فلسطینی خواتین سے متعلق چونکا دینے والی رپورٹ

Rate this item
(0 votes)
فلسطینی خواتین سے متعلق چونکا دینے والی رپورٹ
صیہونی حکومت کی غزہ پر جاری جارحیت کو 140 دنوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جنگ کو روکنے کے لیے غیر نتیجہ خیز بین الاقوامی کوششوں کے درمیان غزہ کے شہری مختلف قسم کے انسانیت سوز جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے اطلاع دی ہے کہ انہیں "معتبر اور قابل اعتماد" شواہد ملے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گارڈین اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کی ماہر کمیٹی نے بتایا کہ کم از کم دو کیسز ریپ اور دیگر کیسز میں جنسی تشدد، تذلیل اور ریپ کی دھمکیوں کے باقاعدہ شواہد ملے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السلم نے کہا کہ جنسی تشدد کی حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہوسکتا ہے کہ ہم متاثرین کی صحیح تعداد کو طویل عرصے تک نہ جان سکیں۔" انتقام کے خوف سے جنسی حملوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ میں فلسطینی خواتین، بچوں اور شہریوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک اب ایک معمول بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ پیر کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ہم خاص طور پر ان رپورٹس سے پریشان ہیں کہ حراست میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو بھی جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، مرد اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فلسطینی خواتین کو برہنہ کرنا اور تلاشی لینا بھی اس میں شامل ہے۔

غزہ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 30،000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین ان رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ خودسرانہ سزائے موت کے خطرے سے دوچار کیا جاتا ہے، جن میں اکثر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ "ان میں سیکڑوں انسانی حقوق کے محافظ۔ اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین کو غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک اور شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں ماہواری کے دوران ضروری حفظان صحت کی اشیاء، خوراک اور ادویات کی فراہمی سے  بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے  کہ "ہم فلسطینی خواتین اور بچوں کو ان مقامات پر جہاں انہوں نے پناہ لی ہوتی ہے، دانستہ طور پر نشانہ بنانے اور غیر قانونی طور پر قتل کرنے کی خبروں سے حیران و پریشان ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ ان میں سے کچھ  فلسطینیوں نے سفید کپڑے (ہتھیار ڈالنے کی علامت کے طور پر) اٹھائے ہوئے تھے، اس کے باوجود انہیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی۔ ان نامہ نگاروں میں سے ایک نے فرانس 24 ٹی وی کو فلسطینی لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے ملنے والی انتہائی چونکا دینے والی شہادتوں کے بارے میں بتایا ہے، ان کا کہنا ہے ’’ہم تک پہنچنے والی رپورٹس کے مطابق غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو من مانی طور پر انفرادی یا گروہی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ خاندان کے افراد کے ساتھ اور کبھی کبھی اپنے بچوں کے ساتھ قتل کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے زیادہ واقعات دسمبر 2023ء اور جنوری 2024ء میں پیش آئے۔ اس رپورٹ میں مغربی کنارے اور غزہ میں غیر قانونی اور من مانی حراستوں میں خواتین کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں گرفتار ہونے والی خواتین کو رات کے لباس  میں گھروں سے سڑکوں پر لے جایا گیا اور بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے انہیں حماس سے وابستہ جنگجو قرار دیا گیا۔

حماس کا موقف
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اقوام متحدہ سے بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے جواب میں ایک بیان میں کہا کہ یہ جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے علاوہ ہیں، جو قابضین  اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم ثابت کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کی نازی فوج ہمارے لوگوں کے خلاف اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ قابض فوج فلسطینی خواتین کے خلاف جنسی جارحیت کے علاوہ خود سرانہ پھانسیاں، من مانی گرفتاریاں، شدید مار پیٹ اور دوران حراست خوراک اور ادویات سے محروم کرنے جیسے اقدام کو جائز سمجھتی ہے۔ تحقیقات کے دوران عصمت دری اور توہین کی دھمکیوں کے علاوہ کئی غیر انسانی اقدامات سامنے آئے ہیں۔

حماس اس بدمعاش حکومت کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کے رہنماؤں کو ان کے وحشیانہ جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ رپورٹ واحد اور پہلی رپورٹ نہیں ہے، جس میں حالیہ جنگ کے دوران فلسطینی خواتین کے خلاف منظم جرائم کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل دسمبر 2023ء میں فلسطینی العودہ مرکز نے ایک بیان میں غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات سے مطلع کیا تھا۔ اس مرکز نے قابض فوج اور اس کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے جنسی حملوں کی طویل تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر فوجیوں کو سزا نہیں ملتی۔

بہت سی فلسطینی لڑکیاں اور خواتین اس مسئلے کے بارے میں شکایت کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس کا تعلق ان کی عزت و آبرو اور ان کے خاندانوں سے ہوتا ہے، وہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف شکایت کرنے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، تاہم 2017ء میں ایک فلسطینی خاتون کی شکایت کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی حراستی مراکز میں خواتین کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حراستی مرکز میں صہیونی فوجیوں کی طرف سے تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق اس خاتون کے چونکا دینے والے اعترافات کے بعد، "Haaretz اخبار" کے معروف اسرائیلی صحافی امر اورین نے 3 اپریل 2016ء کو ایک رپورٹ شائع کی، جس میں فوجی استغاثہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کی آرکائیو اور دستاویزات میں فلسطینی قیدیوں کے قتل، ان پر حملہ اور عصمت دری سمیت مختلف جنگی جرائم کے شواہد ملے ہیں۔

ان جرائم پر صہیونی حکام نے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دیئے بغیر ان کیسز پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس فلسطینی خاتون کو ان بے شمار مقدمات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دستاویزات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوئی کہ عصمت دری اور جنسی حملے خاص طور پر خواتین کے خلاف منظم طریقے سے ہوتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی نے فلسطینی خواتین کے خلاف تشدد اور عصمت دری کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی "عیال کریم" نے "اسرائیلی فوجیوں کے لیے جنگ کے دوران فلسطینی خواتین اور لڑکیوں یعنی غیر یہودی خواتین کی عصمت دری کرنا جائز قرار دیا ہے۔"

بین الاقوامی عدالتوں میں فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی پیروی
اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں کی حالیہ رپورٹ غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی طرف سے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں ایک وسیع اور مفصل بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک روزن اور ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت کے بعد گذشتہ ہفتوں میں اس عدالت کی طرف سے صیہونی حکومت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس عدالتی کارروائی نے حالیہ جنگ کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف دوسرے ممالک کی طرف سے مزید شکایات کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے آئین (آرٹیکل 7 کے پیراگراف 1) میں واضح طور پر جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق سے مراد عصمت دری، جنسی غلامی، جبری جسم فروشی، جبری حمل، جبری نس بندی یا کسی بھی طرح کا جنسی تشدد ہے۔

اس کے علاوہ، چوتھے جنیوا کنونشن (1949ء) اور اس کے ضمیموں میں، خواتین کے خلاف پرتشدد رویئے کی مذمت پر کئی بار زور دیا گیا ہے، اس بین الاقوامی دستاویز کے پیراگراف 27 میں، خواتین کے وقار کی خلاف ورزی، عصمت دری، جبری جسم فروشی اور کسی بھی خلاف عصمت و عفت اقدام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جنگوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے کئی دیگر کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ویانا اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو جون 1993ء میں انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی طرح بیجنگ اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو ستمبر 1995ء میں خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان دونوں میں عورت کی تذلیل اور خواتین کے جنسی تشدد کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

صہیونی، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہیگ کی عدالت کے حالیہ فیصلے سمیت بین الاقوامی فیصلوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔صیہونی تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود رفح میں شہریوں پر نئے حملوں کی بڑی ڈھٹائی سے تیاری کر رہے ہیں۔ بہرحال جنگی جرائم کا کمیشن صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کے لئے صیہونی مظالم کی حمایت کرنے والے ممالک کے سیاسی حکام اور تل ابیب کے رہنماؤں کو جوابدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دی جاسکے۔
 
 ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
Read 174 times