پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت اور ہفتۂ وحدت اسلامی کی مناسبت سے

Rate this item
(0 votes)
پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت اور ہفتۂ وحدت اسلامی کی مناسبت سے
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت اور ہفتۂ وحدت اسلامی کی مناسبت سے 14 اکتوبر 2022 کو اسلامی نظام کے سول و فوجی عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پیغمبر اکرم، حضور کی  بعثت، آپ  کی  تعلیمات، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اور توانائیوں پر گفتگو کی۔(1)  خطاب حسب ذیل ہے؛
     

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

الحمدللّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسانِ الی یوم الدین.

حاضرین محترم، ملک کے معزز عہدیداران اور ہفتۂ وحدت کے عزیز مہمانوں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں اور یہاں تشریف رکھنے والے آپ تمام عزیزوں، پوری ایرانی قوم اور دنیا کے شرق و غرب میں پوری امت مسلمہ کی خدمت میں رسول اعظم، پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ آنحضرت اور اللہ کی توجہ کی برکتیں عظیم امت مسلمہ، امت اسلامی کے لیے ان شاء اللہ ترقی و پیشرفت کا باعث ہوں گي۔

پیغمبر اکرم اور رسول اعظم کی لاثانی شخصیت میں ایک نقطۂ عروج پایا جاتا ہے اور وہ ہے بعثت۔ رسول اکرم کی شخصیت پورے عالم وجود میں ایک منفرد اور بے نظیر شخصیت ہے۔ اس شخصیت کے عروج کا نقطہ، معدن عظمت و عزت و حکمت الہی سے آنحضرت کے قلب مطہر کے رابطے کا لمحہ ہے، بعثت کا لمحہ ہے۔ یہ صحیح ہے لیکن پیغمبر کی زندگی کا ہر لمحہ یہاں تک کہ بعثت کے بعد کی زندگي کا ہر لمحہ، بعثت کی حقیقت سے متاثر اور اسی کے مطابق ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم فرض کر لیں کہ بعثت سے پہلے مرسل اعظم کی زندگي، ایک عام انسان کی زندگي تھی، نہیں! آنحضرت کے کام، ان کی الہی برکتیں، ان کی بابرکت ذات سے مادی دنیا میں آنے والی تبدیلیاں، یہ سب غیر معمولی ہیں، سب کی سب ان کی شخصیت کی عظمت کے مطابق ہیں کہ جو بعثت سے عبارت ہے۔ پیغمبر ختمی مرتبت کی زندگي کے ہر دور میں خداوند متعال کی عظمت کی نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں، یہاں تک کہ ان کی ولادت کے وقت بھی۔ ہم نے آج کے دن، پیغمبر کے روز ولادت کے طور پر جشن منایا، عید کا جشن منایا، یہاں تک کہ انسان ان کے یوم ولادت میں بھی اللہ کی نشانیاں اور اس کی برکت کے آثار، جن کا اصل منبع وہی نقطۂ عروج ہے، یعنی بعثت، دیکھ سکتا ہے۔ توحید کے آثار کو اور توحید کی عملی نشانیوں کو انسان، ان کے روز ولادت میں بھی دیکھتا ہے۔ کعبے کے اندر سے لے کر، جہاں بت سر نگوں ہوئے، طاغوتی بتوں سے مقابلے تک، اس وقت کے بڑے انسانی طاغوت، یا یہ کہ کوئی مقدس جھیل سوکھ جاتی ہے، کوئی آتش کدہ، نام نہاد مقدس آتش کدہ بجھ جاتا ہے، کسری کا طاق ٹوٹ جاتا ہے، طاق کسری کے کنگورے گر پڑتے ہیں، اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بنابریں آنحضرت کا یوم ولادت، کوئي معمولی دن نہیں ہے، بہت اہم دن ہے، بہت ہی بڑا دن ہے۔ ہم اس دن کو اس مناسبت سے عید کے طور پر مناتے ہیں۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عید منانا، صرف جشن و سرور اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں ہے۔ عید منانا، سبق سیکھنے کے لیے ہے۔ پیغمبر کو نمونۂ عمل قرار دینے کے لیے ہے۔ ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے، آج انسان کو اس کی ضرورت ہے، آج امت مسلمہ کو اس کی ضرورت ہے، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ بنابریں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک یوم ولادت کی یاد کو زندہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس آیت کے مضمون پر عمل کر سکیں جس میں کہا گيا ہے: "لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَن کانَ یَرجُو اللہَ وَ الیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثِیرًا"(2) پیغمبر اکرم اسوۂ حسنہ ہیں، بہترین نمونہ ہیں، اسے قرآن صاف لفظوں میں کہہ رہا ہے۔ اسوہ کا کیا مطلب ہے: مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہیں اور ہمیں اس آئيڈیل کی پیروی کرنی چاہیے، وہ چوٹی پر ہیں، ہمیں اس پستی سے اس چوٹی کی طرف جانا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے۔ انسان کے لیے جہاں تک ممکن ہو اس چوٹی کی طرف بڑھے، اسوہ کا مطلب یہ ہے۔

خیر، اب ہم اس اسوہ، نمونے اور آئيڈیل کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ جو سبق ہیں وہ ایک دو تو ہیں نہیں، سیکڑوں ہیں، پیغمبر کی انفرادی اور ذاتی زندگی، پیغمبر کی گھریلو زندگي میں، پیغمبر کی حکومت میں، اپنے دوستوں کے ساتھ، دشمنوں کے ساتھ، مومنوں کے ساتھ، کافروں کے ساتھ آپ کے برتاؤ میں اور پیغمبر کی سماجی شخصیت میں سیکڑوں اہم اور بنیادی سبق پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سبق کو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ قرآن مجید کی اس آيت کا مضمون ہے جس میں کہا گيا ہے: "لَقَد جاءَکُم رَسولٌ مِّن اَنفُسِکُم عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم بِالمُؤمِنینَ رَؤُفٌ‌ رَّحیمٌ"(3) میں اس "عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم" کے مسئلے پر روشنی ڈالوں گا۔ آيت میں کہا گيا ہے کہ پیغمبر کے لیے تمھاری تکلیف اور پریشانی شاق ہے، تکلیف دہ ہے، جب تمھیں کوئي تکلیف ہوتی ہے تو تمھاری تکلیف سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ بات پیغمبر کے زمانے میں موجود مسلمانوں سے مختص نہیں ہے، یہ خطاب پوری تاریخ کے تمام مومنین سے ہے، یعنی اگر آج آپ فلسطین میں تکلیف اٹھا رہے ہیں، میانمار میں، دوسری مختلف جگہوں پر مسلمان تکلیف اٹھا رہے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تکلیف، پیغمبر کی روح مطہر کو بھی تکلیف پہنچاتی ہے، یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے رسول اکرم اس طرح کے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حالت جو اس آيت میں بیان کی گئي ہے، دشمنوں کی حالت کے بالکل برخلاف ہے اور وہ حالت اس آيت میں بیان کی گئي ہے: "یا اَیُّھَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذوا بِطانَۃً مِن دونِکُم‌ لا یَالونَکُم خَبالًا وَدّوا ما عَنِتُّم"(4) یہاں دشمنوں کے لیے کہا گيا ہے: "وَدّوا ما عَنِتُّم" تمھاری تکلیف انھیں خوش کرتی ہے۔ ہم اس وقت اس طرح کے حالات میں ہیں، موجودہ دنیا میں اپنی حالت کو سمجھنے پر توجہ دیجیے۔

ایک طرف وہ پاکیزہ اور مقدس ذات ہے جو "عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم" اور دوسری طرف وہ محاذ ہے جو "وَدّوا ما عَنِتُّم" ہے، وہ تمھاری تکلیفوں سے خوش ہوتے ہیں، مسرور ہوتے ہیں، تمھاری پریشانیوں پر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ فطری طور پر جب اس محاذ کی یہ کیفیت ہے تو وہ تمھیں سختی، پریشانی اور تکلیف کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا۔ ہمیں یہ کیفیت اور حالت سمجھنی چاہیے، جاننی چاہیے اور اس پر توجہ دینی چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس زمانے میں امت اسلامی کی تکلیفوں اور مصائب کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیوں مسلم اقوام معاشی لحاظ سے، سیاسی دباؤ کے لحاظ سے، جنگ شروع کرنے، خانہ جنگیوں، غیر قانونی قبضے، سامراج اور نیو سامراج وغیرہ کے لحاظ سے اس قدر تکلیف میں ہیں؟ مسلمانوں کی اس تکلیف اور تکلیف جھیلنے کی پوزیشن میں پہنچنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ علمی میدان میں پیچھے رہ جانا اس کی ایک وجہ ہے، سامراجیوں کے تسلط کے سامنے جھک جانا اس کی ایک اور وجہ ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں اور جو لوگ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، سیاسی و سماجی مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے افراد ہیں جنھوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے، انھوں نے اس سلسلے میں ہزاروں مقالے لکھے ہیں لیکن ایک وجہ جو شاید سب سے اہم ہے یا سب سے اہم اسباب میں سے ایک ہے، وہ ہے مسلمانوں کا انتشار، تفرقہ۔ ہم اپنی قدر نہیں سمجھتے، ایک دوسرے کی قدر نہیں سمجھتے، ہمارے کام میں سب سے بڑی کمی یہ ہے، ہم ایک دوسرے سے الگ ہیں، بکھرے ہوئے ہیں۔

جب ہم بکھرے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے بہی خواہ نہیں ہیں، کبھی کبھی ایک دوسرے کے بدخواہ تک ہو جاتے ہیں تو پھر نتیجہ یہی ہوگا۔ یہاں قرآن مجید ایک بار پھر بڑے صاف لفظوں میں کہتا ہے، واقعی انسانی زندگی کے ان مسائل میں، ہمیں ایسا کوئي اہم مقام نظر نہیں آتا جہاں قرآن مجید نے صاف الفاظ میں بات نہ کی ہو، یہاں بھی وہ کہتا ہے: "وَ اَطِیعُوا اللَہَ وَرَسُولَہُ وَ لَا تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَ تَذھَبَ رِیحُکُم"(5) جب تم آپس میں جھگڑوگے تو کمزوری پیدا ہو جائےگی، تَذھَبَ رِیحُکُم یعنی َتذھَبَ عِزّکم یعنی تمھاری عزت ختم ہو جائے گي، تمھاری ہوا اکھڑ جائے گي۔ جب تم آپس میں اختلاف کروگے تو پھر فطری طور پر پستی میں گر جاؤگے، ذلیل و خوار ہو جاؤگے، اپنے اوپر دوسروں کے تسلط کی راہ ہموار کر دوگے، بکھراؤ اور انتشار کا نتیجہ یہ ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے خطبۂ قاصعہ میں، جو نہج البلاغہ کے سب سے اہم خطبات میں سے ایک ہے، اس بات کو کھل کر بیان کیا ہے۔ وہ اپنے سامعین کو تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو پچھلے لوگ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ تھے، متحد تھے تو انھوں نے کیا سربلندی حاصل کی اور کس مقام تک پہنچے لیکن جب وہ یکجہتی کی اس کیفیت سے نکل گئے "فَانظُروا اِلَى ما صاروا اِلَیہِ فی آخِرِ اُمورِھِم حینَ وَقَعَتِ الفُرقَۃُ وَ تَشَتَّتَتِ الاُلفَۃ." اس کے بعد کچھ جملے اسی مفہوم کے ہیں اور پھر آپ فرماتے ہیں جب ایسا ہو گيا، جب جدائي، انتشار اور آپسی دشمنی کا بول بالا ہو گيا "قَد خَلَعَ اللَہُ عَنھُم لِباسَ کَرامَتِہِ وَ سَلَبَھُم غَضارَۃَ نِعمَتِہ."(6) تو خداوند عالم نے عزت و کرامت کے لباس کو ان کے جسم سے اتار لیا، وہ عزت جو ان کے پاس تھی، وہ شرف جو ان کے پاس تھا، وہ نعمت جو خداوند عالم نے انھیں عطا کی تھی، وہ اختلاف اور تفرقے کے سبب ان سے لے لی گئي، چھین لی گئی۔

تو ہمیں واقعی اس کے بارے میں سوچنا چاہیے، اتحاد بین المسلمین کے اس مسئلے کے بارے میں سوچنا چاہیے، آج دشمن ٹھیک اس کے برخلاف چاہتا ہے۔ خطے میں سرطانی خلیے کا ایک گندا بیج بو دیا گيا ہے جس کا نام ہے صیہونی حکومت تاکہ وہ اسلام دشمن مغرب کی چھاؤنی بن جائے، کیونکہ انھوں نے اس وقت وسیع و عریض عثمانی حکومت کو تقسیم کر دیا، تباہ کر دیا، کئي ملکوں میں بانٹ دیا، یہاں ان کی ایک چھاؤنی بھی ہونی چاہیے تھی تاکہ وہ مسلسل قبضہ کرتے رہیں اور اس خطے میں کسی کو اعلی اہداف حاصل نہ کرنے دیں، یہ چھاؤنی، یہی مظلوم فلسطین تھا جس میں انھوں نے آکر اس کام کے لیے خبیث، فاسد، قاتل اور بے رحم صیہونیوں کو بٹھا دیا، ایک جعلی حکومت بنا دی، ایک جعلی قوم بنا دی۔ مسلمان بھی اس طرف متوجہ تھے، اب دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ضرر رساں وجود، یہ بڑھ چکا سرطانی خلیہ، دشمن تصور نہ کیا جائے اور خطے کے ممالک کے درمیان اور زیادہ اختلافات  پیدا کرے۔ ہر جگہ قبضہ کر رہے ہیں، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کا یہ عمل، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کی جا رہی سب سے بڑی غداری ہے، تفرقہ ڈالنا،  اختلاف پیدا کرنا، دشمن ایسا ہی تو ہے نا؟ دشمن، مسلسل کام کر رہا ہے۔

ہمیں اس یوم ولادت سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے: "لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ" اور رسول اللہ کے بارے میں ہم نے بتایا کہ ان کی کیفیت ایسی ہے۔ اسی لیے ہم نے اسلامی جمہوریہ میں اس دن کو عید کا دن قرار دیا ہے، اتحاد کا دن قرار دیا ہے، یعنی بارہ ربیع الاول سے لے کر، جو پیغمبر کے یوم ولادت کے بارے میں اہلسنت کی روایت ہے، سترہ ربیع الاول تک، جو پیغمبر کے یوم ولادت کے بارے میں شیعوں کی روایت ہے، ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک جشن کا ہفتہ قرار دیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے، "ہفتۂ وحدت"۔ یہ اچھا کام تھا لیکن اس نعرے کو عملی جامہ پہننا چاہیے، ہمیں اسے عملی جامہ پہنانے کی راہ میں بڑھنا چاہیے۔

شاید آپ یہ کہیں کہ "ہم ملکوں کے سربراہ تو ہیں نہیں۔" ٹھیک ہے، سربراہان مملکت کے محرکات کچھ اور ہوتے ہیں، سیاسی محرکات ہوتے ہیں، دوسرے مقاصد ہوتے ہیں لیکن کسی ملک کے مفکرین، علماء، مصنفین، شعراء، دانشور اور اہم شخصیات اس ماحول کو، دشمن کی خواہش کے برخلاف، بدل سکتی ہیں، جب ماحول بدل جائے گا تو اس نتیجے تک پہنچنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ وحدت یا اتحاد کا مطلب کیا ہے؟ وحدت سے مراد قطعی طور پر مذہبی وحدت نہیں ہے، یعنی یہ کہ وہ اس مذہب میں آ جائے اور یہ اس مذہب میں چلا جائے، صرف ایک ہی مذہب رہے، نہیں، قطعی طور پر یہ مراد نہیں ہے۔ وحدت جغرافیائي بھی نہیں ہے، اس چیز کی طرح جو انیس سو ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں ہوئي، بعض عرب ملکوں نے اتحاد کر لیا اور اعلان کیا کہ وہ ایک ہیں، حالانکہ وہ نہیں ہو سکا اور ہو بھی نہیں سکتا، ممکن نہیں ہے، یہ بھی مراد نہیں ہے۔ وحدت سے مراد، اسلامی امت کے مفادات کی حفاظت کے لیے اتحاد ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ امت اسلامیہ کے مفادات کیا ہیں، کہاں ہیں اور پھر اقوام اس سلسلے میں ایک دوسرے سے اتفاق کریں۔ ان شاء اللہ حکومتوں کو بھی اس راستے پر لے آيا جائے، خدا ان کے دلوں کو اس راہ پر لے آئے اور وہ امت مسلمہ کے مفادات کے بارے میں اتفاق کر لیں، دیکھیں کہ آج امت کو کس چیز کی ضرورت ہے، اسے کس سے دشمنی کرنی چاہیے، کس سے کس طرح دشمنی کرنی چاہیے، کس سے دوستی کرنی چاہیے اور کس طرح دوستی کرنی چاہیے، ان ساری باتوں پر مذاکرات اور بات چیت میں اتفاق ہو جائے اور وہ اس راہ میں بڑھنے لگیں، مراد یہ ہے: سامراج کی سازشوں کے مقابلے میں مشترکہ لائحۂ عمل۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، ہمارے اس خطے اور ممالک کے بارے میں واضح سازشیں رکھتی ہے۔ یہ اسلامی علاقہ، ایک عظیم سرمایہ ہے، ہمارا علاقہ، اگر یہ نہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ حساس ہے، تو کم از کم دنیا کے سب سے حساس علاقوں میں سے ایک تو ہے ہی، اگر یہ نہ کہا جائے کہ سب سے مالامال علاقہ تو کم از کم دنیا کے سب سے مالامال علاقوں میں سے ایک ہمارا علاقہ ہے، وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کہ جو اسلامی خطہ ہے، بہت ہی اہم علاقہ ہے۔ سامراج اور سامراجی پالیسیوں کے پس پشت کام کرنے والی طاقتیں یعنی بین الاقوامی کمپنیاں، کارٹلز اور ٹرسٹس نے اس خطے کے بارے میں سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ ان کی سازشوں کے مقابلے میں ہمارے پاس مشترکہ لائحۂ عمل ہونا چاہیے، وحدت کے معنی یہ ہیں۔ ہم نے عالم اسلام کو یہ تجویز دی اور عالم اسلام سے اس کا مطالبہ کیا۔

یہاں پر ایک بنیادی نکتہ پایا جاتا ہے جس کی طرف سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ آج، روز بروز یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ عالمی سطح پر سیاسی آرڈر تبدیل ہو رہا ہے، آج روز بروز یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے۔ ایک بڑی طاقت کی جانب سے – یا دو طاقتوں کی جانب سے، اس سے کوئي خاص فرق نہیں پڑتا – دیگر ملکوں اور اقوام وغیرہ پر رعب جمانے کا نظام اور یونی پولر سسٹم اپنی حیثیت کھو چکا ہے، یعنی اقوام بیدار ہو گئي ہیں۔ یک قطبی نظام، درکنار کر دیا گيا ہے اور بتدریج اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج آپ دنیا میں پہلے درجے کے سیاستدانوں کی زبان سے یہ بات کافی سنتے ہیں کہ ہم یک قطبی نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ یک قطبی نظام کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر امریکا بیٹھ کر عراق کے لیے، یا شام کے لیے یا ایران کے لیے یا لبنان کے لیے یا کسی اور ملک کے لیے یہ پلاننگ کرے کہ "یہ کام کیجیے، یہ ہونا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔" کبھی کہے اور کبھی نہ کہے لیکن عملی طور پر یہی کرے۔ آج ایسا ہی ہے، وہ لوگ ملکوں کے بارے میں پلاننگ کرتے ہیں اور اپنی فورسز کو لام بند کرتے ہیں۔

تو ان کے پاس سازش ہے، سامراج کے پاس سازشیں اور چالیں ہیں لیکن یہ صورت حال بدل رہی ہے۔ ملکوں، اقوام اور مختلف علاقوں پر سامراج کا جو تسلط تھا، یہ حالت رفتہ رفتہ بدل رہی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے بیسویں صدی کے اواسط میں سامراج مخالف تحریکوں کے دوران ہوا تھا، جب ملکوں نے سامراج کے خلاف لگاتار قیام کیا تھا – ایشیا میں ایک طرح سے، افریقا میں کسی اور طرح سے، لاطینی امریکا میں ایک دوسرے طریقے سے – کہ اس وقت دنیا کے سیاسی نقشے میں بڑی تبدیلی آئي تھی، آج بھی ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ اقوام کے خلاف عالمی سامراج کا خاموشی سے کیا جانے والا یہ کام واضح طور پر رفتہ رفتہ اپنا جواز کھوتا جا رہا ہے، شروع سے ہی اسے قانونی جواز تو حاصل ہی نہیں تھا لیکن اس کے سلسلے میں اقوام کی رائے مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ تو ایک نئي صورتحال سامنے آئے گی، ایک نئي دنیا وجود میں آئے گی۔ ممکن ہے کہ ہم پوری طرح سے اندازہ نہ لگا پائيں کہ یہ نئي دنیا کیسی ہوگي لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ تدریجی طور پر آئندہ برسوں میں ایک نئي دنیا تشکیل پائے گی۔ تو اس نئي دنیا میں امت اسلامیہ کی پوزیشن کیا ہوگي؟ یہ اہم سوال ہے۔

امت مسلمہ یعنی ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسان، ہماری اس عظیم اور درخشاں تاریخ کے ساتھ – جی ہاں پچھلی کچھ صدیوں میں ہم علمی لحاظ سے پچھڑے ہیں لیکن اس سے پہلے علم کی چوٹی ہم مسلمانوں کے اختیار میں تھی، یہ ہمارا ورثہ ہے، ہمارے کنٹرول میں ہے – قدرتی ثروت کے ساتھ، انسانی ثروت کے ساتھ، جدیدیت کے لیے نئے محرکات کے ساتھ، ان خصوصیات کے حامل اس عالم اسلام اور امت مسلمہ کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ جو نئي دنیا وجود میں آ رہی ہے، اس میں ہم کہاں ہوں گے؟ ہمارے قدم رکھنے اور موجودگي کا مقام کہاں ہوگا؟ یہ بہت اہم ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں امت اسلامیہ کو سوچنا چاہیے۔ مغربی دنیا اور یورپ میں جو یہ واقعات ہو رہے ہیں، یہ عام اور معمولی حالات نہیں ہیں، یہ اہم تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ہم بہت اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ہم امت مسلمہ، ہم اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام نئي دنیا میں، جو تدریجی طور پر وجود میں آ رہی ہے، اعلی مقام حاصل کر سکتے ہیں، ایک آئیڈیل کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں، علمبردار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں لیکن اس کی ایک شرط ہے، وہ شرط کیا ہے؟ اتحاد، تفرقے سے دوری، دشمن کے وسوسوں کے شر سے نجات، امریکا کے وسوسوں، صیہونیوں کے وسوسوں، کمپنیوں کے وسوسوں سے رہائي، ان وسوسوں کے شر سے رہائی جو کبھی کبھی اپنے لوگوں کی زبان سے سنائي دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں، عالم اسلام کے اندر سے کچھ لوگ ان ہی لوگوں کی باتیں دوہراتے ہیں، وہی باتیں کرتے ہیں، اتحاد کے ذریعے، تفرقے سے دوری کے ذریعے، آپسی یکجہتی کے ذریعے ان کے شر سے نجات حاصل کریں، شرط یہ ہے۔ اگر ہم یہ شرط پوری کر سکے تو بلاشبہ امت مسلمہ، آئندہ دنیا میں اور دنیا کے آئندہ سیاسی جغرافیے میں اعلی مقام پر فائز ہوگي۔

کیا یہ ممکن ہے؟ کچھ لوگ ہیں جو تمام اہم مسائل میں، ان کا پہلا اقدام اور پہلا ردعمل، انکار اور مایوسی ہے: "ارے جناب یہ نہیں ہو سکتا، اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔" ہم اسے نہیں مانتے، ہم کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے، اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد اور وحدت ممکن ہے، لیکن اس کے لیے کچھ کام کرنے ضروری ہیں، عمل ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم اسلامی ملکوں کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مایوس بھی نہیں ہیں لیکن ہماری زیادہ تر امید عالم اسلام کی اہم شخصیات سے ہے، یعنی جیسا کہ ہم نے کہا، علمائے دین سے، مفکرین سے، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے، روشن فکر نوجوانوں سے، دانشوروں سے، ادیبوں سے، مصنفوں سے، پرنٹ میڈیا کے ذمہ داران سے،  ہمیں ان سے امید ہے، انھیں خود مختاری محسوس کرنی چاہیے، ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے، فرض کا احساس کرنا چاہیے۔ جب اہم شخصیات کسی راستے پر چل پڑتی ہیں تو رائے عامہ بھی اسی سمت میں بڑھنے لگتی ہے۔ جب کسی ملک میں رائے عامہ تشکیل پا جاتی ہے تو اس ملک کا انتظام چلانے کی پالیسیاں بھی اسی سمت میں بڑھنے لگتی ہیں، مجبور ہیں، ناچار ہیں۔ بنابریں یہ ایک ممکن کام ہے، یہ ہو سکتا ہے، لیکن عمل کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کسی بھی چیز کا عمل کے بغیر نہ دنیوی نتیجہ نکلتا ہے نہ اخروی و الہی نتیجہ سامنے آتا ہے: "لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعىٰ"(7) کوشش کرنی چاہیے، عمل کرنا چاہیے، اگر ہم عمل کریں گے تو یہ ممکن ہے۔

میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ اس کا چھوٹا سا نمونہ ہم ہیں، اسلامی جمہوریہ۔ ہم بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ کبھی یہ دنیا دو بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں تھی: امریکا کی طاقت اور سابق سوویت یونین کی طاقت۔ دونوں طاقتیں، جو دسیوں معاملوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی تھیں، مگر ایک بات میں اتفاق رائے رکھتی تھیں اور وہ، اسلامی جمہوریہ کی مخالفت تھی۔ امریکا اور سابق سوویت یونین، اپنے ان تمام تر اختلافات کے باوجود، اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں اتفاق رائے رکھتے تھے، متفق تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے، جھکے نہیں، انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: "نہ شرقی، نہ غربی" (نہ مشرق اور نہ مغرب) نہ یہ، نہ وہ۔ کامیاب ہو گئے، لوگ سوچ رہے تھے کہ ممکن نہیں ہے، سوچ رہے تھے کہ اس پودے کو جڑ سے اکھاڑ دیں، آج وہ پودا ایک تناور درخت میں بدل چکا ہے، اب وہ اسے اکھاڑنے کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتے! ہم ڈٹ گئے اور آگے  بڑھتے گئے۔ البتہ دشواریاں ہیں، ہر چیز میں دشواری ہے، بغیر دشواری کے تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ جھک جاتے ہیں، ان کے لیے بھی دشواری ہے۔ دشواری صرف استقامت میں نہیں ہے، سر جھکانے کی بھی دشواریاں ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ جب انسان استقامت کرتا ہے تو سختی اسے آگے لے جاتی ہے – ہم سختیاں اٹھاتے ہیں لیکن آگے بڑھتے ہیں – جو سر جھکا دیتا ہے وہ سختی اٹھاتا ہے اور پیچھے جاتا ہے، پیشرفت نہیں کرتا۔ بنابریں ہماری رائے میں کام کیا جا سکتا ہے، کوشش کی جا سکتی ہے، تمام تر اختلافات کے باوجود امت مسلمہ میں اسلام اور قرآن کے پیش نظر جو اتحاد ہونا چاہیے، اس کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔

کچھ فاصلے قومیتی ہیں، کچھ نسلی ہیں، کچھ لسانی ہیں، یہ اہم نہیں ہے، میرے خیال میں آج جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے وہ مسلک کا مسئلہ ہے، شیعہ اور سنی کی بحث ہے۔ ہمیں عقیدے میں اختلاف اور مسلکی اختلاف کو تنازعے میں نہیں بدلنے دینا چاہیے، یہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کچھ چیزیں ہیں جو تنازعہ پیدا کرتی ہیں، انھیں روکنا چاہیے، سنجیدگي سے روکنا چاہیے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ امریکی اور برطانوی سیاستداں بھی اپنی نشستوں میں شیعہ اور سنّی کی باتیں کرنے لگے ہیں، یہ بہت خطرناک چیز ہے، بہت خطرناک ہے۔ یہ لوگ جو اسلام کے مخالف ہیں، وہ نہ شیعہ کے لیے بہتر ہیں، نہ سنّی کے لیے، یہ لوگ شیعہ اور سنی کی باتیں کر رہے ہیں۔

میں نے کبھی کہا تھا "انگریز شیعہ" اور "امریکی سنّی"(8) بعض لوگوں نے سوچا یعنی دروغگوئي سے کام لے کر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ہم جو کہتے ہیں انگریز شیعہ اس کا مطلب ہے  برطانیہ میں رہنے والا شیعہ، نہیں، ممکن ہے کہ انگریز شیعہ خود اسلامی ملک میں ہو، یہ برطانیہ کے اشاروں پر کام کرنے کے معنی میں ہے، یعنی ٹکراؤ پیدا کرنے والا شیعہ، جھگڑا کھڑا کرنے والا سنّی، جیسے داعش، جیسے وہابی وغیرہ جو جھگڑے کھڑے کرتے رہتے ہیں یا تکفیری جو کہتے ہیں یہ کافر ہے، وہ کافر ہے۔ ان لوگوں کا نام مسلمانوں والا ہے، ممکن ہے کہ  انفرادی طور پر اسلامی احکام کی سختی سے پابندی بھی کرتے ہوں لیکن یہ دشمن کی خدمت کی راہ پر چل رہے ہیں۔

جو اختلاف پیدا کرتا ہے، وہ دشمن کی خدمت کر رہا ہے، اس میں کوئي فرق نہیں ہے، چاہے وہ جس پوزیشن پر ہو، جس عہدے پر ہو، جس ملک میں ہو۔ ہمارا یہ ماننا ہے، ہم بھرپور طریقے سے اس بات کو مانتے ہیں۔ ہم لوگوں سے نمٹے اور بھرپور طریقے سے نمٹے جو تشیع کی حمایت کے نام پر سنّی بھائيوں کے جذبات بھڑکاتے تھے، یہ چیز ہمہ گیر ہو جانی چاہیے، اس سلسلے میں اتفاق رائے پیدا ہونا چاہیے۔ البتہ دونوں طرف شدت پسند لوگ پائے جاتے ہیں، شیعوں میں بھی ایسے افراد ہیں جو اپنے عقائد کی بنیاد پر یا کسی بھی اور وجہ سے شدت پسندی سے کام لیتے ہیں، سنّیوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو شدت پسند ہیں، شدت پسندی پائي جاتی ہے۔ شدت پسندوں کی اس شدت پسندی کو اس کا لائسنس نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم خود مذہب پر الزام تراشی کریں، ہمارا خود کا عمل اس طرح کا رہا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ وہابیوں نے دو سو سال پہلے، ائمہ کی قبور کو مسمار کر دیا، وہ کربلا گئے اور سید الشہداء علیہ السلام کی قبر اطہر کو مسمار کر دیا، لکڑی کی ضریح  تھی، اسے جلا دیا، حرم کے اندر آگ جلائي، کافی بنائي، کافی پی، یہ سب ہوا۔ پھر وہ لوگ نجف گئے لیکن شہر کے اندر نہیں جا سکے، مرحوم شیخ جعفر کاشف الغطاء کی وجہ سے، جن کے پاس فورس تھی اور انھوں نے دینی طلباء اور دوسروں کو لام بند کر دیا، نجف شہر کے اطراف میں فصیل تھی، اس لیے وہ لوگ نجف نہیں جا سکے، کوفے چلے گئے اور مسجد کوفہ میں، بہت سارے لوگوں کا، جو شیعہ تھے، انھوں نے قتل عام کیا۔ یہ اس بات کا سبب نہیں بنا کہ شیعہ علماء، بزرگ علماء، شیعہ مراجع کرام، اہلسنت پر الزام تراشی کریں، نہیں یہ شدت پسند لوگ تھے جنھوں نے یہ کام کیا تھا۔ خود ہمارے زمانے میں داعش گروہ، عراق میں ایک طرح سے، شام میں کسی دوسری طرح سے اور حال ہی میں افغانستان میں کسی اور طرح سے بچوں کے اسکول پر بھی رحم نہیں کرتا، بچیوں کے اسکول اور بچوں کے اسکول کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے، گھر والوں کو ان کے بچوں کا داغ دیتا ہے، وہ لوگ یہ کام کرتے ہیں لیکن ہم کسی بھی صورت میں اور کبھی بھی اہلسنت پر الزام نہیں عائد کرتے، یہ شدت پسند لوگ ہیں۔ دوسری طرف بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، ممکن ہے کچھ لوگ شدت پسندی سے کام لیں لیکن ان کی شدت پسندی کی وجہ سے پورے شیعہ معاشرے پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کام ہونا چاہیے، علمائے اسلام کو کام کرنا چاہیے۔

ہم اس تفرقے اور بکھراؤ کی وجہ سے چوٹ کھا رہے ہیں، فلسطین میں چوٹ کھا رہے ہیں، مختلف ملکوں میں مار کھا رہے ہیں۔ فلسطین میں صیہونی روزانہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، چھوٹے بچے کا قتل کر رہے ہیں، جوان کا قتل کر رہے ہیں، نوجوان کا قتل کر رہے ہیں، ضعیفوں کو قتل کر رہے ہیں، جیلوں میں ڈال رہے ہیں، جیلوں میں ہزاروں لوگوں کو ایذائيں دے رہے ہیں، یہ سب ہو رہا ہے اور یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میانمار میں اس طرح سے، دوسری جگہوں پر دوسری طرح سے، یہ سب سخت ہے، یہ امت مسلمہ کے لیے سخت ہے، عَزیزٌ عَلَیہِ ما عَنِتُّم، یہ چیزیں پیغمبر اکرم کو تکلیف پہنچاتی ہیں، ان کے لیے کچھ سوچنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید رسول اکرم سے کہتا ہے: قُل یا اَھلَ الکِتابِ تَعالَوا اِلىٰ کَلِمَۃٍ سَواءٍ بَینَنا وَ بَینَکُم، اہل کتاب، مسلمان بھی نہیں ہیں لیکن ان کا آپس میں ایک مشترکہ پہلو ہے اور وہ ہے توحید، کیونکہ توحید تو تمام ادیان میں ہے، توحید، تمام ادیان کی اساس ہے: اَلّا نَعبُدَ اِلَّا اللَہ۔ پیغمبر، اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان پائے جانے والے اسی مشترکہ پہلو سے استفادہ کرتے ہیں، یعنی قرآن حکم دیتا ہے کہ کہہ دیجیے: تَعالَوا اِلىٰ کَلِمَۃٍ سَواءٍ بَینَنا وَ بَینَکُم اَلّا نَعبُدَ اِلَّا اللَہَ وَ لا نُشرِکَ بِہِ شَیئًا وَ لا یَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا اَربابًا مِن دونِ اللَہ.(9) غیر مسلمانوں کے لیے اس طرح سے کہتا ہے! ہم مسلمانوں کے اتنے زیادہ مشترکہ پہلو ہیں: کعبہ ایک، قبلہ ایک، نماز ایک، حج ایک، عبادات ایک، پیغمبر ایک، پورے عالم اسلام میں اہلبیت سے محبت، یہ سب ہمارے مشترکہ پہلو ہیں۔ ہمیں ان مشترکہ پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

خیر، ہم نے اب تک کوشش کی ہے، ہماری جتنی استطاعت اور طاقت تھی، اسے ہم نے اب تک اس سلسلے میں استعمال کیا ہے، اس کے بعد بھی ہم یہی کریں گے۔ ہم نے فلسطینی بھائيوں کی، جو سبھی اہلسنت ہیں، ہر لحاظ سے حمایت کی ہے، سیاسی لحاظ سے اور عملی پہلوؤں سے حمایت کی ہے، آگے بھی حمایت کرتے رہیں گے۔ ہمارے لیے کوئي فرق نہیں ہے، یہاں ہمارے لیے جو چیز اہم ہے وہ اسلامی راہ اور اسلامی نظام ہے۔ یہ جو استقامتی محاذ ہے، جو آج بحمد اللہ عالم اسلام میں تشکیل پایا ہے، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، جہاں تک ہم سے ممکن ہے، جہاں تک ہماری توانائي ہے، ہم اس کی حمایت کرتے رہیں گے، پہلے بھی کرتے رہے ہیں، آگے بھی کرتے رہیں گے۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ہم سب کی ہدایت کرے گا، ان شاء اللہ ہم اس راہ میں آگے بڑھ سکیں اور اس عظیم آرزو کو، جو عالم اسلام کی سر کردہ شخصیات کی بڑی آرزو رہی ہے اور قطعی طور پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاکیزہ روح کی بھی آرزو ہے، یعنی وحدت اسلامی کو، ان شاء اللہ عملی جامہ پہنا سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے تقریر کی۔ چھتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس، 12 اکتوبر 2022 سے تہران میں شروع ہوئي۔

(2) سورۂ احزاب، آیت 21، بے شک تمہارے لیے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کے لیے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔

(3) سورۂ توبہ، آیت 128، (اے لوگو!) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک ایسا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے جس پر تمہارا زحمت میں پڑنا شاق ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان والوں کے ساتھ بڑی شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔

(4) سورۂ آل عمران، آیت 118، اے ایمان والو! اپنے (لوگوں کے) سوا دوسرے ایسے لوگوں کو اپنا جگری دوست (رازدار) نہ بناؤ جو تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ جو چیز تمھیں مصیبت و زحمت میں مبتلا کرے وہ اسے پسند کرتے ہیں۔

(5) سورۂ انفال، آیت 46، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم کمزور پڑ جاؤگے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

(6) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 192

(7) سورۂ نجم، آیت 39، اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

(8) پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت کے موقع پر اسلامی نظام کے عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب۔ (17/12/2016)

 

(9) سورۂ آل عمران، آیت 64، (اے رسول!) کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (اور وہ یہ کہ) ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔

 
Read 396 times