آیا صوفیا مسجد کی تاریخ

Rate this item
(1 Vote)
آیا صوفیا مسجد کی تاریخ

ترک عدالت نے قانون اور بازنطینی حکمرانوں کے ساتھ کئے گئے سلطان محمد کے معاہدے کی رو سے مسجد کی بحالی کا حکم دے دیا۔ صدر طیب اردگان عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لئے پہلے سے ہی آمادہ تھے، 10 جولائی کو طیب اردگان کی ڈگری کے اجراء کے بعد تاریخی مسجد آیا صوفیا کا قدیم تشخص بحال کرتے ہوئے اسے عجائب خانہ سے دوبارہ مسجد میں بدلنے کا عمل جاری ہے۔ آرائش و تزئین کے بعد اسے نماز کے لئے کھول دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آیا صوفیا مسجد میں سیاحوں کی آمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ مخصوص اوقات کار میں سیاح آ سکیں گے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب بیت المقدس کی آزادی کی کا وقت قریب آگیا ہے۔ نوٹر ڈیم کیتھڈرل میں عبادت بھی ہوتی ہے اور سیاحوں کے لئے بھی کھلا ہے، یہی پوزیشن صوفیا مسجد کی بھی ہوگی۔ عدالتی فیصلہ سنتے ہی متعدد افراد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے مسجد پہنچ گئے تھے، صدر ترکی طیب اردگان کے حکم پر 85 برس بعد پہلی نماز 25 جولائی کو ادا کی جائے گی۔ استنبول کی شان اور ترک ثقافت کی پہچان مسجد آیا صوفیا (خدا کی حکمت) کئی سو برس پرانی ہے۔ 500 برس تک ترکی میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکانے کی بہترین جگہ تھی۔ 9 صدیوں تک آیا صوفیا کو دنیا کے ایک بڑے شاہی مرکز اور گرجا گھر کی کی حیثیت حاصل رہی۔

مسجد بنانے کے مخالفین
مسجد کے کھلنے کا حکم جاری ہوتے ہی کئی ممالک میں کہرام مچا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی مسجد کی بحالی قبول نہیں کی۔ یہ سب مسجد کی جگہ عجائب خانہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ روس اور امریکہ کے صدر ترکی کے فیصلے کو قدامت پرست فیصلہ کہہ رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومیو کا مخالفانہ بیان کوئی انوکھی بات نہیں۔ روسی سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کونستاتن کوسا شیف نے انتباہ کیا کہ فیصلے پر انتہائی منفی ردعمل آسکتا ہے۔ فرینکفرٹ میں قائم عالمی کونسل برائے چرچز نے صدر کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس فیصلے پر گہرے رنج و غم اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

یونیسف نے بھی ترکی کی انتطامیہ کو لکھے گئے ایک خط میں مسجد کی بحالی کو بنا سوچے سمجھ اٹھایا گیا فیصلہ قرار دیا ہے، عالمی عجائب گھر ہونے کے ناطے مسجد کی بحالی سے پہلے عالمی شخصیات سے بات چیت بھی ضروری تھی، یکطرفہ طور خود سے مسجد کی بحالی درست نہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی فیصلے کو تبدیل کرنے کا ذکر کیا ہے۔ عالمی ثقافتی ورثہ کو مسجد میں بدلنے پر یورپی یونین بھی خوش نہیں۔ یورپی یونین نے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے عجائب گھر قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

مسیحیوں کی عالمی تنظیم نے بھی ترکی کے صدر سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعض عیساائی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پرانے تشخص کی بحالی سے دنیا ایک بار پھر مشرق اور مغرب میں بٹ جائے گی، کسی نے کہا کہ اس سے 30 کروڑ قدامت پرستوں کے جذبات مجروح ہونگے۔ بھارت میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس بھارت میں جہاں 80 لاکھ کشمیریوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، جس کے مرکزی شہر دلی میں اسلامی نام رکھنے پر 39 افراد 23 فروری سے 26 فروری تک خاک اور خون میں نہلا دیئے گئے۔

کیا پورا گرجا گھر مسجد میں بدلا گیا؟
ہرگز نہیں۔ گرجا گھر میں سات اہم علوم کی تعلیم کے لئے عظیم الشان یونیورسٹی بنائی گئی تھی، لیکن یہ یونیورسٹی خستہ ہونے کے باعث بند کردی گئی تھی۔ سلطان نے نئی جگہ پر عالی شان یونیورسٹی قائم کی۔ ان کا تعمیراتی پلان منفرد تھا۔ انہوں نے اس عمارت میں مسجد کے لئے بہت سی تعمیرات کیں، جن کا ذکر الگ بھی کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال، مدرسہ، اسکول، لائبریری، باغ، مہمان خانہ، سرائے اور مقابر کے علاوہ دیگر تعمیرات بھی شامل تھیں۔ یہ سب سلطان کی حکمت علمی کا نتیجہ ہیں۔

گرجا گھر پر قبضے
مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس عمارت نے کئی رنگ روپ بدلے۔ آیا صوفیا 900 برس گرجا گھر رہا لیکن کئی بار اجڑا۔ رومیوں اور بازنطینی آپس میں لڑتے رہے اور گرجا گھر کا تشخص بدلتے رہے۔ موقع ملنے پر یونانیوں نے بھی گرجا گھر کی شکل بدل ڈالی۔ آیئے دیکھتے ہیں
537ء تا 1054ء: یہ بطور بازنطینی کرسچین گرجا گھر قائم رہا۔
1054ء تا 1204ء: یونانیوں نے قبضہ کرکے قدامت پرست کیتھڈرل بنا دیا۔
1204ء تا 1261ء :رومیوں نے قبضہ کرکے رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل کردیا، دوسرے گروہوں کی تمام نشانیاں ایک بار پھر مٹا دی گئیں۔
1261ء تا 1453ء: اسے یونانی آرتھوڈکس میں بدل دیا گیا۔

مسجد مذہبی پیشواؤں کے کہنے پر بنائی گئی تھی
1453ء میں خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم کو فاتح قسطنطنیہ بھی کہا جاتا ہے، ان کی فتوحات اس قدر تھیں کہ انہیں فاتح ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا، فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد نے 1453ء میں رومیوں اور یونانیوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ جس کے بعد 29 مئی 1453ء کو خستہ حالت میں یہ عمارت ان کی سلطنت کا حصہ بن گئی۔ شکست خوردہ بازنطینی حکمرانوں نے اس عمارت کے حسن کو برقرار رکھنے کی التجا کی جسے مسلمانوں نے مان لیا۔ ایک مغربی دستاویز میں لکھا ہے کہ سلطان محمد فاتح مذہبی پیشواؤں کی مدد سے آگے بڑھتے رہے اور نئے روم کی بنیاد رکھنے کی جانب پیشرفت کر رہے تھے۔ قسطنطنیہ کے سلطان اور اوپر تلے بدلنے والے کئی پوپ بھی آپس میں سیاست کرتے رہے جس سے سلطان کو موقع مل گیا۔

سیاست کے جوڑ توڑ اور بنتے بگڑتے اتحادوں میں وینس کا کردار بھی کلیدی رہا۔ اٹلی کے حکمران کئی اہم شہروں (جیسا کہ فلورینس، وینس، نیپلز اور ریمینی) کا تبادلہ کرتے رہے لیکن ان تبدیلیوں کا فائدہ سلطان محمد کو پہنچا۔ جنوبی اٹلی میں ’’Otranto‘‘ نامی علاقے پر قبضہ ان کی آخری پیش قدمی تھی وہ اپنی سلطنت کو متحد اور منظم کئے بغیر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، جس سے ترکی کی خلافت عثمانیہ کو زبردست دھچکا لگا۔ امریکہ میں ایک ہزار سے زائد ریڈیو سٹیشنز اور جرائد کو چلانے والے ادارے npr نے 10 جولائی 2020ء کو لکھا، ’’Turkey Converts Istanbuls Iconic Hagia Sophia Back into A Mosque‘‘ یعنی ترکی نے مشہور زمانہ آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد میں بدل دیا۔ دیگر کئی عالمی مضامین میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ترکی میں آیا صوفیا کا اسلامی تشخص بحال کردیا گیا ہے۔

نیو یورپ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق بازنطینی حکمران نے ہی اسے مسجد میں بدلنے کی التجا کی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ آرائش و تزئین کے بعد اسے مسجد میں ڈھال دیا جائے۔ سلطان محمد دوئم سے رابطوں کی تصدیق کئی دیگر جرائد و مضامین سے بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں کیا گیا معاہدہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ سلطان محمد کی منشاء یہ ہرگز نہ تھی، وہ شاہی محل اور شاہی خاندان کی عبادت گاہ کے طور پر ہی اسے قائم و دائم رکھنا چاہتے تھے لیکن سابق حکمرانوں کی خواہش کے آگے سر جھکائے بنا نہ بنی۔ آخر کار انہوں نے چار میناروں کی تعمیر کے بعد اس شاہی محل نما عمارت کو مسجد میں بدل دیا۔ خلافت عثمانیہ کے پاس شاہی انجینئرز اور ماہرین تعمیرات کی کمی نہ تھی،سابق حکمران کے دل کی آواز کو سنتے ہوئے اسی وقت اسے مسجد میں ڈھالنے کا حکم دے دیا گیا۔

1453ء میں اسے مکمل طور پر مسجد کے قالب میں ڈھال دیا گیا اور یہاں اذان کی آواز گونجنے لگی۔ مرکزی حصے میں قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی پہچان بنانے والے آیا صوفیا کو منفرد حیثیت حاصل تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کردیئے گئے اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی سربراہی میں روشن خیال حکومت برسراقتدار آگئی۔ کمال اتاترک نے 1935ء میں اولین حکم میں مسجد کا تشخص ختم کرتے ہوئے اس عظیم الشان عبادت گاہ کو عجائب گھر میں بدل دیا۔ کئی سو سال پرانی مسجد آیا صوفیا کو عجائب خانہ بنانے کی ڈگری جاری کردی گئی۔ سیکولر وزارتی کونسل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آیا صوفیا کی منفرد تاریخی اہمیت اور استنبول کے مرکز میں واقع ہونے کے پیش نظر اسے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

یہ عجائب گھر پوری مشرقی دنیا کے سیاحوں کے لئے اہمیت کاحامل ہوگا جس سے اقوام عالم کو نئے علوم سے روشناس ہونے میں مدد ملے گی‘‘۔ (بحوالہ کتاب ’’آیا صوفیا، ہولی وزڈم، ماڈرن مونیومنٹ مصنف رابرٹ نیلسن)۔ دنیا کے اس حصے کو نئے علم سے روشناس کرانے کے نام پر عالم اسلام کو پر شکوہ عبادت گاہ سے محروم کردیا گیا۔ قریب قریب دو صدیوں میں یہاں کروڑوں مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے لیکن مصطفیٰ کمال نے جذبات کی پرواہ نہ کی۔ کیونکہ ہر سال لاکھوں افرد جوتوں سمیت اس پاک جگہ میں داخل ہوتے رہے۔

شائد مغرب کی حمایت کا حصول ان کے پیش نظر ہو، ان کا خیال ہوگا کہ خلافت عثمانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرکے ہی وہ مغرب کے ساتھ زندہ رہ سکتے تھے جیسے مغرب خوش ویسے ہی وہ بھی خوش۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے شکست خوردہ سابق حکمران کی خواہش کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے خود اس جگہ پر مسجد بنانے کی درخواست کی تھی۔ ان کے فیصلے کے خلاف کسی غیر ملکی نے یہ نہیں کہا کہ جناب آپ اسلامی تشخص کا خاتمہ کیوں کر رہے ہو۔ تاریخی حیثیت میں تبدیلی کی مخالفت کسی عالمی تنظیم یا ادارے نے نہیں کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ترک عوام نے مصطفیٰ کمال اتاترک کا یہ فیصلہ کبھی تسلیم نہیں کیا۔

بناوٹ، گنبد اور مینار
مسجد کے 197 فٹ بلند چار مینار اللہ کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ پنسل کی مانند بلند و بالا یہ چاروں مینار اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ اتنے بلند، پنسل سے مشابہہ مینار دنیا کے کسی اور حصے میں قائم نہیں۔ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد بنایا گیا اسلامی سمٹ مینار بھی اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مرکزی گنبد کا قطر 102 فٹ ہے۔ گنبد کی بناوٹ آسمان سے مشابہہ رکھی گئی ہے۔ گنبد دیکھ کر اندر سے ایسے لگتا ہے جیسے آسمان سر پر سایہ فگن ہو۔ آسمان سے مشابہہ رکھنے کے لئے چھت کئی حصے نیلے رنگ سے ڈھانپ دیئے گئے۔ کہیں کہیں زرد رنگ بھی نمایاں ہے۔ مرکزی گنبد کے چاروں طرف 40 کھڑکیاں ہیں، جبکہ اندرونی حصے میں اسلامی خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں، چھت کے اندرونی حصوں پر کی گئی پچی کاری کی اپنی ہی شان ہے۔

ہر نمازی کے دل و دماغ میں اللہ کی شان اور اس کی عظمت کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ خطاطی کے یہ تمام نمونے درجہ کمال پر ہیں، کسی بھی عالمی شاہکار سے کم نہیں۔ مسجد کے چاروں بنائے گئے چھوٹے گنبد اسے دیگر مساجد سے ممتاز حیثیت عطا کرتے ہیں۔ یہ خلافت عثمانیہ کے انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ کاوشوں کا نمونہ ہیں۔ بظاہر یہ عجائب گھر تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کی خطاطی اورحضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے نام مبارک اسے عجائب گھر سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کا فیصلہ ترک عوام نے کبھی قبول نہیں کیا، وہ برسوں سے نماز پڑھنے کی جستجو کررہے ہیں، مسجد کی بحالی کے لئے کئی مرتبہ قانونی اور عدالتی کارروائیاں کی گئیں لیکن عوام کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آخری مقدمہ 16 برس قبل دائر کیا گیا تھا، جس میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا تھا کہ آیا صوفیا کی زمین دراصل سلطان محمد کی ملکیت تھی اور انہوں نے ہی اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا، کمال اتاترک سلطان کا فیصلہ تبدیل کرنے کا مجاز نہ تھے۔

Read 2553 times