
سلیمانی
قم المقدس میں جشن مولود کعبہ عظیم الشان وحدت کانفرنس کا انعقاد؛ مسلمان فرقہ بندیوں سے نکل کر امت واحدہ بن جائیں، مقریرین
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قدیم مدرسہ علمیہ فیضیہ دارالشفاء کانفرنس ہال میں جوامع روحانیت بلتستان،سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخواہ،گلگت،طلاب کشمیر اور جامعہ بعثت قم کے زیراہتمام جشن مولود کعبہ عظیم الشان وحدت کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔جس میں پاکستان کے اہل سنت علمائے کرام کے 40رکنی وفد نے بطور خاص شرکت کی۔
وفد میں شامل خوش الحان معروف نعت خواں و قصیدہ خواں محمد عارف قریشی نے بارگاہِ اہلبیت میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔
علامہ عباس وزیری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولا امیر المومنینؑ عبدِ کامل تھے عبدیت کاملہ کی وجہ سے بڑے بڑے مقامات سے نوازا۔ولی اللہ اعظم اس وقت تک مقام ولایت تک پہنچ ہی نہیں سکتا جس کی عبدیت کمال پر نہ ہو۔عبد وظیفہ شناس ہوتا ہے ایسا ممکن نہیں ہے جو کام اس کے کرنے کا ہے جو اس کی ذمہ داری ہے اس میں سستی کاہلی کمی یا ضعف ہو۔اس بنا پر اگر مولا علی علیہ السلام ولی اللہ اعظم ہیں تو سب سے بڑے فرض شناس بھی ہیں۔ پیروان علیؑ کی سب سے بڑی ذمہ داری فرض شناسی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طلاب گرامی جو حوزہ علمیہ قم میں پڑھائی میں مشغول ہیں ان کی تین اہم ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جو جتنا بہتر ہوگا وہ اتنا بہتر شیعہ علی ہوگا۔سب سے پہلی ذمہ داری تحصیلِ تعلیم ہے جس کے لیے وہ یہاں آئے ہیں۔ ان کے لیے مناسب نہیں کہ حصولِ علم میں سستی کریں وقت ضائع کریں۔جن جن علوم سے ان کو مزین ہونا چاہیے وقت ضائع کیے بغیر اور مادی امور میں مشغول ہوئے بغیر ان علوم کی تحصیل میں کوشاں رہے یہ علما جب پلٹ کر اپنے ملک جائیں گے اور ضروری علوم سے بہرہ مند نہ ہوں تو ہدایت کے بجائے گمراہی پھیلائیں گے۔ دوسری ذمہ داری اپنے اور اپنے معبود کے درمیان ارتباط کو مضبوط کریں اپنے تمام کاموں کو اسکی رضا کے لیے بجالانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اگر انسان خدا کے لیے کام نہ کرے بلکہ اپنے نفس کی رضا کے لیے کام کرے تو یہ بندگی نہیں سرکشی ہے طغیان گری ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایسا عالم خدا کے لیے کام کرنے کے بجائے طاغوت کے لیے کام کرتا ہے۔خود نمائی اور خود خواہی میں مبتلا ہوتا ہے۔اور نہیں میں ہی ٹھیک ہوں۔اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔
ایسا انسان شیعان علی کو امت پیغمبر کو متحد کرنے کے بجائے اشتراق کا باعث بنتا ہے۔ تیسری ذمہ داری زمان شناس ہونا ہے۔ دوست اور دشمن کی پہچان نہ رکھتا ہو ہوشیار نہ ایسا تقدس اور پارسائی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔
تقریب کے آخر میں متنازعہ بل کے تناظر میں خاکہ پیش کیا گیا۔مولانا مقدر عباس نے منقبت خوانی کی اور مولانا نذر حافی نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
مدیر کل مجمع تقریب مذاہب اسلامی آیت اللہ حمید شہریاری کا کہنا تھا شہید سردار نے اسلام کا تحفظ کیا۔عیسائی ،کرد اور یزد بھی شہید حاج کے شکرگزار نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان فرقہ بندیوں سے نکل کر امت واحدہ بن جائیں۔
آیت اطعام
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿٧﴾ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾
|
بلاشبہ نیکوکار (جنت میں شرابِ طہور کے) ایسے جام پئیں گے جن میں (آبِ کافور) کی آمیزش ہوگی۔ (5) یعنی وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور جدھر جائیں گے ادھر بہا کرلے جائیں گے۔ (6) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نذریں (منتیں) پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی۔ (7) اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (8) (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اورنہ شکریہ۔ (9)
|
شان نزول
اخلاقبعض اہل سنت مفسرین کی نگاہ میں آیت اطعام اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہل سنت کے 34 علماء کا نام لکھا ہے جنہوں نے متواتر طور پر تائید کی ہیں کہ یہ آیات اہل بیتؑ کی شان اور امام علیؑ، فاطمہ(س) اور حسنینؑ کے فضائل بیان کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کی نگاہ میں اس سورہ کی اٹھارویں آیت (یا پورا سورہ انسان) اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے.[2] |
ابن تیمیہ (وہابیوں کا رہبر) معتقد ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی اور اہل بیتؑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ [3] لیکن اہل سنت کے اکثر علماء اس کی بات کے مخالف ہیں اور اسے رد کرنے کے لئے جواب بھی دئیے ہیں۔[4]
نزول کا واقعہ
اہل سنت مفسر زمخشری لکھتا ہے: "ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ بیمار ہوئے۔ رسول خداؐ کچھ اصحاب کے ہمراہ ان دونوں کی عیادت کے لئے تشریف لائے اور حضرت علیؑ سے فرمایا: اے ابوالحسن بہتر ہے کہ اپنے فرزندوں کی تندرستی کے لئے نذر کرو۔ حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)اور فضہ نے نذر کی کہ اگر ان دونوں کو شفا مل گئی تو تین دن روزے رکھیں گے۔ دونوں کو شفا مل گئی۔ حضرت علیؑ نے تین من جو قرض لیا۔ فاطمہ(س) نے اس کے تیسرے حصے کو پیس لیا اور روٹی بنائی۔ افطار کے وقت سائل دروازے پر آیا اور کہا: اے اہل بیت محمدؐ میں مسلمان مسکین ہوں، مجھے کچھ کھانے کو دیں تا کہ اللہ تعالیٰ آپکو جنتی مائدہ عطا کرے۔ اہل بیتؑ نے کھانا اٹھا کے اسے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اس کے دوسرے دن بھی روزہ رکھا اور جب افطار کا وقت ہوا اور کھانا حاضر کیا تو دروازے پر ایک یتیم آیا۔ اس بار بھی انہوں نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ تیسرے دن پھر روزہ رکھا اور افطار کے وقت، ایک قیدی آیا، پھر آپ نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو علیؑ حسنینؑ کے ساتھ حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ نے جب ان کو دیکھا کہ وہ بھوک سے کانپ رہے ہیں، فرمایا: آپ کی حالت دیکھ کر میری حالت ناگوار ہو گئی ہے۔ یہ فرما کر اٹھے اور حضرت علیؑ کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف چل دئیے وہاں پر فاطمہ(س) کو دیکھا کہ مصلیٰ عبادت پر کھڑی ہیں اور بھوک کی وجہ سے ان کا پیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھوں کے نیچے حلقے بنے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ اس وقت جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپکو ایسے اہل بیتؑ کی مبارکباد دیتے ہیں اور اس کے ساتھ اس سورہ کو قرائت کیا"[5]
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ واقعہ تین دن نہیں بلکہ ایک دن پیش آیا ہے، اور کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت علیؑ نے ایک یہودی کے لئے کام کیا اور اس کے بدلے اس سے کچھ جو دریافت کئے۔ جو گھر لائے اور جو کے ایک حصے کو پیس کر روٹی تیار کی، جب روٹی تیار ہو گئی، تو ایک مسکین دروازے پر آیا، آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی۔ پھر جو کے دوسرے حصے کو پیس لیا اور جب روٹی تیار ہو گئی، تو ایک یتیم نے سوال کیا تو آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی اور تیسری بار جب روٹی تیار ہوئی تو مشرکین کا ایک قیدی آیا آپؑ نے روٹی اسے دے دی۔[6]
حوالہ جات
- ↑ رجوع کریں: روحانی نیا، فروغ غدیر، ۱۳۸۶ش، ص۱۴۶؛ انصاری، اہل البیت علیہم السلام، ۱۴۲۴ق، ص۱۷۳؛ دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۳۳۸ش، ج۲، ص۱۳۶.
- ↑ مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۳۵۰.
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویہ، ۱۴۰۶، ج۷، ص۱۷۴-۱۸۶.
- ↑ ابراہیمیان، «بررسی و نقد دیدگاه ابن تیمیہ درباره شأن نزول سوره هل اتی»، ص۱۶۰-۱۶۲.
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۶۷۰.
- ↑ بغوی، معالم التنزیل، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۱۹۱-۱۹۲.
وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلي حُبِّهِ مِسْکيناً وَ يَتيماً وَ أَسيراً
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
سوره انسان(8)
یہ اس کی محبت میں مسکینً یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں
مختلف شعبوں میں سرگرم ممتاز خواتین سے خطاب
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
آج یہاں جو نشست منعقد ہوئي ہے وہ ان شاء اللہ ہمارے مستقبل کے لیے، ہماری فکر کے لیے بہت ہی خوشایند اور مفید ہے۔ مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ اس سال میں یہ نشست منعقد کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ پچھلے سال خواتین نے ایک خط لکھا تھا اور اعتراض کیا تھا کہ کیوں آپ نے یوم خواتین پر ملاقات کو اہلبیت علیہم السلام کے مداحوں کی ملاقات سے مختص کر دیا؟ ٹھیک بات ہے، اعتراض معقول ہے اور اس ملاقات کے لیے یوم خواتین کی کوئي خصوصیت نہیں ہے، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے قریب کے کسی بھی دن یہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ اب اگر ہم زندہ رہے تو مستقبل میں بھی ان شاء اللہ یہ ملاقات ہوگي۔
یہ نشست اب تک، اس لمحے تک ایک خالص زنانہ اور بڑے نمایاں اور اعلی مفاہیم سے معمور نشست تھی۔ خواتین نے جو باتیں کیں وہ بہت اچھی تھیں اور میں نے حقیقت میں استفادہ کیا۔ البتہ صرف ایک بار سن کر وہ بھی تیز رفتاری سے اور اس مائيک پر بیان کی جانے والی ان باتوں کی تائید ممکن نہیں ہے۔ انسان کو سوچنا ہوتا ہے، غور کرنا ہوتا ہے، اس لیے اپنی ان تحریروں کو ضرور میرے حوالے کیجیے - جن خاتون نے بغیر کسی کاغذ کے باتیں بیان کیں، وہ بھی اپنی ان باتوں کو لکھیں، اس سے ان باتوں پر زیادہ گہرائي سے سوچا جائے گا اور مجھے ان کے بارے می سوچنے اور غور کرنے کا موقع بھی مل جائے گا - تاکہ میں ان تحریروں کو کچھ افراد کو دوں جو ان کے بارے میں غور کریں، ان کا مطالعہ کریں، آپ کی باتوں میں کچھ تجاویز بھی تھیں، ان شاء اللہ ان تجاویز کے بارے میں کوئي راہ حل تلاش کر سکیں۔ شاید ان میں سے کچھ تجاویز کا تعلق مثال کے طور پر ثقافتی انقلاب کی کونسل سے ہو، وہاں پیش کی جائيں یا کسی دوسری ادارے میں۔ خاص طور سے ہماری ذہین، کارآمد، تجربہ کار، عقلمند اور سمجھدار خواتین کو ملک کے مختلف فیصلہ کن اور فیصلہ ساز عہدوں پر منصوب کرنے کا موضوع، یہ بہت اہم موضوع ہے۔ البتہ یہ بات میرے ذہن میں ہے اور ہمیں اس کے لیے کوئي راستہ نکالنا ہوگا، ان شاء اللہ کوئي راستہ تلاش کر لیں گے، دیکھتے ہیں کیا کیا جا سکتا ہے۔ خیر آج آپ نے ان خواتین سے بہت سی اچھی باتیں سنیں، میں اس ترانے کی تعریف کرنا نہ بھول جاؤں جو ان بچیوں نے پڑھا، واقعی قابل تعریف ہے، اس کے اشعار بھی بہت اچھے تھے اور اس کا آہنگ بھی بہت اچھا تھا اور ساتھ ہی بہت ہی اچھے طریقے سے پیش کیا گيا۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں آج عورت کے مسئلے کے بارے میں کچھ نکات بیان کرنا چاہتا ہوں - میرے خیال میں کچھ اہم نکات ہیں - شاید ان میں سے بعض نکات کو ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں یا آپ میں سے بعض نے انھیں بیان کیا ہے لیکن اگر ان پر تاکید ہو تو بہتر ہے۔ میں آپ ایران کی دانشور لڑکیوں سے جو یہاں موجود ہیں اور ان سبھی سے جو ان باتوں کو سن رہے، پہلے یہ بات عرض کروں کہ، خواتین کے مسئلے میں ہم مغرب کے ریاکار دعویداروں کے سامنے دفاعی نہیں اقدامی پوزیشن میں ہیں۔ دفاعی موقف نہیں ہے۔ برسوں پہلے ایک بار مجھ سے یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کے سامنے پوچھا گيا کہ فلاں معاملے میں آپ اپنا کیا دفاع پیش کریں گے؟ میں نے کہا کہ میرا کوئي دفاع نہیں ہے بلکہ میں جواب طلب کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ عورت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے، دنیا قصوروار ہے۔ یہ جو میں 'دنیا' کہہ رہا ہوں اس کا مطلب یہی موجودہ مغربی دنیا، مغربی فلسفہ اور مغربی ثقافت ہے، نیا اور بقول خود ان کے، ماڈرن مغرب، مجھے تاریخی مغرب سے غرض نہیں ہے، وہ ایک الگ بحث ہے۔ نیا مغرب یعنی یہی مغرب جس نے اِدھر تقریبا دو سو سال پہلے سے زندگي کے تمام معاملوں میں اپنی ایک بات پیش کی ہے، اس کے مقابلے میں ہم جواب طلب کرتے ہیں، یہ مغرب والے عورت کے مسئلے میں بہت زیادہ گنہگار ہیں، قصوروار ہیں، انھوں نے نقصان پہنچایا ہے، جرائم کیے ہیں۔ بنابریں ہم جو باتیں کرتے ہیں ان کا دفاعی پہلو نہیں، اسلامی نظریے، اسلامی عقیدے اور اسلامی موقف کو بیان کرنے کا پہلو ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ باتیں، جو ہم عورت کے مسئلے اور عورت کے موضوع کے بارے میں پیش کرتے ہیں اور بحمد اللہ دیکھتے ہیں کہ آپ جیسی خواتین، جنھوں نے یہاں باتیں پیش کی ہیں، پوری طرح سے ان مسائل پر احاطہ رکھتی ہیں، انھیں دوہرائيے، بیان کیجیے، یہ امید بھی ہے کہ آپ مغرب والوں کی رائے عامہ پر حقیقت میں اثر ڈالنے میں کامیاب ہوں گي کیونکہ واقعی ان کی خواتین تکلیف میں ہیں، آج مغربی عورتوں کا سماج، بعض معاملات میں ایسی پریشانیوں میں مبتلا ہے جن کا اسے علم نہیں اور بعض معاملات میں ایسی مشکلات دوچار ہے جس کا اسے علم ہے، آپ واقعی ان پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
ایک بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ جنسیت کے مسئلے اور عورت کے مسئلے کے بارے میں اسلام کے نظریے کے تعلق سے ہے کہ زن و مرد کے مسئلے کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے۔ میں یہاں اختصار سے عرض کروں گا، اس کی تشریح، تفصیل اور اس کی فرعیں نکالنا آپ کا کام ہے کہ اس پر کام کیجیے، تحقیق کیجیے۔ اسلام کے نظریے کے بارے میں اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی اور اسلامی قدروقیمت طے کرنے میں اسلام، 'انسان' کو مدنظر رکھتا ہے، عورت اور مرد کی کوئي تخصیص نہیں ہے، دونوں میں کوئي فرق نہیں ہے، کہ انسانی اور اسلامی اقدار کے معاملے میں عورت اور مرد کی برابری، اسلام کے مسلمہ اصولوں میں شامل ہے، اس میں کسی طرح کا شک و شبہہ نہیں ہے۔ قرآن مجید کی آيت میں اور یہاں جن آیتوں کی تلاوت کی گئي انھی کے تسلسل میں اس طرح فرمایا گيا ہے: اِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَھُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّہَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ، قرآن مجید عورت اور مرد کے لیے دس اہم خصوصیات بیان کرتا ہے جو سبھی اجر و پاداش میں مساوی ہیں، اَعَدَّ اللَّہُ لَھُم مَّغْفِرَۃً وَاَجْرًا عَظِيمًا(2) اسلام کا نظریہ یہ ہے۔ یا ایک دوسری آيت میں کہا گيا ہے: اَنّی لا اُضیعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنکُم مِن ذَکَرٍ اَو اُنثَى (3) دونوں میں کوئي فرق نہیں ہے۔ یعنی انسانی اور اسلامی قدروقیمت طے کرنے کے لحاظ سے عورت اور مرد کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ عورت اور مرد کے سلسلے میں اسلام کی نگاہ، ایک انسان والی نگاہ ہے، دونوں میں کوئي تخصیص نہیں ہے۔
البتہ ایک دوسرے کے سلسلے میں عورت اور مرد کی ذمہ داریاں الگ الگ قسم کی ہیں لیکن توازن پایا جاتا ہے۔ خداوند عالم قرآن مجید کے سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے: وَ لَھُنَّ مِثلُ الَّذی عَلَیھِنَّ بِالمَعرُوف(4) جتنا حق ان کے لیے ہے، اتنا ہی حق ان کے اوپر ہے۔ ایک چیز ان کی ملکیت ہے، اتنی ہی مقدار میں ایک چیز فریق مقابل کی ملکیت ہے یعنی ان کے کندھوں پر عائد ہے اور ان کی ذمہ داری ہے۔ مطلب یہ کہ جو ذمہ داری بھی کسی کے حوالے کی گئي ہے، اس کے مقابلے میں ایک حق بھی پایا جاتا ہے۔ دونوں میں سے جسے بھی جو امتیاز دیا گيا ہے اس کے مقابلے میں ایک ذمہ داری بھی دی گئی ہے، پوری طرح سے توازن ہے۔ یہ عورت اور مرد کے حقوق کی بات ہے۔ بنابریں حقوق اور فرائض یکساں نہیں ہیں لیکن متوازن ہیں - ایک محترمہ نے اپنی باتوں میں اسی چیز کی طرف اشارہ کیا تھا - ان پر کام ہوا ہے، ان کے بارے میں مطالعہ کیا گيا ہے، اس کی تفصیل آپ ان ہی کتابوں اور تحریروں وغیرہ میں دیکھ سکتی ہیں۔
جہاں تک ذمہ داریاں دینے سے متعلق نظریے کی بات ہے تو یہاں عورت اور مرد کی فطری خصوصیات کو مدنظر رکھا گيا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان، یعنی زنانہ فطرت اور مردانہ فطرت کے درمیان کچھ فرق پائے جاتے ہیں۔ جسم میں بھی، روح میں بھی اور جذباتی امور میں بھی کچھ فرق موجود ہیں، ذمہ داریاں اور فرائض، انہی فرقوں کے مطابق ہیں۔ یہ فرق، ان فرائض پر اثرانداز ہوتے ہیں جو عورت یا مرد کے کندھوں پر رکھے گئے ہیں، یہ زنانہ فطرت یا مردانہ فطرت سے متعلق فرق ہے۔ دونوں میں سے کسی کو بھی اپنی فطرت کے برخلاف کوئي بھی کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مرد جو اپنے رہن سہن، چہرے کی آرائش اور دوسری چیزوں میں عورتوں جیسی شباہت لانے کی کوشش کرتا ہے، وہ عورت جو اپنی باتوں اور اپنے کاموں کو مرد کے انداز میں ڈھالنا چاہتی ہے، دونوں ہی غلط کر رہے ہیں۔ تو یہ بات ذاتی فرائض اور دوسرے الفاظ میں مختلف ذمہ داریوں کی تھی جو گھر کے اندر اور گھر کے باہر پائي جاتی ہیں۔
اگر سماجی ذمہ داریوں کی بات کی جائے تو عورت اور مرد کی ذمہ داریاں یکساں ہیں۔ کردار مختلف ہیں لیکن ذمہ داریاں یکساں ہیں۔ یعنی مردوں پر بھی اور عورتوں پر بھی جہاد واجب ہے، البتہ مرد کا جہاد اور طرح کا ہے، عورت کا جہاد کسی اور طرح کا ہے۔ مثال کے طور پر اسی آٹھ سالہ مقدس دفاع میں، عورتوں پر بھی ذمہ داریاں تھیں، شرعی ذمہ داریاں تھیں اور انھوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ اس عرصے میں اگر خواتین نے، مردوں سے بہتر کام نہیں کیا تو کم از کم مردوں کے برابر تو کام کیا ہی ہے۔ اگر آپ نے مقدس دفاع میں خواتین کے کردار کے بارے میں لکھی جانے والی کتابیں نہیں پڑھی ہیں تو پڑھیے، کچھ کتابیں لکھی گئي ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ ہمارے اچھے جوان، ان چیزوں کو فراہم کر رہے ہیں۔ فرض کیجیے کہ شہیدوں کی بیویوں کی زندگي کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئي ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اگر آپ ان میں سے کوئي بھی کتاب پڑھیے اور مطالعے کے دوران دس بار آپ کے آنسو نہ نکلیں، یہ ممکن ہی نہیں ہے! مطلب ہم اس عورت کے جہاد کو دیکھتے ہیں، مرد میدان جنگ میں گيا ہے لیکن عورت جہاد کر رہی ہے، دونوں پر ہی جہاد واجب ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عورت پر بھی واجب ہے اور مرد پر بھی واجب ہے بس کردار تقسیم کر دیے گئے ہیں، کردار یکساں نہیں ہیں۔ یہ ان مختلف میدانوں میں، جن کا میں نے ذکر کیا، عورت کے سلسلے میں اور مرد کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ ہے۔ تو یہ ایک پیشرفتہ نظریہ بھی ہے اور منصفانہ بھی ہے: عورت اپنے نمایاں مقام پر، مرد بھی اپنے نمایاں مقام پر اور مغربی اور سرمایہ دارانہ اقدار کے نظام کے برخلاف دونوں ہی کو قانونی، فکری، نظریاتی اور عملی امتیازات حاصل ہیں، البتہ میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ نام نہاد ماڈرن مغرب کی میں بات کر رہا ہوں۔
بنیادی طور پر مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام، مردوں کی اجارہ داری والا نظام ہے، یعنی جو بات وہ اسلام کے سلسلے میں بولتے ہیں، ہرزہ سرائي کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں، بالکل وہی ان کے اوپر صادق آتی ہے، کیوں؟ اس سوچ کی جڑ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں، سرمایہ، انسانیت سے اوپر ہوتا ہے۔ انسانوں کو سرمائے کی خدمت میں لگایا جاتا ہے۔ جو انسان زیادہ سرمایہ حاصل کرے، زیادہ سرمایہ جمع کرے، اس کی قدروقیمت زیادہ ہوتی ہے۔ مرد زیادہ طاقتور ہوتا ہے، افریقا میں اور امریکا اور جنوبی امریکا وغیرہ میں سونے، جواہرات اور ہیرے کی کانوں میں کانکنی کا کام مرد کیا کرتے تھے، معاشی، تجارتی اور اسی طرح کے امور کے بڑے عہدے مردوں کے پاس ہوتے تھے بنابریں سرمایہ دارانہ نظام میں مرد کو عورت پر ترجیح حاصل ہے کیونکہ انسان پر سرمائے کی برتری کی بات مرد پر زیادہ صادق آتی ہے۔ تو اب جب یہ واضح ہو گیا کہ سرمایہ، انسانوں کے مقام و منزلت کو طے کرے گا، تو پھر انسان یکساں نہیں ہیں بلکہ قدرتی طور پر مختلف ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ انسانوں پر سرمائے کی ترجیح کے اس نظریے کے مطابق مرد فطری طور پر عورت سے بالاتر ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت سے دو طرح سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے: ایک تو خود کام کے مسئلے میں، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ان محترمہ نے جو فرمایا کہ مغرب میں رہتی تھیں، اصولی طور پر ان نکات سے یہ بہتر طور پر مطلع ہیں، جانتی ہیں، کتابوں میں اور جہاں جنرل نالج کی باتیں ہوتی ہیں، وہاں آپ اس بات کو دیکھ سکتی ہیں۔ اس وقت بھی بہت سے مغربی ملکوں میں ایک ہی کام کے لیے خواتین کی تنخواہ، مردوں کی نسبت کم ہے، یعنی وہی کام جو مرد کرتا ہے، اسے عورت سے کرایا جاتا ہے تو کم مزدوری دی جاتی ہے کیونکہ وہ زیادہ کمزور ہے، ایسا ہی ہوتا ہے، یہ ایک طرح کا استحصال ہے۔ انیسویں صدی اور اس کے بعد، بیسویں صدی میں - زیادہ تر انیسویں صدی میں - عورت کی آزادی کا مسئلہ اٹھانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ عورتوں کو گھر سے باہر کھینچ لائیں اور انھیں کارخانے میں لے جا کر کم اجرت پر ان سے کام کرایا جائے، غلط فائدہ اٹھایا جائے۔
یہیں پر میں جملۂ معترضہ کے طور ایک بات عرض کر دوں، امریکا میں بالکل یہی معاملہ سیاہ فاموں کی آزادی کے سلسلے میں بھی پیش آیا ہے، سنہ 1860 میں امریکا کی خانہ جنگي میں، یعنی تقریبا ایک سو ساٹھ سال پہلے، کئي برسوں تک چلنے والی امریکا کی اس خانہ جنگي میں چار برس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے، یہ جنگ شمال اور جنوب کے درمیان تھی، اس جنگ کے بعد غلاموں کی آزادی، سیاہ فام غلاموں کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا گيا۔ جنوب میں زراعت تھی، شمال میں صنعت تھی۔ جنوب، غلاموں کا مرکز تھا، غلام زیادہ تر جنوب میں تھے جو زراعت کیا کرتے تھے، شمال والوں کو سستے مزدوروں کی ضرورت تھی، ان سیاہ فاموں کی ضرورت تھی، غلاموں کی آزادی کا ہنگامہ، شمال والوں نے شروع کیا۔ اگر آپ نے 'انکل ٹامز کیبن' (Uncle Tom's Cabin) ناول پڑھا ہوگا تو آپ یہ دیکھ لیں گی، یہ تقریبا دو سو سال پہلے کی کتاب ہے، انکل ٹامز کیبن کو تقریبا دو سو سال پہلے تحریر کیا گيا تھا، یہ اسی وقت کی کتاب ہے۔ سیاہ فام غلاموں کو ورغلایا جاتا تھا، وہ یہاں سے فرار ہو جاتے تھے، انھیں اس طرف لے جاتے تھے، کس لیے؟ تاکہ وہ آزاد رہیں؟ نہیں بلکہ اس لیے کہ انھیں سستے مزدوروں کی ضرورت تھی، سستے مزدوروں کی! مختلف مسائل میں مغرب کے نام نہاد متمدن حضرات کا فریب، اس طرح کا ہے۔ اس طرح کی مثالیں اور نمونے کافی زیادہ ہیں۔
بنابریں ایک جگہ یہ تھی جہاں عورت کو نقصان پہنچایا گيا اور اسے کام کے میدان میں دھکیل دیا گيا تاکہ خرچ کم ہو، کم اخراجات ان کے ذمے ہوں، وہ کم پیسے خرچ کریں، دوسرے یہ کہ چونکہ مرد برتر جنس ہے اس لیے عورت، مرد کے لیے لذت کا ذریعہ قرار پائے، البتہ میرے لیے بہت سخت ہوتا ہے، کسی بھی نشست میں اس موضوع پر بات کرنا واقعی میرے لیے بہت سخت ہے خاص طور پر زنانہ نشست میں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے، کیا کیا جائے؟ انھوں نے سارے کام کیے تاکہ عورت کو اس بات کا یقین دلا سکیں کہ اس کی خصوصیت، اس کے اسی طور طریقے پر مبنی ہے جو مردوں کے لیے اس کی جنسی کشش کو بڑھا سکے، انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ یہ بہت ہی غم انگيز داستان ہے، میں نے اس سلسلے میں بہت سی چیزیں پڑھی ہیں جنھیں واقعی بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایک امریکی میگزین میں - جو آٹھ دس سال پہلے مجھے لا کر دیا گيا تھا - ایک بڑے ہی مشہور امریکی سرمایہ دار نے، جس کے دسیوں بڑے ہی ماڈرن، پیشرفتہ اور خوبصورت ریستوراں وغیرہ تھے، اعلان کیا تھا کہ اس کے پاس ویکینسی ہے، کس کے لیے؟ نوجوان لڑکیوں کے لیے، جوان عورتوں کے لیے، جن کی خصوصیات کا اس نے ذکر کیا تھا، ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کا لباس، ان کا اسکرٹ لازمی طور پر گھٹنے سے اتنا اوپر ہونا چاہیے۔ اس نے تصویر بھی دی تھی کہ اس طرح ہونا چاہیے! یعنی آپ دیکھیے، تجارت کے لیے، صنعت کے لیے، گلی کوچے کی عام زندگي کے لیے منصوبہ بندی اس طرح کی ہے کہ ہوس باز اور بوالہوس مرد اپنی آنکھوں سے یا بغیر آنکھوں کے لذت حاصل کر سکے! حقیقت میں ان لوگوں نے عورت کی حرمت کو پامال کر دیا، اس کی عزت اور اس کے وقار کو کچل دیا۔ سب سے بری بات یہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا: انھوں نے بات کو یہاں تک پہنچا دیا کہ خود عورت - جوان عورت یا جوان لڑکی - اپنی بھلائي اس میں سمجھے کہ اس طرح سے سامنے آئے کہ اس کا جنسی پہلو، مرد کی نگاہ کو اپنی طرف مرکوز کر سکے! اور وہ بھی کس مرد کی نگاہ کو؟ وہ جو گلی کوچے میں اور سڑک پر چل رہا ہے۔ عورت کو اس نتیجے تک پہنچانا، وہ سب سے کاری وار تھا جو ان لوگوں نے عورت پر کیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے معاملات ہیں جن میں سے بہت سی باتوں کو آپ لوگ جانتی ہیں اور پڑھ چکی ہیں۔
خیر تو مردوں کی اجارہ داری والے اس نظریے کا نتیجہ کیا ہوا؟ جب مغربی تمدن میں مرد، برتر جنس ہے اور تمدن، مردوں کی اجارہ داری والا ہے تو نتیجہ یہ ہے کہ عورت کوشش کرتی ہے کہ مرد کو اپنا آئيڈیل قرار دے اور مرد، عورت کا آئيڈیل بن جاتا ہے، عورت، مردانہ کاموں کے چکر میں پڑ جاتی ہے، نتیجہ یہ ہے۔ دیکھیے، قرآن مجید میں ایک آيت ہے جس کی طرف میرے خیال میں آپ میں سے ایک خاتون نے اشارہ بھی کیا، البتہ انھوں نے آیت نہیں پڑھی لیکن میرے خیال میں ان کے مدنظر یہی آيت تھی۔ آیت کریمہ کہتی ہے: "ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِلَّذینَ کَفَرُوا امراَتَ نُوحٍ وَ امرَاَتَ لوط" کافروں کے لیے، عورتوں کے دو نمونے ہیں، دو کافر عورتیں، کافر عورتوں کے لیے نمونہ اور آئيڈیل ہیں: نوح کی بیوی اور لوح کی بیوی، جنھوں نے اپنے شوہروں سے غداری کی، "فَلَم یُغنیا عَنھُما مِنَ اللہِ شَیئا"(5) ان کے شوہر حالانکہ پیغمبر تھے لیکن پھر بھی وہ ان کے کام نہیں آ سکے، انھیں فائدہ نہیں پہنچا سکے۔ یہ کافروں کے لیے ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید فرماتا ہے: "و ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَاَتَ فِرعَون"(6) دو عورتوں کو آئيڈیل قرار دیتا ہے تمام کافر انسانوں کے لیے، دو عورتوں کو نمونۂ عمل قرار دیتا ہے تمام مومن انسانوں کے لیے، چاہے وہ عورت ہوں یا مرد۔ مطلب یہ کہ اگر دنیا کے تمام مرد مومن بننا چاہتے ہیں تو ان کے لیے نمونۂ عمل، دو عورتیں ہیں: ایک فرعون کی بیوی اور دوسری حضرت مریم۔ "و ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَاَتَ فِرعَون" عفت اور شرافت کی چوٹی پر، وہی خاتون جو اس بات کا سبب بنی کہ جب موسی کو پانی سے نکالا گيا تو انھیں قتل نہ کیا جائے؛ "لا تَقتُلوہ"(7) اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو، پھر حضرت موسی پر ایمان لائي اور آخر میں ایذائيں دے دے کر اسے قتل کر دیا گيا۔ یہ آئيڈیل ہے۔ اور دوسرا نمونہ، "وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمرَان" کہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں قرآن کہتا ہے: "الَّتی اَحصَنَت فَرجَھَا"(8) جس نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا، افسوس کہ ہمیں اس سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ معاملہ کیا تھا، حضرت مریم کے سلسلے میں کچھ واقعات تھے کہ اس عظیم خاتون نے پوری طاقت سے استقامت کی اور اپنی پاکدامنی کو محفوظ رکھا اور دوسری باتیں، جو آپ لوگوں کو معلوم ہیں۔ یعنی مغربی تمدن کے بالکل برعکس کہ جو مرد کو آئيڈیل قرار دیتا ہے، قرآن مجید میں عورت کو نمونۂ عمل قرار دیا گيا ہے، صرف عورتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے، چاہے وہ کفر کا میدان ہو یا ایمان کا میدان ہو۔
مغرب کی ڈھٹائي یہاں واضح ہوتی ہے، یہ لوگ عورت پر، اس کے وقار پر، اس کے شرف پر اتنے زیادہ وار کرنے کے بعد خود کو خواتین کے حقوق کا علمبردار بھی ظاہر کرتے ہیں! یہ لوگ دنیا میں خواتین کے حقوق کے موضوع کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ واقعی حد درجہ پستی اور گھٹیاپن ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو کسی چیز کے بارے میں خفیہ معلومات ہوتی ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ چیز واضح اور آشکار ہے اور میں واقعی نام نہیں لینا چاہتا، انسان اس چیز کا نام لینے میں شرم محسوس کرتا ہے جو پچھلے سال مغربی خواتین کے سلسلے میں ہوئي اور جنسی تشدد وغیرہ کے معاملے سامنے آئے۔ ان سب کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ہم عورت کے حامی ہیں، خواتین کے حقوق کے طرفدار ہیں! مغرب والوں کی بے تقوی زبان میں جسے عورت کی آزادی کہا جاتا ہے وہ یہ چیزیں ہیں۔ یہ جو وہ کہتے ہیں عورت کی آزادی، تو آزادی سے ان کی مراد، یہ چیزیں ہیں، ان کی نظر میں آزادی یہ ہے؛ یہ چیزیں آزادی تو نہیں ہیں، یہ تو سراسر غلامی ہے، سراسر توہین ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر ہم دیر سے ان نکات سے باخبر ہوئے، یعنی ان میں سے بہت سی باتیں انقلاب کے بعد ہمارے لیے واضح ہوئيں ورنہ انقلاب سے پہلے بہت سے بزرگان بھی یہی سوچتے تھے کہ مغرب میں عورت اور مرد کے درمیان آزادانہ تعلقات، مردوں کے دل اور آنکھوں کے سیر ہونے کا سبب بنیں گے اور پھر جنسی جرائم انجام نہیں ہوں گے، اس طرح سوچتے تھے! اب آپ دیکھیے کہ نہ صرف یہ کہ ان کے دل اور آنکھیں سیر نہیں ہوئیں بلکہ یہ جو جنسی جرائم انجام پا رہے ہیں ان سے ان کی ہوسناکی اور بری نظر سیکڑوں گنا زیادہ بڑھ چکی ہے؟ لگاتار بتایا جا رہا ہے۔ کام کی جگہوں پر، کوچہ و بازار میں، ہر جگہ، یہاں تک کہ فوج جیسے منظم اور فولادی اداروں میں بھی - فوج میں بھی خواتین ہیں - جنسی ہراسانی انجام پاتی ہے! جنسی حملہ، آپسی رضامندی سے ہونے والے گناہ سے الگ ہے۔ رضامندی سے ہونے والا وہ گناہ تو اپنی جگہ، اس کے علاوہ بھی، زبردستی کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ان کے دل اور آنکھیں سیر نہیں ہوئي ہیں بلکہ ان کے درمیان ہوس بازی میں سیکڑوں گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ مغربی ماحول میں جنسی تجارت ہے، جنسی غلامی (Sexual slavery) ہے، تمام اخلاقی و انسانی حدود کی پامالی ہے، ان چیزوں کو عام اور قانونی بنانے کی کوشش ہے جو تمام مذاہب میں حرام ہیں۔ یہ ہم جنس بازی اور ایسی ہی باتیں صرف اسلام نہیں بلکہ تمام ادیان میں گناہان کبیرہ کے زمرے میں ہیں، وہ انھیں قانونی جواز فراہم کر رہے ہیں اور انھیں شرم بھی نہیں آتی! بنابریں ہمارے معاشرے میں ایک عملی واجب یہ ہے کہ ہم جنسیت کے مسئلے میں مغربی نظریات کی پیروی سے اجتناب کریں۔
آپ ہوشیار، دانشمند، سمجھدار اور پڑھی لکھی خواتین، بحمد اللہ ہر جگہ ہیں اور آپ کی جو تعداد یہاں ہے وہ 'مشتے نمونہ از خروارے' ہے یعنی ایک بڑے گلستان کا ایک پھول ہیں، پورے ملک میں بحمد اللہ سمجھدار، سنجیدہ، پڑھی لکھی، معلومات والی خواتین بہت زیادہ ہیں، خدا کا شکر ہے۔ ہماری وہ امید، کہ یہ جوان اور مومن لڑکیاں بڑی ہوں اور عالم اور دانشمند خواتین میں تبدیل ہو جائيں، بحمد اللہ پوری ہو گئي ہے۔ آپ کے اہم کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ جنسیت کے مسئلے اور عورت کے مسئلے میں مغربی ثقافت کے نظریے کے خطروں کو سامنے لائیے، سب کو بتائيے، بعض لوگ نہیں جانتے۔ خود ہمارے ملک میں بعض لوگ نہیں جانتے، بیرون ملک بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے، اسلامی ممالک میں بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اسلامی ممالک میں لوگ اس طرح کی چیزیں سمجھنے کے لیے بے قرار ہیں، جن جگہوں پر ہم گئے ہیں، موجود ہیں اور ہماری موجودگي ہے، وہاں کی خبریں ہم تک پہنچتی ہیں، وہاں ایسا ہی ہے، پھر مغربی ملکوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ آج سائبر اسپیس کے ذریعے رابطے بہت آسان ہو گئے ہیں۔ آپ لوگ سائبر اسپیس کے ذریعے رابطے قائم کر سکتی ہیں، راہ ہموار کر سکتی ہیں تاکہ وہ لوگ توجہ دے سکیں۔ ان باتوں کو مختصر اور بولتی ہوئي عبارتوں کے ڈھانچے میں، عبارتیں مختصر اور چھوٹی بھی ہوں اور بات کو پوری طرح پہنچانے والی بھی ہوں، تیار کیجیے اور رائے عامہ کے سمجھنے کے لیے پیش کر دیجیے، پھر ہیش ٹیگ اور اسی طرح کی چیزوں کو استعمال کیجیے، آج کل یہ چیزیں آپ کے لیے ایک بڑا وسیلہ ہیں جو آپ کے اختیار میں ہیں۔ تو یہ بھی ایک نکتہ ہوا: عورت اور مرد کے مسئلے اور جنسیت کے مسئلے میں فکری و عملی لحاظ سے اسلام کا نظریہ۔
خواتین کے مسائل کے بارے میں ایک دوسرا نکتہ، خانوادے کا مسئلہ ہے جو بحمد اللہ یہاں پر گفتگو کرنے والی بعض خواتین کی باتوں میں کئي پہلوؤں اور کئي نظریوں سے پیش کیا گيا اور بہت اچھا تھا۔ واقعی مجھے ان کی باتیں سن کر لطف آيا۔ دیکھیے گھرانے کی تشکیل، دنیا کے ایک عام قانون اور اصول کے تحت ہے، آفرینش کا ایک عام قانون ہے، وہ زوجیت کا قانون ہے: "سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّھا مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِھِم وَ مِمّا لا یَعلَمون"(9) خداوند عالم نے ہر چیز میں، ہر شئے میں - خلق الاشیاء کلھا - ہر چیز میں زوجیت اور جوڑے کا قانون رکھا ہے، انسانوں میں زوجیت ہے، حیوانوں میں زوجیت ہے، نباتات میں زوجیت ہے، "وَ مِمّا لا یَعلَمون" کچھ چیزیں ہیں جو زوجیت کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ہم نہیں جانتے، مثال کے طور پر پتھروں میں زوجیت کیسے ہے، ہم نہیں جانتے، ممکن ہے مستقبل میں انکشاف ہو۔ آسمانی اجسام میں زوجیت ہے، کس طرح ہے، ہم نہیں جانتے، مستقبل میں اس کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ دیکھیے، "سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّھا مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِھِم وَ مِمّا لا یَعلَمون" تو یہ زوجیت ہے، یہ جو میں نے پڑھا، یہ سورۂ یسین کی آيت تھی۔ دوسری آيت، سورۂ ذاریات کی ہے: "وَ مِن کُلِّ شَیءٍ خَلَقنا زَوجَینِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرون" (10) جوڑے اور زوجیت کا قانون، ایک عام قانون ہے۔
میں یہاں ایک بار پھر جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کروں کہ جوڑے اور زوجیت کا یہ قانون، جو اسلامی نظریے میں اس طرح واضح ہے، ہیگل اور مارکس کے ڈائلیکٹیکل (جدلیاتی) قانون کے بالکل برخلاف ہے، یعنی ہیگل کے اس ڈائلیکٹیکل قانون کا بنیادی رکن، جسے بعد میں مارکس نے ہیگل سے لیا، معاشرے کی پیشرفت، تاریخ کی حرکت اور انسانی ارتقاء سے پوری طرح تضاد رکھتا ہے، یعنی 'تھیسس' اور 'اینٹی تھیسس' موجود ہے اور ان دونوں سے 'سنتھیسس' وجود میں آتا ہے۔ اسلام میں ایسا نہیں ہے، سنتھیسس، اینٹی تھیسس سے وجود میں نہیں آتا، زوجیت وجود میں آتی ہے، زوجیت سے، ایک دوسرے کے ملاپ سے، ہمراہی سے وہ اگلا رتبہ وجود میں آتا ہے، اگلی نسل وجود میں آتی ہے، اگلی حرکت وجود میں آتی ہے، اگلا مرحلہ وجود میں آتا ہے، البتہ ان سب کے لیے کام اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ جو میں نے عرض کیا، یہ ایک نظریہ ہے، ایک سوچ ہے۔ خیر تو زوجیت، عالم آفرینش کا ایک عام قانون ہے۔ جوڑے کا یہ قانون نباتات میں بھی ہے، حیوانات میں بھی ہے لیکن اس ٹھوس قانون کے، انسانوں کے سلسلے میں کچھ اصول ہیں، انسان کے سلسلے میں کچھ اصول معین کیے گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اصول طے کیے گئے ہیں؟ کیونکہ بغیر اصولوں کے بھی زوجیت وجود میں آ سکتی تھی، جس طرح سے کہ دنیا کی بعض جگہوں پر بے قاعدگی اور بے اصولی پائي جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کا کام، انتخاب اور اختیار کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ انسان کا اقدام، اس کی پیشرفت، اس کے خود کے انتخاب اور اختیار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس انتخاب اور اختیار کو ایک دائرے میں ہونا چاہیے ورنہ کوئي کسی چیز کا انتخاب کرے گا اور کوئي اس کی مخالف چیز کا انتخاب کرے گا اور اس طرح ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہو جائے گي۔
معاشرے، تاریخ اور انسانی زندگي میں نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے قانون ضروری ہے۔ قانون ہر جگہ ہے، انسان کی زوجیت کے مسئلے میں بھی ہے۔ یہ بھی اسلام سے مختص نہیں ہے، آپ دنیا کے تمام مذاہب میں دیکھیے، زوجیت ایک قانون کے ساتھ ہے، عیسائيت میں، یہودیت میں، حتی بدھ ازم میں، دوسری جگہوں پر، دوسرے مذاہب میں - جہاں تک ہماری معلومات ہے - ایک قانون پایا جاتا ہے کہ جس کے تحت ایک عورت اور ایک مرد، ایک دوسرے کی زوجیت میں آتے ہیں۔ بے قانونی یہاں پر گناہ ہے، جرم ہے، ظلم ہے، آشفتگی کا سبب ہے، افراتفری کا موجب ہے۔ یہ اصول اور ضوابط، گھرانے کی سلامتی کا سبب ہیں، اگر ان اصولوں کا لحاظ کیا گيا تو یہ گھرانے کے صحیح سالم رہنے کا سبب بنے گا، جب گھرانا سلامت ہوگا تو سماج صحیح سالم بن جائے گا۔ گھرانہ، سماج کو وجود میں لانے والی اکائي ہے، خلیہ ہے، جب گھرانے صحیح سالم ہو گئے تو پھر معاشرہ بھی صحیح سالم ہو جائے گا۔
خیر، اب گھرانے میں، گھر میں عورت کا کیا کردار ہے؟ آیات و روایات وغیرہ کی رو سے میرے ذہن میں جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت ایک ہوا ہے جو گھر کی فضا میں بسی ہوئي ہے یعنی جس طرح آپ سانس لیتے ہیں تو اگر ہوا نہ ہو تو سانس لینا ممکن نہیں ہے، عورت اسی ہوا کی طرح ہے، گھر کی عورت اس ماحول میں سانس کی طرح ہے۔ یہ جو روایت میں کہا گيا ہے: "اَلمَراَۃُ رَیحانَۃٌ وَ لَیسَت بِقَھرَمانَۃ"(11) وہ یہیں کے لیے ہے، گھرانے کے لیے ہے۔ ریحانہ کا مطلب ہے پھول، عطر، خوشبو، وہی ہوا جو فضا میں بس جاتی ہے۔ عربی زبان کا 'قہرمان' - لیست بقھرمانۃ" - فارسی زبان کے قہرمان کے معنی سے الگ ہے۔ عربی میں قہرمان کے معنی ہیں مزدور یا کام کرانے والا، عورت ایک قہرمانہ نہیں ہے۔ گھرانے میں ایسا نہیں ہے کہ آپ سوچیں کہ آپ نے شادی کر لی ہے تو سارے کام عورت کے کندھوں پر ڈال دیجیے، جی نہیں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے کوئي کام کرنا چاہتی ہے تو کوئي بات نہیں، اس کا اپنا گھر ہے، اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئي کام کرے، اس نے کر دیا، ورنہ کسی کو حق نہیں ہے - چاہے وہ مرد ہو یا کوئي اور ہو - کہ اسے کام کرنے کے لیے کہے، کوئي کام کرنے پر مجبور کرے۔ تو یہ معاملہ ایسا ہے۔
گھرانے میں عورت کبھی بیوی کے کردار میں سامنے آتی ہے، کبھی ماں کے کردار میں ظاہر ہوتی ہے، دونوں کی اپنی خصوصیات ہیں۔ بیوی کے رول میں عورت پہلے مرحلے میں سکون کا مظہر ہے: "وَ جَعَلَ مِنھا زَوجَھا لِیَسکُنَ اِلَیھا"(12) سکون۔ چونکہ زندگی میں تلاطم ہوتا ہے اور مرد، زندگي کے اس دریا میں کام اور تلاطم میں مصروف ہوتا ہے، اس لیے جب وہ گھر پہنچتا ہے تو اسے سکون کی ضرورت ہوتی ہے، آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر میں یہ سکون و اطمینان عورت پیدا کرتی ہے۔ لیسکن الیھا یعنی مرد، عورت کے ساتھ سکون محسوس کرے، عورت سکون کا باعث ہے۔ زوجہ کی حیثیت سے عورت کا کردار سکون اور عشق کا کردار ہے، جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا شہیدوں کی بیویوں کے بارے میں لکھی گئي کتابوں کو پڑھیے، عشق اور سکون کیا ہوتا ہے، یہ اچھی طرح واضح ہو جائے گا۔ یہ مرد، جو میدان جنگ میں گيا ہے - چاہے وہ مقدس دفاع کا میدان ہو، دفاع حرم کا میدان ہو یا دوسرے سخت میدان ہوں - کس طرح اس عورت کے پہلو میں سکون محسوس کرتا ہے اور اس کا وہ روحانی تلاطم، سکون میں بدل جاتا ہے اور کس طرح عشق کا عنصر اسے مضبوطی سے قائم رکھتا ہے، اسے جرات عطا کرتا ہے، ہمت عطا کرتا ہے، طاقت عطا کرتا ہے تاکہ وہ کام کر سکے۔ مطلب یہ کہ عورت، زوجہ کی حیثیت سے ایسی ہے: سکون کا باعث، عشق و اطمینان وغیرہ کا موجب۔ میں نے سکون کی جو بات کی ہے: "وَ جَعَلَ مِنھا زَوجَھا لِیَسکُنَ اِلَیھا" یہ ایک آيت ہے، دوسری آيت میں کہا گيا ہے: "خَلَقَ لَکُم مِن اَنفُسِکُم اَزواجًا لِتَسکُنوا اِلَیھا وَ جَعَلَ بَینَکُم مَوَدَّۃً وَ رَحمَۃ"(13) مودت کا مطلب ہے عشق، رحمت یعنی مہربانی، زن و شوہر کے درمیان عشق اور مہربانی کا تبادلہ ہوتا ہے۔ زوجہ کی حیثیت سے عورت کا رول یہ ہے، یہ چھوٹا رول نہیں ہے، بہت ہی اہم رول ہے، بہت بڑا رول ہے۔ یہ بات بیوی سے متعلق ہے۔
جہاں تک ماں کے کردار کی بات ہے تو وہ حقّ زندگي کا کردار ہے، یعنی زن ایسے لوگوں کو وجود عطا کرتی ہے جو اس کی ذات سے وجود پاتے ہیں۔ یہی بات ہے نا۔ وہی ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے، وہی ہے جو دنیا میں لاتی ہے، وہی ہے جو کھلاتی پلاتی ہے، وہی ہے جو دیکھ بھال کرتی ہے۔ انسانوں کی جان، ماؤں کی مٹھی میں ہے، بچوں پر ماں کا حق، زندگي کا حق ہے۔ خداوند متعال نے بچے کے سلسلے میں ماں کے دل میں جو محبت رکھی ہے وہ ایک بے نظیر چیز ہے بلکہ اس طرح کا کوئي عشق ہے ہی نہیں، اس طرح کا نہیں ہے جو خدا نے ماں کو دیا ہے۔ وہ حق حیات کی مالک ہے، پھر نسل کا جاری رہنا، مائیں نسل جاری رہنے کا سبب ہیں، انسان کی نسل ممتا کی وجہ سے ہی جاری رہتی ہے۔
مائيں، قومی تشخص کے عناصر کو منتقل کرنے والی ہیں، قومی تشخص ایک بہت اہم چیز ہے۔ مطلب یہ کہ ایک قوم کا تشخص، ایک قوم کی شخصیت پہلے مرحلے میں ماؤں کے ذریعے منتقل ہے، زبان، عادتیں، آداب، روایات، اچھا اخلاق، اچھی عادتیں، یہ سب پہلے مرحلے میں ماں کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔ باپ بھی مؤثر ہے لیکن ماں سے بہت کم، ماں کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
دلوں میں ایمان کے بیج بونے والی، مائیں ہیں جو بچے کو مومن بناتی ہیں۔ ایمان کوئي سبق نہیں ہے کہ انسان کسی کو پڑھا دے اور وہ سیکھ لے، ایمان اگایا جاتا ہے، ایک روحانی نشو و نما ہے جس کے لیے بیج بونا ضروری ہے، یہ بیج ماں بوتی ہے، یہ کام وہ کرتی ہے۔ ایمان ہی کی طرح اخلاق بھی ہے۔ بنابریں ماں کا کردار، غیر معمولی ہے۔
یہ دونوں کردار، بہت اہم ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے، میرا نظریہ بھی یہی ہے کہ عورت کی سب سے اہم اور اصلی ذمہ داریاں یہی ہیں۔ ان محترمہ نے کہا کہ میں خاتون خانہ (ہاؤس وائف) ہوں، یہ بہت اچھی بات ہے۔ اسلام کی نظر میں ایک عورت کا سب سے اصلی کردار، یہی خانہ داری کا کردار ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خانہ داری کا مطلب، خانہ نشینی اور گھر میں بیٹھے رہنا نہیں ہے۔ بعض لوگ ان دونوں کے سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں خانہ داری تو وہ سوچتے ہیں کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر میں بیٹھی رہیں، کچھ نہ کریں، کوئي ذمہ داری ادا نہ کریں، پڑھائيں نہیں، مجاہدت نہ کریں، سماجی کام نہ کریں، سیاسی سرگرمیاں انجام نہ دیں! خانہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے۔ خانہ داری کا مطلب یہ ہے کہ آپ گھر کی ذمہ داری نبھائيں اور اس کے ساتھ ہر وہ کام جو آپ کر سکتی ہیں اور جس کا شوق رکھتی ہیں، اسے انجام دے سکیں لیکن یہ سب، خانہ داری کے ذیل میں ہیں۔ اگر کہیں پر دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو، اس بچے کی جان بچائي جائے یا آفس کا وہ کام انجام دیا جائے تو اس بچے کی جان بچانے کو ترجیح حاصل ہے، کیا اس میں کوئي شک ہے؟ نہیں، کسی بھی عورت کو اس میں کوئي شک نہیں ہے کہ اگر بچے کی جان خطرے میں پڑ جائے یا آفس کا کام خطرے میں پڑ جائے تو بچے کی جان کو اولیت حاصل ہے۔ بچے کا اخلاق بچانا بھی اسی طرح ہے، بچے کا ایمان بچانا بھی اسی طرح ہے، بچے کی تربیت بھی اسی طرح ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح آپ کو بچے کی جان بچانے کے بارے میں کوئي شک نہیں ہے، اسی طرح اس کی تربیت بھی ہے۔ البتہ بعض موقعوں پر کسی روش سے، کسی حکمت عملی سے، کسی ترکیب سے، دو باتوں میں سے ایک کے انتخاب کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر حقیقت میں ایسا ہو کہ دونوں میں سے کسی ایک کا ہی انتخاب کرنا ہو اور کوئی چارہ نہ ہو تو یہ، آفس کے کام پر ترجیح رکھتا ہے۔
البتہ جہاں تک فریضے کی بات ہے تو وہ اس پر منحصر ہے کہ اس فریضے کی اہمیت کتنی ہے۔ میں نے جان کی مثال دی لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریضے کی اہمیت، بچے سے، بیوی سے اور ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ امام حسین علیہ السلام سے عرض کرتے ہیں: "بِاَبی اَنتَ وَ اُمّی"(14) میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ کوئي ماں باپ سے بڑھ کر ہو سکتا ہے؟ ان کی جان، آپ کی جان پر قربان۔ یا قرآن مجید کی ایک آیت میں کہا گيا ہے: "قُل اِن کانَ آباؤُکُم وَ اَبناؤُکُم وَ اِخوانُکُم..." یہاں تک کہ آخر میں کہا گيا ہے: "اَحَبَّ اِلَیکُم مِنَ اللہِ وَ رَسولِہِ وَ جِھادٍ فی سَبیلِہِ فَتَرَبَّصوا"(15) ہمیں، انھیں خدا اور خدا کی راہ میں جہاد سے زیادہ نہیں چاہنا چاہیے، بعض جگہیں ایسی ہیں۔ جب فریضہ بڑا ہو جاتا ہے، اس میں عظمت پیدا ہو جائے تو اسے بچے کی جان پر بھی ترجیح حاصل ہو جاتی ہے لیکن ان جگہوں کو چھوڑ کر، عام مواقع پر، عورت کی ذمہ داریوں کا محور، گھر اور گھرانہ ہے اور واقعی عورت کی موجودگي کے بغیر، عورت کے کاموں کے بغیر، عورت کی جانب سے ذمہ داری کے احساس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ گھر چلایا جا سکے اور نہیں چلایا جا سکتا، عورت کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا۔ کبھی گھرانے میں کچھ چھوٹی چھوٹی گرہیں ہوتی ہیں جو عورت کی ظریف انگلیوں کے بغیر کھولی نہیں جا سکتیں۔ مرد جتنا بھی قوی اور طاقتور ہو، وہ بعض گرہوں کو نہیں کھول سکتا۔ یہ چھوٹی گرہیں اور کبھی کبھار بڑی الجھی ہوئي گرہیں، عورت کی ظریف انگلیوں کے بغیر کھل نہیں سکتیں۔ خیر تو یہ گھرانے کی بات ہوئی۔
البتہ اگر ہم گھرانے کے معاملے میں بھی مغرب کے مسائل کو دیکھنا چاہیں تو وہ تباہی ہے، تباہی ہے! مغرب نے گھرانے کو تباہ کر دیا، واقعی تباہ کر دیا۔ البتہ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ اس نے تباہ کر دیا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغرب میں گھرانہ ہے ہی نہیں، کیوں نہیں بہت سے گھرانے، بڑے اچھے گھرانے ہیں، واقعی گھرانہ ہیں، بعض گھرانے کی شکل میں ہیں، بعض گھرانہ نہیں ہیں۔ میں ایک مغربی اور امریکی تحریر میں پڑھ رہا تھا کہ عورت اور مرد بچوں کو ٹھیک سے دیکھنے کے لیے اور ایک گھرانے کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے وقت طے کرتے ہیں کہ تم فلاں وقت اپنے آفس سے آؤ، عورت بھی آفس سے آئے، ساتھ میں چائے پئيں یا ساتھ میں کچھ اسنکیس لیں، یعنی ایک معینہ وقت – مثال کے طور پر چار بجے سے چھے بجے تک – یہ آئے اور وہ بھی آئے، بچے تو اسکول سے آ ہی چکے ہوں گے، سب آئیں اور ایک ساتھ مل کر چائے پئيں، یہ ہوا گھرانہ! پھر یہ اپنے کام پر چلی جائے اور وہ بھی اپنی رات کی پارٹیوں میں چلا جائے، اپنی دوستیاں دیکھے! یہ تو گھرانہ نہیں ہے، یہ تو صرف فیملی کی صورت ہے۔
مغرب والوں نے اسی طرح کے گوناگوں مسائل کے ذریعے، جن کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا، واقعی گھرانے کو تباہ کر دیا جس کی وجہ سے تدریجی طور پر گھرانے کا شیرازہ ہی بکھر گيا، اس پر خود مغربی مفکرین نے صدائے احتجاج بلند کی، ان کے بہت سے ہمدرد، خیرخواہ اور مصلحین نے اس بات پر توجہ دی ہے اور وہ صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اب ان کے پاس کوئي چارہ نہیں بچا ہے، یعنی بعض مغربی ملکوں میں زوال کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ اب اسے روکا نہیں جا سکتا، وہ جانے ہی والے ہیں، مطلب یہ کہ اب گھرانوں میں سدھار نہیں ہو سکتا۔ تو یہ گھرانے کی بات ہوئی۔
کچھ اور بھی باتیں ہیں لیکن افسوس کہ میں اب تفصیل سے بات نہیں کر سکتا؛ ایک مسئلہ حجاب کا ہے۔ حجاب ایک واجب شرعی ہے، شریعت ہے، شریعت کے لحاظ سے واجب ہے، حجاب کے واجب ہونے میں کسی طرح کا شک نہیں ہے، اسے سب جان لیں۔ کوئي اس میں شک کرے، شبہہ پیدا کرے کہ کیا حجاب ہے؟ ضروری ہے؟ لازم ہے؟ نہیں، اس میں کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے، ایک واجب شرعی ہے جس پر عمل کیا جانا چاہیے لیکن جو خواتین حجاب کا پوری طرح سے لحاظ نہیں کرتیں، ان پر بے دینی اور انقلاب مخالف ہونے کا الزام نہیں لگانا چاہیے، نہیں۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، کبھی، جب میں کسی صوبے کے دورے پر تھا، وہاں میں نے علماء کے درمیان، وہاں علماء اکٹھا تھے، میں نے کہا کہ کیوں آپ لوگ کسی عورت پر (بے دینی اور انقلاب مخالف ہونے کا) الزام لگاتے ہیں جس کے فرض کیجیے کہ تھوڑے سے بال (اسکارف سے) باہر نکلے ہوئے ہیں اور رائج اصطلاح کے مطابق وہ بدحجاب ہے – جبکہ کہا جانا چاہیے ضعیف الحجاب، اس کا حجاب کمزور ہے – میں نے کہا کہ جب میں اس شہر میں داخل ہوا تو استقبال کے لیے مجمع اکٹھا ہوا، شاید اس مجمع میں کم از کم ایک تہائي خواتین اس طرح کی ہیں، وہ آنسو بہا رہی ہیں! انھیں انقلاب مخالف نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کیسی انقلاب مخالف ہے جو اتنے اشتیاق سے، اتنی گرمجوشی سے اور اتنے جذبے کے ساتھ آتی ہے اور مثال کے طور پر فلاں مذہبی یا فلاں انقلابی پروگرام میں شرکت کرتی ہے؟ یہ ہمارے ہی بچے ہیں، یہ ہماری ہی بیٹیاں ہیں۔ میں اب تک کئي بار نماز عید فطر کے خطبوں میں یہ بات دوہرا چکا ہوں کہ ماہ رمضان کے پروگراموں میں، شبہائے قدر میں – مجھے تصویریں لا کر دکھائي جاتی ہیں، میں خود تو وہاں نہیں جا سکتا لیکن تصویریں میرے پاس آتی ہیں – مختلف حلیوں اور پہناووں کے ساتھ عورتیں آنسو بہاتی ہیں، مجھے ان کے اس طرح آنسو بہانے پر حسرت ہوتی ہے! میں کہتا ہوں کہ کاش میں بھی اس لڑکی کی طرح، اس جوان خاتون کی طرح آنسو بہا سکتا، اس پر کیسے الزام لگایا جا سکتا ہے؟ ہاں، ٹھیک کام نہیں ہے، بدحجابی یا کمزور حجاب صحیح نہیں ہے لیکن یہ اس بات کا سبب نہیں بنتا کہ ہم ان افراد کو دین اور انقلاب وغیرہ کے میدان سے باہر نکال دیں یا انھیں ان میدانوں سے باہر سمجھیں، کیوں؟ ہم سب میں کمیاں ہیں، کمیوں کو دور کرنا چاہیے، ہم جتنا ان کمیوں کو دور کر سکیں، اتنا بہتر ہے۔ تو یہ ایک دوسرے اور حجاب کے مسئلے میں ایک نکتہ تھا۔
ایک دوسرا مسئلہ، افسوس کہ جس کے بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے، اسلامی جمہوریہ کی جانب سے خواتین کی خدمت ہے۔ اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ دیکھیے میرے خیال میں آپ میں سے کسی نے بھی انقلاب سے پہلے کا زمانہ نہیں دیکھا ہے، ہم نے اپنی تقریبا آدھی عمر انقلاب سے پہلے کے زمانے میں گزاری ہے۔ انقلاب سے پہلے کے زمانے میں دانشور، سمجھدار، عقلمند، پڑھی لکھی اور مختلف میدانوں میں تحقیق کرنے والی خواتین انگشت شمار تھی، اتنی زیادہ پروفیسر خواتین، اتنی زیادہ اسپیشلسٹ اور سوپر اسپیشلسٹ خاتون ڈاکٹرز، مختلف میدانوں میں اتنی زیادہ محقق خواتین – یہ جو میں کہہ رہا کہ مختلف میدانوں میں تو واقعی بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں میں خود گيا ہوں، میں نے دیکھا ہے، معائنہ کیا ہے – پیشرفتہ علوم، پیشرفتہ ٹیکنالوجیز، سائنسداں خواتین، غیر معمولی صلاحیت والی خواتین وہاں کام میں مصروف ہیں۔ انقلاب سے پہلے کے زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں تھا، یہ وہ کام ہے جو انقلاب نے کیا۔ اتنی بڑی تعداد میں طالبات، آپ بعض برسوں میں دیکھتے ہیں کہ طالبات کی تعداد طلباء سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بہت معنی خیز بات ہے، علم حاصل کرنے کا اتنا رجحان۔
اس کے علاوہ اسپورٹس کے میدانوں میں، آپ دیکھیے کہ ہماری لڑکیاں اسپورٹس کے میدانوں میں جاتی ہیں، چیمپین بنتی ہیں، حجاب کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کرتی ہیں، حجاب کے لیے اس سے بہتر کون سی تبلیغ ہو سکتی ہے؟ ان میں سے کچھ خواتین آئيں اور انھوں نے اپنے گولڈ میڈل مجھے عطا کیے۔ حالانکہ میں نے وہ انہی کو لوٹا دیے کہ وہی سنبھال کر رکھیں لیکن میں اس طرح کی خواتین پر فخر کرتا ہوں۔ ایک بین الاقوامی میدان میں، جہاں دسیوں لاکھ لوگ کیمرے کے پیچھے سے دیکھ رہے ہیں، یہ ایرانی لڑکی وہاں جاتی ہے، گولڈ میڈل حاصل کرتی ہے، اس کے ملک کا پرچم لہرایا جاتا ہے اور وہ حجاب کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے، حجاب کے لیے کیا اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کوئي تبلیغ ہو سکتی ہے؟ مختلف میدانوں میں، سائنسی اولمپیاڈز میں، مختلف جگہوں پر، ہر جگہ خواتین نے پیشرفت کی ہے، واقعی ایسا ہی ہے۔ آپ میں سے بعض خواتین نے کہا کہ عورتوں کو کام پر نہیں رکھا جاتا، ان سے علمی اور فیصلہ سازی کے لیے استفادہ نہیں کیا جاتا، جی ہاں، یہ غلط بات ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے، یہ برائي دور ہونی چاہیے لیکن اتنی بڑی تعداد میں سمجھدار، پڑھی لکھی، دانشور، محقق، مصنف اور صاحب رائے خواتین کی موجودگي بہرحال قابل توجہ ہے۔ شہداء، شہداء کی بیویوں اور شہداء کے اہل خانہ کے حالات زندگي کے بارے میں جو کتابیں میرے پاس لائي جاتی ہیں ان سے میں واقعی محظوظ ہوتا ہوں، انھیں زیادہ تر خواتین نے لکھا ہے اور اس معاملے میں مردوں سے آگے بڑھ گئي ہیں۔ کتنا اچھا قلم! کتنا اچھا طرز نگارش! خاتون شعراء بھی بہت اچھی شاعرات ہیں۔ یہی اشعار جو ناظم جلسہ خاتون(17) نے پڑھے، بہت اچھے اشعار تھے اور انہی کے اشعار تھے۔ تو یہ بھی ایک نکتہ تھا۔
میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ حالیہ واقعات میں، آپ نے دیکھا ہی کہ حجاب کے خلاف بہت کام کیا گيا، کس نے ان کوششوں اور کالز کے مقابلے میں استقامت کی؟ خود خواتین نے، عورتوں نے استقامت کی۔ ان لوگوں کو انہی خواتین سے امید تھی، جنھیں آپ بدحجاب کہتے ہیں، وہ ان کی طرف سے پرامید تھے۔ ان کو یہ امید تھی کہ یہی عورتیں، جن کا حجاب آدھا ادھورا ہے، پوری طرح سے حجاب ترک کر دیں گی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، مطلب یہ کہ انھوں نے اس کال دینے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے کو تھپڑ رسید کر دیا۔
آخری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے جو اتنی ساری باتیں کیں، اتنی تعریفیں کیں، جو حقیقت پر ہی مبنی ہیں، اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں بعض گھرانوں میں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، مرد اپنی جسمانی طاقت کی وجہ سے، چونکہ اس کی آواز زیادہ بھاری ہے، اس کا قد زیادہ لمبا ہے، اس کے بازو زیادہ بھرے ہوئے ہیں، عورت پر ظلم کرتا ہے، عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، تو اس کا چارہ کیا ہے؟ کیا کیا جائے؟ ہم گھرانے کو بھی تو بچانا چاہتے ہیں، اس کا راستہ یہ ہے کہ گھرانے اور فیملی کے داخلی قوانین اتنے مضبوط اور مستحکم ہوں کہ کوئي بھی مرد، عورتوں پر ظلم نہ کر سکے، یہاں بھی قوانین کو مظلوم کی مدد کرنی چاہیے۔ البتہ بہت کم معاملات ایسے بھی ہیں جس میں بات اس کے بالکل برعکس ہے یعنی عورت ظلم کرتی ہے، کچھ ایسے بھی معاملے ہیں لیکن کم ہیں اور زیادہ تر معاملے ایسے ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ سبھی معاملات سدھر جائيں گے۔
خواتین نے جو باتیں بیان کیں، میں نے ان سے استفادہ کیا۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ سارے مسائل، بہترین طریقے سے بہترین نتائج تک پہنچیں گے۔ میں خداوند عالم سے آپ سبھی کے لیے صحت و سلامتی کی دعا کرتا ہوں۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے محقق اور ملک کی ثقافتی و سماجی کونسل کی رکن محترمہ عاطفہ خادمی، مصنفہ اور خاتون خانہ محترمہ پریچہر جنتی، جرمنی کی عدالتوں میں کام کرنے والی ماہر قانون محترمہ مریم نقاشان، ڈاکیومینٹری فلموں کے شعبے میں قومی اور بین الاقوامی انعامات جیتنے والی محترمہ مہدیہ سادات محور، شہید بہشتی میڈیکل یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ شہرزاد زادہ مدرس، جوان لڑکیوں کے امور میں سرگرم خاتون محترمہ نگین فراہانی اور کمیونیکیشنز سائنسز میں پی ایچ ڈی اور اعلی دینی تعلیمی مرکز کی طالبہ سارا طالبی نے کچھ باتیں پیش کیں۔
(2) سورۂ احزاب، آیت 5، بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر و ثواب مہیا کر رکھا ہے۔
(3) سورۂ آل عمران، آيت 195، میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، کبھی ضائع نہیں کرتا۔
(4) سورۂ بقرہ، آيت 228، دستورِ شریعت کے مطابق عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جس طرح کہ مردوں کے حقوق ہیں۔
(5) سورۂ تحریم، آيت 10، تو وہ دونوں نیک بندے اللہ کے مقابلے میں انھیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے۔
(6) سورۂ تحریم، آيت 11، اوراللہ اہل ایمان کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے۔
(7) سورۂ قصص، آيت 9، اسے قتل نہ کرو۔
(8) سورۂ تحریم، آيت 12، جس نے اپنی پاکدامنی کی حفاظت کی۔
(9) سورۂ یس، آيت 36، پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں خواہ (نباتات) ہوں جنھیں زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔
(10) سورۂ ذاریات، آيت 49، اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے (ہر چیز کو دو دو قِسم کابنایا) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
(11) کافی، جلد 11، صفحہ 170
(12) سورۂ اعراف، آیت 189، اور پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ (اس کی رفاقت میں) سکون حاصل کرے۔
(13) سورۂ روم، آیت 21، اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔
(14) کامل الزیارات، صفحہ 177 (زیارت عاشورا)
(15) سورۂ توبہ، آیت 24، (اے رسول) کہہ دیجیے کہ اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمہارے بھائی ... تم کو اللہ، اس کے رسول اور راہِ خدا میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو پھر انتظار کرو۔
(16) شمالی خراسان صوبے کے علماء، فضلاء اور دینی طلباء سے خطاب، 30/9/2012
(17) محترمہ نفیسہ سادات موسوی
مسجد مرمر؛ قاهره محل میں چمکتا نگینہ
الاھزام نیوز کے مطابق مسجد محمدعلی قاہرہ کی معروف مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور سنگ مرمر سے استفادے کی وجہ سے اس کو مسجد مرمر یا مسجد الابستر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سال ۱۸۳۰ مصر جدید کے بانی عثمانی دور کے والی محمدعلی پاشا نے یوسف بوشناق جو مامور کیا
کی اس مسجد کی تعمیر کریں۔
تعمیر کی مسجد پر کام فورا شروع ہوا اور معماروں نے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا جو مصری اور استنبول کے معمار تھے۔
اس مسجد کی تعمیر میں بیس سال کا عرصہ لگا۔
مسجد محمدعلی خاص طرز تعمیر کی شاہکار مسجد ہے جو اس کو مصر کی دیگر مساجد سے ممتاز کرتی ہے، اسکے دو مینار کی بلندی 84 میٹر ہیں، مسجد میں 365 چراغ ہیں جو سال کے دنوں کی تعداد کے برابر ہے اور اسی طرح چھلچراغ کے نام سے ایک اور شاہکار نورفشانی کا انتظام کیا گیا ہے۔/
اسلام کی نگاہ میں گھرانے کی اہمیت از رہبر انقلاب
گھرانے کو کس چیز سے خطرہ ہے؟
اسلام کی نظر میں گھرانہ بہت اہم ہے۔ گھر کے ماحول میں عورت اور مرد کا رابطہ کسی اور طرح کا ہے، معاشرے کے ماحول میں کسی دوسرے طرح کا ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان پردے کی حیثیت سے معاشرے کے ماحول میں جو قاعدے مقرر کیے ہیں، اگر انھیں توڑ دیا جائے تو، گھرانہ بگڑ جائے گا۔
اسلامی طرز زندگی اور ثقافت!
گھرانے میں زیادہ تر عورتوں پر اور کبھی کبھی مرد پر ممکنہ طور پر ظلم ہو سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت، عورت اور مرد کے آپس میں میل جول رکھنے کی ثقافت ہے۔ اس طرح کی زندگی خوشحالی کے ساتھ جاری رہتی ہے اور صحیح طریقے سے اور عقلی معیاروں کا لحاظ کرتے ہوئے چل سکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے …
بے عفتی معاشرے کی بنیاد کو ہلادیتی ہے!
طاقتور، پیسے والے اور طاقت والے، ان کے مرد، ان کی عورتیں، ان کے ماتحت اور ان کے ساتھ اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد ہمیشہ اس کے برخلاف کام کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت اور مرد کے درمیان پایا جانے والا پردہ ختم ہو جائے اور یقینی طور پر یہ کام سماجی زندگی کے لیے نقصان دہ اور سماج کے اخلاق کے لیے برا ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کے لیے مضر اور خاص طور پر گھرانے کے لیے ہر چیز سے زیادہ برا ہے۔ یہ گھرانے کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔
رہبر معظم ، عہد زندگی
اسلامی جمہوریت، امام خمینی رح کی ایجاد از رہبر انقلاب
کامیابی کے دو الفاظ!
دنیا کے نظاموں میں،یعنی انقلابی نظاموں میں جو پچھلی ایک یا دو صدیوں میں تشکیل پائے ہیں،میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے علاوہ کسی بھی ایسے نظام کو نہیں جانتا کہ جسکے زوال، نابودی اور بربادی کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئیاں ہوئی ہوں۔آخر کیوں اسلامی جمہوریہ ایران کو ان تمام دشمنیوں کے باوجود دوسرے نظاموں اور انقلابوں کی جیسی بد نصیبی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ کیا وجہ ہے اور اسکا کیا راز ہے؟اس نظام کی بقاء دو الفاظ ہیں:”جمہوری” اور “اسلامی“۔
اسلامی جمہوریہ،جمہوری بھی ہے،یعنی لوگوں کی رای کا پابند ہے اور اسلامی بھی ہے یعنی شریعت الہی کا پابند ہے۔ایک نیا ماڈل ہے۔
امام خمینی رح، کوہ گراں!
امام خمینی کی ایجاد اور انکا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی نظریے کی بنیاد ڈالی اور اسے سیاسی نظریات کے میدان کا حصہ بنایا۔صرف ایک نظریہ ایجاد نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا اور وجود بخشا،کچھہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ انقلاب آگیا،اب لوگ اپنے گھروں واپس لوٹ جائیں یہاں امام خمینی نے کوہ گراں کی مانند تمام امور عوام کے سپرد کردیے۔
عوام پر یقین!
امام خمینی کو عوام پر پختہ عقیدہ تھا،عوام کی صلاحیتوں،انکے ارادوں،انکی وفاداری پہ پختہ عقیدہ رکھتے تھے۔یہ اسلام ناب(خالص) کی فکر،امام راحل کی ہمیشگی فکر تھی،صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے زمانے کے لئے مخصوص نہیں تھی،بہر حال اسلام ناب محمدی کا تحقق،اسلام کی حاکمیت اور تشکیل کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اسلام اور جمہوریت،مسائل کا حل!
دو الفاظ،”اسلامی” اور “جمہوری” کو امام راحل ملک کے مسائل کا حل مانتے تھے۔انہوں نے شروع سے اعلان کیا “جمہوری اسلامی” نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ،اسلامی و جمہوری،قرآن سے اخذ شدہ ہے۔جمہوریت اسلام کے بغیر،اور اسلام جمہوریت کے بغیر،دونوں بے معنی ہیں۔اسلام کی حاکمیت یعنی یہ کہ اصول،اقدار اور راستے کا تعین اسلام کرے گا۔عوامی حکومت یعنی یہ کہ حکومتی کو ایک منظم شکل دینا عوام کا کام ہے۔جب بھی لوگوں کو میدان میں لائے اور اسلام کو معیار و محور بنایا،ہم نے پیشرفت کی۔
عہد بصیرت ، رھبر معظم
آج کا دور خمینی کا دور
2۔ علی (ع) اپنا چہرہ چھپا کر رکھتے، تاکہ پہچانے نہ جائیں، تاکہ فقیر کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ نہ آئے، وہ اپنے ہاتھ سے چہرے مبارک کو ڈھانپ لیتے۔۔۔۔ علی کے اشارے پر ہوا بھی آہستہ چلتی، تاکہ ایک بچے کی نیند میں خلل نہ پڑے اور۔۔۔۔
کتاب "صوت العدل الانسانیہ" کے عیسائی مصنف جارج جردق لکھتے ہیں: "یہ سب کچھ جو علی (ع) کی فضیلت اور انسان دوستی سے مجھے حاصل ہوا ہے، وہ ناپ تول اور تعداد سے باہر ہے۔ جو ہم تک پہنچا، بہت سی مقداروں میں سے صرف ایک چھوٹا سا حصہ گویا علی (ع) کی صفات کے لامحدود سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ اس رائے کی وضاحت کرتے ہوئے جردق نے ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "علی کی بہت سی خوبیاں ان کے دشمنوں نے بغض کی بنا پر اور ان کے دوستوں نے تقیہ کی بنا پر فراموش کر دی ہیں۔"
3۔ ظاہری خلافت کے ابتدائی ایام میں کچھ امیر اور خواص راتوں کو آپ کے پاس گئے اور مال کو مساوی طور پر تقسیم کرنے پر شکوہ کیا؟! آپ پہلے والوں کی طرح شرفاء اور خواص کو زیادہ حصہ کیوں نہیں دیتے؟! اور حضرت علی (ع) نے فرمایا تھا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان لوگوں پر ظلم کرکے فتح حاصل کروںو جن پر میں حکومت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم میں یہ ظلم کبھی نہیں کروں گا۔ اگر یہ جائیداد میری ہوتی، تب بھی میں اسے لوگوں میں برابر تقسیم کر دیتا، یہ مال تو خدا کی ملکیت ہے۔" علی (ع) سخت تھے، لیکن لوگوں کے ساتھ نہیں، حکومت کے ان اہلکاروں کے ساتھ، جن کی ذمہ داری وہ خدا کے بندوں کی خدمت سمجھتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ یہ لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں، یا مخلوق میں تمہارے برابر ہیں۔ دوسری طرف وہ آلودہ جائیدادوں، ناجائز دولت کے مالکوں، غنڈوں اور اس قسم کے تمام لوگوں کے ساتھ سخت تھے۔ یہ وہی متاثرین اور اسراف زدہ لوگوں تھے، جو ہمارے مظلوم آقا کی سختی سے خوفزدہ تھے اور علی (ع) کے انصاف کے بارے میں اپنی بے چینی کو لوگوں کی فکر سمجھتے تھے۔
4۔ یہاں صفین کا میدان ہے۔ صفر 37 ہجری کا 9واں دن۔ کل رات ایک سخت جنگ لڑی گئی اور غروب آفتاب کے چند منٹ بعد تک، اگرچہ 93 سالہ عمار، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی کے وفادار دوست تھے، شہید ہوگئے، لیکن معاویہ کی فوجوں کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کے حملے کے خوف سے وہ پوری رات سو نہیں سکے۔ علی (ع) کے ساتھی انہیں اس حد تک لے گئے کہ ان کی دہشت کی آواز کتوں کے چیخنے کے مترادف تھی اور اسی وجہ سے انہوں نے اس رات کو "لیلۃ الحریر" یعنی کتوں کے چیخنے کی رات کا نام دیا۔ تاہم، آج جنگ ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوچکی تھی اور علی (ع) کی فوج کے کمانڈر مالک اشتر نے شام کی فوج کو تتر بتر کر دیا اور معاویہ کے خیمے کے قریب جا پہنچے، جو آج کے وائٹ ہاؤس کی طرح ہے۔ لیکن معاویہ کی فوجوں نے عمرو عاص کی چال سے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا اور علی (ع) نے اس چال کے بعد مالک کو واپس بلایا، جس نے کچھ کم عقل لوگوں میں شکوک پیدا کر دیئے تھے۔ مالک پریشان ہے۔۔۔۔ اسلام کا مستقبل خوفناک ہے۔۔۔ لیکن اس نے اپنے امام کی اطاعت کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔
5۔ چند سال پہلے کیہان میں ایک آرٹیکل میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ "امیر مومنین (ع) کے سامنے دشمنی اور عداوت کے لیے تین دھڑے موجود تھے۔ پہلے ناکثین، جیسے طلحہ اور زبیر، جن میں سے کچھ علی کو چاہتے تھے، لیکن علی کی عدالت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ دوسرا گروہ مارکین، خوارج، جو علی (ع) کے بغیر انصاف کی تلاش میں تھے۔ تیسرا گروہ قاسطین کا تھا، جیسے معاویہ اور اس کا گروہ۔ جو نہ علی (ع) اور نہ انصاف چاہتے تھے۔ اگرچہ ان تینوں دھڑوں نے ہمارے آقا علی (ع) کے خلاف جنگ کا جھنڈا بلند کیا، صرف اس وجہ سے کہ علی (ع) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خالص اسلام کی نمائندگی کرتے تھے اور "علوی انصاف" پر اصرار کرتے تھے، جو "پیغمبرانہ انصاف" کا حقیقی ترجمہ تھا۔
6۔ ایک نصیحت آمیز اور سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ تاریخ کی غیر واضح اور غیر مبہم گواہی کے مطابق، ناکثین اور مارکین نے نہ صرف حضرت امیر (ع) کے دور میں بلکہ تمام ادوار میں قاسطین کی خدمت کی ہے اور قاسطین نے مارکین اور ناکثین کو استعمال کیا ہے۔ ناکثین میں سے طلحہ اور زبیر فتنہ جمل میں معاویہ کی طرف سے علی (ع) کے خلاف صف آراء ہوئے، کربلا میں شمر وہ شخص تھا، جس نے امام حسین (ع) کے خلاف سب سے زیادہ ظلم کیا، خوارج میں سے تھا! ابن ملجم مرادی قاتل علی (ع) بھی خارجی تھا۔۔ دور کیوں جائیں؟ ایران میں 88 کے فتنہ کے دوران، فتنہ کے سرغنہ اور اس واقعے کے بہت سے دوسرے اہم عوامل نے کافروں اور منافقوں کا ساتھ دیا اور امام (رہ) کی توہین سے بھی باز نہ آئے اور نہ اس فعل کی مذمت کی اور آخر کار قاسطین کے ساتھ مل گئے، جو آج جو کے دور میں امریکہ، اسرائیل اور انگلینڈ کی منحوس مثلث ہے؟! اس گروہ نے ابتداء میں فتنہ کے دوران حط امام کا پیرو ہونے کا کا دعویٰ کرتے ہوئے کھلم کھلا امام خمینی کی توہین کی، امام حسین (ع) کے مقدسات کو آگ تک لگائی اور اسطرح امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خالص اسلام پر وار کیا، اس جنگ میں منافق، بہائی، مارکسی، شاہی سب شامل تھے۔
7۔ مالک غمگین ہے، وہ علی کو اپنی طاقت کے عروج پر مظلوم دیکھتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ عمار کے پاس جاتا ہے۔ "کاش ہم علی (ع) کو ایک ایسے دور میں لے جائیں، جہاں لوگ ان کی تعریف کریں اور ان کے طریقے اور رسم و رواج کو ترجیح دیں۔" عمار نے مالک کو تسلی دی۔ "وہ دن آنے والے ہیں، جو تم چاہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے لوگوں کا ذکر سنا ہے، جو اپنے آباء کے صلب میں اور اپنی ماؤں کے رحموں میں ہیں اور جب وہ وقت آئے گا، جس کی تم نے تمنا کی تھی تو وہ لوگ آجائیں گے، جو لبیک کہتے ہوئے "میں" اور "ہم" سے بے پرواہ صرف اور صرف اپنے مولا کی اطاعت کا دم بھرتے ہوئے آگے بڑھیں گے، ان کا دل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خالص اسلام سے مربوط ہے۔ وہ علی (ع) کو اپنا امام، استاد اور رہنما مانتے ہیں۔ وہ تسلط کے نظام کی تاریکی کو توڑتے ہوئے ایک نیا منصوبہ سامنے لائیں گے۔
رسول خدا (ص) نے جس کا وعدہ کیا تھا، وہ آئے گا اور جن مجرمین نے علی (ع) کی زندگی کے خاتمے کو اس دنیا میں اسلام کا خاتمہ سمجھا تھا وہ خوف سے بلک اٹھیں گے۔ علی کے یہ مرید دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اپنے تمام دشمنوں کو الکفر ملهًْ واحده» کا نمونہ کہہ کر ہر طرف سے ان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ایک بار پھر جمل، صفین اور نہروان کا منظر ہوگا، لیکن اس بار جمل کی طرح ناکثین سامنے ٹک نہیں سکین گے اور صفین کی طرح وہ فریب کے نیزے سے زخمی نہیں ہونگے، اور نہ نہروان جیسی صورت حال ہوگی۔ شیطان انسانوں اور جنوں کی اپنی فوجوں کو پکارے گا: تم کیوں بیٹھے ہو؟! اسلام ایک بار پھر تاریخ کی باڑ توڑ کر 1400 سال بعد میدان میں آگیا ہے۔
8۔ "خمینی کے دور کا آغاز یقیناً اسی طرح ہوا۔ جس دور کی مالک نے تمنا کی تھی اور عمار نے بشارت دی تھی اور حضرت روح اللہ نے اس زمانے کے لوگوں کے بارے میں فرمایا: "میں جرات کے ساتھ دعویٰ کرتا ہوں کہ ملت ایران اور اس کے کروڑوں لوگ رسول خدا (ص) کے دور کی قوم حجاز اور امیر المومنین (ع) کے دور کے اہل کوفہ سے بہتر ہیں۔" یہ نکتہ مصر کے مشہور ادیب اور صحافی "محمد حسنین ہیکل" سے بھی نقل ہوا ہے۔ وہ امام خمینی (رہ) سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں، جو کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد تہران میں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی کو اس طرح دیکھا کہ جیسے وہ وقت کی 1400 سالہ سرنگ سے گزر کر موجودہ دور میں پہنچ گئے ہیں، تاکہ علی (ع) کے فوجیوں کو اکٹھا کریں، جو ان کی شہادت کے بعد بکھر گئے تھے۔ بھولے ہوئے اسلام کو دوبارہ قائم کریں، عدل علی (ع) کو حکومت کی کرسی پر بٹھا دیں۔ میں خمینی کے چہرے میں یہ صلاحیت صاف دیکھ رہا ہوں۔"
9۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کس نے کہا؟ میں نے اسے کہیں پڑھا اور سنا۔ یہ ایک دانشمندانہ جملہ ہے "اگر ہمیں امیر المومنین (ع) کی سیرت و زندگی پر پرکھا جائے اور ملامت کی جائے، تو یہ ہمارے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ہمیں لبرل ازم پر پرکھیں اور ہماری حوصلہ افزائی کریں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے جانشین نے یہ انداز اختیار کیا ہے کہ وہ 44 سال تک دنیا کی تمام چھوٹی اور بڑی طاقتوں کی کینہ توزیوں اور سازشوں کے سامنے کھڑے ہیں اور خواجہ شیراز، کے الفاظ کا مصداق بنے ہوئے ہیں یعنی ہم ’’عدم کی حد‘‘ سے ’’ عالم وجود‘‘ تک آئے ہیں۔
10۔ اب اس طرف اور دنیا کے دوسرے رخ پر ایک نظر ڈالیں۔ ہم کیا دیکھتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ جیمز ویلزلی کے مطابق "اسلام ایک طاقتور قطب ہے اور خمینی اور خامنہ ای کے پرچم تلے پوری دنیا کو چیلنج کیا جا رہا ہے" اور بحر اوقیانوس کے سربراہی اجلاس میں برزینسکی کے مطابق "تاریخ ایک عظیم موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ وہ مقام جہاں خمینی اور خامنہ ای کے رہنماء خطوط ہیں۔" (دوسری طرف حضرت خامنہ ای نے تاریخ کے عظیم موڑ کے بارے میں آگاہ کیا تھا) آج ہم نیتن یاہو کو چیخیں مارتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ کہہ رہا ہے: "میں مشرق وسطیٰ میں جہاں بھی دیکھتا ہوں، میں خمینی اور خامنہ ای کو خیمے لگائے دیکھتا ہوں" اور ایلون ٹوفلر افسوس کرتے ہوئے رہبر انقلاب کی اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ ’’اس دور کو خمینی کا زمانہ کہنا چاہیئے۔‘‘
انقلابِ اسلامی نے عالمی استکبار کے ظلم و ستم سے نجات کا راستہ دکھایا، شیخ ابراہیم زکزاکی
حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی نے خراسان رضوی مشہد میں انقلابِ اسلامی ایران کی سالگرہ سے متعلق منعقدہ کانفرنس کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انقلابِ اسلامی ایران کو 44 سال گزر چکے ہیں اور انقلاب اسلامی نے ان 4 دہائیوں میں دنیا پر نمایاں اثرات مرتب کئے ہیں اور اسلام کے بارے میں دنیا والوں کے نظریے کو بدل دیا ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ انقلابِ اسلامی سے پہلے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دین اسلام کا تعلق ماضی سے ہے، کہا کہ مغربی طاقتوں نے دنیا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن انقلابِ اسلامی نے ان کی مساوات کو درہم برہم کر دیا۔
شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے رہنما نے کہا کہ انقلابِ اسلامی نے عوام کو یہ پیغام دیتے ہوئے کہ عالمی استکبار کے ظلم و ستم سے نجات کا واحد راستہ مزاحمت ہے، خوشخبری دی ہے کہ اقتدار دراصل عوام کے پاس ہے اور عوامی تحریکیں ہی استکباری مظالم پر قابو پا سکتی ہیں۔
شیخ زکزاکی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مغرب نے اسلام فوبیا کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ کس طرح ایک آزاد اسلامی معاشرہ تمام اقوام کیلئے نمونہ بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار کا خیال تھا کہ انقلابِ اسلامی امام خمینی (رح) کی رحلت کے ساتھ ختم ہو جائے گا، لیکن آج الحمدللہ! انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں جاری ہے اور عالمی سطح پر، انقلابِ اسلامی کے اثر و رسوخ اور پیشرفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آخر میں، شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے رہنما نے مزید کہا کہ نائیجیریا کو دین اسلام کی ترویج اور انقلاب اسلامی کے افکار کے پھیلاؤ کا سب سے مؤثر نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے، کسی کو یقین نہیں تھا کہ انقلابِ اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے کو بدل سکتا ہے۔
ایرانی انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کی دمشق و حلب میں داخل
صیہونی حکومت کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران سے انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں پر بمباری کے باوجود دوسرے ٹرک دمشق اور حلب میں داخل ہوئے۔
اتوار کی رات صیہونی حکومت نے ایرانی انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں پر بمباری کی جو عراقی سرحد سے البوکمال کراسنگ کے ذریعے شامی علاقے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
صیہونی حکومت کے حملوں کے باوجود خوراک اور ادویات کے دوسرے ٹرک دمشق اور حلب میں داخل ہوئے۔
عین اسی وقت جب عراق اور شام کی سرحد پر خوراک لے جانے والے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا، عراقی سیکیورٹی ذرائع نے بغداد ڈیلی کو بتایا کہ صوبہ الانبار کے مغرب میں واقع القائم شہر کے قریب کئی دھماکوں کی آواز سنی گئی۔ شام کی سرحد) اور آوازیں سرحدی پٹی میں بمباری کی وجہ سے ہوئیں۔یہ شام میں القائم اور البوکمال کے درمیان تھا۔ اس باخبر عراقی ذریعے کے مطابق ان حملوں کے وقت ہیلی کاپٹر بھی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے اس علاقے پر پرواز کر رہے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق خوراک لے جانے والے یہ ٹرک سرکاری اور قانونی طور پر البوکمال بارڈر کراسنگ کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں نشانہ بنایا گیا۔
taghribnews.com