سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 29 November 2022 22:26

عقیلہ بنی ہاشم کا جواب

حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کی غم انگیز شہادت اور اہل حرم کی کرب ناک اسیری کے سبب یزید اور یزیدیوں میں خوشی منائی جا رہی تھی اور فتح کے نقارے بج رہے تھے تو دوسری جانب ہر لمحہ اسیران اہل حرم کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی مشہور حدیث ہے’’ اَلْهَمُّ نِصْفُ اَلْهَرَمِ‘‘ یعنی غم و اندوہ آدھا بڑھاپا ہے۔ یعنی غم و الم انسان کے حوصلے پست کر دیتے ہیں، آدمی ہمت ہار جاتا ہے، اپنا دفاع تو دور مزید ظلم سہنے میں ہی عافیت تصور کرتا ہے۔ لیکن کیا کہنا شیر خدا کی شیر دل بیٹی صدیقہ صغریٰ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کا کہ ۲۸؍ رجب سن ۶۰ ہجری کو اپنے بھائی کے ہمراہ مدینہ سے سفر مظلومیت کا آغاز کیا، مدینہ سے بلد امین پہنچیں لیکن جب یہاں بھی امن نہ ملا اور وارث انبیاء سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے حرم الہی مکہ مکرمہ کی حرمت کی پاسبانی کی خاطر عین حج کے دن ۸؍ ذی الحجہ کو جب سارے حاجی مکہ مکرمہ میں موجود ہوتے ہیں توقبلہ ایمان امام حسین علیہ السلام نے قبلہ عبادت خانہ کعبہ کو خیرباد کہا تو بھائی کے مقصد میں شریک بہن نے بھی بیت الہی الوداع کہا۔

راہ کربلا میں سفیر حسینی حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام اور دیگر وفاداروں کی شہادت کی خبر ملی تو نہ صرف امام حسین علیہ السلام ہی غم زدہ ہوئے بلکہ پورا کاروان حسینی تصویر غم بن گیا۔ ۲؍ محرم سن ۶۱ہجری کو آخر یہ کاروان اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ بھائی کے ہمراہ بہن نے بھی کربلا میں قیام کیا، کربلا میں تشنگی کی مصیبت آن پڑی تو ساقی کوثر کا گھرانہ تین دن تک پیاسا رہا۔ دسویں محرم کو تیر و کمان، نیزہ و خنجر سے پیاسے سیراب ہوئے۔ شہدائے کربلا نےشہادت پیش کر کے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا لیکن جو بچ گئے وہ اسیر محن ہوئے اور انکی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہی ہوا۔ دلوں میں عزیزوں اور چاہنے والوں کا غم تو آنکھوں سے ان گلہائے غم کی بشکل اشک خوشبو پھیلی اور ظالموں کے نہ رکنے والے مظالم کا سلسلہ تھا۔ ایسا غم کہ اگر کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا، اس کے حوصلے پست ہو جاتے، دفاع کی قوت سلب ہو جاتی، شہادت کے مشن کا تحفظ تو دور خود خدا کا انکار کر دیتا۔

درود و سلام ہو اسیران کربلا پر جنہوں نے پیغام کربلا کو نہ صرف تحفظ بخشا بلکہ اسکی تبلیغ بھی کی ۔ وہ ایسے اسیر تھے جنہوں نے رہتی دنیا تک انسانیت کو درس حریت دیا۔

لاکھوں درود و سلام ہو شیر خدا کی شیر دل بیٹی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا پر کہ جب بارہویں محرم کو ابن زیاد ملعون اپنے جرائم اور قتل و غارت و اسارت کی خوشی کے نشے میں مست پوچھتا ہے کہ تم نے اللہ کو کیسا پایا تو زینت حیدر ؑ نے وہ جواب دیا جو قیامت تک موحدین کے لئے مشعل راہ ہے ’’وما رأیت الا جمیلا‘‘ یعنی ہم نے جمال و خوبصورتی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ حقیقت ہے اتنے غم و الم کے بعد خاتون تو کیا کوئی مرد بھی یہ جملہ نہیں کہہ سکتا تھا جو بی بی ؑ نے فرمایا۔ بے شک وہ اس باپ کی زینت تھیں جنہوں نے ضربت ظلم کھانے کے اپنی کامیابی کا اعلان کیا ۔ وہ اس معصوم بھائی کی شریکہ مقصد بہن تھیں جنہوں نے باوفا اصحاب اور دل کے ٹکڑوں کے لاشے اٹھانے کے بعد سر کو سجدہ آخر میں رکھ کر فرمایا : ’’خدایا میری قربانیوں کو قبول کر لے۔ ائے فریادیوں کی فریاد سننے والے میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ ‘‘

حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا بھی اسی عظیم باپ کی عظیم بیٹی اور عظیم بھائی کی بہن تھیں کہ جب بھائی کے جنازے پر پہنچی تو بارگاہ خدا میں دست بہ دعا ہوئیں خدایا میری قربانی کو قبول کر لے۔ کیا کہنا اس عابدہ آل علیؑ کا جس کی عبادت کا قصیدہ زین العابدین علیہ السلام نے پڑھا کہ شام غریباں میں بھی میری پھوپھی کی نماز شب قضا نہیں ہوئی۔ شہزادیؑ نے اس ہولناک شب میں بھی جلے ہوئے خیام کی راکھ کے مصلی پر نماز شب ادا کی، غم و اندوہ ضعف کا سبب ہوئے لیکن عبادتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جب ضعف کے سبب کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں تو بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔

کوفہ میں مصائب کا سلسلہ نہیں رکا بلکہ مقاتل میں مرقوم ہے کہ اسیران اہل حرم کو کوفہ سے شام لے جایا گیا اور راہ شام میں ان دشمنان اسلام وانسانیت کے لئے جتنا ممکن تھا اتنا ظلم کیا ۔ نہ جانے کتنے کم سن بچے راہ شام میں شہید ہو گئے۔ آخر اسیروں کا قافلہ شام پہنچا۔ ایک جانب اہلبیت ؑ کی مظلومیت تھی تو دوسری جانب امویوں اور یزیدیوں میں فتح کے نقارے تھے۔

اسی عالم میں کہ جب ہر جانب خوشی منائی جا رہی تھی اسیروں کو دربار یزید میں پیش کیا گیا ۔ وہ ملعون اپنے سجے دربار میں تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے طشت میں مظلوم کربلا کا سر تھا ۔ جیسے ہی بہن کی نظر بھائی کے سر بریدہ پر پڑی ، با آواز بلند گریہ کرتے ہوئے نوحہ پڑھا ’’یا حُسَیْناهُ! یا حَبیبَ رَسُولِ اللهِ! یَابْنَ مَکَّهَ وَ مِنی، یَابْنَ فاطِمَهَ الزَّهْراءِ سَیِّدَهَ النِّساءِ، یَابْنَ بِنْتِ الْمُصْطَفی‘‘ راوی کا بیان ہے کہ جیسے ہی بی بی ؑ نے نوحہ و فریاد کی دربار کا ماحول بدل گیا اور وہاں موجود کوئی بھی اپنے آنسو نہ روک سکا اور خود یزید پر سکوت طاری ہو گیا ۔

عالمہ غیر معلمہ فہیمہ غیر مفہمہ ؑ کے اس اقدام کا پہلا اثر یہ ہوا کہ جب یزید نے سید الشہداءؑ کے دندان مبارک کی توہین کی تو وہاں موجود صحابی رسول جناب ابوبرزہ اسلمیؓ نے اس سرکش کی سرزنش کی اور امام حسین علیہ السلام کے فضائل پڑھے کہ تاریخ نے لکھا کہ دربار تو یزید کا تھا لیکن فضائل حسینؑ کے بیان ہوئے۔ آخر اس بے حیا نے وہ کفر آمیز شعر پڑھے جسمیں توحید و وحی کا بھی انکار تھا اور نبوت کا بھی انکار تھا ۔ جس نے نہ صرف یزید بلکہ پورے سلسلہ قبل و بعد کے چہرے پر پڑی اسلام کی نقاب کو اتار دیا۔

اس موقع پرحضرت زینب سلام اللہ علیہا نے خطبہ دیا جسمیں حمد و درود کے بعد آیت ’’وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ‘‘ (’’اور خبردار یہ کفاّر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے- ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ ‘‘ سورہ آل عمران، آیت ۱۷۸) کی تلاوت فرما کر اس مغرور و ملعون کے غرور کو توڑ دیا کہ اپنی حکومت و ثروت اور لشکر پر غرور نہ کرو بلکہ یہ صرف خدا کی جانب سے مہلت ہے اور عذاب و رسوائی تیرا مقدر ہے۔

اس کے بعد شہزادیؑ نے ’’ اَ مِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقاءِ‘‘ (کیا یہی عدل ہے اے آزاد شدہ کے بیٹے) فرما کر اس کے خاندان پر رسول اکرمؐ کے گئے عظیم احسان کو بیان کر دیا کہ جب لشکر اسلام نے تمہارے آباء و اجداد کو اسیر کیا تو رسول رحمتؐ نے انہیں آزاد کر دیا تھا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے کفریہ شعر کہ ’’ائے کاش میرے جنگ بدر میں مارے گئےبزرگ ہوتے۔۔۔۔‘‘ کے جواب میں فرمایا: ’’تو سید الشہداء ؑ کے دندان مبارک کی توہین کرتے ہوئے اپنے بے دین بزرگوں کو یاد کر رہا ہے ۔ عنقریب تو بھی ان کے پاس چلا جائے گا ۔ ‘‘ فرما کر پورے خاندان کے انکار دین اور اسلام دشمنی کو واضح کر دیا۔

اس کے بعد شہزادی ؑ نے شہداء کے مقام و مرتبے کو بیان کیا اور یزید و یزیدیوں کو قیامت کے دن عدل الہی کی یاد دلائی ۔ آخر میں ایک ایسی حکمت آمیز بات کہی کہ پوری یزیدیت لرزہ بہ اندام ہو گئی ۔ فرمایا: مجبوراً میں نے تجھے خطاب کیا ہے ورنہ تیری حیثیت نہیں کہ تجھے خطاب کیا جائے۔ آخر میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی حمد فرمائی۔

شیر خدا کی شیر دل بیٹی کے جوابات آج تک لا جواب ہیں بلکہ ہمیشہ ہی لاجواب رہیں گے اور آپؑ کے یہ جوابات رہتی دنیا تک مظلوموں اور کمزوروں کے لئے چراغ راہ ہیں کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں کبھی بھی ظلم کے سامنے سر نہ جھکانا بلکہ جب بھی موقع ملے ظلم کو آئینہ ضرور دکھا دینا۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

سحر نیوز/ دنیا: علاقے میں اسرائیل کی فوجی ترجیح اس وقت پوری طرح سے ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت تک خود اسرائیلی قبضے والے علاقوں میں حالات اتنے بے قابو ہو چکے ہيں کہ صیہونی اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں جبکہ عالمی سطح پر بھی انہیں اپنے وجود کو باضابطہ قبول کروانے کے لئے لڑنا پڑ رہا ہے۔ اس پوری مدت میں فلسطینیوں نے اپنے مطالبات نہیں چھوڑے ہيں بلکہ ان کی مزاحمت بدستور تیز ہوتی جا رہی ہے۔

اگر اسرائیل کے قیام کے اہداف پر نظر ڈالی جائے اور اس کی آج کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو صاف ہو جائے گا کہ سیاسی، اجتماعی پہلوؤں اور آبادی کی سطح پر اس کے سامنے شدید بحران ہے اور اس کا وجود پوری طرح سے خطرے میں ہے۔

اسرائیل کے قیام کا پہلا ہدف یہ تھا کہ یہودیوں کا ایک بڑا ملک بنے جو مشرق وسطی کے علاقے کی سپر پاور ہو۔ مگر آج غور کیجئے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں سے زیادہ تر اہداف ناقص رہ گئے ہیں، اسرائیل اپنی مرضی سے اپنی سرحدوں کا تعین نہیں کر پا رہا ہے جبکہ اس درمیان اس کے سامنے آبادی کا بڑا بحران کھڑا ہوا ہے۔

اس وقت اسرائیل جغرافیائی طور پر محاصرے میں ہے جس کے نتیجے میں وہ توسیع پسندانہ اسٹراٹیجی دیوار سے لگانے پر مجبور ہے۔ چالیس لاکھ فلسطینیوں کی آبادی اب بھی فلسطینی علاقوں میں بستی ہے۔

اسرائیل ان سے نجات پانے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تاہم ناکام رہا۔ ان فلسطینیوں کی مزاحمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ امریکا کی نگرانی میں کچھ عرب حکومتوں کے ساتھ اسرائیل کے امن معاہدے بھی ہو گئے ہیںن تاہم علاقے پر تسلط قائم کرنے کا اس کا خواب آج بھی مکمل نہيں ہوا ہے۔

علاقے میں فوجی تسلط اور ترجیح بنائے رکھنا، اسرائیل کا اہم ہدف تھا وہ اپنے مخالفین کی سرحدوں کے اندر جنگوںن کو لے جانا چاہتا تھا تاہم اب اپنے قبضے والے علاقے میں جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔

اسرائیل کی یہ کوشش تھی کہ دنیا بھر سے یہودی مہاجرت کرکے فلسطینی علاقوں میں آ جائیں تاہم سب کچھ برعکس ہو گیا اب تو فلسطینی علاقوں میں آکر بسے اسرائیلی وہاں سے واپس جانے لگے ہيں۔

اسرائیلی معاشرے میں تقسیم بہت شدید ہو گئی ہے اور پوری کمیونیٹی پوری طرح سے تقسیم ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی ہوم لینڈ سیکورٹی کے ادارے شاباک کے سربراہ رونین بار نے کہا کہ اسرائیل کے وجود کے لئے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ اسرائیلی معاشرے میں بہت بری طرح اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے اسرائیلی رہنماؤں نے اب اسٹراٹیجی اہداف کے بارے میں بات کرنا بند کر دیا ہے۔ اب ان کی نظر فرعی اور چھوٹے اہداف پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلیوں پر ناامیدی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

 

بحرین کی حکومت ایک خاموش سازش کے تحت طلباء کی نصابی کتابوں کے مواد کو تبدیل کرکے اور سمجھوتہ کرنے والے الفاظ اور لٹریچر متعارف کروا کر صیہونی حکومت کی طرف بحرین کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کا رویہ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

حکومت بحرین کی جانب سے اس ملک کے طلباء کے صیہونی دشمن کے تئیں رویہ تبدیل کرنے اور اسرائیل کی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آنے والی نسلوں کی رائے عامہ کے ذریعے قبول کرنے کی بنیاد فراہم کرنے کے اقدامات کے بارے میں۔ اس ملک میں، انہوں نے لکھا: ہر سال 29 نومبر کو آزاد فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن مناتے ہیں اور ہر سال 6 دسمبر کو عرب ٹیچر ڈے مناتے ہیں تاکہ دشمن کے ساتھ معمول پر مزاحمت کی جاسکے۔ یہ دو دن اسرائیل کی غاصب حکومت اور اس کے جرائم اور بربریت کے خلاف جنگجوؤں کے ساتھ تجدید بیعت کا وقت ہیں۔ لیکن عرب ممالک کے حالات دو سال پہلے بدل چکے ہیں، خاص طور پر صیہونیوں کے ساتھ خیانت کے معاہدوں کے نتیجے میں۔

شاید فلسطینی کاز کے کسی بھی حامی کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اور دشمن کے ساتھ کسی بھی ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار معمول کی چٹان کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ کویت کے علاوہ خلیج فارس کے نظر انداز نظام عوام کی بدقسمتی بن چکے ہیں۔

ان نظاموں کا سب سے خطرناک منصوبہ آنے والی نسلوں کی سوچ میں غداری کے الفاظ داخل کرنا ہے۔ تعلیم اس سازش کی علامت ہے جو عرب طلباء کے خلاف تیار کی گئی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جو صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں، جن میں بحرین بھی ایک ہے۔ وہ شخص جسے دو روز قبل منامہ میں بحرین کے وزیر تعلیم کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، صیہونی دشمن کے ساتھ خوشامد اور اتحاد کی تاریخ رکھتا ہے۔ "محمد المبارک کے نائب وزیر رہنے سے لے کر وزیر بننے تک کی سوچ ان کے صہیونی دوستوں کی چاپلوسی سے بھری ہوئی ہے اور اس وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ اس شوق کو بحرین میں تعلیم کے لیے اپنے تعلیمی پروگرام میں استعمال کریں گے۔ .

عرب ممالک میں لازمی نارملائزیشن ٹریننگ

بحرین کے بعض تعلیمی ذرائع نے احد نیوز سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے اس مشکل امتحان کے بارے میں بات کی جس سے اساتذہ آج ملک میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وجہ سے گزر رہے ہیں۔ ان تعلیمی ذرائع نے ان کو معمول پر لانے کے عمل کی پیروی کرنے پر مجبور کرنے کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا - اس کی وسیع پیمانے پر عوامی مخالفت کے باوجود - اور عوامی ثقافت کی ملازمتوں کی سطح پر اس معمول کے خطرے کے بارے میں۔

ان ذرائع نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مخالفین کو بحرین کی عدالت میں طلب کیا گیا ہے، کہا: اس وقت اس سلسلے میں ایک مقدمہ چل رہا ہے۔ ان میں سے بعض ذرائع نے کہا: جب تک اس معاملے کو قانونی چھتری حاصل ہے، تعلقات کو معمول پر لانے سے نمٹنے کو جرم قرار دینا ایک حقیقی چیز رہے گی۔

والدین تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ والدین نسلوں کے دلوں میں درست تصورات اور مستند اقدار کی آبیاری کے ذمہ دار ہیں، ان ذرائع نے اس بات پر زور دیا کہ ابتدائی تعلیم کے بنیادی ماحول سے باہر موثر عوامل سے رابطہ اور ان کے سامنے آنے سے پہلے حقیقی تعلیم بچے کی پرورش کے ماحول میں ہونی چاہیے۔

بحرین کے تعلیمی ذرائع کے مطابق نئی نسل کی تشکیل اسی طرف لوٹے گی جسے ہم نے شعور کی تشکیل کے آغاز سے ہی ادارہ بنا رکھا ہے، اس لیے مزاحمت کے تصورات، معمول پر آنے کی مخالفت اور دشمن کو تسلیم نہ کرنا اولین چیزوں میں شامل ہیں۔ ایک بچے کو حاصل کرنا چاہئے باہر کی چیزوں سے نمٹنے کے قابل ہونا۔ ساتھ ہی اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا جائے کہ اس کی تعلیم اس پر باضابطہ طور پر کیا مسلط کرے گی اور وہ حقیقی نہیں ہیں بلکہ گھر پر جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ حقیقی ہے۔

ان ذرائع نے، مناسب پرورش میں گھر کے کردار کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور اسکول میں بچہ سیکھنے والی ہر چیز کو جذب کرنے اور اس کے تصورات کی دوبارہ وضاحت اور انجینئرنگ میں والدین کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بہترین طریقے سے اس بات پر زور دیا کہ جب "اسرائیل" اسکول کے نصاب میں اس کے خاندان کے بارے میں بات کی گئی ہے، وہ اسے سمجھائیں کہ یہ ’’حکومت‘‘ نہیں، بلکہ غاصب حکومت ہے۔

ہمیں بچے میں یہ بھی باور کرانا چاہیے کہ کتابوں کے مواد اور تاریخ کے حقائق میں فرق ہے تاکہ نصاب کے ذریعے برین واشنگ کے عمل سے بچا جا سکے جو مستقبل میں کردار کو تبدیل کر سکتا ہے۔

بحرین کے قوانین تعلقات کو معمول پر لانے کا حکم دیتے ہیں۔

ان ذرائع کے مطابق، بحرین میں تعلقات کو معمول پر لانے کی تعلیم ناگزیر ہے، خاص طور پر وزیر تعلیم کی تقرری کے بعد، جو زیادہ تر اس نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں، مستقبل میں، کیونکہ زیادہ تر سیاست دانوں کا خیال ہے کہ وزارت کے عہدے کے لیے ان کا انتخاب اس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ ان کے میڈیا بیانات اور بحرین حکومت کے وژن کے ساتھ ان کی تعمیل، جن میں سے سب سے اہم معمول پر لانا ہے۔

بحرین کے ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ "بحرین کے تمام کونوں میں تعلقات کو معمول پر لانے کی تربیت ایک درخواست پروگرام کے لیے بالکل ٹھیک ہو گی"۔

ان ذرائع نے مزید کہا: جو چیز ہماری باتوں کی تصدیق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ نئے وزیر نے تعلیمی سال کے آغاز سے ہی تعلیم پر تنقید کرنے والے کو سزا دینے پر غور کیا ہے اور ان کا تعارف سیکورٹی حکام سے کرایا ہے اور ان کے خلاف تحفظ کے عنوان سے مختلف احکامات جاری کیے ہیں۔ اساتذہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب کوئی بھی استاد، طالب علم یا والدین تعلقات کو معمول پر لانے کی تعلیم کے موضوع پر تنقید کریں گے تو ان کے ساتھ کیا گزرے گی۔

انہی ذرائع کے مطابق بحرینی اساتذہ عام طور پر اعلیٰ سیاسی شعور رکھتے ہیں اور انہوں نے شروع سے ہی 2011 کے واقعات کی حمایت کی اور جاری رکھی۔

ان ذرائع نے اعتراف کیا کہ مطلوبہ پالیسیوں پر مبنی تعلیم و رہنمائی کے عمل پر صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والی عرب حکومتوں کا تسلط بلاشبہ نوجوان نسل اور ان کے ذہنوں اور عقائد کی تشکیل کو متاثر کرے گا اور وہ ایک ایسی نسل بن سکتی ہے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم اور رہنمائی پر عمل درآمد ہو گا۔ تاریخ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں، ان کا نہ ماضی ہے نہ حال، ایک نسل جو ہوا میں تیر رہی ہے۔

تعلیم کے پہلے سال فلسطین سے محبت پر مبنی

تعلیم کے ان ذرائع کے مطابق بحرینی، مسئلہ فلسطین پر یقین رکھنے والی نسل کی تعلیم کو گھر یا کنڈرگارٹن یا اسکول کے ابتدائی سالوں سے لے کر یونیورسٹی تک جاری رہنا چاہیے۔ یہ جدید نصاب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ یہ صرف تھیوری سیکھنے تک محدود نہیں ہے بلکہ عملی مشق کے ذریعے سیکھنا ہے۔ جیسے کہ یوم ارض منانا (فلسطینی قوم کی حمایت کے لیے) یا اسکول کے ڈراموں کا انعقاد جو مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کے استحکام سے متعلق ہوں، یا قدس، گنبد چٹان، پرچم اور ثقافتی ورثے پر توجہ مرکوز کرنے والے فلسطین کے بارے میں آرٹ کے مقابلے شامل ہوں۔
http://www.taghribnews

تہران۔ ارنا – ایرانی سپریم لیڈر نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ہمارے مسائل کا حل نہیں کیا جائے گا۔

یہ بات ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج بروز ہفتہ ہفتہ بسیج کی مناسب سے ملک بھر سے آئے ہوئے بسیجی فورسز سے ملاقات میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ سیاسی فہم و فراست کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے بیانات لوگوں کو غمگین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلفشار اور فسادات کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ مسائل حل کریں!

انہوں نے کہاکہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ یہ مسئلہ مسلسل رشوت دینے سے حل ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا ایرانی رضاکارانہ فوجی فورس (بسیج)کے اہلکاروں سے خطاب بسیجی رضاکار فورسز کے ہفتے کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی میں آغاز کیا گیا ہے جو یہ سرکاری ٹی وی اور انٹرنیٹ پر آج بروز ہفتہ براہ راست نشر کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق 50 لاکھ کے قریب بسیجی اہلکار نے ملک بھر سے براہ راست اور ویڈیو لنک کے ذریعے اس تقریب میں شرکت کی ہے۔ 

رہبر معظم انقلاب نے مغربی ایشیا اور بالخصوص ایران کی جغرافیائی پوزیشن کی خصوصیات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں کا خیال ہے کہ ایران پر حملہ کرنے سے پہلے وہ پڑوسی ممالک جن کو ایران کے ساتھ گہرے تزویراتی تعاون حاصل ہے کو مفلوج کرے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ امریکیوں نے 2006 میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ایران پر حملہ کرنے کے لیے سب سے پہلے چھ ممالک بشمول عراق، شام، لبنان، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ پر حملہ کیا جانا چاہیے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ شمالی افریقہ میں داخل نہیں ہوا لیکن ان تینوں ممالک عراق، شام اور لبنان میں ایران کی پالیسی نے کام کیا جس کا نتیجہ ان ممالک میں امریکہ کی شکست تھا۔

انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی بہادری کا حوالہ دیتے ہوئےحاج قاسم کا نام ایران کے دشمنوں کے لیے ناگوار ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ کی پالیسی کا پرچم جس نے دشمن کے گہرے منصوبے کو ناکام بنایا، اس شہید کے ہاتھ میں تھا۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ رضاکار فورسز 'بسیج' کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عالمی استکبار سے نمٹنا بہت اہم  ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج دشمن کا سب سے اہم طریقہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ بولنا ہے۔ وہ جھوٹی خبریں اور تجزیے دیتے ہیں، قتل کرتے ہیں، آج دشمن جھوٹ کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے مزید کہا کہ دشمن دماغوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر کسی قوم کے دماغ پر قبضہ کر لیا جائے تو وہ قوم دو ہاتھوں سے(آسانی سے) اپنی سرزمین کو دشمن کے حوالے کر دے گی۔

قائد انقلاب نے کہا کہ کل قومی فٹبال ٹیم کے کھیلاڑیوں نے ہماری آنکھوں کو روشن اور لوگوں کو خوش کیا۔ انشاء اللہ ان کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔

تہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے کہا ہے کہ فسادیوں اور دہشت گردوں کی حمایت امریکہ اور مغرب کے مفاد میں نہیں ہے۔

یہ بات سید ابراہیم رئیسی نے آج بروزاتوار کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ فسادیوں اور دہشت گردوں کی حمایت امریکیوں اور مغربی ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔

رئیسی نے کہا کہ وزارت خارجہ کو سفارتی اور قانونی ذرائع سے بیرون ملک مین دیزائن ہونے والی سازشوں کو بے اثر کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے عوام کی زیادہ سے زیادہ بہتر خدمت کے لیے انتظامی اداروں کی بھرپور کوششوں کے ساتھ ساتھ عوام اور ملک کی سیکورٹی کی حفاظت کو برقرار رکھنے کیلیے عدالتی، سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اداروں کے کردار کا حوالہ دیا۔

آیت اللہ رئیسی نے امریکہ، فرانس اور کئی دیگر یورپی ممالک کی طرف سے دہشت گردوں اور فسادی عناصر کی واضح حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں خبردار کیا کہ دہشت گردی کی حمایت یقینی طور پر ان کے مفاد میں نہیں ہو گی ۔

سحر نیوز/ دنیا: وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے مغربی ایشیائی اور شمالی افریقی امور کے کوآرڈینیٹر نے منامہ کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ امریکہ مغربی ایشیا میں اپنے دفاعی ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل برائے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک نے 20 نومبر بروز اتوار بحرین میں سالانہ منامہ ڈائیلاگ کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ امریکا، مغربی ایشیا میں دفاعی ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق، مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق وائٹ ہاؤس کے اس سینئر اہلکار نے دعویٰ کیا کہ "واشنگٹن توانائی سے مالا مال اور تنازعات سے متاثرہ اسٹریٹجک خطے میں آنے والے خطرات کو روکنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اس وقت پوری طاقت سے اس علاقے میں فضائی اور سمندری دفاعی نظام کی تعمیر کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکی عہدیدار نے وضاحت کیے بغیر دعویٰ کیا کہ جس کے بارے میں طویل عرصے سے بات کی جا رہی ہے وہ اب جدید شراکت داری اور نئی ٹیکنالوجیز کے ذریعے انجام پانے والی ہے۔

دہشت گرد امریکی سنٹرل کمانڈ سینٹ کام کے کمانڈر نے بروز ہفتہ 19 نومبر کو بحرین میں سالانہ منامہ کانفرنس میں کہا تھا کہ اس ملک کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس نے خلیج فارس کے خطے کے سمندری علاقوں میں 100 ڈرون کشتیاں تعینات کی ہیں تاکہ بقول ان کے سمندری خطرات کی روک تھام کی جا سکے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لندن میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کی عمارت پر پرتشدد گروہ کے حملے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی پرچم کی بے حرمتی کے بعد آج تہران میں برطانوی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل نے برطانوی حکومت کو سفارتی اور قونصلر تعلقات کے حوالے سے 1961 اور 1963 کے ویانا کنونشن پر مبنی اپنے وعدوں کی یاد دہانی کرائی اور اس ناخوشگوار اور افسوسناک حملے کی روک تھام میں برطانوی پولیس کی نا اہلی پر اسلامی جمہوریہ ایران کے شدید احتجاج سے آگاہ کیا گیا۔

برطانوی سفیر نے حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لندن کو صورتحال سے آگاہ کریں گے اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں اس طرح کے مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سنیچر کی صبح اصفہان سے آنے والے سیکڑوں لوگوں سے ملاقات کی۔
     

آپ نے اس ملاقات میں ایرانی قوم کے مقابلے میں سامراج کی صف آرائي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سامراج ایرانی قوم کے مقابلے میں اپنی نظریاتی صف آرائي میں، ایران دشمنی میں شدت پیدا کرکے عوام خاص طور پر جوانوں کے ذہنوں میں مایوسی اور تعطل کی سوچ ڈالنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ سے سامراج کو اصل تکلیف یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پیشرفت کرے اور دنیا میں اس کا نام روشن ہو تو مغربی دنیا کی لبرل ڈیموکریسی کا نظریہ سوالوں کے گھیرے میں آ جائے گا۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سوال کیا کہ "ہم کس طرح پیشرفت کریں؟" پھر اس کے جواب میں فرمایا کہ پیشرفت کے لیے متعدد وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پیشرفت کا سب سے اہم وسیلہ، امید ہے اور اسی لیے دشمن نے اپنی پوری طاقت و توانائي، لوگوں میں مایوسی اور تعطل کا احساس پیدا کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔

انھوں نے ایران دوستی کا ایک اشاریہ، امید آفرینی کو بتایا اور کہا: جو لوگ مایوسی اور تعطل کا احساس پھیلاتے ہیں، وہ ایران کے دشمن ہیں، وہ ایران سے دوستی کا دعوی نہیں کر سکتے۔

انھوں نے لبرل ڈیموکریسی کی بیانیے کے ذریعے پوری دنیا کے مختلف ملکوں پر مغرب کا تسلط قائم کئے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا: پچھلی تین صدیوں میں مغرب نے آزادی کے فقدان یا ڈیموکریسی کے فقدان کے بہانے ملکوں کے وسائل کو لوٹا اور تہی دست یورپ، بہت سے امیر ملکوں کو مٹی میں ملا کر مالامال ہو گيا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ایران میں ایک نظام نے مذہب اور مذہبی جمہوریت کی بنیاد پر اپنے عوام کو حقیقی تشخص عطا کیا ہے، انھیں حقیقی حیات عطا کی ہے اور درحقیقت مغرب کے لبرل ڈیموکریسی کے نظریے کو باطل کر دیا ہے۔

انھوں نے آزادی اور جمہوریت کے نام پر مختلف ملکوں میں آزادی اور جمہوریت کے خلاف اقدام کو مغرب کا حربہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان اس کا ایک واضح نمونہ ہے جس پر امریکیوں نے عوامی حکومت نہ ہونے کے بہانے فوجی حملہ کیا لیکن بیس سال تک جرائم اور لوٹ مار کے بعد وہی حکومت اقتدار میں آ گئي جس کے خلاف انھوں نے اقدام کیا تھا اور پھر امریکی وہاں سے بڑے ذلت آمیز طریقے سے باہر نکلے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ، امریکا اور سامراج کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک دیتی اور ان کی منہ زوری اور غنڈہ گردی کے سامنے سر جھکا دیتے تو اس پر دباؤ کم ہوتا لیکن وہ، اسلامی جمہوریہ پر مسلط ہو جاتے۔ انھوں نے کہا کہ ان برسوں میں جب جب دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا ڈنکا بجا، تب تب اسلامی نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا کہ آج ہمارے ملک کا بنیادی چیلنج، "پیشرفت، ٹھہراؤ، ایک جگہ جم جانا اور رجعت پسندی" ہے کیونکہ ہم پیشرفت کر رہے ہیں لیکن سامراجی طاقتیں، ایران کی ترقی و پیشرفت سے طیش اور اضطراب میں آجاتی ہیں اور پیچ و تاب کھانے لگتی ہیں۔ اسی غصے اور اضطراب کی وجہ سے امریکی اور یورپی حکومتیں میدان میں آ رہی ہیں لیکن وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں تھیں، مستقبل میں بھی کچھ نہیں بگاڑ پائيں گی۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایران اور سامراج کے درمیان بنیادی جنگ میں، امریکا، فرنٹ لائن پر ہے جبکہ یورپ، امریکا کے پیچھے کھڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں سبھی امریکی سربراہان مملکت، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے اپنے پالتو اور کٹکھنے کتے یعنی صیہونی حکومت اور بعض علاقائي ممالک سمیت جس سے بھی ممکن ہوا مدد لی۔ انھوں نے کہا کہ ان ساری کوششوں کے باوجود، مجموعی طور پر ایرانی قوم کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں، ایران کے حالیہ ہنگاموں کی اسکرپٹ لکھنے والوں کا اصل ہدف، قوم کو میدان میں لانا بتایا اور کہا: اب جب وہ عوام کو میدان میں نہیں لا سکے تو شر انگیزی پر اتر آئے ہیں تاکہ عہدیداروں اور ذمہ داروں کو تھکا دیں لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ ان کی ان شیطانی حرکتوں سے عوام، بیزار ہو جائيں گے اور ان سے مزید نفرت کرنے لگیں گے۔

انھوں نے کہا کہ یقینی طور پر شیطانی حرکتوں کی بساط لپیٹ دی جائے گي اور ایرانی قوم، زیادہ قوت اور نئے جذبے کے ساتھ ملک کی پیشرفت کے میدان میں قدم بڑھائے گي۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دھمکیوں اور خطروں کو مواقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کو، ایک باایمان قوم کی فطرت کا حصہ بتایا اور حالیہ ہفتوں میں ہونے والی پیشرفت اور آگے کی جانب بڑھائے جانے والے قدموں کے کچھ نمونوں کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ بلڈ کینسر کے علاج کے لیے ایک نئے طریقے تک ایرانی سائنسدانوں کی رسائی، تیل اور گيس نکالنے کی ایک پیشرفتہ مقامی مشین کی ایجاد، سیستان و بلوچستان کے ایک حصے میں ریلوے لائن کا افتتاح، جو شمال سے جنوب کی جانب ریلوے نیٹ ورک کا ایک اہم حصہ ہے، کئي بڑے کارخانوں کا افتتاح، ملک سے باہر پہلی ریفائنری کا افتتاح، چھے بجلی گھروں کا افتتاح، دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی اسکوپس میں سے ایک کی رونمائي، سیٹیلائٹ کیرئیر راکٹ کو خلا میں بھیجنا اور ایک نئے میزائل کی رونمائي، یہ سب بلندی کی جانب ملک کے سفر کے نمونے ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت انجام پایا ہے جب دشمن، ہنگاموں کے ذریعے ان میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان ہنگاموں کی وجہ سے ایک اور موقع یہ حاصل ہوا کہ ان سے، ہنگاموں کے ہدایتکاروں اور ایرانی قوم کی حمایت کے دعویداروں کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو گيا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے تمام مطالبات اور مقدسات سے دشمنی یعنی اسلام سے دشمنی، قرآن سوزی، مسجد کو نذر آتش کرنا، ایران سے دشمنی، ایران کے پرچم کو نذر آتش کرنا، قومی ترانے کی بے حرمتی جیسی حرکتوں نے ہنگاموں کے منصوبہ سازوں کے حقیقی چہرے سے نقاب الٹ دی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ ایرانی قوم کے حامی ہیں جبکہ ایرانی قوم، مسلمان قوم اور قرآن اور امام حسین کی قوم ہے، تو جو لوگ امام حسین، اربعین اور اس کے ملین مارچ کی توہین کرتے ہیں، بے حیائي کا مظاہرہ کرتے ہیں، کیا وہ ایرانی قوم کے حامی ہیں؟

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اپنے خطاب کے ایک حصے میں صوبۂ اصفہان کی دو ٹاسک فورس کی حیثیت سے امام حسین (علیہ السلام) ڈویژن اور نجف ڈویژن کے کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: تقریبا چوبیس ہزار شہیدوں، دسیوں ہزار جنگي مجروحین، ہزاروں جنگي قیدیوں اور ایسے سرفراز گھرانوں کا وجود جنھوں نے اسلام، انقلاب اور ایران کو دو سے سات شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس صوبے کے قابل فخر کارناموں کے دستاویزات اور انقلابی و جہادی تشخص کی علامتیں ہیں اور ان کی حفاظت ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔

انھوں نے 16 نومبر 1982 کو اصفہان میں نکلنے والے تقریبا 360 شہیدوں کے جلوس جنازہ کو یاد کرتے ہوئے کہا: خون میں ڈوبے اتنے سارے جوانوں کے لاشے ایک پورے شہر کو غم و اندوہ سے مفلوج کر سکتے تھے لیکن اصفہانیوں نے ایمان کے بھرپور جذبے کے ساتھ، اسی دن مزید جوانوں کو محاذ جنگ پر بھیجا اور امدادی اشیاء کے اپنے بڑے بڑے کارواں جنگی علاقوں کی طرف روانہ کیے

Khamenei.ir۔

 ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے جمعہ کے روز ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی اور انگریزی چینل پریس ٹی وی پر امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے خلاف ٹویٹر پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ دہشت گرد نیٹ ورکس اور میڈیا کو ایرانی قوم کے خلاف شرارتی کارروائیوں کی اجازت دینا اور ایران کے نقطہ نظر اور رائے کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے مقصد سے آئی آر آئی بی اور پریس ٹی وی پر پابندی لگانا امریکہ کی جانب سے ایرانی قوم کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا تسلسل ہے۔

ناصر کنعانی نے مزید لکھا کہ آزاد قوموں اور حکومتوں کے خلاف امریکہ کے جرائم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ کا یہ تازہ اقدام ایران کے خلاف مغربی ممالک کی دشمنانہ اور بے معنی کے تسلسل میں سامنے آیا ہے۔

دوسری جانب ایران نے فسادات کو ہوا دینے پر مغربی طاقتوں کی مذمت کی ہے اور انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔

ایرانی حکام نے کہا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک فسادات کو ہوا دے کر اور دباؤ بڑھا کر ایران کو مذاکرات کی میز پر ایرانی قوم کے حقوق کی حمایت میں ثابت قدمی سے دستبردار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے رشیا ٹوڈے کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکی حکومت نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس میں استثنیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ امریکی محکمہ انصاف نے ایک قانونی مشاورتی رائے میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات کے معاملے میں استثنیٰ حاصل ہے۔

سعودی ولی عہد کے خلاف مقدمہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز اور "ڈیموکریسی ان دی عرب ورلڈ" تنظیم نے واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں دائر کیا تھا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وکیل "مائیکل کیلوگ" نے امریکی عدالت سے کہا کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بن سلمان کے نئے عہدے کی وجہ سے ان کے خلاف الزامات کو ختم کرے۔ واشنگٹن میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی فیڈرل کورٹ کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں بن سلمان کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ محمد بن سلمان کی سعودی وزیراعظم کے طور پر تعیناتی سے اس بات میں ذرا بھی شک باقی نہیں رہتا کہ سعودی ولی عہد کو استثنیٰ حاصل ہے۔

یاد رہے کہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے اس خبر کے چند منٹ بعد ٹوئٹ میں لکھا کہ جمال آج پھر انتقال کر گئے۔ ہم نے سوچا کہ شاید امریکہ میں انصاف کی روشنی چمکے گی، لیکن پھر پیسہ پہلے نمبر پر آیا۔ یہ وہ دنیا ہے جسے جمال نہیں جانتا تھا اور میں بھی نہیں جانتی۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے بھی اس مسئلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک قانونی فیصلہ ہے جو وزارت خارجہ نے روایتی بین الاقوامی قانون کے قائم کردہ اصولوں کی بنیاد پر کیا ہے اور اس کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔