ایپسٹین فائلز کے معمے سے آپ کیا سمجھے؟ Featured

Rate this item
(0 votes)
ایپسٹین فائلز کے معمے سے آپ کیا سمجھے؟


 ایپسٹین فائلز کو ہلکا نہ لیجئے۔ امریکی قانون سازوں نے ایک سزا یافتہ مجرم جیفری ایپسٹین کے اثاثوں سے حاصل کردہ بیس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات جاری کی ہیں، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان، ٹرمپ کے سابق مشیر سٹیو بینن، سابق شہزادہ اینڈریو ماؤنٹبیٹن ونڈسر اور دیگر اہم شخصیات کے نام شامل ہیں۔ اگرچہ ایپسٹین اب موجود نہیں، یہ دستاویزات اس کے وسیع اور پیچیدہ نیٹ ورک کی واضح تصویر پیش کرتی ہیں اور عالمی سطح پر گہری توجہ اور مباحثے کا سبب بنی ہیں۔ یہ فائلز نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں کے ہاں طاقت، دولت اور خاموشی کے گٹھ جوڑ کا دستاویزی ثبوت ہیں۔ یہ وہ عدالتی ریکارڈ ہیں، جو بدنام زمانہ جیفری ایپسٹین کے نام سے وابستہ ہوئے اور اسی نسبت سے ایپسٹین فائلز کہلائے۔ نام ایک فرد کا ہے، مگر مفہوم ایک پورے نظام پر محیط ہے۔ ان فائلز میں فرد کی لغزش بھی ہے اور اداروں کی کمزوری بھی۔

یہ معاملہ دو ہزار کی دہائی کے آغاز میں سامنے آیا اور سن 2019ء میں عالمی توجہ کا مرکز بنا۔ جیفری ایپسٹین کی گرفتاری، موت اور پھر دستاویزات کی اشاعت نے اس قصے کو دبنے نہ دیا۔ عدالتوں میں کھلنے والی فائلز نے بتدریج وہ روابط آشکار کیے، جو برسوں پردے میں رہے۔ یوں ایپسٹین فائلز ماضی کا واقعہ نہیں رہیں بلکہ حال کی بحث بن گئیں۔ یاد رہے کہ قانون کی نظر میں یہ دستاویزات شہادت ہیں اور شہادت فیصلہ نہیں ہوتی۔ ناموں کا ظاہر ہونا الزام نہیں کہلاتا اور تعلق کا ذکر جرم نہیں بنتا۔ اس کے باوجود طاقتوروں کے باہمی تعلقات میں عام آدمی کیلئے چھپے خطرات اب سب کے سامنے آگئے ہیں۔ اگر اس وقت ان کا احتساب نہیں ہوگا تو پھر کبھی نہیں ہوگا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا ذکر بھی اسی دائرے میں آتا ہے۔ موصوف کا نام ایپسٹین کے سماجی تعلق داروں کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ الگ زاویہ ہے کہ یہ تعلق حقیقت میں اشرافی میل جول تک محدود رہا یا اس سے بھی آگے کا تھا۔ البتہ ابھی تک کسی عدالت نے اسے مجرمانہ رابطہ قرار نہیں دیا۔ اس کے باوجود سیاست دانوں  کے ایسے سماجی تعلقات عوام کے لئے کیا پیغام رکھتے ہیں، وہ اب عوام ہی بتائیں گے۔ البتہ قابل ذکر ہے کہ میڈیا نے اس فرق کو پوری طرح برقرار نہیں رکھا۔ خبر نے قلم سے رفتار پائی اور مفہوم سکرین سے پیچھے رہ گیا۔ پبلک کے سامنے سرخی نے فیصلہ سنایا اور وضاحت حاشیے میں چلی گئی۔ یہی قلم کا امتحان ہوتا ہے، ایسی ہی صورتحال میں صحافت آزمائش میں پڑتی ہے اور سچ دباؤ میں آتا ہے۔

بلاشبہ اخلاقی سطح پر ایپسٹین فائلز ایک نمایاں دھبہ ہیں، امریکی سوسائٹی کے چہرے پر۔ امریکہ میں اب یہ چیلنج سامنے آگیا ہے کہ امریکی معاشرے میں طاقتور کا احتساب کہاں تک ممکن ہے اور کمزور کی آواز کب سنی جائے گی۔؟ متاثرین کی موجودگی اس کہانی کی اصل بنیاد ہے اور ان کی خاموشی اس نظام، اداروں، معاشرے اور سیاست کی سب سے بڑی ناکامی۔ ایپسٹین فائلز بے ںس لوگوں کی مظلومیت کا انجام نہیں ہیں بلکہ اعلان ہیں۔ یہ اعلان انصاف کی تاخیر کا بھی ہے اور اصلاح کی ضرورت کا بھی۔ یہ فائلز عالمی انسانی برادری کو یاد دلا رہی ہیں کہ قانون کاغذ پر نہیں، کردار میں زندہ رہتا ہے۔ قانون کو کاغذوں سے کردار میں ڈھالنے کی ہر جگہ ضرورت ہے اور شاید سب سے زیادہ ضرورت امریکہ میں ہے۔

ان فائلز سے پتہ نہیں آپ کیا کچھ سمجھے ہونگے، تاہم ایک بات مجھے بھی سمجھ آئی ہے اور وہ ایک بات یہ ہے کہ "طاقتور جب جواب دہی سے آزاد ہو جائے تو قانون کمزور پڑ جاتا ہے اور انصاف محض ایک لفظ بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔۔ اور ہاں یہ بھی انہی فائلز سے ہی سمجھ لیجئے کہ مضبوط ادارے قانون کے آگے طاقتور کو قانونی طور پر  جھکاتے ہیں، جبکہ کمزور ادارے طاقتور کے آگے قانون سمیت جھک جاتے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

Read 5 times