مغربی طاقتوں کا یمنی بچوں کو بھوک، قحط اور موت کا تحفہ

Rate this item
(0 votes)
مغربی طاقتوں کا یمنی بچوں کو بھوک، قحط اور موت کا تحفہ
یمن پر سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کی جانب سے تھونپی گئی جنگ تقریبا ایک ماہ بعد ساتویں سال میں داخل ہو جائے گی۔ اس جنگ میں اب تک بیگناہ یمنی خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے قتل عام کے علاوہ سعودی عرب کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔ یمن میں "عین الانسانیہ" نامی انسانی حقوق کے مرکز نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق 25 مارچ 2015ء سے شروع ہونے والی یمن کی جنگ میں اب تک 43 ہزار 397 عام شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 17 ہزار سے زیادہ عام شہری شہید ہوئے ہیں جن میں 3804 بچے اور 2389 خواتین شامل ہیں۔ دوسری طرف جنگ کے دوران زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 26 ہزار سے زیادہ ہے۔
 
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل خبردار کر چکے ہیں کہ جنگ کے نتیجے میں یمن کی صورتحال شدید بحرانی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور عنقریب اس ملک میں دنیا کا بدترین قحط اور غذائی قلت آنے والی ہے۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا ہونے والی وبا کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس نابرابر جنگ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک سے خریدا گیا اسلحہ اور جنگی سازوسامان استعمال کر رہے ہیں۔ یمن کے وزیر صحت طہ متوکل نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چھ برس کے دوران سعودی عرب نے مغربی طاقتوں سے حاصل ہونے والے اسلحہ کی مدد سے یمن کے 523 اسپتال، ڈسپنسریاں اور مراکز صحت نابود کر دی ہیں۔
 
12 فروری 2021ء کے روز اقوام متحدہ کے چار ذیلی اداروں، ورلڈ فوڈ پروگرام، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، اقوام متحدہ کا بچوں کا فنڈ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں اعلان کیا: "یمن میں کم از کم چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر کے بچے ایسے ہیں جو اس سال (2021ء) موجودہ حالات جاری رہنے کے نتیجے میں بھوک کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔" یہ شدید وارننگ ایسے حالات میں سامنے آئی ہے جب یمن پر تھونپی گئی جنگ کے چھ سال گزر جانے کے بعد یمن کی اسی فیصد آبادی اپنی زندگی جاری رکھنے کیلئے انسانی بنیادوں پر غیر ملکی امداد کی محتاج ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت اس سال پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید بھوک اور غذائی قلت میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قحط اور غذائی قلت کے شکار ہونے کا خطرہ عدن، تعز، حدیدہ اور صنعا میں زیادہ شدید ہے۔ دوسری طرف یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ یمن میں 12 لاکھ حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین بھی شدید غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گی۔ اقوام متحدہ کے ادارے ریلیف اینڈ ہیلپ ایجنسی نے اعلان کیا ہے یمن میں انسانی امداد رسانی کیلئے فوری طور پر چار ارب ڈالر درکار ہیں جن میں سے اب تک صرف 1.9 ارب ڈالر ہی اکٹھے ہو سکے ہیں۔
 
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں اپنے آخری ایام کے دوران سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کے اصرار پر ملک کا دفاع کرنے میں مصروف عوامی رضاکار فورس انصاراللہ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ دوسری طرف جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکہ کی نئی حکومت نے 16 فروری 2021ء کے دن انصاراللہ یمن کو اس فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے یمن کے خلاف جاری جنگ کے حقیقی مسببین کی جانب اشارہ کئے بغیر دعوی کیا ہے کہ امریکہ یمن سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی اتحادی خلیجی ریاستوں کی مدد کرنے کا عہد کر چکا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی حمایت کا آغاز براک اوباما کے دور حکومت سے ہوا جو اب تک جاری ہے۔
 
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2015ء سے لے کر اب تک امریکہ سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب نے اس دوران دنیا بھر سے خریدے ہوئے اسلحہ کا ء سے لے کر اب تک امریکہ سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ سعودی عرب نے اس دوران دنیا بھر سے خریدے ہوئے اسلحہ کا  فیصد حصہ امریکہ سے حاصل کیا ہے۔ یمن کے خلاف جنگ شروع ہونے سے پانچ سال پہلے سعودی عرب امریکہ سے تین ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا تھا۔ یہ مقدار 2015ء سے 2020ء تک بڑھ کر 64.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ یعنی سالانہ دس ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب امریکہ سے خریدتا آیا ہے۔
 
 
تحریر: محسن ایران دوست
Read 506 times