اس ملاقات میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان پروپیگنڈوں کا حوالہ دیا جن میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک اسلامی جمہوریہ کے عنقریب زوال کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں، آپ نے کہا: وہ لوگ اپنے اس دعوے میں ڈیڈ لائن بھی طے کر دیتے تھے اور ہر بار کہتے تھے کہ ایک مہینے بعد، ایک سال بعد یا پانچ سال بعد اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک کے اندر بھی کچھ لوگ غفلت میں یا بد نیتی کی وجہ سے ان دعووں کا پرچار کرتے تھے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں کچھ بے بنیاد تجزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پچھلے تینتالیس برس میں بارہا اسلامی جمہوریہ ایران کا شیرازہ بکھرنے کی باتیں کی گئي ہیں لیکن انقلاب کی پائيداری اور اس کی پیشرفت کے تسلسل سے واضح ہو گيا کہ یہ تجزیہ غلط اور غیر حقیقی ہے۔
انھوں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگي میں ایک اخبار کی ایک سرخی کا ذکر کیا کہ "نظام بکھر رہا ہے" اور پھر امام خمینی کے اس دنداں شکن جواب کو یاد کیا کہ "تم خود بکھر رہے ہو جبکہ نظام پوری قوت اور مضبوطی سے کھڑا ہے" رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: سنہ انیس سو نواسی میں امام خمینی کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے، جن میں جانے مانے اور پرانے تجربہ کار لوگ بھی تھے، ایک بیان میں کہا تھا: "نظام، کھائي کے دہانے پر پہنچ گيا ہے۔"
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: ہم جھکے نہیں بلکہ ڈٹے رہے اور ان شاء اللہ اسی طرح ڈٹے رہیں گے۔
انھوں نے دو نظریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایک تجزئے میں کہا گیا کہ ہمہ گير عالمی قواعد اور ان سے نکلنے والی طاقتوں جیسے امریکا کے سامنے کام کرنا اور ڈٹ جانا فضول اور تباہی کا سبب ہے۔ اس نظریے کے لوگ، حقائق اور دنیا کے بارے میں کوئی دوسرا تجزیہ رکھنے والے افراد کو وہم میں مبتلا سمجھتے ہیں۔ دوسرا تجزیہ جو حقیقت پسندی پر مبنی ہے تاہم وہ وہ تمام حقائق کو اور وہ بھی صرف اچھے حقائق کو نہیں بلکہ برے حقائق کو بھی ایک ساتھ رکھ کر دیکھتا ہے اور اسی کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ملک کے جینیئس اور ممتاز علمی لیاقت والے افراد کو ملک کی ترقی و پیشرفت کے اہم ستون بتاتے ہوئے کہا: جوانوں خاص طور پر غیر معمولی صلاحیت والے جوانوں کی موجودگي ہر جگہ امید پیدا کر دیتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی جتنی دیر بند رہے گي اور علمی سرگرمیوں کو جتنا برباد اور کمزور کیا جائے گا، اتنا ہی دشمن کو فائدہ پہنچے گا اور اسی لیے انھوں نے آج اور کل نہیں بلکہ مختلف موقعوں پر یونیورسٹیوں کو بند کرانے کی کوشش کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی کو سامراج کے تسلط کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک بتایا اور کہا: دنیا کی منہ زور طاقتیں، دوسروں پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اقوام کو پیچھے رکھنے کے لیے ہتھیار، فریب یہاں تک کہ علم و سائنس کو بھی استعمال کرتی ہیں بنابریں وہ یونیورسٹی جو علم کی سطح کو اوپر لے جاتی ہے، حقیقت میں دشمن کے تسلط کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں نے ملک کو مغرب کا محتاج نہیں ہونے دیا، آپ کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹیوں کے جینیئس افراد، بلا مبالغہ ایران کی عزت و سربلندی کا سبب ہیں اور ہمارے سائنسداں اور دانشور جس میدان میں بھی داخل ہوئے، انھوں نے دنیا کے علمی و سائنسی حلقوں کو انگشت بدنداں ہونے اور تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ ذہین انسان، جنھوں نے اپنے علم اور اپنی صلاحیت کو ایٹمی ہتھیار، کیمیاوی ہتھیار یا جاسوسی کے آلات بنانے میں استعمال کیا، جینیئس نہیں ہیں بلکہ جینیئس وہ باصلاحیت اور محنتی انسان ہے جس نے ہدایت الہی سے کسب فیض کیا ہو۔
انھوں نے ملک کے جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد کے کچھ کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے اسٹیم سیلز اور زندہ جانور کی کلوننگ جیسے میدانوں میں رویان تحقیقاتی مرکز کے کارناموں، بایو کیمیکل، خلا میں سیٹیلائٹ بھیجنے، ایٹمی صنعت کے اہم کارناموں، کوویڈ کی ویکسین سمیت پیچیدہ ویکسینز بنانے اور میزائیل اور ڈرون کی صنعتوں میں زبردست پیشرفت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: کچھ سال پہلے جب میزائیل اور ڈرون کی صنعت میں ایران کے پیشرفتہ آلات کی تصویریں شائع ہوئيں تو وہ (دشمن) کہتے تھے کہ یہ فوٹو شاپ (کا کمال) ہے اور اب وہ کہتے ہیں کہ ایرانی ڈرون بہت خطرناک ہیں، آپ کیوں فلاں کو بیچ رہے ہیں، فلاں کو دے رہے ہیں؟!
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح کہا: بعض لوگ تو ایران کی عظیم توانائيوں اور صلاحیتوں کا ہی انکار کر دیتے ہیں اور ایٹمی صنعت جیسے میدانوں کو بند کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور دروغگوئی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں: "آج دنیا، ایٹمی توانائي اور ایٹمی صنعت سے منہ موڑ چکی ہے۔" اگر ہم نے ایٹمی صنعت کو اس وقت شروع نہیں کیا ہوتا، جب ہم نے شروع کیا تھا تو ہم دس سال بعد اس میدان میں داخل ہوتے اور تیس سال بعد نتیجہ حاصل کرتے۔
انھوں نے 'دشمن سے غفلت' کو جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو لاحق خطروں میں سے ایک بتایا اور کہا: ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر انٹیلی جنس ایجنسیاں، ان افراد کو فریب دینے، انھیں اپنے ساتھ ملانے یا ان کا ذہن خراب کرنے کے لیے، علمی و سائنسی مراکز کی آڑ میں انھیں دعوت دیتی ہیں اور خود کو بہت باادب اور بہت ذہین ظاہر کرتی ہیں تاکہ اپنی سازش کو کامیاب بنا سکیں۔
اس ملاقات کی ابتدا میں، ملک کے سات جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد اور اسی طرح شعبۂ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایکٹنگ وائس پریسیڈنٹ ڈاکٹر دہقانی فیروزآبادی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔