سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 10 August 2021 06:05

قیام حسینی ع اور بیداری

سيد الشہداؑ نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جو اوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا۔



 قیام امام حسین ع اور بیداری

سيد الشہداؑ نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جو اوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا۔

 

 

واقعہ کربلا اور بیداری

 اہل مدينہ کے قيام سے جو ’’واقعہ حرّہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ، شروع کيجئے اور بعد کے واقعات اور توابين و مختار کے قيام تک اور وہاں سے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے تک مختلف قسم کے قيام مسلسل وجود ميں آتے رہے ، اِن تمام قياموں کا باني کون تھا؟ حسين ابن علي !


قیام حسینی اور احساس مسئولیت

 اگر سيد الشہدا قيام نہيں فر ماتے تومعاشرے کي سستي و کاہلي اور ذمہ داريوں سے فرارکي عادت، ظلم ستيزي اور ذمہ داري کو قبول کرنے ميں تبديل نہيں ہوتي۔ کيوں کہتے ہيں کہ اُس معاشرے ميں ذمہ داريوں کو قبول کرنے کي حس مرچکي تھي؟ اُس کي دليل يہ ہے کہ امام حسين ، اسلام کي عظيم اور بزرگ ہستيوں کے مرکز ’’شہر مدينہ‘‘ سے مکہ تشريف لے گئے؛ ’’ابن عباس ‘‘ ، ’’پسر زبير ‘‘،’’ ابن عمر ‘‘ اور صدر اسلام کے خلفا کے بيٹے سب ہي مدينے ميں موجود تھے ليکن کوئي ايک بھي اِس بات کيلئے تيار نہيں ہوا کہ اُس خوني اور تاريخي قيام ميں امام حسين کي مدد کرے۔

 

 

 

عظیم درس

پس قيام امام حسين کے شروع سے قبل عالم اسلام کے خاص الخاص افراد اور بزرگ ہستياں بھي ايک قدم اٹھانے کيلئے تيار نہيں تھيں ليکن امام حسين کے قيام و تحريک کي ابتداء کے بعد يہ روح زندہ ہوگئي۔ يہ وہ عظيم درس ہے کہ جو واقعہ کربلا ميں دوسرے درسوں کے ساتھ موجود ہے اور يہ ہے اِس واقعہ کي عظمت!

 

يہ جو کہا گيا ہے کہ ’’اَلمَدعُوّ لِشَھَادَتِہِ قَبلَ اِستِھلَالِہِ وَوِلَادَتِہ‘‘ِ يا اُن کي ولادت باسعادت سے قبل ’’بَکَتہُ السَّمَآئُ وَ مَن فِيھَا وَالاَرضُ وَمَن عَلَيھَا‘‘ کہا گيا ہے اور لوگوں کو امام حسين کے اِس عظيم غم اور عزا اور اُس کے خاص احترام کي طرف متوجہ کيا گيا ہے اور اِن دعاوں اور زيارت کي تعبيرات ميں اُن پر گريہ کيا گيا ہے تو اِن سب کي وجہ يہي ہے ۔

 

کتاب: امام حسین ع دلربائے قلوب، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس

انسان کا خدا سے رشتہ اور تعلق

قرآن کریم نے خدا کے ساتھ انسان کے رشتہ اور تعلق کو دلکش ترین انداز میں بیان کیا ہے‘ قرآن کا خدا‘ فلسفیوں کے خدا کے برخلاف ایک خشک و بے روح اور بشر سے یکسر بیگانہ وجود نہیں ہے۔ قرآن کا خدا انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے‘ انسان کے ساتھ لین دین رکھتا ہے اور اس کے مقابل میں انسان کو اپنی رضا و خوشنودی عطا کرتا ہے‘ اس کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس کے دل کے آرام و سکون اور اطمینان کا سرمایہ ہے: الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب( سورہ رعد‘ آیت ۲۸)
انسان خدا سے انسیت اور الفت رکھتا ہے‘ بلکہ تمام موجودات اس کو چاہتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں۔ تمام موجودات عالم اپنے اپنے وجود کی گہرائی سے اس کے ساتھ رازدارانہ رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں‘ اس کی حمد بجا لاتے ہیں اور اس کی تسبیح کرتے ہیں:
ان من شئی الا یسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحھم (سورہ اسراء‘ آیت ۴۴)۔

قرآن کا خدا انسان کی دلبستگی کا سرمایہ
فلسفیوں کا خدا جس کو وہ لوگ صرف محرک اول اور واجب الوجود کے نام سے پہچانتے ہیں اور بس ایک ایسا موجود ہے‘ جو بشر سے بالکل بیگانہ ہے‘ جس نے انسان کو صرف پیدا کر دیا ہے اور اسے دنیا میں بھیج دیا ہے‘ لیکن قرآن کا خدا ایک ”مطلوب“ ہے‘ انسان کی دلبستگی کا سرمایہ ہے‘ وہ انسان کو پرجوش بناتا اور ایثار و قربانی پر آمادہ کرتا ہے‘ کبھی کبھی تو اس کی رات کی نیند اور دن کے سکون کو بھی چھین لیتا ہے کیوں کہ وہ ایک غیر معمولی مقدس خیال و تصور کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔

 

قرآن نے الٰہیات کو عروج بخشا
مسلمان فلاسفہ نے قرآن سے آشنا ہونے اور قرآنی مفاہیم و مطالب کو پیش کرنے کے نتیجے میں الٰہیات کی بحث کو اس عروج پر پہنچا دیا ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایک اُمّی اور ناخواندہ شخص جس نے نہ تو کسی استاد کے پاس تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مکتب میں گیا ہو‘ اس حد تک الٰہیات میں ترقی کر جائے کہ افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ سے ہزاروں سال آگے بڑھ جائے؟

 

 

کتاب: وحی اور نبوت، تالیف شہید مرتضی مطہری سے اقتباس

 

 

 

Monday, 09 August 2021 07:01

اسلام اور حجاب

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام نے بہت  تاکيد  اور رہنمائی فرمائی ہے ۔ يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوء  استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے۔

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے، خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں۔ صاحبان زر و زمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کورونا ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کے بعد عوام سے طبی دستورات کی رعایت کرنے پر زوردیا ہے۔

صدر رئیسی نے ایران کی تیار کردہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں طبی عملے کی مجاہدانہ تلاش و کوشش پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور ہمیں ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ کورونا ویکسین کو تیار کرنا چاہیے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ میں نے کورونا وائرس کامقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں تاکید کی ہے اور آج پھر تاکید کرتا ہوں کہ ہمیں فصل سرما کے آنے سے پہلے عمومی سطح پر کورونا ویکسین لگانے کی تیاری کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کی صحت و سلامتی حکومت کی پہلی ترجیحات میں شامل ہے۔

صدر رئيسی نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہوا ایرانی ویکسین برکت سے استفادہ کیا جائے گا اور کمی کی صورت میں معتبر غیر ملکی ویکسین کو در آمد کیا جائےگا۔ ایرانی محققین نے کوایران برکت ویکسین ملک کے اندر تیار کی ہے جس کے بعد ایران کورونا ویکسین تیار کرنے والے چند ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے جان ارنو نے حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات اور گفتگو کی ۔ اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی امور کے مشیر حسین امیر عبداللہیان نے بین الافغان مذاکرات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے لئے تمام افغان گروہوں کو مذاکرات میں حصہ لینا چاہیے۔

ایرانی اسپیکر کے بین الاقوامی امور کے مشیر نے افغانستان کے بارے میں ایرانی مؤقف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایران بین الافغان مذاکرات میں تمام افغان گروہوں کی شرکت کو ضروری سمجھتا ہے اور افغانستان کے اندر امن و صلح قائم کرنے سے مہاجرین کی سرحدوں کی جانب موج کو روکا جاسکتا ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ اقوام متحدہ ، افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں اپنا اہم کردار کرسکتا ہے اور ایران اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی بھر پور حمایت کرنے کے لئے تیار ہے۔

اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے افغانستان کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کے سلسلے میں تاکید کی۔

 حزب اللہ نے اسرائیل کے فضائی حملے کے ایک روز بعد جوابی کارروائی میں اسرائیلی ٹھکانوں پر کئي درجن راکٹ فائر کئے ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس نے حزب اللہ کے حملوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

حزب اللہ لبنان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ ہوائی حملوں کے جواب میں اس نے اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر درجنوں راکٹ فائر کئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اسرائیل نے جنوب لبنان پر بمباری کے دوران  فاسفورس بموں سے استفادہ کیا ہے۔

صابرین نیوز کے مطابق حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ علاقوں  گولان اور مزارع شبعا پر 20 راکٹ فائر کئے ہیں ۔ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی اچانک جوابی کارروائی کا فلسطینی تنظیم حماس نے استقبال کیا ہے۔ ادھر حزب اللہ کی جوابی کارروائی پر اسرائيلی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

 مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کو عہدے کا چارج سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ انتخاب دونوں ممالک کے مضبوط برادرانہ تعلقات کو مزید وسعت دینے میں معاون ثابت ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پاک ایران تعلقات یکساں مذہبی اور ثقافتی اقدار کے حامل ہیں۔پاکستان افغانستان سمیت خطے میں امن و صلح کی کاوشوں اور کوششوں میں شریک  ہے۔دونوں ممالک کے باہمی تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری،تعلیم، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔پڑوسی ممالک ہونے کے باعث ہمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو شر انگیز طاقتیں منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔انہیں حکمت ،بصیرت اور دانائی کے ساتھ شکست دینا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ خطے کے امن کو سبوتاژ کر کے عدم استحکام کی فضا ہموار کرنا اسلام دشمن عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری طاقت کی منتقلی کے عمل سے سخت خائف ہیں۔امریکہ اپنے اقتصادی ڈھانچے کو تباہی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں سازشوں کے جال بچھا رہا ہے۔پڑوسی ممالک کے تعلقات جتنے مضبوط اور پائیدار ہوں گے دشمن طاقتوں کے بیانیے کو اتنی ہی شدید شکست ہو گی۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے نئے صدر کا انتخاب ایک اچھے اور خوشحال دور کا آغاز ثابت ہوگا۔

 

 

 

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ملاقات میں سیف القدس جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔

صدر رئیسی نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے سیف القدس جنگ میں دوستوں کو خوشحال اور دشمنوں کو مایوس کیا۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی کا وہم و گمان بھی نہ تھا لیکن اللہ تعالی نے اسلامی مزاحمت کو 12 روزہ جنگ اور اس سے قبل جنگوں میں فتح عطا کی۔

صدر رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور رہے گا ہم اپنے فلسطینیوں بھائیوں کو بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی تک تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

اس ملاقات میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے صدر رئیسی کے فلسطین کی حمایت میں بیان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ  ہم فلسطین کے بارے میں ایران کے صاف و شفاف اور ٹھوس مؤقف کی قدر کرتے ہیں ۔ امریکہ کو خطے میں شکست کا سامنا ہے ، عراق اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا امریکہ کی خطے میں شکست کا مظہر ہے۔ حماس کے سربراہ نے کہا کہ فلسطین کی آزادی تک اسرائیل کے خلاف ہماری جد وجہد کا سلسلہ جاری رہےگا۔

Saturday, 07 August 2021 07:18

جامع مسجد ، ٹوکیو -جاپان

ٹوکیو کے جامع مسجد کی تعمیر  ۱۹۳۸ میں جاپان کے ایک مالی ادارہ نے انجام دی ہے ، لیکن اس کی دوبارہ تعمیر پہلی مسجد کو شھید کرنے کے بعد ۲۰۰۰ ء  میں مکمل ہوئی۔

 

چاپان کی یہ مسجد اور اسلامی مرکز غیر مسلمان جاپانیوں کے لئے ایک سیر و تفریح کی جگہ بھی بن گئی ہے۔

 

پہلے اس مسجد کے امام عبد الرشید ابراھیم تھے ۔ اس کے بعد اس کی امامت کے فرائض عبد الھادی قربانعلی کے سپرد کئے گئے۔

 

 یہ مسجد ۱۹۸۶ کو قدیم ہونے کی وجہ سے شھید کی گئی اور اس کی زمین ترکیہ حکومت کی درخواست پر ترکوں کے سپرد کی گئی۔

 

ترکیہ میں اس زمانے کی  دیانت پارٹی کے سربراہ  نے اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا، جو ۱۹۹۸ میں شروع اور ۲۰۰۰ میں اختتام پذیر ہوا۔

 

اس مسجد کی تعمیر کا کام ”کاجیما کمپنی ”کے سپرد کیا گیا اور اس کا اندرونی ڈیزاین ترکیہ کے معماروں اور ماہرین کے ذریعے انجام پایا۔

 

معماری کا کام محرم ھیلمی سنالب کے ہاتھ میں تھا، اس مسجد کی سب سے بڑے دروازے کے اوپر ایک سنگ مرمر رکھا گیا ہے جس پر اس مسجد کی تاریخ تعمیر ۱۴۲۰ ھ لکھی گئ ہے۔

 

اس مسجداور ثقافتی سینٹر کے اصلی دروازے پر جملہ ” ترکیہ ثقافتی سینٹر” لکھا گیا ہے، اس ثقافتی مرکز میں ترکیہ کے مساجد کی نمائش اور اس ملک کے ثقافتی اشیاء کو فروخت کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔

 

اس مسجد اور ٹوکیو کے اسلامی سینٹر کا طرز تعمیر  دورہ عثمانی کا ہے۔

 

ٹوکیو کی جامع مسجد میں دو ہزار آدمیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے، اس کا اصلی ایوان ، عورتوں کے لئے مخصوص ایوان سے الگ ہے۔

 

اس مسجد کا گنبد ۲۳ میٹر بلند اور اس کے منارے کی بلندی ۴۱ میٹر ہے۔

 

ٹوکیو کی جامع مسجد ، کا دوسرا نام مسجد یویوگی بھی ہے یہ اس علاقے کا نام ہے جس میں یہ مسجد واقع ہوئی ہے لذا اس مسجد کا بھی یہی نام رکھا گیا ہے۔

 

اس مسجد میں اصلی ایوان ،کتاب خانہ ، آڈیٹوریم ، کانفرنس ہال ، کنٹرول روم اور امام جماعت کے رہنے کی جگہ ہے۔

 

یہ مسجد جاپان میں اسلام سے آگاھی حاصل کرنے کی جگہ جانی جاتی ہے، اور بہت سے جاپانی لوگ اسلام کے بارے میں اپنی جانکاری حاصل کرنے کے لئے اور اسلام کو پہچاننے کے لئے اس مسجد کی جانب رجوع کرتے ہیں۔

 تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے سب سے پہلے پاکستانی قوم کو ولایت فقیہ سے متعارف کرایا، چار سال کے مختصر عرصہ قیادت میں شہید نے قوم کو ایک نئی جہت دی، قائد شہید آخری دم تک خط امام خمینی (رہ) پر قائم رہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 33ویں برسی کی مناسبت سے جامعہ شہید عارف الحسینی پشاور میں منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ اجتماع جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور اور جامعہ عارف الحسینی پشاور کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا، اجتماع سے سابق سینیٹر اور بزرگ عالم دین علامہ سید جواد ہادی نے بھی خطاب کیا۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں سے آئے علمائے کرام اور شہید علامہ عارف الحسینی کے فرزند سید حسین الحسینی بھی شریک ہوئے۔ علامہ سید جواد نقوی تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امام خمینی (رہ) نے ملت کو تاکید کی تھی کہ افکار شہید عارف الحسینی کو زندہ رکھا جائے، لہذا ہم امام کے اس فرمان کے پابند ہیں، شہید قائد نے سب سے پہلے پاکستانی قوم کو ولایت فقیہ سے متعارف کرایا۔ شہید نے قوم کو امانت، شجاعت اور صداقت کا حقیقی سبق پڑھایا اور ولایت سمجھائی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ شہید قائد کا مزار پشاور میں انکی جائے شہادت پر ہوتا، شہید نے بہت مشکل حالات میں قوم کی قیادت سنبھالی، شہید کے دور میں آئیڈیل اتحاد تو قائم نہ ہوسکا، لیکن سنجیدہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے، علامہ عارف الحسینی حقیقی طور پر شہید ہونے کے بعد قائد بنے، یعنی لوگوں کی اکثریت نے انہیں شہید ہونے کے بعد قائد مانا، ان کی حقیقت شہادت کے بعد تسلیم کی گئی، قوم کو ان کی شہادت کے بعد احساس ہوا کہ کتنی اہم شخصیت کو ہم کھو بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید کا تفرقے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، لیکن آج تشیع کے منبر سے بھی شرک بیان ہوتا ہے، آج علماء سیاست میں لگے ہوئے ہیں، آج تشیع کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مسخ کیا جا رہا ہے، لیکن شہید کے دور میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔

اسلام ٹائمز