اس اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں مزید کہا: "جب مراکش کی ٹیم کے ارکان گروپ تصاویر کے لیے جمع ہوئے تو کچھ کھلاڑیوں نے اپنے ملک کا جھنڈا اٹھا کر جشن منایا، لیکن وہاں ایک جھنڈا اور بھی تھا، جسے کئی کھلاڑیوں نے دکھایا اور وہ جھنڈا تھا فلسطین کا۔ ایک ایسا جھنڈا جو سٹیڈیم کے تمام حصوں میں نظر آرہا تھا، درحقیقت یہ واقعہ اس ورلڈ کپ میں ہوا، جو پہلی بار مشرق وسطیٰ میں منعقد ہوا۔

امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ میں مزید آیا ہے: "اس ورلڈ کپ کو بہت سے مشکل سوالات کا سامنا رہا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کھیلوں کے مقابلے میں کسی قسم کی سیاسی رائے دینے کی اجازت ہوتی ہے اور کیا اس طرح کے کھیلوں کے مقابلوں میں سیاست کی کوئی جگہ ہے یا نہیں؟ بلاشبہ فیفا کے قوانین، فٹ بال اور سیاست کو ملانے سے منع کرتے ہیں، لیکن یورپیوں نے یوکرین کی وجہ سے ان قوانین کو توڑا اور انہیں سزا نہیں دی گئی، جو یقیناً مغرب کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے۔ حال ہی میں پولینڈ کی قومی ٹیم کے کپتان "رابرٹ لیوینڈوسکی" نے کہا ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں یوکرین کے پرچم کے رنگ کا بازو بند باندھیں گے۔ اس کے علاوہ اوپٹاسیا Optasia جیتنے والے مصری اسکواش کھلاڑی "عمر فراج" نے مارچ 2022ء میں لندن میں ہونے والی چیمپیئن شپ کے موقع پر کہا تھا کہ "ہمیں کبھی بھی کھیلوں میں سیاست کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب اچانک ایسا ہوگیا۔ اس لیے اب جبکہ اجازت مل گئی ہے تو مجھے امید ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ہونے والے ظلم و جبر پر آواز اٹھائی جائے گی اور لوگ بھی جان لیں گے کہ پچھلے 74 سالوں میں فلسطینیوں پر کتنا ظلم ہوا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

سحر نیوز/ عالم اسلام: یمن کی قومی سالویشن حکومت کے انسانی حقوق کے وزیر نے کہا کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، انسانی حقوق کے معاملے کی اہم و اصل مشکل ہیں اور یہ دونوں ادارے یمنی عوام کے خون کی تجارت کر رہے ہیں۔

یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کے انسانی حقوق کے وزیر علی الدیلمی نے اس بات پر زور دیا کہ یمن میں مجرموں کے خلاف مقدمے کے مطالبے سے متعلق مسائل کو روکنے میں امریکہ اور انگلینڈ کا کردار سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 170 سے زائد بین الاقوامی اور عرب تنظیموں نے بیانات جاری کرکے سعود عرب کے اتحادی ممالک کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اس ملک نے یمن میں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

یمن کی سپریم کونسل برائے انسانی امور کے ترجمان طلعت الشرجبی نے چند روز قبل کہا تھا کہ اقوام متحدہ اس انسانی تباہی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھائے بغیر غذائی قلت کے شکار افراد کے بارے میں بات کرتی ہے

ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کی حیثیت سے ایران کی رکنیت کی منسوخی کے رد عمل میں کہا کہ کڑوا مذاق ہے کہ امریکہ خود کو ایرانی خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حامی کے طور پر متعارف کرتا ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں ہزاروں ایرانی خواتین اور بچوں کے قتل کی مکمل حمایت، ظالمانہ اور وحشیانہ پابندیوں کا اطلاق جس کے ناقابل تلافی اثرات خاص طور پر خواتین اور بچوں پر پڑتے ہیں اور مسلط کردہ جنگ کے دوران صدام حکومت کے ہاتھوں ایرانی خواتین اور بچوں کے قتل کی جامع حمایت سے یہ ظاہر کیا ہے کہ ایران میں صرف وہی بات جس کے بارے میں انہوں نے سوچا بھی نہیں؛ وہ عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق ہیں جو اپنے دھوکہ دہی اور منافقانہ بیانات کے پیچھے صرف اپنے غیر انسانی اور انسانی حقوق کے مخالف مفادات اور مقاصد کی پیروی کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن میں اسلامی جمہوریہ ایران کی رکنیت امریکہ کی طرف سے بدعت اور خطرناک عمل کے قیام اور اس بین الاقوامی تنظیم میں ایران مخالف شو کے بعد ختم ہوگئی۔

خواتین کی حیثیت سے متعلق اقوام متحدہ کے کمیشن میں ایران کی رکنیت منسوخ کرنے کی قرارداد کے حق میں 29 ووٹ، مخالفت میں 8 اور 16 نے غیر حاضری کے ساتھ منظوری دی۔

ناصر کنعانی نے پیر کے روز افغان قوم کے ساتھ سالنگ کی سرنگ میں حادثے پر افسوس کا اظہار کیا۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس واقعے کی نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندان کو اپنی تعزيت کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی۔

 علیہ وسلم کی بیداری تحریک کی کاوشوں سے آج شام کو دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

پاکستان میں ایرانی سفارتخانے کے ایک وفد نے، جس میں ایران کے ثقافتی مشیر "احسان خزاعی" بھی شامل تھے، "وحدت،دین کی پکار؛ تفرقہ، دشمن کا ہتھیار" کے عنوان سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔

پاکستانی شیعی شخصیات کے ساتھ ممتاز سنی رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر موجودگی، ہال میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) اور قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی تصاویر کی تنصیب؛ اس اجلاس کا ایک دلچسپ نکتہ تھا۔

اس اجلاس کے مقررین نے امام خمینی کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اتحاد کا رہبر قرار دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو اسلامی اقوام کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کی مضبوطی کے لیے اہم قرار دیا۔

پاکستانی شخصیات نے قرآن پاک کی تعلیمات، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے، انتہا پسندی سے نمٹنے اور معاشرے بشمول نوجوان نسل کی عالم اسلام کے مشترکہ دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں کے ایمان اور حوصلے کو نشانہ بنانے کی دھمکی سے متعلق روشن خیالی پر زور دیا۔

ایکنا- قرآن ہاور نیوز کے مطابق وارثان امت اخلاص فاونڈیشن (Yayasan Warisan Ummah Ekhlas )  کے تعاون سے عصر حاضر کے مسائل پر قرآن کے رو سے نشست منعقد کی جارہی ہے۔

مذکورہ فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: مشکل ہے کہ کورونا بحران کے بعد دنیا پہلی حالت پر لوٹ جایے جنوری 2020 ے اس بحران کی وجہ سے دنیا کی اقتصادی صورتحال ابتر ہوچکی ہے۔

 

دنیا میں مختلف سطح پر مختلف انداز میں لوگ متاثر ہوئے ہیں جنمیں مالی، خاندانی اور اجتماعی امور کے ساتھ معنوی انداز میں مسائل پیدا ہوچکے ہیں، کیا ہم جانتے ہیں اس حوالے سے قرآن میں راہ حل بتایا گیا ہے بالخصوص سورہ سجدہ میں۔


وارثان امت اخلاص کے تعاون سے سیمینار بعنوان «بحرانوں سے مقابلہ: سوره سجده کے رو سے» کا  اہتمام کیا جارہا ہے تاکہ اس حوالے سے ایک مناسب راہ حل نکالا جاسکے آئیے اور اس میں شرکت کیجیے.
فاونڈیشن کے ڈائریکٹر مرهینی یوسف کا کہنا تھا: یہ عالمی سیمینار اس سال کا آخری اور سب سے بڑا سیمینار ہوگا جسمیں قرآنی ماہرین کو دعوت دی گئی ہے.

 

اس بین الاقوامی کنونشن میں ملایشیاء، انڈونیشیاء، بنگلہ دیش، فلسطین، مصر اور امریکہ سے دانشور حضرات شریک ہوں گے۔

یہ عالمی کنونشن آج صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شروع ہوگا جو ملایشین وقت کے مطابق شام ساڑھے چھ بجے تک کوالالمہور کے پردانا ہال MITI میں جاری رہے گا۔/

 

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے آج صبح (ہفتہ 3 دسمبر کو) آئین کے نفاذ کی ذمہ داری کے موضوع پر قومی کانفرنس میں کہا کہ آئین قومی عہد، عظیم الشان اسلامی انقلاب کی تشکیل کا مجسم نمونہ اور جمہوریت، اسلامیت اور جائز آزادیوں کا ضامن ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ میں نے افریقہ کا دورہ کیا تھا، اس دوران قانون کے ایک ممتاز پروفیسر نے جن کی منڈیلا سے بہت گہری دوستی تھی، مجھ سے کہا کہ جنوبی افریقہ میں منڈیلا کی حکومت کے بعد مجھے اور چند لوگوں کو آئین مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہم نے دنیا کے تمام ملکوں کے آئین کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ آئین اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے آئین میں اسلامیت، جمہوریت، آزادی اور نظام کی خودمختاری جیسے متعین اور ناقابل تغیر اصول ہیں۔

اصل اور بنیاد یہ قانون ہے جبکہ قانون کے نفاذ کے لیے موجود طریقے اور طریقہ کار پر بحث کی جا سکتی ہے۔ طریقہ کار کو ضرورت کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن قدر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ طریقہ تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن قدر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت کے مطابق میکانزم اور طریقوں کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ 

صدر رئیسی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں کوئی تعطل نہیں ہے مزید کہا کہ آئین کی تیاری، تشکیل اور اسے حتمی شکل دینے کا کام اس طرح کیا گیا ہے کہ آپ کو آئین اور اس کے نفاذ اور ملکی معاملات کو چلانے میں کسی تعطل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کی آئین سے واقفیت اور ان کے حقوق سے آگاہی انہیں ان حقوق کا مطالبہ کرنے اور حکام کی طرف سے ان حقوق کی صحیح تکمیل کی نگرانی کرنے کا احساس دلاتی ہے۔

رئیسی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں آئین میں مطالبات اور جوابدہی کے مسئلے کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمارے انتظامی نظام اور دنیا کے دیگر نظاموں میں فرق یہ ہے کہ اسلامی انتظامی نظام میں حکام کو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ، عوام، رجوع کنندگان اور ادارہ جاتی سلسلوں کے سامنے جوابدہ سمجھنا پڑتا ہے۔

ایرانی صدر نے ایران میں عوامی ووٹوں کے ذریعے حکومتوں کی تشکیل کو اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام اور اس کے آئین کے اعزازات میں سے ایک اعزاز قرار دیا اور کہا کہ اس ملک میں انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد کے سالوں کے برابر انتخابات ہوتے رہے ہیں اور ہمارا ملک انتخابات کے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم حیرت ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار ایک ایسے ملک کو اپنی دشمنی، دباو اور پابندیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور دوسری طرف انتہائی آمرانہ اور مستبد ترین حکومتوں جو انسانی حقوق کی سب سے کھلی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے ہیں، کی حمایت کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسی منطق کہاں قابل قبول ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا اولین ترین مسئلہ ہے، جب تک ارض فلسطین کا حل فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوتا پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اسرائیل ناجائز اور قابض ریاست ہے۔ انسان کو آزاد پیدا کیاگیا مگر ہر دور میں اسے ایک نئے انداز میں غلامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، دنیا میں سب سے خطرناک تہذیبی غلامی ہے جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیاہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوم فلسطین ، غلامی کے خاتمے کے عالمی دن پر اپنے الگ الگ پیغام میں کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا اولین معاملہ ہے، جب تک ارض فلسطین کا حل فلسطینی عوا م کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوتا پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اسرائیل ناجائز، قابض ریاست ہے ، بابائے قوم نے مسئلہ فلسطین نہ صرف خصوصی توجہ دی بلکہ اس وقت کی فلسطینی قیادت کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں تھے، مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے آپس میں گہرے مراسم تھے لندن جاتے ہوئے قاہرہ میں مفتی اعظم جناب امین الحسینی سے خصوصی ملاقات کی جس پر انہوں نے بابائے قوم کا زبردست خیر مقدم کیا تھا ، پاکستان کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے واضح اور دوٹوک موقف ہے جب تک مسئلہ فلسطین ارض قبلہ اول کے بیٹوں کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوگا پائیدارامن قائم نہیں ہوسکے گا۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے غلامی کے خاتمے کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہاکہ انسان کی اپنی حریت کیلئے طویل جدوجہد ہے اور اسے سب سے بڑا راستہ بھی خدا وند متعال کی جانب فراہم کیاگیا، دین اسلام نے ہر دور میں غلامی کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کےلئے رہنمائی بھی فراہم کی، فرعون مصر سے کس طرح بنی اسرائیل کو نجات ملی رہتی دنیا تک کےلئے بہت بڑی مثال ہے جبکہ حضور اکرم نے اس دور کی سب سے بڑی غلامی کے دور خاتمہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج کی مہذب دنیا سمیت کسی بھی دین میں غلامی کا کوئی تصور نہیں، امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑکا فرمان ہے کہ ”تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنایا جبکہ خدا وند متعال نے ا نہیں آزاد پیدا کیا “۔مگر آج عالمی سرمایہ داری نظام، کیپٹل ازم اور اس جیسے دوسرے بظاہر خوبصورت نعروں نے نہ صرف افراد بلکہ معاشروں، قوموں اور ریاستوں کو غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے جس سے فرار مشکل ترین ہوتا جارہاہے۔ آج کے دور میں انسانیت مختلف قسم کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی میں جن میں سیاسی، معاشی، معاشرتی (تہذیبی ) غلامی ہیں، ایک جانب عالمی مالیاتی اداروں نے مختلف قوموں اور ریاست کو جکڑا ہوا ہے دوسری جانب بڑی طاقتیں اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے قوموں پر مسلط ہیں توتیسری جانب اقتصادی پابندیوں کے جال اور آئے ر وزننگی جارحیت کے ذریعے انسانیت کی تذلیل اور ان کی زمینوں کو انہی پر تنگ کردیا جاتاہے البتہ ان میں سب سے سنگین ترین و خطرناک تہذیبی غلامی ہے جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیاہے ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے چند روز قبل گزرنے والے یوم انسداد ایڈز پر اپنے پیغام میں کہاکہ صحت مند معاشروں کےلئے ضروری ہے کہ عوام کو بہترین طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ بیماریوں بارے بہتر آگاہی بھی فراہم کی جائے تاکہ عوام ایڈز جیسے موذی امراض سے بچ سکیں ۔ طبی اصولوں پر کاربند رہنے کی کوشش کی جائےجن کی طرف اسلامی تعلیمات نے رہنمائی کی ہے ۔

سحر نیوز/ ایران: انہوں نے غیر ملکی چینلز کے کچھ سرغنوں کی گرفتاریوں کی خبروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 44 سال سے حق اور باطل کے درمیان جنگ جاری ہے اور میدان جنگ میں فریق مقابل ہر وہ کام انجام دے رہا ہے جو اس کے بس میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دشمنوں کی ان ساری کوششوں کے باوجود انہیں ایک بھی کامیابی حاصل نہایں ہوئی ہے، دشمن اپنی مرضی کے مطابق کام انجام دیتے ہیں اور ہم بھی اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں تاکہ دشمن کو شکست دے سکیں۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی آئی آر جی سی کے سینئر کمانڈر کا کہنا تھا کہ ایران کے حالیہ فسادات میں ملوث دشمن چینلز کے کچھ سرغنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور پھر دیکھنا ہے کہ عدالت ان لوگوں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ یہ لوگ ایران انٹرنیشنل چینل کے رابطے میں نہیں تھے جو دشمنوں کی جاسوس ایجنسی کا حصہ ہے بلکہ ان لوگوں کے امریکا کی جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں سے بھی رابطے تھے۔  

ارنا رپورٹ کے مطابقؤ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آج بروز منگل کو ایران کے دورے پر آئے ہوئے عراقی وزیر اعظم "محمد شیاع السوادنی" سے ایک ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ عراق کی ترقی اور اس کے اعلی اور حقیقی مقام تک پہنچنا اسلامی جمہوریہ کے مفاد میں ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ آپ ایک ایسے شخص ہیں جو عراق کے معاملات اور تعلقات کو آگے بڑھانے اور اس ملک کو اس کی تہذیب اور تاریخ کے لائق ایک آزاد مقام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

قائد اسلامی  انقلاب نے السوادانی کو عراق کے وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہیں ایک وفادار اور قابل شخص قرار دیتے ہوئے کہا کہ  وہ عراقی حکومت کے سربراہ کے طور پر ان کی تقرری خوشی کا باعث ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے عراق کو قدرتی اور انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ ثقافتی، تاریخی اور تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے خطے کا بہترین عرب ملک قرار دیا اور کہا کہ بدقسمتی سے اتنے پس منظر کے باوجود عراق ابھی تک اپنے اعلی اور حقیقی مقام تک نہیں پہنچ سکا ہے اور امید ہے کہ آپ کی موجودگی سے عراق ترقی اور حقیقی مقام حاصل کر لے گا۔

انہوں نے عراق کے حقیقی مقام تک پہنچنے کے لیے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک، عراق کے اندر گروہوں کی ہم آہنگی اور اتحاد کو بیان کیا اور مزید کہا کہ اس پیشرفت کے لیے ایک اور ضرورت جوان اور متحرک عراقی افواج کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔

قائد اسلامی انقلاب نے کہا کہ عراق کی ترقی کے دشمن ہیں جو سطحی طور پر دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن وہ آپ جیسی حکومت کو قبول نہیں کرتے لہذا آپ کو حوصلہ مند عوام اور نوجوانوں اور قوتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمن کی مرضی کے خلاف ثابت قدم رہنا ہوگا جنہوں نے داعش کے عظیم اور مہلک خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے

آیت اللہ خامنہ ای نے اقتصادی، خدماتی اور حتی کہ سائبر اسپیس کے میدان میں عراق کی پیشرفت اور عراقی عوام کے سامنے حکومت کی ایک معقول تصویر پیش کرتے ہوئے عراقی نوجوانوں کی بڑی صلاحیت کو حکومت کے حقیقی حامی کے طور پر استعمال کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا عراق کی نئی حکومت اس طرح کے تعاون سے اور اس ملک میں موجود وسائل اور اچھی مالی سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں خاص طور پر لوگوں کو خدمات فراہم کرنے میں ایک سنجیدہ تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔

انہوں نے عراقی وزیر اعظم کے ان الفاظ کا ذکر کرتے ہوئے کہ آئین کے مطابق ہم کسی بھی فریق کو ایران کی سلامتی کو درہم برہم کرنے کے لیے عراقی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے؛ کہا کہ بدقسمتی سے عراق کے بعض علاقوں میں ایسا ہو رہا ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ عراقی مرکزی حکومت ان علاقوں تک بھی اپنا اختیار بڑھائے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ بلاشبہ عراق کی سلامتی کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی فریق عراق کی سلامتی میں خلل ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم اس کے سامنے کھڑے ہوکر عراق کی حفاظت کریں گے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا "عراق کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے، جس طرح ایران کی سلامتی بھی عراق کی سلامتی  پراثر انداز ہے"، انہوں نے آج تہران میں عراقی وزیر اعظم کی گفتگو کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا کہ گزشتہ ادوار میں اچھے مذاکرات اور مفاہمتیں ہوئیں لیکن وہ عمل کے مرحلے تک نہ پہنچ سکے۔ لہذا، ہمیں تمام مفاہمتوں کے حوالے سے خاص طور پر اقتصادی تعاون اور سامان کے تبادلے اور ریل مواصلات کے شعبے میں عملی اقدام اٹھانے کی طرف گامزن ہونا ہوگا۔

 انہوں نے ایران اور عراق کے درمیان مفاہمت اور تعاون کو روکنے کے لیے بعض عزائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان عزائم  پر عمل کے ساتھ قابو پانا ہوگا۔

اس ملاقات میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی بھی موجود تھے۔ در این اثنا عراق کے  وزیر اعظم نے ایران اور عراق کے اسٹریٹیجک اور تاریخی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور عراق کے ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی واضح مثال داعش کیخلا جنگ ​​تھی، جب ایرانیوں اور عراقیوں کا خون ایک خندق میں ملا تھا۔

 انہوں نے شہداء سردار سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان دونوں عظیم شہداء کو ایران اور عراق کی دو قوموں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی ایک اور مثال قرار دیا۔

السودانی نے دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے اور مختلف شعبوں بالخصوص اقتصادی میدان میں تعلقات کو وسعت دینے کے لیے عراق کی نئی حکومت کے عزم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور عراق کی سلامتی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہے اور اس کے مطابق ہم کسی بھی فریق کو عراقی سرزمین کو کسی ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔