کربلا۔۔۔۔ سیرت ِرسول اکرمﷺ کا تسلسل

Rate this item
(0 votes)
کربلا۔۔۔۔ سیرت ِرسول اکرمﷺ کا تسلسل
ہزاروں یا لاکھوں سال پر محیط اور معلوم انسانی تاریخ میں انسانوں کی رہنمائی، ہدایت اور بھلائی کے لیے انسانوں میں سے ہی ایسی شخصیات انسانی معاشروں میں تشریف لائیں، جنہوں نے اپنے علم، اپنی صلاحیت، اپنی قائدانہ خصوصیات اور اپنی قربانیوں کے ذریعے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ یوں تو انسانی مزاج میں شامل ہے کہ وہ اپنے اندر امتیازی اور خاص حیثیت و مقام کے حامل انسانوں کو تادیر یاد رکھتے ہیں، لیکن ان یاد رکھے جانے والوں میں سب سے زیادہ وقت ان لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے، جو قربانی کے ذریعے اپنے آپ کو زندہ رہنے کے اسباب مہیا کر جاتے ہیں۔ مذہبی تاریخ میں انبیاء کی قربانیاں سرفہرست شمار ہوتی ہیں، جس کا نکتہ انجام خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیات طیبہ کے دوران دی جانے والی قربانیاں ہیں، جو مکہ کی گلیوں سے کفار کے مظالم کی شکل میں شروع ہوئیں، پھر شعب ابی طالب کی صورت سماجی بائیکاٹ سے ہوتی ہوئی ہجرت جیسے کرب ناک مرحلے تک پہنچیں اور بالاخر مدینہ میں رہ کر عالم ِغربت اور عالم جنگ کی مشکلات پر بظاہر تمام ہوئیں۔

اسلام کے اظہار، اسلام کی تاسیس، اسلام کی بنیاد، اسلام کی ترقی و توسیع اور تکمیل کے مراحل طے ہوئے۔ لیکن نبی اکرم ؐ کی وحی ترجمان زبان نے جب ”حسین ؑ منی وانا من الحسین ؑ“ فرما دیا تو اسلام کی بقاء، تحفظ اور دفاع کا مرحلہ باقی نظر آیا۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ یہ حدیث محض ایک نواسے کے ساتھ نانے کے تعلق کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس میں ایک ایسا بلند مفہوم موجود ہے، جس کے شواہد وقت کے ساتھ ملیں گے۔ اگرچہ اسلامی تاریخ میں حضور اکرم  ؐ کی رحلت کا بڑا سبب جنگ ِخیبر میں دیا جانے والا زہر بیان کیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ؐ کو اگر دنیا کی کوئی چیز حاصل نہیں ہوئی تو وہ جسمانی شہادت ہے۔ یہ ایک اختلافی نظریہ ہے، جس پر تاریخی کتب میں ابحاث موجود ہیں، لیکن مذکورہ بالا حدیث کی تفاسیر میں اس اختلافی نظریئے کا رد بھی کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر حسین ؑ کو نبی ؐ سے اور نبی ؐ کو حسین ؑ سے تسلیم کیا جائے تو شہادت ِحسین ؑ محض حسین ؑ کی شہادت نہیں بلکہ نبی پاک ؐ کی شہادت متصور ہوگی، کیونکہ اس شہادت کا پس منظر دفاع اسلام، بقائے اسلام اور تحفظ ِ دین ہے۔

نبی اکرم ؐ کا امام حسین ؑ سے والہانہ اور منفرد پیار، نبی اکرم ؐ کی امام حسین ؑ کے بارے میں مختلف وصیتیں، نصیحتیں اور احادیث، نبی اکرم ؐ کے سامنے جبرئیل کا آنا اور امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر بچپن کے زمانے میں ہی دے دینا، نبی اکرم ؐ کا اس خبر پر رنجیدہ و چشم تر ہونا، نبی اکرم ؐ کا اپنے اہل بیت ؑ، ازواج مطرات ؓ اور اصحاب کرام ؓ کو اس خبر سے آگاہ کرنا، نبی اکرم ؐ کا حضرت ام سلمہ ؓ کو مٹی کی ایک شیشی دینا اور مستقبل کا احوال سنانا اور آخر میں دس محرم اکسٹھ ہجری کی عصر کو اس شیشی میں موجود مٹی کا خون بن جانا، نبی اکرم ؐ کا حضرت ام سلمہ ؓ کے خواب میں آکر پریشان حالی اور خاک آلودہ حالت میں شہادت ِحسین ؑ کا پیغام دینا اور حاتف ِغیبی کی طرف سے سرزمین کربلا کے علاوہ بھی مختلف خطوں میں شہادت حسین ؑ پر صدائے افسوس بلند کرنا ایسے قطعی شواہد ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کا تسلسل مکہ و مدینہ سے پھوٹنے والی اسلامی تحریک سے تھا، جسے اگرچہ شہدائے بدر و احد و خندق و خیبر نے اپنے خون سے آبیار کیا تھا، لیکن اسلام کو قیامت تک باقی و محفوظ رکھنے کے لیے  ”ذبح عظیم“ کی شکل میں ایک بڑی اور لافانی قربانی کی ضرورت تھی، جسے امام حسین ؑ اور کے آل و اصحاب نے سرزمین ِکربلا میں شہید ہوکر پورا کیا۔

امام عالی مقام ؑ نے یزید کی تخت نشینی اور حکومتی پروگرام کے اعلانات کے بعد اپنا جو موقف اپنایا، اسے مدینہ کے گورنر سے لے کر یزید کے ساتھ رابطوں اور خط و کتابت کے ذریعے، مختلف اصحاب ِنبی ؐ اور تابعین کے ساتھ نشستوں اور مذاکرات کے ذریعے، مدینہ سے مکہ کے سفر کے دوران، مکہ میں قیام کے دوران سلطنت کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آئے وفود سے ملاقاتوں کے دوران، کوفیوں اور دیگر علاقوں کے لوگوں کے نام پیغامات کے ذریعے، مکہ سے کربلا کے سفر میں مختلف مقامات پر ٹھہراؤ اور پڑاؤ کے دوران، یکم محرم سے دس محرم تک یزیدی افواج کے سرکردہ کمانڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران اور اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے یزیدی فوج سے آخری خطبے کی شکل میں خطاب کے دوران بہت کھول کھول کر بیان کیا۔ جس کا مفہوم یہی تھا کہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے نہیں، اپنے خاندانی یا گروہی مفادات کے لیے نہیں، اپنے سیاسی عزائم کے لیے نہیں اور اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اسلامی احکام کی شکل بگاڑنے کے خلاف، شریعت کی شکل تبدیل کرنے کے خلاف، اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی خاطر، جاہ طلبی اور اقتدار پرستی کے خلاف، ملوکیت کے ذریعے لوگوں پر مسلط ہونے کے خلاف، دینی اقدار کی پامالی کے خلاف، امر بالمعروف کے فریضے اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کی ادائیگی کی خاطر اور انسانی حقوق کی فراہمی اور جابر و ظالم و فاسق و فاجر حکمرانوں کے خلاف علم ِجہاد بلند کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔

ان مقاصد کا بیان خود امام حسین ؑ کے خطبات اور اس کے بعد حضرت امام زین العابدین ؑ اور حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ان خطبات میں موجود ہے، جو ان دو شخصیات نے کربلا کے بعد کوفہ و شام کے درباروں و بازاروں سے لے کر مدینۃ الرسول ؐ میں پہنچنے تک جاری کئے۔ ان تمام تر خطبات اور موقف سے واضح ہو جاتا ہے کہ کربلا کی بنیاد ہی نبی اکرم ؐ نے اپنی حیات ِمبارکہ میں رکھ دی تھی۔ امت کو آگاہ فرما دیا تھا اور اسلام کی تاریخ میں اس عظیم واقعہ کا ذکر فرما دیا تھا، جبکہ شجر ِاسلام کی آبیاری میں اپنے نواسے، اپنے اہل ِبیت ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کے پاکیزہ خون کی شمولیت کی پیش گوئی بھی فرما دی۔ حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین ؑ کی صورت میں نتیجہ سامنے آیا۔ انا فتحنا لک فتحاً مبینا کی تفسیر سامنے آئی۔ وفدیناہ بذبح ِِ عظیم کا وعدہ پورا ہوا۔ تمہیدی سطور کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بات کو تکمیل کی جانب لے جائیں کہ صدیوں پر محیط شخصیات میں بعد از انبیاء امام حسین ؑ کو ممتاز و منفرد حیثیت حاصل ہوگئی۔ کربلا کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں دی جاسکی۔ حسین ؑ جیسی حکمت عملی کوئی مرتب نہ کرسکا۔ حسین ؑ جیسا لائحہ عمل کوئی نہیں دے سکا۔ حسین ؑ جیسی حریت کوئی اختیار نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسی استقامت کوئی نہیں دکھا سکا۔

حسین ؑ جیسا استقلال کوئی نہیں بتا سکا۔ حسین ؑ جیسا نظم و ضبط کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسا صبر و تحمل کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسا انفاق کوئی نہیں پیش کرسکا۔ حسین ؑ جیسی انسان دوستی کوئی نہیں نبھا سکا۔ حسین ؑ جیسی حق گوئی و حق بیانی کوئی نہیں کرسکا۔ حسین ؑ جیسی مظلومیت کسی کو حاصل نہیں ہوسکی۔ حسین ؑ جیسی عظمت و رفعت و منزلت پر کوئی فائز نہیں ہوسکا۔ حسین ؑ جیسی قربانی کوئی پیش نہیں کرسکا۔ چودہ صدیوں سے حسین ؑ وہ واحد شخصیت ہیں، جو صرف مسلمانوں کے لیے مثال نہیں۔ صرف عربوں اور عجمیوں کے لیے نمونہ نہیں۔ صرف اہل مذہب و تصوف کے لیے قابل ِتقلید نہیں بلکہ بلا تفریق مذہب و مسلک و فرقہ و نسل و قوم کائنات کے ہر انسان کے لیے نمونہ عمل ہیں، سراپا سیرت و رہنمائی ہیں۔ ہر آزاد فکر اور حریت پسند انسان کے قائد ہیں۔ ہر انسان دوست شخص کے لیڈر ہیں۔ ہر حق پرست کے رہبر ہیں۔ دنیا کا ہر انسان امام حسین ؑ کو اپنے لئے نمونہ قرار دے کر، حسین ؑ کی پیروی کرکے اور حسین ؑ کو اپنا مرشد و مولا و آقا و سید و سردار قرار دے فخر کرسکتا ہے۔ ہر زمانہ میرے حسین ؑ کا ہے۔ کربلا ”حسین ؑ منی و انا من الحسین ؑ“ کا عملی مصداق ہے۔ اسی لئے کہنا پڑتا ہے۔
یہ ختم ِقرب ہے لوگو ہمارا پیارا رسول ؐ
کسی سے کچھ بھی نہیں ہے مگر حسین ؑ سے ہے
 
 
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
Read 1990 times