سلیمانی

سلیمانی

شیعہ نیوز: حوزہ علمیہ جامعہ العروة الوثقیٰ لاہور میں امیر المومنین حضرت علی (ع) کی ولادتِ با سعادت اور جامعہ عروۃ الوثقی ٰکے تیرہویں یومِ تاسیس کی مناسبت سے عظیم الشان ملک گیر اجتماع بعنوان "وحدت و تفرقہ امام علی (ع) کی نگاہ میں” منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے ہزاروں فرزندانِ توحید، علماء اسلام اور دانشوران گرامی شریک ہوئے۔ اجتماع میں عالمی شہرت یافتہ انقلابی مداح اہلبیتؑ مہدی رسولی نے خصوصی شرکت کی، جبکہ پیر غلام رسول اویسی، مفتی زبیر فہیم، پروفیسر ظفر اللہ شفیق، ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا، میر آصف اکبر، ڈاکٹر علی وقار قادری، پیرزادہ برہان الدین عثمانی، مفتی گلزار احمد نعیمی، پیر حبیب عرفانی، مولانا عاصم مخدوم، حافظ محمد حسین گولڑوی، پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی و دیگر نے خطاب کیا۔ معروف منقبت خواں زین العابدین سعیدی اور علی دیپ رضوی نے بھی عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔

اپنے خطاب میں علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ ڈیڑھ ارب جمعیت، دولت و ثروت، منابع و معادن ذخائر و خزائن رکھنے کے باوجود غلام، محکوم، محتاج اور کمزور ہے، اور شیطانوں کے سامنے تسلیم ہے۔ اس کی واحد اور اصلی وجہ بے شعوری اور تفرقہ ہے۔ اقوام متحدہ امت متفرقہ پر مسلط ہے۔ فلسطین اور قبلہ اول مسلمانوں کے تفرقے پر سسک رہا ہے۔ کشمیر کے لاکھوں شہداء اور ہزاروں تار تار دامن مسلمانوں کی بے حسی اور تفرقہ پر گواہی دے رہے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لبنان تفرقے کی آگ کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان متشدد ہندوؤں اور مودی جیسے قصائی کے سامنے قربانی کے حیوانوں کی طرح سر جھکائے مسلمانوں کے اندر تفرقے کے عینی گواہ بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فرقه بازی فرقہ پرستی اور تفرقے کو مٹانے کیلئے رسول اللہ کی امت رسول اللہ کی طرف پلٹے اور وحدت امت اور حفاظت دین کیلئے آل رسول کا دامن تھامے۔ انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین حضرت علی (ع) نے وحدت کیلئے قربانیاں دیں قیام و اقدام کیا اور توحید و وحدت کا عملی نقشہ پیش کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زمین پر خالص قرآنی توحید کی تجلی وحدت امت کہلاتی ہے اور شرک تفرقہ و تکثر بن کر زمین میں ظاہر ہوتا ہے۔ وحدت پر کائنات کا نظام قائم ہے، وحدت پر ایمان استوار ہے اور وحدت کے ستون پر اسلام کا انحصار ہے۔

انہوں نے کہا کہ حوزہ علمیہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ، پاکستان کے معتبر تعلیمی اداروں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جو ٢٠١٠ میں اپنی تاسیس کے بعد سے خدا کے لطف سے پاکستان میں قابل دید خدمات پیش کر رہا ہے اور مجمع المدارس تعلیم القرآن والحکمہ پاکستان میں ایک تعلیمی انقلاب کی بنیاد بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تعلیمی اخلاق کا ارتقاء چاہتے ہیں اور تعلیمی نظام میں دو بنیادی اراکین قائم کرنے کیلئے کوشاں ہیں، جن میں سے ایک تعلیمی عمل میں تحقیق کا فروغ ہے، اور دوسرا پاکستانی مدارس کے افکار کی تعمیر نو ہے۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت مسلمین کیلئے نقطہ اتحاد ہے جن کے گرد سب جمع ہو کر ہم اپنے دامن کو الٰہی حکمتوں سے بھر سکتے ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلِ بیت علیہم السلام کی تعظیم اور پیروی ہی مسلمین کی پراگندہ جمیعت کو امتِ واحدہ میں تبدیل کر سکتی ہے۔

8 فروری 1979 کے واقعے اور سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر بدھ کی صبح فضائيہ اور ایئر ڈیفنس کے سیکڑوں کمانڈروں اور جوانوں نے رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے مومن، انقلابی، عزیز، عوامی اور بہت بڑے اور حیرت انگیز کارنامے کرنے والی فوج کو سراہتے ہوئے 8 فروری 1979 کے واقعے کو اسی سال 11  فروری کے دن اسلامی انقلاب کی کامیابی کا اہم عنصر قرار دیا۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دشمن اس کوشش میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے اور اختلاف و عدم اعتماد پیدا کرکے اسے ختم کر دے۔ انہوں نے کہا کہ اس مذموم سازش کے مقابلے میں سب سے اہم ذمہ داری، اتحاد کی اسٹریٹیجی کی حفاظت ہے اور خداوند عالم کی توفیق سے اس سال کی 11 فروری، قومی اتحاد و اعتماد کا مظہر بنے گی اور عوام تمام بدخواہوں کو یہ واضح پیغام دیں گے کہ بے اعتمادی پیدا کرنے اور قومی اتحاد کو ختم کرنے کی ان کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔

انھوں نے 8 فروری 1979 کے واقعے کو 11 فروری کے دن اور ایرانی قوم کی عظمت و عزت کے اظہار کے لیے ایک مؤثر اور حوصلہ افزا واقعہ قرار دیا اور کہا: 11 فروری، ایرانی قوم کی پرافتخار تحریک کا نقطۂ عروج ہے اور اس کی تاریخ کے سب سے پرشکوہ دن کی یاد دلاتی ہے کیونکہ اس دن عوام نے، اپنی عزت، عظمت اور طاقت کو حاصل کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کی جدت عمل، پیشرفت، بھرپور صلاحیت اور مضبوط بیانیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سال کے اعتکاف کے پروگرام میں سنہ دو ہزار کے عشرے کے نوجوانوں کی بھرپور شرکت کو، قومی پیشرفت کا ایک نمونہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ سنہ دو ہزار کے عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں کس قدر استہزائيہ لطیفے بنائے گئے لیکن اس سال کے اعتکاف کے اعداد و شمار اور رپورٹوں میں بتایا گيا کہ اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد اسی عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ انقلاب کو شکست دینا اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی واضح چال اور ہدف ہے، آپ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جھوٹ بولتے ہیں جیسا کہ تقریبا پندرہ سال پہلے امریکا کے اس وقت کے صدر نے مجھے ایک خط میں صاف طور پر لکھا تھا کہ ہم آپ کے نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن اسی وقت ہمارے پاس ایسی رپورٹیں تھی کہ وہ لوگ اپنے یہاں اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کی سازشیں تیار کر رہے تھے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان کی اسٹریٹیجی اختلاف پیدا کرنا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو مستقبل کے سلسلے میں امید ختم ہو جائے گي۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی حلقوں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنا، لوگوں کے آپسی اور حکومت پر پائے جانے والے اعتماد کو ختم کرنا اور اداروں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنا، ایران کا برا چاہنے والوں کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کی چالوں میں شامل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ فطری طور پر پائے جانے والے آراء میں اختلاف اور سیاسی اختلاف میں کوئي برائي نہیں ہے لیکن یہ اختلاف آپسی ٹکراؤ اور ایک دوسرے پر الزام تراشی پر منتج نہیں ہونے چاہیے اور دشمن کی چال کے سامنے سب کو اتحاد کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

انھوں نے 8 فروری کی امام خمینی کی تصویر کو، کوہ دماوند کی چوٹی کی طرح طاقت، عزت اور پختہ ایمان کا مظہر اور اسی کے ساتھ شاہی حکومت کی فوج کے جوانوں کے سلسلے میں پیار بھری اور پدرانہ شفقت کی تصویر بتایا۔

انھوں نے کہا کہ فوج، امام خمینیؒ کے ساتھ کھڑی ہو گئي اور انقلابی بنی رہی اور یہ انقلابی باقی رہنا اہم مسئلہ ہے کیونکہ کچھ لوگ انقلابی تو بن جاتے ہیں لیکن انقلابی باقی نہیں رہ پاتے لیکن اسلامی جمہوریہ کی فوج آج پہلے دن سے کہیں زیادہ انقلابی، مومن اور مخلص ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑی اس نے جوانمردی اور ایثار کے ساتھ عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر کردار ادا کیا اور ملک کے دفاع کے لیے بھرپور استقامت دکھائي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آج کی فوج کو خودمختاری و ثبات کا مظہر اور عوام و حکام کے درمیان ہر دلعزیز اور قابل اعتماد قرار دیا اور کہا: آج فوج، عوام کے ساتھ، عوام کے شانہ بہ شانہ اور عوام کا حصہ ہے اور اگر ماضی میں اسے امریکیوں سے خریدے گئے طیارے کے پرزوں کو ہاتھ تک لگانے کا حق نہیں تھا تو آج وہ پابندیوں کے باوجود طیارے بنا رہی ہے اور عوام کے لیے بڑے بڑے، حیرت انگيز اور پرافتخار کام انجام دے رہی ہے جس کے کچھ نمونوں کا کل مظاہرہ کیا گيا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان کوششوں کا معنوی نتیجہ، سب سے بڑے افتخار یعنی پروردگار عالم کے قرب کا حصول ہے۔ انھوں نے فوجیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا کہ عزیزو! آپ کو فخر ہونا چاہیے کہ آپ اسلامی جمہوریہ کی فوج کا حصہ ہیں۔ قوم بھی اور عہدیداران بھی فوج کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور آپ بھی اپنے کمزور پہلوؤں کی تقویت کرکے اور اپنے ادارے کی کمزوریوں کو دور کر کے، اپنی قدر کیجیے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں شام اور ترکیہ میں آنے والے حالیہ زلزلے کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرتے ہوئے کہا: بحمد اللہ ہمارے ملک کے عہدیداران نے بھی کچھ مدد کی ہے اور مزید مدد کریں گے۔

اس ملاقات کے آغاز میں فضائيہ کے کمانڈر جنرل واحدی نے، مختلف سائنسی میدانوں، نالج بیسڈ شعبوں، پرزوں اور آلات کی تیاری، دفاعی آمادگی، ٹریننگ، تعمیرات اور امدادی کارروائيوں کے میدان میں فضائیہ کے امید بخش پروڈکٹس اور مؤثر اقدامات کے بار ے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا 

 

 

 

انقلاب اسلامی ایران کا عمومی اثر

1۔حکومتوں پر اسلامی انقلاب کا اثر

ایران میں حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی(ر ح) کی زیر قیادت اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد دنیا بھر کے دانشمندوں، سیاست دانوں اور اہل فکرحضرات کے ذہنوں میں ایک مشترک سوال تھا جو نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری مہذب دنیا کی فضا، عالمی نشریاتی اداروں، ریڈیو، ٹی وی، تعلیمی اداروں اور ثقافتی مراکز میں اس سوال کو اٹھایا جارہا تھا کہ نو مولود شیعہ و اسلامی انقلاب جس کے قائد حضرت امام خمینی (ر ح) ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ پوری دنیا حیران ہے کہ امن پسند ایرانیوں نے سینکڑوں سالہ شہنشاہیت کی پر شکوہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ کیوں بجادی ؟ اس شاہ ایران کا تختہ کیوں الٹ پلٹ دیا ؟

جس شاہی دور میں ان کو پوری آزادی حاصل تھی عیاشی اور آرام کرنے کے مکمل مواقع تھے۔ شراب کھلے عام پی سکتے تھے۔ کلبوں میں ننگے ناچ سکتے تھے وسائل کی فراوانی، موٹر کار، بنگلہ، کرنسی عام تھی۔ ان تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ایرانی شیعہ مسلمانوں نے اللہ اکبر فقط قرآن و اسلام کی خاطر مصیبتوں اذیتوں اور قربانیوں کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ اس کا جواب خود امام خمینی نے دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:" پیامبران الہی اگر مبعوث بہ رسالت ہوۓ ہے تو اسکا مقصد معاشروں کی اصلاح تھی اور ان ظالم طاقتوں کے بنیادوں کو ہلانا تھا، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ۔ اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی۔

اس ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں دین اسلام بحیثیت طاقت کے طور پر کیسےابھرا ؟ جب امام خمینی (ر ح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو اقوام متحدہ کے اکثر رکن ممالک یہاں تک اسلامی حکومتوں نے بھی اس انقلاب کا استقبال نہیں کیا۔ بلکہ اکثر ممالک حیران اور پریشان اور سرگران تھےکیونکہ ایک ایسے واقعہ اور حادثہ کا رونما ہونا ان کے لئے بالکل قابل پیش بینی نہ تھا۔

دوسری طرف دنیا کے ساری حکومتیں مستقبل میں اپنے معاشرہ پر اس انقلاب کے اثرات سے خوفزدہ اور خائف تھی۔ ساری حکومتیں اپنے بقا‏ء کے لئے سوچ رہی تھی۔ اور کسی بھی ممکنہ عوامی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ بلا ایسے انقلاب کا استقبال اور خیر مقدم نہ کرنا عادی سی بات تھی۔ خاص طور پر ایسی حکومتیں جن کے سیاسی نظام سیکولر تھے جس کی ملکی اساس دین اور سیاست کی جدایی پر مبنی تھی ۔ اس لیے اسلامی انقلاب خطرناک ہونا ایک مسلم بات تھی کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کر کے ایک نیا سسٹم اور نیا افکار کو پیش کیا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس انقلاب کےمقابلے میں سخت ترین دشمن بن کر سامنے آے اور اس نومولود انقلاب کے خاتمے کیلیے اپنی تمام وسایل کو بروکار لاے اس دشمنی اور کینہ کی دو بنیادی وجہ تھی ۔

1۔کیونکہ شہنشاہی حکومت اور اسکا نظام کلی طور پر یورپ اور آمریکہ سے وابستہ تھا۔ لیکن انقلاب کے آنے کے بعد ان کے تمام مفادات خطرے میں پڑھ گئے۔
2۔ اصولی طور پر دینی اور مذہبی اعتقادات اور اصول پر مبنی انقلابات لیبرل اور سیکولر نظام کو چیلینج کرتے ہوۓ‎ ان کی آئیڈیالوجی اور مستقبل کو نابود کرتے ہیں۔

دوسری طرف ان حکومتوں کی ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک ہونے کو بھی نظر آنداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے الفاظ میں جو ممالک ایران کے ساتھ جغرافیائی اعتبار سے نزدیک اور اس ملک کے ہمساۓ تھے، وہاں انقلاب کے اثرات کو محسوس کیا جا رہا تھا اور عوام میں اس انقلاب کی مقبولیت اور نفوذ کا زیادہ خطرہ تھا لہذا ان ممالک نے انقلاب کے ممکنہ اثرات کو روکنے کیلیے سخت اقدامات کیے ۔ اسلامی حکومتوں کا رویہ بھی انقلاب کے ساتھ منفی تھا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، بلکہ مختلف حیلے و بہانوں سے انقلاب کو ناکام کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا ۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: ڈاکٹر فرمان علی سعیدی شگری

حال ہی میں امریکی کانگریس نے مسلمان رکن الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے باہر نکال دیا ہے۔ یہ اقدام اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا دعوی محض ایک جھوٹ ہے جس کا واحد استعمال مخالف ممالک کے خلاف کیا جاتا ہے جبکہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کیلئے یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ الہان عمر صومالیہ نژاد امریکی شہری ہیں جو 2015ء میں امریکہ کے ایوان نمائندگان کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ وہ ہمیشہ سے ہی امریکی کانگریس میں فلسطینی شہریوں کے حق میں آواز اٹھاتی آئی ہیں اور اسرائیلی ظلم و ستم کی مذمت کرتی آئی ہیں۔ اسی وجہ سے گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ان پر یہود دشمنی کا الزام عائد کر دیا تھا۔
 
اس الزام کے تناظر میں الہان عمر کو فارن افیئرز کمیٹی سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا گیا۔ الہان عمر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات پر تنقید کی تھی۔ اس وجہ سے امریکہ میں یہودی لابی ان سے سخت ناراض تھی اور انہیں اسی بات کی سزا دی گئی ہے۔ الہان عمر کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر تنقید نے اس قدر صیہونی لابی کو پریشان کیا کہ کانگریس کے نئے سربراہ کوئین مک کارٹی نے انہیں کانگریس سے بھی نکال باہر کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ یاد رہے مک کارٹی کے صیہونی لابی سے انتہائی قریبی اور گہرے تعلقات ہیں۔ براعظم افریقہ سے مہاجرت کرنے والی الہان عمر نے ہمیشہ سے فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور صیہونی جرائم کی مذمت کی ہے۔
 
انہوں نے تقریباً تین سال پہلے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ پر قبضے اور انسانی بحران کی موجودہ صورتحال عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔ الہان عمر نے خود پر لگائے گئے یہود دشمنی کے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کا یہود دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب 2021ء میں غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا اور سیف القدس معرکے کا آغاز ہوا، تب بھی الہان عمر نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی میں تاخیر کرنے پر عالمی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین میں جنگ بندی میں تاخیر کو بے گناہ بچوں کے قتل عام اور انسانی بحران کا اصل سبب قرار دیا تھا۔
 
الہان عمر کئی بار امریکی صدر جو بائیڈن سے غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات انجام دینے کا مطالبہ بھی کر چکی ہیں۔ گذشتہ برس جب مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ نیوز چینل کی خاتون رپورٹر صیہونی فورسز کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گئیں تو الہان عمر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا تھا: "شیرین ابوعاقلہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے موجود تھیں اور اسرائیلی فوج کیلئے ان کی یہ حیثیت واضح ہونے کے باوجود انہیں قتل کر دیا گیا۔ ہم سالانہ 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کی غیر مشروط فوجی مدد کرتے ہیں۔ ہم اسے اس قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ہونے پر مجبور کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟ اسرائیل کو حقیقی طور پر جوابدہ کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟"
 
الہان عمر نے حال ہی میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کی مالی امداد بند کر دے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکی کانگریس میں الہان عمر کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک الہان عمر کو مقبوضہ فلسطین کے دورے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ گذشتہ کچھ عرصے میں کانگریس میں موجود اسرائیل کے حامی اراکین نے بارہا الہان عمر کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں اور انہوں نے ہمیشہ صیہونیوں کے ظلم و ستم کا شکار فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے۔ الہان عمر گذشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کی بھی شدید مخالف تھیں۔ انہوں نے کئی بار ٹرمپ حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر شدید تنقید کی۔
 
الہان عمر کئی بار اس موقف کا اظہار کر چکی ہیں کہ سعودی عرب دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کو یمن میں غذائی قلت اور وبائی امراض کے پھیلاو کا ذمہ دار قرار دے کر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اسلحہ فروخت نہ کرے۔ کانگریس کے ادارے فارن افیئرز کمیٹی سے الہان عمر کو نکال باہر کرنا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امریکی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نظر میں جو شخص بھی غاصب صیہونی رژیم پر تنقید کرے گا اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ ریپبلکن پارٹی فارن افیئرز کمیٹی سے الہان عمر کو باہر نکال کر صیہونی لابی کو خوش کرنے کے درپے ہے تاکہ 2024ء کے صدارتی الیکشن میں صیہونی لابی کی حمایت حاصل کر سکے۔
 
 
تحریر: سیروس فتح اللہ

خلائی ٹیکنالوجی کے قومی دن کے موقع پر ایک تقریب میں ناہید-2 ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹ اور طلوع-3 سیٹلائٹ کی رونمائی کی گئی۔ تقریب رونمائی میں ایران کے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے وزیر عیسیٰ زارع پور اور ایرانی خلائی ایجنسی کے سربراہ حسن سالاریہ نے شرکت کی۔

خیال رہے کہ ناہید-2 اپنی نوعیت کے پیشرو سٹیلائٹ ناہید-1 کا جدید ترین ورژن ہے۔ یہ ایک ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹ ہے جس کے ذریعے ایران خلائی مواصلات کی صنعت میں داخل ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ سوویت یونین، امریکہ، فرانس، جاپان، چین، برطانیہ، بھارت اور صہیونی حکومت کے بعد ایران دنیا کا نواں ملک ہے جس نے کامیابی کے ساتھ مستقل طور پر سیٹلائٹ لانچ کیا ہے۔

ایران 2005 میں روس کی مدد سے مدار میں بھیجے گئے سیٹلائٹ سینا ون کو بھیج کر خلائی ممالک کے کلب میں شامل ہوا۔ اس وقت سے ایرانی خلائی ایجنسی نے مقامی علم اور بین الاقوامی تعاون کی مدد سے ملک میں خلاء کے استعمال اور خلائی ٹیکنالوجی کی توسیع کے لیے منصوبہ بندی کو اپنے ایجنڈا میں رکھا ہوا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران آرمی کی ایگل 44 ایئر بیس ہر قسم کے لڑاکا طیاروں اور بمبار طیاروں کی نگہ داری اور انہیں آپریشنل کرنے کے علاوہ ڈرون طیاروں کو آڑانے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایگل 44 آپریشنل ایئر بیس میں الرٹ، کمانڈ پوسٹ، فائٹر طیاروں کی نگہ داری اور مینٹیننس کے لیے ہینگرز، ہوائی جہازوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے مراکز، نیوی گیشن کا سامان، فیول ٹینک وغیرہ شامل ہیں۔ اس بیس میں یہ صلاحیت ہے کہ فضائیہ کے مختلف لڑاکا طیارے انہیں تفویض کی گئی ماموریت انجام دینے کے لیے اس بیس کا استعمال کرسکتے ہیں۔

اس بڑے زیر زمین بیس میں فضائیہ کے نئے لڑاکا طیاروں کو رکھنے اور آپریشنل طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت بھی ہوگی۔

واضح رہے کہ ایگل 44 فضائیہ کے متعدد زیرزمین ٹیکٹیکل ائیر بیسز میں سے ایک ہے جو گزشتہ برسوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں اس آپریشنل ضروریات کے مطابق اور دفاعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ 

ان بیسز کی مختلف جگہوں پر ضروریات کے مطابق اور اعلیٰ حفاظتی معیاروں کے تحت پہاڑوں کے نیچے بنائے جانے کی وجہ سے یہ بیسز دشمنوں کی توقعات سے دور جگہ اور وقت سے حیرت انگیز فضائی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔

لڑاکا طیاروں کو محفوظ مقامات پر رکھ کر اور انہیں یاسین، قائم اور عاصف سمیت مختلف الیکٹرانک وارفیئر سسٹم، بموں اور میزائلوں سے لیس ہونے کے بعد یہ ایئر بیسز طویل فاصلے تک کارروائیوں کا امکان فراہم کرتی ہیں اور دور دراز کے اہداف کے لیے اسٹریٹجک رینج میں اضافہ کیا ہے۔

اس دورے میں آرمی کے ڈپٹی کمانڈر انچیف بریگیڈیئر محمد حسین دادرس، مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کے مشیر بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی اور فضائیہ کے کمانڈر ایئرمارشل حمید واحدی بھی موجود تھے۔

قومی نشریاتی ادارے نے اس بیس کی ایک رپورٹ تیار کی ہے جو آج میڈیا کی زینت بنی۔

سلامی جمہوریہ ایران کےصدر سید ابراہیم رئیسی نے اسلامی انقلاب کی چوالیسویں سالگرہ اور عشرہ فجر کی مناسبت سے ادیان توحیدی کے مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا کہ عشرہ فجر مختلف اقوام، مذاہب اور ادیان سے تعلق رکھنے والے بابصیرت ایرانی عوام کی استقامت اور ان کی کامیابیوں کی یاد تازہ کرنے کا موقع ہے۔
سید ابراہیم رئیسی نے مختلف مذاہب کےمذہبی رہنماؤں سے خطاب کے دوران کہا کہ ایرانی عوام نے پامردی اور استقامت کا بھرپور مظاہرہ کرکے امریکہ کی حد درجہ دباؤ کی پالیسی کو دیوار سے لگا دیا جو اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ایرانی عوام کو اپنے اتحاد اور یکجہتی کے جذبے، استقامت اور استحکام اور محنت اور تحرک کو بڑھا کر سیاست، اقتصاد اور ثقافت کے میدانوں میں خودمختاری میں اضافہ کرنا چاہئے۔ 
صدر مملکت نے اس موقع پر مغرب میں انتہا پسند عناصر اور بعض حکومتوں کی جانب سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں اہانت کوصحیح ٹہرانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے تمام انبیائے الہی اور ادیان توحیدی کی بے حرمتی قرار دیا اور کہا کہ دو ارب کے قریب مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین کرنے کو آزادی اظہار رائے نہیں کہا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حرکت دراصل خدا کی وحدانیت کے قائل تمام مذاہب کے پیرو افراد کی توہین اور آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
صدر ایران نے فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ آج یہودیت کے نام پر فلسطین اور اس کے مظلوم عوام پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں حالانکہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا حضرت موسی علیہ السلام اور یہودیت کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی مجاہدتوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ قدس کے کمانڈر کو دوسرے ممالک کے عوام کی بھی فکر تھی جس کا منہ بولتا ثبوت عراق میں ان کی شہادت ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے تکفیری دہشت گردی کو ختم اور علاقے کے عوام کی جان کو اس مصیبت سے چھڑانے کے لئے، اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ 
سید ابراہیم رئیسی نے اس موقع پر کہا کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ دوسروں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھیں لہذا آج بھی شام اور ترکیہ میں پیش آنے والی قدرتی آفت اور مصیبت کو ہمیں اپنی پریشانی اور مصیبت سمجھ کر وہاں لوگوں کی مدد کرنی چاہئے ۔

سحر نیوز/ عالم اسلام: ترکیہ کے ہنگامی امور سے متعلق ادارے نے اعلان کیا ہے کہ تباہ کن زلزلے میں مرنے والے افراد کی تعداد تقریبا چار ہزار سے زائد ہوگئی ہے ۔
ترکیہ کے محکمہ حادثات اور ایمرجنسی نے اعلان کیا ہے کہ اس زلزلے میں بیس ہزار سے زائد زخیموں کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔ 
اس ادارے نے اسی طرح اعلان کیا ہے کہ تباہ کن زلزلے میں تقریبا چھے ہزار مکانات اور عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سوسال میں ترکیہ میں یہ شدید ترین زلزلہ ہے ۔
دریں اثنا ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے ترکیہ کے اپنے ہم منصب چاووش اوغلو سے ٹیلیفون پر گفتگو میں زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کی مکمل آمادگی کا اعلان کیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اس ٹیلی فونی گفتگو میں کہا ہے کہ صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی کی ہدایات کی بنیاد پر ایران کی انجمن ہلال احمر زلزلہ زدگان کی ہر قسم کی مدد و امداد کے لئے تیار ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پیر کی رات ایران کی طبی اور ہلال احمرسوسائٹی کی ٹیمیں اپنی امدادی کارروائیوں کی غرض سے ترکیہ پہنچ چکی ہیں۔ 
شام میں بھی تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ اس ملک کے مختلف صوبوں میں سیکڑوں کی تعداد میں مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ 
اسی اثنا میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے دوست اور برادر ملک کی مدد کے لئے پہلی امدادی کھیپ شام روانہ کر دی ہے۔ مزید انسان دوستانہ امداد اگلے دنوں روانہ کی جائے گی ۔ پینتالیس ٹن امدادی سامان لے کر ایرانی طیارہ منگل کو شام کے دارالحکومت دمشق پہنچ گیا۔
امدادی کھیپ میں غذائی اشیا، دوائیں اور طبی وسائل اور دوسرے امدادی سامان و وسائل نیز مختلف قسم کےآلات شامل ہیں۔ 
ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق شام میں ایران کے سفیر مہدی سبحانی نے جو اس موقع پر دمشق ایرپورٹ پر موجود تھے، کہا ہے کہ ایران کی پینتالیس ٹن انسان دوستانہ امداد میں کمبل، خیمے، دوائیں اور طبی وسائل شامل ہیں جسے فوری طور پر زلزلہ زدہ علاقوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایران کی امدادی کھیپ کا ایک اور طیارہ حلب پہنچے گا جبکہ تیسرا طیارہ لاذقیہ جانا طے پایا ہے۔
پیر کی صبح آنے والے شدید زلزلے کے جھٹکے ترکیہ، شام، لبنان، فلسطین، عراق، اردن، مصر، سعودی عرب، یوکرین اور یورپ کے بعض علاقوں منجملہ یونان اور بلغاریہ میں ریکٹر اسکیل پر ریکارڈ کئے گئے۔
ترکیہ دنیا میں زلزلے کی زد میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ ریکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ آٹھ کے شدید جھٹکوں کے ساتھ ترکیہ میں آخری بار زلزلہ انیس سو انتالیس میں آیا تھاجس میں مشرقی ترکیہ کے علاقے ارزنجان میں تینتیس ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ تازہ زلزلے میں ترکیہ کی بہت سی آثار قدیمہ کی عمارتیں بھی زمیں بوس ہوگئی ہیں ۔

تہران، ارنا - ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کاظم غریب آبادی نے کہا ہے کہ ملزمان کی معافی ایک بے مثال اقدام اور انسانی حقوق کے شعبے میں ایک بڑا قدم اور عوام اور اسلامی نظام کی مہربانی کی علامت ہے

یہ بات ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کاظم غریب آبادی نے  ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی سپریم لیڈر کی منظوری اور ایرانی عدلیہ کے سربراہ کی معافی کی تجویز سے دسیوں ہزار افراد بالخصوص حالیہ فسادات کے ملزمان اور مجرموں کو معاف کردیا جائے گا اور ان کے عدالتی مقدمات کو کسی بھی مرحلے پر بند کردیا جائے گا.

غریب آبادی نے کہا کہ ملزمان کو معاف کرنا ایک بے مثال اقدام ہے۔ یہ انسانی اور اسلامی اقدام انسانی حقوق کے شعبے میں ایک بڑا قدم اور عوام اور نظام کی مہربانی اور ہمدردی کی علامت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز  ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایران میں حالیہ فسادات کے دوران گرفتار افراد سمیت دسیوں ہزار مجرموں کی عام معافی اور سزاؤں میں کمی کی منظوری دے دی۔

 ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ترکیہ اور شام کے صدور کے نام الگ الگ پیغامات میں دونوں ملکوں میں زلزلے کے دلخراش واقعہ پر تعزیت کا اظہار کیا اور انہوں نے زلزلے میں بھاری جانی اور مالی نقصان پر ترکیہ اور شام کے صدور مملکت سے اظہار ہمدری کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران موجودہ مشکل صورتحال میں دونوں دوست ممالک کو فوری امدادی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔