سلیمانی

سلیمانی

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عراق عظیم ملک ہے، اسے انبیاء کی سرزمین کہتے ہیں، یہاں ائمہ اہلبیتؑ کے مزارات ہیں اور کروڑوں لوگوں کی عقیدتوں کے مرکز کربلا و نجف عراق میں ہیں۔ تہذیب و تاریخ سے متعلق لوگوں کے لیے بابل اور دجلہ و فرات میں تشکیل پانے والی تہذیبیں رومانوی سی لگتی ہیں۔ یہاں کے شہر بھی تاریخی ہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، کربلا اور نجف، ان کے نام سنتے ہی  ان شہروں سے منسلک تاریخی واقعات سامنے آنے لگتے ہیں۔ عراق کی بدقسمتی ہے کہ صدام کے جبر سے نکلتے ہی براہ راست بین الاقوامی استعمار کے قبضے میں چلا گیا۔ یہ تو یہاں کی مرجعیت کی حکمت عملی تھی کہ جو کام طالبان ہزاروں شہریوں کے مروانے اور  اتنا بڑا انفراسٹکچر برباد کروانے کے باوجود نہ کرسکے، مرجعیت نے چند سال میں ہی کر دیا۔ امریکہ نے عراق میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری وہاں سے جلدی نکلنے کے لیے نہیں کی تھی اور نہ ہی امریکہ اتنا اچھا ہے کہ عراقی عوام کو ایک ڈکٹیٹر سے نجات دلانے کے لیے اس نے  اتنا بڑا جنگی اقدام کیا ہو۔

امریکہ واپسی پر مجبور ہوا، مگر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ  واپس آیا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ داعش کو اگلے بیس سال تک خطے میں فعال رکھا جائے گا اور ہر دو چار ماہ بعد ان سے کوئی ایسا کام کرایا جائے گا، جس سے اسلام بدنام ہو، اہل مغرب مطمئن رہیں کہ امریکہ انسانیت دوستی کا کام کر رہا ہے اور اس گروہ کی سرکوبی بہت ضروری ہے۔ امریکہ کی یہ چال بری طرح ناکام رہی اور اللہ نے اپنی تدبیر کے ذریعے انہیں ناکام کر دیا۔ داعش جس پر اتنی سرمایہ کاری کی گئی تھی،  مرجعیت کے ایک فتویٰ سے ہوا کا ڈھیر ثابت ہوئی اور جنرل قاسم سلیمانی شہید کی کامیاب حکمت عملی سے نہ صرف اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے بلکہ وہ  انتہائی مختصر عرصے میں شہروں سے تتر بتر کر دیئے گئے۔ ان کے آمدن کے ذرائع ختم کر دیئے گئے اور وہ صحراوں میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، جہاں پر ان کا پیچھا جاری ہے۔

جب امریکہ نے دیکھا کہ اس کی اور اس کے اتحادیوں کی ساری محنت ضائع ہو رہی ہے اور ان کا بہت نقصان ہو رہا ہے تو انہوں نے براہ راست مداخلت کا فیصلہ کیا اور امریکی افواج داعش سے لڑنے کے نام پر عراق میں داخل ہوگئیں۔ یہ داعش سے لڑیں یا داعش کی سپورٹ کرتی رہیں، یہ سب بھی راز نہیں ہے۔ امریکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں کہ ہم داعش سے لڑ رہے ہیں اور ہماری وجہ سے داعش محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اگر امریکی صدر ٹرمپ کی تقاریر سنیں تو وہ اپنی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی داعش کے خلاف موثر کارروائی کو قرار دیتے ہیں۔ امریکہ نہ تو  داعش سے لڑنے آیا تھا اور نہ ہی ان کا مقصد اہل عراق کو اس انسانیت دشمن گروہ سے نجات دلانا تھا، یہ تو افغانستان میں بیس سال سے طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ صرف شکست نہیں دے سکے، الٹا ابھی ان سے امن معاہدے کے لیے پاکستان سے بھیک مانگ رہے ہیں اور کہہ رہیں کہ ہمیں پرامن انخلا کی گارنٹی لے کر دو۔

جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امریکی پلان یہ تھا کہ ڈرا دھمکا کر ہم عراق میں اپنے پاوں مزید مستحکم کریں گے۔ عراق کی غیور عوام اور وہاں کی پرعزم قیادت نے بھرپور انداز میں امریکی حملے کو عراق پر حملہ قرار دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے قرارداد منطور کرتے ہوئے فوری طور پر امریکی افواج کے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ کیا۔ اس پر امریکی صدر کا ردعمل  غیر سفارتی اور غیر اخلاقی تھا کہ ہم عراق پر ایسی پابندیاں لگائیں گے، جیسی پابندیاں پہلے کسی پر نہیں لگی ہوں گی اور یہ ایران پر پابندیوں کو بھول جائیں گے۔ اقوام کے تعلقات باہمی احترام اور ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے پر مبنی ہوتے ہیں، یہ وار لارڈز کے تعلقات کی طرح نہیں ہوتے، جن کی بنیاد ہی طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔

کل عراقی تاریخ کے عظیم الشان مظاہرے ہوئے ہیں اور ان کا فقط اور فقط ایجنڈا امریکی افواج کو عراق سے بے دخل کرنا تھا۔ عراقی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اب امریکی افواج کو تہذیب یافتہ طریقے سے نکل جانا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں قابض فورسز شمار کیا جائے گا، جن کے خلاف  نہ صرف مزاحمت درست ہوتی بلکہ پوری دنیا میں انہیں غیر مہذب سمجھا جائے گا۔
ویسے عجیب بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اب داعش کی طرح ایک اور حماقت کرنے جا رہی ہے، جس سے امریکی انتظامیہ کو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی حکومت اس منصوبے پر کام کر رہی ہے کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، پہلا حصہ شیعہ عراق ہو، دوسرا کردستان کی شکل میں ہو اور تیسرا حصہ سنی عراق ہو۔ اس پر کافی عرصہ پہلے بھی غور کیا گیا تھا، مگر ردعمل کے خوف سے اسے ختم کر دیا گیا تھا، اب دوبارہ اس پر غور و فکر جاری ہے۔

اربیل میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ نے عراق کے سنی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی ہے، اسی طرح عراق کے مضبوط سنی اراکین پارلیمنٹ کو عرب امارات لے جایا گیا ہے، جہاں ان کی ملاقاتیں عرب اور امریکی آفیشلز سے کرائی گئی ہیں اور انہیں اس پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ عرب امارات اور سعودی عرب نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس سب سے امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ شام کے بارڈر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے اور لبنان، شام، عراق اور ایران کے درمیان جو براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوا ہے، اسے ختم کر دیا جائے۔ عراق کی خود مختاری کا جنازہ تو پہلے نکالا جا چکا ہے، اب عراقی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ لوگ جیسے پہلے اس منصوبے میں ناکام ہوئے تھے، اب بھی اس منصوبے میں ناکام ہوں گے اور عراق اپنے وحدت پر باقی رہے گا۔ ویسے ان تمام حالات سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بین الاقوامی قانون محض غریب ممالک کو دبانے کا ہتھیار ہے، یہ طاقتور کو تجاوز کرنے سے بالکل نہیں روکتا۔

تحریر: رائے محمد یوسف رضا دھنیالہ

ولد مجاہدِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم (رہ)

صدام کا عراق تباہ کرکے اس پر قابض امریکیوں نے عربوں میں داعش کا بیج بونے کے لئے ابوبکر البغدادی کو اپنی جیل سے رہا کرکے اس کے نام پر دولتِ اسلامیہ عراق و شام نام کی ایک خونی سلطنت قائم کرکے مسلمانوں کا جب وحشیانہ قتال شروع کروایا تو اس کا نشانہ صرف شیعہ نہیں بلکہ تمام مسلمان اور اس خطے میں آباد عوام الناس بنے۔ امام بارگاہوں کو زمین بوس کیا جانے لگا، عراق و شام میں موجود انبیاء و اولیاء کے مزارات اور اسلامی ورثے کی حامل یادگاروں کو تباہ و برباد کیا گیا اور قریب تھا کہ اسلام کے نام پر قتال کرکے شام و عراق کے مسلمانوں کو اس قدر کمزور اور نڈھال کر دیا جائے کہ پھر اسرائیل شام سے ہوتا ہوا وادیءِ دجلہ و فرات تک بغیر کسی بڑی مزاحمت کے پہنچ کر قابض ہو جائے، تو ایسے میں یہود و نصاریٰ کا راستہ روکنے کے لئے عالمِ اسلام کا ایک حقیقی سپہء سالار مملکتِ اسلامیہ ایران سے اٹھا اور عراق و شام کے مظلوم و محکوم مسلمانوں کو داعش کے پنجہءِ استبداد سے چھڑانے اور امریکی و یہودی سازش کو ناکام بنانے کے لئے میدانِ کارزار میں اس طرح اترا کہ پھر عراق و شام سے عالمی سامراج اور صیہونی پشت پناہی والی اسلام دشمن حکومت "داعش" کا خاتمہ کرکے ہی چھوڑا۔

دورِ حاضر میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں شکست سے دوچار کرکے شام کی راہداری کے ذریعے یہودیوں کی عراق تک رسائی کو روک دینے والا وہ عظیم مسلمان مجاہد پاسدارانِ انقلاب ایران کا جرنیل قاسم سلیمانی تھا، جسے بالآخر انبیاء کی سرزمین پر یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں عظیم شہادت نصیب ہوئی اور وہ مسلمان قوم کا مقدر اور اپنی آخرت سنوار گیا۔ میں ایک اردو داں پاکستانی مسلمان ہوں، لیکن قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی فوری خبر پاکستانی عوام میں جس طرح پھیلی اور ہم پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر جس طرح ان کی شہادت کا سوگ منایا، اس یکجہتی نے ثابت کر دیا تھا کہ ہم عرب، ایرانی، تورانی، ترک، ملایا، پاکستانی، ہندوستانی، افریقی یا کسی خاص وطن کے باشندے نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کے سپوت اور حصہ ہیں۔

میں ایک سنی، حنفی، بریلوی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والدِ گرامی حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو "مجاہدِ اہلسنت" کہا جاتا تھا۔
میرے چھوٹے بھائی حافظ محمد یعقوب داتار بھی ایک نامور عالمِ دین اور سنی علماء کی سیاسی، مذہبی اور طلبہ تنظیموں، جمعیت علماءِ پاکستان، مرکزی جماعتِ اہلسنت پاکستان اور انجمن طلباء اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن سرزمینِ عراق پر قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی امریکیوں کے ہاتھوں شہادت پر بلا تخصیصِ مسلک پاکستان کے ہر مسلمان نے جس طرح غم و غصے کا اظہار کیا، اس نے دنیائے کفر پر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مسلمان جسمِ واحد کی طرح ہیں اور شہید قاسم سلیمانی (رہ) کی شکل میں مسلم امہ نے یہود و نصاریٰ کو عراق و شام کی سرزمین پر شکست سے دوچار کرکے وادئِ دجلہ و فرات تک اسرائیل کے پھیلاؤ کے منصوبے کو خاک میں ملایا ہے! زندگی تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت اور موت کی امانت ہے، لیکن اس طرح کی موت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو انہیں تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ کر جائے! مرنا تو آخر ایک دن ہر کسی نے ہی ہے، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے فیض احمد فیض کے اس شعر کے مصداق شہادت قبول کی ہے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جاں تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں


قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی قبولیت کی بہترین گواہی برطانوی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر برطانوی وزیراعظم جانسن نے یوں دی ہے کہ: "ہم قاسم سلیمانی کے قتل پر افسوس کا اظہار نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ ہمارے مفاد/ ایجنڈے کے خلاف کام کرتا رہا ہے!" مسلمانوں کی زمین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست برطانیہ نے ہی قائم کی تھی اور اس صیہونی ریاست کے توسیع پسندانہ ایجنڈے میں دجلہ و فرات (عراق) تک اسرائیل کی حدود لے جانا شامل ہے۔ شام کی گولان کی پہاڑیوں پر تو پہلے سے ہی اسرائیل قابض ہے اور اگر آپ عرب نقشے کو غور سے دیکھیں تو شام ایک ایسی راہداری ہے، جہاں سے اسرائیل عراق تک پہنچ کر قابض ہوسکتا ہے اور اس تناظر میں اگر آپ عراق و شام میں قائم کروائی گئی داعش اور اس کے ہاتھوں شام و عراق کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور ان کے یورپی اتحادی ممالک نے ابوبکر البغدادی کی نام نہاد خلافت اس علاقے میں قائم کروا کر اس کے نام پر شام سے عراق تک رسائی حاصل کرنے والی راہداری میں مسلمانوں کا بے دردی کے ساتھ قتال کیوں کروایا تھا!

ایسے میں جبکہ عرب اور باقی مسلمان ممالک داعش کے مظالم روکنے سے قاصر تھے اور شام و عراق کی اس پٹی سے مسلمانوں کی آبادی کم کر دیئے جانے کے ایجنڈے کے تحت انسانی ہمدردی، پناہ اور مہاجرت کے نام پر لوگوں کا انخلاء بھی کروایا جا رہا تھا، جو کہ اصل میں اسرائیل سے عراق تک یلغار کو آسان بنانے کی منصوبہ بندی میں شامل تھا، ایران نے عالمِ اسلام کے دفاع کی ذمے داری اپنے سر لی اور داعش کی سرکوبی کرنے کے لئے اپنے ایک باصلاحیت جرنیل قاسم سلیمانی کو محاذ پر بھیجا، جس نے جنگ جیت لینے کے بعد شہادت قبول کرکے یہ بھی ثابت کیا کہ اس کا انتخاب درست طور پر کیا گیا تھا۔ قاسم سلیمانی نے شیعہ یا ایران کی جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف آج کی ایک صلیبی جنگ لڑی ہے، جس میں وہ سرخرو ہوئے، کیونکہ صلاح الدین ایوبی کے وطن پر داعش کی صورت میں جس طرح یہودی و عیسائی قابض ہوچکے تھے، ان سے عراق و شام کا قبضہ چھڑانے کا سہرا قاسم سلیمانی کے سر ہے!

داعش نے جن علاقوں میں اسلام اور جہاد کے نام پر جو انتہائی متنازعہ اقدامات اور انسانیت کے خلاف جرائم کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی تھی، اس کو ناکام بنانے کا کریڈٹ قاسم سلیمانی لے گیا ہے! انہوں نے عراق و شام کے جو علاقے داعش سے آزاد کروائے، وہاں سے مال غنیمت سمیٹا نہ عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان علاقوں کو سلطنت ایران میں مدغم کر دینے کے لئے کشور کشائی کی۔ وہ جہاد اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے عراق و شام میں گئے اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے بے پناہ وسائل کے مقابلے میں کم تر وسائل کے ساتھ کامیاب و کامران ہو کر شہادت قبول کی!
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
ان کی شہادت کے بعد میرے کچھ قریبی ساتھیوں، مہر تنویر دھنیالہ (نمبردار) اور پروفیسر میاں اجمل جمیل (شمس پور، ضلع جہلم)  وغیرہ نے عہد کیا تھا کہ جب ہم ایران جائیں گے تو شہید قاسم سلیمانی (رہ) کی درگاہ/ مزار پر بھی حاضری دینے جائیں گے، ان شا اللہ۔

کچھ ہمارے مسلمان بھائیوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا اپنا جرنیل مروا کر ایران نے خاطر خواہ بدلہ نہیں لیا، اس بارے میں، میں سمجھتا ہوں کہ اتنے سال قاسم سلیمانی یہود و نصاریٰ کے سینوں پہ مونگ دلتا رہا، ان کی بنائی ہوئی داعش کا مکمل خاتمہ کرکے عراق و شام کو واپس لے لیا اور لبنان میں حزب اللہ کا وجود باقی رہنا اور عراق و شام میں شیعہ حکومتوں کو بحال رکھوانا، ایران سے لبنان تک بننے والے ہلال کا جوں کا توں موجود ہونا اور داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی خلافت کی آڑ میں صیہونیوں نے مسلمانوں کو تہہ و تیغ اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا، وہاں اب امن کی زندگی لوٹا دینے کے بعد قاسم سلیمانی کا شہادت کے رتبے پہ فائز ہونا کیا اب بھی ہمیں اپنی شکست لگ سکتا ہے، بھلا؟ اور پھر کیا بدلے کے لئے ایک اور جنگ شروع کرنا خطے اور عالمِ اسلام کے اپنے مفاد میں ہے۔؟ میرے خیال میں قاسم سلیمانی عالمی استعمار کو بہت زیادہ زِک پہنچا کر شہید ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید قاسم سلیمانی کے درجات بلند فرمائے اور آئندہ کی یہودی و نصرانی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کا نعم البدل عطاء فرمائے اور ہمیں اتحادِ امت کا داعی بننے کی توفیق عطاء فرمائے!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر!

عراقی دارالحکومت بغداد کے شہریوں نے امریکہ مخالف اپنے ملین مارچ کا آغاز پل الطابقین سے کیا اور اس کا عنوان "انقلاب عشرین عراق" رکھا ۔ مظاہرین اپنے ہاتھوں میں عراقی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور ایک ساتھ مل کر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا نعرہ لگا رہے تھےغاصب امریکی فوجیوں کے خلاف ہونے والے عراقی عوام کے ملین مارچ میں مختلف بینروں اور پوسٹروں کے ساتھ عراقی قبائل کی خواتین بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کی موجودگی نہایت پرشکوہ اور عظیم الشان تھی۔بہت سے پوسٹروں اور بینروں پر انگریزی میں "گو آؤٹ امریکا"  لکھا ہوا تھا اور امریکی فوجیوں اور صدر ٹرمپ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے عراق سے امریکی فوج  کے فوری انخلاء کا مطالبہ کیا گیا ہے-بعض پوسٹروں اور بینروں پر امریکی صدر ٹرمپ کی ذلت آمیز تصویریں بنی ہوئی تھیں جس میں دکھایا گیا کہ ٹرمپ کو کس ذلت کے ساتھ عراق سے باہر نکال دیا گیا ہے ۔عض پوسٹروں پر دہشتگرد گروہ داعش کے سرغنہ کی بھی تصویریں چھپی ہوئی تھیں اور ان پر امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہوا تھا کہ: داعش کو تم نے جنم دیا ہے۔
بہت سے مظاہرین کفن پوش تھے اور ان کے ہاتھوں میں عراق کا پرچم اور ایسے بینر اور پلے کارڈز تھے جن پر ٹرمپ اور امریکی حکومت سے نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہوں ، دینی شخصیات اور سیاسی و قومی رہنماؤں نے عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے خلاف مظاہروں کو قومی اقتدار اعلی کا دن جبکہ بعض رہنماؤں نے اسے انیس سو بیس کے انقلاب عشرین اور عراق سے برطانوی سامراج کے ذلت آمیز انخلاء سے مشابہ قرار دیا ہے۔۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں کئی ملین عراقیوں نے عراقی حکومت سے امریکہ کے ساتھ تمام سکیورٹی معاہدوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہو‏ئے عراق سے امریکہ کی دہشت گرد فوج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں عراق میں امریکی فوج کی موجودگی اور اس کی دہشت گردانہ اور معاندانہ پالیسیوں کے خلاف عراقی عوام نے ملین مارچ میں حصہ لیا ۔ یہ مارچ عراق کی ممتاز شخصیات خاص طور پر ممتاز عالم دین مقتدی صدر کی دعوت پر منعقد ہوا۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ملک کے مختلف شہروں سے کئی ملین افراد نے اس مارچ میں حصہ لیا ،امریکہ مخالف  احتجاج کے شرکاء نے عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے مکمل خاتمہ کا مطالبہ کیا ۔ امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں عراق کے سبھی پیر و جواں ، عورتیں ، بچے اور قبائل نے شرکت کی ۔ ذرائع کے مطابق بغداد کی سڑکوں پر آج عوامی سیلاب امڈ آیا ہے بغداد کی سڑکوں پرعوامی حضور کے شاندار جلوے دکھائی دے رہے ہیں۔ بغداد کی فضائیں امریکہ مردہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔

ادھر عراق کے صدر برہم صالح نے اپنے ایک ٹوئیٹ پیغام میں کہا ہے کہ عراقی عوام مستقل ملک کے خواہاں ہیں عراقی عوام اپنے ملک کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں اور عراقی عوام اپنے ملک میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق بغداد میں آج کا عظيم الشان عوامی احتجاجی مظاہرہ امریکی مداخلت کے خلاف عراقی عوام کا ریفرنڈم ہے ۔ عراقی عوام عراق میں امریکی مداخلت کے بالکل خلاف ہیں اور وہ عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ امریکی فوج عراق اور خطے میں دہشت گردی کے فروغ کا اصلی سبب ہے۔

عراق کی سیاسی جماعت فتح اتحاد کے سربراہ ہادی العامری نے عراق میں امریکہ کے خلاف کئی ملین افراد کے مارچ اوران کی طرف سے امریکی فوج کے انخلا کے مطالبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو عراقی عوام کے مطالبہ کا احترام کرتے ہوئے عراق سے خارج ہوجانا چاہیے۔

ہادی العامری نے ملین مارچ میں عراقی عوام کی بھر پور اور وسیع شرکت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عراقی عوام نے اپنا پیغام امریکہ کو پہنچا دیا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ عراقی عوام کو اپنے تحفظ کے لئے امریکی فوج کی کوئی ضرورت نہیں ، امریکہ کو عراقی عوام کے اس پیغام کا احترام کرنا چاہیے اور عراق سے فوری طور پر اپنے فوجیوں کو نکال لینا چاہیے۔

Sunday, 19 January 2020 21:00

جینٹلمن دہشتگرد

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطبہ نماز جمعہ میں امریکہ اور یورپ سے مذاکرات کے خواہاں افراد کو خبردار کیا اور فرمایا:جو لوگ مذاکرات کی میز پر آکے بیٹھتے ہیں، یہ وہی دہشتگرد ہیں جو بغداد ایئرپورٹ واقعے کے ذمہ دار ہیں!

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی دارالحکومت تہران میں جمعے کی نماز کے پرشکوہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شہید جنرل قاسم سلیمانی، ابومھدی المھندس اور انکے ساتھی شہداء کے تشیعِ جنازہ کے دن جس میں لوگوں نے معجزہ آسا انداز میں شرکت کی اور سپاہ پاسداران ایران کیطرف سے امریکی فوجی اڈے پر جوابی کارروائی کے دن کو دو "ایام اللہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم نے میدان میں اپنی اس حاضری کے ذریعے اپنے روشن ضمیر یعنی شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت اختیار کرنے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے جبکہ اس عزت آفرین رَستے کے جاری رکھے جانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ خود کو طاقتور بنانا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطبے کا آغاز اللہ تعالی کیطرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو "ایام اللہ" کی یاددہانی پر مبنی سورۂ ابراہیمؑ کی آیات سے کیا اور کہا کہ صابر لوگ وہ ہیں جو صبرواستقامت کے پیکر ہیں اور کسی طور بھی میدان سے خارج نہیں ہوتے جبکہ شاکر وہ ہیں جو اللہ تعالی کی کھلی اور پوشیدہ نعمتوں کی قدر کرتے اور ان کے جواب میں اپنی ذمہ داری کا پورا احساس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ایام اللہ" یعنی جس واقعے میں الہی قدرت کی جھلک ہو، لہذا سپاہِ پاسداران کے کمانڈر کا خون طلب کرنیکی خاطر ایران میں ملین ھا جبکہ عراق اور دوسرے ممالک میں لاکھوں لوگوں کا سڑکوں پر آ جانا اور شہداء کے اجساد کو دنیا کے سب سے بڑے اور بیمثال وداعی اجتماع میں رخصت کرنا ایام اللہ کی مثالوں میں سے ہے کیونکہ اس عظمت کیلئے الہی قدرت کے سوا کوئی اور محرک موجود نہیں تھا۔ انہوں نے امریکی فوجی اڈے پر سپاہ پاسداران کیطرف سے میزائلوں کی بارش کو بھی ایام اللہ کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی قوم کا ایسی جرأت اور روحانی طاقت کیساتھ ایک عالمی متکبر اور بدمعاش قوت کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کرنا الہی دستِ قدرت کو ظاہر کرتا ہے لہذا وہ دن بھی ایام اللہ میں سے ایک ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر اور مسلح افواج کے چیف کمانڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے نمازِ جمعہ کے اپنے خطبے میں کہا کہ ان مجاہدین کے تشیع جنازہ کے علاوہ خود انکی شہادت بھی الہی آیات میں سے ایک ہے کیونکہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت  پورے خطے میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے مشہور اور طاقتور ترین کمانڈر کی شہادت ہے جو کہ اس بےآبرو امریکی حکومت کی مزید رسوائی کا سبب بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اس بہادر مجاہد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کیلئے اسکے سامنے میدان میں نہیں آئے بلکہ انہوں نے چوری چھپے اور بزدلانہ طریقے سے یہ جرم انجام دیا ہے جو انکی کہیں زیادہ رُسوائی کا سبب بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل عراق اور افغانستان میں بھی امریکیوں نے بیشمار جرائم انجام دیئے ہیں اور بےانتہاء قتل و غارت کی ہے لیکن اس دفعہ خود امریکی صدر نے اپنی زبان سے کہہ دیا کہ "ہم دہشتگرد ہیں" جس سے بڑھ کر کوئی اور بدنامی ممکن نہیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی اور برطانوی حکام کیطرف سے ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اس کے نتیجے میں چند روز قبل ہونے والے ہنگاموں کیطرف اشارہ کیا جس میں برطانوی سفیر کے ہمراہ چند لوگوں نے تہران کی ایک یونیورسٹی کے سامنے شہید قاسم سلیمانی کی تصاویر نذر آتش کی تھیں، اور کہا کہ کیا وہ چند لوگ جنہوں نے ہمارے اس باافتخار اور عظیم سپہ سالار کی تصاویر کی بےحرمتی کی تھی، ایران کی عوام ہیں اور یہ عظیم جمعیت ایران کے عوام نہیں جو شہید قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ امریکی کبھی ایرانی قوم کیساتھ کھڑے نہیں ہوئے مگر صرف اور صرف ایرانیوں کے سینے میں زہرآلود خنجر گھونپنے کیلئے تاہم تاحال وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہو پائے اور نہ ہی وہ اس کے بعد کوئی اور غلطی کر پائیں گے! انہوں نے کہا کہ انتقام کی فریاد ایران کے گوش و کنار سے اٹھی تھی اور دراصل وہی اُن میزائلوں کا ایندھن تھی جنہوں نے امریکی فوجی اڈے کو تہس نہس کر دیا۔ انہوں نے یورپی حکمرانوں کے بے اعتماد ہونے اور انکے ساتھ مذاکرات کے بےفائدہ ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جنٹلمین جو مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں، دراصل بغداد کی ایئرپورٹ کے دہشتگرد ہیں جنہوں نے اپنا حلیہ بدل رکھا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے سپاہِ پاسداران کیطرف سے امریکیوں کو ابتدائی جواب کے دیئے جانے کو ظالم اور متکبر امریکی حکومت کے رُعب و دَبدبے کو مٹی میں ملا دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ دراصل اُنکی اصلی سزا خطے سے اُنہیں نکال باہر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن نے اندھے پیسے، غیرذمہ دار لوگوں اور شیطانی پراپیگنڈے کے ذریعے ایران اور عراق کی عظیم قوموں کو ایکدوسرے سے بدگمان کرنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن اس عظیم شہادت نے انکی تمامتر شیطانی سازشوں اور وسوسوں کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ان شیطانی قوتوں کو عوامی تحریکوں کے وجہ سے مجبور ہو کر کسی ملک سے نکلنا پڑا تو انہوں نے اپنی پوری طاقت اس ملک کیخلاف سازشوں، جاسوسی اور سیاسی و اقتصادی قبضے میں صَرف کر دی جبکہ یہی وہ قوتیں ہیں جنہوں نے مغربی ایشیائی ممالک کے درمیان اس خطے کے قلب میں ایک ایسا صیہونی ناسور بھی بنایا ہے جو تمامتر ممالک کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کا میڈیا ایران پر پراکسی وار کا الزام عائد کرتا ہے درحالیکہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے اور خطے کی قومیں اب بیدار ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے کا روشن مستقبل، امریکی قبضے سے اسکی آزادی اور صیہونی حکمرانی سے فلسطین کی آزادی میں مضمر ہے جو انہی قوموں کی ہمت سے عنقریب حاصل ہو جائیگا۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے عالم اسلام سے تفرقہ اور اختلاف کے اسباب کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے "جدید اسلامی طرز زندگی میں مسائل کے حل کیلئے علمائے دین کے اتحاد"، "علم و ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور جدید اسلامی تمدن کی بنیادیں ڈالنے کیلئے اسلامی یونیورسٹیز کے باہمی تعاون"، "عوامی تمدن کی اصلاح کیلئے اسلامی میڈیا کی باہمی ہم آہنگی"، "خطے سے جنگ اور جارحیت کو دور کرنے کیلئے خطے کی اسلامی مسلح افواج کے درمیان نزدیکی رابطے"، "خطے کے اسلامی ممالک کی معیشت کو غارتگر اور لٹیری کمپنیوں کے قبضے سے باہر نکالنے کیلئے اسلامی منڈیوں کے آپسی رابطے" اور "خطے کی مسلمان عوام کی آپسی آمد و رفت، ایکدوسرے کی زبان سمجھنے، ہمدردی، اتحاد اور دوستی میں اضافے" کو مسلمانوں کے درمیان سے تفرقہ ختم کرنے اور انکے درمیان اتحاد و اتفاق کو رائج کرنے کے اسباب قرار دیا اور انکے حصول پر زور دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومھدی المھندس اور سپاہ پاسداران کے عظیم سپہ سالار جنرل قاسم سلیمانی کی علی الاعلان ٹارگٹ کلنگ کو عراقی سرزمین پر امریکہ کا عظیم ترین فتنہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ عراق کے اندر اپنے پلید مقاصد کے حصول کیلئے وہاں فتنہ، خانہ جنگی اور بالآخر عراق کو تقسیم کر کے وہاں موجود مومن، جانثار، مجاہد اور وطن دوست افواج کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکی انخلاء کے بارے میں عراقی پارلیمنٹ کے حکم کے سامنے امریکیوں کے گستاخانہ اظہارات کو امریکی فتنہ انگیزیوں کی ایک اور مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جو خود کو جمہوریت کا حامی ظاہر کرتے تھے، آج اپنی تمامتر مکاریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ عراق سے نکلنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے تمامتر مسلمان اقوام کو مخاطب کر کے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا کو اب تاریخ کا نیا صفحہ پلٹنا ہے اور تمامتر اقوام کے اندر زندہ ضمیر، مومن قلب اور خوداعتمادی کو جگانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ اقوام کی نجات کا واحد راستہ تدبیر، مزاحمت اور دشمن سے نہ ڈرنا ہے۔

تحریر: ساجد علی گوندل


اقتدار کا نشہ بھی عجیب نشہ ہے۔ انسان کو اس قدر مست کر دیتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور کیا ہے۔ اس کی مستی نے انسان سے ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ تک کا دعویٰ کروایا۔۔۔۔ کبھی قتل کروائے۔۔۔ تو کبھی بھری و آباد بستیوں کو ویران بنایا۔۔۔ حتیٰ بھائی نے بھائی کا خون پیا۔ یہ ایک ایسی مستی ہے کہ جس کے سامنے ماں، باپ، بھائی، بہن جیسے رشتوں کے کوئی معنی نہیں۔۔۔ یہ نشہ بس خون اور ویرانی کا طلبگار ہے اور اگر اس کے ساتھ مال و دولت کا درخت بھی رُشد کرنے لگے۔۔۔ کہ جو کبھی پھل دار نہیں ہوتا اور ہمیشہ پیاسہ ہی رہتا ہے۔۔۔ تو انسان کے اندر بغاوت اور سرکشی کا عنصر پنپنے لگتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر کوئی ان دونوں کے چنگل سے بچ نکلے تو تمدن سے کوسوں دور دراز صحراوں کی طرف سے ۔ خرقہ پہنے۔۔۔ درویشانہ انداز میں کوئی ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے باطل تفکرات کی ڈوریاں۔۔۔ تجسمِ حق کو لمس کرتے ہوئے پھر باطل کی طرف مڑ جاتی ہیں، کہ جن کی حقیقت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے دور سے نظر آنے والے صحرائی منظر میں پانی کی حقیقت۔

وہ اپنے نرم و ملائم اور تظاہرانہ صداقت پر مبنی بیانات سے معاشرے کو علم کے قالب میں جہالت بیچتا ہے اور اس کے غلیظ خطابات کی گرد فضاء کو اس قدر آلودہ کرتی ہے کہ نہ تو لوگ اس میں اپنی آنکھیں کھول پاتے ہیں اور نہ ہی درست سمت میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ درحقیقت معاشرہ اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے کہ ’’وہ نہیں جانتا‘‘ کہ جسے علمِ لاجیک میں جہل مرکب کہا جاتا ہے اور نتیجتاً بند آنکھوں سے چلتے چلتے وہ کسی گہری کھائی میں جا گرتے ہیں۔ لہذا جب معاشرے میں فرعون و آل فرعون جیسے افراد، قدرت و اقتدار کے نشے میں مست ہوں۔۔۔ قارون اور اس کے حواری جب دولت و ثروت کے بل بوتے پر علم بغاوت بلند کر لیں۔۔۔ اور پھر معاشرے میں کچھ بچی کچھی انسانی اقدار کو سامری جیسے افراد پامال کر دیں، تو خدا کو موسیٰؑ جیسے نبی کو بھیجنا پڑتا ہے، تاکہ وہ ان کو شرافت کا درس دے اور بہتے دریا میں سے راستہ بنا کر ان کو ذلت کے پانیوں سے عزت کے ساحل تک لے جائے۔

کہا موسیٰؑ ’’ان ائت القوم الظالمین۔۔۔ قوم َفرعون‘‘[1] آل فرعون کی طرف جاؤ۔۔۔ وہ سرکش ہوچکی ہے۔۔۔ اور کیا بنی اسرائیل کی آہ و بقاء تم تک نہیں پہنچ رہی۔۔۔ کہ آل فرعون ’’یذبحون ابنائھم و یستحیون نسائھم‘‘ وہ ان کے بچوں کو ذبح کر رہے ہیں۔۔۔ ان کی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔۔۔ فرمایا جاؤ۔۔۔ فرعون و قارون کی جانب۔۔۔ ’’استکبروا و کانوا قوما مجرمین‘‘[2] انہوں نے کبریائی کا دعویٰ کیا ہے۔۔۔ لہذا جاؤ۔۔۔ اور ان کے جھوٹے دعوے کو سر سے پکڑ کر زمین پر دے مارو۔۔۔ اور اس کا سر پھوڑ دو۔۔۔۔ لہٰذا جب بھی قوموں پر ایسا وقت آتا ہے۔۔۔ تو ایک موسیٰ کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو مجسمہ کبر کو پکڑ کر سر کے بل زمین میں گاڑ دے۔ سوال یہاں ہے کہ کیا آج اس امت کو موسیٰ کی ضرورت نہ تھی۔۔۔؟ کیا آج کل ِاستعمار، امریکہ اور اس کے حواری، نمادِ قدرت و اقتدار نہیں ہیں۔۔۔؟ کیا انہوں نے کبر و بڑائی اور سپرپاور ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔۔؟

کیا آج اسرائیل اور اس کے کارندے نمادِ دولت و ثروت نہیں۔۔۔؟ کہ جو ناجائز طور پر زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر کب سے خون بہیں۔ ا رہے ہکیا آج طالبان، النصرہ، داعش اور کچھ عرب ممالک کہ جو اپنی مکاریوں کو چھپانے کے لئے اسلام کی چادر اڑھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ سامری کی طرح آج بھی فریب و مکر کا واضع نمونہ نہیں ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔ ہاں جنرل قاسم سلیمانی وہ موسیٰ زماں ہیں کہ جس نے آج کے فرعون (امریکہ) کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور زمانے کے قارون نما اسرائیل کی خون آلودہ دولت کا حقیقی چہرہ لوگوں پر عیاں کیا۔ آج کے سامری کردار طالبان، داعش اور اسلام کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف عملی میدان میں۔۔۔ ان کے بنائے ہوئے گوسالے کو آگ لگا کر اس کی راکھ  کو دریا میں بہا دیا۔

یاد رہے ایک حق موسیٰ کا تھا کہ جو اس نے ادا کر دیا اور ایک حق بنی اسرائیل کے ذمے ہے۔۔۔ کہ وہ میدان نہ چھوڑے۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں موسیٰ زماں مبارزے کے لئے پکارے تو ہم یہ کہتے ہوئے نظر آئیں کہ۔۔۔ موسیٰ ۔۔’’ان فیھا قوما جبارین و انا لن ندخلھا حتی یخرجوا منھا‘‘[3] وہ کہاں اور ہم کہاں۔۔۔ وہ امریکہ ہے، اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔۔۔۔ وہ سپرپاور ہے۔۔۔ ہم اس سے نہیں لڑ سکتے۔۔۔۔ ہاں تم جاؤ لڑو، ہم بس بیٹھ کر تبصرے کریں گے۔۔۔۔ ہاں اگر وہ خود ہم پر عنایت کر دیں تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔ اور ہمیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ آج کا فرعون یمن، شام، فلسطین و کشمیر میں ہماری بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہا ہے۔۔۔۔ کیونکہ وہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ وہ تو شام کا مسئلہ ہے۔۔۔ وہ فلسطین و کشمیر کا مسئلہ ہے اور ہمارا اس سے بھی کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے کہ کل کے فرعون کی طرح آج کا فرعون بھی ہمارے بچوں کو زندہ درگور کر رہا ہے۔۔۔ گلے کاٹ رہا ہے۔۔۔ جسموں کے ٹکڑے کر رہا ہے۔۔۔ اور جو بچ گے ہیں، ان کو ایسے تعلیمی نظام کی نذر کر دیا کہ جس نے ان کو زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ بقول شاعر
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

شاید آج بھی ہم وہی بنی اسرائیل ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ اے موسیٰؑ ہم میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں۔۔۔ مگر ہم بھول گے کہ موسیٰؑ کون ہے۔۔ وہ کہ جس پر ایمان ہو تو دریا رستہ دیتے ہیں اور اگر صرف اپنی طاقت پر گھمنڈ ہو تو وہی دریا اس طاقت و گھمنڈ کو عبرت کا نشاں بنا دیتے ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کے فرعون کا غرور بھی جنرل قاسم سلیمانی کے خون میں دفن ہوگیا۔ جب موسیٰؑ کے اژدھا نے جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل لیا۔۔۔ تو سب سجدے میں گر گئے اور کہا کہ ہم موسیٰؑ و ہارونؑ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسے ہی فرعون نے یہ سنا تو کہا کہ میں مخالف سمت سے تمہارے ہاتھ اور پاوں کٹوا دونگا۔۔۔کہا۔۔۔’’ لا ضَیرَ (لنا)‘‘[4] ہم اس سے نہیں ڈرتے۔۔۔ حق ہم پر نمایاں ہوچکا ہے۔۔۔۔ ہم موسیٰؑ کو نہیں چھوڑنے والے۔ تو کیا آج امت مسلمہ پر حق واضح نہیں ہوا۔۔۔؟ کیا اس خون کے بعد بھی کوئی حجت باقی ہے۔۔۔؟  کیوں آج بھی ہم میں بہت سارے افراد ایسے ہیں کہ جو زمانے کے فرعون امریکہ کی اس کھوکھلی دھمکی ’’لاصلبنکم فی جذوع النخل‘‘[5] سے سہم ہوئے ہیں۔

کیا ان کو اصحاب فیل کا واقع یاد نہیں۔۔؟ یا پھر کل کے آل قارون کی طرح وقت کے قارون یعنی اسرائیل اور اس کے حواریوں کے ناپاک مال سے بنایا گیا سامری کا گوسالہ۔۔۔ لوگوں کے ضمیروں کو سلائے ہوئےہے۔۔؟ بقول قرآن ۔۔۔’’من زینۃالقوم‘‘[6] یعنی وہ گوسالہ آل قارون کے مال سے بنایا گیا تھا۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ فرعون ہو، قارون ہو یا مکار سامری، کبریائی کی ردا فقط خدا کے لیے ہے۔۔۔ لہذا ایران کا عین الاسد ائیر بیس پر حملہ کرکے امریکہ کے غرور کو خاک میں ملانا، عیناً قرآنی لب و لہجہ ہے۔۔۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں جیسے قارون اپنے مال و اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا۔۔۔۔ اسی طرح عنقریب اسرائیل بھی اپنے حواریوں سمیت عبرت کا نشان بنے گا اور آخر میں یہ کہ جیسے موسیٰ ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخصیت کا نام ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح قاسم سلیمانی بھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک مشن کا نام ہے اور وہ مشن یہ ہے کہ اب امت مسلمہ کو اپنے اختلافات بھلانے ہوں گے۔۔۔۔ اتحاد کے دامن کو تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی اور دشمن کو بتانا ہوگا کہ ہماری قوم کا ہر جوان کل کا موسیٰ اور آج کا قاسم سلیمانی ہے کہ جو فرعون، قارون اور سامری جیسے کرداروں سے لڑنے کا  بھرپور جذبہ رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ شعرائ ۱۱
[2]۔ یونس ۷۵
[3]۔ مائدہ ۲۲
[4]۔ شعرائ ۵۰
[5]۔ طہ ۷۱
[6]۔ طہ ۸۷