سلیمانی

سلیمانی

مقاومت و مزاحمت کے شہید کمانڈروں شہید شیخ راغب حرب، شہید سید عباس موسوی اور شہید حاج عماد مغنیہ کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے مقاومت و مزاحمت کے دشمنوں کے مقاصد کی وضاحت و تشریح کی ہے۔ سید حسن نصر اللہ  کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ دشمن کو ایران کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایرانی بلوؤں اور فسادات میں دشمن کے مقاصد پورے نہ ہونے کے بعد اس نے انقلاب اسلامی ایران کی فتح کی سالگرہ میں لوگوں کی شرکت کو وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش کی، لیکن لوگوں کی بے مثال حاضری دشمن کی شکست کا سبب بنی۔ سید حسن نصر اللہ نے اس سلسلے میں کہا: "جن لوگوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو ختم کرنے کا حساب لگایا، ان کا حساب وہم و خیال پر مبنی تھا نہ کہ حقیقت پر، یہی وجہ ہے کہ ان کا حساب غلط اور اندازہ ناکام رہا اور ان کے تخمینوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔"

سید حسن نصراللہ کے بقول ایران میں لاکھوں افراد پر مشتمل عوامی مظاہرے ملک کا شیرازہ بکھیرنے والوں کے دعویداروں کے جھوٹے دعؤوں کا سخت ردعمل اور عملی جواب تھا۔ سید حسن نصراللہ کی تقریر کا دوسرا نکتہ لبنان کے خلاف دشمن کے اہداف پر مرکوز تھا۔ صیہونی حکومت کا کاریش فیلڈ کا یکطرفہ اور غیر قانونی استعمال لبنان کے خلاف دشمن کے اقدامات میں سے ایک ہے۔ اسرائیل اور لبنان نے گذشتہ اکتوبر میں کاریش فیلڈ سے متعلق سمندری سرحدی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم نیتن یاہو کی کابینہ کی طرف سے تاخیر اور لیت و لعل اور اس معاہدے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اس معاہدے سے لبنان کو اقتصادی میدان میں کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے اس سلسلے میں کہا کہ اگر ہم پر ثابت ہو جائے کہ لبنان میں تیل اور گیس نکالنے کے معاملے میں تاخیر اور جھوٹے وعدے ہو رہے ہیں تو ہم صیہونی دشمن کو کاریش فیلڈ سے گیس نکالنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے اور ہم اس حوالے سے کسی قسم کی تاخیر کے خلاف خبردار کرتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کے خطاب کا ایک اور اہم محور لبنان میں افراتفری اور بدنظمی کا پیدا ہونا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا خیال ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت لبنان میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ایک طرف صیہونی حکومت کو اندرونی بحران کا سامنا ہے اور دوسری طرف لبنان کے اندرونی حالات میں واشنگٹن کی مداخلت کابینہ کی تشکیل اور نئے صدر کے تعارف میں سیاسی تعطل کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اسی بنیاد پر سید حسن نصر اللہ نے لبنان میں افراتفری کے نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ  "امریکیوں کو جان لینا چاہیئے کہ اگر وہ لبنان کو انتشار کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور جہاں امریکہ کو تکلیف پہنچے گی، وہیں ضرب لگائیں گے۔" اور اگر ایسا ہوا تو ہم آپ کے پیارے "اسرائیل" کے ساتھ جنگ ​​کے آپشن پر جائیں گے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ میں امریکیوں سے کہتا ہوں کہ اگر آپ لبنان میں افراتفری اور گڑبڑ پھیلانا چاہتے ہیں تو آپ کو پورے خطے میں افراتفری کی توقع رکھنی چاہیئے۔ میرا مطلب ہے اسرائیل میں۔" سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ لبنان کے خلاف دشمن کا ایک اور اہم ہدف عوام کو موجودہ حکام اور لبنان کی حزب اللہ سے بے اعتمادی پیدا کرنا ہے۔ ماضی میں اس مقصد کا تعاقب کیا گیا تھا اور اب بھی یہ ایک سنجیدہ ہدف کے طور پر ایجنڈے پر ہے۔

درحقیقت دشمن حزب اللہ کو لبنان میں مسلسل سیاسی تعطل اور اقتصادی مسائل کا باعث قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس تناظر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کی ہے کہ "2019ء کے بعد سے لبنان کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکہ کی نئی کوششوں کے بعد، ہمارے ملک کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس وقت کے امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے صرف تباہی اور بدعنوانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد رائے عامہ میں جوڑ توڑ پیدا کرنا ہوتا ہے، تاکہ لوگوں کا اپنے لیڈروں پر سے اعتماد اٹھ جائے اور آج یہی کام امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن لبنان میں کر رہے ہیں۔"

تحریر: سید رضی عمادی

دوسروں کے آئی ڈی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے افریقی یونین کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کرنے والے صیہونی حکومت کے وفد کو انتظامیہ اور سکیورٹی اہلکاروں نے کانفرنس ہال سے نکال باہر کر دیا۔ اسرائیلی وفد کا دعویٰ تھا کہ اسے اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ دیا گیا ہے تاہم وہ اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں کر پایا اور اُسے خفت و خواری اٹھاتے ہوئے مجمع کے درمیان سے باہر نکلنا پڑا۔ یہ وفد صیہونی دارالحکومت تل ابیب سے ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس آبابا پہنچا تھا۔

- رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے واضح اور کھلے موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطینی قوم سے واضح حمایت اور دفاع کے علاوہ فلسطینی عوام کی کسی مدد کو جاری رکھیں گے۔

یہ بات سید علی خامنہ ای نے عید مبعث پیامبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مناسبت سے آج صبح تہران کے حسینہ امام خمینیؒ میںقرآن کے بین الاقوامی مقابلوں میں شریک  ایرانی حکام، غیرملکی نمائندے ، سفراء اور مہمانوں سے ملاقات کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایران کے عوام، امت مسلمہ اور پوری دنیا کے حق پرستوں کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کی۔

انھوں نے بعثت نبوی کو، انسانیت کے لیے اللہ کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی تحفہ اور نعمت الہی بتایا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے خزانوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ توحید اور غیر خدا کی بندگي سے رہائي، بعثت کا سب سے عظیم خزانہ ہے کیونکہ پوری تاریخ میں جو بھی جنگ، جرائم اور خباثتیں ہوئي ہیں، ان کا سبب غیراللہ کی بندگي ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعثت نبوی کے عظیم اور کبھی نہ ختم ہونے والے خزانوں سے استفادے کو، امت اسلامیہ کی تمام مشکلات کا علاج اور دنیا و آخرت میں اس کی کامرانی کا راستہ بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بعثت کے خزانوں کی تشریح کے لیے قرآن مجید کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے استقامت کو ہر مقصد کے حصول کی راہ بتایا اور کہا کہ عدل و انصاف کا قیام بھی اللہ کے بے نظیر تحفوں میں سے ہے جو بعثت نبوی کی نعمت کے سائے میں انسان کو عطا ہوا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے معاشرے کے افراد کے درمیان پیار، محبت، اپنائيت اور خلوص کو بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک اور گرانقدر تحفہ بتایا اور کہا کہ دنیا کے سرکشوں سے اجتناب اور دوری اور جہل، تعصب اور جمود کی تاریکیوں اور زنجیروں سے رہائي، اسلام اور بعثت کے ہزاروں خزانوں میں سے ایک ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعثت کے خزانوں کو نہ پہنچاننا، ان کے سلسلے میں کفران نعمت کرنا اور عمل کے بجائے صرف زبان سے ان پر فخر کرنا، اس بیکراں نعمت کے سلسلے میں انسانی معاشروں کا غلط رویہ رہا ہے اور تفرقہ، پسماندگی اور دوسری متعدد علمی و عملی کمزوریاں، بعثت کے سلسلے میں اس روئے کا نتیجہ ہیں۔

ایرانی سپریم لیڈر نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں انسانی معاشرے کے سب سے بڑے تمدن کی تشکیل کو قرآن مجید کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل آوری کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ آج بھی اگر بعثت اور قرآن کی بے نظیر صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کی کمزوریاں ختم ہو جائيں گي اور اس کی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو جائے گي۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کو امت اسلامی کی اہم کمزوریوں اور زخموں میں سے ایک بتایا اور کہا: ایک ملک اور ایک قوم، عالم اسلامی کی نظروں کے سامنے ایک وحشی، خبیث اور شر پسند حکومت کے بے انتہا اور روزانہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے اور اسلامی حکومتیں اتنی دولت و ثروت، صلاحیت اور توانائي کے باوجود صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو خاص طور پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس خونخوار حکومت سے تعاون بھی کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ملکوں کی کمزوری، صیہونیوں سے تعاون اور ان کے جرائم پر خاموشی کا نتیجہ ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئي ہے کہ امریکا، فرانس اور کچھ دوسرے ممالک، مسلمانوں کے مسائل کے حل کے دعوے کے ساتھ، عالم اسلام میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں جبکہ وہ خود ہی اپنے ملکوں کو چلانے اور اپنے ملکوں کے مسائل کو حل کرنے میں لاچار اور ناتواں ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ اگر پہلے ہی دن اسلامی ملکوں نے نجف کے بزرگ علماء سمیت خیر خواہوں کی بات مانی ہوتی اور غاصب حکومت کے سامنے مضبوطی سے ڈٹ گئے ہوتے تو آج قطعی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے کی صورتحال دوسری ہوتی اور اسلامی امت زیادہ متحد اور مختلف پہلوؤ‎ں سے زیادہ طاقتور ہوتی۔

انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے صریحی اور اعلانیہ موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام کو کسی سے تکلف نہیں ہے اور وہ فلسطینی قوم کی کھلی حمایت کے ساتھ ہی جس طرح سے بھی ممکن ہو اس کی مدد کرے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت کے سبب دشمنوں کی طرف سے ایرانوفوبیا پر توجہ مرکوز کیے جانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وہ حکومتیں بھی، جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی فلسطینی قوم کی مدد کریں، ایرانوفوبیا پھیلا کر اسلام کے دشمن کی آواز سے آواز ملا رہی ہیں۔ انھوں نے مسلم اقوام کے بعثت کی تعلیمات، اتحاد اور ہمدلی کی جانب واپس لوٹنے اور مسلم حکومتوں کی جانب سے دکھاوے نہیں بلکہ حقیقی تعاون کو، امت مسلمہ کی تمام مشکلات کا حل بتایا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بار پھر ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ خطرناک زلزلے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے، جس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے، کہا کہ فلسطین اور امریکا کی مداخلت جیسے سیاسی مسائل کی اہمیت پر ہر حالت میں توجہ دی جانی چاہیے اور امت مسلمہ کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔

اس ملاقات کی ابتداء میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بعثت نبوی کا فلسفہ، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر انسانوں اور انسانی معاشرے کی تعمیر ہے، کہا کہ اسلامی انقلاب کے بعد دشمنوں نے، اسلام کے ابتدائي دور کی طرح ہماری قوم کے سامنے فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی جنگ کے ذریعے صف آرائي کی لیکن ایران کے عوام نے مثالی استقامت کے ذریعے سامراجیوں کی ہر طرح کی سازش کو ناکام بنا دیا۔


  قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔
صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔
یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔
یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے:

١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم

قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔

٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔

٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا

۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔
بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔

٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا

زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔

"انتم الصراط الاقوم والسبیل الاعظم وشهداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء" (زیارت جامعة کبیرة)

 

"آپ ھی صراط اقوام (بہت ھی سیدھا راستہ) ھیں، عظیم ترین راستہ (وسیلہ) اس فانی دنیا کے گواہ، باقی رھنے والی دنیا کے شفیع ھیں۔"
چونکہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت سے زندہ ھیں ان کے علاوہ باقی آئمہ طاھرین علیھم السلام جام شھادت نوش فرما چکے ھیں۔ان میں سے کوئی امام بھی طبعی موت یا کسی بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے نھیں گیا۔ ھمارے آئمہ اطھار شھادت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ھیں۔ سب سے پھلے تو ھمارا ھر امام ھمیشہ اپنے لیے خدا سے شھادت کی دعا کرتا ھے۔ پھر انھوں نے جو ھمیں دعائیں تعلیم فرمائیں ھیں ان میں سے بھی شھادت سب سے پسندیدہ چیز متعارف کی گئی ھے جیسا کہ ھمارا آقا و مولا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں۔ میں بستر کی موت کو سخت ناپسند کرتا ھوں۔ مجھ پر ھزار ٹوٹ پڑنے والی تلواریں اور ھزاروں زخم اس سے کھیں بھتر ھیں کہ میں آرام سے بستر کی موت مروں۔ ان کی دعاؤں میں یھی التجاء ھے، تمناؤں میں یھی تمنا، آرزوؤں میں یھی آرزو، مناجات میں یھی دعا ھے کہ خدا ھمیں شھادت کے سرخ خون سے نھلا کر اپنی ابدی زندگی عطا فرما، غیرت رحمیت، حریت، و عظمت میری زندگی کا نصب العین ٹھرے۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں ھم پڑھتے ھیں کہ:
"انتم الصراط الاقوم، والسبیل الاعظم و شهداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء"
"کہ آپ بہت ھی سیدھا راستہ، عظیم ترین شاھراہ آپ اس جھان کے شھید اور اس جھان کے شفاعت کرنے، بخشوانے والے ھیں۔"
لفظ شھید امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کے ساتھ وقف کیا گیا ھے ھم عام طور پر جب بھی آپ کا نام لیتے ھیں"تو الحسین الشھید"کھتے ھیں اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ صادق اور امام موسیٰ ابن جعفر کا لقب موسیٰ الکاظم اور سید الشھداء کا لقب حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ خاص ھے۔ اس کا یہ مطلب ھر گز نہ لیا جائے کہ ائمہ طاھرین علیھم السلام میں سے امام حسین علیہ السلام ھی شھید ھوئے ھیں؟ اس طرح موسیٰ ابن جعفر کے ساتھ کاظم کا لقب ھے اس کا مقصد یہ نھیں ھے کہ صرف وھی کاظم ھیں، امام رضا علیہ السلام کے ساتھ الرضا کا لقب خاص ھے اس کا یہ معنی نھیں کہ دوسرے ائمہ رضا نھیں ھیں اگر امام جعفر صادق کو صادق (ع) کھتے ھیں تو اس کا یہ مفھوم نھیں ھے کہ دوسرے ائمہ صادق نھیں ھیں۔ یہ سارے کے سارے محمد (ص) بھی ھیں اور علی (ع) بھی ان کی زندگی ایک دوسرے کی زندگی کا عکس ھے۔ تاثیر بھی ایک، خوشبو بھی، ایک سلسلہ نسب بھی ایک مقصد حیات بھی ایک۔

 

جھاد اور عصری تقاضے

یھاں پر ایک سوال اٹھتا ھے کہ تمام ائمہ اطھار علیھم السلام شھید کیوں ھوئے ھیں؟ حالانکہ تاریخ ھمیں بتلاتی ھے کہ امام حسین علیہ السلام کے سوا کوئی امام تلوار لے کر میدان جھاد میں نھیں آیا۔ امام سجاد (ع) خاموشی کے باوجود شھید کیوں ھوئے؟ اسی طرح امام باقر (ع)، امام صادق (ع) امام موسی کاظم (ع) اور باقی تمام ائمہ شھید کیوں ھوئے ھیں؟ اس کا جواب یہ ھے یہ ھماری بہت بڑی غلطی ھوگی کہ اگر یہ سمجھیں کہ امام حسین (ع) اور دیگر ائمہ طاھرین (ع) کے انداز جھاد میں فرق ھے؟ اسی طرح کچھ ناسمجھ لوگ تک بھی کھہ دیتے ھیں کہ امام حسین علیہ السلام ظالم حکمرانوں کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دیتے تھے اور باقی ائمہ خاموشی کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتے تھے۔ درحقیقت اعتراض کرنے والے یہ کہہ کر بہت غلطی کرتے ھیں۔ ھمارے مسلمان بھائیوں کو حقیقت حال کو جانچنا اور پھچاننا چاھیے۔ ھمارے ائمہ طاھرین (ع) میں سے کوئی امام ظالم حکومت کے ساتھ سمجھوتہ نھیں کرسکتا اور نہ ھی وہ اس لیے خاموش رھتے تھے کہ ظالم حکمران حکومت کرتے رھیں۔ حالات و واقعات کا فرق تھا موقعہ محل کی مناسبت کے ساتھ ساتھ جھاد میں بھی فرق ھے۔ کسی وقت ان کو مجبوراً تلوار اٹھانا پڑی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حالات میں سخت گھٹن پیدا ھوگئی، یھاں تک کہ لوگوں کا سانس لینا بھی مشکل ھو گیا تھا۔ اس کے باوجود ھمارے کسی امام نے بھی حکومت وقت کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیا بلکہ وہ ظالموں، آمروں کو بار بار ٹوکتے اور ان کے مظالم کے خلاف آواز حق بلند کرتے تھے۔
آپ اگر ائمہ طاھرین (ع) کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آل محمد (ص) نے ھمیشہ اور ھر دور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوموں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی ھر طرح کی مدد بھی کی۔ جب کبھی ان کی اپنے دور کے حکمران سے ملاقات ھوتی تھی تو وہ اس کے منہ پر ٹوک دیتے تھے۔ آپ کو تاریخ میں یہ کبھی نھیں ملے گا کہ آئمہ اطھار (ع) میں کسی امام نے کسی حکمران کی حمایت کی ھو۔ وہ ھمیشہ مجاھدت میں رھے۔ تقیہ کا یہ مقصد نھیں ھے کہ وہ آرام و سکون سے زندگی بسر کرنا چاھتے تھے تقیہ وقی سے جیسا کہ تقویٰ کا مادہ بھی وقی ھے ۔ تقیہ کا معنی یہ ھے کہ خفیہ طور پر اپنا اور اپنے نظریے کا دفاع کرنا۔ ھمارے ائمہ طاھرین (ع) تقیہ کی حالت میں جو جو کارنامے سرانجام دیتے شاید تلوار ٹھانے کی صورت میں حاصل نہ ھوتے۔ ھمارے ائمہ کی بھترین حکمت عملی، حسن تدبر اور مجاھدت کی زندگی بسر کرنا ھمارے لیے باعث فخر ھے۔ وقت گزر گیا مورخین نے لکھ دیا کہ آل محمد (ص) حق پر تھے۔ ان کا ھر کام اپنے جد امجد رسول اکرم (ص) کے مقدس ترین دین کو تحفظ فراھم کر نے کیلئے تھا۔ آج ان کا دشمن دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک قابل نفرین اور مستحق لعنت ھے۔ صدیاں بیت گئیں۔ عبدالملک مروان، اولاد عبدالملک، عبد الملک کے بھتیجے بنی العباس، منصور دوانیقی، ابو العباس سفاح، ھارون الرشید، مامون و متوکل تاریخ انسانیت کے بدنام ترین انسان شمار کیے جاتے ھیں۔ ھم شیعوں کے نزدیک یہ لوگ غاصب ترین حکمران تھے انھوں نے شریعت اسلامیہ کو جتنا نقصان پھنچایا ھے۔ اس پر ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ھے۔ اگر ھمارے ائمہ طاھرین (ع) ان کے خلاف جھاد نہ کرتے تو وہ اس سے بڑھ کر بلکہ علانیہ طور پر فسق و فجور کا مظاھرہ کرتے، نہ جانے کیا سے کیا ھو جاتا۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مخلص نہ تھےائمہ طاھرین (ع) کے ساتھ مقابلہ کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ظاھری طور پر اسلام کا نام لیتے اور علمی مراکز اور مساجد قائم کر کے لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کرتے کہ وہ پکے اور سچے مسلمان ھیں۔ لیکن ائمہ حق نے نہ صرف ان کے منافقانہ چھروں سے نقاب اٹھا کر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ لوگوں کو بھی راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی۔
اگر آل محمد (ص) ان ظالموں کے خلاف مجاھدت و مقاومت نہ کرتے تو آج تاریخ اسلام میں ان جیسے منافق، خود نما مسلمان حکمرانوں کو اسلام کے ھیرو کے طور پر متعارف کرایا جاتا۔ اگر چہ کچھ اب بھی ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔لیکن مسلمان کی اکثریت تاریخی حقائق کو ان کی بات کی طرف دھیان نھیں دیتی۔ اس نشست میں ھم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شھادت کی وجوھات اور محرکات پر روشنی ڈالنا چاھتے ھیں کہ امام علیہ السلام کو شھید کیوں کیا گیا؟ آپ کو سالھا سال کی قید با مشقت اور اسیری کے انتھائی تکلیف دہ ایام گزارنے کے باوجود آپ کو زھر دے کر شھید کیوں کردیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ھے کہ آپ پر بے پناہ مظالم ڈھانے کے بعد بھی وہ امام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ھوسکے۔ جب وہ ھر طرح سے ناکام و نامراد ھوگئے تو استقامت اور پائیداری کے اس عظیم المنزلت پہاڑ کو بزدلانہ حرکت کے ذریعہ گرانے کی ناکام کوشش کی گئی کہ آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا گیا۔

مؤلف: شھید آیت اللہ مرتضیٰ مطھری -مترجم: عابد عسکری ذرائع: صادقین ڈاٹ کام

قرآن کریم کے ذریعے اللہ کریم نے متعدد بار مومنوں کو باہم جُڑے رہنے اور اتحاد و اتفاق اور نظم پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افتراق اور انتشار کے نقصانات سے بھی خبردار فرمایا ہے۔ کہیں پر مومنین سے فرمایا ہے کہ سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ، کہیں پر تنبیہہ فرمائی ہے کہ اگر تم انتشار میں پڑو گے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ کہیں پر فرمایا ہے کہ اتحاد توڑو گے تو ذلیل و رسوا رہو گے۔ یہ ہدایات تو اجتماعی، قومی اور معاشرتی سطح پر وحدت قائم رکھنے کے لیے ہیں، لیکن دوسری طرف اللہ کریم نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیتے ہوئے برابر حقوق عطا فرمائے ہیں اور ان بھائیوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ باہم محبت اور احسان کیساتھ متحد رہیں۔ اسی طرح اللہ تعالےٰ نے اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے بھی اہل ایمان و اہل اسلام کو یہی مشورہ دیا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے جب ایک مٹھی کی طرح نہیں ہوں گے، تب دشمن پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ اس تسلسل میں کئی غزوات اور جنگوں کے حالات و واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے، جس میں باہمی اتحاد کو کمزور کیا گیا تو پریشانی اور ہزیمت کا سامنا کرنا۔

انہی مثالوں اور واقعات کے ذریعے اللہ تعالےٰ نے مستقبل کے لائحہ عمل کی تشکیل کی طرف متوجہ کیا ہے، تاکہ باہمی مشاورت اور باہمی وحدت کے ذریعے دشمن اسلام و دشمن ایمان کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن سکیں۔ انفرادی سطح پر وحدت، صلہ رحمی، محبت اور اتحاد کی اہمیت کو بھی قرآن کریم نے کئی مقامات پر اجاگر کیا ہے۔ دو بھائیوں کے درمیان اختلاف، انتشار اور نفرت کو ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے اور باہمی جھگڑے کی مذمت کی ہے۔ انفرادی سطح پر بھی مسلمانوں اور انسانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ جھگڑا نہ کریں بلکہ باہم پیار و محبت کے ساتھ شیر و شکر ہو کر زندگی گذاریں۔ اختلاف اور نفرت کے خاتمے اور محبت و اتحاد کے فروغ کے لیے اللہ تعالےٰ نے مسلمانوں کو اس قدر تشویق دلائی ہے کہ دو ناراض بھائیوں اور دو مخالف انسانوں کے درمیان صلح کرانے کے عمل کو پسندیدہ ترین اور احسن عمل قرار دیا ہے۔ صلح اور اتحاد قائم کرانے والے انسانوں اور مومنین کو آخرت اور دنیا میں کامیابی کی نوید دی ہے جبکہ وحدت و محبت قائم کرنے والے انسانوں کو سب سے زیادہ عظیم قرار دیا۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس جس نے قرآنی احکامات اور ہدایات کو بغور پڑھا ہے اور ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی اہل بیت اطہار ؑ کی سیرت ِاطہر سے روشنائی حاصل کی ہے، اس اس ہر شخص نے وحدت اور اتحاد کو قرآنی حکم سمجھ کر اور حکم ِرسول ؐ و آلِ رسول ؐ سمجھ کر اپنے اوپر ذمہ داری عائد کر لی ہے کہ وہ مسلمانوں اور اہل ایمان کے درمیان صلح و اتحاد و اخوت اور وحدت قائم کرنے کی بھرپور سعی کرے گا۔ یوں تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری تاریخ میں ایسی شخصیات کا بہت زیادہ تذکرہ موجود ہے کہ جنہوں نے وحدت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ اسی طرح اجتماعی سطح پر ہونے والی کوششیں اور کاوشیں بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن گذشتہ نصف صدی میں اس کی سب سے بڑی مثال انقلاب اسلامی ایران ہے۔ ایران کی سرزمین پر 1979ء میں برپا ہونے والا یہ مذہبی انقلاب بہت ساری مختلف جہات رکھتا ہے، لیکن ان جہات میں سب سے بڑی جہت وحدت اسلامی کی ہے۔ یہ بات صرف انقلابی حکومتوں اور انقلابی قیادت کے حصے میں آئی ہے کہ جس نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔

رہبر انقلاب حضرت امام خمینی ؒ نے وحدت کو جہاں قرآنی حکم سمجھتے ہوئے اپنایا، وہاں عالم اسلام کے معروضی حالات کا بھی بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ جب تک مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت قائم نہیں ہوگا، تب تک مسلمان ترقی نہیں کرسکتے۔ امام خمینی ؒ نے جب دیکھا کہ اسلام دشمن استعماری قوتیں مسلمانوں کو مسلک اور فرقے کے نام پر لڑا کر نہ صرف منتشر کر رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا رہی ہیں۔ مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا اور مسلمانوں کے درمیان موجود چند فروعی مسائل اور جزوی اختلافات کو ہوا دے کر آپس میں دست بگریبان کیا جا رہا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی کمزوریوں سے منفی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اندر گروہ در گروہ تشکیل کرکے اور اس گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کرکے انتشار کو مزید مستحکم کیا جا رہا ہے تو انہوں نے ایران سے وحدت کی آواز بلند کی۔

اسلامی انقلاب کی وحدت کے حوالے سے مثال اس لئے بھی جداگانہ ہے کہ انقلاب کے قائدین نے سب سے پہلے اپنے گھر یعنی ایران میں وحدت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ انقلاب لانے سے پہلے ہی ایران کے شیعہ، سنی حتیٰ کہ لبرلز اور سوشلسٹ و کیمونسٹ طبقات بھی باہم متحد ہوئے۔ اسی اتحاد کی وجہ سے جب انقلاب اسلامی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا تو حضرت امام خمینی ؒ نے حکومتی اور سرکاری وسائل کو استعمال کرکے نہ صرف ایران میں شیعہ سنی اتحاد کا عملی مظاہرہ فرمایا بلکہ وحدت کی اس آواز کو دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک بالخصوص مسلم ممالک تک پہنچایا۔ وحدت کے قیام کے لیے انہوں نے زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ عملی طور پر اس کار ِخیر اور کارِ عظیم کے لیے باقاعدہ ادارے تشکیل دیئے، جو اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کسی اسلامی ملک نے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر تشکیل نہیں دیئے۔ وحدت کا یہ عمل اور اداروں کی تشکیل کسی کمزوری کے سبب نہیں بلکہ وحدت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے انجام دیا۔

انقلاب اسلامی کی برکات میں سے ایک بہت بڑی برکت مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا فروغ ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے پر درد اور اسلام شناس علماء و فضلاء و اکابرین اور قائدین کو اس مشن کے لیے جمع کرنے کا سلسلہ بھی ایران نے شروع کیا۔ اسلامی انقلاب نے وحدت مسلمین کے لیے اپنے بے پناہ وسائل خرچ کئے۔ عالمی سطح پر متعدد اور مسلسل کانفرنسیں، سیمینارز اور پروگرام منعقد کرائے۔ دنیا بھر میں وحدت کے لیے ہونے والی ہر سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی۔ وحدت کا پیغام ہر اسلامی و غیر اسلامی ملک کے کونے کونے تک پہنچایا۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو جہاں وحدت کی طرف متوجہ کیا، وہاں اسلامی ممالک میں موجود سیاسی بالخصوص دینی جماعتوں کو اتحاد کے قیام کے لیے متحرک کیا۔ دنیا میں اسلامی اتحاد کے لیے بننے والا ہر فورم آج انقلاب اسلامی کا رہین احسان ہے۔ جس کے سبب مسلمانوں کے اندر وحدت و اتحاد کو فروغ مل رہا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں بھی گذشتہ چار دہائیوں سے ہونے والی وحدتی اور اتحادی خدمات کو اسلامی انقلاب کی طرف سے مسلسل حوصلہ افزائی مل رہی ہے۔ امام خمینی ؒ کے براہ راست نمائندہ اور پاکستان کی اسلامی قیادت نے بھی اتحاد کے اس پیغام کو بہت زیادہ قربانیاں دے کر آگے بڑھایا ہے۔ متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل اس کے بڑے مظاہر میں سے ہیں۔ جس کے ذریعہ بدترین حالات میں بھی وحدت کی خوشبو نصیب ہوتی رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے تمام تر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا حل صرف اور صرف اتحاد و وحدت میں مضمر ہے۔ اس کے لیے ہم سب کو جہاں انقلاب اسلامی ایران کا مرہون منت ہونا چاہیئے، وہاں انقلاب اسلامی سے متصل رہ کر ہر ممکن استفادہ بھی کرنا چاہیئے۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
(مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان)

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، چین کے گلوبل ٹائمز اخبار نے ایرانی صدر کے دورہ بیجنگ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے منگل کے روز بیجنگ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایران- چین جامع اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا۔ توقع ہے کہ فریقین اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے کثیر جہتی پلیٹ فارمز کے تحت اپنے رابطوں کو بڑھائیں گے اور علاقائی اور عالمی امن و استحکام کی برقراری میں مثبت کردار انجام دیں گے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی ماہرین کے مطابق ایرانی صدر کے تین روزہ دورہ چین سے دونوں ملکوں کے درمیان 25 سالہ معاہدے پر عمل درآمد میں تیزی آئے گی۔ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات سے دوطرفہ تعاون کو بھی فروغ ملے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے باہمی اعتماد کو تقویت ملے گی۔

مذکورہ چینی اخبار کی رپورٹ میں چین صدر کی اس بات کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے ایران کے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین نے ہمیشہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک نقطہ نظر سے دیکھا ہے اور اسے فروغ دیا ہے۔ بین الاقوامی اور علاقائی حالات جیسے بھی ہوں، چین ایران کے ساتھ مسلسل دوستانہ تعاون کو فروغ دے گا اور ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ چین ایران کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی وقار کے تحفظ میں ایران کی حمایت کرتا ہے اور یکطرفہ تسلط پسندی اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والی اور اس کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی بیرونی طاقتوں کے خلاف ہے۔ چین تجارت، زراعت، صنعت، بنیادی ڈھانچے میں تعاون کو گہرا کرنے کے ساتھ ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت تعاون کو وسعت دے کر تہران کے ساتھ جامع شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

چین کی شنہوا نیوز ایجنسی کے مطابق، دو طرفہ ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے زراعت، تجارت، سیاحت، ماحولیاتی تحفظ، صحت، ریلیف، ثقافت اور کھیلوں کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کی متعدد دستاویزات پر دستخط کیے۔ شنہوا نیوز کے مطابق ایرانی صدر کے دورے کے دوران دونوں فریق ایک مشترکہ بیان جاری کریں گے۔

گلوبل ٹائمز نے مزید کہا کہ ایران کے صدر کے ساتھ ایک بڑی ٹیم ہے جس میں مرکزی بینک کے نئے گورنر اور صدر کی کابینہ کے چھ ارکان جیسے معیشت، تیل، خارجہ امور اور تجارت کے وزراء شامل ہیں۔ چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی کے برعکس خطے کے ممالک بشمول ایران دوسرے ملکوں کے ساتھ متنوع تعلقات کے خواہاں ہیں جو امریکی تسلط سے پاک کثیر قطبی دنیا کی تعمیر کے لیے مثبت اہمیت کا حامل ہے۔

مشرق وسطیٰ کے امور کے لیے چین کے سابق خصوصی ایلچی وو سائک نے منگل کے روز گلوبل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے دورہ چین کا مقصد ایران اور چین کے تعلقات کو مزید فروغ دینا اور جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو نافذ کرنا ہے۔ 2021 میں چین اور ایران نے مختلف شعبوں میں جامع تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے 25 سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے مطابق دونوں فریق اقتصادی اور ثقافتی تعاون کی صلاحیت کو بروئے کار لائیں گے اور طویل مدتی تعاون کا منصوبہ بنائیں گے۔ 25 سالہ تعاون کے پروگرام کو توانائی، تجارت اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں سمیت دیگر معاملات میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر جب امریکہ نے ایران اور چین کے خلاف پابندیاں سخت کیں۔ امکان ہے کہ دونوں فریق اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ اس صورتحال میں عملی تعاون کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔

 شنگھائی انٹرنیشنل اسٹڈیز یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر لیو ژونگمین نے منگل کو گلوبل ٹائمز کو بتایاکہ "بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے بیرونی حالات کی غیر یقینی صورتحال کے باوجود چین اور ایران کے موقف مشترک ہیں۔

گلوبل ٹائمز کا مزید کہنا ہے کہ بعض غیر ملکی میڈیا نے چین اور ایران کے درمیان اختلافات پیدا کیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ دورہ شی جن پنگ کی گزشتہ دسمبر میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا ہے جس میں ایران کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور یہ دورہ دونوں فریقوں کے درمیان تعاون کو بڑھائے گا اور ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششوں کو کمزور کر دے گا اور امریکہ اور چین کے تعلقات پر اس کا زیادہ اثر پڑے گا۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اس سلسلے میں کہا کہ چین اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات اور تعاون کا فروغ دونوں ملکوں کی فلاح و بہبود اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ تعلقات کسی تیسرے فریق کو نشانہ نہیں بناتے۔

گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چینی صدر شی نے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے، تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے علاقائی ممالک کی حمایت اور علاقائی امن و استحکام میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے ایران کی آمادگی کو سراہا۔

صوبہ مشرقی آذربائیجان  سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرمایا کہ قومی اتحاد ملک کو طاقتور بنانے کے لیے ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت کی قدر دانی کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ ان کی مشارکت سے ڈرتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پورے جوش وجذبے کے ساتھ شرکت کی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام  کی مکمل حمایت کا ثبوت پیش کیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی اور صیہونی میڈیا نے اپنے ابلاغیاتی تسلط کے ذریعے پوری کوشش کی کہ ایرانی عوام کی یہ آواز دنیا کی دیگر قوموں تک نہ پہنچے، لیکن یہ آواز امریکہ، برطانیہ اور دشمن کے جاسوسی اداروں کے کانوں تک ضرور پہنچی ہے اور پہنچنا بھی چاہیے تھی۔

ایران کے بارے میں دشمن کے پروپیگنڈے کو کذب محض قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ  پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ایران بند گلی میں ہے اور اسلامی جمہوریہ کے پیر اکھڑ چکے ہیں۔ آپ نے استفسار کیا کہ اگر ایران بند گلی میں ہے اور اس کے پیر اکھڑ چکے ہیں تو پھر اس کو جھکانے کے لیے اتنی بھاری سرمایہ کاری کیوں کی جارہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تمام تر مشکلات کے باجود ایران نے پچھلے تین عشروں کے دوران کافی ترقی کی ہے۔آپ نے ایران کی دفاعی توانائیوں اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بارے میں کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران نے صنعتوں، انفرا اسٹرکچر اور ڈیم سازی اور بہت سے دوسرے شعبوں میں، دفاع سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے لیکن دشمن ان شعبوں میں ترقی سے انکار اور دفاعی معالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واضح کیا کہ عقل اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ایران نے دفاعی معاملات پر بھی پوری توجہ دی ہے اور قرآنی احکامات کے مطابق آئندہ بھی اس میدان میں ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے عوام نے بدخواہوں کے وسوسے پر توجہ دی ہے ، نہ دیں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ طاقتور ایران کی جانب سے  اٹھایا جانے والا ہر قدم دشمنوں میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے  فرمایا کہ قومی اتحاد ملک کو طاقتور بنانے کے لیے ضروری ہے البتہ ملک میں اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے اور اس پر مباحثہ اور مناظرہ اچھی بات ہے  مگر اختلاف رائے کو تنازعہ کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین کسی بھی علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال سے قطع نظر ایران کے ساتھ اپنی دوستی اور تعاون کو جاری رکھے گا۔ ان خیالات کا اظہار چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے ایرانی ہم منصب سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات میں کیا جو منگل کی صبح ایک اعلیٰ سیاسی و اقتصادی وفد کے ہمراہ بیجنگ پہنچے تھے۔

شی جن پنگ نے صدر ابراہیم رئیسی سے کہا کہ چاہے بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال کتنی بدل جائے، چین غیرمتزلزل انداز میں ایران کے ساتھ اپنی دوستی اور تعاون کو برقرار رکھے گا اور چین ایران جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو آگے بڑھائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین قومی خودمختاری، آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی وقار کے تحفظ اور یکطرفہ تسلط پسندی کے خلاف مزاحمت میں ایران کی حمایت کرتا ہے۔

چینی صدر نے کہا کہ دنیا، وقت اور تاریخ میں موجودہ پیچیدہ تبدیلیوں کے پیش نظر چین اور ایران نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور یکجہتی اور تعاون کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔

دریں اثنا چینی صدر نے کہا کہ بیجنگ بیرونی طاقتوں کی ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور ایران کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی مخالفت کرتا ہے اور ایرانی جوہری مسئلے کے جلد اور مناسب حل کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھے گا۔

صدر شی نے ایران کے ساتھ تجارت، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کے بیجنگ کے عزم پر بھی زور دیا۔

یاد رہے کہ قبل ازایں منگل کے روز صدر رئیسی چین کے سرکاری دورے پر بیجینگ پہنچنے کے بعد شی جن پنگ نے ان کا باضابطہ استقبال کیا۔

استقبالیہ تقریب کے بعد ایران اور چین نے دونوں صدور مملکت کی موجودگی میں اعلیٰ سطحی وفود کی ملاقات میں مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے 20 دستاویزات اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔

ان دستاویزات کے مطابق تہران اور بیجنگ کرائسس مینجمنٹ، سیاحت، مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، ماحولیات، بین الاقوامی تجارت، انٹیلیکچول پراپرٹی، زراعت، برآمدات، صحت کی دیکھ بھال، میڈیا، کھیلوں اور ثقافتی ورثے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بہتر بنائیں گے۔

خیال رہے کہ پیر کو تہران سے بیجنگ کے لیے روانگی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے آیت اللہ رئیسی نے کہا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر یکطرفہ تسلط پسندی کے حوالے سے ایران اور چین کے خیالات ایک جیسے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ دورہ اگست 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر رئیسی کا چین کا پہلا دورہ ہے۔