غزہ اور لبنان میں مغربی تہذیب کی شکست

Rate this item
(0 votes)
غزہ اور لبنان میں مغربی تہذیب کی شکست

جب صلیبی جنگوں میں اہل مغرب اسلام اور مسلمانوں سے روبرو ہوئے اور انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اسلامی دنیا میں علم کی ترقی سے آشنا ہوئے تو انہیں بہت حیرت ہوئی اور یہی سامنا مغربی تہذیب کی ترقی کا باعث بھی بنا۔ انہوں نے اسلام اور مشرقی دنیا سے مختلف قسم کے علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی استعماری خصلت کے باعث غیر مغربی سرزمینوں پر تسلط اور قبضہ جمانے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ مغربی دنیا نے ایک طرف اپنی پسماندگی کی وجہ کلیسا کو قرار دیا اور ہیومن ازم اور سیکولرازم کو فروغ دیا جبکہ دوسری طرف مشرقی دنیا، خاص طور پر اسلامی تہذیب سے حاصل ہونے والے علوم کو مزید ترقی دے کر غیر عرب سرزمینوں پر استعماری تسلط پیدا کرنے کے گوناگون ہتھکنڈے فراہم کیے۔ مغربی دنیا میں ہیومن سائنسز سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی تک اکثر علوم کی ترقی اسی استعماری سوچ اور نگاہ سے انجام پائی ہے۔
 
مثال کے طور پر، ہیومن سائنسز کے اینتھروپولوجی اور مشرق شناسی جیسے شعبوں میں اصل مقصد غیر مغربی معاشروں کو اپنا مطیع بنانا تھا جبکہ فوجی اور میڈیا شعبوں میں میں ترقی کا مقصد بھی مختلف ممالک اور قوموں پر استعماری تسلط قائم کرنا تھا۔ پوری جرات سے کہا جا سکتا ہے اور تحقیق بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر آج مغربی تہذیب خود کو اقتصادی لحاظ سے غنی اور سیاسی لحاظ سے طاقتور تہذیب محسوس کرتی ہے تو یہ سب کچھ دیگر قوموں کا خون چوس کر اور انہیں لوٹ کر حاصل کیا گیا ہے۔ دنیا کی مظلوم قوموں کی قتل و غارت سے لے کر ان قوموں کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار تک۔ مغربی تاریخ خون ریزی اور قتل و غارت سے بھری پڑی ہے۔ صلی جنگوں میں دسیوں لاکھ مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر امریکہ میں لاکھوں سرخ پوست انسانوں کی نسل کشی اور افریقہ میں دسیوں لاکھ افراد کو غلام بنا کر ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار۔
 
حقیقت یہ ہے کہ غیر مغرب قوموں کی تاریخ کا بڑا حصہ، مغربی طاقتوں کی جانب سے ان کی قتل و غارت اور لوٹ مار، نیز مغربی طاقتوں کے استعماری تسلط کے خلاف آزادی کی تحریکوں پر مشتمل ہے۔ حتی اس بارے میں مختلف علمی حلقوں میں مغربی طاقتوں کی جانب سے دیگر اقوام پر استعماری تسلط جمانے کے لیے بروئے کار لائے گئے مختلف ہتھکنڈوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر علمی تحقیقات بھی انجام پا چکی ہیں اور فرانتز فینن اور ایڈورڈ سعید جیسے متعدد مفکرین اور محققین اس بارے میں مختلف نظریات بھی پیش کر چکے ہیں۔ ظلم و ستم اور مجرمانہ اقدامات سے سرشار تاریخ کے باوجود، مغربی طاقتیں درپیش حالات میں ہمیشہ اپنی غلط اور یکطرفہ تعبیر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ انتہائی منافقت اور فریبکاری سے اپنی اخلاقی اور ثقافتی برتری کا پرچار بھی کرتی رہتی ہیں۔
 
جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حمایت جیسے خوبصورت اور دل موہ لینے والے نعرے، اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور عمل کے میدان میں وہ ان نعروں کو دوسروں پر ناجائز تسلط کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر ہم مغرب کے سیاسی ڈھانچوں کا گہرائی میں جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ مغرب میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت وجود نہیں رکھتی تھی اور یہ محض ایک دعوا ہے لیکن یہی ہتھکنڈہ دیگر اقوام کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ایسی حکومتوں کو کمزور کرنے اور دبانے کے لیے محض ایک ہتھکنڈہ ہے جو مغربی طاقتوں کی ہمسو نہیں ہوتیں۔ آج تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ مغربی حکمرانوں کی نظر میں کوئی اہمیت اور قدروقیمت نہیں رکھتا۔ آج غزہ اور لبنان میں انسانیت سوز جرائم کی تمام حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ ہزاروں بیگناہ بچے اور خواتین بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں۔
 
ہزاروں ٹن مورچہ شکن بم عام عوام اور اسپتالوں پر گرائے جا رہے ہیں۔ غزہ کا گھیراو کر کے لاکھوں بیگناہ انسانوں کو بھوکا رکھ کر انہیں موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر ایسی رژیم حکمفرما ہے جو صبح شام دوسروں کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہے اور خون ریزی سے اس کا دل نہیں بھرتا۔ اس کے باوجود مغربی ممالک نے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں ہلکی سی پریشانی کا اظہار تک نہیں کیا بلکہ پوری طاقت اور بے باکی سے بچوں کی قاتل غاصب صہیونی رژیم کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ دنیا کی مستضعف قوموں کے ہمراہ، مغربی قوموں کا ایک حصہ بیدار ہو چکا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے میں مصروف ہے۔ لیکن اب تک مغربی تہذیب کا ڈھانچہ پوری طرح غاصب صہیونی رژیم کی فوجی، مالی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی مدد کرنے میں مصروف ہے جس کے باعث یہ رژیم انسان سوز جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔
 
موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاد بیگناہ انسانوں کے خون پر رکھی گئی ہے۔ مغربی تہذیب کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی پر نہیں بلکہ استعمار اور لوٹ مار پر استوار ہے۔ مغربی تہذیب کی نظر میں مغربی انسان اور غیر مغربی انسان میں فرق ہے اور وہ علیحدہ طبقے سے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگرچہ غاصب صہیونی رژیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی تہذیب کو ہوئی ہے۔ شہید یحیی سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کے بارے میں وائرل ہونے والی ویڈیو جسے خود صہیونیوں نے جاری کیا ہے، مغرب کی غیر انسانی تہذیب کے خلاف مظلوم قوموں کی جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔ ایک طرف اسلحہ سے لیس فوجی ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے انسانوں کی قتل و غارت میں مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف نہتے انسان ہیں جو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مغربی ایشیا کا آج کا مںظر ایمان اور کفر کی جنگ کا منظر ہے جس میں فتح ایمان کی ہو گی۔

تحریر: حمید رضا نظری

Read 52 times