تسنیم نیوز کیساتھ محمد مدثر ٹیپو کا انٹرویو:
تہران میں پاکستان کے سفیر نے بارہ روزہ مسلط کردہ جنگ سمیت مختلف چیلنجز کے مقابلے میں ایران کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک موجودہ صلاحیتوں سے زیادہ بہتر استفادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ خبر رساں ادارے تسنیم کے بین الاقوامی گروپ کے مطابق ایران اور پاکستان کے درمیان گزشتہ برسوں میں بالخصوص حالیہ مہینوں کے دوران قریبی اور بتدریج مضبوط ہوتے تعلقات قائم ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ سیاسی، سکیورٹی اور سفارتی حکام مسلسل رابطے میں رہے ہیں اور یہ تعلقات آگے بڑھنے کے عمل میں ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کی گئی جارحیت کی پاکستان کی واضح مذمت اور ایران کی حمایت کے بعد، دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب پاکستان کو 2025ء میں بھارت کے ساتھ چار روزہ جنگ کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے تناظر میں افغانستان کے ساتھ بھی سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔ ان تمام پیش رفتوں میں ایران نے ایک علاقائی ثالث کے طور پر مسائل کے حل میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی صلاحیتوں اور پاکستان کے مشرقی و شمالی ہمسایوں کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے، تسنیم نیوز نے تہران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو سے گفتگو کی ہے۔ اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
تسنیم: اس وقت ہم تہران میں پاکستان کے سفارت خانے میں موجود ہیں اور جمہوریہ اسلامی پاکستان کے سفیر جناب محمد مدثر ٹیپو کے ساتھ ایک انٹرویو کے لیے حاضر ہیں۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں اپنا وقت دیا۔
محمد مدثر: میں بھی آپ کا شکر گزار ہوں۔ آپ کی یہاں تشریف آوری ہمارے لیے باعثِ اعزاز ہے۔ ایران اور پاکستان کی بندرگاہوں کے درمیان مسابقت نہیں، بلکہ تعاون کا معاملہ ہے۔
تسنیم: جنابِ سفیر، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم موجودہ صلاحیتوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ تاہم شمال-جنوب اور مشرق-مغرب راہداریوں کے تناظر میں تعاون بڑھانے کے مواقع موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گوادر بندرگاہ کو ایران کی بندرگاہوں سے جوڑا جا سکتا ہے؟ اور کیا گوادر اور چابہار کے درمیان مبینہ مسابقت کو باہمی تکمیل اور تعاون میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔؟
محمد مدثر: گفتگو کے آغاز میں، میں شبِ یلدا کے موقع پر پوری ایرانی قوم کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ایران کے لیے ایک تہذیبی لمحہ ہے، جس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں اور جو ایمان، محبت اور مہربانی کی تجدید کی علامت ہے۔ کل پاکستان کے معزز صدر نے ایران کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے ایرانی عوام کے نام اسی مناسبت سے پیغام بھیجا، جو ہمارے باہمی تعلقات کی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ میں بھی اسی پیغام کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت دوطرفہ تجارت کا حجم تقریباً 3.1 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور جیسا کہ پاکستان کے وزیراعظم اور ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اتفاق کیا ہے، اسے 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں، اگرچہ اس میں کچھ وقت لگے گا، کیونکہ تجارت لاجسٹکس، سپلائی چین، ضابطہ جاتی اور ادارہ جاتی ڈھانچوں سے جڑی ہوتی ہے، لیکن سیاسی عزم اس حوالے سے بہت مضبوط ہے۔ راہداریوں کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے۔ علاقائی روابط میں ایران کا کردار نہایت کلیدی ہے۔ ہم ایران-اسلام آباد-ترکیہ ریلوے نیٹ ورک کو دوبارہ فعال کرنے جا رہے ہیں اور اس سے بڑے پیمانے پر ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ اسی طرح علاقائی رابطوں کے تناظر میں ہم اس وقت ایران کے ساتھ چابہار اور گوادر کے درمیان تعاون پر مشاورت کر رہے ہیں۔ میری نظر میں یہاں مسابقت کا نہیں بلکہ تعاون کا معاملہ ہے۔ دونوں ممالک کے اپنے اپنے فوائد اور صلاحیتیں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری عوام، صنعتیں، حکومتیں اور ضابطہ جاتی ادارے مل کر کام کریں، تاکہ سمندری، ریلوے اور زمینی روابط کو فروغ دیا جا سکے۔
بیرونی دباؤ کے باوجود ایران-پاکستان معاشی تعاون میں پیشرفت:
تسنیم: ایران اور پاکستان کے معاشی تعاون میں بعض بیرونی طاقتوں کے دباؤ اور اثراندازی کی کوششیں دیکھی گئی ہیں۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن اسکی واضح مثال ہے۔ اسکے علاوہ بارٹر ٹریڈ اور آزاد تجارتی معاہدے (FTA) سے متعلق پیشرفت کی خبریں بھی ہیں۔ اصل رکاوٹیں کیا ہیں اور کیا دونوں ممالک مشترکہ اقدامات کے ذریعے ان بیرونی دباؤ کو کم کرسکتے ہیں۔؟
محمد مدثر: پاکستان اپنی خارجہ، سلامتی اور معاشی پالیسیوں کے فیصلے مکمل خودمختاری کے ساتھ کرتا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ تعاون رکا ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ صرف پچھلے دو برسوں میں سیاسی اور سفارتی روابط غیر معمولی حد تک مضبوط اور ہمہ گیر رہے ہیں۔ دنیا ایک پیچیدہ اور باہم جڑی ہوئی جگہ ہے، جہاں ہر ملک کو اپنے اپنے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، لیکن ایران اور پاکستان کے تعلقات واقعی منفرد ہیں۔ ہمارے پاس باقاعدہ فورمز ہیں، جن کے ذریعے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان-ایران تجارتی فورم منعقد ہوا، جس میں سیکڑوں کمپنیوں نے شرکت کی، جو اپنی نوعیت کا پہلا بڑا فورم تھا۔ ایران-پاکستان آزاد تجارتی معاہدہ جلد طے پا جائے گا۔ آج آپ کی آمد سے پہلے میں ایک بڑے ایرانی تاجر سے ملا تھا۔ حالیہ مہینوں میں کاروباری دلچسپی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں تک آزاد تجارتی معاہدے کا تعلق ہے، اس پر کافی حد تک اتفاق ہوچکا ہے اور اب صرف مناسب وقت کا انتظار ہے۔
تسنیم: یہ مناسب وقت کب آسکتا ہے؟ کیا قریب ہے یا دور۔؟
محمد مدثر: بہت قریب ہے۔ میں درست تاریخ تو نہیں بتا سکتا، لیکن ذاتی رائے میں تقریباً تین ماہ کے اندر یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کے لیے ایک بہت بڑا قدم ہوگا۔ اس سے پہلے ہم نے بارٹر ٹریڈ کے لیے بھی ضابطہ جاتی فریم ورک طے کر لیا ہے، جس کے تحت پاکستانی تاجر ایران کے ساتھ اشیاء کے تبادلے کی بنیاد پر تجارت کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں پاکستان اور ایران دونوں طرف سے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہو رہی ہیں اور ہم ایرانی فریق کے ساتھ مل کر اس نظام کو عملی شکل دینے پر کام کر رہے ہیں۔ دیگر شعبوں میں بھی تعاون جاری ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان کے وزیر مواصلات نے تہران کا دورہ کیا اور ایران کی وزیرِ راہ و شہری ترقی سے مفید ملاقات کی۔ ہم نے ایک جامع روڈ میپ تیار کیا ہے، جس پر اب سنجیدگی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ دس برسوں میں نمایاں ترقی دیکھنے کو ملے گی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے، جو میرے نزدیک ایک شاندار موقع ہے۔ اگرچہ اس خطے میں چیلنجز موجود رہیں گے، لیکن میں ہمیشہ مواقع پر توجہ دیتا ہوں۔ دونوں ممالک کی تجارتی برادریاں پہلے ہی قریبی روابط قائم کرچکی ہیں۔ چیمبرز آف کامرس، تجارتی فورمز اور کاروباری کونسلیں باقاعدگی سے ملاقاتیں کر رہی ہیں، تاکہ رکاوٹوں کو کم کیا جا سکے اور تعاون کو مزید وسعت دی جا سکے۔
تسنیم: آپ نے دونوں ممالک کے درمیان طویل مشترکہ سرحد کا ذکر کیا، جو تعاون کا ایک موقع بھی ہوسکتی ہے، لیکن بعض اوقات یہ چیلنج بھی بن جاتی ہے، مثلاً سرحدی سلامتی اور مشترکہ سرحدی علاقوں میں دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیاں۔ سفارتی مذمت کے علاوہ، ان مسائل سے نمٹنے کیلئے کون سے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں جو دونوں قوموں کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔؟
محمد مدثر: میرا خیال ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں حکومتیں ان چیلنجز کی نوعیت کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ خطہ ایسے حالات سے متاثر ہے، جو بیرونی عوامل کے زیر اثر رہے ہیں اور کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ یہی عوامل علاقائی پیچیدگیوں اور زمینی حقائق کو جنم دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں وسیع تر اسٹریٹجک چیلنجز کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون بہت اچھا رہا ہے، اعتماد کی ایک مضبوط فضا قائم ہوئی ہے اور ہمارے ادارے باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ آپ خود ان کوششوں کے ٹھوس نتائج دیکھ چکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ مزید بہتر ہم آہنگی پیدا ہوگی اور ان مسائل سے نمٹنے کے مؤثر طریقے سامنے آئیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان رابطے کے چینلز بدستور موجود ہیں:
تسنیم: آئیے ایک اہم علاقائی مسئلے یعنی افغانستان پر بات کرتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں، توقعات کے برخلاف، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ اور جھڑپیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد حالات مختلف ہوں گے۔ کیا افغانستان یا کابل کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ ان حالیہ کشیدگیوں کی بنیادی وجہ کیا ہے۔؟
محمد مدثر: سب سے پہلے میں ایک بنیادی اصول واضح کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان خطے میں امن، ترقی اور سلامتی کا خواہاں ہے۔ یہ علاقہ ایک شاندار تاریخ اور بے پناہ معاشی مواقع کا حامل ہے، اس لیے عوام کو قریب لانا انتہائی ضروری ہے۔ ہماری سب سے بڑی اور بنیادی تشویش ہمیشہ دہشت گردی رہی ہے اور اس کے خلاف مؤثر اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت۔ گزشتہ سال پاکستان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا، اس لیے یہ تشویش بالکل جائز اور حقیقی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے نائب وزیراعظم نے تین مرتبہ کابل کا دورہ کیا، وزیر داخلہ بھی وہاں گئے اور مختلف سطحوں پر وسیع مذاکرات کیے گئے، تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ رابطے کے تمام چینلز اب بھی کھلے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان پاکستان کے جائز تحفظات کو سنجیدگی سے لے گا، تاکہ دونوں ممالک مل کر امن اور ترقی کے لیے کام کرسکیں۔
علاقائی امن کیلئے ایران کی کوششیں مخلصانہ اور قابلِ قدر ہیں:
تسنیم: ایران اور پاکستان دونوں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں اور انکی سلامتی بڑی حد تک افغانستان کے استحکام سے جڑی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن کے قیام میں ایران کے کردار کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ نیز علاقائی امن کیلئے مختلف اقدامات، جیسے استنبول اجلاس اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کا فریم ورک، آپکے نزدیک کس حد تک مؤثر ہیں۔؟
محمد مدثر: جی ہاں، ہم واقعی ایران کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ ایران مغربی ایشیا میں ایک نہایت اہم ملک ہے اور اس کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے، جیسے پاکستان کی بھی ایران کے ساتھ ایک طویل سرحد ہے۔ تینوں ممالک کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ امن، سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ ایران نے ثالثی کی پیشکش کی، جس کا ہم نے خیرمقدم کیا۔ گزشتہ ہفتے افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور روس کے خصوصی نمائندوں کا اجلاس بھی منعقد ہوا، جو نہایت تعمیری تھا۔ ایران نے اس عمل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ حتی بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جنگ کے دوران بھی ایران نے ثالثی کی پیشکش کی، جسے پاکستان نے قبول کیا، اگرچہ بھارت نے رد کر دیا۔ یہ بات خطے میں امن کے لیے ایران کی سنجیدہ فکر کو ظاہر کرتی ہے۔
تسنیم: موجودہ حالات میں آپ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا پاکستان کے نزدیک تعلقات کی بحالی کیلئے کوئی پیشگی شرط موجود ہے۔؟
محمد مدثر: میرے خیال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے تحفظات کو دور کیا جائے، یہ نہایت ضروری ہے۔
تسنیم: یہ تحفظات کیا ہیں۔؟
محمد مدثر: بنیادی طور پر افغانستان کی سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی، یہی سب سے اہم مسئلہ ہے۔
تسنیم: آپ ان تعلقات کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ مسئلہ کسی مخصوص مدت میں حل ہوسکتا ہے۔؟
محمد مدثر: ہم مذاکرات کر رہے ہیں اور دیکھنا ہوگا کہ زمینی صورتحال کس سمت جاتی ہے۔
تسنیم: ایک اور اہم علاقائی مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ہے۔ کیا دونوں ممالک کے درمیان سرکاری یا غیر سرکاری، اعلانیہ یا خفیہ رابطے موجود ہیں، تاکہ حالات کو قابو میں رکھا جا سکے۔؟
محمد مدثر: پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ تصادم خطے میں عدم استحکام کا ایک بڑا سبب ہے، اس لیے اسے کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش ضروری ہے۔ پاکستان ہر اس اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے، جو امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دے۔
تسنیم: ایران کے پاکستان اور بھارت دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایران اس معاملے میں مؤثر ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔؟
محمد مدثر: بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ کے دوران ایران نے ثالثی کی پیشکش کی، جسے پاکستان نے قبول کیا۔ ایران خطے میں امن و استحکام کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہا ہے اور ہم ان کوششوں کو سراہتے ہیں۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہے
تسنیم: پاکستان کے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور امریکہ کیساتھ بھی، خاص طور پر ٹرمپ کے دور میں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے باوجود پاکستان توازن کیسے قائم رکھتا ہے۔؟
محمد مدثر: پاکستان اپنی خارجہ پالیسی اور اسٹریٹجک فیصلوں میں مکمل طور پر خودمختار ہے۔ ہم عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے قائم رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور ایران کے ساتھ بھی، جو ہمیں خطے میں امن کے فروغ کے لیے ایک منفرد مقام فراہم کرتے ہیں۔
تسنیم: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن جیسے منصوبے بیرونی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں۔؟
محمد مدثر: نہیں، میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ پاکستان مکمل طور پر خودمختار ہے اور اس منصوبے کے مستقبل پر بات چیت جاری ہے۔
تسنیم: فلسطین اور غزہ کا مسئلہ بھی ایک بڑا علاقائی چیلنج ہے۔ پاکستان کا مؤقف کیا ہے۔؟
محمد مدثر: پاکستان ہر اس تجویز کی حمایت کرتا ہے، جو مشرقِ وسطیٰ اور غزہ میں امن و استحکام لائے اور جنگ کا خاتمہ کرے۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے۔
تسنیم: غزہ اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے پاکستان کا کیا مؤقف ہے۔؟
محمد مدثر: جب بھی بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کا منشور یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، پاکستان اپنا مؤقف واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ ایران پر حملے کے وقت بھی پاکستان نے سب سے پہلے ایران کے حقِ دفاعِ خود کو تسلیم کیا۔
تسنیم: ایران کے خلاف حالیہ جنگ سے کیا سبق حاصل ہوا۔؟
محمد مدثر: سفارت کاری اب بھی مسائل کا بہترین حل ہے۔ جنگیں انتہائی مہنگی اور تباہ کن ہوتی ہیں۔ ہمیں ایک ایسے خطے اور دنیا کی ضرورت ہے، جو امن سے بھرپور ہو۔
تسنیم: یہ پیغام کس کے لیے ہے۔؟
محمد مدثر: سب کے لیے۔
تسنیم: کیونکہ ایران سفارتکاری کے راستے پر تھا، مگر اچانک اس پر حملہ ہوا۔؟
محمد مدثر: اسی لیے میں اصولوں کی بات کرتا ہوں، سفارت کاری ہی اصل راستہ ہے، جنگ ہر لحاظ سے تباہ کن ہوتی ہے۔
تسنیم: کیا آپ بارہ روزہ جنگ کے دوران ایران میں موجود تھے۔؟
محمد مدثر: حقیقت یہ ہے کہ میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان گیا ہوا تھا۔ اسی رات میری پرواز تھی کہ جنگ شروع ہوگئی، لیکن جیسے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا، میں فوراً زمینی راستے سے ایران واپس آگیا۔ ارادہ، عوام کی صلاحیت اور قیادت کا معیار، ایران کی پہچان ہے۔
تسنیم: آپ نے اس صورتِحال کو کیسے دیکھا، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپکے ساتھی تہران میں موجود تھے۔؟
محمد مدثر: میرا خیال ہے ایران یقیناً ایک نہایت مضبوط اور مزاحم ملک ہے، ایران کی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے اور اس نے اپنی تاریخ میں بے شمار اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ صاف بات کروں تو اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھیں، تو میں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی ملک اس قدر مضبوط، اس قدر متحرک اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کے لیے اس قدر پُرعزم ہوسکتا ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ملک میں زندگی معمول کے مطابق جاری تھی اور کہیں یہ احساس نہیں تھا کہ نظام یا معاشرتی زندگی میں کوئی بڑی رکاوٹ آگئی ہو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔
12 روزہ جنگ ایک طرح سے بڑی آفت جیسی تھی، لیکن یہی چیز ایران کی شناخت ہے: ایران کا عزم، مشکلات کے مقابلے میں عوام کی صلاحیت اور قیادت کا معیار۔
تسنیم: جب ہم اس سال کے اختتام کے قریب پہنچ رہے ہیں، تو تہران میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے آپکے نزدیک ایرانی معاشرے اور عام لوگوں، یعنی صرف سیاسی سطح پر نہیں، کا عمومی احساس کیا ہے۔؟ خاص طور پر اس لیے کہ جنگ ہوچکی تھی اور بیرونِ ملک کچھ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ حالات ابھی بھی بہت کشیدہ ہیں۔ کیا لوگوں میں احساسِ تحفظ ہے یا عدم تحفظ۔؟ آپکا مجموعی تاثر کیا ہے۔؟
محمد مدثر: میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ایران چھ ہزار سالہ تاریخ رکھتا ہے اور اس نے بڑے بڑے معرکے، شدید تصادمات اور بے شمار چیلنجز برداشت کیے ہیں۔ یہی چیزیں ایران کی فطرت اور شناخت بناتی ہیں۔ ایران نے اپنی تاریخ، شناخت، ثقافت، تہذیب اور زبان کو محفوظ رکھا اور یہ ایرانی عوام، ایرانی قوم اور ایرانی سماج کے بلند معیار کی علامت ہے۔ اسی لیے میرا اس قوم پر بہت مضبوط یقین ہے۔ میرے لیے یہ ایک منفرد اعزاز ہے کہ میں ایسے وقت میں پاکستان کا سفیر بن کر ایران میں موجود ہوں، جب عالمی ماحول بہت پیچیدہ ہے۔ میں نے ایرانی قیادت، عام ایرانی شہریوں اور ایرانی اداروں کے ساتھ تعامل کیا ہے اور دیکھا ہے کہ وہ کس قدر دور اندیش ہیں اور اپنے اصولوں پر مضبوطی سے قائم ہیں۔
ایران کی ہمسایہ ممالک سے تعامل کی پالیسی کامیاب رہی:
تسنیم: خطے کے بعض ممالک پاکستان نہیں بلکہ دیگر میں پہلے یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ ایران خطے کیلئے خطرہ ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں اور خاص طور پر حالیہ مہینوں میں، اسرائیل کے اقدامات اور فلسطینیوں، لبنانیوں، ایرانیوں، قطریوں اور دیگر کیخلاف اسکے جرائم کے بعد، یہ ادراک آہستہ آہستہ بدل رہا ہے کہ حقیقی خطرہ کہیں اور سے ہے۔ اس سے ایران اور عرب ممالک، نیز پاکستان جیسے غیر عرب ممالک کے درمیان تعاون بڑھ سکتا ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اور خطے میں امن و استحکام کیلئے ایران پاکستان تعاون میں کیا امکانات ہیں۔؟
محمد مدثر: اگر آپ گزشتہ دو سال میں ایران کی خارجہ پالیسی دیکھیں تو میرے خیال میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعامل کی پالیسی کے فائدے اور ثمرات واضح طور پر سامنے آگئے ہیں۔ ایران نے بہت فعال انداز میں اپنے ہمسایوں، مشرقِ وسطیٰ کے ممالک، پاکستان اور دیگر اہم ممالک کے ساتھ تعلقات اور رابطے بڑھائے ہیں اور یہ ایرانی قیادت کی گہری بصیرت کی علامت ہے۔ جہاں تک پاکستان اور ایران کے تعاون کی بات ہے، آپ نے یہ تعاون چار روزہ جنگ میں بھی دیکھا اور بارہ روزہ جنگ میں بھی اور مجھے پورا یقین ہے کہ مستقبل میں یہ تعاون مزید مضبوط اور گہرا ہوگا۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان اور ایران کے عوام اپنے ممالک کی عظیم صلاحیتوں کو زیادہ بہتر سمجھیں اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ میں اس موقع پر دونوں ممالک کے وسیع عوامی حلقوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سیاحت بہت اہم ہے، فنون، ادب اور ثقافت بہت اہم ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے، جس پر ہمیں توجہ دینی چاہیئے۔ ہمیں کلیشوں پر ہرگز یقین نہیں کرنا چاہیئے، کلیشے ایک منظم اور مقصدی کوشش کے ذریعے بنائے جاتے ہیں۔ ایران کو اس کی حقیقی صلاحیتوں اور اس کی قوت و مزاحمت کی بنیاد پر دیکھنا چاہیئے، نہ کہ ان میڈیا بیانیوں کے ذریعے جو وسیع اور منظم انداز میں مسلط کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے پاس بھی بے پناہ صلاحیتیں اور امکانات ہیں اور ان دونوں جنگوں نے واضح کر دیا کہ ہمارا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔
تسنیم: آپ کئی برس سے ایران میں سفیر کی حیثیت سے موجود ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے آپ کن بنیادی عناصر کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟ آپ نے سیاحت کی بات کی اور ہم اقتصادی روابط پر بھی گفتگو کرچکے ہیں۔ آپکے نزدیک وہ سب سے اہم امور کون سے ہیں، جن پر دونوں ممالک کے اہلِ فکر اور عام لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے۔؟
محمد مدثر: میرے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہے کہ معاشروں کے درمیان باہمی سمجھ بوجھ بڑھے، ثقافت، تاریخ اور ہماری مشترکہ جدوجہد کو بہتر طور پر سمجھا جائے۔ جامعات کے درمیان تعاون، میڈیا کے درمیان رابطہ، اور شہروں کی سطح پر زیادہ تعامل اور یقیناً باہمی اعتماد بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم ایک انتہائی پیچیدہ عالمی ماحول میں رہتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم خطرات کو واضح طور پر پہچانیں اور آنے والی نسلوں کو تیار کریں، تاکہ وہ اس تعلق کی نوعیت کو سمجھ سکیں، جو دونوں ممالک کو مستقبل میں اختیار کرنی چاہیئے۔ لہٰذا اعتماد، زیادہ تعامل، عوام سے عوام کے رابطے کو گہرا کرنا اور اس بات پر مسلسل توجہ رکھنا کہ بیرونی عناصر دہشت گردی کے ذریعے اس تعلق کو متاثر نہ کرسکیں، یہ سب نہایت ضروری ہیں۔
تسنیم: جنابِ سفیر، آپکا وقت دینے اور ہمارے ساتھ رہنے کا بہت شکریہ۔
محمد مدثر: شکریہ۔ بہت شکریہ، یہ میرے لیے بڑا اعزاز تھا۔
قیادت کا معیار، ایران کی پہچان ہے Featured
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
