اسرائیلی قرارداد

Rate this item
(0 votes)
اسرائیلی قرارداد

 
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ چند ماہ کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ قرارداد نمبر 2803 منظور کر کے کیا ہے جس نے غزہ کے مستقبل کو نیا رخ دے دیا ہے اور ایسے راستے پر گامزن کر ڈالا ہے جو امید کے ساتھ ساتھ خوف بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ قرارداد 13 ووٹوں کی حمایت سے منظور کی گئی جبکہ روس اور چین نے غیر جانبدارانہ ووٹ دیا اور اس کے تحت غزہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت "امن کمیٹی" اور "انٹرنیشنل فورس" کی تعیناتی قانونی قرار دے دی گئی ہے۔ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ انتظامی ڈھانچہ غزہ میں تعمیر نو اور معیشت کی بحالی کی ذمہ داری سنبھالے گا اور نیز اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا کام بھی انجام دے گا۔ اس قرارداد پر مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔
 
ایک طرف مغربی ممالک اس فیصلے کو فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک قدم قرار دے رہے جبکہ دوسری طرف فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اسے غزہ پر بین الاقوامی سرپرستی تھونپنے اور اسے واحد فلسطینی جغرافیے سے کاٹ دینے کی ایک کوشش قرار دی ہے۔ اس تنظیم کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ فلسطینی قوم کے تاریخی حقوق کے لیے خطرہ ہے اور اس سے نئے اور خطرناک حقائق جنم لیں گے۔ حماس نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی مسلط کردہ انتظامی ڈھانچہ اس عوام کی مرضی کا متبادل قرار نہیں پا سکتا جو دو سال کی تباہ کن جنگ کی ویرانیوں پر کھڑے ہو کر اب بھی اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کے حق کے لیے لڑ رہی ہے۔ ایسی جنگ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اب بھی جاری ہے اور غزہ کی عوام اسے متاثر ہو رہی ہے۔
 
غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت
حماس نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت ایک جائز اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں طے شدہ حق ہے، اپنے بیانیے میں کہا ہے کہ اسلامی مزاحمت کے ہتھیار قومی تشخص کا حصہ ہیں اور وہ غاصبانہ قبضے کے تسلسل سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا ان ہتھیاروں کے بارے میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت کا آغاز غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے سیاسی عمل، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیے جانے سے مشروط ہو گا۔ اس بیانیے میں حماس کو غیر مسلح کرنے سمیت غزہ کے اندرونی معاملات کسی انٹرنیشنل فورس کے سپرد کیے جانے کو اس فورس کی غیر جانبداری کے خاتمے اور اسے فلسطین تنازعہ کے فریق میں تبدیل کر دینے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
 
حماس کی نظر میں یہ اقدام عملی طور پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے حق میں رہے گا۔ حماس نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ انٹرنیشنل فورس تشکیل پاتی ہے تو اس کی ذمہ داری صرف سرحدوں پر تعیناتی اور جنگ بندی کی نظارت تک محدود ہونی چاہیے اور اسے اپنی سرگرمیاں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی انجام دینی چاہئیں نیز اسے فلسطین کے سرکاری اداروں سے تعاون کا پابند بھی ہونا چاہیے اور غاصب صیہونی رژیم کا اس میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ حماس نے مزید کہا ہے کہ اس انٹرنیشنل فورس کا اصل مقصد انسانی امداد کی فراہمی ضروری بنانا ہونا چاہیے اور اسے عوام پر مسلط کردہ سیکورٹی فورس کے طور پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلامک جہاد فلسطین نے بھی ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غزہ پر بین الاقوامی سرپرستی ہر گز قبول نہیں کی جائے گی۔
 
ٹرمپ منصوبے کی عنقریب شکست
ڈونلڈ ٹرمپ نے بیس نکات پر مشتمل غزہ امن منصوبہ پیش کیا تھا اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 29 ستمبر کے دن امریکہ میں اس کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے، غزہ کو تمام ہتھیاروں سے عاری علاقہ بنانے، غزہ کی تعمیر نو، غزہ کا انتظام انٹرنیشنل سٹیبلٹی فورس کے سپرد کرنے اور غزہ کا انتظام ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں تشکیل پائی امن کمیٹی کے حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔ دوسری طرف صیہونی چینل 13 نے اعلان کیا ہے کہ وائٹ ہاوس حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ دیگر ممالک غزہ کو ہتھیاروں سے عاری کرنے کے لیے انٹرنیشنل فورس بھیجنے پر راضی نہیں ہیں۔ صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتز نے کہا: "اسرائیل کی پالیسی واضح ہے، کوئی فلسطینی ریاست تشکیل نہیں پائے گی۔"
 
محمود عباس کو گرفتار کرنے کی دھمکی
سلامتی کونسل میں امریکہ کے پیش کردہ امن منصوبے کا ایسی سمت میں جانا جس کا صیہونی انتہاپسند حلقے توقع نہیں کر رہے تھے، ان انتہاپسند حلقوں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات بڑھ جانے کا باعث بنا ہے۔ صیہونی رژیم کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن غفیر نے پیر کے دن کہا کہ اگر اقوام متحدہ ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی سمت آگے بڑھی تو فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو گرفتار کر لیا جائے گا اور فلسطین اتھارٹی کے دیگر اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ یہ بیان سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے چند ہی گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزرا نے فلسطین کے خلاف زہر آلود بیانات دینے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے میں شدید چیلنجز کا سامنا ہو گا۔

تحریر: علی احمدی

Read 0 times