طلبہ سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، امریکہ کے حتمی زوال کی کلیدی علامتوں کی نشاندہی

Rate this item
(0 votes)
طلبہ سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، امریکہ کے حتمی زوال کی کلیدی علامتوں کی نشاندہی

،رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی سامراج سے مقابلے کے قومی دن 13 آبان مطابق 4 نومبر کی مناسبت سے بدھ کے روز سیکڑوں طلباء سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے 13 آبان (چار نومبر) کے دن کو ایک تاریخی اور تجربہ سکھانے والا دن قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی اور امریکا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اس اہم دن اور اس کے اتحاد آفریں اجتماعات سے سخت برہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ دن، امریکا کی مکاریوں اور شیطنت کے سامنے آنے کا بھی دن ہے اور اس کی کمزوری اور مغلوب ہونے کے امکانات کے برملا ہونے کا بھی دن ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار نومبر کے تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے 4 نومبر 1964 کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حقائق سامنے لانے والی تقریر اور ان کی جلاوطنی کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ امام خمینی نے ایران میں تعینات دسیوں ہزار امریکیوں کو جرائم کے ارتکاب پر قانونی کارروائي سے مستثنی کرنے کے قانون کو، جسے اس وقت کی پارلیمنٹ نے محمد رضا پہلوی کے حکم پر پاس کیا تھا، تسلیم نہیں کیا اور اسی لیے انھیں جلاوطن کر دیا گيا۔

انھوں نے اسی طرح 4 نومبر 1978 کو تہران یونیورسٹی کے سامنے متعدد طلبہ کے قتل عام اور 4 نومبر 1979 کو امریکی سفارتخانے پر طلباء کے قبضے کے واقعات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس حملے میں ظالم شاہی حکومت کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف غداری، مداخلت اور ذخائر کی لوٹ مار اور اسی طرح اسلامی انقلاب کے خلاف اس کی مختلف سازشوں کے بہت سارے دستاویزات اور شواہد ہاتھ لگے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "جاسوسی کے اڈے (امریکا کے سابق سفارت خانے) پر حملے کے سبب ایران اور امریکا کے درمیان ٹکراؤ شروع ہونے" پر امریکیوں کے اصرار کو ایک بڑا جھوٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا یہ ٹکراؤ 19 اگست 1953 کو اس وقت شروع ہوا جب امریکا نے برطانیہ کی مدد سے مصدق کی قومی حکومت کو ایک شرمناک بغاوت کے ذریعے گرا دیا۔ مصدق نہ تو کوئي عالم دین تھے اور نہ ہی اسلام پسندی کے دعویدار تھے، ان کا جرم بس یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ایران کا تیل، انگریزوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر مصدق کو بھی برداشت نہیں کیا اور امریکا کی جانب سے مدد کی مصدق کی توقع کے برخلاف، انھوں نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا اور پیسے بہا کر اور بعض غداروں اور غنڈوں موالیوں کی مدد سے ان کی حکومت کو سرنگوں کر دیا۔

انھوں نے ایرانی قوم کی حمایت کے بارے میں امریکی سیاستدانوں کے آج کل کے بیانوں کو ڈھٹائي اور دکھاوا قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ان امریکی سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ان چار عشروں میں کیا کوئي ایسا کام ہے جو تم ایرانی قوم کے خلاف کر سکتے تھے اور اسے تم نے انجام نہ دیا ہو؟ اگر براہ راست جنگ نہیں کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو تم یہ کر ہی نہیں سکتے ہو یا ایرانی جوانوں سے ڈر گئے ہو؟

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکا کے جرائم اور سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے، انقلاب کی شروعات میں واشنگٹن کی جانب سے ایران میں علیحدگي پسندوں کی حمایت، ہمدان کی نوژہ چھاؤنی میں بغاوت، منافقین (ایم کے او) کی دہشت گردی کی حمایت، جس میں ملک کے گوشہ و کنار میں ہزاروں افراد شہید ہوئے، مسلط کردہ جنگ میں درندے صدام کی بھرپور حمایت، خلیج فارس کے اوپر ایران کے مسافر بردار طیارے پر میزائل حملے جس میں تقریبا 300 افراد جاں بحق ہوئے اور اسے مار گرانے والے بحری جنگي جہاز کے کمانڈر کو میڈل دینے کی شرمناک حرکت، انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال سے ہی ایرانی قوم پر پابندیاں لگانے، حالیہ برسوں میں تاریخ کی سب سے شدید پابندیاں عائد کیے جانے اور ایران میں فتنے پھیلانے اور ہنگامے کرنے والوں کی حمایت کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا: 2009 میں، جبکہ اس سے پہلے اوباما نے ہمیں دوستی کا خط لکھا تھا، امریکیوں نے واضح الفاظ میں فتنوں کی حمایت کی اس امید پر کہ شاید اس طریقے سے اسلامی جمہوریہ کو ختم کر سکیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بہیمانہ جرم کی طرف بھی اشارہ کیا اور امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم امریکیوں نے واشگاف الفاظ میں ہمارے شجاع کمانڈر کو قتل کرنے کا اقرار کیا اور اس پر فخر بھی کیا، تم نے کہا کہ اس کا حکم تم نے دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی صرف ایک قومی ہیرو نہیں تھے، وہ پورے خطے کے ہیرو تھے۔ علاقے کے کئي ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں شہید سلیمانی کا کردار بڑا عظیم اور بے نظیر تھا۔ ہم شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کو ہرگز فراموش نہیں کریں گے، ہم نے اس سلسلے میں ایک بات کہی ہے اور ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔ ان شاء اللہ صحیح وقت پر اور صحیح جگہ وہ کام انجام پائے گا۔

انھوں نے ایک بار پھر واشنگٹن کے حکام کو مخاطب کیا اور کہا: تم نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کے قاتلوں یعنی صیہونیوں کی حمایت کا اعلان کیا اور امریکا اور دیگر ملکوں میں ایرانی قوم کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر کے ان اثاثوں سے اس قوم کو محروم کر دیا ہے۔ ایران کے خلاف ہونے والے اکثر واقعات میں تمھارا ہاتھ واضح طور پر دکھائي دیتا ہے اور پھر تم بڑی ڈھٹائي اور بے شرمی سے سفید جھوٹ بولتے اور دعوی کرتے ہو کہ ایرانی قوم کے ہمدرد ہو؟ البتہ تمھاری خواہش کے برخلاف ایرانی قوم نے تمھارے دشمنانہ اقدامات میں سے زیادہ تر کو ناکام بنا دیا ہے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کے زوال کی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس زوال کی علامتوں کو امریکا کے کم نظیر داخلی معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل سے لے کر اندرونی تشدد آمیز اختلافات تک میں بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

انھوں نے امریکا کے زوال کی ایک اور علامت، دنیا کے مسائل کے بارے میں واشنگٹن کے اندازوں کے غلط ثابت ہونے کو قرار دیا اور کہا: اندازے کی اس غلطی کی ایک مثال، طالبان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بیس سال قبل افغانستان پر امریکا کا حملہ ہے جس میں بے شمار جرائم اور قتل عام ہوئے لیکن بیس سال بعد مسائل کو صحیح طریقے سے سمجھ نہ پانے کے سبب امریکی افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گئے اور اس ملک کو طالبان کے حوالے کر گئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عراق پر حملے اور اپنے مدنظر اہداف کے حصول میں امریکا کی ناکامی کو، امریکیوں کے اندازے کے غلطی کی ایک اور مثال بتایا اور کہا: امریکی شروع سے ہی اپنے لوگوں یا اپنے مہروں کو لانے کے چکر میں تھے اور عراق کی موجودہ صورتحال اور انتخابات کے ذریعے عراقی سیاستدانوں کا اقتدار میں آنا کبھی بھی ان کی نظر سے خوش آئند نہیں تھا لیکن یہاں بھی انھیں منہ کی کھانی پڑی۔

انھوں نے اسی طرح شام اور لبنان میں امریکا کی شکست خاص طور پر گيس پائپ لائن کے حالیہ مسئلے میں اس کی ناکامی کو، اندازوں کی غلطی کے سبب امریکا کی ناکامیوں کی ایک اور مثال بتایا اور کہا: امریکا کے زوال کی ایک اور نشانی، عوام کی جانب سے موجودہ اور سابق صدر جیسے افراد کو ووٹ دینا ہے۔ پچھلے الیکشن میں ٹرمپ جیسا شخص صدر منتخب ہوا جسے سبھی پاگل سمجھتے تھے اور اس الیکشن میں بھی ایک ایسا صدر اقتدار میں آيا ہے جس کی حالت سبھی جانتے ہیں۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک میں پچھلے کچھ ہفتوں سے جاری ہنگاموں میں دشمن کے واضح رول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پچھلے کچھ ہفتوں کے واقعات، صرف سڑک پر ہونے والا ایک ہنگامہ نہیں تھا، یہ بہت گہری چال تھی، دشمن نے ایک ہائيبرڈ وار شروع کی، دشمن یعنی امریکا، اسرائيل، بعض موذی اور خبیث یورپی طاقتیں، بعض گروہ اور گینگ، سبھی نے اپنے وسائل میدان میں اتار دیے۔

انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں شاہچراغ کے سانحے اور بے گناہ افراد اور بچوں کے قتل عام کے واقعے کو ایک بہیمانہ جرم بتایا اور کہا: اسکول جانے والے ان بچوں نے کیا قصور کیا تھا جو اس سانحے میں شہید ہوئے؟ اس بچے نے کیا گناہ کیا ہے جس نے اپنے ماں باپ اور بھائي کو اس ہولناک جرم کے نتیجے میں کھو دیا؟ اس دیندار اور اللہ کی راہ پر چلنے والے نوجوان دینی طالب علم، آرمان نے کیا گناہ کیا تھا جسے تہران میں ایذائيں دے دے کر شہید کر دیا گيا اور اس کی لاش کو سڑک پر پھینک دیا گيا؟

رہبر انقلاب اسلامی نے ان جرائم پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان دعویداروں نے شیراز کے سانحے کی مذمت کیوں نہیں کی اور وہ کیوں ایک جھوٹے واقعے کو ہزاروں بار انٹرنیٹ پر اپنے پلیٹ فارمز پر دوہراتے ہیں لیکن 'آرشام' کے نام پر پابندی لگا دیتے ہیں؟ کیا واقعی یہ دعویدار لوگ، انسانی حقوق کے حامی ہیں؟

انھوں نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں کہا: اسلامی انقلاب نے نوجوانوں کو بیدار کر دیا ہے اور انھیں تجزیے کی قوت عطا کر دی ہے۔ تحریک کے دوران بھی اور تحریک کے بعد سے لے کر آج تک ہمارے جوان روز بروز پیشرفت کرتے رہے ہیں۔ ہمارے جوانوں کی اس خصوصیت کو ختم کرنے کے لیے دشمن، فکری اور ذہنی مواد تیار کرنا شروع کرتا ہے، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا پر اتنی بڑی مقدار میں جھوٹ، اسی وجہ سے پھیلایا گيا ہے۔ اسی لیے میں مسلسل تشریح کے جہاد پر زور دیتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ دشمن جھوٹے اور گمراہ کن مواد تیار کرے، آپ سچے اور حقیقی مواد تیار کیجیے اور جوانوں کے ذہنوں تک پہنچائيے۔

Read 367 times