ماہ مبارک رمضان ولادت قرآن کریم، انس قرآن، بہار قرآن، پہچان قرآن اور اس سے فکری اور عملی فائدہ حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ ایسا مہینہ کی جس کی شب قدر میں قلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے مکمل قرآن کو جبرائیل امین علیہ السلام سے وصول کیا۔ قرآن مجید لوح محفوظ سے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیع و نورانی قلب پر اتارا گیا۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں ہم سب روزہ رکھنے، عبادت کرنے، مناجات و دعا کر کے معنوی آمادگی کے ذریعے سے قرآن مجید کے استقبال کیلئے اگے بڑھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ خالص روزے، دعا و مناجات کے پرتو میں ہم قرآن کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے ہوئے یہ مصمم ارادہ کریں کے قرآن کے ساتھ ہمارا رابطہ محکم سے محکم تر ہو جائے۔
قرآن کریم ماہ مبارک رمضان کی وہ روح ہے جو اسکے جسم میں پھونکی جا چکی ہے، جس سے اس مہینے کی عظمت دوگنی چگنی ہو گئی ہے۔ قرآن قلب ماہ مبارک رمضان ہے جس کے تپش کے بغیر روزہ دارون کی رگوں میں معنوی زندگی کی حقیقت جاری نہیں ہوتی۔ قرآن دلوں کی بہار اور ماہ مبارک رمضان قرآن کی بہار ہے جیساکہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں "لِکُلِّ شَیْءٍ رَبِیعٌ وَ رَبِیعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَان" ہر چیز کی ایک بہار ہوتی ہے قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے (علامہ مجلسی، بحار الانوار ج 96 ص 386) اسی طرح امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں قرآن میں تدبر کرو کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے "وَ تَفَقَّهُوا فيه فَاِنَّهُ رَبـيعُ القُلُوبِ" (سید رضی، نہج البلاغہ خطبہ نمبر 110) اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا شب قدر قلب ماہ مبارک رمضان ہے :"قَلبُ شَهرِ رَمَضانَ لَيلَةُ القَدرِ" (بحار الانوار ج 96 ص 386(
اس سے معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کی برکات کا بڑا حصہ قرآن سے متعلق ہے لذا ہمیں چاہیئے اس مبارک مہینے میں اپنے دلوں کی کھیتی میں قرآن مجید کے نورانی اصولوں کے بیج بوئیں تاکہ معنوی رشد و ترقی کر سکیں اور قرآن کے پھل کو اپنی روح کیلئے غذا قرار دیتے ہوئے قوت قلوب کو قرآنی برکات کی روشنی میں محفوظ بنائیں۔ اس طرح کے فوائد انسِ قرآن کے بغیر حاصل کرنا دشوار ہے۔
اُنسِ قرآن مجید:
امام الموحدين علی بن ابی طالب علیہ الصلواہ والسلام فرماتے ہیں جو بھی تلاوت قرآن سے مانوس ہو گیا دوستوں کی جدائی اسے وحشت زدہ نہیں کر سکتی "مَن أنِسَ بِتِلاوَةِ القرآنِ لم تُوحِشهُ مُفارَقَةُ الإخوان" (غرر الحکم 8790)، اسی طرح سے سید الساجدین زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "لَوْ ماتَ مَنْ بَيْن الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرآنُ مَعي" اگر مشرق و مغرب میں رہنے والے تمام لوگ فوت ہو جائیں اور میں اکیلا رہ جاؤں جبکہ قرآن میرے پاس ہو تو مجھے کوئی وحشت و خوف محسوس نہیں ہو گا۔ (محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی ج2، 610)
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسِ قرآن کی حقیقت کیا ہے جو انسان کو اتنا محکم اور قدرت مند بناتی ہے کہ ہر قسم کا اضطراب و پریشانی اس سے دور ہو جاتی ہے؟
اسکا جواب یہ ہے کہ انس کی حقیقت ہمدم ہو جانا ہے جس طرح ایک شیر خوار بچے کو اپنی ماہ کے سینے سے انس ہوتا ہے۔ لیکن کبھی انسان اتنا زیادہ سرشار ہوتا ہے کہ اسکا انس اس شیرخوار کے انس سے بھی زیادہ ہوتا ہے جس طرح سے امیر المومنین علی علیہ السلام آپ کو موت کی دھمکی دینے والے دل کے اندھے منافقین کے جواب میں فرماتے ہیں: "وَاللّهِ لاَبنُ أبيطالِبٍ آنَسُ بِالمَوتِ مِنَ الطِّفلِ بِثَدىِ اُمِّهِ" خدا کی قسم علی بن ابی طالب کا موت و شہادت سے انس ایک شیرخوار کے سینہِ مادر کے انس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 5)
پس عارف حقیقی وہ ہے جو خدا اور کلام خدا کے ساتھ اس طرح مانوس ہو جیسے امیر المومنین علیہ السلام خدا کے اس فرمان {يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ} (سورہ الانفطار آیت 6) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "كُن للّهِ مُطيعاً ، و بِذِكرِهِ آنِساً" خدا کی اطاعت کرنے والے بنو اور اس کے ذکر سے مانوس رہو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ 223)۔
پس بنابر این حقیقی انس کا مفہوم انسان کا شیءِ مانوس کے ساتھ عشق و محبت جیسا ناقابل انفکاک ارتباط اور ہمدم ہو جانا ہے۔ خدا اور کلام خدا کے ساتھ ایسا انس و محبت اولیاء خدا کی خصوصیات اور ہر مومن عارف و پارسا کی صفات میں سے ہے جیساکہ امام علی علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اللَّهُمَّ إِنَّكَ آنَسُ الْآنِسِينَ لِأَوْلِيَائِكَ۔۔۔ إِنْ أَوْحَشَتْهُمُ الْغُرْبَةُ آنَسَهُمْ ذِكْرُكَ" خدایا تو اپنے اولیاء اور چاہنے والوں کیلئے سب سے زیادہ مونس ہے ۔۔۔ اگر غربت و تنہائی انکو وحشت زدہ کرے تو آپکی یاد انکی تنہائی میں مونس بن جاتی ہے۔ ( نہج البلاغہ، خطبہ 227)
ماہ مبارک رمضان تجلی گاہ قرآن:
ماہ مبارک رمضان، نزول قرآن مجید، ماہ خداوند متعال، ماہ تزکیہ و تہذیب نفس ہے۔ قرآن مجید کی تجلی قلب مطہر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شب قدر میں ہوئی جوکہ اس مبارک مہینے میں واقع ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان تجلی گاہ قرآن کریم اور انسِ قرآن مجید کا مہینہ ہے.
روزہ دار مومن اس مہینے میں خدا کے مہمان ہیں جن کے لئے قرآن کا پر برکت دستر خوان بچھایا گیا ہے۔ لہذا اس ماہ میں تلاوت قرآن سے مانوس ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کی آیات میں تدبر و تفکر کر کے مفاہیم قرآن سے فکری و عملی طور پر بہرہ مند ہو کر اپنے رشد و تکامل ملکوتی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اسی لئے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شعبان کے آخری جمعے میں دیے گئے خطبہ شعبانیہ کے ایک فراز میں میں فرمایا: " هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیَافَةِ اللَّهِ وَ۔۔۔۔۔ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ کَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ" ماہ مبارک رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں خداوند میزبان اور اپ مہمان ہیں۔۔۔ جو کوئی بھی اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا اسے باقی مہینوں میں تلاوت کئے گئے ختم قرآن کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا۔ (شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج ۲، ص ۲۹۵)
ماہ رمضان کی دعاؤں میں قرآن اور انسِ قرآن کا ذکر کتاب ہدایت و ارشاد کے عنوان کے ساتھ زیادہ آیا ہے۔ خصوصا ماہ مبارک رمضان کی دعائیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں، ہم دوسرے دن کی دعا میں پڑھتے: "اللهم وفقنى فیه لقرائه آیاتك" اور بیسویں دن کی دعا میں پڑھتے ہیں: "اللهم وفقني فیه لتلاوة القرآن" خدایا مجھے اس دن تلاوت آیات قرآن کی توفیق عطا فرما (مفاتیح الجنان، دعاء ماہ رمضان) ان دو دعائیہ عبارتوں میں تلاوت و قراءت قرآن مجید اور اسی طرح سے تلاوت تدبر آمیز و مقارن با عمل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے؛ کیونکہ کلمہ تلاوت درحقیقت تلو اور تالی سے نکلا ہے جس کا معنی پی در پی آنا اور بغیر کسی فاصلے کے ہونا ہے۔ واضح رہے کہ اس طرح کی توفیق قرآن مجید سے انسِ حقیقی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، انسِ حقیقی قرآن مندرجہ ذیل تین اصولوں سے تشکیل پاتا ہے.
1۔ آیات قرآن کی تلاوت
2۔ تدبّر و شناخت قرآن
3۔ دستورات قرآن پر عمل کرنا
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: " قُرّاءُ القرآنِ ثلاثةٌ: رجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فاتَّخَذَهُ بِضاعَةً فاستَحرَمَهُ المُلوكَ و استَمالَ به الناسَ ، و رَجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فأقامَ حُروفَهُ و ضَيَّعَ حُدودَهُ ، كَثُرَ هؤلاءِ مِن قُرّاءِ القرآنِ لا كَثَّرَهُم اللّهُ تعالى ! و رجُلٌ قَرَأَ القرآنَ فَوَضَعَ دَواءَ القرآنِ على داءِ قلبِهِ فَأسهَرَ بهِ ليلَهُ و أظمَأَ بهِ نَهارَهُ و قامُوا في مَساجِدِهِم و حَبَوا بهِ تَحتَ بَرانِسِهِم ، فهؤلاءِ يَدفَعُ اللّهُ بهِمُ البَلاءَ و يُزيلُ مِن الأعداءِ و يُنزِلُ غيثَ السماءِ ، فو اللّهِ لَهؤلاءِ مِن القُرّاءِ أعَزُّ مِن الكِبريتِ الأحمَرِ" قاریان قرآن تین گروہ ہیں وہ جو قران پرھتے ہین اور اسے بادشاہوں سے قرب کا وسیلہ اور لوگوں کی توجہ جلب کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ وہ جو قرآن پڑھتے ہیں اسکے الفاظ کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ اس کے معانی کو ضائع کر دیتے ہیں، یہ دو گروہ کتنے زیادہ ہیں اللہ تعالی انکی تعداد بڑھنے سے بچائے۔ اور وہ جو قرآن پڑھتا ہے اور اسکی دوا کو اپنے دل کے زخم پر رکھتا ہے، اس سے شب زندہ دار اور روزہ دار بن جاتا ہے اسے اپنی مسجدوں میں برپا کرتے ہیں ۔۔۔ یہ وہ ہیں جن کی برکت سے خدا بلائیں ٹال دیتا ہے، دشمنوں کو نابود کر دیتا ہے اور باران رحمت نازل فرماتا ہے۔ پس خدا کی قسم قاریان قرآن میں ایسا گروہ کبریت احمر سے بھی کامیاب تر ہے۔ (اصول کافی، ج2، ص627)۔
امام سجاد علیہ السلام جب ختم قرآن کرتے تھے تو دعا فرماتے تھے اس دعا کے ایک فراز میں اس طرح آیا ہے: " اللَّهُمَّ فَإِذْ أَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَ عَلَى تِلَاوَتِهِ، وَ سَهَّلْتَ جَوَاسِي أَلْسِنَتِنَا بِحُسْنِ عِبَارَتِهِ، فَاجْعَلْنَا مِمَّنْ یرْعَاهُ حَقَّ رِعَایتِهِ" اے خدا جب آپ نے تلاوت قرآن کرنے میں ہماری مدد فرمائی ہے کہ آپ نے ہماری زبانوں کے عقدوں کو قرآن کی خوبصورت عبارتوں کے ساتھ آسان کر دیا ہے تو ہمیں اس کا کماحقہ حق ادا کرنے والوں میں سے قرار دے۔ (صحیفہ سجادسجادیہ نمبر ۴۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121 [الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "يَتَّبِعُونَهُ حَقَّ اتِّباعِهِ" مومنین جس طرح سے پیروی کرنے کا حق ہے قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ (سیوطی، الدر المنثور، ج 1 ص 111) ایک اور مقام پر فرمایا: کتنے ہی قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں جبکہ قرآن ان پر لعنت بھیجتا ہے "رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ" (بحار الانوار، ج 92، ص184)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین علیہم السلام ان حدیثوں اور اس طرح کے دسیوں احادیث میں اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن اس وقت با ارزش اور سود مند ہوگی جب تفکر اور تدبر کے ہمراہ اور دستورات قرآن پر عمل کرنے کے پختہ ارادے کے ساتھ ہوگی۔ حقیقی انسِ قرآن اس طرح کے برناموں سے وابستہ ہے ورنہ خوارج نہروانی جو کہ مولا علی علیہ السلام کے خونخوار دشمن تھے وہ سارے قاریان قرآن میں سے تھے لیکن قرآن میں سے صرف اس کی قاف کو جانتے تھے۔ اسی لیے انہوں سے مولا علی علیہ السلام جوکہ سراپائے توحید تھے کی تکفیر کی اور ان کے خلاف میدان جنگ سجایا۔
اولیاء خدا کا قرآن سے اُنس:
چند نمونے:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآله وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام اور اولیاء الہی قرآن مجید کے ساتھ بہت زیادہ انس و الفت رکھتے ہیں۔ صرف تلاوت قرآن پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسکے ظاہری و باطنی فیض سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ آیات قرآن میں تفکر و تدبر کرتے ہیں۔ آیات کو ٹھہر ٹھہر کر خوبصورت و جذاب آواز میں انکے معانی کی طرف توجہ اور مفاہیم پر عمل کرنے کے مصمم ارادے کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر قرآن میں کئی بار [ يأيها الذين آمنوا..] تکرار ہوا ہے حضرت امام رضا علیہ السلام آیات کلام مجید کی تلاوت فرماتے ہوئے اس آیت پر پہنچتے اور اسکی تلاوت فرماتے تو بلا فاصلہ کہتے لبيك اللهم لبيك (بحار الانوار ج 85 ص 34) اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام دستورات خدا پر عمل پیرا ہونے کا مصمم ارادے کرتے ہوئے تدبر کے ساتھ آیات کتاب خداوند کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہاں ہم ائمہ طاہرین کی زندگی سے انس قرآن کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:
- امام حسین علیہ السلام کا قرآن مجید سے اتنا زیادہ انس تھا کہ جب میدان کربلا میں 9 محرم الحرام کی شام دشمن آپ اور آپ کے اہل بیت و انصار سے جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا تو آپ نے عباس علمدار علیہ السلام سے فرمایا: دشمن کے پاس جا کر آج رات کی مہلت طلب کرو کیونکہ میرا خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز خدا اور تلاوت کتاب خدا سے محبت ہے " فهو یعلم أنّي أحبّ الصّلاة له و تلاوةَ کتابه" (ابن جریر الطبری، تاریخ طبری ج 6 ص 337)
- امام سجاد علیہ السلام جب بھی سورہ الحمد کی تلاوت فرماتے ہوئے [مالك يوم الدين] تک پہنچتے تو خضوع و خشوع کے ساتھ اس آیت مجیدہ کا اتنا تکرار کرتے تھے کہ ایسا لگتا تھا آپ کی جان قفس بدن سے پرواز کرنے والی ہے (اصول کافی، ج 2 ص 602) آپ کلام مجید کی تلاوت اتنی خوبصورت اور دل نشین آواز سے کیا کرتے تھے کہ سقا (پانی بھرنے والے) آپ کے گھر کے قریب سے گزرتے تھے تو آپ کی تلاوت سننے کےلئے رک جایا کرتے تھے (اصول کافی، ج 2 ص 616)۔
- امام صادق علیہ السلام نماز پڑھتے ہوئے ایک مخصوص ملکوتی حالت میں آیات مجیدہ کی تلاوت کرتے تھے کہ عادی حالت سے خارج ہو جاتے تھے۔ ایک روز آپ پر یہ کیفیت طاری ہوئی اور جب عادی حالت میں پلٹے تو وہاں موجود لوگوں نے عرض آپ پر کیسی کیفیت طاری ہوئی تھی؟ آپ نے جواب دیا: "ما زِلتُ اُكَرِّرُ آياتِ القُرآنِ حَتّى بَلَغتُ إلى حَالٍ كَأَنَّني سَمِعتُ مُشافَهَةً مِمَّن أنزَلَها عَلَى المُكاشَفَةِ والعِيانِ ۔۔۔" میں مسلسل ان آیات کا تکرار کر رہا تھا یہاں تک کہ میری یہ کیفیت ہو گئی کہ گویا ان آیات کو میں بالمشافہہ براہ راست حضرت جبرائیل ع سے سن رہا ہوں ۔۔ (بحار الانوار ج 84 ص 248)۔
- حضرت امام رضا علیہ السلام قرآن سے اتنی زیادہ الفت و محبت اور انس رکھتے تھے کہ ہر تین دن کے اندر ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں چاہتا تو تین دن سے کم عرصے میں بھی ختم قرآن کر سکتا تھا لیکن کوئی بھی ایسی آیت نہیں تھی جس کی تلاوت کی ہو لیکن اس کے معنی میں غور و فکر نہ کیا ہو یہ آیت کس موضوع اور کس موقع پر نازل ہوئی ہے اس میں غور نہ کیا ہو "وكان يختم القرآن في كل ثلاثة ويقول: لو أردت أن أختمه في أقرب من ثلاثة تختمت ولكني ما مررت بآية قط إلا فكرت فيها وفي أي شئ أنزلت وفي أي وقت؟ فلذلك صرت أختم في كل ثلاثة أيام" ( ابن شهر آشوب طبرسی، مناقب آل ابی طالب، ج 4 ص 360)
- محدث نوری صاحب کتاب مستدرک الوسائل سند معتبر کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ عالم ربانی اور فقیہ صمدانی حضرت آیت اللہ العظمی سید مہدی بحرالعلوم (ت 1212) ایک دن مرقد مطہر امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے حرم میں داخل ہوئے اچانک اس شعر کو مخصوص حالت میں زمزمہ کرنے لگے:
چه خوش است صوت قرآن زتو دلربا شنیدن
به رخت نظاره کردن، سخن خدا شنیدن
تلاوت قرآن آپ کی دلربا آواز میں سننا کتنا اچھا لگتا ہے
تیرے چہرے کی زیارت کرنا سخن خدا کو سننا (کتنا اچھا لگتا ہے)
کچھ دیر کے بعد کسی نے آپ سے پوچھا آپ نے اس شعر کو کس مناسبت سے پڑھا تو انہوں نے جواب دیا: جب میں حرم میں داخل ہوا تو ضریح مطہر کے قریب حضرت حجت دوران عجل اللہ فرجہ الشریف کو خوبصورت اور بلند آواز میں تلاوت کلام پاک کرتے دیکھا جب ان کی خوبصورت اور دل نشین آواز سنی تو یہ شعرالشری اور جب میں ضریح کے قریب پہنچا تو آپ تلاوت مکمل کر کے وہاں سے چلے گئے (محدث نوری جنه الماوی آخر کتاب و بحار الأنوار ج 53 ص 302)۔
- امیرالمومنین علی علیہ السلام نے جنگ صفین کے بعد ایک دن مسجد کوفہ میں اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا اس خطبہ میں آپ نے اپنے کچھ برجستہ اصحاب کو دکھی دل سے یاد فرمایا: (کہان ہیں میرے وہ بھائی جو حق کے راستے پر چلے گئے؟ کہاں ہیں عمار یاسر؟ کہاں ہیں ابن تیهان؟ کہاں گئے ذو الشہادتین؟ کہاں ہیں ان جیسے ان کے بھائی جنہوں نے جان کی بازی لگانے کا عہد کیا اور ان کے سروں کو فاجرون کی طرف بھیجا گیا؟) تب مولا نے اپنا ہاتھ اپنی ریش مبارک پر رکھا اور دیر تک گریہ کیا پھر ان کی کچھ خوبیوں کو بیان کیا کہ ان کی پہلی خوبی تلاوت قرآن اور اس پر عمل پیرا ہونا تھا فرمایا: افسوس ہے ان بھائیوں پر جو تلاوت قرآن کیا کرتے تھے اور اس سے فائدہ حاصل کیا کرتے تھے " أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَمَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَأَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَأَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَأَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ وَ أُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ؟ قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى لِحْيَتِهِ الشَّرِيفَةِ الْكَرِيمَةِ فَأَطَالَ الْبُكَاءَ ثُمَّ قَالَ (علیه السلام): أَوِّهِ عَلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ تَلَوا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوهُ.. " (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 182)۔
- امام راحل حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایسے عالم بزرگ تھے جنکا ظاہر و باطن میں قرآن کے ساتھ بہت گرم جوش اور عمیق رابطہ تھا۔ وه قرآن سے بہت زیادہ فکری اور عملی استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان کا اپنے اہداف کے حصول کے لیے سب سے بڑا اطمینان بخش اور قوی سہارا قرآن مجید تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: "اگر خداوند نے قرآن میں طاغوت کے مقابلے میں انبیاء علیہ السلام کے قصے ذکر کئے ہیں موسی، فرعون، ابراهیم و نمرود کا تذکرہ کیا ہے خدا کا مقصد قصہ گوئی نہیں تھا بلکہ خدا کا منظور نظر ہر دور میں طاغوتوں کے مقابلے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے پروگرام کو بیان کرنا تھا یعنی ہم بھی قرآن کے پیرو ہیں ہمیں چاہیئے طاغوت کی نابودی تک ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں."
بارہا یہ کہا کرتے تھے قرآن ایک مکمل انسان ساز کتاب ہے اسے انسان سازی کے لئے اتارا گیا ہے حضرت امام اپنی زندگی کے اہم حصے یہاں تک کہ دوران جنگ اور آخری عمر کی بیماری کے دوران بھی قرآن کے ساتھ مانوس تھے۔ آیات مجیده کی تلاوت اور ان میں تدبر کے ذریعے خدا سے مرتبط تھے۔
آپ کے دفتر کے ایک مسوول اس حوالے سے لکھتے ہیں: "حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا روزانہ کا خاص نظم و ضبط تھا جس میں سے کچھ وقت آیات قرآن کی تلاوت میں گزارتے تھے آپ کے کام اتنے منظم تھے کہ عام طور پر ایک کام کی طرف توجہ سے دوسرا کام ضایع نہیں ہوتا تھا" (محمد حسن رحیمیان درسایه آفتاب ص 183)
امام آدھی رات کو جب نماز شب کے لیے جاگتے تھے تو کچھ دیر قرآن کی تلاوت کرتے تھے یہاں تک کہ آخری دنوں میں جب ہسپتال میں ایڈمٹ تھے خفیه کیمرے سے آپ کی ویڈیو بنائی گئی، بہت سوں نے دیکھا کہ آپ بستر سے اٹھے قرآن مجید کو اٹھایا اور تلاوت میں مصروف ہو گئے۔
ایک شخص نے میدان جنگ میں بھیجنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قرآن تیار کیے اور آپ کے دفتر لے آیا تاکہ آپ ان کو متبرک کریں۔ وہ قرآن آپ کے پاس لائے گئے اور عرض کیا گیا: "یہ وہ قرآن ہے جو چند سوروں پر مشتمل ہیں چاہتے ہیں کہ میدان جنگ کے لیے تبرک بھیجیں" اگرچہ امام کا رویہ مکمل پرسکون اور معتدل ہوتا تھا لیکن انہوں نے خلاف معمول ایک دم عجلت اور شدید پریشانی کے ساتھ اپنے ہاتھ کو پیچھے کھینچا اور سخت ملامت آمیز لہجے میں بولے میں قرآن کو متبرک کرون؟ یہ کیسا کام ہے جسے انجام دے رہے ہو؟"
ایک دن غلطی سی قرآن کا ایک نسخہ دوسری چیزوں کے ساتھ امام کے پاس لائے اور زمین پر رکھ دیا امام ناراض ہوئے اور کہا: "قرآن کو زمین پر مت رکھیں" بلا فاصله انہوں نے قرآن اٹھا کر قریب رکھی میز پر رکھ دیا اس وقت آپ صوفی پر بیٹھے تھے۔ پس معلوم ہوا کہ امام نہیں چاہتے تھے کہ قرآن ان کی بیٹھنے کی جگہ سے نیچے ہو۔
ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسینیہ جماران میں ملاقات کی تقریب میں خلاف معمول کرسی کی بجائے زمین پر بیٹھے تھے؛ کیونکہ اس دن قرآن کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے آئے ہوئے تھے اور فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس اجلاس میں قرآن کی کچھ آیات تلاوت ہوںگی۔
حضرت امام ہر سال ماہ مبارک رمضان سے کچھ دن قبل حکم دیا کرتے تھے کہ مخصوص افراد کے لیے تلاوت ختم قرآن تلاوت کی جائے۔ (وہی سابق؛ ص 114-115)
روایات میں آیا ھے ایک دن امام کاظم علیہ السلام کے صالح شاگرد علی بن مغیرہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا "میں اپنے والد کی طرح ماہ مبارک رمضان میں 40 ختم قرآن کرتا ہوں کبھی مصروفیات اور خستگی کی وجہ سے کمی بیشی ہو جاتی ہے اور عید الفطر کے دن ایک ختم قرآن کا ثواب روح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآله سلم دوسرے کا روح امام علی علیہ السلام تیسرے کا روح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا چوتهے کا امام حسن اور باقی ائمہ یہاں تک کہ آپ کو ہدیہ کرتا ہوں اس کا مجھے کیا اجر ملے گا؟ تو امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: آپ کو اس کام کا یہ ثواب ملے گا کہ آپ قیامت کے دن ہمنشین اہل بیت علیہم السلام ہوں گے۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: اللہ اکبر یقینا مجھے ایسا مقام عطا کیا جائے گا؟ آپ نے تین بار فرمایا : ہاں "فَقَالَ لَهُ أَبِي نَعَمْ مَا اسْتَطَعْتُ فَكَانَ أَبِي يَخْتِمُهُ أَرْبَعِينَ خَتْمَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ خَتَمْتُهُ بَعْدَ أَبِي فَرُبَّمَا زِدْتُ وَ رُبَّمَا نَقَصْتُ عَلَى قَدْرِ فَرَاغِي وَ شُغُلِي وَ نَشَاطِي وَ كَسَلِي فَإِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ ص خَتْمَةً وَ لِعَلِيٍّ ع أُخْرَى وَ لِفَاطِمَةَ ع أُخْرَى ثُمَّ لِلْأَئِمَّةِ ع حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْكَ فَصَيَّرْتُ لَكَ وَاحِدَةً مُنْذُ صِرْتُ فِي هَذَا الْحَالِ فَأَيُّ شَيْءٍ لِي بِذَلِكَ قَالَ لَكَ بِذَلِكَ أَنْ تَكُونَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَلِي بِذَلِكَ قَالَ نَعَمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" (اصول کافی ج 2 ص 618)
اس بحث کے آخر میں قرآن کی تلاوت کے ثواب کے حوالے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی حدیث کو ذکر کرتا چلوں کہ آپ نے فرمایا: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ فِي لَيْلَةٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ وَ مَنْ قَرَأَ خَمْسِينَ آيَةً كُتِبَ مِنَ الذَّاكِرِينَ وَ مَنْ قَرَأَ مِائَةَ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ وَ مَنْ قَرَأَ مِائَتَيْ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْخَاشِعِينَ وَ مَنْ قَرَأَ ثَلَاثَ مِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْفَائِزِينَ وَ مَنْ قَرَأَ خَمْسَمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُجْتَهِدِينَ وَ مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ كُتِبَ لَهُ قِنْطَارٌ مِنْ تِبْرٍ الْقِنْطَارُ خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفَ مِثْقَالٍ مِنْ ذَهَبٍ وَ الْمِثْقَالُ أَرْبَعَةٌ وَ عِشْرُونَ قِيرَاطاً أَصْغَرُهَا مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ وَ أَكْبَرُهَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ"
وہ مومن که جو ہر رات قرآن کی دس آیات تلاوت کرے اس کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا اور جو پچاس آیات کی تلاوت کرے گا اس کا نام ذاکرین میں لکھا جائے گا اور جو سو آیات تلاوت کرتا ہے تو اس کا نام قانتین میں لکھا جائے گا اور جو دو سو آیات تلاوت کرتا ہے اس کا نام خاشعین میں لکھا جائے گا اور جو تین سو آیات تلاوت کرتا ہے اس کا نام فائزین میں لکھا جائے گاںاور جو پانچ سو آیات تلاوت کرے گا اس کا نام مجتہدین میں لکھا جائے گا اور جو ایک ہزار آیات کی تلاوت کرے گا تو بہشت میں اس کے لئے سونے کا ایک ڈھیر ہو گا جو پاندرہ سو مثقال سونے کے برابر ہوگا کہ ہر مثقال 24 قیراط ہے کہ سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور سب سے بڑا قیراط زمین اور آسمان کے درمیاں فاصلے جتنا ہے۔ (اصول کافی ج 2 ص 613)۔
مصنف: محمد محمدی اشتهاردى
منبع: نشریه پاسدار اسلام 1375 شماره 182
مترجم: زوار حسین