رہبرِ معظم انقلاب کی نظر میں دنیا کا سب سے منفور شخص Featured

Rate this item
(0 votes)
رہبرِ معظم انقلاب کی نظر میں دنیا کا سب سے منفور شخص

غزہ کی جنگ نے نہ صرف صہیونی رژیم کا اصل چہرہ عالمی رائے عامہ کے سامنے بے نقاب کر دیا بلکہ مغربی حکومتوں اور ان کی عوام کے درمیان ایک گہری خلیج بھی پیدا کر دی ہے۔ اس خلیج میں تل ابیب کی حمایت کرنے والے حکمران، اپنی اقوام کی انسانی فطرت کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں، اور اسی کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف عالمی نفرت کی ایک بڑھتی ہوئی لہر جنم لے چکی ہے۔ غزہ کے خلاف جنگ کے بعد صہیونی رژیم دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ نفرت کا نشانہ بن چکا ہے۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ مختلف سماجی سطحوں پر، بالخصوص مغرب میں، انسانی اخلاقیات اب بھی زندہ اور مؤثر ہیں۔

وہ مغربی معاشرے جو برسوں سے اپنی حکومتوں کی غیر اخلاقی اور غیر انسانی پالیسیوں کی زد میں رہے ہیں، آج انسانی فطرت کے سہارے ان پالیسیوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے انسانیت کے خلاف جرائم اور غزہ میں نسل کشی جیسے موضوعات پر مغربی عوام میدان میں آئے ہیں اور مختلف طبقات، طلبہ و نوجوانوں سے لے کر مختلف پیشوں سے وابستہ افراد تک، حتیٰ کہ کھیلوں کے میدانوں میں بھی، انسانی اور احتجاجی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔

حکمرانوں کی غیر اخلاقی پالیسیوں کے خلاف اقوام مغرب کا احتجاج:
اس تناظر میں صہیونی رژیم، مغربی حکومتی پالیسیوں اور غیر انسانی طرزِ عمل کی مکمل علامت بن چکا ہے۔ سات اکتوبر کے واقعات کے بعد غزہ کے خلاف جنگ نے اس حقیقت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا کہ یہ رژیم مغربی طاقتوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا عملی مجری ہے اور سرکاری طور پر مغربی حکومتوں کی حمایت سے لطف اندوز ہوتا ہے، مگر ان ہی ممالک کی عوام کے ذہن و ضمیر میں اس کی شبیہ انتہائی سیاہ اور نفرت انگیز ہے۔ یہ صورتحال رہبرِ معظم انقلاب کی نظر میں دنیا کی رائے عامہ سے درست رابطے اور اس کی صحیح رہنمائی کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ آپ نے ہمیشہ اقوام، بالخصوص دنیا کے نوجوانوں کے بارے میں ایک مثبت، انسانی اور امید افزا نقطۂ نظر اپنایا ہے اور اسی سلسلے میں مغربی نوجوانوں اور طلبہ کے نام خطوط بھی تحریر کیے ہیں۔ 

دنیا کا سب سے منفور انسان صہیونی حکومت کا سربراہ ہے:
رہبرِ معظم انقلاب نے ایرانی قوم سے ٹیلی وژن خطاب میں فرمایا کہ غزہ کے اس سانحے میں، جو آج ہمارے خطے کی تاریخ کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک ہے، صہیونی رژیم بری طرح رسوا اور بدنام ہوا ہے۔ امریکہ بھی اس غاصب اور ظالم رژیم کے ساتھ کھڑا ہو کر اسی بدنامی کا شکار ہوا ہے اور اسے بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ اگر امریکہ نہ ہوتا تو صہیونی رژیم اتنی بڑی تباہی مچانے کے قابل نہ تھا۔ آج دنیا کا سب سے منفور انسان صہیونی حکومت کا سربراہ ہے؛ آج دنیا کا سب سے منفور انسان وہی ہے، اور دنیا کی سب سے منفور حکمران جماعت اور گروہ صہیونی رژیم ہے۔ امریکہ بھی اسی سمت میں اس کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی نفرت امریکہ تک بھی سرایت کر چکی ہے۔

اسرائیل سے نفرت، امریکہ تک پھیل گئی:
رہبرِ انقلاب نے اس عالمی نفرت کے اسرائیل کے حامیوں تک پھیلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کی مداخلتیں، اسے روز بروز زیادہ تنہا کر رہی ہیں۔ جہاں کہیں بھی امریکہ گیا ہے، اس کا نتیجہ یا تو جنگ، نسل کشی، یا تباہی و آوارگی کی صورت میں نکلا ہے۔ یوکرین کی بھاری نقصان والی جنگ امریکہ نے شروع کروائی اور وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکا… لبنان پر صہیونی حملے، شام پر جارحیت اور مغربی کنارے اور غزہ میں جرائم سب امریکہ کی پشت پناہی سے انجام پاتے ہیں۔ اس معاملے میں امریکہ نے واقعی نقصان اٹھایا اور نفرت کا نشانہ بنا۔

عالمی نفرت کے شماریاتی شواہد:
معتبر اداروں جیسے پیو ریسرچ سینٹر، گیلپ اور دیگر تحقیقی مراکز کے اعداد و شمار اسرائیل اور امریکہ کے خلاف عالمی نفرت میں اضافے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ غزہ کے جرائم نے نہ صرف ایک وسیع انسانی بحران پیدا کیا بلکہ امریکہ اور صہیونی رژیم کی اخلاقی ساکھ اور نرم طاقت کو عالمی سطح پر شدید طور پر متزلزل کر دیا ہے۔ یہ صورتحال مغربی حکومتوں اور ان کی عوام کے درمیان ایک گہری خلیج کا سبب بنی ہے۔

امریکہ میں، جو صہیونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہے، غزہ کی جنگ نے عوامی رائے میں نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے۔ پیو انسٹیٹیوٹ کی اپریل 2025 کی رپورٹ کے مطابق، 53 فیصد امریکی اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، یہ شرح مارچ 2022 کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح انتہائی منفی رائے رکھنے والوں کی تعداد 10 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد ہو گئی ہے۔ یہ تبدیلی خاص طور پر ڈیموکریٹس میں (69 فیصد) نمایاں ہے، جو امریکہ کی نوجوان نسل کے صہیونی جرائم کے بارے میں بیدار ہونے کی علامت ہے۔

نتن یاہو، دنیا کا سب سے منفور فرد:
بنیامین نتن یاہو حقیقتاً دنیا بھر کی عوام اور حتیٰ کہ بہت سے حکمرانوں کے نزدیک بھی سب سے زیادہ نفرت انگیز سیاسی شخصیات میں شامل ہو چکا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نتن یاہو کو بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا اور کئی ممالک کے نمائندوں نے احتجاجاً اجلاس چھوڑ دیا۔ اسی دوران آسٹریلیا، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی سمت اقدامات کیے، جو نتن یاہو کی حکومت پر عالمی دباؤ میں اضافے کی واضح علامت ہے۔

اسی تناظر میں ABC نیوز نے غزہ میں بچوں کے قتل اور بھوک کی تصاویر کے پھیلاؤ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ان مناظر نے عالمی رائے عامہ میں نتن یاہو کو اس سانحے کا براہِ راست ذمہ دار بنا دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ مغربی مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ محتاط انداز اپنا کر اس عالمی نفرت کی شدت کم دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم رائٹرز، بی بی سی، ایسوسی ایٹڈ پریس اور ABC نیوز جیسے میڈیا اداروں کی رپورٹس اور تجزیے صہیونی رژیم اور خود نتن یاہو کی گہری عالمی تنہائی کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔

آج مغرب میں جو کچھ طلبہ تحریکوں، سماجی سرگرمیوں، ثقافتی ردعمل اور حتیٰ کہ کھیلوں کے میدانوں میں نظر آ رہا ہے، وہ کوئی وقتی یا جذباتی ردعمل نہیں بلکہ عالمی رائے عامہ میں ایک گہرے اور بنیادی تغیر کی علامت ہے۔ یہ تبدیلی صہیونی رژیم اور اس کے سب سے بڑے حامی امریکہ کی اخلاقی حیثیت اور نرم طاقت کو شدید طور پر کمزور کر چکی ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو عالمی طاقت کے نرم توازن میں، اشغال گری کے حامی محاذ کے خلاف ایک تاریخی تنہائی جنم لے سکتی ہے، ایسی تنہائی جو اس بار حکومتوں نہیں بلکہ خود عوام کے دلوں سے ابھرے گی۔
 
 
خصوصی رپورٹ: امیر حمزہ نژاد
Read 3 times