سلیمانی

سلیمانی

(120 نحل ) بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے 

ستمبر 2024ء کے آخری ایام میں جب صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی تیاری کر رہے تھے، بین الاقوامی میڈیا شمالی محاذ پر ممکنہ جنگ بندی کی خبریں دے رہا تھا۔ لبنانی رہنما امریکی ثالثی سے مثبت نتائج کی امید کررہے تھے لیکن اسی دوران حزب اللہ اور سپاہ پاسداران کے اعلی حکام نے بیروت میں ایک خفیہ اجلاس بلایا تاکہ میدان جنگ کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔ نتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر سے چند لمحے قبل اسرائیلی فوج کو سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز پر حملے کا حکم دیا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی دفتر پر بمباری کی تاکہ یقینی طور پر حزب اللہ کی قیادت کو ختم کیا جاسکے۔ اگرچہ اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اس حملے سے حزب اللہ کی طاقت ختم ہوجائے گی مگر یہ حملہ درحقیقت لبنانی مزاحمت میں ایک نئی روح پھونکنے کا سبب بنا۔ حسن نصراللہ کی شہادت نے حزب اللہ کو مزید متحد اور مضبوط کردیا، اور لبنانی عوام میں ان کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔

طالب علم سے حزب اللہ کی قیادت تک
چالیس سال قبل جب اسرائیلی ٹینک فلسطینی آزادی کی تنظیم کے خلاف کارروائی کے بہانے بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین کی ایک جماعت تحریک امل سے وجود میں آئی، جو بعد میں لبنان کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ لبنانی مجاہدین نے انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی (رح) کی فکر سے متاثر ہو کر ولایت فقیہ کے نظریے کو اپنایا اور غیر ملکی قابضین کے خلاف مسلح جدوجہد کا عزم کیا۔ 23 اکتوبر 1983ء کو بیروت میں قابض امریکی فوجی مرکز پر ہونے والے حملے میں 241 امریکی میرینز اور 58 فرانسیسی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس وقت جب امریکی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجی بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین نے اپنے محدود وسائل کے باوجود دشمنوں کے انخلا کی بنیاد رکھ دی، جو 21ویں صدی کے آغاز تک مکمل ہوا۔ اس وقت مقاومت کے حامیوں کو امید ہوگئی کہ حزب اللہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے، شہید عباس موسوی کے بعد، ایک چھوٹے سے گوریلا گروہ کو لبنان کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری طاقت میں بدل دیا۔

لبنان کی ریاست سازی میں شہید نصر اللہ کا کلیدی کردار
لبنان کی تعمیر کے عمل میں شہید سید حسن نصراللہ نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی قوم پرستی اور لبنان کی سلامتی سے غیر متزلزل وابستگی کا سب سے نمایاں مظاہرہ طوفان الاقصی کے دوران سامنے آیا۔ جب عزالدین قسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف غیر متوقع آپریشن کیا، تو مزاحمتی محور کے بعض رہنماؤں نے حزب اللہ سے شمالی محاذ پر براہ راست مداخلت کا مطالبہ کیا۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سید حسن نصراللہ کو لبنانی پارلیمان کی سربراہی اور 54 بلین ڈالر امداد کی پیشکش کی، بشرطیکہ وہ فلسطینی محاذ سے دور رہیں۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدبرانہ راستہ اختیار کیا۔ ان کی حکمت عملی نے لبنان کے اندر مختلف سیاسی و فکری حلقوں میں مزاحمت کے نظریے کی مقبولیت کو مزید تقویت دی۔ آج لبنان میں مختلف مذاہب اور سیاسی نظریات سے وابستہ لوگ روزمرہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر شہید نصراللہ کو ایک قومی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

محور مقاومت خطے کی سلامتی کی ضامن
سید حسن نصر اللہ اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد نتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا منصوبہ عملی بنانے پر زور دینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے روایتی موقف کے تحت دو ریاستی فارمولے پر تاکید کی تو نتن یاہو نے انتہائی جسارت کے ساتھ کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اتنی ہمدردی ہے تو ان کو سعودی عرب میں زمین دے کر بسائیں۔ حالیہ عرصے میں صہیونی حکام کے بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطی کی سلامتی کے لیے شہید حسن نصر اللہ جیسے رہنماؤں کی کس قدر ضرورت ہے۔ اگر حزب اللہ جیسی تنظیمیں مقاومت نہ کریں تو عرب ممالک خطے کی جغرافیائی سرحدیں بدلنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔

حاصل سخن
آج، اتوار 23 فروری کو، لبنان کے لوگ اور تمام مقاومت کے حامی سید حسن نصر اللہ کی تشییع جنازہ میں شرکت کی جو نہ صرف لبنان بلکہ علاقے کی سلامتی کا ضامن بھی تھا۔ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں یہ بات ثابت ہوگی کہ شہید سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت کی، بلکہ عربی-اسلامی عزت و شرافت کو بھی غاصب صہیونی رژیم کے سامنے برقرار رکھا۔ 23 فروری کا دن حزب اللہ کی لبنانی سیاست میں واپسی اور مشرق وسطی میں مقاومت کے دوبارہ عروج کا نکتہ آغاز بن گیا ہے۔

خصوصی تحریر

ستائیس ستمبر سے لے کر تئیس فروری تک ہم نے ہر لمحہ سخت تکلیف اور غم میں گذارا ہے، یہ ایام لگ بھگ پانچ ماہ بنتے ہیں، ان پانچ مہینوں میں سید مقاومت کی شہادت کی خبر نے ایسا رنجیدہ اور دکھی و مغموم رکھا ہے کہ اس کا اظہار ممکن نہیں۔ ان کیفیات کو الفاظ کے معانی نہیں پہنائے جا سکتے، جن سے ہم گذرے ہیں۔ آنسوئوں کیساتھ پانچ مہینوں کے ہر لمحہ میں ان کی یاد نے جیسے آنکھوں کو سیلاب زدہ کر دیا تھا۔ جب بھی خیال آتا، ان کی تصویر سامنے آتی، ان کی کوئی تقریر کا کلپ سنتے اور ان کی مانوس آواز، دلربا لہجہ کانوں میں پڑتا تو آنسوءوں کی جھڑی لگ جاتی۔ ہاں۔۔ ہم نے۔۔ سید کی جدائی میں رونے میں قطعاً شرم نہیں کی۔ بلا شبہ ہم نے سید کیلئے برملا گریہ کیا، تنہائی میں کیا، دوستوں کیساتھ محفلوں میں کیا۔ اپنوں اور غیروں کے سامنے تذکرہ کرتے ہوئے کیا، ہم نے انہیں سوچتے ہوئے گریہ کیا، ان کو دیکھتے ہوئے آنسو بہائے۔

لکھتے ہوئے ہمارے گالوں پر بہنے والے آنسو ان کے "وعد الصادق" ہونے کی گواہی دیتے رہے۔ یہ پانچ ماہ ہم نے جس کرب اور درد سے گذارے، اس میں دل کے کسی خانے میں اک آس، اک امید، اک خواہش بھی موجود رہی۔ اے کاش۔۔۔ سید زندہ ہوں، سید محفوظ ہوں، سید یک دم اپنے توانا وجود کیساتھ ظاہر ہوں اور دنیا کو ایک معجزہ کی کیفیت میں ورطہء حیرت میں ڈال دیں۔ مگر۔۔ پھر وہ دن آیا، جب حزب اللہ نے ان کی تشیع جنازہ اور تدفین کی تاریخ مقرر کی۔ تب امید دم توڑ گئی، آس کے دیئے کی لو ماند پڑتی پڑتی بالآخر بجھ ہی گئی اور یقین ہو چلا کہ "سید" اپنے فانی وجود کیساتھ شاید کبھی نظر نہیں آسکیں گے۔ تب سے پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی سید کے جنازے و تدفین کے دن کا انتظار تھا۔ گذشتہ روز 23 فروری کا دن اس عنوان سے تاریخی تھا کہ اس روز ایک عظیم قائد، ایک عالمی مبارز، مقاوم اور مزاحمتی شخصیت کا جنازہ اپنی شان و شوکت اور عظمت و شرف کیساتھ ہونا قرار پایا تھا۔

سید حسن نصراللہ بلا شک و شبہ اس صدی کے ایک دیو مالائی کردار کی حیثیت رکھتے تھے، ان کا جنازہ بھی ایک لازوال اور بے مثال ہونا چاہیئے تھا، وہ مزاحمت کا ایسا استعارہ بنے کہ عرب و عجم نے انہیں اپنے دل میں بسا لیا، یہ بہت عرصہ کے بعد ہوا تھا کہ ایک پیرو اہلبیت، ایک عاشق اہلبیت، ایک سید عزیز، ایک کربلا کے فرزند کو امت نے اپنے قلوب میں بسایا۔ وگرنہ تعصب کی اندھے گڑھے میں گرے ہوئے بہت بڑے بڑے نام بھی اپنے خبث باطن کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات مقدسہ ہے، جنہیں متعصب اور جاہل لوگوں نے فقط ایک شیعہ شخصیت کے طور پر پہچانا، ان کے لافانی و آفاقی کردار کی ہمیشہ نفی کی، جبکہ وہ ایک آفاقی، الہیٰ انسان تھے، جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتا ہے

سید مقاومت، سید حسن نصراللہ اپنے کردار، اپنے عمل، اپنے سچے وعدوں، اپنے اخلاص، اپنے افکار، اپنے خیالات، اپنے اظہارات، اپنی جدوجہد، اپنے احساسات کی وجہ سے صدیوں بعد سامنے آنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ لہذا ان کا جنازہ بھی اتنا ہی بلند شان اور باشکوہ ہونا چاہیئے تھا۔ ایسے موقع پر جب اسرائیل حماس کے سات اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے مسلسل ہزیمت اٹھا رہا ہے اور جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مراحل میں اسے روز شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور لبنان میں اس کی جارحیتوں کے خلاف حزب اللہ نے اسے بہت بڑی ضربیں لگائی ہیں، بالخصوص اس کے دفاعی نظام کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں جب اسرائیل شام جیسے ملک پر قابض ہو چلا ہے اور نام نہاد مسلمان اسے قبول کرتے ہوئے خطے کا چودھری قبول کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ ایسے میں مقاومت لبنان کی طرف سے سید مقاومت کا پرشکوہ جنازہ درحقیقت اس قوت کا اظہار ہے، جس کی بنیاد پر حزب اللہ اپنے دشمنوں کو دھول چٹاتی آرہی ہے اور اپنے عظیم رہنماوں کی قربانیوں سے عبارت داستان شجاعت کے اوراق لکھتی آرہی ہے۔

سید مقاومت کا جنازہ اس داستان شجاعت کی کتاب کا وہ سر ورق ہیں، جن کے جنازے سے بھی دشمن بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے، جمہوری اسلامی ایران کی بیروت پر پروازوں پر پابندی لگوائی، اسرائیل جسے 80 ٹن سے زیادہ بارود کے ملبے تلے دبا چکا تھا اور اسے سید حسن نصراللہ کی لاش ملنے کی امید نہیں تھی۔ کجا ان کی میت کو شایان شان طریقہ سے الوداع کہنا اور دنیا کے بیسیوں ممالک کے مقاومت پسند رہنماوں اور شخصیات کی بھرپور شرکت، اپنے اظہارات اور شہید مقاومت سے اپنی وابستگی اس عہد کیساتھ کہ ہم اس عہد کو نبھائیں گے، اس راستے کو جاری رکھیں گے، اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہر قربانی پیش کریں گے، جس کیلئے آپ نے اپنی جان نچھاور کی، وہ کردار کبھی نہیں مرے گا، جس کو دیکھ کر اسرائیل نے آپ کو ہم سے جدا کیا، وہ کردار ہر دور میں زندہ رہیگا، فرزندان روح اللہ میں سے ہر دور میں یہ کردار ادا کرنے والے سامنے آتے رہینگے۔

شہید مقاومت کے جنازہ میں دنیا بھر سے شریک ہونے والے بھاری وفود کیساتھ اہل لبنان کی اپنے خانوادوں، اپنے بچوں، اپنے بوڑھوں بالخصوس ہر طبقہ زندگی و مکتب و مذہب کی نمائندگی اور لبیک یاحسن نصراللہ و "انا علی العھد" کے شعار بہت ہی متاثر کن ماحول کا تاثر دے رہے تھے، جبکہ اسرائیل کا اس دوران جنگی طیاروں کے غول میں نیچی پرواز کرتے ہوئے خوف و دہشت پھیلانے کا خام خیال بھی باطل ثابت ہوا کہ لوگ ان جنگی طیاروں کو دیکھ کر پر زور اور پرجوش انداز میں لبیک یا نصراللہ کے نعرے لگاتے ہوئے مکے لہرا رہے تھے۔ بعض تو جوتے بھی دکھا رہے تھے، یعنی تمہارے بموں کو ہم جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ وہ امت ہے، جسے امت حزب اللہ کہا جاتا ہے، جسے فرزندان خمینی کہا جاتا ہے۔ یہ فرزندان انقلاب اسلامی ہیں، یہ امام سید موسیٰ صدر کے لگائے ہوئے پودے کی مضبوط جڑوں جن میں ہزاروں پاکباز شہداء کا پاک لہو سینچا گیا ہے، ان کا قبیلہ ہے۔ اس قبیلہ کا ہر فرد منفرد کردار کا حامل ہے۔ بقول شاعر
میرے قبیلہء سرکش کا تاجور ہے، وہ شخص
بڑھے جو دار کی جان پیغمبروں کی طرح

گذشتہ روز جنازے کے اجتماع میں ہم نے آہوں، سسکیوں، الم و درد اور غموں سے بھرپور ملت لبنان، امت حزب اللہ کو پرعزم، پرجوش اور متعہد دیکھا، ان کو دیکھ کر ہر ایک کو حوصلہ ہوا، ہر ایک نے اس عہد کو دہرایا اور سید کیساتھ وفا کی حلف برداری کی، ہم مغموم، دکھی اور کرب و الم کی کیفیات میں شہید کی ذات کیساتھ اس عزم کو دہراتے ہیں کہ ان کا راستہ زندہ رکھیں گے۔ ان کی جلائی شمع مزاحمت کو اپنے لہو سے روشن رکھیں گی اور کربلا والوں کی طرح کبھی بھی پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کیساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
 تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
 
حزب اللہ کے شہید سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی بیٹی سیدہ زینب نصراللہ نے اپنے والد کی نجی اور خاندانی زندگی کے کئی پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کیا اور انہیں اپنا فخر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بچپن میں انہیں دیگر بچوں کی طرح اپنے والد کی رفاقت حاصل نہیں تھی۔ میرے والد کی مصروفیات کی وجہ سے میں ان کے ساتھ وہ تعلق قائم نہ کر سکی جو عام طور پر بیٹیوں کا اپنے والد سے ہوتا ہے، لیکن میری والدہ نے ہماری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ والد کے اکثر غیر حاضر ہونے کے باوجود تربیتی اصولوں میں ان کے ساتھ ہم آہنگ تھیں۔

زینب نصراللہ نے مزید کہا کہ سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی میں کچھ اصولی حدیں مقرر کی تھیں اور وہ انہی کی سختی سے پاسداری کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں انہی اصولوں پر تربیت دی۔ وہ ایک مثالی انسان تھے اور ان کا اخلاق اہل بیت علیہم السلام کے اخلاق کے عین مطابق تھا۔ میرے والد انتہائی شفاف، جذباتی اور مہربان شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ہم پر کبھی کچھ مسلط نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی نصیحتیں اتنی مؤثر ہوتیں کہ ہم خود بخود قائل ہو جاتے۔

زینب نصراللہ نے اپنے بھائی شہید ہادی کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے ان پر کبھی جہاد کا دباؤ نہیں ڈالا، تاہم ہادی کی شہادت نے نہ صرف ہمارے اندر مزید حوصلہ اور یقین پیدا کیا بلکہ ہمیں شہداء کے خانوادوں کے قریب کردیا۔

حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل کی بیٹی زینب نصراللہ نے اپنے اہل خانہ کی نجی محفلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نواسے ہمیشہ ماہ رمضان کا انتظار کرتے تھے کیونکہ اس مقدس مہینے میں پورے خاندان کے لیے اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سیکیورٹی پابندیاں صرف ان کے والد کی زندگی تک محدود نہیں تھیں، بلکہ شہادت کے بعد بھی ان کے خاندان کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کے عارضی مزار کی زیارت سے روک دیا گیا۔

زینب نصراللہ نے اپنے شہید شوہر حسن قصیر کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جہادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ نوجوانی سے ہی ایک مجاہد تھے اور اپنی زندگی کا اختتام شہادت پر کیا۔ وہ ہمیشہ محاذ جنگ کی صف اول میں موجود رہے۔ حسن قصیر نے متعدد فوجی آپریشنز میں شرکت کی، جن میں 1999 میں بیت یاحون پر حملے کی معروف کارروائی بھی شامل تھی۔

زینب نصراللہ نے اپنے شوہر اور والد کے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر سید حسن نصراللہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ یہ محبت محض داماد ہونے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ایک قائد اور کارکن کے درمیان خلوص اور ایثار کا جذبہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ والد کی جدائی کا غم ناقابلِ بیان ہے۔ ہم عوام کے درد کو سمجھتے ہیں جو انہیں کھونے کے بعد محسوس کر رہے ہیں، لیکن ذرا سوچیں کہ ان کے اہلِ خانہ کے لیے یہ جدائی کیسی ہوگی؟

زینب نصراللہ نے اپنے والد کی عوام سے گہری وابستگی کے بارے میں کہا کہ وہ عوام کو اپنے خاندان کی طرح سمجھتے تھے اور ہمیشہ خود کو ان کے لیے ذمہ دار محسوس کرتے تھے۔

حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل کی بیٹی زینب نصراللہ نے اپنے والد کے ساتھ آخری رابطے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عاشورا سے قبل ہوا تھا۔ میرے والد ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہمیں لوگوں کو اللہ سے قریب کرنا چاہئے۔ وہ نہ صرف عوام کے معاشی اور سماجی حالات کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے، بلکہ ان کے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی بے حد محنت کرتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سید حسن نصراللہ نے اپنی آخری ملاقات میں شہید سید عباس موسوی کی ایک نصیحت کو دہرایا، جو وہ ہمیشہ عوام سے کہا کرتے تھے کہ ہم خلوص اور صدق دل سے آپ کی خدمت کرتے ہیں۔

یہ جملہ ہمیشہ ان کے والد کے پیش نظر رہا، اور وہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں کبھی غافل نہ ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی تقریریں ہر عمر، ہر طبقے اور ہر ثقافت کے افراد کے لیے مؤثر اور جامع ہوتی تھیں۔

زینب نصراللہ نے کہا کہ ان کے والد امت مسلمہ کے لئے باپ کی ہمدردی رکھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد امت خود کو یتیم محسوس کررہی ہے۔ سید حسن نصراللہ اور عوام کے درمیان محبت کا رشتہ اتنا گہرا تھا کہ شاید ان کا فراق لوگوں کے لیے اپنے بچوں، عزیزوں اور شریک حیات کی جدائی سے بھی زیادہ دردناک ہو۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد امام موسی صدر سے گہرا فکری اور روحانی تعلق رکھتے تھے اور ان کو اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بطور نمونہ دیکھتے تھے۔ اسی تعلق کی بدولت میرے والد بھی قیادت، ایمان اور انسانیت کا ایک منفرد نمونہ بنے۔

زینب نصراللہ نے بتایا کہ ان کے والد شہادت تک تحصیل علم میں مصروف رہے اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے درس خارج کا علم حاصل کرتے رہے، جو حوزہ علمیہ میں اعلی ترین علمی سطح سمجھی جاتی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ فتح حاصل ہوچکی ہے لیکن ہم خود کو یتیم محسوس کرتے ہیں۔ عوام بھی یہی محسوس کرتے ہیں اور آج بھی ان کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور اس فتح کی خوشخبری انہیں خود دیں۔
https://taghribnews.com/vdccx4qe42bqep8.c7a2.html

 لبنان میں شہید سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی تشییع محض ایک تقریب نہیں، بلکہ حق و باطل کی مسلسل جدوجہد کی علامت ہے، جو امریکہ اور صہیونیت کے خلاف جاری معرکے میں نمایاں ہوئی ہے۔ یہ عظیم الشان تشییع جنازہ مقاومت کی تحریک کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے، جو سیاسی، سماجی اور مذہبی پیغامات کے ساتھ ایک مضبوط عوامی ردعمل کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

شہداء کی تشییع جنازہ میں عوام کی بھرپور شرکت اس امر کا ثبوت ہے کہ حق کی جنگ جاری رہے گی اور باطل کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا جائے گا۔ شہید نصراللہ کی سب سے بڑی میراث تحریک حزب اللہ ہے، جو نہ صرف لبنان بلکہ عالمی سطح پر بھی مظلوموں کے لیے امید اور حوصلے کا نشان بن چکی ہے۔

سید حسن نصراللہ کا پختہ ایمان تھا کہ اللہ کی نصرت سے حزب اللہ باطل کے مقابلے میں کامیاب ہوگی، اور یہ وعدہ کبھی خلاف واقع نہیں ہو سکتا۔ شہید نصراللہ اور صفی الدین کی قیادت میں حزب اللہ اس قدر طاقتور ہوئی کہ صہیونی ریاست کو ان کے خلاف کارروائی کرنے میں مہینوں لگ گئے۔

گزشتہ برسوں میں مغربی میڈیا نے صہیونی ریاست کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی، مگر دنیا اب اس فریب سے بیدار ہو رہی ہے۔ شہداء کی تشییع اس حقیقت کو مزید واضح کرتی ہے کہ مقاومت کی تحریک کسی ایک رہنما تک محدود نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے جو ہر شہید کے بعد مزید مضبوط ہوتا ہے اور صہیونی ریاست کے خاتمے تک جاری رہے گا۔

یہ تشییع جنازہ عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، کیونکہ یہ تقریب مقاومت کی تحریک کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ شہید نصراللہ نے اپنی بصیرت، اخلاص اور مجاہدانہ عمل سے دنیا کو دکھایا کہ تاریخ کے صحیح دھارے میں کھڑا ہونا کیسا ہوتا ہے۔

ابھی میتیں اٹھائی نہیں گئیں، سڑکیں ہجوم سے نہیں بھریں اور لوگوں نے نعرے بلند کر کے شہدا کیساتھ ایفائے عہد کے عزم اظہار نہیں کیا، کیمروں نے ابھی تک اس منظر کی عظمت کو ریکارڈ نہیں کیا، لیکن بند دروازوں کے پیچھے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک حماقت ہے۔ کیا؟ یہی کہ دشمن سید حسن نصر اللہ کے جنازے سے خوفزدہ ہیں! لوگوں کو بیروت کی طرف جانے سے روکنے کے لیے ایک بے مثال سیاسی، میڈیا اور امنیتی کوشش ہو رہی ہے، اس لیے نہیں کہ لبنانی دارالحکومت کی سلامتی خطرے میں ہے، بلکہ اس لیے کہ اتوار کے دن کا ایک منظر تل ابیب اور واشنگٹن میں فیصلہ ساز حلقوں کے ذہنوں کے ذریعے بنائے گئے تمام منصوبوں کو تباہ کر دے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ جو حزب اللہ کے سکریٹری جنرل شہید سید حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد سے یہ استدلال کر رہے ہیں کہ مزاحمت ناکام ہو گئی ہے اور اس کی مقبولیت اور قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے، وہ اس واقعے کو رونما ہونے سے روکنے کے طریقے سوچنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں، گویا یہ اجتماع ان کے وجود کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے سید حسن نصر اللہ کے جنازے کے متعلق ایک نئی جنگ شروع کی۔

سید مقاومت کے جنازے کے خلاف بین الاقوامی مہم:
پہلے ہی لمحے سے، ایک بین الاقوامی مہم شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد بیروت کی طرف ناقابل بیان تعداد کی نقل و حرکت کو روکنا تھا۔ جب ہم بین الاقوامی کہتے ہیں تو ہمارا لفظی مطلب پوری دنیا ہے۔ ایئر لائنز نے ترکی اور یورپی ممالک کے سیکڑوں مسافروں کے لیے ریزرویشن منسوخ کر دیے ہیں، یورپ سے 120 سے زیادہ پروازیں منسوخ یا ملتوی کر دی گئی ہیں۔ ترکش ایئر لائنز نے کوئی واضح وضاحت فراہم کیے بغیر اپنی 20% پروازیں باضابطہ طور پر منسوخ کر دی ہیں، جن میں جرمنی جانے والی پروازیں بھی شامل ہیں۔ کچھ ہوائی اڈوں پر لبنانی مسافروں کو بھی بلایا گیا اور ان کے سفر کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا، ایسا منظر جو لبنان کی خانہ جنگی کے تاریک ترین دور میں بھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔ دباؤ فضائی سرحدوں پر نہیں رکا، بلکہ اس میں وہ کمپنیاں، ادارے اور میڈیا آوٹ لیٹس بھی شامل ہیں جو شرکاء کو ڈرانے دھمکانے کے ذمہ دار ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ ہوٹلز اور کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو برطرف کرنے کی دھمکی دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی کا لہجہ بڑھتا جا رہا ہے، گویا ہم کسی بڑے واقعے کے دہانے پر ہیں جس سے موجودہ عالمی نظام کو خطرہ ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل
آج کل مغربی حلقے جن اہم ترین لڑائیوں کو چھیڑنے کے خواہاں ہیں، ان میں سے صرف سیاسی میدان ہی شامل نہیں، بلکہ انہیں یادگار لمحات کے محفوظ کئے جانے کا خوف بھی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کس چیز کا انتخاب کریں تیزی سے ایک کے بعد دوسری تصاویر اور مناظر ہیں، ان کو ہٹائیں یا منظر پر رہنے دیں، جو بے حد و حساب عوامی شرکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لئے بڑی ٹیک کمپنیوں نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر ایسے صارف اکاؤنٹس کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے، جو جنازے کے دن کے لیے مرحلہ وار تیاری پر عمل پیرا ہیں اور جنازے سے متعلق کسی بھی پوسٹ کو شروع ہونے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ کے جنازے پر اسرائیلی حملے کا احتمال:
آئیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں اور ایک واضح سوال پوچھتے ہیں کہ اگر حزب اللہ ناکام ہو گئی ہے، جیسا کہ اس کے مخالفین کا دعویٰ ہے اور اگر اس کے حامی تھک ہار چکے ہیں، اداس اور مایوس ہیں، تو ایک جنازے کے اجتماع پر اسقدر گھبراہٹ کیوں؟ سید حسن نصراللہ کے جنازے میں شرکت کرنے والوں پر اسرائیلی دہشت گرد حکومت کی طرف سے براہ راست حملے کے احتمال کیساتھ عوام کی شرکت کو روکنے کے لیے انہیں اس حد تک جانے کی کیا ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جنگ ایک آدمی کے جنازے پر نہیں ہے، بلکہ اس آدمی کا ایک خاص علامت بن کر اجتماعی شعور میں سمو کر اس ہدف کی نمائندگی کرنا ہے، اس علامت بن جانے کی حیثیت کو مٹانے کی خواہش ہے۔ جب لاکھوں لوگ ان کے نام کا نعرہ لگانے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ اس شخص کے لیے نعرے نہیں لگا رہے جو شہید ہو گیا ہو، بلکہ اس مقصد کے لیے، جس کو شکست نہیں ہوئی۔ جب ہجوم دیہی علاقوں سے بیروت میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ راکٹ سے زیادہ مضبوط اور زیادہ واضح پیغام لے کر جاتے ہیں، ہم یہاں ہیں، ہم مزاحمت جاری رکھیں گے اور یہ سرزمین ہماری ہے۔ یہ صرف ایک جنازہ نہیں ہے بلکہ اس عظیم جنگ کے بارے میں ایک مقبول ریفرنڈم ہے، جس کے لئے مزاحمت چار دہائیوں سے لڑ رہی ہے۔ یہ واضح اعلان کا لمحہ ہے کہ دہشت گردی سے کچھ نہیں بدلے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ دشمن جسم سے نہیں ڈرتے اش شخص سے خوفزدہ ہیں جس کی خاطر سب اکٹھے ہو رہے ہیں۔

باطل دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کی عظیم مثال:
تشیع جنازے کے مراسم پر حملہ نہ صرف ایک سیاسی جدوجہد ہے، بلکہ یہ جنگ معنویت، اقدار اور تاریخی تجربے پر مبنی عمیق مبارزہ کی عکاس ہے۔ یقیناً ایسے معاشرے ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی تاریخ میں اس سے بڑا لمحہ کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ ایک ایسے لیڈر کا کیا مطلب ہے، جو دشمن کا آخری دم تک مقابلہ کرے۔ ان کے لیے قیادت ایک پیشہ ہے، عہدہ ایک ذاتی مقصد ہے اور ان کے اتحاد مادی مفادات پر استوار ہوتے ہیں، اصولوں پر نہیں۔ اس لیے ان لوگوں کے لئے سید حسن نصر اللہ کے جنازے کے دن جیسا منظر، جس میں لاکھوں لوگ ایک ایسے رہنما کو الوداع کرنے کی تیاری کرتے ہیں، جس نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا، ایک متحرک اور اشتعال انگیز منظر ہے، کیونکہ یہ انہیں ان کے سیاسی تجربات کی ناکامی کی یاد دلاتا ہے اور ان کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔
قوم کا لیڈر
یہ حملہ سیاسی اور میڈیا اشرافیہ کی طرف سے بھی ہے جو اپنے عوام کے اجتماعی جذبات سے رابطہ کھو چکے ہیں، ان لوگوں کے لیے سب سے خطرناک حصہ وہ ہے جس سے یہ خوف محسوس کرتے ہیں، وہ خطرہ انہیں اپنے اردگرد کے سماجی ماحول سے ہے، جنہوں نے کبھی ایسا لمحہ نہیں گزارا، انہوں نے اپنے قائدین کو میدان میں لڑنے کے بجائے سفارت خانوں کی طرف بھاگتے دیکھا ہے۔ یہ ماحول کسی بھی طرح کے تجربے سے خالی ہے۔ اس لیے یہ سید حسن نصر اللہ کے باعظمت طرز قیادت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں، نہ صرف اس لیے کہ وہ مزاحمت اور مقاومت کو غلط سمجھتے ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ایسے لوگوں نے کبھی بھی ایسی پروقار قیادت کے سائے میں اس جیسا قابل فخر تجربہ نہیں کیا۔ تجربے کی یہ محرومی کچھ لوگوں کی طرف سے نہ صرف سیاسی اثر و رسوخ کے خوف سے شیعان علی علیہ السلام  کیخلاف حملہ کرنے کا باعث بنتی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک تاریخی لمحے سے محروم ہو گئے ہیں جو کبھی نہیں دہرایا جائے گا۔ کچھ لڑائیاں صرف ہتھیاروں کی نہیں ہوتیں، بلکہ جذبات اور اقدار کے بارے میں بھی ہوتی ہیں، جو ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہیں جن کی یادداشت اٹل موقف اور قربانی سے بھری ہو اور مقابلے میں وہ لوگ جو خاص وجودی خلا سے دوچار ہوتے ہیں جسے وہ اشتعال اور نفرت سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
 
 

دنیا کی حکومتیں اپنی  عوام اورعوامی اداروں سے "ٹیکس" یا "محصولات" کے عنوان سے رقم وصول کرتی ہیں، اور ہرحکومت اس نظام کے ذریعے مختلف شعبوں، جیسے انفراسٹرکچر مثلا: پل، سڑکیں، اور ڈیم وغیرہ تعمیر کرتی ہیں، نیز تعلیم اور دیگر شعبوں کے تعمیر ترقی کے اخراجات  کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

ماضی میں" ٹیکس "اجناس میں سے ہواکرتا تھا جیسا کہ کسان سے فصل کا ایک حصہ وصول کیا جاتا تھا لیکن اب معاملہ بالکل مختلف ہوچکا ہے، کیونکہ ہرریاست میں ایک خاص شعبہ (جسے جدید اصطلاح میں "وزارت خزانہ" کہا جاتا ہے) قائم ہے جو عام طور پر سول حکومتوں میں عوام اور عوامی اداروں سے ٹیکسوں اور محصولات کی وصولی کا  ذمہ دار ہوتا ہے۔

اسلام میں خمس ادا کرنا واجب ہے، جیساکہ ہرریاست ٹیکس کی ادائیگی کو لازمی قرار دیتی ہے۔ لیکن اسلام میں اس کی ایک روحانی جہت ہے۔ خمس کی ادائیگی سے  جہاں دنیا میں اجر و ثواب ملتا ہے وہاں تزکیہ نفس اور مال کی پاکیزگی ہوتی ہے، جو قیامت کے دن کام آئے گی۔

پیغمبر اسلام صلیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عدی بن حاتم طائی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا)  سے گفتگو کرتے ہوے لفظ "خمس" کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا: "انك لتأكل المرباع وهو لا يحل في دينك" '  تم اپنی قوم کی غنیمت (لوٹ) سے چوتھا حصہ وصول کرتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے مذہب کے مطابق تمھارے لیے حلال نہیں ہے" عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے زمان جاہلیت میں مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کیا  اور اسلام میں خمس ادا کیا،  اور جب اسلام آیا تومربع (غنیمت سے چوتھا حصہ) کے بجائے اللہ تعالی نے خمس کو واجب قرار دیا۔

خمس کیا ہے؟

لغت میں خمس سے مراد پانچ میں سے ایک حصے کو کہا جاتا ہے جیساکہ خمسة القوم یعنی میں نے ان کے اموال کا پانچواں حصہ لیا، اسی طرح پانچ میں سے ایک جزء کو بھی خمس کہا جاتا ہے۔

خمس کی اصطلاحی تعریف: صاحبِ "معجم الفاظ الفقہ الجعفری" نے خمس کی یوں تعریف بیان کی ہے: کہ خمس ایک شرعی فریضہ ہے اور ہرشخص مکلّف پرمخصوص شرائط کے ساتھ سالانہ بچت اوراس طرح کے بعض دیگر  چیزوں کے پانچویں حصے 1/5 کی ادائیگی   واجب ہوتی ہے۔

فقہاء کرام خمس کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ خمس مال مملوک میں سے وہ حصہ جو خدا کا ہے خواہ یہ انسان کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔ یہ (سادات) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے غریبوں کے لئے اور اس کا ایک حصہ دیگر اموردینیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

وجوب خمس پر کیا دلایل ہے؟

شیعہ مسلمان وجوب خمس پر سورہ انفال کی ایت 41 کے ذریعے استدلال کرتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فراماتے ہیں: (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)

اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

اگرچہ یہ آیت ان اموال غنائم کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو مسلمان فوج نے جنگ بدر کے بعد حاصل کی تھی جو مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ پہلی جنگ تھی۔ تاہم یہاں پر بہت ساری ایسی متواتر اور صحیح السند روایات موجود ہیں جو دیگر اموال میں بھی وجوب خمس پردلالت کرتی ہیں۔

یہ شریعت اسلامی کا ایک معروف حکم ہے۔اللہ تعالی نے  قرآن کریم میں ان احکامات کی طرف اشارہ کیا ہے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے ان کی تفصلات بیان فرمائی ہیں۔ مثلا: قرآن مجید میں روزانہ کی پانچ نمازوں اور نماز طواف کے بارے میں ذکر ہوا ہے لیکن قرآن میں ان نمازوں کے طریقے، تفصیلات اور افعال کا ذکر نہیں ہوا ہے جو مسلمانوں میں رائج ہے۔ ان نمازوں کی تفصیلات،  طریقے اور دیگر اعمال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام نے اپنی حدیثوں کے ذریعہ بیان فرمائی ہیں۔

حتی کی نماز آیات کا ذکر بھی  قرآن میں نہیں ہوا ہے لیکن اس نماز کی وجوب پر تمام مسلماں متفق ہیں کیونکہ اس کا وجوب احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

وجوب خمس کا مسئلہ بھی  یہی ہے خاص طور پر "مال غنیمت" یہاں تمام علماء شیعہ متفق ہے کہ ہر طرح کی آمدنی اور نفع پر  مخصوص شرائط کے ساتھ خمس ادا کرنا واجب ہے۔

اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت روایات نقل ہوئی ہے کی جس کے مطابق ہر وہ آمدنی جو سالانہ اخراجات سے بچ جائے اور ضرورت میں استعمال نہ ہو اس پر خمس واجب ہے۔

 حكيم مؤذّن بني عيس امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ جب میں نےاس آیت مبارکہ  کی تلاوت کی:(وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ) تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم اس سے مراد روزانہ کے منافع ہیں جو  انسان حاصل کرتا ہے۔

 اسی طرح موثقہ سماعہ میں ہے کہ جب ابا الحسن  علیہ السلام  سے خمس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا " جو آمدنی انسان کو حاصل ہو چاہے وہ کم ہو یا زیادہ اس پر خمس ہے۔

محمد بن حسن اشعری سے روایت ہے، کہ ہمارے  کچھ اصحاب نے ابوجعفر ثانی (امام محمد تقی )علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا کہ جس میں استدعا کی کہ ہمیں  بتائیے  کہ انسان جو کچھ  چھوٹی بڑی منفعت کماتا ہے  اور ہر قسم کے ذریعہ معاش سے کماتا ہے، جائیداد کی امدنی بھی ہے۔ تو آیا خمس سب پر واجب ہے؟ اور کس طرح ہے؟  تو آپ علیہ السلام نے اپنے دستخط سے لکھا کہ خمس اخراجات کے بعد ہے۔ 

اسی طرح علی بن مہز یار کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو علی بن راشد نے کہا کہ میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپکے فرمان پر عمل کروں اور آپ کا حق لوگوں سے حاصل کروں ۔ جب یہ خبر میں نے آپکے موالیوں کو دی تو ان میں سے بعض نے سوال کیا کہ ان کا ہم پر کون سا حق ہے ؟ چونکہ مجھے معلوم نہیں تھا لہذا میں انکا جواب نہیں دے سکا تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ان پر خمس واجب ہے۔ میں نے سوال کیا، کس چیز میں ؟ فقال فی امتعتھم و اضیاعھم'' انکے ساز و سامان میں'' پھر میں نے عرض کیا کہ تاجر اور کاریگر کیا کریں ؟ تو فرمایا: ان کے لئے سالانہ خرچ کے بعد جو بچے اس میں خمس ہے۔

شیخ طوسی علیہ الرحمہ باسناد عبد اللہ بن سنان سے اور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور فرمایا: ہر اس شخص پر جسے مال غنیمت ملے یا جو کسب سے مال حاصل کرے  اس پر خمس لازم ہے۔ یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کی ذریت میں سے ان آئمہ اہل بیت علیھم السلام کا حق ہے جو لوگوں پر خدا کی حجت ہیں ۔ یہ ان کا خصوصی مال ہے۔ وہ جہاں چاہیں اسے صرف فرمائیں اور ان پر صدقہ حرام ہے۔ حتی کہ اگر درزی پانچ دانق میں کوئی کپڑا سیتا ہےتو اس میں سے ایک دانق ہمارا حق ہے۔ مگر یہ کہ ہم جسے چاہیں اس کے لئے حلال کردیں یعنی اپنے چاہنے والوں کو تاکہ ان کی ولادت پاکیذہ ہو۔ قیامت کے دن خدا کے نزدیک زنا سے بڑھ کر کوئی سنگین گناہ نہیں ہوگا جبکہ خمس کا ایک حق دار کھڑا ہوکر کہے گا: اے اللہ ان (خمس کھانے والوں) سے پوچھ کہ انہوں نے کس طرح اسے مباح سمجھاتھا۔

فعال ثقافتی اور میڈیا کارکن رضا ایروانی نے سید حسن نصر اللہ کی تشییع جنازہ کی مناسبت سے ایک نوٹ میں لکھا کہ جب اسرائیل نے حزب اللہ کو غزہ کے مسئلے میں مداخلت نہ کرنے کا الٹی میٹم دیا تو اسی خاص تاریخی لمحے میں سید حسن نصر اللہ نے تنظیم پر ہدف کو ترجیح دی۔

انہوں نے مزید لکھا کہ فلسطین تنہا رہ گیا، اسی زیتون کے باغوں اور بے گھر خیموں کے مکینوں کے درمیان،لیکن مزاحمت اور فلسطین مرے نہیں، یہاں تک کہ طوفان الاقصیٰ تک پہنچ گئے۔ ایسا آپریشن جو فلسطین میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا۔

اس تمام خون اور آگ کی جنگ کے درمیان ایک شخص سب سے مختلف تھا بلکہ یہ پوری تاریخ سے مختلف تھا وہ ایک شخص سید حسن نصر اللہ تھے۔ اس شخص نے تنظیمی مفادات ہی نہیں، اپنی جان بھی میدان کارزار میں رکھ دی۔ یعنی نہ صرف یہ کہا کہ میں حزب اللہ کو قربان کروں گا، بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک ہم یہاں ہیں، فلسطین کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

 انہوں نے تنہا کھڑے ہوکر کہا کہ شیعیان علی ع اس دنیا کے تمام اندازوں اور تجزیوں سے ماورا ہیں اور وہ اپنے سنی بھائیوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، اس عظیم رہنما اور سید مقاومت نے مظلوں کی حمایت کی راہ میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا اور وہ یوں تاریخ مزاحمت میں امر ہو گئے۔

سید حسن نصراللہ تاریخ کی ایک ایسی شخصیت اور کردار کا نام ہے، جس کے بارے میں دوست اور دشمن دونوں ہی معترف ہیں کہ انہوں نے دنیا کے حالات پر اپنا ایک خاص نقش چھوڑا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، اس وقت تک انہوں نے دو ایسی نسلوں کی تربیت کی ہے، جو ان کے راستے کو جاری رکھے گی اور اسی طرح اب ان کی شہادت کے بعد بھی دوستوں اور دشمنوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ آنے والی کئی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ جو کہ لبنان کے علاقہ برج حمود میں ایک شیعہ گھرانے میں سنہ1960ء میں 31 اگست کو پیدا ہوئے اور جب آپ شہید ہوئے تو دنیا آپ کو لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ کی حیثیت سے جانتی تھی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح سید حسن نصراللہ دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان شہرت اور عزت کا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، اسی طرح دشمن بھی ان کی ان صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔

صیہونی حکومت اور صیہونی میڈیا نے ہمیشہ سید حسن نصراللہ کو ایک ایسا انسان بیان کیا ہے کہ جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا، یعنی سچ کے سوا بولتا ہی نہیں ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ جب پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار و مشرکین مکہ سے پوچھتے تھے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے دوسری طرف سے ایک لشکر آ رہا ہے، جو تم لوگوں کو ختم کر دے گا تو کیا تم یقین کرو گے۔؟ کفار و مشرکین مکہ ہم زبان ہو کر کہتے تھے کہ آپ صادق ہیں، آپ سچ کے سوا بولتے ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ کی ذات بھی دشمنوں اور صیہونیوں کے لئے ایک ایسی ذات ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے سید حسن نصراللہ کے کردار کو اجاگر کرنا انتہائی اہم معاملہ ہے۔ لبنان میں 31 اگست سنہ1960ء کو آنکھ کھولنے والی سید حسن نصراللہ کی شخصیت اور ان کے مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کی جانے والی انتھک جدوجہد کے بارے میں بیان کرنے یا تحریر کرنے کے لئے اتنا کچھ مواد ہے کہ شاید راقم کے قلم میں اس قدر سکت نہ ہو۔

سید حسن نصراللہ صدی کی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے موجودہ زمانہ میں ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کے بارے میں قیامت تک آنے والی نسلیں مطالعہ کریں گی اور اس تاریخ سے سبق بھی حاصل کریں گی۔ حسن نصراللہ نے جس زمانے میں لبنان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا، جب ہر طرف ظلم کا دور تھا۔ جس وقت حسن نصراللہ جوانی کو پہنچے تھے، اس وقت تک لبنان کئی ایک داخلی جنگوں کے بعد آخرکار صہیونی غاصبانہ تسلط کا شکار ہوچکا تھا۔ سید حسن نصراللہ کہ جن کا تعلق ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا، ہرگز اس بات کو قبول نہ کرسکے کہ لبنان کی آزادی پر کوئی حرج آئے۔ حسن نصراللہ ابتدائی ایام میں لبنانی جوانوں کی متحرک تحریک امل میں شامل رہے اور امام موسیٰ صدر کی قیادت میں لبنان میں صیہونی دشمن کے قبضہ کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی طرح جب سنہ 1982ء میں باقاعدہ حزب اللہ قائم کی گئی تو سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کر لی۔

سید حسن نصراللہ کے مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق کردار کو بیان کرنے کے لئے یوں تو بہت سے پہلو ہیں اور بہت ساری خدمات ہیں، لیکن اس مقالہ میں راقم مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں میں سید حسن نصراللہ کے کردار اور کوشش کا ذکر کرے گا اور اسی ذکر میں ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سید حسن نصراللہ نے کس قدر مسلم امہ کے اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جان بھی فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر قربان کر دی۔ سید حسن نصراللہ نے مسلم امہ کے اتحاد کو بچانے اور پائیدار بنانے کے لئے فلسطینی مظلوم عوام کی طرف پھینکے گئے ان سارے تیروں اور گولوں کو اپنے جسم پر سہہ لیا کہ جو معصوم اور مظلوم فلسطینی بچوں اور خواتین کو قتل کرنا چاہتے تھے۔

اگر یہ کہا جائے کہ سید حسن نصراللہ کی فلسطینی عوام کی خاطر قربانی ان کے مسلم امہ کے مابین اتحاد کی ایک بے نظیر قربانی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج سید حسن نصراللہ کی مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق کوشش اور کردار کو سمجھنا ہو تو ہم حماس کے رہنماء اسامہ حمدان کے ان حالیہ بیانات کو دیکھ سکتے ہیں، جن میں انہوں نے سید حسن نصراللہ کو مسلم امہ کا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سید حسن نصراللہ کی جدوجہد و کوشش اور فلسطینی عوام کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو سنہرے الفاظ سے تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ یہ کلمات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ مسلم امہ کے باہمی اتحاد کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر چلے، لیکن یہ برداشت نہیں کیا کہ فلسطین پر ہونے والے ظلم اور جارحیت پر خاموشی اختیار کئے رکھیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے اس سے بڑی شاید ہی کوئی اور مثال ہمیں ملے گی۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے، جو پوری امت مسلمہ کے لئے متفقہ مسئلہ ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کے ذریعے مسلم امہ کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے چاہے کس قدر اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بات قبلہ اول بیت المقدس کی آتی ہے تو سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے بھی القدس کی آزادی کے راستے میں عملی جدوجہد کی اور یہاں تک کہ اپنی جان قربان کرکے ثابت کیا کہ مسلمان ایک ہیں اور قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک زبان اور ایک جان ہیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے حسن نصراللہ کا کردار اس طرح بھی عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ فلسطین کاز کے لئے صف اول میں کھڑے رہ کر غاصب صیہونی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے۔ چاہے لبنان پر صیہونی جارحیت ہو یا فلسطین کے کسی علاقہ میں صیہونی جارحیت ہو، سید حسن نصراللہ ہمیشہ اپنی زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے راستے پر گامزن رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کا دفاع کیا ہے۔

لبنانی عوام کا دفاع کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم نے لبنان اور شام میں عیسائی گھروں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو سید حسن نصراللہ نے مسیحی عوام کو بھی ایک مسیحا کی طرح نجات عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج شام و لبنان اور فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی عوام بھی سید حسن نصراللہ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی شخصیت نے فلسطین کاز کے لئے سرگرم تحریکوں کو باہمی یکجہتی کے رشتہ میں جوڑنے میں اہم کردار کیا۔ انہوں نے سنہ 2006ء میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اور مسلم دنیا میں ان کو مزید عزت اور حمایت حاصل ہوئی۔ انہوں نے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں کو باہمی ارتباط کی لڑی میں پرو ہنے کا کام انجام دیا اور ایک ایسا رابطہ اور تعلق قائم کیا، جس میں وحدت اور یکجہتی قائم تھی۔

ان کی یہ تمام تر کوششیں اور جدوجہد وحدت اسلامی کا پیغام دیتی ہے، کیونکہ انہوں نے فلسطین جیسے اہم مسئلہ پر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا ادراک کروایا کہ ہم سب کے اتحاد او وحدت کے بغیر قبلہ اول آزاد نہیں ہوگا۔ یہ سید حسن نصراللہ ہیں کہ جنہوں نے اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے مسلم دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ القدس کی آزادی کی چابی مسلم امہ کے اتحاد میں ہے۔ سید حسن نصراللہ چونکہ لبنان کے ایک ایسے معاشرے میں موجود رہے کہ جہاں سنی، شیعہ، عیسائی، دروز اور اسی طرح مسلمانوں کے متعدد فرقوں پر مبنی سوسائٹی موجود ہے۔ ایسے معاشرے میں انہوں نے حزب اللہ کی 32 سال تک قیادت سنبھالی اور سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اپنی جان بھی فلسطین کاز کے لئے قربان کر دی۔

انہوں نے ہمیشہ اپنی تقریروں میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ لبنان میں اہلسنت اور اہل تشیع علماء کے مابین ہم آہنگی کے لئے تجمع العلماء نامی ادارے کی ہمیشہ حمایت جاری رکھی کہ جس نے ہمیشہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو فروغ دیا۔ سید حسن نصر اللہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ مسلم امہ کو داخلی انتشار اور اختلافات سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی، کیونکہ سید حسن نصراللہ اس بات پر مضبوطی سے یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں الجھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے متحد ہو کر مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ انہوں نے ہمیشہ اس اتحاد کو فلسطین کی آزادی کی کلید سے تشبیہ دی۔ سید حسن نصراللہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو قائم کرنے کے لئے مسئلہ فلسطین کو انتہائی نوعیت کی اہمیت دیتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری وحدت اور اتحاد کے بغیر انجام نہیں دی جا سکتی۔

سید حسن نصراللہ نے فلسطین کاز کی حمایت صرف اس لئے انجام دی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ فلسطین کی حمایت کو کسی ایک فرقہ یا قوم و مسلک کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔ سید حسن نصراللہ نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو مسلمانوں کی طاقت قرار دیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مسلمان متحد ہو کر عالمی استعماری قوتوں کا مقابلہ کریں۔انہوں نے مسلم دنیا میں سامراجی نطام سے تسلط اور نجات کا واحد راستہ مسلمانوں کا اتحاد قرار دیا اور ہمیشہ اس کاز کے لئے سرگرم رہے۔ فلسطین کاز کے لئے سید حسن نصراللہ کی عملی جدوجہد ایسے ہی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سید حسن نصراللہ شہید ہوچکے ہیں، لیکن ان کے افکار پوری دنیا میں جگہ بنا چکے ہیں، آج دنیا بھر میں سید حسن نصراللہ کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ آج غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے اپنے گھروں میں سید حسن نصراللہ کی تصاویر لگا رکھی ہیں، جو سید حسن نصراللہ کی مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششوں کا ایک ثمر ہے۔

سید حسن نصراللہ کی زندگی بھر میں مسلمانوں کے اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششیں یقیناً قابل قدر ہیں۔ ایک اور اہم کوشش یہ ہے کہ انہوں نے فلسطین کی عسکری تنظیموں کی معاونت کی اور فلسطینی تنظیموں تک جدید ٹیکنالوجی اور عسکری مدد پہنچانے کو ہمیشہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا۔ ان کی یہ مدد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ فرقوں اور مسالک کی قید سے آزاد ایک بلند و بالا مقام کے انسان تھے کہ جن کی پوری زندگی مسلم امہ کی ترقی اور کامیابیوں کے لئے صرف ہوئی اور اسی لئے آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ کا مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کردار ایک بے مثال کردار ہے، جس کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی عملی جدوجہد اور اپنے کلمات سے مسلم امہ کے اندر یہ احساس بیدار کیا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتحاد کی راہ پر چل پڑیں تو مسلم دنیا اپنی کھوئی ہوئی حیثیت، عزت اور وقار کو دوبارہ حاصل کر لے گی۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی اس عملی جدوجہد سے اور شہادت کے عظیم رتبہ سے ثابت کیا ہے کہ مسلم امہ کے اتحاد اور خاص طور پر ہمارے مشترکہ مسئلہ فلسطین کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جا سکتا ہے اور انہوں نے خود اپنی جان کو قربان کرکے دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو سوگوار کیا ہے، لیکن اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سید حسن نصراللہ دنیا بھر کی باعزت اور حریت پسند اقوام کے درمیان ایک چمکتا ہوا ستارہ رہیں گے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرتے رہیں گے اور مسلم امہ کے اتحاد کے لئے جہاں ان کی زندگی میں کوشش جاری رہی، اب ان کی شہادت کے بعد آنے والی نسلوں کے ذریعے یہ مشن اور کاز جاری رہے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد آج اسلامی تعلیمات کے مطابق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد قرآنی تعلیمات کے مطابق دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مسلم دنیا کو آج فرقہ واریت، استعماری طاقتوں کی غنڈہ گردی، داخلی تنازعات اور دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے حالات میں سید حسن نصراللہ جیسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے اور اب چونکہ وہ شہید ہوچکے ہیں تو ان کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے سید حسن نصراللہ کے مشن اتحاد بین المسلمین کو زندہ رکھا جائے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم

امیر المومنین حضرت علیؑ کے زمانہ خلافت کا ملاحظہ کیا جائے تو آپ کا پورا زمانہ ہی جنگوں سے بھرا ہوا ہے۔آپ کے مختصر عہد حکومت میں تین بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ پہلی جنگ ناکثین کے ساتھ تھی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے،دوسری قاسطین کے ساتھ تھی جسے جنگ صفین کہا جاتا ہے جو لشکر شام کے ساتھ ہوئی اور تیسری جنگ مارقین یعنی خوارج کے ساتھ نہروان میں ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب حکومتیں جنگوں میں مشغول ہوتی ہیں تو عوامی آزادیوں پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔یہ حضرت امیر المومنینؑ ہیں جو ان جنگی حالات میں آج کے زمانے کی اصطلاح میں انسانی حقوق کے پہلے داعی بنے۔ یہ اتنے بڑے مسائل ہیں کہ ان میں سے کچھ کو حل کرنے کے لیےآج کا انسان بھی کوشاں ہے۔آج کی دنیا میں اسے بین الاقوامی قانون کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے مختلف اعلامیے اور چارٹر ہیں جیسے انسانی حقوق کا چارٹر،شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے وغیرہ کہا جاتا ہے ہم انسانی حقوق کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور دیکھیں گے کہ حضرت علیؑ نے کیسے اپنے دور حکومت میں یہ حقوق عام لوگوں کو فراہم کیے:

برابری اور مساوات

بین الاقوامی قانون کا مشاہدہ کیا جائے تو انسانوں کے درمیان مساوات اور برابری اس کی بنیاد ہے۔دنیا کا ہر انسان قانون کے سامنے برابر ہے،دنیا کے تمام انسانوں کو بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے برابری کا تحفظ حاصل ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا آرٹیکل ۷ اسی کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ "تمام لوگ قانون کے سامنے برابر ہیں، اور انہیں بلا امتیاز قانون کے تحفظ سے مستفید ہونے کا مساوی حق حاصل ہے۔ انہیں کسی بھی امتیازی سلوک سے تحفظ کا بھی مساوی حق حاصل ہے۔یہ قانون ہر اس رویے اور اشتعال کو بھی شامل ہے جس میں کوئی امتیازی سلوک پر ابھارے،  یہ بھی منع ہے۔"

اسلام نے انسانیت کو یہ برابری اور مساوات بہت پہلے دے دی تھی۔ایک دن امیر المومنینؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:اللہ کی حمد ہو اور اسی کی ثنا ہو،اے لوگو:آدمؑ نے کسی غلام اور لونڈی کو پیدا نہیں کیا،تمام کے تمام انسان آزاد ہیں۔ لیکن خدا نے تمہیں ایک دوسرے پر اختیار دیا ہے۔ جسے کوئی تکلیف پہنچے وہ اس پر اچھی طرح صبر کرے اور اللہ تعالی پر منت نہ چڑھائے۔آگاہ رہو جب کوئی مال آٹا ہے تو اس میں سب برابر کے شریک ہیں۔

مروان نے طلحہ اور زبیر سے کہا حضرت علیؑ نے اس فرمان سے تم دونوں کا ارادہ کیا ہے(یعنی یہ فرمان تم دونوں کے خلاف ہے)۔

حضرت امیر نے ان دونوں(طلحہ و زبیر) کو تین دینار دیے،ایک انصارکا آدمی آیا اسے بھی تین دینار دیے پھر ایک سیاہ غلام آیا اسے بھی تین دینار دیے۔اس انصاری نے کہا:اے امیر المومنینؑ یہ وہ غلام ہے، جسے میں نے کل شام کو آزاد کیا تھا آپ نے مجھے اور اسے برابر بنا دیا؟امام ؑ نے فرمایا:میں نے اللہ کی کتاب میں اسماعیلؑ کی اولاد کی اسحق کی اولاد پر کوئی فضیلت نہیں دیکھی۔(الكافي، ج ٨، ص٦٩)

آپ کا وہ خط بہت مشہور ہے جو آپ نے مصر کے گورنر مالک اشترؒ کے نام لکھا،اس میں آپ نے انہیں مصر کی تمام اقوام کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو اور خبردار ان کے حق میں سے کاٹ کے کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہوجانا کہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سمجھنے گوکہ مخلوقات خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں ،جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور انہیں خطاوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یا دھوکے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔لہذا انہیں ویسے ہی معاف کردینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگذر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تمہارا ولی الامر تم سے بالاتر ہے اور پروردگار تمہارے ولی سے بھی بالاتر ہے اور اس نے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اور اسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنا دیا ہے اور خبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پر نہ اتار دیناکہ تمھارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اور تم اس کے عضو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔  خبر دار کسی کو معاف کردینے پرنادم نہ ہونا اور کسی کو سزادے کراکڑ نہ جانا۔ غیط و غضب کے اظہار میں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو۔(موسوعة الإمام علي بن أبي طالب (ع) في الكتاب والسنة والتاريخ، محمد الريشهري، ج ٤، ص٢٣٤)

محمد ابن ابی بکر ؒ کے نام جب انہیں مصر کی حکومت سپرد کی تو یہ نامہ تحریر فرمایا:

لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا، تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے بڑے، کھلے ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔ (شرح نهج البلاغة، ابن أبي الحديد، ج ١٥، ص١٦٣)

جب مال کی تقسیم میں آپؑ کے برابری و مساوات کا اصول برتنے پر کچھ لوگ بگڑ اٹھے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:

کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم! جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے، میں اس چیز کے قریب بھی نہیں بھٹکوں گا۔ اگر یہ خود میرا مال ہوتا تب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا، چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے۔ (نفس المصدر، ج ٨، ص ١٠٩۔)

آزادی اظہار کا حق

امیر المومنین حضرت علیؑ نے اپنی حکومت میں ہر چیز کے بارے میں آزادی اظہار کا کھلا موقع دیا ۔آپ نے خود سے اختلاف کرنے اور آزادی رائے کا پورا پورا حق دیا۔خوارج بحث مباحثہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کا یہ عمل نماز میں بھی جاری رہتا تھا۔آپ ؑ نے اپنی عادلانہ حکومت میں یہ اصول بنایا تھا کہ جب بھی کوئی حق بات کرے اسے قبول کیا جائے۔ جب کوئی فیصلہ آئے تو اس میں عدل کیا جائے اگرچہ ایسا کرنا بظاہر مشکل ہی کیوں نا ہو۔ان دونوں پر عمل کرنا بہت مشکل ہے آپ کے فرمان میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے: مجھ  سے ایسے بات نہ کرو جیسے جابر بادشاہوں سے بات کرتے ہو، اور مجھ سے ایسے احتراز نہ کرو جیسے اہل بادرہ یعنی مغضوب الغصب لوگوں سے احتراز کرتے ہو، اور میرے ساتھ چاپلوسی کے ساتھ بھی نہ ملو،

امام علیؑ لوگوں کی طرف سے نصیحت اور مشورے کا استقبال کرتے تھے آپ نے فرمایا: تم کبھی نہ روکنا اپنے آپ کو کسی بھی بات میں حق کہنے سے یا کسی بھی مشورے میں عدل سے ،بے شک میں اپنے آپ کو خطاء سے بےخوف نہیں سمجھتا اور نہ ہی اپنے عمل کے اندر خطا کے حوالے سے میں بےخوف ہوں، ہاں یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچا لے جو میری جان پر میرے سے زیادہ قدرت رکھتا ہے ،یقینا میں اور تم سب بندے مملوک ہیں اس رب کے جس کے علاوہ کوئی رب نہیں،وہ ہم پر اتنی قدرت رکھتا ہے جتنی ہم اپنی جانوں پر قدرت نہیں رکھتے،اس نے ہمیں ان معاملات سے نکالا جن میں ہم سے پہلے مبتلا تھے اور ہمیں ان معاملات تک پہنچایا جن میں ہمارے لیے خیر ہے، پھر اس نے ہمیں گمراہی کے بعد ہدایت دی اور اندھیرے کے بعد بصیرت دی۔ (الكافي الجزء الثامن ص356 – 357, بحار الأنوار للمجلسي الجزء27 ص253۔)

اجتماع کا حق

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کا 2020 کا آرٹیکل نمر 37 کہتا ہے: "پرامن اجتماع کا بنیادی حق حاصل ہے، افراد کو اجتماعی طور پر اظہار خیال کرنے اور اپنے معاشرے کی تشکیل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔" شہری اور سیاسی  آزادیوں کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 21 کا پہلا جملہ کہتا ہے: "پرامن اجتماع کے حق کو تسلیم کیا جائے گا۔"

اسلام صدیوں پہلے اس حق کو تسلیم کرتا ہےامام علیؑ نے خوارج کو نہروان میں جمع ہونے کی آذادی دی،انہیں صرف مخالفت کی وجہ سے آنے جانے سے نہیں روکا۔اسی طرح طلحہ اور زبیر کو مدینہ سے مکہ جانے کی اجازت دی حالانکہ آپ جانتے تھے کہ یہ دونوں بیعت سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ابن ابی الحدید کہتا ہے:ہمارے شیخ ابو عثمان نے روایت کی ہے کہ جب طلحہ اور زبیر مکہ روانہ ہوئے ان دونوں نے لوگوں کو وہم میں رکھا کہ وہ عمرہ کی نیت سے جا رہے ہیں۔حضرت علیؑ نے اپنے اصحاب سے کہا خدا کی قسم یہ عمرہ کا ارادہ نہیں رکھتے یہ غدر کا ارادہ رکھتے ہیں۔) شرح نهج البلاغة،ج11، ص17(

اس سے بڑھ کر یہ کہ حضرت علیؑ نے کبھی بھی کسی کو اپنی طرف سے لڑنے پر مجبور نہیں کیا۔۔لوگ خود سے جہاد میں شریک ہوتے تھے۔

حق ملکیت اور اسمیں تصرف درست نہیں

اس حق کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں منظور کیا گیا جبکہ امام علی علیہ السلام نے اس سے بہت پہلے اپنے فوجی کمانڈروں کو جنگ کے دوران لوگوں کی املاک پر قبضے سے روکا،یہ ملکیت غیر مسلم ہی کی کیوں نہ ہو، انہیں حکم دیا:آپ نے مقامی شہروں کے رہنے والوں کو اپنے لشکر پر فوقیت دیں۔آپ نے اپنے لشکر کو کنووں سے پانی لینے پر بھی مقامی لوگوں کو مقدم قرار دیا۔آپ نے جاریہ بن قدامہ سعدی کو وصیت فرمائی وہ آپ کے اس لشکر کے قائد تھے جسے آپ نے معاویہ کے لشکر سے لڑنے کے لیے بھیجا معاویہ کے لشکر کی قیادت بسر بن ارطاہ کر رہا تھا،جس نے عام انسانوں پر بہت مظالم کیے اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔آپ نے وصیت میں فرمایا:اے جاریہ میں تجھے اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں۔یہ بھلائی کی بنیاد ہے، اللہ کی مدد کا راز ہے،تم اس دشمن سے لڑو جس کی طرف تمہیں حکم دیا گیا ہے اور اسی سے لڑو جو تم سے لڑے۔زخمی آدمی کو قتل نہ کرو،کسی کے جانور کو اپنے استعمال میں نہ لاو اگرچہ تم اور تمہارےساتھی پیدل چل رہے ہوں۔پانی کے مالکوں سے ان کا پانی ضبط نہ کرو،وہ استعمال کر لیں جو بچ جائے اسے اچھے طریقے سے استعمال کرو۔کسی مسلمان مرد اور عورت کی توہین مت کرو۔کوئی ایسا کام نہ کروجو ادب کے خلاف ہو۔کسی بھی غیر مسلم معاہد مرد اور عورت پر ظلم نہ کرو۔ (نهج السعادة، ج ٨، ص٣٦٧۔)

امیر المومنین ؑ کی اسی انصاف پسندی کی وجہ سے 2002 میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی، جو کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے انسانی حقوق، ماحولیات، زندگی اور تعلیم کی بہتری کے لیے تیار کی تھی۔اس میں امام علی علیہ السلام کو عالمی برادری نے ایک رول ماڈل قرار دیا۔اس رپورٹ میں امام علیؑ کو سماجی اور انسانی انصاف کے لیے ایک مثالی شخصیت کے طوپر پیش کیا گیا۔اس رپورت میں نہج البلاغہ سے امیر المومنینؑ کے ارشادات سے اقتباسات شامل ہیں۔ان میں وہ فرامین شامل ہیں جو آپ نے احکامات کی صورت میں اپنے عہدیداروں،کمانڈروں اور لشکریوں کو دیے تھے۔اس رپورٹ میں حضرت علیؑ کے احکامات کو انصاف پھیلانے والے،علم کی رویج کرنے والے اور انسانی حقوق کے لیے باعث فخر قرار دیا۔

شیخ مقداد  الربیعی: محقق و استاد حوزہ  علمیہ