سلیمانی

سلیمانی

کچھ عرصہ پہلے ایرانی وزیر خارجہ کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، وہ بتا رہے تھے کہ ایران عراق جنگ کے دوران میں اقوام متحدہ میں ایران کا سفیر تھا، میں ہر اس ملک کے پاس گیا، جہاں سے کچھ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ مجھے ایرانی عوام کے تحفظ کے لیے کچھ میزائل دے دے گا، مگر کہیں سے بھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور ہر طرف سے مایوسی ہوئی۔ دوسری طرف پوری دنیا کی اسلحہ ساز فیکٹریاں صدام کو اسلحہ فراہم کر رہی تھیں اور عرب سرمائے سے اسلحہ ایران کے خلاف استعمال کیا جا رہا تھا۔ واقعاً یہ ایک بے بسی کی سی صورتحال ہوتی ہے، جس سے انقلابی حکومت اپنی حکمت اور ایرانی عوام کے جذبہ دفاع وطن سے ہی نکلی اور دشمن ناکام ہوا۔ اس وقت امریکہ اور مغرب نے مختلف الزامات لگا کر ایران پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں کہ کوئی بھی ریاست ایران کو اسلحہ نہیں بیچ سکتی۔ جنگ ختم ہوئی اور ایرانی ریاست نے ہر میدان کے ساتھ اسلحہ میں خود انحصاری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے بڑی تعداد میں جامعات میں تحقیقی شعبے قائم کیے گئے اور الگ سے ادارے کھڑے کیے گئے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب شروع شروع میں ایرانی ڈرونز کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو بہت سے لوگوں نے انہیں فوٹو شاپ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایران جیسا پابندیوں کا شکار ملک ایسی جدید ترین مشین کو خود سے بنا سکے، کیونکہ اس میں کئی جدید سسٹمز بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی آنکھیں اس وقت کھلی کی کھلی رہ گئیں، جب ایران نے امریکہ کا براڈ ایریا میری ٹائم سرویلینس (BAMS-D) ڈرون گرا دیا تھا۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے تک کی دھمکی دی تھی، جو بعد میں خود ہی واپس لے لی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت تھی، جس نے تبدیل ہوتی سکیورٹی صورتحال میں ایران کے وزن کو کافی بڑھا دیا۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک اس طرف متوجہ ہوئے کہ ایران ٹیکنالوجی اور بالخصوص ڈرون ٹیکنالوجی میں کافی آگے جا چکا ہے۔

ابھی مغربی میڈیا خوب پروپیگنڈا مہم پر ہے کہ یوکرین جنگ میں گیم چینجز ثابت ہوتے ڈرونز جو کیف میں پہنچ کر پھٹ رہے ہیں، وہ ایران دے رہا ہے بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ وہ ایران کے مشہور ڈرونز شاہد ہیں۔ یورپ نے روس کے خلاف یوکرین میں جنگ چھیڑ رکھی ہے اور بڑے پیمانے پر لڑائی جاری ہے۔ اس کا شکار یوکرین کے نہتے عوام ہیں، جو بین الاقوامی استعمار کی اجارہ داری کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یوکرین کو امریکہ اور پورا یورپ بڑی تعداد میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے، وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ امریکہ اور مغربی میڈیا نے یہ پرپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہ ایرانی ڈرونز ہیں۔ ایران نے آفیشلی اس بات کی تردید کی اور کہا کہ اس کے ڈرونز کیف حملے میں استعمال نہیں ہو رہے، پھر بھی پروپیگنڈا جاری رہا کہ بڑی تعداد میں ایران روس کو ڈرونز برآمد کر رہا ہے۔

یورپی یونین کے ممالک نے پہلے انفرادی طور پر اور پھر اجتماعی طور پر ایرانی ڈرونز کی فراہمی پر تنقیدی بیانات دینے شروع کر دیئے اور ابھی یورپی یونین نے کچھ ایرانی کمپنیوں اور شخصیات پر پابندی کی بھی بات کی ہے۔ امریکہ تو خیر اس محاذ میں آگے تھا، اس نے پہلے ڈرونز کی بات تسلسل سے کی اور پھر یہ بیان داغ دیا کہ ایرانی ماہرین بھی کریمیا میں موجود ہیں، جو ان ڈرونز کو اڑانے میں معاونت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پروپیگنڈا ٹیمز حرکت میں آئیں اور ایرانی ماہرین کی حملے مین اموات کا واویلا شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ ایک قدم آگے بڑھا اور کہا "ایران ڈرون سسٹموں کے ساتھ یوکرین کو ہدف بنا رہا ہے: امریکہ وزارت دفاع" یعنی بڑی حکمت عملی سے ایران کو جنگ میں ڈرونز فراہم کرنے سے شروع  ہونے والے پروپیگنڈے کو ایران کو جنگ میں شریک ملک تک لے  آیا۔

اب یورپ کیونکہ اس جنگ کے حقوق اپنے نام کرچکا ہے تو جو اس جنگ میں روس کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک ہو، یورپ اس کے خلاف ہوگا۔ اس طرح پہلے یورپین سے کچھ پابندیاں لگوائیں اور اب برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرح سے اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ ایرانی ڈرونز روس میں استعمال ہوئے ہیں اور اسے 2015ء کے ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے کر ایران کے خلاف مزید کارروائیوں کا مطالبہ کیا جا سکے۔ اگر اس پوری صورتحال کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نیٹو اور اس کے اتحادی ایران پر پابندیاں عائد کرتے تھے کہ وہ کسی سے اسلحہ نہ خرید سکے، اب صورتحال اس سے بہت آگے جا چکی ہے۔ اب معاملہ برعکس ہوچکا ہے۔ ایران ایک فوجی طاقت بن چکا ہے، جو دنیا کی بڑی طاقتوں کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے مل کر دنیا کی اسلحہ کی مارکیٹ پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اور طاقت جو مغربیت کے خلاف بھی ہے، وہ اس میدان میں آئے۔

امریکہ اور یورپ صرف اسلحہ فروخت نہیں کرتے، اسے کنٹرول بھی کرتے ہیں۔ ہم نے پیسے دے کر ایف سولہ طیارے لے رکھے ہیں، مگر ہم انہیں انڈیا کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے تو کیا ہم نے یہ اچار ڈالنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں؟ استعماری قوتیں آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہی ہیں۔ ایران کے ڈرونز تو انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور سول آبادیوں کو گراتے ہیں، بہت ہی برے ڈرونز ہیں۔ ہاں یہ یورپ اور امریکہ کا بنایا اسلحہ تو عراق، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پھول برساتا رہا، جہاں ایک ایک واقعہ میں دو دو سو  قرآن حفظ کرتے ہوئے بچوں کو شہید کیا گیا۔ ویسے کوئی ایران کو اسلحہ نہ بیچے سے ایران اسلحہ نہ بیچے تک پہنچانے میں امریکی اور مغربی پابندیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

سحر نیوز/ دنیا: فرانس میں اسکول کے کیفے ٹیریاز میں مسلم طلبا کو حلال کھانے کا آپشن نہیں دیا جا رہا ہے۔ مسلم طلبا کو اسکول میں تمام وقت بھوکا رہنا پڑتا ہے جس پر والدین کافی پریشان ہیں اور عدالت سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔

فرانس کا دعویٰ ہے کہ اسکولوں میں کھانے کے مینیوز اور لباس سیکولرز اصولوں پر مبنی ہیں تاہم عدالتی فیصلے میں پایا گیا کہ متبادل مینو کے انتخاب کی پیشکش سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی نہیں۔

عدالتی فیصلے کے باوجود کئی اسکولوں میں متبادل مینو نہیں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2016 سے صرف ایک مینیو ہی پیش کیا جا رہا ہے جسے جاری رکھا جا رہا ہے تاہم مسلم اور یہودی والدین نے علاقائی انتظامیہ کو خطوط لکھے جس پر کچھ میئرز نے ماحولیاتی خدشات کے باعث خصوصی طور پر سبزی خور مینو تجویز کیا جس میں گوشت، مچھلی، یا سبزی خور شامل ہیں جس پر 94 فیصد والدین نے مچھلی یا بیف/چکن کے مینو کا انتخاب کیا تاہم شدت پسند میئرز نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل سیکولر ازم کی مخالفت ہوگی۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبد اللہیان نے اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے ایک ٹیلیفونک رابطے کے دوران بات چیت اور تبادلہ خیال کیا۔ 

دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اس گفتگو میں بعض دوطرفہ امور اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ 

شام کے وزیر خارجہ فاضل مقداد نے انسانی حقوق کی حمایت کے بہانے شام میں بیرونی مداخلتوں کے تلخ نتائج اور صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی سازشوں اور شامی حکومت اور عوام کے خلاف بحران پیدا کرنے کے ناکام تجربے کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران سمیت آزاد ممالک کے خلاف بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب ایک تباہ حال اور وابستہ ﴿غیر مستقل﴾ ایران چاہتے ہیں، نہ کہ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور خودمختار ایران۔ سب نے دیکھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام، عراق اور افغانستان کے ساتھ کیا کیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے بھی عالم اسلام کے مسائل اور خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور مقاومت کے محاذ، شامی عوام اور حکومت کی حمایت کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی اور منطقی موقف کا اعادہ کیا۔ 

انہوں نے کہاکہ سیاسی اور پروپیگنڈے کا دباؤ ایرانی قوم اور حکومت کے عزت، خومختاری اور ترقی کے راستے پر پختہ ارادے میں خلل پیدا نہیں کرسکے گا اور انہیں خطے کے ممالک کی سلامتی اور استحکام کی حمایت، غیر ملکی قوتوں کی مداخلت اور غاصب صہیونی حکومت کی جارحیت کی مخالفت کے عزم سے نہیں روک سکے گا اور ایرانی قوم ہوشیاری سے دشمنوں کی سازش کو ناکام بنائے گی۔ 

دونوں وزرائے خارجہ نے دوطرفہ تعلقات اور خاص طور پر اقتصادی اور تجارتی حوالے سے روابط کے فروغ پر زور دیا۔ 

العہد ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کا یہ مارچ جبالیا کیمپ کی مساجد سے شروع ہوا جس میں شریک ہزاروں فلسطینیوں نے ایسے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر فلسطینی مجاہدین سے یکجہتی کے علاوہ فلسطینی شہدا کی قدردانی میں نعرے لکھے ہوئے تھے۔

فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے ایک رہنما سہیل الہندی نے شہید التمیمی کی شجاعت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس شہید نے غاصب صیہونی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہوئے بیت المقدس اور مسجد الاقصی کی حمایت میں جاری تحریک مزاحمت کی جدوجہد کو جرات کے ساتھ آگے بڑھانے کا پیغام دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ شہید التمیمی شعفاط کیمپ اور غرب اردن کے مجاہد جوانوں کے لئے ایک مثال ثابت ہوں گے اور جنین و نابلس سمیت تمام شہروں کے مجاہدین شہید التمیمی او تمام دیگر شہدا سے عہد و پیمان باندھتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں جارح صیہونیوں کو نشانہ بنائیں گے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے بدھ کے روز شعفاط کارروائی کے مجاہد عدی التمیمی کو کہ جن کی کارروائی کے نتیجے میں ایک صیہونی فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہو ا تھا، ایک اور کارروائی کے دوران جارحیت کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کی صبح علمی و سائنسی میدانوں سے تعلق رکھنے والے ملک کے سیکڑوں جینیئس اور ممتاز صلاحیتوں کے حامل افراد سے ملاقات کی۔
     

اس ملاقات میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان پروپیگنڈوں کا حوالہ دیا جن میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک اسلامی جمہوریہ کے عنقریب زوال کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں، آپ نے کہا: وہ لوگ اپنے اس دعوے میں ڈیڈ لائن بھی طے کر دیتے تھے اور ہر بار کہتے تھے کہ ایک مہینے بعد، ایک سال بعد یا پانچ سال بعد اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک کے اندر بھی کچھ لوگ غفلت میں یا بد نیتی کی وجہ سے ان دعووں کا پرچار کرتے تھے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں کچھ بے بنیاد تجزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پچھلے تینتالیس برس میں بارہا اسلامی جمہوریہ ایران کا شیرازہ بکھرنے کی باتیں کی گئي ہیں لیکن انقلاب کی پائيداری اور اس کی پیشرفت کے تسلسل سے واضح ہو گيا کہ یہ تجزیہ غلط اور غیر حقیقی ہے۔

انھوں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگي میں ایک اخبار کی ایک سرخی کا ذکر کیا کہ "نظام بکھر رہا ہے" اور پھر امام خمینی کے اس دنداں شکن جواب کو یاد کیا کہ "تم خود بکھر رہے ہو جبکہ نظام پوری قوت اور مضبوطی سے کھڑا ہے" رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: سنہ انیس سو نواسی میں امام خمینی کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے، جن میں جانے مانے اور پرانے تجربہ کار لوگ بھی تھے، ایک بیان میں کہا تھا: "نظام، کھائي کے دہانے پر پہنچ گيا ہے۔"

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: ہم جھکے نہیں بلکہ ڈٹے رہے اور ان شاء اللہ اسی طرح ڈٹے رہیں گے۔

انھوں نے دو نظریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایک تجزئے میں کہا گیا کہ ہمہ گير عالمی قواعد اور ان سے نکلنے والی طاقتوں جیسے امریکا کے سامنے کام کرنا اور ڈٹ جانا فضول اور تباہی کا سبب ہے۔ اس نظریے کے لوگ، حقائق اور دنیا کے بارے میں کوئی دوسرا تجزیہ رکھنے والے افراد کو وہم میں مبتلا سمجھتے ہیں۔ دوسرا تجزیہ جو حقیقت پسندی پر مبنی ہے تاہم وہ وہ تمام حقائق کو اور وہ بھی صرف اچھے حقائق کو نہیں بلکہ برے حقائق کو بھی ایک ساتھ رکھ کر دیکھتا ہے اور اسی کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ملک کے جینیئس اور ممتاز علمی لیاقت والے افراد کو ملک کی ترقی و پیشرفت کے اہم ستون بتاتے ہوئے کہا: جوانوں خاص طور پر غیر معمولی صلاحیت والے جوانوں کی موجودگي ہر جگہ امید پیدا کر دیتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی جتنی دیر بند رہے گي اور علمی سرگرمیوں کو جتنا برباد اور کمزور کیا جائے گا، اتنا ہی دشمن کو فائدہ پہنچے گا اور اسی لیے انھوں نے آج اور  کل نہیں بلکہ مختلف موقعوں پر یونیورسٹیوں کو بند کرانے کی کوشش کی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی کو سامراج کے تسلط کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک بتایا اور کہا: دنیا کی منہ زور طاقتیں، دوسروں پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اقوام کو پیچھے رکھنے کے لیے ہتھیار، فریب یہاں تک کہ علم و سائنس کو بھی استعمال کرتی ہیں بنابریں وہ یونیورسٹی جو علم کی سطح کو اوپر لے جاتی ہے، حقیقت میں دشمن کے تسلط کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں نے ملک کو مغرب کا محتاج نہیں ہونے دیا، آپ کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹیوں کے جینیئس افراد، بلا مبالغہ ایران کی عزت و سربلندی کا سبب ہیں اور ہمارے سائنسداں اور دانشور جس میدان میں بھی داخل ہوئے، انھوں نے دنیا کے علمی و سائنسی حلقوں کو انگشت بدنداں ہونے اور تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ ذہین انسان، جنھوں نے اپنے علم اور اپنی صلاحیت کو ایٹمی ہتھیار، کیمیاوی ہتھیار یا جاسوسی کے آلات بنانے میں استعمال کیا، جینیئس نہیں ہیں بلکہ جینیئس وہ باصلاحیت اور محنتی انسان ہے جس نے ہدایت الہی سے کسب فیض کیا ہو۔

انھوں نے ملک کے جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد کے کچھ کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے اسٹیم سیلز اور زندہ جانور کی کلوننگ جیسے میدانوں میں رویان تحقیقاتی مرکز کے کارناموں، بایو کیمیکل، خلا میں سیٹیلائٹ بھیجنے، ایٹمی صنعت کے اہم کارناموں، کوویڈ کی ویکسین سمیت پیچیدہ ویکسینز بنانے اور میزائیل اور ڈرون کی صنعتوں میں زبردست پیشرفت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: کچھ سال پہلے جب میزائیل اور ڈرون کی صنعت میں ایران کے پیشرفتہ آلات کی تصویریں شائع ہوئيں تو وہ (دشمن) کہتے تھے کہ یہ فوٹو شاپ (کا کمال) ہے اور اب وہ کہتے ہیں کہ ایرانی ڈرون بہت خطرناک ہیں، آپ کیوں فلاں کو بیچ رہے ہیں، فلاں کو دے رہے ہیں؟!

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح کہا: بعض لوگ تو ایران کی عظیم توانائيوں اور صلاحیتوں کا ہی انکار کر دیتے ہیں اور ایٹمی صنعت جیسے میدانوں کو بند کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور دروغگوئی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں: "آج دنیا، ایٹمی توانائي اور ایٹمی صنعت سے منہ موڑ چکی ہے۔" اگر ہم نے ایٹمی صنعت کو اس وقت شروع نہیں کیا ہوتا، جب ہم نے شروع کیا تھا تو ہم دس سال بعد اس میدان میں داخل ہوتے اور تیس سال بعد نتیجہ حاصل کرتے۔

انھوں نے 'دشمن سے غفلت' کو جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو لاحق خطروں میں سے ایک بتایا اور کہا: ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر انٹیلی جنس ایجنسیاں، ان افراد کو فریب دینے، انھیں اپنے ساتھ ملانے یا ان کا ذہن خراب کرنے کے لیے، علمی و سائنسی مراکز کی آڑ میں انھیں دعوت دیتی ہیں اور خود کو بہت باادب اور بہت ذہین ظاہر کرتی ہیں تاکہ اپنی سازش کو کامیاب بنا سکیں۔

اس ملاقات کی ابتدا میں، ملک کے سات جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد اور اسی طرح شعبۂ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایکٹنگ وائس پریسیڈنٹ ڈاکٹر دہقانی فیروزآبادی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

 

سنندج کے امام جمعہ نے کہا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن دنیا کا سب سے بہتر تہذیب و تمدن ہے۔ 

سینتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے ویبنیار سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر سنندج کے امام جمعہ ماموستا فائق رستمی نے کہا ہے کہ اسلام احترام مواسات کا دین ہے نہ کہ قتل، جبر اور نسل پرستی کا۔ 

ہفتہ وحدت کی مناسبت سے منعقدہ سینتیسویں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے مامسوتا فائق رستمی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکے فرزند ارجمند حضرت امام جفعر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت اور ہفتہ وحدت کی مبارک باد پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس حدیث شریف میں  « لو أن أهلَ السماءِ وأهل الأرضِ اشتَرَكُوا في دمِ مُؤْمِنٍ لأكَبَّهُم اللهُ في النَّارِ انسانیت کی کتنی زیادہ اۃمیت کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک مومن کے قتل ہونے پر خدا عذاب نازل کرتا ہے۔ 

ماموستا فائق رستمی نے حدیث شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ « لو أن أهلَ السماءِ وأهل الأرضِ اشتَرَكُوا في دمِ مُؤْمِنٍ لأكَبَّهُم اللهُ في النَّارِ کا معنی یہ ہے کہ۰ اگر کافر ذمی بھی اسلامی حکومت میں زندگی گذار رہا ہے تو اگر خدا نخواستہ مقابلہ ہوجائے اور وہ تنقید کرنے لگے تو خداوند متعال اسے بھی عذاب میں مبتلا کرے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم سب ایک ہی مذہب یعنی اسلام سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا مکتب ایک ہے چونکہ اسلام عدالت کا دین ہے۔ اسلام میں مسلمان ایک دوسرے سے نزاع نہیں کرتے بلکہ برادرانہ طور پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ہمیں فرقوں کے مابین اختلافات کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے نزدیک آنا ہوگا۔ 

ماموستا فائق نے مزید کہا کہ اسلامی تمدن وہ تمدن ہے جس کا پوری بشریت احترام کرتی ہے۔ بعض افراد اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ اسلام سے بہتر تمدن کے حامل ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ دین مبین اسلام ان تمام تر تمدنوں میں سب سے زیادہ بہتر اور اساسی خصوصیات کا حامل تمدن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم قرآن کریم، قبلہ، محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، انکے اہل بیت اور اصحاب کریم کی محبت، اور انسانیت کی قدر جیسے موضوعات اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو ہم اپنے دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلیں گے۔

.taghribnews.

مقبوضہ بیت المقدس : فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کی رابطہ کار نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ 16 برسوں کے دوران 2022 فلسطینی علاقوں میں سب سے خونریز سال تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کی رابطہ کار لوسیا ایلمی نے پرتشدد کارروائیوں میں اضافے اور مشرقی قدس سمیت غرب الاردن میں عائد کرفیو پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 میں 26 بچوں سمیت کم از کم 105 فلسطینی، اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے، اس لیے 2006 کے بعد 2022 خونریز ترین سال ہے۔ رواں سال مغربی کنارے میں ہلاک صیہونیوں یا غیر ملکیوں کی تعداد 17 ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صرف اس سال اکتوبر کے آغاز سے ہی مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں صیہونی افواج کے ہاتھوں 6 بچوں سمیت 15 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ شہید ہونے والے افراد کوئی خاص خطرہ تھے۔ لوسیا ایلمی نے صیہونی حکومت کی جانب سے شعفاط، مشرقی بیت المقدس اور نابلس میں کرفیو کے نفاذ کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ان اقدامات نے بہت سے لوگوں کی تعلیم، صحت اور روزی روٹی تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔

تہران: ولی امرالمسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےکہا ہےکہ یونیورسٹیاں استکباری طاقتوں کے تسلط کے خلاف عظیم قلعہ ہیں۔ غیر معمولی علمی صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کے ایک گروپ سےخطاب میں ولی امرمسلمین نے اشرافیہ کو دشمن کی سازشوں سےچوکنا رہنے پر زوردیا۔ انہوں نےکہا کہ یونیورسٹی تسلط کو روکتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اگرآپ ملک میں سائنس کوفروغ دے رہے ہیں توآپ نے دشمن کے تسلط کےخلاف ایک رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔ انہوں نے کہاکہ باصلاحیت افراد ملک کے اہم ترین انسانی اثاثوں میں سے ہیں۔ واقعی آپ نوجوانوں کی موجودگی، خاص طور پر آپ غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے نوجوان امید خلق کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں آپ کی موجودگی امید پیدا کرتی ہے۔ اس لیے جو لوگ ملک کی ترقی سے متفق نہیں ہیں وہ جہاں آپ کو موجود ہونا چاہیے وہاں آپ کی موجودگی سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1979 کے اسلامی انقلاب سے قبل بادشاہت کے دور میں نوجوان صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے پولینڈ کے صدر آنڈژی دوڈا سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کی جنگ میں شریک دونوں فریقین کے ساتھ ایران کے تاریخی اور ہمہ جہت تعلقات ہیں۔ انہوں نے ایران کے موقف کے بارے میں بعض غیر مستند دعووں کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ دعوے بعض مغربی ممالک جن میں امریکہ سرفہرست ہے، کی ایران کے خلاف متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔

صدر رئیسی نے اپنی گفتگو کے دوران امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی طرف سے ایران پر مسلط کی گئی 8 سالہ جنگ کا حوالہ دیا کہ جس کے لئے عراقی آمر صدام حسین کو استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کی مخالفت کرنے کے جتنے محرکات ایران کے پاس ہیں کسی دوسرے ملک کے پاس نہیں ہیں، اسی لیے اسلامی جمہوریہ ایران یورپ میں جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی میدان سمیت اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لانے کے لئے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایران نے پولینڈ کے پناہ گزینوں کی میزبانی کی جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے میں ایرانی قوم کے موقف اور حکمت عملی کا مظہر ہے۔

پولینڈ کے صدر نے بھی اپنی گفتگو کے دوران ایران کے ساتھ اپنے ملک کے دوستانہ تعلقات کی طویل تاریخ کا ذکر کیا اور دوسری جنگ عظیم میں پولینڈ کے مہاجرین کے لئے ایرانی عوام کی مہمان نوازی کو دونوں اقوام اور ملکوں کے درمیان دوستی کی گہرائی کا مظہر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پولینڈ ایرانی عوام کی مہربانی اور نوع دوستی کا ہمیشہ شکر گزار ہے اور رہے گا۔

پولینڈ کے صدر نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ دنیا میں امن و استحکام کو وسعت دینے اور مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے دوطرفہ اور بین الاقوامی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی سطح کو بہتر بنانے پر زور دیا۔

 - سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے کہا ہے کہ دشمنوں کی یونیورسٹیوں کو بند کرنے کی کوششوں کا مقصد ایران کی سائنسی رفتار کو روکنا ہے۔

یہ بات میجر جنرل حسین سلامی نے جمعرات کے روز قم میں علماء، پروفیسروں اور مدرسوں کے طلباء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے ایران میں حالیہ بدامنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ایران کی بڑھتی ہوئی تحریک کو روکنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے ملک کی سائنسی رفتار کو روکنے کے لیے یونیورسٹیوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔
جنرل سلامی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو بند کرنا امریکہ چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان جگہوں سے علم پروان چڑھا ہے اور ایران عظیم انسانی کامیابیوں کے حصول کی طرف گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار استکبار نے اپنا ہدف اعلیٰ ترین مقام پر رکھ کر اسلامی نظام کو گرانے کی کوشش کی لیکن انہیں ایک بار پھر بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایرانی کمانڈر نے کہا کہ حالیہ فتنہ میں دشمن اپنی تمام تر میڈیا اور سیاسی طاقت اور ساکھ لے کر میدان میں آگئے، لیکن انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور اب گلی کوچوں میں کچھ نوجوانوں کی طرف سے کچرے کے ڈھیروں کو جلانا امریکہ کی ساری طاقت بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اندرونی معاملات کے عروج کے دور میں، ہم غیر ملکی دشمن سے غافل نہیں تھے، اور ہم نے انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں، اب ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ باز آجائیں۔ ہم آل سعود سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے شیشے کے محلات میں پناہ لے اور صیہونیوں پر بھروسہ نہ کرے، جو کہ زوال پذیر بھی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن جب بھی ایرانی قوم کے خلاف کوئی کاروائی کرے گا اسے کئی بار نشانہ بنایا جائے گا۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے