قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب؛ "شہید و شہادت" مذہبی، قومی، انسانی اور اخلاقی اقدار کے مجموعے کا نام ہے

Rate this item
(0 votes)
قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب؛ "شہید و شہادت" مذہبی، قومی، انسانی اور اخلاقی اقدار کے مجموعے کا نام ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے صوبۂ قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے ملاقات میں شہدا پر سیمیناروں کے انعقاد کی دو اہم خصوصیات کا ذکر کیا، شہدا کی یاد کو باقی رکھنا اور ان کے پیغام کو عام کرنا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا: کانفرنس میں اور کانفرنس سے پہلے اور اس کے بعد ہم جو کام انجام دیتے ہیں ان کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں دو سب سے اہم ہیں: ایک یاد اور دوسری پیغام۔ شہیدوں کی یاد زندہ اور باقی رہنی چاہیے، شہیدوں کا پیغام سنا جانا چاہیے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی تناظر میں کہا: ہمیں شہیدوں کے پیغام کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ "یہ تو واضح سی بات ہے، شہیدوں کے پیغام کو تو سبھی جانتے ہیں، سبھی کو پتہ ہے"، نہیں، سب نہیں جانتے۔ جو نئي نئي نسلیں آ رہی ہیں، انھیں جو کچھ گزرا ہے، محرکات، افکار اور اسی طرح کی دوسری باتوں سے مطلع ہونا چاہیے۔ جو کام پیغام پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں یہ بڑی خصوصیت ہوتی ہے۔

انہوں نے آرٹ کی زبان کو شہیدوں کی یاد اور ان کے پیغام کو منتقل کرنے کی بہترین زبان بتایا۔ انھوں نے نوجوانی میں ہی کمانڈر بننے والے شہید مہدی زین الدین کو صوبۂ قم کے سب سے نمایاں شہیدوں میں سے ایک بتایا اور کہا: میدان جنگ میں ان کی بے مثال شجاعت، تدبیر اور تعمیر اور پھر اخلاقیات کے میدان میں، دینداری کے میدان میں، مذہبی اور اسلامی احکامات کے میدان میں بھی ان کی خصوصیات کو بیان کیا جانا چاہیے اور آرٹ کی زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان میں ان چیزوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تمام شہیدوں کے پیغام کو بیان کرنے میں فن و ہنر کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے صوبۂ قم میں ترانہ گانے والی بچوں کی ایک ٹیم پر بعثی حکومت کے ہوائي حملے اور ان کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس واقعے کے تمام پہلوؤں کے جائزے اور انھیں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو اہم پیغامات کا حامل واقعہ ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں شہادت کو خدا سے سودا اور قومی مصلحتوں کی تکمیل بتایا۔ انھوں نے کہا: شہادت، جہاں خداوند عالم سے سودا ہے وہیں اس سے قومی مصلحتوں کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں شہادت، قومی مصلحتوں اور قوم کے مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔

انہوں نے قومی اقدار، شہید اور شہادت کو، قومی تشخص کو بلندی عطا کرنے والے اجزاء سے تعبیر کیا اور ایرانی قوم کی شہادت پسندی کو، دنیا میں اس کی عظمت کا سبب قرار دیا۔ انھوں نے کہا: ایرانی قوم نے اپنی اسی شہادت پسندی کی وجہ سے ان لوگوں کی نظروں میں عظمت حاصل کی ہے جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی ہے۔ ایثار و فداکاری کی باتیں جتنی زیادہ باہر پہنچی ہیں، اتنی ہی اس قوم کی عظمت میں اضافہ ہوا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شہادت کو تسبیح کے دھاگے کی طرح ملک کے اندر مختلف اقوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے والا ذریعہ بتایا اور کہا: ملک کے شمالی یا مشرقی علاقے کا کوئي شہید، دیگر علاقوں کے شہیدوں کے ساتھ ایک ہی صف میں تھا، وہ سبھی ایک ہی ہدف کے لیے شہید ہوئے، اسلام کی عزت کے لیے، اسلامی جمہوریہ کی عظمت کے لیے، ایران کی تقویت کے لیے، وہ اس طرح مختلف اقوام، شہروں اور علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے تھے، یہ شہادت کی خصوصیت ہے۔

انہوں نے شاہچراغ کے سانحے جیسے واقعات کی تاریخ میں جاوداں بن جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب سے لے کر آج تک کا ہر واقعہ، تاریخ کا ایک روشن باب ہے، ایک ستارہ ہے۔ یہی سانحہ جو کچھ دن پہلے شاہچراغ میں ہوا، ایک لافانی ستارہ ہے، یہ تاریخ میں باقی رہے گا اور سربلندی اور فخر کا سبب بنے گا۔ ہاں کچھ لوگوں کو غم اٹھانا پڑا، ان میں سے بعض واقعات غم انگيز ہیں اور انسان کے دل کو غم و اندوہ سے بھر دیتے ہیں لیکن یہ واقعات ستارے ہیں، یہ تاریخ میں باقی رہیں گے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اسی طرح ایرانی عوام کے قیام میں، شہر قم کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کیا اور اسلامی انقلاب کے شہیدوں کو قم کے پرورش یافتہ شہید بتایا۔ انھوں نے کہا: قم نے سب سے پہلے قدم بڑھائے، قم نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہا۔ کون سمجھتا تھا کہ امام خمینی سنہ 1962 اور 1963 میں کیا کہہ رہے ہیں؟ قم کے لوگ تھے جو میدان میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جب انھیں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک کسی حد تک کمزور پڑ گئي ہے، تب بھی، قم کے لوگ امام خمینی کے درس میں آ گئے، پھر اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک یہ لگاتار اور مسلسل امتحانات ہماری قوم کے لیے اور ہمارے عوام کے لیے موجود رہے ہیں اور اہل قم ان امتحانوں میں ہمیشہ سرخرو ہوئے ہیں۔

مکمل متن صوبۂ قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
سب سے پہلے تو میں قم سے تشریف لانے والے آپ تمام برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے زحمت کی اور ایک بار پھر شہیدوں کے تعلق سے نہایت ضروری اور اہم سیمینار کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہمارے ان بھائي نے جن اقدامات کا ذکر کیا، ان کے بارے میں کچھ عرض کر دوں اس کے بعد اپنے اصلی موضوعات کی طرف آؤں گا۔

شہیدوں کی سیمینار کی دو اہم خصوصیات؛ شہدا کی یاد تازہ اور ان کا پیغام عام کرنا

یہ تمام کام اور تمام اقدامات جو آپ نے کہے کہ انجام پائے ہیں، اچھے ہیں لیکن توجہ رہے کہ ہم سیمینار میں اور سیمینار سے پہلے اور اس کے بعد جو کام انجام دیتے ہیں ان کی کئي خصوصیات ہیں جن میں سے دو سب سے زیادہ اہم ہیں: ایک یاد اور دوسری پیغام۔ شہیدوں کی یاد زندہ اور باقی رہنی چاہیے، شہیدوں کا پیغام سنا جانا چاہیے، ہم جو اقدامات کرتے ہیں اگر ان میں یہ دو باتیں نہ پائي جاتی ہوں تو کوئي فائدہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شہید کا مجسمہ بنانا یا قالین وغیرہ پر اس کی تصویر بنانا، ہاں یہ ایک حد تک – گھر کے اندر رکھنے وغیرہ کی حد تک – یاد کا ایک طریقہ ہے لیکن کچھ چیزیں ہیں جو پیغام کی حامل ہو سکتی ہیں، آرٹسٹک کام، اشعار، فلمیں، کتابیں یا نشستیں، پیغام کی حامل ہو سکتی ہیں، ہمیں اس طرح کے کاموں کی ضرورت ہے، شہیدوں کے پیغام کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ "یہ تو واضح سی بات ہے، شہیدوں کے پیغام کو تو سبھی جانتے ہیں، سبھی کو پتہ ہے" نہیں! سب نہیں جانتے۔ جو نئي نئي نسلیں آ رہی ہیں، جو کچھ گزرا ہے، محرکات، افکار اور اسی طرح کی باتوں سے انھیں مطلع ہونا چاہیے۔ جو کام، پیغام کے حامل ہوتے ہیں، ان میں یہ بڑی خصوصیت ہوتی ہے، آپ جو بھی کام کرتے ہیں، ان میں اس بات کو مد نظر رکھیے۔

قم، قیام کرنے اور قیام کروانے والا شہر

آپ نے جو یہ کام شروع کیا، اسے انجام دیا اور ان شاء اللہ بہترین طریقے سے ختم بھی کریں گے، ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد دو باتیں اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں، ایک قم کے بارے میں اور دوسری شہادت اور شہید کے بارے میں۔ قم قیام کا بھی شہر ہے اور قیام کی ترغیب دلانے کا بھی شہر ہے، ایسا شہر ہے جس نے خود بھی قیام کیا ہے اور پورے ایران کو بھی قیام کے لیے ترغیب دلائي ہے، یہ قم کی خصوصیت ہے۔ البتہ ان خصوصیات میں ہمیں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجود اور اس شہر میں مبارک حوزۂ علمیہ (اعلی دینی تعلیمی مرکز) کی برکتوں کے اثر کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ ہی قم کے عوام بھی ہیں جنھیں ہم نے قریب سے دیکھا ہے، ان کے کاموں کو دیکھا ہے، ان کے اخلاق کو دیکھا ہے، ان کی خصوصیات کو دیکھا ہے، واقعی قم کے عوام بہت اچھے لوگ ہیں، انھوں نے قم (قیام کرو) کے خطاب پر عمل کیا، ہر جگہ سے پہلے قیام کیا، ہر جگہ سے پہلے جدوجہد کی، ہر جگہ سے پہلے شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا۔

انقلاب کے آغاز سے آج تک اہل قم امتحان میں سرخرو ہوئے

دوسری جگہوں کے بہت سے شہداء بھی، حقیقت میں قم کے ہی شہید ہیں، شہید مطہری بھی قم کے شہید ہیں، شہید بہشتی بھی قم کے شہید ہیں، شہید باہنر بھی قم کے شہید ہیں، یہ شہداء بھی قم کے پروردہ ہیں اور شاید ایک لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایران کے سبھی شہداء، قم کے شہداء ہیں۔ قم نے یہ راستہ کھولا، قم نے سب سے پہلے قدم بڑھائے، قم نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہا۔ کون سمجھتا تھا کہ امام خمینی سنہ 1962 اور 1963 میں کیا بات کہہ رہے ہیں؟ قم کے لوگ تھے جو میدان میں آ گئے، یہاں تک کہ جب انھیں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک کسی حد تک کمزور پڑ گئي ہے، تب بھی، سنہ 1962 میں، جب تحریک کا آغاز ہوا تو قم کے لوگ امام خمینی کے درس میں آئے - میں وہاں پر تھا، مجھے یاد ہے - قم کے مؤقر کاروباری لوگ اور ان کے پیچھے پیچھے بڑی تعداد میں عام لوگ آئے اور امام خمینی کے درس میں بیٹھ گئے، جب ان کا درس ختم ہوا تو ان میں سے ایک صاحب - اگر میں بھول نہیں رہا ہوں تو مرحوم طباطبائي - کھڑے ہوئے اور امام خمینی کو مخاطب کر کے پورے جوش و ولولے سے تقریر کی اور ان سے تحریک جاری رکھنے کو کہا! درحقیقت امام خمینی سے اس کا مطالبہ کیا، امام خمینی بھی میدان میں آ گئے اور انھوں نے اسی نشست میں ٹھوس اور مکمل جواب دیا اور عملی طور پر اس تحریک میں، اس قیام میں ایک نئی روح پھونک دی، قم کے لوگ اس طرح کے ہیں۔ اس وقت قم کے جوانوں نے، یہاں تک کہ ان جوانوں نے بھی، جو شروع میں اس لائن میں نہیں تھے، ہم دیکھتے تھے کہ جب علماء کی تحریک شروع ہوئي، کس طرح اپنا رجحان دکھایا، ہمدلی دکھائي، قم کے لوگ ایسے ہیں۔ پھر انقلاب آ گيا اور انقلاب کے بعد کے واقعات، مقدس دفاع اور اس کے بعد سے لے کر اب تک کے واقعات تک، آج تک، یہ لگاتار اور مسلسل امتحانات ہماری قوم کے لیے اور ہمارے عوام کے لیے موجود ہیں اور اہل قم ان امتحانوں میں سرخرو ہوئے، بہت اچھی طرح۔

ہنر کی زبان، شہیدوں کی یاد اور ان کے پیغام کو منتقل کرنے کی بہترین زبان

البتہ کچھ اہم نکات بھی پائے جاتے ہیں اور میں تاکید کروں گا کہ ان پر زیادہ کام کیا جائے، یعنی وہی دو خصوصیات، یاد اور پیغام۔ ان اہم نکات میں سے ایک، شہید مہدی زین الدین ہیں، وہ خود بڑی اہم اور ممتاز شخصیت ہیں۔ یہ شہید، ایک نوخیز جوان، بیس پچیس سال کے سن میں ایک ٹاسک فورس کی کمان میں کیسی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، میدان جنگ میں بے مثال شجاعت کا، تدبیر کا، تعمیر کا، ایثار کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر اخلاقیات کے میدان میں، دینداری کے میدان میں، مذہبی اور اسلامی احکامات کے میدان میں بھی اسی طرح کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ چیزیں واقعی غیر معمولی ہیں، انھیں لوگوں کو بتایا جانا چاہیے، بیان کیا جانا چاہیے۔
آرٹ کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان سے ان چیزوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا، صرف آرٹ کی زبان سے ہی زندگي کی ان باریکیوں کو بیان کیا جا سکتا ہے، اب یا تو فنکارانہ تحریر ہو، یا اشعار ہوں، فلم ہو، ڈاکیومینٹری ہو یا اسی طرح کی دوسری چیزیں ہوں جن سے ان چیزوں پر کام کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر ایک یہ ہے: ایک فوجی جوان کمانڈر یہاں ہے جس کا نام شہید امیر احمدلو ہے، قم کا ایک فوجی ہے جس کی زندگي کے آخری لمحات میں اس کے لیے پانی لایا جاتا ہے یا کوئي شخص یہ سوچتا ہے کہ اسے پانی دے تاکہ وہ پیاسا اس دنیا سے نہ جائے، مگر یہ فوجی جوان پانی نہیں پیتا، اشارے سے کہتا ہے کہ اس سپاہی کو پانی دیا جائے جو اس کے ساتھ تھا، یہ تو وہی صدر اسلام کا ماجرا ہے!(2) جسے ہم لوگوں نے بارہا منبر سے بیان کیا اور لوگوں نے سنا لیکن اس کا صحیح تصور ہمارے ذہنوں میں نہیں آ پایا۔ حقیقت میں یہی واقعہ رونما ہوا، ایک فوجی افسر نے یہ حقیقت ہمارے سامنے مجسم کی۔ کیا یہ کوئي چھوٹی چیز ہے؟ کیا یہ کوئي معمولی بات ہے؟ آرٹ کے علاوہ اسے کس زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے؟ یہ کام کرنے کی کوشش کیجیے۔ یا ترانہ گانے والی ٹیم کے شہداء کا واقعہ جو مقدس دفاع کے زمانے کے بے نظیر واقعات میں سے ایک ہے۔ (3) بارہ، تیرہ اور چودہ سال کے کچھ بچے ترانہ گاتے ہیں، جنگي جہاز آتا ہے اور اسی ٹیم کو نشانہ بناتا ہے، فائر کرتا ہے اور وہ سبھی – سب کے سب یا تقریبا سبھی – شہید ہو جاتے ہیں۔ ان کا ترانہ کہاں ہے؟ انھوں نے کیا گایا؟ کیا کہا؟ کیا کیا؟ ان کے والدین نے کیا کیا؟ ان چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، ان میں پیغام ہے۔ یہ قم کی خصوصیات میں سے ہے، یہ سب مقدس دفاع کے زمانے کے قم کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یا شہید خواتین، بتایا گيا کہ کئي سو شہید خواتین ہیں جن میں سے کچھ مجلس عزا میں شہید ہوئیں۔ یہ سب واقعی بہت اہم چیزیں ہیں۔

شاہچراغ جیسے واقعات تاریخ کے جاوداں اور قابل فخر واقعات

تو یہ قم اور انقلاب کے نزدیک سے لے کر آج تک، ان چالیس پینتالیس برسوں کے حوادث سے بھرے ہوئے اور پرافتخار دور کی خصوصیات کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔ ان میں سے ہر واقعہ، بجائے خود ایک دور ہے، تاریخ کا ایک روشن باب ہے، ایک ستارہ ہے۔ یہی سانحہ جو کچھ دن پہلے شاہچراغ میں ہوا(4)، ایک ستارہ ہے، لافانی ہے، یہ تاریخ میں باقی رہے گا، یہ تاریخ میں سربلندی اور فخر کا سبب بنے گا۔ ہاں کچھ لوگوں کو غم اٹھانا پڑا، ان میں سے بعض واقعات غم انگيز ہیں اور انسان کے دل کو غم و اندوہ سے بھر دیتے ہیں لیکن وہ واقعات در حقیقت ستارے ہیں، تاریخ میں باقی رہیں گے، یہ وہ واقعات ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان چالیس پینتالیس برسوں میں ہمارے سامنے ایسے کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں! یہ اس قوم کی حیات اور اس کے زندہ ہونے کی علامت ہیں۔ یہ قم کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔

لفظ 'شہید' دینی، قومی اور اخلاقی اقدار کا آئینہ

جہاں تک شہادت کی بات ہے تو لفظ 'شہید' ایک ایسا عنوان ہے جس سے سرسری انداز میں نہیں گزرا جا سکتا۔ لفظ شہید میں دینی، قومی اور اخلاقی اقدار کا ایک مجموعہ پوشیدہ ہے۔ جب آپ کہتے ہیں 'شہید' تو در حقیقت یہ لفظ ایک مکمل کتاب ہے، دینی اقدار کا ایک ذخیرہ ہے، اس لفظ میں قومی معارف کا ایک ذخیرہ ہے، اس لفظ میں اخلاقی تعلیمات کا ایک ذخیرہ ہے، یہ بہت اہم لفظ ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بعض شہید، شہادت کی عاشقانہ آرزو رکھتے تھے تو یہ اس لیے ہے کہ خداوند عالم نے ان کے دلوں میں ایک نور ڈال دیا تھا، اس نور کے ذریعے وہ ایک حقیقت کو دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے شہادت کے عاشق تھے۔ شہید سلیمانی کہتے تھے کہ میں صحراؤں میں شہادت کی تلاش میں پھرتا ہوں، اسے تلاش کرتا ہوں۔ انھیں دھمکی دی گئی کہ ہم تمھیں قتل کر دیں گے، انھوں نے کہا کہ میں صحراؤں میں اسے تلاش کر رہا ہوں، اس کی تلاش میں میدانوں اور پہاڑوں میں گھومتا ہوں، مجھے دھمکی دے رہے ہو؟ کچھ لوگوں نے اس کتاب کی تھوڑی سی ورق گردانی کی اور اتنے سے حصے نے ہی انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا، اتنے نے ہی انھیں اپنا شیدائی بنا لیا۔

شہید سچے ایمان اور عمل صالح کا مظہر

تو ہم نے کہا دینی، قومی اور اخلاقی اقدار کا ایک ذخیرہ۔ جہاں تک دینی مسائل کی بات ہے تو شہید سب سے پہلی بات جو انسان کو یاد دلاتا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ شہید نے خدا کی راہ میں قدم بڑھائے ہیں، مجاہدت کی ہے، شہادت حاصل کی ہے۔ شہید سچے ایمان کا مظہر ہے: صَدَقوا ما عاھَدُوا اللَّہَ عَلَیہِ فَمِنھُم مَن قَضىٰ نَحبَہ (5) یہ وہی "قَضىٰ نَحبَہ" ہے، صداقت کا مظہر ہے، نیک عمل کا مظہر ہے۔ خدا کی راہ میں آگے بڑھنے اور اس راہ میں اپنا پورا وجود اور اپنی پوری ہستی نچھاور کر دینے سے زیادہ نیک عمل اور کون سا ہوگا؟ سچا ایمان اور عمل صالح۔ یہ دینی پہلو ہے اور انہی مختصر سے الفاظ میں معارف کی ایک پوری دنیا نہاں ہے۔

شہید، قومی تشخص کی عظمت کا ضامن

جہاں تک قومی معارف کی بات ہے تو شہید اور شہادت ان چیزوں میں سے ہیں جو قومی تشخص کو نمایاں کرتی ہیں اور قومی تشخص کا مرتبہ بڑھاتی ہیں۔ ایرانی قوم، اسی شہادت طلبی کی وجہ سے ان لوگوں کی نظروں میں عظیم ہوئي جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی – البتہ دشمن کے میڈیا کا شور شرابہ اور ہنگامہ، بہت سی چیزوں کو دنیا کے کانوں تک نہیں پہنچنے دیتا لیکن جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی، ان کی تعداد بھی کم نہیں تھی، بہت سی اقوام تھیں، ان کی نظروں میں ایرانی قوم کی عظمت بڑھ گئي، کس چیز کی وجہ سے؟ شہید کی وجہ سے۔ صرف جنگ کی وجہ سے نہیں، جنگ تو بہت سی جگہوں پر ہوتی ہے، یہ اس ایثار و فداکاری کی وجہ سے ہے، جس سے شہید پیدا ہوتا ہے، ان گھرانوں کی وجہ سے ہے، شہداء کے گھرانے، یہ ماں باپ، ان کی وجہ سے ہے۔ ان کی جو بھی بات باہر پہنچی، اس نے اس قوم کی عظمت میں اضافہ کیا، تو شہید، قومی تشخص کو درخشاں بناتا ہے، نمایاں کرتا ہے، اس کا مرتبہ بڑھاتا ہے۔

شہید، ایثار و شجاعت کا مظہر

لفظ 'شہید' میں اخلاقی اور انسانی اقدار پوشیدہ ہیں – دین سے قطع نظر کرتے ہوئے – جیسے ایثار۔ شہادت، ایثار کی مظہر ہے۔ کوئي دوسروں کے آرام کے لیے اپنی جان قربان کر دیتا ہے، سیکورٹی کا پاسباں شہید اپنی جان دے دیتا ہے تاکہ دوسرے امن و امان کے ساتھ زندگي گزار سکیں۔ مقدس دفاع کا شہید اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تاکہ خبیث اور ظالم دشمن، اپنے پختہ عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے – اس نے کہا تھا کہ تہران تک جاؤں گا اور ایرانی قوم کو ذلیل کر کے رہوں گا – شہید ایسا ہوتا ہے۔ ہم اور آپ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ وہاں لڑ رہا ہے تاکہ ہم آرام سے رہیں، دشمن ہمارے پاس نہ آنے پائے۔ یہ ایثار، ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، کسی بھی دین و مذہب اور مذہبی عقیدے سے قطع نظر، انسان اسے اہمیت دیتے ہیں۔ شہادت، سے شجاعت کا پتہ چلتا ہے۔ بنابریں لفظ 'شہادت' ان تمام اخلاقی اقدار کا مجسمہ ہے۔

شہادت، خدا سے سودا اور قومی مصلحتوں کی پاسبانی

بنابریں شہادت ایک طرف تو خدا سے سودا ہے، وہ صدق جو ہے وہ خدا سے سودا ہے: اِنَّ اللَّہَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃ.(6) جہاں تک مجھے یاد ہے، امیرالمومنین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ تم لوگوں کی جان کی قیمت بہت زیادہ ہے، اسے جنت کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے مت بیچو۔(7) یہ جان بڑی قیمتی ہے، تمھارے وجود کی قیمت بہت زیادہ ہے، اسے صرف بہشت کے عوض بیچو، جان خدا کی ہے، خدا ہی اس کا خریدار ہے۔ اِنَّ اللَّہَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃ۔ تو شہادت ایک طرف خدا سے سودا ہے اور دوسری طرف قومی مصلحتوں کی پاسبانی کرنے والی ہے، اسی تشخص کی تقویت جسے ہم نے عرض کیا۔ اللہ کی راہ میں شہادت، قومی مصلحتوں کو اور قوم کے مفادات کو یقینی بناتی ہے۔

شہادت؛ ہمدلی کا عنصر اور ملک کے مختلف شعبوں کو جوڑنے والی کڑی

شہادت، ہمدلی پیدا کر سکتی ہے۔ آپ خود ہمارے ملک کو دیکھیے، ہمارا ملک مختلف قومیتوں کا ایک مجموعہ ہے نا، مختلف زبانیں، مختلف قومیں: ہمارے یہاں فارس ہیں، ترک ہیں، عرب ہیں، لر ہیں، بختیاری ہیں، مختلف اقوام ہیں، تسبیح کے ایک دھاگے نے ان سب کو آپس میں جوڑ رکھا ہے اور تسبیح کے اس دھاگے کا ایک حصہ، یہی شہادت ہے۔ آپ کسی بھی شہر میں چلے جائيے، یہی نظر آئے گا کہ کسی شہید یا کچھ شہیدوں کے نام اس شہر میں نمایاں ہیں۔ فرض کیجیے کہ آپ اس ملک کے شمال میں، اس ملک کے جنوب میں، ملک کے مشرق میں، ملک کے مغرب میں، جس شہر میں بھی جائيے، کچھ شہیدوں کے نام ہیں جو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان شہروں کو ایک دوسرے کی بہت زیادہ خبر نہ ہو لیکن ان کے شہید ایک جگہ، ایک ہدف کے ساتھ اور ایک ہی صف میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شہید جس کا تعلق ملک کے جنوبی حصے سے ہے، اس شہید کے ساتھ، جو شمال یا مشرق کا ہے، ایک ہی صف میں تھا، وہ ایک ہی ہدف کے لیے شہید ہوئے، اسلام کی عزت کے لیے، اسلامی جمہوریہ کی عظمت کے لیے، ایران کی تقویت کے لیے، وہ ان چیزوں کے لیے شہید ہوئے، ایک واحد ہدف کے لیے شہید ہوئے۔ یہ چیز، ان قوموں کو، ان شہروں کو، ان علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے، ایک دوسرے سے متصل کرتی ہے، یہ شہادت کی خصوصیت ہے۔ وہ دینی پہلو، خدا سے سودا ہے، یہ قومی پہلو، ملک کے مختلف شعبوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والا ہے جبکہ وہ اخلاقی پہلو، اس ملک کی اخلاقی خصوصیات کی یاد دہانی کراتا ہے۔

نئی نسل کے لیے فن و ہنر کے ڈھانچے میں جنگ کے خزانے کی گنجائش سے استفادے کی سفارش

اپنی تقریر کے ابتدائي حصے میں جو بات میں نے کہی تھی اب اسی کے تسلسل میں صرف ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ چیزیں رکی نہ رہ جائیں۔ کبھی میں نے کہا تھا کہ جنگ ایک خزانہ ہے(8) واقعی ایسا ہی ہے۔ میں شہیدوں سے متعلق کتابیں، زیادہ پڑھتا ہوں، ہر ایک پڑھتا ہوں، گویا ان سے انسان کو ایک نئي چیز سمجھ میں آتی ہے۔ میں پڑھتا رہتا ہوں، دسیوں سال سے، سنہ 80 کے عشرے سے اب تک ان کتابوں کو پڑھتا آ رہا ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کتاب، جو کسی شہید کی سوانح حیات ہے، انسان کے سامنے ایک نیا صفحہ کھول دیتی ہے اور انسان کو دکھاتی ہے، چاہے وہ خود شہید کے بارے میں ہو، چاہے ان والدین کے بارے میں ہو، یہ بہادر مائيں، یہ درگذر کرنے والے باپ۔ ان والدین کا ہم پر بڑا حق ہے! ہمارے عزیز شہداء کے کچھ والدین اس نشست میں بھی موجود ہیں۔
یہ باتیں پہنچائي جانی چاہیے اور میں نے عرض کیا کہ ان میں سے بیشتر کو یعنی شاید نوے فیصد کو منتقل کرنے کے لیے آرٹ کی زبان کی ضرورت ہے۔ البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ تاریخ، کتابیں اور دوسری چیزیں نہ لکھیں، کیوں نہیں، لکھیں! لکھی جانی چاہیے لیکن وہ چیز جس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اس شہادت، شہید، مقدس دفاع، ایثار اور ایسی ہی دوسری باتوں کو پوری تفصیلات اور گہرائي سے دوسروں تک پہنچا سکے، وہ فن و ہنر ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے، میں نے ترانہ گانے والی اس ٹیم کا ذکر کیا، تو ٹھیک ہے، اس کے لیے ڈاکیومینٹری بنائيے، اس ٹیم کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بنائیے، ان کی نقل تیار کیجیے تاکہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں، وہ جو واقعہ ہوا تھا، اسے لوگوں کو دکھائيے۔ جب میں کہتا ہوں کہ "لوگوں" کو دکھائيے، تو ہم پرانے لوگوں نے یہ چیزیں دیکھی ہیں لیکن آپ میں سے بہت سوں نے جو یہاں بیٹھے ہیں، ہمارے نوجوانوں نے، نئي نسل نے نہیں دیکھا ہے، انھیں دکھانا چاہیے، جو کچھ ہوا تھا اسے یہ قریب سے دیکھیں۔ شہداء کی انہی سوانح حیات میں، ان تفصیلات کو دیکھیے۔ آرٹسٹک کاموں کے لیے کتنی زیادہ گنجائش ہے، ڈاکیومینٹری فلمیں بنانے کے لیے، فیچر فلمیں بنانے کے لیے، سیریلز بنانے کے لیے، نظم اور شعر کے لیے! بحمد اللہ ہمارے یہاں اچھے شا‏عر ہیں، قم میں آپ کے یہاں بھی اچھے شعراء ہیں، وہ شعر کہیں، اچھے شعر کہیں تاکہ یہ یادیں باقی رہیں۔

شہید اور شہادت کی یاد اور اس کا پیغام پوری طاقت سے بھرپور انداز میں منتقل کیا جائے

بہرحال آپ کا کام گرانقدر ہے، میں سراہتا ہوں اور امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ سبھی لوگ جن کا دل اسلام کے لیے، انقلاب کے لیے، اس قوم کے لیے، ان جوانوں کے لیے، نوخیز نسل کے لیے، ہمارے بچوں کے لیے، ہمارے پیارے ایران کے لیے دھڑکتا ہے، ان سے جتنا ممکن ہو، جتنی ان میں طاقت ہے، جتنی ان میں صلاحیت ہے، اس سلسلے میں کام کریں، کوشش کریں، شہید اور شہادت کے موضوع کو ان کی یاد اور پیغام کے ساتھ جاری رکھیں۔

ہم حضرت احمد ابن موسی (شاہچراغ) علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے پیارے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کے اہل خانہ اور پسماندگان کو دل کی گہرائيوں سے تعزیت پیش کرتے ہیں، مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں - کیونکہ ان شاء اللہ خداوند عالم کے قریب ان کا مقام بہت بلند ہے - خداوند عالم سے آپ کی توفیقات کے لیے دعاگو ہیں، خداوند متعال امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پاکیزہ روح کو بھی اپنی رحمت اور لطف سے نوازے کہ وہی تھے جنھوں نے ہم سب کے لیے یہ راستہ کھولا۔

والسّلام ‌علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات میں پہلے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضۂ اطہر کے متولی اور اس سیمینار کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید محمد سعیدی گلپایگانی، صوبۂ قم کے گورنر اور سیمینار کے سربراہ جناب سید محمد تقی شاہچراغی، علی ابن ابی طالب بریگیڈ کے کمانڈر سیکنڈ بريگيڈیراور سیمینار کے سیکریٹری جنرل محمد رضا موحد نے رپورٹیں پیش کیں۔
(2) ایسا ہی واقعہ اسلام اور روم کے لشکروں کے درمیان ہونے والی جنگ، جنگ موتہ میں پیش آيا تھا۔
(3) قطب راوندی اسکول کے ترانہ گروپ کے اسٹوڈنٹس، 21 جنوری 1987 کو قم کے تربیت سنیما ہال میں اپنا ترانہ پیش کرنے کے بعد دشمن کی بمباری کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے۔
(4) 26 اکتوبر 2022 کو مغرب کے وقت ایک مسلح شخص نے حضرت احمد ابن موسی (شاہچراغ) علیہ السلام کے روضۂ اطہر میں داخل ہو کر زائرین پر فائرنگ کر دی جس میں 13 افراد شہید اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد دہشت گرد گروہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
(5) سورۂ احزاب، آيت 23، اور اہل ایمان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے وہ عہد و پیمان سچ کر دکھایا جو انھوں نے اللہ سے کیا تھا تو ان میں سے کچھ شہید ہوئے۔
(6) سورۂ توبہ، آيت 111، بے شک اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے بہشت ہے۔
(7) یہ روایت کتابوں میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ہے۔
(8) استقامتی آرٹ اور ادب کے دفتر کے عہدیداروں سے ملاقات (16/7/1991)

Read 568 times