قدمگاہ؛ امام رضا علیہ السلام کے نیشابور سفر کی ایک عظیم یادگار

Rate this item
(2 votes)
قدمگاہ؛ امام رضا علیہ السلام کے نیشابور سفر کی ایک عظیم یادگار

نیشابورشہرسے 24 کلومیٹر کے فاصلے پرمشہد ـ نیشابور ہائی وے کے قریب مولا امام رضا علیہ السلام سے منسوب قدمگاہ شریف ہے۔[1]

قدمگاہ مولا امام رضا علیہ السلام، زائرین امام ہشتم ع کےعلاوہ عام سیاحوں کےلئے بھی نہایت پرکشش اور جاذب نظرمقام ہے، قدمگاہ کی جذابیت صرف مذہبی مقام ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے آس پاس کے نہایت خوبصورت اور قابل دید طبیعی نظارے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قدمگاہ کے ساتھ ایک خوبصورت باغ بھی ہے جس میں انتہائی قدیمی بلند و بالا درخت موجود ہیں۔

ایرانی بادشاہ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں قدمگاہ میں موجود باغ کی توسیع کی گئی اور 1971 کو باقاعدہ طور پر اسے ایرانی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔[2]

باغ کی خصوصی حفاظت کی جاتی ہے اس کی ایک وجہ اس میں موجود بعض دیگر صفوی دور کے تاریخی یادگاروں کا موجود ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے قدمگاہ کی عمارت کے ساتھ کچھ اور عمارتیں بھی تعمیر کی گئی تھیں ان میں سے ایک میں پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جبکہ ایک عمارت میں مسافروں کو جگہ دی جاتی تھی، جبکہ تیسری عمارت ایسی تھی کہ جس میں مویشی رکھے جاتے تھے۔

قدمگاہ کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو خود تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور اس گاؤں میں ایک پرانے قلعے کے آثار پائے جاتے ہیں۔

قدمگاہ در اصل امام رضا علیہ السلام کی ایک عظیم یاد گارہے، اس قدمگاہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں ایک نہایت خوبصورت صاف شفاف پانی کا چشمہ بھی موجود ہے اور روایات کے رو سے یہ چشمہ، امام رضا علیہ السلام کے حکم سے ہی جاری ہوا ہےاور یوں یہ امام ہشتم علیہ السلام کے معجزات اور کرامات میں سے ایک ہے۔[3]

قدمگاہ میں 53 سینٹی میٹر سیاہ رنگ کا ایک پتھر موجود ہے جس میں دو قدموں کے نشانات پائے جاتےہیں اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس پتھر پر کھڑے ہوکرحضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی اورعاشقان امام نے قدموں کے نشان والے پتھرکو محفوظ کرلیا تھا۔[4] جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ عاشقان امام رضا علیہ السلام نے اسے ایک یادگار کے طور پر بنایا ہے۔[5]

قدمگاہ کی تاریخی حیثیت

قدمگاہ تاریخی اعتبارسے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت نیشابور ایران کے ایک پررونق اور آباد شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا، جب امام ہشتم نیشابور پہنچے تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا بعض روایات میں استقتبال کرنے والوں کی تعداد، ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔[6]

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا(ع)، نیشابور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:‌ فرزند رسول ص ہمارے لئے کوئی حدیث بیان بیان فرمائیں، امام(ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد گرامی موسی بن جعفر(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر بن محمّد(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی علی بن الحسین (علیہما السّلام) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی حسین بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمؤمنین علی بن أبی طالب(ع) سے؛ انہوں نے رسول خدا(ص) سے آپ(ص) نے جبرئیل سے سنا جبرئیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں: "اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.[7]

(ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ" میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا](ع) نے فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔

چونکہ اس حدیث شریف کے سارے راوی معصوم ہیں اس لئے اسے سلسلۃ الذہب کہا جاتا ہے، اور اس حدیث کو اس مقام پر ایک ساتھ بیس ہزار سے زائد افراد نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے بنفس نفیس سن کرقلم بند کیا ہے۔[8]

قدمگاہ کیسے جائیں؟

قدمگاہ تاریخی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ جب امام رضا علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کریں تو قدمگاہ کی زیارت سے بھی فیض یاب ہونے کی کوشش کیجئے۔

اگرآپ خود نیشابور شہر سے قدمگاہ کی زیارت پر جانا چاہیں تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ شہر سے قدمگاہ کی طرف عام طور پر ٹیکسی سروس موجود ہے جو بہ آسانی دستیاب ہے۔

مشہد مقدس سے اگر آپ جانا چاہیں تو ریل گاڑی، بس اور ٹیکسی کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں۔

Read 3345 times